اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
احادیث شریفہ میں آپ ﷺ کے حلیہ مبارک کے بارے میں بہت سی تفصیلات آئی ہیں۔ کیا ان احادیث شریفہ کو جمع کرنے کا ایک بڑا مقصد محدثین کرام کے نزدیک یہ بھی تھا کہ امت محض محبت کی غرض سے آپ ﷺ کا تذکرہ کیا کرے؟ احادیث شریفہ سے فقہی مسائل مستنبط ہوئے ہیں۔ حلیہ مبارک پر مشتمل احادیث کا براہ راست تعلق آپ ﷺ کی ذات سے ہے جبکہ باقی احادیث شریفہ کا تعلق آپ ﷺ کی تعلیمات کے ساتھ ہے۔ کیا دونوں قسم کی احادیث میں مکمل احتیاط اور حفاظت کی ضرورت ہے؟
جواب:
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے اور آپ ﷺ کی ذات مبارکہ سے محبت بھی ضروری ہیں۔ دونوں کام یکساں درجے کی اہمیت کے حامل ہیں، ایک کے بغیر دوسرا ادھورا ہے اور دوسرے کے بغیر پہلا نا مکمل ہے۔ آپ ﷺ کی ذات کی محبت کے بغیر صرف تعلیمات پر عمل کرنا کافی نہیں اسی طرح صرف آپ ﷺ کی ذات سے محبت کرنا مگر تعلیمات پر عمل نہ کرنا، یہ بھی نا کافی ہے۔
امتِ محمدیہ ﷺ کی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس امت نے آپ ﷺ سے متعلق کسی بات کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ اللہ پاک کی طرف سے اس امت میں ایسے لوگ پیدا کئے گئے جن کو ایسا ذوق دیا گیا کہ وہ آپ ﷺ کی ہر چیز کو بہت احتیاط سے محفوظ رکھتے تھے۔ اگرچہ بعض حضرات کو ایک رخ پہ لگایا بعض کو دوسرے رخ پر لیکن مجموعی حیثیت سے صحابہ کرام نے آپ ﷺ کی ہر چیز کی حفاظت فرمائی۔ حتیٰ کہ آپ ابتدائے آفرینش سے اب تک کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں، آپ کو کسی کے بال محفوظ نہیں ملیں گے لیکن آپ ﷺ کے موئے مبارک ابھی تک موجود ہیں۔ جن جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس آپ ﷺ کے موئے مبارک تھے انہوں نے ضائع نہیں ہونے دیئے۔
اللہ پاک نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے قلوب میں نبی اکرم ﷺ کی محبت اس درجہ راسخ کر دی تھی کہ وہ آپ ﷺ کی ایک ایک چیز کو محبت اور احتیاط کے ساتھ محفوظ رکھتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کی طرف سے عروۃ بن مسعود ثقفی بطور سفیر کے آئے تھے، اس موقع پر انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات کا مشاہدہ کیا اور صحابہ کرام کی اپنے نبی ﷺ سے محبت کے عجیب مناظر دیکھے۔ انہوں نے دیکھا کہ جب بھی آپ ﷺ اپنا لعابِ دہن زمین پر پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ ﷺ کسی بات کا حکم دیتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی فوری تعمیل کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ وضو فرماتے تو صحابہ کرام آپ ﷺ کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش فرماتے۔ جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی آوازوں کو پست کر لیتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ ﷺ کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ جب عروہ اپنی قوم کی طرف واپس گئے تو اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا: ”اے میری قوم! خدا کی قسم! میں بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں میں سفیر بن کر گیا ہوں، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: 2581)
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے پچھنے لگوائے اور جو خون نکلا وہ ایک صحابی کو دیا کہ جاؤ اس کو دفن کر دو، جب وہ صحابی واپس آئے تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ اس خون کا کیا کیا؟ عرض کی: وہ میں نے پی لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کے پیٹ میں میرے گوشت کا حصہ چلا جائے اس پہ جہنم حرام ہے۔
آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ شرط یہ ہے کہ صحیح معنوں میں آپ ﷺ سے محبت ہو۔ محض بناوٹی محبتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ میں بناوٹی محبت اس کو کہتا ہوں کہ جب بجلی اور لاؤڈ سپیکر ہو تب تو درود شریف پڑھا جائے اور جب بجلی چلی جائے سپیکر بھی نہ ہو اور مجلس بھی نہ ہو تب درود شریف بھی چلا جائے۔ یہ بناوٹی محبت ہے، اس محبت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بناوٹی محبت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ذات سے محبت کا دم تو خوب بھرا جائے مگر آپ ﷺ کی تعلیمات میں سے ایک پر بھی عمل نہ کیا جائے۔
سنتِ رسول اللہ ﷺ کے مقابلہ میں بدعت ہے۔ جو چیز دین نہ ہو اور اسے دین سمجھا جائے، اس کے کرنے پر ثواب سمجھا جائے تو وہ بدعت ہے۔ جب کوئی بدعت لی جاتی ہے تو اس کے مقابلہ میں کوئی سنت چھوڑی جاتی ہے۔ جو آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت کرے گا کیا وہ سنتوں کو چھوڑ کر بدعت کرے گا؟
لوگ جس لیڈر کے ساتھ محبت کرتے ہیں ان کی طرح حلیہ بناتے ہیں، جس ملک کے معاشرے اور لوگوں کے ساتھ محبت کرتے ہیں اپنا حلیہ اور پہناوا ان کی طرح بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ایک ریکٹر صاحب کو آئن سٹائن کے ساتھ بہت زیادہ لگاؤ تھا، انہوں نے اپنا حلیہ آئن سٹائن جیسا بنایا ہوا ہوتا تھا۔ لوگ جن کے ساتھ محبت کرتے ہیں ان کی ہر چیز کی نقل کرتے ہیں۔ اگر آپ اس معیار کو سامنے رکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ دونوں چیزیں (آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت اور آپ ﷺ کی سنتوں کو اپنانے کا جذبہ) آپ کو سرِ فہرست نظر آئیں گی۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو اپنے ساتھ شامل کر کے امت کے لئے اتباع کا نمونہ، معیار اور کسوٹی بنا دیا، فرمایا:
”مَا اَنَا عَلَیْهِ وَ اَصْحَابِیْ“ (سننِ ترمذی: 2641)
ترجمہ: ”جس پر میں اور میرے صحابہ چلیں“۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہم لوگوں کو صحابہ کے طریقہ پہ چلنا ہے۔ صحابہ کے طریقہ میں دونوں چیزیں جمع ہیں آپ ﷺ کی ذات سے محبت بھی ہے اور آپ ﷺ کی سنتوں کی پیروی بھی ہے۔
نبی ﷺ کی سنتوں اور تعلیمات پر چلنے کے لئے بذاتِ خود نبی کریم ﷺ کی ذات سے محبت مطلوب ہے۔ یہ دونوں چیزیں آپس میں لازم و ملزوم ہیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں، آپ ﷺ کی ذات سے محبت کیے بغیر آپ ﷺ کی تعلیمات پہ عمل نہیں ہو سکتا اور آپ ﷺ کی تعلیمات پہ عمل کیے بغیر آپ ﷺ کی محبت کا تقاضا پورا نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید میں اس مضمون پر با قاعدہ ایک آیت نازل ہوئی ہے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (آل عمران: 31)
ترجمہ: ” (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے“۔
اس آیت میں نبی ﷺ کی ذات سے محبت کی کسوٹی آپ ﷺ کی اتباع کو قرار دیا گیا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰی أَكُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِهٖ وَ وَلَدِهٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ“ (صحیح بخاری: 15)
ترجمہ: ”تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ”جب تک اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“۔
ان آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور آپﷺ کی سنتوں پہ چلنا اعمال کی حفاظت کا سبب ہے۔ وہی اعمال محفوظ ہیں جو سنت کے مطابق ہیں جبکہ وہ اعمال محفوظ نہیں ہیں جو سنت کے خلاف ہیں۔
جو لوگ آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت کا خیال نہیں رکھتے ان کا ایمان خطرے میں ہے، جبکہ وہ لوگ جو سنتوں کی پیروی نہیں کرتے ان کا ایمان اور اعمال بھی خطرے میں ہیں، لہٰذا ایمان، اعمال اور سلامتی کے ساتھ اللہ کے حضور پہنچنا، ان سب چیزوں کے لئے نبی کریم ﷺ کی ذات سے محبت بھی ضروری اور آپ ﷺ کی تعلیمات کو اپنانا بھی لازمی ہے۔
بعض لوگ نعت شریف کو اتنی اہمیت نہیں دیتے بلکہ جب کوئی نعت شریف پڑھی جاتی ہے تو ان کے ماتھے پہ بل پڑ جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں شاید یہ توحید کے خلاف ہے۔ اللہ معاف فرمائے۔ کیا صحابہ کرام میں توحید نہیں تھی؟ کیا انہوں نے نعتیں نہیں لکھیں، کیا انہوں نے نعتیں نہیں سنی؟ ان کے تو ہر قول میں نعت ہوتی تھی۔ ”فِدَاكَ اَبِیْ وَ اُمِّی یَا رَسُوْلَ اللہ“۔ یہ نعت نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ میں پشتو میں کہوں تو نعت ہو اور عربی میں کہوں کہ میرے ماں باپ آپ ﷺ پہ قربان تو وہ نعت نہیں ہے؟ نعت صرف نظم میں نہیں ہوتی بلکہ نثر میں بھی ہوتی ہے۔
ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں قرآن پاک پڑھ رہا تھا تو یہ آیت کریمہ آ گئی:
﴿لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ﴾ (الحشر: 41)
ترجمہ: ” اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم اسے دیکھتے کہ وہ اللہ کے رعب سے جھکا جا رہا ہے، اور پھٹا پڑتا ہے۔“
تو میرے دل پر وارد ہوا کہ یہ تو قرآن میں نبی ﷺ کی نعت ہے، میں حیران ہو گیا کہ آگے تو ساری صفات اللہ تعالیٰ کی آ رہی ہیں، یہ نعت کیسے ہوئی؟ دل میں فوراً جواب آیا کہ قرآن آپ ﷺ کے سینہ پر نازل ہوا ہے اور آپ ﷺ نے اس کو برداشت کر لیا جبکہ پہاڑ برداشت نہیں کر سکتا، اگر پہاڑ پہ نازل کیا جاتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ نبی ﷺ کی شان و عظمت اتنی ہے کہ آپ ﷺ کے قلب نے اس کلام کو برداشت کیا۔ اس لحاظ سے یہ نبی کریم ﷺ کی تعریف ہو رہی ہے آپ ﷺ کی عظمتِ شان بیان ہو رہی ہے اور اسی کو نعت کہتے ہیں۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
﴿یٰسٓۚ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍؕ﴾ (یس: 1-4)
ترجمہ: ” یس۔ حکمت بھرے قرآن کی قسم تم یقینًا پیغمبروں میں سے ہو۔ بالکل سیدھے راستے پر“۔
یہ بھی آپ ﷺ کی نعت شریف ہے۔ قرآن پاک میں جا بجا نعتِ نبوی موجود ہے۔
صحابہ کرام میں سے بڑے بڑے صحابہ نے نعتِ نبوی پر مشتمل اشعار کہے ہیں۔ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور کئی دوسرے صحابہ کرام کے نعتیہ اشعار سیرت کی کتابوں میں منقول ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم ﷺ کی ذات سے بھی بدرجۂ اتم محبت کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر بھی پورا عمل کرتے تھے۔ ذات کی محبت اور سنتوں کی محبت، دونوں کو جمع کرنا صحابہ کا طریقہ تھا۔ میں اکثر یہی عرض کرتا رہتا ہوں کہ تصوف کا بنیادی مقصد طریقِ صحابہ پر آنا ہے اور طریقِ صحابہ کا بنیادی مقصد اللہ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ لہذا اصل الاصول اللہ کی رضا کو حاصل کرنا ہے اور اس کا ذریعہ صحابہ کرام کے طریق پہ چلنا ہے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو ان شاء اللہ وہ ساری چیزیں جو صحابہ کرام کو ملی تھیں، ہمیں بھی مل جائیں گی اور اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان سب کاموں کی توفیق عطا فرمائیں گے جن کی توفیق صحابہ کو ملی تھی۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ