اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم۔ آپ نے جو ذکر بتایا تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو‘‘ چار سو دفعہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو دفعہ اور ’’اَللہ‘‘ پانچ سو دفعہ اور دس دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ پانچوں لطائف ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر رہے ہیں اور پندرہ منٹ کے لئے یہ تصور کہ صفاتِ ثبوتیہ کا فیض اللہ پاک کی طرف سے آپ ﷺ کے دل پر آ رہا ہے اور وہاں سے اپنے شیخ کے دل پر اور وہاں سے میرے لطیفۂ روح پر۔ اس ذکر کو ایک مہینہ ہوگیا ہے۔ آپ نے پہلے اس کا اثر پوچھا تھا، مجھے لگتا ہے کہ گناہوں سے بچنے میں کچھ مدد ہوئی ہے اور دعاؤں میں بھی اب سکون ہوتا ہے، لیکن یہ condition ہر وقت نہیں ہوتی۔ پھر بھی گناہ ہوجاتے ہیں اور دعا میں بھی دھیان change ہوجاتا ہے اور کبھی غصہ بھی بہت آتا ہے۔
جواب:
آپ اس طرح کر لیں کہ اللہ پاک کی ان آٹھ صفات کا استحضار شروع کر لیں کہ اللہ دیکھ رہے ہیں، اللہ سن رہے ہیں، اللہ کا کلام قرآن کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، اللہ پاک نے سب چیزوں کو پیدا فرمایا ہے اور اللہ جلَّ شانہٗ حیّ اور قیّوم ہے۔ یعنی صفاتِ باری تعالیٰ کو اچھی طرح اپنے ذہن میں رکھ کر یہ مراقبہ کیا کریں۔ صرف یہ نہیں کہ صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ کریں، کیوں کہ اگر صفاتِ ثبوتیہ کا آپ کے ذہن میں استحضار نہیں ہوگا، تو پھر آپ پر کیا اثر ہوگا؟ اس لئے استحضار رکھیں۔ مثلاً صرف یہی بات اگر آپ ذہن میں رکھیں کہ اللہ دیکھ رہے ہیں، تو اس کا کتنا اثر ہوگا۔ لہٰذا ان صفات کا استحضار شروع کر لیں، پھر آپ کو اس کے اثر کا بھی پتا چلے گا، ان شاء اللہ۔ ابھی ایک مہینہ مزید کر لیں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ حضرت جی! اللہ پاک آپ کو بارہا حج کی سعادت نصیب فرمائے۔ اللہ پاک کے ہر کام میں بہتری ہے۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔ ایک بات پوچھنی تھی کہ بعض اوقات ہم بڑے اچھے اعمال کر رہے ہوتے ہیں، درود شریف بھی بارہ چودہ ہزار پڑھ لیتے ہیں اور بعض اوقات بالکل بھی نہیں کرسکتے، جبکہ دل بھی کر رہا ہوتا ہے، کوشش اور دعائیں بھی کرتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟
جواب:
اصل میں اللہ تعالیٰ ہی مدد فرماتے ہیں، اللہ کی مدد کے بغیر کام نہیں ہوسکتا۔ اللہ جل شانہٗ کبھی کبھی اس طرح کر لیتے ہیں کہ وہ کام خصوصی طور پر کروا دیتے ہیں، یعنی اس کا راستہ کھول دیتے ہیں، تو انسان بڑی خوشی کے ساتھ وہ کر لیتا ہے۔ لیکن کبھی امتحان کے لئے اس چیز کو ہٹا دیتے ہیں کہ اگر اس کا دل نہ چاہے، پھر بھی یہ کرتا ہے یا نہیں کرتا، یعنی مزے کے لئے کرتا ہے یا میرا حکم سمجھ کے کرتا ہے۔ ایسی صورت میں امتحان ہوتا ہے کہ آیا یہ مزے کے لئے کرتا ہے یا اللہ کے لئے کرتا ہے۔ اگر اللہ کے لئے کرتا ہوگا، تو دل پر پتھر رکھ کر بھی کرے گا یعنی اس کا جی نہیں چاہے گا، پھر بھی کرے گا۔ اس وقت چونکہ امتحان ہو رہا ہوتا ہے، اس لئے انسان کو بہت خیال رکھنا چاہئے کہ وہ اس امتحان میں فیل نہ ہوجائے۔ لہٰذا جب آپ کا جی نہ کر رہا ہو، تو اس وقت زبردستی آپ کر لیا کریں یہ سمجھ کر کہ اللہ پاک اس وقت میری آزمائش کر رہے ہیں کہ آیا میں اللہ پاک کی محبت میں یہ کر رہا ہوں یا اپنے نفس کی خواہش کے مطابق کر رہا ہوں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ حضرت! دو عورتوں نے چالیس دن کا ذکر مکمل کر لیا ہے، مزید ذکر بتا دیجئے۔
جواب:
ان کو بتا دیں کہ ہمیشہ کے لئے تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار روزانہ سو سو دفعہ کر لیا کریں، اور نماز کے بعد والا ذکر بھی ہمیشہ کے لئے کریں۔ اور دس منٹ کے لئے قبلہ رخ بیٹھ کر زبان اور آنکھیں بند کر کے یہ سوچیں کہ میرا دل ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر رہا ہے اور اللہ پاک مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ ان کو بتا دیں کہ ایک مہینے کے لئے دس دس منٹ روزانہ یہ تصور کریں۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ میں Nursing کی طالبہ ہوں، میں اپنے نفس کی اصلاح اور نیک نصیب کے لئے ذکر لینا چاہتی ہوں۔
جواب:
سبحان اللہ! یہ بہت بڑی فکر ہے اور اصل بات ہے اور دنیا میں سب سے ضروری کام یہی ہے، یعنی انسان کے لئے دنیا میں سب سے اہم کام ہدایت کو حاصل کرنا ہے اور اس کے لئے ہم سورۂ فاتحہ میں نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت عطا فرما۔ پس اس کے لئے یہ سارے اسباب اختیار کیے جاتے ہیں، اپنے نفس کی اصلاح بھی اسی کے لئے کی جاتی ہے۔ ما شاء اللہ! آپ نے اس کا ارادہ کر لیا ہے، یہ مبارک ارادہ ہے، لیکن اب آپ نے اس ارادے کے اوپر مستقیم رہنا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)
ترجمہ1: ’’جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔
اس کے بعد فرمایا کہ فرشتے ان پر آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ خوف اور غم نہ کرو۔ مزید بھی بتایا کہ یہ انعام ہوگا اور یہ انعام ہوگا۔
لہٰذا اصلاح بہت اہم کام ہے اور اگر آپ شروع کرنا چاہتی ہیں، تو اس کے لئے پھر آپ یوں کریں کہ تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ‘‘ اور دو سو دفعہ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ روزانہ ایک وقت مقرر کر کے ہمت کے ساتھ چالیس دن تک بلا ناغہ کریں، اس میں ناغہ نہیں ہونا چاہئے، اگر ناغہ ہوجائے، تو پھر دوبارہ شروع کرنا ہوتا ہے۔ آپ اس کو روزانہ کر لیا کریں، چالیس دن جب پورے ہوجائیں، تو پھر مجھے بتا دیں۔ اور ہر نماز کے بعد تنتیس دفعہ ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘، تنتیس دفعہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ چونتیس دفعہ ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ تین دفعہ کلمہ طیبہ، تین دفعہ درود ابراہیمی، تین دفعہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی۔ یہ نماز کے بعد والا ذکر تو عمر بھر ہوگا، لیکن پہلا ذکر جو میں نے بتایا ہے، وہ چالیس دن کے لئے ہے اور چالیس دن کے بعد پھر آپ نے مجھے بتانا ہے۔
سوال نمبر 5:
حضرت جی! السلام علیکم۔ تمام معمولات باقاعدگی سے کر رہا ہوں، کبھی کبھی تعلق کی کیفیت نصیب ہوتی ہے، لیکن زیادہ صرف تسبیحات ہی پوری کر رہا ہوتا ہوں۔ پچھلے دو ماہ کے ملکی حالات سے وابستہ اضطراب اور اس کے متعلق بحث پر بہت وقت ضائع ہوا، جب زیادہ تر لوگ ایک طرف جا رہے ہوں اور آپ دوسری طرف ہوں، تو تکرار ہو ہی جاتا ہے۔ اس کا ایک بڑا نقصان طبیعت میں غصہ کی واپسی سے ہوا۔ تاہم اس طرف بھی خصوصی طور پر راغب ہوں اور تمام مباحثوں سے تقریباً جدائی اختیار کر لی ہے۔ دھیان میں بہتری آئی ہے۔ کیا ایسی صورت میں کہ جہاں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کیا جا رہا ہو، خاموشی بہتر ہے؟ کیا فتنہ کے دور کی بڑی نشانی یہی نہیں ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ میری تسبیحات مندرجہ ذیل ہیں:
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ ’’اِلَّا اللہ‘‘ چار سو مرتبہ ’’اَللہُ اَللہ‘‘ چھ سو مرتبہ ’’اَللہ‘‘ دو ہزار مرتبہ۔ اس سلسلہ میں بھی آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ جزاک اللہ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ درجات نصیب فرمائے اور ہماری تربیت کا خصوصی ذریعہ بنائے۔
جواب:
ذکر تو آپ اس طرح کر لیں کہ ’’اَللہ‘‘ کو پانچ سو دفعہ بڑھا دیں یعنی ڈھائی ہزار کریں، باقی یہی چیزیں رکھیں۔ اور جہاں تک طبیعت کا تعلق ہے، تو اس کے بارے میں میں آپ سے عرض کروں گا کہ آج کل کا دور فتنے کا دور ہے اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس وقت یہ صورتحال ہو کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ اور ہر آدمی اپنی رائے پر اصرار کر رہا ہو، تو اس وقت اپنی اصلاح ہے یعنی انسان اپنی اصلاح کرے۔ اور اگر آپ نے اس میں بات کرنی بھی ہے، تو اس میں بحث و تکرار کی بجائے دل سوزی ہونی چاہئے۔ دل سوزی اس کو کہتے ہیں کہ آپ ایسے لوگوں پہ ترس کھائیں، بجائے اس کے کہ ایسے لوگوں کی مخالفت کریں، ان کے لئے دعا کریں اور ان کے اوپر ترس کھائیں کہ یہ بیچارے جانتے نہیں ہیں اور misguided ہیں۔ کیونکہ جو بیمار ہوتا ہے، اس پہ ترس آتا ہے، یہ بھی بیمار ہیں، یعنی یہ جانتے نہیں ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے ان سے بحث کرنے کی بجائے ان کی خیر خواہی کرنی چاہئے۔ اس میں اس قسم کی باتیں زیادہ مناسب ہوتی ہیں کہ دیکھو! ہمیں نہیں معلوم کہ حق پر کون سا ہے، لہٰذا اللہ پاک سے مانگ لیتے ہیں کہ جو حق ہے، اس پر ہمیں چلائیں اور جو ناحق ہے، اس سے ہمیں بچائیں۔ اور اس کے لئے بہترین دعا حدیث شریف میں بتائی گئی ہے، وہ دعا ہے:
’’اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَّارْزُقْنَا اجْتِنَابَهٗ‘‘۔
ترجمہ: ’’اے اللہ مجھے حق حق دیکھا اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور مجھے باطل باطل دیکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما‘‘۔
بس یہ دعا لوگوں کو سیکھاتے رہیں، بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم۔ حضرت جی! مجھے آپ نے پانچ لطائف اور ایک مراقبہ دیا تھا، جو میں نے پانچ مہینوں سے چھوڑا ہوا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مجھے بہت مشکل لگتا ہے، please مجھے کوئی ایسا ذکر دے دیں، جو میرے لئے آسان ہو اور میں اس کو کر پاؤں۔ میں نے اسی ڈر سے آپ سے رابطہ نہیں کیا کہ آپ غصہ ہوں گے، دل سے معذرت خواہ ہوں۔
جواب:
میرے غصے سے کیا ہوگا؟ میرے غصے سے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ مجھے اس سے کوئی فائدہ ہے، البتہ اگر کوئی دوائی نہیں کھاتا اور ڈاکٹر کے پاس جا کر کہتا ہے کہ مہربانی کر کے مجھے معاف کردیں، جو دوائی آپ نے بتائی تھی، وہ میں نے نہیں کھائی۔ تو کیا خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو کیا کہنا چاہئے؟ ڈاکٹر صاحب کو غصہ ہونا چاہئے؟ میرے خیال میں اس کو بھی غصہ نہیں ہونا چاہئے۔ اور کیا مریض کو اگر ڈاکٹر صاحب معاف کردیں، تو اس کا علاج ہوجائے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کا علاج نہیں ہوگا، وہ بیمار ہی رہے گا، کیونکہ اس نے اپنا علاج کیا ہی نہیں، وہ اپنے علاج میں interested ہی نہیں ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں نہ میرے غصے سے کوئی فائدہ ہوگا اور نہ میری معافی سے آپ کو کوئی فائدہ ہوگا، اس وجہ سے نہ میں غصہ کرتا ہوں اور نہ معافی تلافی کی بات کرتا ہوں۔ آپ خود سوچیں کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے، پھر مجھے بتا دیں، پھر میں بھی کچھ عرض کرسکوں گا۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم۔
My dear respected مرشد دامت برکاتھم جزاک اللہ خیراً for the new ذکر.
جواب:
I will give ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم
My dear and respected مرشد. I hope you are well ان شاء اللہ. I have completed my ذکر for forty days without any ناغہ اَلْحَمْدُ للہ. Two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ three hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ three hundred times ‘‘حَق’’ and hundred times ’’اَللہ‘‘
حضرت جی if you please advise me what to do next. جزاک اللہ .خیراً A humble request to remember me in your dua.
جواب:
Now you should do two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ four hundred times ‘‘لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred times ‘‘حَق’’ and hundred times ‘‘اَللہ’’ and you should also remember me in your dua.
سوال نمبر 9:
السلام علیکم۔ حضرت شیخ!
I pray for your long life. Ameen. I have been unwell for the last few weeks. I have developed an infection in my throat and I had fever due to which I am missed the ذکر for a few days. اَلْحَمْدُ للہ now I am better حضرت. I have been reciting ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ’’ two hundred times ‘‘لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو’’ two hundred times and ‘‘حَق’’ two hundred times and ‘‘اَللہ’’ hundred times for the past one month.
آگے کا حکم کریں۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ نصیب فرمائے۔ اور امید ہے کہ ان شاء اللہ ابھی آپ بہتر ہوں گے۔ ابھی آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُو‘‘ تین سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ تین سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ سو دفعہ کریں ایک مہینے کے لئے۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم۔ حضرت جی! اللہ آپ کا سایہ ہمارے اوپر قائم رکھے اور آپ کے علم، صحت اور عمر میں برکت عطا فرمائے۔
حضرت جی! پچھلے تقریباً دو مہینے کے میرے معمولات کچھ ایسے تھے کہ تین نمازیں قضا ہوئی تھیں، جن کے تین تین روزے رکھے ہیں۔ ان میں سے ایک ابھی رکھنا باقی ہے۔ اور دو مہینوں میں ذکر کا ایک ناغہ سفر میں ہوا تھا، لیکن ابھی کوشش کرتا ہوں کہ یکسوئی کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر ذکر کیا کروں۔ میرا ذکر پچھلے تقریباً ایک ماہ سے یہ ہے: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ ہزار مرتبہ۔ حضرت! ان معاملات میں مزید آپ کی رہنمائی کا طلبگار ہوں۔
جواب:
ابھی آپ ان شاء اللہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ پندرہ سو مرتبہ کریں ایک مہینے کے لئے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم۔ محترم شیخ صاحب! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ محترم! مجھے پانچ پانچ منٹ سب کے سب پانچوں مراقبے دیئے گئے تھے، ان کے ساتھ چار ہزار بار ’’اَللہ‘‘ کا ذکر دیا گیا تھا اور پندرہ منٹ یہ مراقبہ کہ دل پر فیض آ رہا ہے۔ ذکر محسوس ہوتا ہے، الحمد للہ۔ محترم! مجھے پریشانی ہوتی ہے کہ سب ذکر، مراقبہ کر کے بھی اور فیض آنے کے مراقبہ کی بھی کوشش کر کے مجھے کوئی تبدیلی اپنے اندر محسوس نہیں ہوتی، وہی بار بار گناہ اور معافی کا سلسلہ ہے، کبھی غیبت ہوگئی، کبھی حسد، بغض، کینہ، دل میں دنیا کی لالچ، فضول عادات پہلے کی طرح کرکے بار بار اللہ سے معافی مانگ لی۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ذکر میں ناغہ نہیں کرتی، پر سستی رہتی ہے۔
جواب:
اللہ اکبر! کیا یہ فائدہ کم ہے کہ آپ کو اس کا احساس ہوگیا ہے کہ آپ گناہ کر رہی ہیں۔ یہ بھی تو آپ کو اللہ پاک نے اپنے فضل سے نصیب فرما دیا اور آپ کو استحضار نصیب فرمایا کہ آپ گناہ کر رہی ہیں اور گناہ کے بعد توبہ کر رہی ہیں۔ لہٰذا ابھی آپ ذکر جاری رکھیں، لیکن اپنے گناہوں کی تفصیل مجھے بھیج دیں کہ کیا کیا گناہ آپ سے ہوتے ہیں۔ تفصیل اس اعتبار سے لکھیں کہ جو گناہ زیادہ ہوتے ہوں، وہ پہلے نمبر پر لکھیں، اور جو اس سے کم ہوتے ہیں، وہ ان کے بعد اور پھر ان سے کم ہوتے ہیں، وہ ان کے بعد۔ اس تفصیل سے مجھے بتا دیں، ان شاء اللہ پھر ان کا علاج شروع ہوجائے گا۔ بیماریوں کا پتا چلنا یہ بھی علاج کا ایک سلسلہ ہے، اگر پتا ہی نہ چلے، تو پھر کیسے علاج ہوگا۔ آپ کو اگر اس کا احساس ہوگیا، تو اس احساس سے آپ کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ذکر آپ یہی جاری رکھیں، لیکن اب مجھے آپ list بھیجئے کہ آپ کے گناہ کون کون سے ہیں۔
سوال نمبر 12:
الحمد للہ! مجھے خود میں فرق نظر آنے لگا ہے، بس آپ کی دعاؤں کی شدید ضرورت ہے۔
جواب:
دعا تو میں ہمیشہ کروں گا، البتہ آپ اپنی ہمت جاری رکھیں۔ فرق مزید زیادہ واضح ہونا چاہئے کہ دل اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوجائے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! میں ایبٹ آباد سے فلاں میجر صاحب کی اہلیہ بات کر رہی ہوں۔ میرے معمولات مندرجہ ذیل ہیں:
سو مرتبہ تیسرا کلمہ، سو مرتبہ درود شریف، سو مرتبہ استغفار اور پندرہ منٹ کا مراقبہ۔ حضرت صاحب! ان معمولات کو تین مہینے سے زیادہ ہوگئے ہیں، آپ سے رابطہ نہ رکھنے پر معذرت چاہتی ہوں۔ میرا دل بہت اداس رہتا ہے، ازواجی معاملات بھی ٹھیک نہیں رہتے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا، دنیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ برائے کرم! آئندہ کے لئے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
ما شاء اللہ! آپ کو اللہ پاک نے ایک عظیم نعمت عطا فرما دی ہے، آپ اس کی قدر کریں۔ وہ کون سی نعمت ہے؟ علامہ اقبال کا شعر ہے:
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
لہٰذا اگر آپ کا دل ٹوٹ گیا ہے اور دنیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے، تو یہی تو کمال کی چیز ہے، اسی سے آپ کا راستہ شروع ہوجائے گا۔ دنیا تو ایک دھوکہ ہے، اگر دھوکہ سے آپ کا دل اٹھ گیا ہے، تو مجھے بتاؤ کہ پھر آپ کو کتنی بڑی نعمت مل گئی ہے، اسی میں تو انسان trap ہوتا ہے۔ حدیث میں ہے:
’’حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيْئَةٍ‘‘۔ (مشکوۃ المصابیح: 5213)
ترجمہ: ’’دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے‘‘۔
پس اگر آپ کا دنیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے، تو یہ بہت بڑی بات ہے، اللہ تعالیٰ اس پہ قائم رکھے اور آپ اسی ذریعے سے اللہ پاک کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کر لیں۔ باقی! آپ میرے ساتھ رابطہ نہ رکھیں، تو اس کی مجھے کوئی پروا نہیں ہے، لیکن آپ اللہ کے ساتھ رابطہ ضرور رکھیں۔ اور اس کے لئے طریقہ سیکھنے میں آپ میری خدمات حاصل کرسکتی ہیں۔ اور اگر آپ اس میں خدمات حاصل نہ کرنا چاہیں، تو میری طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں! اگر خدا نخواستہ آپ کو کوئی نقصان ہو، تو اس کی آپ کو فکر ہونی چاہئے۔ اس کے لئے پھر معذرت کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا آپ ہمت کر کے اپنا رابطہ جاری رکھیں اور پندرہ منٹ کے مراقبہ کی کیا کیفیت ہے، وہ آپ مجھے بتائیں، تاکہ میں آپ کو مزید بتاؤں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم۔ حضرت جی!
نمبر 1: آپ نے جو مقام صبر کے بارے میں بتایا ہے، اس سے متعلق میرا یہ خیال ہے کہ یہ مقام بہت لمبا ہے، یعنی ایک دو دن کی بات نہیں ہے۔ یہ ہر طرح سے مشکل ہے اور یہ بھی کہ اس میں گناہ بھی نہ ہو۔ اللہ پاک استقامت عطا فرمائے۔
نمبر 2: حضرت جی! آپ نے جو مراقبات بتائے ہیں، ان سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے نام و شہرت سے بالکل نکل جاؤں، البتہ بتقاضائے محبت اور مجبوری یہ خیال آتا ہے کہ روز قیامت اللہ پاک کے سامنے جاؤں، تو اللہ پاک راضی ہوں اور آپ ﷺ سے بھی اس حالت میں ملاقات ہو کہ آپ ﷺ خوش ہوں۔
نمبر 3: بیماری کے بعد سے نوافل نمازوں کی طرف اتنا رجحان نہیں بن پا رہا اور مسجد میں بھی چند دن ہوئے جانا شروع کیا ہے۔ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ اور ’’اَسْتَغْفِرُ اللهَ‘‘ دل ہی دل میں بہت سی دعائیں کرتا رہتا ہوں اور غیر اللہ کو چن چن کے دل سے نکالتا رہتا ہوں، آپ سے اصلاح کی اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
صبر تو پوری زندگی چلے گا، ان شاء اللہ۔ ہماری ہر چیز صبر پر مںحصر ہے۔ کیوں کہ انسان کے اندر نفس ہے، اس وجہ سے انسان کو مستقل طور پر صبر کرنا چاہئے۔ البتہ صبر کا مفہوم واضح ہونا چاہئے۔ صبر کا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کے کرنے کا حکم ہے، اگر نفس نہ چاہتا ہو، تو نفس پہ پاؤں رکھ کر اس کو کیا جائے۔ یہ صبر ہے۔ اور جس چیز سے بچنے کا حکم ہے، نفس اس کے لئے کتنا ہی للچائے، لیکن اس کی پروا کئے بغیر آدمی اس سے بچا رہے۔ یہ صبر ہے۔ اب بتاؤ، اس میں سے کون سی چیز نکل گئی؟ ہماری پوری زندگی میں یہی چیز ہوگی۔ لہٰذا صبر کو حاصل کرنا ہے۔ اس لئے آپ اس کی ہمت کریں اور کوشش کریں۔
باقی! مراقبات اصل میں کیا چیز ہیں؟ میں آپ کو آسان طریقے سے بتاؤں کہ مراقبہ کیا چیز ہے۔ کون مسلمان ہے جو ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ نہیں کہتا؟ ہر مسلمان کہتا ہے، لیکن کیا ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ کے ساتھ جو کیفیت ہونی چاہئے، وہ سب کی ہے؟ شاید ہی کسی کی وہ کیفیت ہو۔ کتنے مسلمان ہیں جو ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ نہیں کہتے یا نہیں سنتے؟ لیکن کیا ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ کے ساتھ جو کیفیت ہونی چاہئے، وہ ہے یا نہیں ہے؟ اسی طرح ’’اَلْحَمْدُ للہ‘‘، اسی طرح ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘۔ یہ سب چیزیں ہمارے پاس لفظی ہیں، اب لفظی سے بڑھ کے یہ حقیقت بن جائیں اور یہ ہمارا حال بن جائیں، اس لئے مراقبات ہیں۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا:
قال را بگذار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو
یہ حضرت نے اسی بارے میں فرمایا ہے کہ جو تم باتیں کر رہے ہو، ان باتوں کو چھوڑ دو، باتوں کی بجائے عمل پہ آجاؤ اور ان کو حال بنا دو۔ مثلاً: میں صبر کی باتیں کرتا ہوں، لیکن مجھ میں صبر نہ ہو، تو کیا مجھے صبر کی باتیں فائدہ دیں گی؟ صبر کی باتیں تو فائدہ نہیں دیں گے، صبر فائدہ دے گا۔ قرآن میں ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ: ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
صبر کرنے والوں کی بات ہے، صبر کی باتیں کرنے والوں کی بات نہیں ہے۔ پس یہ اصل بنیادی بات ہے۔ ہم جو مراقبات کرتے ہیں، ان مراقبات میں ہم باتوں سے نکل کر حقیقت کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ مراقبات کی اصلیت یہی ہے۔ لوگوں نے پتا نہیں مراقبات کو شغل میلہ سمجھا ہوا ہے، یہ شغل میلہ نہیں ہے، یہ اصل میں الفاظ سے حقیقت کی طرف انسان کے جانے کا سفر ہے، لہٰذا آپ اس سفر کو جاری رکھیں۔
ما شاء اللہ! یہ بہت اچھی تمنا ہے کہ جب ہم اللہ پاک کے سامنے جائیں، تو اللہ راضی ہو اور جب آپ ﷺ کے سامنے جائیں، تو آپ ﷺ ہم سے خوش ہوں، لیکن اس کے لئے عملی بات ہونی چاہئے، محض تمنا سے کام نہیں ہوگا۔
باقی! بیماری کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو مسجد میں جانے کی سہولت نصیب فرمائی ہے، تو اس پر اللہ کا شکر کریں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
دل دل میں دعائیں کرنا؛ یہ بھی اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے، اس کو جاری رکھیں اور میرے لئے بھی دعا کریں۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت! احوال یہ ہیں کہ معمولات الحمد للہ معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔ حضرت جی! میرا ذکر ایک مہینہ کے لئے یہ تھا: دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور دس ہزار مرتبہ ’’اَللہ‘‘ اور پندرہ منٹ کا مراقبہ دل میں ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کا محسوس ہونا اور ہر نماز کے بعد ایک سانس میں ’’اَللہ، اَللہ‘‘ نوے مرتبہ، اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہوا۔ نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ بھی جاری ہے، الحمد للہ۔ دل میں ’’اَللہ، اَللہ‘‘ محسوس نہیں ہوتا۔ حضرت! جب سے آپ نے درود شریف کا target مہینے میں تیس ہزار بتایا تھا، تب سے الحمد للہ! ہر مہینہ تیس ہزار سے بھی زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ Corona میں ایک وظیفہ تین مرتبہ سورۃ فاتحہ اور تین مرتبہ سورہ ’’قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ‘‘ ہو اور تین مرتبہ ’’حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘ اور مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا ترجمہ آپ نے پڑھنے کو کہا تھا، تب سے وہ ابھی تک باقاعدگی سے جاری ہے۔ حضرت جی! family بھی ساتھ لے کے آیا ہوں، اس وجہ سے گھریلو مصروفیات بڑھ جانے کی وجہ سے کچھ دنوں آپ کے بیانات سننے کی نعمت سے محروم رہا ہوں۔ اس کے علاوہ پچھلے مہینے میں نے معدے پر بوجھ کی شکایت کی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا علاج چھوڑ دوں، تو آپ نے فرمایا تھا کہ علاج چھوڑ دو، اگر بڑھ گیا تو میڈیکل مسئلہ ہوگا اور اگر نہیں بڑھا، تو کچھ کر لیں گے۔ حضرت جی! میں نے علاج بھی چھوڑا اور سارے پرہیز بھی توڑے، مسئلہ بڑھا تو نہیں، البتہ بوجھ میں نمایاں کمی ہوئی۔ اگرچہ کافی حد تک بوجھ کی کمی ہوئی ہے، لیکن رہتی ضرور ہے۔ حضرت جی! سر فہرست جو بیماری مجھے بہت تنگ کر رہی ہے، وہ نقطہ چینی کی بیماری ہے، دوسروں کے کاموں میں براہ راست بھی اور پیٹھ پیچھے بھی اعتراضات کا سلسلہ اس لئے جاری ہے کہ گویا میں تو ان کا بھلا چاہ رہا ہوں، لیکن حقیقت میں میں چغل خوری کر رہا ہوتا ہوں۔ اللہ میری اصلاح فرمائے۔
جواب:
ما شاء اللہ! ذکر تو آپ کا تقریباً یہی ہوگا، بس صرف ’’اَللہ‘‘ دس ہزار پانچ سو مرتبہ کریں۔ اور ما شاء اللہ! درود شریف کا target بہت صحیح چل رہا ہے۔ Corona سے بچنے کے لئے وظیفہ بھی ٹھیک ہے۔ اور family کے ساتھ آنے پر آپ کو مبارک ہو، یہ بہت بڑی حفاظت ہے۔ اللہ پاک آپ کے لئے اس کو دین و دنیا میں مفید بنائے۔ شیطان اس میں توڑ ڈالتا ہے، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ شیطان کی باتیں نہیں ماننی چاہئیں اور اللہ پاک کی رضا کے لئے آپس میں محبت اور مودت کے ساتھ رہنا چاہئے۔ یہ بہت ضروری بات ہے۔ آپ کو اللہ پاک نے توفیق دی ہے، اس پر آپ اللہ پاک کا بہت شکر ادا کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ابھی آپ منزل جدید کو ہمت کے ساتھ روزانہ جاری رکھیں، ان شاء اللہ اسی سے فائدہ ہوگا۔
باقی! نقطہ چینی کی جو بیماری ہے، یہ اختیاری چیز ہے، بے اختیاری نہیں ہے۔ اور جو اختیاری چیز ہوتی ہے، اس کو اختیاری طور پہ روکا بھی جاسکتا ہے۔ لہٰذا جب آپ کو پتا ہے کہ اس کا مجھے نقصان ہے، تو پھر نہ کیا کریں، یعنی اس کو چھوڑ دیں اور اس سے بچنے کی کوشش کر لیں۔ ہاں! جب واقعی بھلائی والی بات ہوجائے گی، تو پھر اس کے لئے کچھ طریقے ہیں، وہ پھر میں بعد میں عرض کردوں گا، لیکن فی الحال آپ اس کو ترک کر لیں، بس اپنے کام کام رکھیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایسے موقع پہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ بس اپنے تک رہیں یعنی اپنے کام سے کام رکھیں، دوسرے کے کاموں میں نہ جھانکیں اور نہ ان کی پروا کریں۔ البتہ اگر کسی کو خیر کے راستے کی طرف متوجہ کر سکتے ہو، تو ٹھیک ہے۔ جیسے اگر ان کا کوئی شیخ ہو، تو شیخ کی طرف متوجہ کردیں اور اگر شیخ نہ ہو، تو اس طرح متوجہ کردیں کہ یہ راستہ ہے، اس میں اللہ پاک کی طرف توجہ ہوجاتی ہے۔ یعنی اس کی آپ ترغیب دیتے رہیں، یہ مفید ہے، کیونکہ یہ علاج کا بنیادی طریقہ ہے۔ ابھی آپ اس پر عمل کر لیں۔ اللہ پاک مدد فرمائے.
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 1: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ کعبہ پندرہ منٹ۔ مراقبہ کے دوران ایسا لگتا ہے کہ میں خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہی ہوں، حجرِ اسود کو بھی ہاتھ لگایا ہے اور نفل بھی ادا کیے ہیں۔
جواب:
سبحان اللہ! یہ بڑی بات ہے، اللہ جل شانہٗ مزید توفیقات سے نوازے۔ ابھی مراقبہ حقیقتِ کعبہ کا جو اثر ہے وہ محسوس کریں، یعنی جب آپ نماز پڑھیں تو نماز میں آپ کا یہ خیال ہو کہ میں خانہ کعبہ کے بالکل سامنے کھڑی ہوں۔
نمبر 2: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ پندرہ منٹ۔ دل کا اطمینان بڑھ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ پر عقیدہ پختہ ہوگیا ہے کہ ہر کام اللہ کے حکم سے ہوتا ہے، حتیٰ کہ آنکھوں کا جھپکنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے اور تمام عبادتوں میں مداومت نصیب ہوئی ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ! یہ بہت اچھی بات ہے۔ اب آپ اس طرح کر لیں کہ اللہ پاک کی جو صفات مخلوق کی صفات کی طرح نہیں ہیں، مثلاً: مخلوق سوتی ہے، اللہ نہیں سوتے۔ مخلوق کھانا کھاتی ہے، اللہ پاک نہیں کھاتے۔ مخلوق شادی کرتی ہے، اللہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کی اولاد نہیں ہے، اسی طرح جو اور اس طرح کی چیزیں ہیں۔ اس کو مراقبہ تنزیہ بھی کہتے ہیں اور مراقبہ صفاتِ سلبیہ بھی کہتے ہیں۔ اس مراقبہ کی طرف پندرہ منٹ توجہ رکھیں کہ اس کا فیض آپ ﷺ کی طرف آ رہا ہے اور آپ ﷺ سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفہ خفی پہ آ رہا ہے۔
نمبر 3: ساڑھے سات ہزار اسم ذات کا زبانی ذکر ہے۔
جواب:
تو ابھی آٹھ ہزار کر لیں۔
سوال نمبر 17:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ ابھی یہ ہے کہ جو چیزیں آپ نے چھوڑی ہیں، ان کو دوبارہ شروع کر لیں، ایک مہینہ مکمل کر کے پھر مجھے اطلاع کردیں۔
سوال نمبر 18:
میں نے تقریباً پانچ چھ مہینے پہلے ذکر لیا تھا، آپ کے کارڈ کے اوپر جو ذکر ہے، وہ چالیس دن تک میرا complete ہوگیا تھا، پھر کچھ گھر کی مصروفیات کی وجہ سے میں دوبارہ ذکر نہیں لے سکا اور میں نے آگے اس کو دوبارہ شروع بھی نہیں کیا، تو ابھی میں وہ دوبارہ سے شروع کروں یا میرے لئے کیا حکم ہے؟
جواب:
ابھی آپ اس طرح کر لیں کہ سو دفعہ پورے تیسرے کلمہ کا ذکر، پھر اس کے بعد سو مرتبہ درود شریف، اس کے بعد سو مرتبہ استغفار، اس کو آپ نے روزانہ پوری عمر کے لئے کرنا ہے۔ اور کارڈ کے اوپر جو نماز کے بعد والا ذکر تھا، وہ بھی آپ نے پوری عمر کرنا ہے۔ یہ دنوں ذکر پوری عمر چلتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ ضرب اور جہر کے ساتھ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ سو مرتبہ اور ’’اَللہ‘‘ سو مرتبہ۔ اس ذکر کو آپ نے ایک مہینہ کرنا ہے، ایک مہینے کے بعد پھر مجھے بتانا ہے۔ اور ناغہ بالکل نہ کریں، ناغوں سے بہت نقصان ہوتا ہے، یہ تجربہ کی بات ہے۔
سوال نمبر 19:
شاہ صاحب! میں نے تقریباً چھ سات ماہ پہلے ذکر شروع کیا تھا، میرا چالیس دن والا ذکر complete نہیں ہوا تھا۔
جواب:
تو Forty days والا complete کر لیں۔ اور ابھی آپ نے یہ بات سن لی ہے کہ یہ تو اپنے فائدے کی بات ہے۔ اگر موت کے بعد آپ کو پتا چل جائے کہ اوہ ہو! یہ میں نے کیوں نہیں کیا، اس کا تو مجھے یہ فائدہ ہوتا، تو پھر آپ کیا کریں گے؟ پھر تو آپ کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ اور موت کا تو کچھ بھی پتا نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس کو آپ پہلے نمبر پر رکھیں، جس کو کہتے ہیں Priority number one۔ جیسے انسان بیمار ہوجاتا ہے، تو دفتر سے چھٹی لینا بھی اس کے لئے آسان ہوجاتا ہے، اپنے گھر بیٹھنا اور ہسپتال جانا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے علاوہ وہ کر ہی کیا سکتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اس وقت ہوتی ہیں، جب برابر کی چیز ہو۔ یہ تو آپ کو پتا ہے کہ صحت اور باقی چیزوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو ساری توجہ بیماری کے اوپر ہوتی ہے۔ مثلاً آپ کے کسی ناخن میں اگر تکلیف ہو اور آپ کا پورا جسم ٹھیک ہو، تو آپ ٹھیک کا خیال نہیں رکھیں گے، آپ اس ناخن کا ذکر کریں گے کہ اس میں مجھے تکلیف ہے، یعنی آپ کی پوری توجہ اس طرف ہوگی۔ یہ تو ظاہری تکلیف ہے اور جو باطنی چیز ہے، جس کا اُدھر نقصان ہوگا، وہ تو اس سے زیادہ اہم چیز ہے۔ لہٰذا آپ اس کے لئے ہمت کریں اور اس کو مکمل کر لیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک تو اس کے لئے آپ وہ time fix کریں، جو مناسب ترین وقت ہو۔ دوسرا یہ ہے کہ کئی طریقوں سے checks لگا دیں۔ مثلاً: آپ نے دو بجے ایک فلائیٹ پہ جانا ہو، تو گیارہ بجے تک اگر آپ سامان کی تیاری بھی کریں گے، پھر اس کے بعد اگر آپ چاہیں گے کہ میں کچھ آرام بھی کروں، تو آپ اس کا پھر باقاعدہ انتظام بھی کریں گے کہ میں اٹھ جاؤں اور میں دو بجے کی فلائیٹ catch کر لوں، کیونکہ آدمی کو پتا ہوتا ہے کہ اگر miss ہوگی تو میری ساری محنت ضائع ہوجائے گی۔ اسی طریقہ سے آپ نے اس کو Priority number one دینا ہے، پھر یہ کام ہوگا، ورنہ اگر آپ کہیں کہ چلیں! ہوگیا تو ہوگیا، تو اس طرح یہ نہیں ہوتا، پھر رہ جاتا ہے۔
سوال نمبر 20:
حضرت! آپ نے مجھے بیس منٹ کا نظر کا مجاہدہ دیا تھا، انفرادی تو میں نے کر لیا تھا، پھر جب میں باہر کا کر رہا تھا، تو تقریباً میں نے چودہ پندرہ منٹ تک کیا، پھر وہ بیچ میں رہ گیا۔ ایک ہفتہ پہلے پوچھا تھا کہ میں اس کو شروع کر لوں، تو آپ نے فرمایا تھا کہ شروع کر لیں، لیکن کوشش کے باوجود نہیں ہو پا رہا۔
جواب:
ابھی اس طرح کر لیں کہ باہر والا ابتدا سے یعنی پانچ منٹ سے شروع کر لیں۔ دیکھیں! جتنا آپ کے لئے اس کا کرنا مشکل ہوگا، اتنا آپ کو زیادہ فائدہ دے گا، کیونکہ اس میں نفس کے اوپر بوجھ زیادہ آئے گا اور جتنا نفس کے اوپر بوجھ زیادہ آتا ہے، اتنا زیادہ نفس سیدھا ہوتا ہے، لہٰذا آپ نے ہمت کر کے اس کو مکمل کرنا ہے۔ بعد میں ان شاء اللہ Whatsapp پہ رابطہ ہوگا۔
سوال نمبر 21:
آپ نے مجھے یہ عمل دیا تھا کہ دو رکعت پڑھنی ہیں اس نیت اور استحضار کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات دیکھ رہی ہے۔ یہ عمل میرا پورا ہوگیا تھا، کافی ٹائم اوپر ہوگیا ہے۔ اس میں کیفیت یہ تھی کہ جب میں نے ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ کہہ کر نیت باندھ لی، تو پھر اللہ کی طرف دھیان ہوتا تھا اور نماز کی شرائط و آداب کا مکمل استحضار جو پہلے نہیں ہوتا تھا اور ان کا خیال نہیں رہتا تھا، اب ان کا پورا خیال رہتا تھا۔ رکوع اور سجدے میں بھی استحضار رہتا تھا کہ اللہ کی ذات دیکھ رہی ہے۔
جواب:
بس جب نماز میں آپ نے یہ کر لیا، تو اب آپ اس کو جاری رکھیں، کیونکہ یہ تو نماز کا حصہ ہے۔ گویا یوں سمجھ لیجئے کہ یہ علاج کے علاوہ required بھی ہے۔ کیوں کہ حدیث میں ہے:
’’اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘۔ (صحیح بخاری: 50)
ترجمہ: (احسان یہ ہے کہ) اللہ کی عبادت تم اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، کیوں کہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو، پر وہ تو تم کو دیکتھا ہی ہے‘‘۔
’’فَاِنَّہٗ یَرَاکَ‘‘ والی بات تو کم از کم ہے۔ البتہ اب آپ اپنی زندگی میں اپنا محاسبہ کر لیں کہ کون سی چیزیں آپ ایسی کر رہے ہیں، جو اس کیفیت کے استحضار کے خلاف ہیں۔ یعنی نماز میں آپ کا جو استحضار ہے، آپ سوچیں کہ زندگی میں آپ کو اس کا کتنا استحضار نہیں ہے کہ جس کی وجہ آپ سے غلطیاں ہوجاتی ہیں، اس کو ذرا نوٹ کر کے پھر مجھے بتا دیں۔
سوال نمبر 22:
دوسرا سوال یہ ہے کہ میرا تعلق چونکہ پڑھنے پڑھانے سے بھی ہے، ہمارا ایک شعبہ مکتب تعلیم القرآن کا ہے، مکاتب والوں کا ہر دفعہ ایک ہدف رہا ہے کہ مدارس کے اندر خاص طور پہ جو حفظ کے مدارس ہیں یا ناظرہ کے مدارس ہیں، ان میں بغیر مار کے پڑھائی کرائی جائے، اس کو کافی promote کیا جاتا ہے اور وہ مذاکرے بھی کر رہے ہیں، اس کے لئے قراء حضرات کو بلایا بھی جا رہا ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ کیا صرف مذاکرہ کرنا ہی نفع دے گا یا ان اساتذہ کی تربیت یا کسی اللہ والے کے ساتھ ان کا تعلق ہونا ضروری ہے؟ کیونکہ یہ تو سارا نفس کا مجاہدہ ہے، کیونکہ وہ چوبیس گھنٹے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مذاکرہ کے باوجود پھر بھی ان سے غلطیاں ہوجاتی ہیں، پھر وہ آ کے مذاکرہ کر کے چلے جاتے ہیں، پھر ان سے غلطی ہوجاتی ہے کہ کسی کی پٹائی کردی اور کسی کو مار لگا دی۔
جواب:
اگر ہم دیکھیں تو اس بات کا سمجھ میں آنا تو بہت simple ہے، لیکن اس پر عمل اتنا simple نہیں ہے۔ کیوں کہ مذاکرہ میں صرف ذہن سازی ہوتی ہے، یعنی مذاکرہ میں آپ کے سامنے وہ چیزیں آجاتی ہیں، آپ ان کے بارے میں سوچ لیتے ہیں، آپ ان کے بارے میں فکر بھی کر لیتے ہیں، لیکن عمل پہ آنے کے لئے دو بڑی چیزیں اور ضروری ہیں: ایک دل کی اصلاح، تاکہ اس میں غیر اللہ نہ ہو۔ اور دوسرا نفس کی اصلاح کہ انسان کا نفس قابو میں ہو۔ جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوگی، اس کیفیت کا استحضار یا مذاکرہ جو بھی آپ کر رہے ہیں، وہ صرف زبان تک ہی رہے گا، نیچے نہیں آئے گا، لہٰذا اس کو نیچے لانے کے لئے نفس کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ آپ نے پڑھے ہوں گے اور آپ پڑھ بھی رہے ہوں گے۔ حضرت میاں جی کے نام سے اکثر بات کرتے ہیں کہ میاں جیوں سے اللہ پوچھے گا کہ ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتے۔ لیکن جن میاں جیؤں کی اصلاح ہوئی ہے، جیسے میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ، ان کے لئے تو آپ ﷺ نے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں اصلاح کے لئے دے دیا۔ تو ایسے بھی میاں جی موجود ہیں اور ایسے بھی میاں جی موجود ہیں کہ وہ بیچارے اپنے غصے پہ قابو نہیں رکھتے اور بچوں کی وہ حالت کر لیتے ہیں کہ بچے ہمیشہ کے لئے توبہ کر لیتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں، پھر وہ پڑھائی کا نام بھی نہیں لیتے۔ تو اس میاں جی سے اس میاں جی تک آنے کے لئے کچھ محنت کی ضرورت تو ہے، لہٰذا کم از کم اس کی ترغیب دینی چاہئے کہ اگر مار پر کنڑول میں کوئی مشکل ہے، تو اس مشکل کو حل کرنے کا طریقہ یہ ہے۔ جیسے discussion وغیرہ ہو، تو اس میں کم از کم اس بات کی ترغیب دے دی جائے کہ صرف باتیں نہیں ہیں، بلکہ باتوں سے عمل پر آنے کے لئے کچھ مزید کام کی ضرورت ہے۔ جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
قال را بگذار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو
یہ بھی بالکل یہی چیز ہے کہ آپ جو بات کر رہے ہیں، آیا وہ بات آپ کے حال کے درجہ میں آ رہی ہے یا نہیں آ رہی؟ اگر حال کے درجہ میں نہیں آ رہی، تو اس میں ابھی خامی ہے، اس خامی کو دور کرنے کے لئے اور پختگی کو لانے کے لئے کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے، اور پھر اس کام کے بارے میں آپ بتا دیں۔
سوال نمبر 23:
حضرت! یہ ایک سوال ہے کہ نماز میں جو حضوری ہوتی ہے، اگر کسی کو یہ کبھی کبھی ہوتی ہے اور کچھ عرصہ ہوتی ہے، پھر کچھ عرصہ کے بعد کچھ دنوں کے لئے ختم ہوتی ہے، پھر ہوجاتی ہے، لیکن اللہ تعالی کا دھیان رہتا ہے اور وہ بندہ اپنے آپ کو گناہگار بھی سمجھتا ہے، لیکن توبہ کی توفیق بھی ہوجاتی ہے، تو یہ کیا ہے؟
جواب:
دیکھیں! یہ بنیادی طور پر تو تلوین ہے۔ تلوین لون سے نکلا ہے اور لون کا معنی ہے؛ رنگ یعنی مختلف رنگ بدلنا، کبھی ایک حالت، تو کبھی دوسری حالت تو کبھی تیسری حالت، لیکن نہ ہونے سے یہ بہت زیادہ بہتر ہے، یعنی انسان کبھی بھی خیر کی طرف نہ آئے، اس سے تو یہ بہت بہتر ہے۔ لیکن چوں کہ ابھی یہ خیر کی طرف آتا ہے، پھر نکل جاتا ہے، پھر خیر کی طرف آتا ہے، پھر نکل جاتا ہے، یہ اگرچہ اس سے تو بہتر ہے جو خیر کی طرف آئے ہی نہیں، لیکن اس پر انسان مطمئن نہیں ہوسکتا، کیونکہ ابھی تمکین کی حالت نہیں آئی، تمکین کی حالت کو حاصل کرنے کے لئے کہ انسان اس کیفیت پر مستحکم ہوجائے، محنت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کو مقام کہتے ہیں، یعنی حال سے وہ مقام کے درجہ میں آجائے۔ اس بارے میں حضرت حلیمی صاحبؒ سے میں نے ایک شعر سنا تھا، جو حضرت نے اس موقع پہ فرمایا تھا:
صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے
بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے
یعنی صوفی اس وقت تک صافی نہیں بن سکتا، جب تک کہ وہ عشق کا جام نہ کھینچے۔ اس کے لئے کافی لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے کہ انسان خام سے پختہ بن جائے۔ خامی خام سے نکلا ہے یعنی اگر اس میں نقصانات ہوں، کمزوریاں ہوں، تو وہ خامی ہوتی ہے اور پختہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک پہنچنا تھا، وہاں پہنچ گیا اور settle ہوگیا۔ پس پختگی آجائے، تو اس کے لئے مستقل محنت کی ضرورت ہے۔ لیکن جتنا حاصل ہو، اس پر اللہ کا شکر ادا کریں۔
سوال نمبر 24:
اگر کسی کو اندازہ ہوجائے کہ اگر وہ دعائیں کرتا ہے کہ یہ دعا قبول ہوگی، جیسے کوئی دعا قبول ہوجاتی ہے، تو پتا بھی چل جاتا ہے۔ اور بعض دعا کے بارے میں اگر اس کو سمجھ آجائے کہ یہ دعا قبول نہیں ہو رہی، تو کیا وہ دعا کرنا چھوڑ دے؟ اس میں دین و دنیا کی دعا کا کوئی فرق بھی ہے کہ دنیا کی دعا چھوڑ دے اور دین کی نہ چھوڑے؟
جواب:
نہیں، بلکہ دنیا کی دعاؤں کو بھی آپ اللہ کے ساتھ تعلق کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ دیکھیں! دعا کیا ہے؟ دعا اصل میں انتہائی درجہ کا مختصر ترین ذریعے ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بنانے کا۔ اس لئے فرمایا:
’’اَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ‘‘۔ (سنن ترمذی: 3371)
ترجمہ: ’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘۔
’’اَلدُّعَآءُ ھُوَ الْعِبَادَۃِ‘‘۔ (بلوغ المرام: 1342)
ترجمہ: ’’دعا اصل عبادت ہے‘‘۔
اب جب یہ صورتحال آپ کو سمجھ میں آگئی، تو بے شک دعا قبول نہ ہو، لیکن دعا کو چھوڑنا نہیں چاہئے۔ کیوں کہ یہ تخصیص تو نہیں ہے کہ کون سی دعا عبادت ہے اور وہ اللہ پاک کے ساتھ تعلق کا ذریعہ ہے۔ اگر ایک آدمی اپنے دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اللہ پاک کو پاتا ہے کہ اللہ پاک ہی میری ضرورتیں حل کرے گا، تو یہ اچھی حالت ہے یا اچھی حالت نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ اچھی حالت ہے۔ لہٰذا اس اچھی حالت کو بڑھانا چاہئے کہ انسان ہر چیز اللہ پاک سے مانگے اور اس کیفیت سے مانگے کہ اللہ پاک میری سن رہا ہے اور اللہ پاک قبول بھی فرماتے ہیں، ’’أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ‘‘ (صحیح بخاری: 7405) کے لحاظ سے۔ ہمارے مشائخ تو ان حاجات کو ذریعہ بناتے تھے دعا کے لئے اور دعا کو ذریعہ بناتے تھے اللہ کے ساتھ تعلق کے لئے، لہٰذا دعا کو جاری رہنا چاہئے۔
سوال نمبر 25:
حضرت! اگر ایک انسان کو لگتا ہے کہ مجھ سے تکبر اب ختم ہوگیا ہے، لیکن پھر کچھ عرصہ گزرتا ہے، تو سمجھ آتا ہے کہ ختم تو نہیں ہوا۔ پھر لگتا ہے کہ ختم ہوگیا یعنی بالکل محسوس ہوتا ہے کہ بس اب ختم ہوگیا، لیکن پھر کچھ زیادہ عرصہ گزر جاتا ہے، تو پھر اس کو لگتا ہے کہ نہیں یہ تو ابھی موجود ہے۔ چوں کہ ایسے انسان پر مختلف حالات چل رہے ہوتے ہیں، اس لئے وہ انسان یہ سوچے کہ اگر یہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا، تو پھر کب ختم ہوگا؟
جواب:
ڈاکٹر صاحب سے پوچھیں کہ انسان اگر بیمار ہوجاتا ہے اور پھر ٹھیک ہوجاتا ہے اور پھر اس کے بعد بیمار ہوجاتا ہے اور پھر ٹھیک ہوجاتا ہے، تو کیا یہ اُس شخص سے بہتر نہیں ہے کہ جو بیمار ہو اور پھر ٹھیک ہی نہ ہو؟ اس سے تو بہتر ہے۔ پس یہ چیزیں تو ہمارے ساتھ لگی رہتی ہیں۔ دیکھیں! ہمارا نفس ہر وقت ہماری آنکھوں کے ذریعہ سے، کان کے ذریعہ سے، دماغ کے ذریعہ سے اور جسم کے مختلف اعضاء کے ذریعہ سے اپنی خواہشات کی طرف متوجہ ہے اور دوسری طرف اللہ پاک کے احکامات بھی ہماری طرف متوجہ ہیں، اب جہاں جہاں ہم نے اللہ کا حکم مان لیا، تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور جہاں جہاں اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگئی، تو اس پر اللہ سے توبہ کرنی چاہئے اور اللہ پاک سے مدد مانگنی چاہئے اور اس کی اصلاح کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ اس طرح فرمایا ہے کہ بھائی! اگر آپ پوری روٹی نہیں کما سکتے، تو آدھی تو نہ چھوڑو۔ یعنی کبھی نفس تجھے دبائے اور کبھی تو نفس کو دبائے، یہ حالت اس سے تو بہتر ہے کہ نفس ہی تجھے دبائے۔ لہٰذا اس طرح کوشش جاری رکھیں اور مایوس کبھی بھی نہ ہوں۔ ہمت ہمیشہ جاری رکھیں اور جتنا حاصل ہو، اس پہ شکر کریں اور آئندہ کے لئے ہمت کریں، بس یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
سوال نمبر 26:
حضرت! آپ نے تجلی کی بات فرمائی تھی کہ تجلی صفاتی اور ذاتی ہوتی ہے اور آپ کا ذکر بھی اسی طرح ہی ہے کہ صفاتی سے ذاتی کی طرف جاتا ہے۔ کیا انسان پر جب صفاتی تجلی ہوتی ہے، تو اللہ کی اس صفت کا انسان کو پتا چل سکتا ہے؟ یعنی اگر انسان کو محسوس ہوتا ہے یا بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کے اوپر اگر بڑے سخت حالات ہوں، تو اس کے منہ سے اگر کوئی بات نکل جائے، تو اگلا کہتا ہے یہ کیا بات کردی۔ وہ کہتا ہے کہ نہیں، یہ میں نے اللہ سے بات کی ہے، یعنی اس کے دل میں کوئی تکدر یا اس قسم کی چیز نہیں ہوتی کہ یہ میرے ساتھ کیوں ہوگیا، یعنی اللہ کی محبت میں کوئی کمی نہیں آئی، بالکل زیادہ ہوئی ہے، لیکن منہ سے بات نکل گئی، لیکن اس کو لگتا ہے کہ اللہ مجھ سے اس کی وجہ سے ناراض نہیں ہوا، تو یہ کیا چیز ہے؟
جواب:
دیکھیں! یہ اپنے احوال کی بات ہے اور احوال تو کچھ بھی ہوسکتے ہیں، لیکن شریعت اپنی جگہ پر ہے۔ لہٰذا اگر وہ حال شریعت کے بظاہر خلاف ہے اور آپ کو پتا بھی چل رہا ہے کہ یہ مناسب نہیں ہے، تو اس پہ استغفار کرنا چاہئے اور توبہ کرنی چاہئے، بے شک آپ کو اچھا بھی لگے۔ اس کے اچھا لگنے سے وہ چیز تو تبدیل نہیں ہوتی، وہ چیز اپنی جگہ پر ہے، لہٰذا اس سے توبہ کرنی چاہئے۔ اور توبہ کرنے سے آپ کا وہ اچھا حال ختم نہیں ہوگا، بلکہ اور بہتر ہوگا، کیونکہ توبہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتی ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ آپ کو پتا چل گیا کہ یہ برا حال ہے، تو اس پر توبہ کرنی چاہئے اور آئندہ کے لئے کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھے یعنی ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکالے، جو شریعت کے خلاف ہو۔
سوال نمبر 27:
حضرت! رمضان کے بعد پہلے مہینے میں تو تھوڑے ناغے ہوئے تھے، میں جب باہر تھا، تب تو معمولات ٹھیک چل رہے تھے، میں نے آپ کو بتایا بھی تھا۔ ابھی اس مہینے میں جہری ذکر کا تو الحمد للہ! ناغہ نہیں ہوا، لیکن اس کے بعد پندرہ منٹ مراقبہ کے لئے جب بیٹھتا ہوں تو مشکل ہوتی ہے، اصل میں میرا Thyroid کا مسئلہ ہے، اس لئے palpitation رہتی ہے۔ میرا یہ مسئلہ کافی زیادہ hyper ہے، ابھی اس کے لئے دوائی شروع کی ہے اور Neo-Mercazole بھی روزانہ چھ گولیاں لے رہا ہوں، پہلے بھی علاج شروع کیا تھا، پھر درمیان میں چھوڑ دیا، کیوں کہ میں باہر چلا گیا تھا اور فارمیسی وغیرہ نہیں ہوتی تھی، لیکن اب پھر دوبارہ علاج شروع کردیا ہے، لیکن چوں کہ ابھی مسئلہ موجود ہے، اس لئے مراقبہ میں palpitation start ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے مراقبہ نہیں ہو پا رہا، میں کیا کروں؟
جواب:
ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں، عارضی طور پہ آپ مراقبہ کو چھوڑ دیں اور اپنا دوسرا ذکر کرتے رہیں، ان شاء اللہ ایک ڈیڑھ مہینہ میں یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ Neo-Mercazole اگر آپ نے start کر لی ہے، تو ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گا۔ اس کا diagnosis ہی سب سے مشکل کام ہے، بس diagnose ایک دفعہ ہوجائے، تو پھر اس کا علاج بہت آسان ہے، اس میں کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ اصل میں اس کی theory یہ ہے کہ آپ Thyroid کو پکڑ لو اور اس کو ہلنے نہ دو یعنی کام نہ کرنے دو۔ جب دو سال تک آپ اس کو قابو رکھو گے اور پھر چھوڑو گے، تو وہ اسی condition پر fix ہوجائے گا۔ میرے خیال میں یہ چیزیں تقریباً دو سال تک چلیں گی۔ لیکن ان شاء اللہ ٹھیک جلدی ہوجائے گا یعنی ایک مہینہ ڈیڑھ مہینے کے بعد یہ Normal condition پہ آجائے گا۔ لیکن آپ کو علاج کو جاری رکھیں گے۔ بیماری کے معاملے میں گپ شپ نہیں لگانی چاہئے، بلکہ اس کو سریس لینا چاہئے۔ یہ بیماری خطرناک ہے، لیکن اس کا علاج simple ہے، اگر diagnose ہوجائے، تو اس پہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ لہٰذا فی الحال آپ مراقبہ چھوڑ دیں، کیونکہ واقعی آپ کا ذہن اس طرف جائے گا، تو ایک دم palpitation کی طرف معاملہ چلا جائے گا۔ لیکن palpitation سے آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ فائدہ اس طرح اٹھا سکتے ہیں کہ وہ جو دل زور زور سے کررہا ہے اس وقت آپ یہ تصور کر لیں کہ یہ دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ کر رہا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عمثانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔