اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْن
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال:
آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایسی تربیت فرمائی کہ وہ دنیا کی طرف مائل نہیں ہوئے ان کو ہر وقت اپنی آخرت کی فکر ہوتی تھی۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام دنیا میں بھی کامیاب تھے۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ صحابہ کرام کا نام سن کر لرز جاتے تھے جبکہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہماری اکثر فکر دنیا ہی کی ہوتی ہے اس کے باوجود آج کل مسلمانوں کے دشمن ان سے خائف نہیں ہیں مسلمانوں کی اس اجتماعی کمزوری کو کس طرح دور کیا جا سکتا ہے تاکہ آج کل کے مسلمان اس شعبے میں بھی ”مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ“ (سنن الترمذی: 2641) کے مصداق بن سکیں۔
جواب:
اس کی اصل وجہ دنیا کی محبت ہے، دنیا کی محبت کے بارے میں کہا گیا ہے:
”حُبُّ الدُّنْيَا رَأسُ كُلِّ خَطِيْئَۃٍ“ (مشکوۃ المصابیح: 5213)
ترجمہ: ”دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے“۔
دنیا کی محبت انسان کو دور اندیشی سے محروم کر دیتی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ میں نے کیسی بات کی۔ ذرا سمجھیں کہ دور اندیشی کیا ہوتی ہے۔ دور اندیشی یہ ہوتی ہے کہ انسان کوئی بھی کام کرتے ہوئے اس کے دور رس نتائج کی طرف دیکھے، قریب کی چیزوں میں نہ الجھ جائے۔ یہی دور اندیشی ہے۔ اگر آپ قریب کی چیزوں میں الجھ گئے تو دور کیسے دیکھ سکیں گے۔ مثلاً: میں نے ایک ٹارگٹ فکس کیا ہوا ہے جس پہ گولہ فائر کرنا ہے، میرے سامنے میرے نفس کی کچھ پسندیدہ چیزیں موجود ہیں، اب میں اپنے ٹارگٹ کی طرف دیکھنے لگا تو میری نظر قریب والی پسندیدہ چیزوں میں الجھ گئی اور وقت گزر گیا، نتیجتاً میرا کام ٹھیک نہیں ہو سکا اس میں غلطی ہو گئی۔
یہ میں نے دنیا کے لحاظ سے بات کی ہے۔ آپ ذرا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ جنگوں میں جہاں جہاں ناکامیاں ہوتی ہیں ان کی وجہ زیادہ تر یہی نفس کی خواہشات ہیں جو انسان کو گھیرے ہوئے ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی نگاہ اپنے ٹارگٹ پر مرکوز نہیں رہتی نتیجتاً ناکام ہو جاتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے:
؏ لمحوں نے خطا کی ہے صدیوں نے سزا پائی
اس قسم کی چیزوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامۃ: 20-21)
ترجمہ: ” خبردار اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کیے ہوئے ہو۔ “
آپ میں دنیا کی محبت جتنی زیادہ ہوگی دور اندیشی اتنی ہی کم ہوگی، زماناً بھی اور مکاناً بھی۔ ہماری پشتو میں کہتے "خپله برخه اسمان وینی" "وہ صرف اپنے حصے کے آسمان کو دیکھتے ہیں"۔ ان میں اتنی وسعت نظری نہیں ہوتی کہ وہ تمام چیزوں کو ایک وقت میں دیکھ سکیں۔ جب انسان میں تنگ نظری اور ناعاقبت اندیشی آ جاتی ہے تو پھر سب کام خراب ہو جاتے ہیں۔
صحابہ کرام میں دنیا کی محبت نہیں تھی، لہٰذا ان کی نظر اللہ پہ ہوتی تھی اور اللہ کے احکام پر ہوتی تھی۔ اللہ کے احکام میں دنیا و آخرت کی کامیابی کی ساری چیزیں موجود ہیں۔ صحابہ کرام ان احکام پہ عمل کرتے تھے نتیجتاً دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی پاتے تھے۔ اللہ پاک نے جو اوامر و نواہی انسانوں کے لئے مقرر فرمائے ہیں ان کی تعمیل میں تمام چیزوں کا انتظام موجود ہے۔ ہمارا کام صرف اور صرف شریعت پر صحیح معنوں میں عمل کرنا ہے، اللہ پاک نے ہمارے لئے تمام فائدے اس میں رکھے ہوئے ہیں۔
اللہ کے علم میں ازل سے سارا کچھ ہے وہ ہماری ابتدا سے انتہا تک تمام ضرورتیں جانتا ہے، اسی نے ہمیں پیدا کیا ہے اور اسی نے ہماری ضرورتیں بھی بنائی ہیں، اس سب کے بعد اس نے ہمیں کچھ احکام دیئے ہیں، ہمارے لئے انہی احکام کی پیروی میں تمام چیزوں کا انتظام رکھ دیا گیا ہے۔
دو باتیں ہیں جو ہمارے لئے ضروری ہیں۔ ہم نے دنیا کی معلومات بھی حاصل کرنی ہے اور وہ معلومات جو اللہ ہمیں دے رہا ہے وہ بھی حاصل کرنی ہے۔ دنیا کی معلومات کو ہم نے اپنے عمل کا ذریعہ بنانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو معلومات آ رہی ہے اس کو گائیڈ لائن کے طور پہ لینا ہے، اس کے مطابق دنیا کے سب کام کرنے ہیں۔
یاد رہے ان دونوں طرح کی معلومات میں حجاب آ سکتا ہے۔ دنیا کی معلومات میں یہ حجاب آ سکتا ہے کہ نفس کی خواہشات مجھے الجھا کے رکھ دیں اور مجھے اصل چیز سیکھنے ہی نہ دیں۔ دوسرا حجاب یہ ہوتا ہے کہ میرے دل کے اندر روحانیت ہی نہ ہو جس کی وجہ سے میں شریعت کی بات صحیح طور پہ سمجھ ہی نہ سکوں، میرا نفس شریعت کی بات صحیح طور پر سمجھنے میں رکاوٹ بن جائے۔
ان دونوں حجابوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہ ہے کہ میں اپنی نفسانیت کو کم کر کے اپنی روحانیت کو بڑھا لوں۔ جب روحانیت بڑھتی ہے تو دونوں حجابات دور ہو جاتے ہیں۔ جب دونوں حجابات دور ہو جائیں تو پھر میرا کام یہ ہوگا کہ میں یہاں کی معلومات حاصل کر کے اس کے ذریعہ اللہ جل شانہ کے حکم کے مطابق کام کروں۔ صحابہ کرام کو یہ دونوں چیزیں حاصل تھیں۔ ان کے اندر دونوں قسم کے حجابات نہیں تھے۔ وہ روحانیت کے سرخیل تھے لہٰذا وہ دونوں قسم کے حجابات سے محفوظ تھے۔ اس لئے وہ دنیا کے اندر بھی پورے پورے کامیاب تھے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوئے۔ انہوں نے اللہ کے احکام کی مکمل طور پہ تعمیل کی تو اللہ نے انہیں دنیاوی نعمتوں سے بھی نواز دیا اور ان کو سب چیزیں بنی بنائی تیار شدہ مل گئیں۔
آپ ﷺ کے پاس چین کے بادشاہ کی طرف سے بھیجے ہوئے دو پیالے تھے۔ الحمد للہ ان میں سے ایک پیالے میں‘ میں نے بھی پانی پیا ہے۔ کراچی کے ایک صاحب ہیں، انہیں گفٹ کیا گیا تھا۔ وہ بڑا خوبصورت پیالہ تھا۔ اب دیکھو چین کے بادشاہ نے وہ پیالہ اپنے لئے بنوایا تھا لیکن وہ آپ ﷺ کے پاس آ گیا۔ وہ اب تک باقی ہے، معلوم نہیں اس وقت کس کے پاس ہے۔ اس کی بناوٹ کچھ اس طرح کی تھی کہ یوں لگتا تھا پانی اس برتن سے ملا نہیں ہوا بلکہ برتن میں الگ سے پڑا ہوا ہے۔ وہ صاحب اس طرح کرتے تھے کہ اس پیالے میں پانی ڈالتے تھے، پھر اس سے نکال کر دوسرے برتن میں ڈال کر پلاتے تھے۔
بہرحال عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جیسے وہ پیالہ چین کے بادشاہ نے بنایا تھا لیکن اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا دیا۔ اسی طرح اللہ پاک اپنے بندوں کے لئے ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کر دیتے ہیں۔ یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ اگر آپ غور کریں تو آپ کو اس طرح کے بہت سارے مواقع نظر آئیں گے جہاں اللہ پاک نے غیبی طریقوں سے سب انتظامات کر دیئے۔ مکہ مکرمہ ہی کو دیکھ لیں کہ جہاں آج تک کوئی چیز کاشت نہیں ہوتی۔ اللہ پاک نے قرآن میں مکہ مکرمہ کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿وَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ﴾ (ابراہیم: 37)
ترجمہ: ”ایسی وادی جس میں کوئی کھیتی نہیں ہوتی“۔
اس کے باوجود مکہ مکرمہ میں دنیا کی ساری چیزیں ملتی ہیں۔ جب آپ اللہ کے بن جائیں گے تو دنیا و آخرت کی سب چیزیں آپ کو مل جائیں گی۔ ؎
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اگر ہم یہ حجابات دور کر لیں تو دنیا کے اندر بھی کامیاب ہوں گے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوں گے۔ ان حجابات کو دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ نفسانیت کو دبا دو اور روحانیت کو جِلا دو۔ اگر ہم نے یہ کر لیا تو ان شاء اللہ یہ ساری چیزیں ہماری ہیں۔ انسان کائنات کا دولہا ہے اور انسانوں میں جو مومن ہے وہ اصل انسان ہے۔ پھر ان میں جو کامل ہے اس کے ذریعے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے، پھر ساری دنیا کا فائدہ ہوتا ہے، پھر ساری کائنات کا فائدہ ہوتا ہے۔ اللہ والوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں جن کے لئے مچھلیاں دریاؤں میں استغفار کرتی ہیں اور پرندے ہواؤں میں استغفار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان بندوں کی وجہ سے پوری کائنات کو فائدہ ہو رہا ہوتا ہے۔ اگر ہم ایسے بن جائیں تو پھر یہ ساری چیزیں ہماری ہیں۔ اللہ ہمیں نصیب فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِین