اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِۚ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم السجدہ: 30-32)
صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ
اللہ پاک کے بے انتہا کرم سے، اللہ تعالیٰ کے احسان اور فضل سے ہم نے رمضان شریف کے روزے رکھے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ یہ اتنی بڑی نعمت تھی جس کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ رمضان شریف میں رحمت بالکل بارش کی طرح برستی ہے اور وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جو اس سے استفادہ کرتے ہیں اور ایسے اعمال کرتے ہیں جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتے ہیں۔ یہ مہینہ صحیح معنوں میں انسان کا overhauling ہوتا ہے، یعنی دل اور نفس پر جو گناہوں کی، غلطیوں کی، غلط اندازوں کی اور غلط سوچوں کی کثافتیں جمی ہوتی ہیں وہ اکھڑ جاتی ہیں اور اگر ایک انسان اس بات کا خیال رکھے اور اس حالت کو باقی رکھا جائے تو وہ ہمیشہ کے لئے کارآمد ہوجاتی ہیں۔ ابھی جو میں نے آیات کریمہ تلاوت کی ہیں ان میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ﴾ (حم السجدہ: 30)
ترجمہ1: ’’(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔
رب کا لفظ اگرچہ عام ہے، کہ کوئی بھی پالنے والا ہو یا پرورش کرنے والا ہو اس کو رب کہتا جاتا ہے جیسے رب البیت ہوتا ہے، رب المال ہوتا ہے۔ یہ عام لفظ ہے لیکن اس آیت میں اس کو خاص کردیا گیا ہے۔ یعنی جو لوگ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رب ہمارے اللہ ہیں تو گویا کہ اللہ کے علاوہ وہ تمام جن کو رب کہا جاتا ہے، ان سے نگاہ ہٹا کر نگاہ اللہ پر آجائے اور دل و جان سے کہہ اٹھیں کہ رب ہمارے اللہ ہیں۔ لیکن صرف کہنے سے بات نہیں بنتی بلکہ فرمایا:
﴿ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)
ترجمہ: ’’اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔
ثابت قدم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً عارضی طور پر کتنا ہی بڑا event کرلینا کمال کی بات نہیں ہے، کسی کامیابی کو acheive کرنا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے، لیکن اس کامیابی پر قائم رہنا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ سن سن کے بہت شوق سے exercise شروع کرلیتے ہیں، ایک دن خوب جم کے دو تین گھنٹے exercise کرتے ہیں، لیکن دو تین ہفتے میں ان کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے بعد غائب ہوجاتے ہیں۔ پھر کبھی کسی اور کے بارے میں سن کر کچھ دن exercise کرلیتے ہیں، لیکن کچھ دن بعد پھر غائب ہوجاتے ہیں، تو اس سے ان کو exercise کا فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ ممکن ہے کہ نقصان ہی ہو۔ اسی طریقہ سے جو لوگ اپنے اعمال پر استقامت اختیار نہیں کرتے وہ ان اعمال کی پوری برکت حاصل نہیں کرسکتے۔ اس لئے یہاں پر فرمایا: ﴿ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ یعنی پھر اس پر قائم رہے۔
سوال پیدا ہوا کہ قائم کب تک رہنا ہے؟ اس کا جواب ہے موت تک قائم رہے۔ کیونکہ جو اگلے sentence ہیں یعنی:
﴿تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)
ترجمہ: ’’تو ان پر بے شک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ‘‘۔
یہ جملے موت کے وقت کے ہیں۔ یعنی موت کے وقت فرشتے اتریں گے اور ان کے ساتھ ملاقات کریں گے اور ان کو خوشخبری سنائیں گے۔ خوشخبری یہ ہوگی کہ:
﴿اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)
ترجمہ: ’’نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو‘‘۔
خوف مستقبل سے تعلق رکھتا ہے، یعنی آئندہ جو تمہارے ساتھ پیش آنے والا ہے وہ بہت اچھا ہے، فکر نہ کرو ان شاء اللہ بہت اچھا ہوجائے گا۔ اور ﴿وَلَا تَحْزَنُوْا﴾ یعنی جو پیچھے رہ گیا اس کے بارے میں بھی غم نہ کرو۔ وہ بھی بہت اچھا ہوگیا، اب آپ آگے جائیں۔ کیوں؟
﴿وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ (حم السجدہ: 30)
ترجمہ: ’’اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے‘‘۔
اور سبحان اللہ یہ اللہ کا وعدہ تھا۔ اور اللہ کے وعدہ میں کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں ہوتی جیسے فرمایا:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ﴾ (آل عمران: 9)
ترجمہ: ’’بے شک اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا‘‘۔
اس کا مطلب ہے کہ اللہ کا وعدہ بڑا پکا تھا، تمہیں اب وہ جنت ملنے والی ہے۔ پھر ایک عجیب بات فرماتے ہیں، قرآن پاک میں بلاغت بہت زیادہ ہے، اس میں ایک ایک لفظ میں بہت سارے معانی ہوتے ہیں۔ یہاں پر اللہ پاک یہ فرماتے ہیں:
﴿نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِۚ﴾ (حم السجدہ: 31)
ترجمہ: ’’ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے، اور آخرت میں بھی رہیں گے‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کے لئے آخرت میں جانے کے لئے موت ضروری نہیں ہے، وہ تو اِدھر بھی ہوتے ہیں اور اُدھر بھی ہوتے ہیں، ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ جیسے عیسیٰ علیہ السلام زندہ اٹھائے گئے ہیں لیکن وہ آسمانوں میں ہیں، چونکہ وہ زندہ اٹھائے گئے اس لئے دوبارہ واپس تشریف لائیں گے اور اس کے بعد یہاں پہ ان پر موت طاری ہوجائے گی۔ اس وقت ان کے اوپر موت طاری نہیں ہے، کیونکہ وہ زندہ حالت میں دنیا سے اٹھائے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرشتے فرماتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ادھر بھی تھے اور تمہارے ساتھ ادھر بھی جا رہے ہیں۔ پھر آگے بہت بڑی بشارت دے رہے ہیں:
﴿وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ﴾ (حم السجدہ: 31)
ترجمہ: ’’اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جس کو تمہارا دل چاہے‘‘۔
سبحان اللہ!
﴿وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ﴾ (حم السجدہ: 31)
ترجمہ: ’’اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے جو تم منگوانا چاہو‘‘۔
ہر زبان میں دو لفظ ہیں: ایک من چاہی اور دوسرا منہ مانگی، لیکن ان کی حقیقت دنیا میں موجود نہیں ہے۔ ویسے اگر کو مجازًا کہہ دے تو کہہ سکتا ہے لیکن ان کی حقیقت کبھی بھی دنیا میں نہیں ہوسکتی۔ من چاہی کا مطلب جو میرا جی چاہے میں اس کو حاصل کرلوں۔ کوئی کیسا ہی مالدار ہو یا کتنا ہی بڑا بادشاہ ہو یا کتنا ہی بڑا بزرگ ہو، من چاہی والی بات یہاں نہیں ہوسکتی۔ یہ وہاں کی بات ہے۔ من چاہی چیز بھی وہیں ملے گی اور منہ مانگی چیز بھی وہیں ملے گی۔ خوش قسمت لوگ وہ ہوں گے جن کو اللہ پاک یہ سعادت نصیب فرمائیں گے، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ اب سوال پیدا ہوا کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ اللہ پاک نے خود دو لفظوں میں فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)
اس کے علاوہ یہاں تیسرا لفظ نہیں ہے۔ اصل چیز صرف یہ ہے کہ ہم دل و جان سے مان لیں کہ رب ہمارے اللہ ہیں۔ رب کو اللہ ماننے سے نتیجہ کیا برآمد ہوگا؟ انسان رشوت اس لیے لیتا ہے کہ وہ اللہ کو رب منہ سے تو مانتا ہے لیکن دل سے نہیں مانتا۔ سود انسان اس لئے کھاتا ہے کیونکہ وہ دل سے اللہ کو رب نہیں مانتا۔ دھوکہ انسان اس لئے کرتا ہے کیونکہ وہ اللہ کو رب نہیں مانتا، ظلم انسان اسی لیے کرتا ہے کہ اللہ کو رب نہیں مانتا، چوری بھی انسان اس لئے کرتا ہے کیونکہ اللہ کو دل سے رب نہیں مانتا، یعنی زبان سے انکار نہیں کرتا کیونکہ اگر زبان سے بھی انکار کردیا تو کافر ہوجائے گا، گویا دل کا یقین حاصل نہیں ہوتا جبکہ انسان کی زندگی یقین سے بدلتی ہے، کہنے سے نہیں۔ زبان سے کہنے پر وہ اسلام میں داخل ہوتا ہے، کیونکہ کم سے کم درجہ زبان سے کہنا ہے۔ جو شخص زبان سے اقرار کرتا ہے وہ مسلمان ہے، اس کے ساتھ ہم مسلمانوں والا معاملہ کریں گے۔ اس کے دل کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اللہ پاک جانتا ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے، اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اس وجہ سے میں عرض کررہا ہوں کہ اگر کوئی شخص اللہ کو رب مان لے، جان لے، تسلیم کرلے اور اس کے مطابق اس کے اعمال صادر ہونے لگیں تو اس کی زندگی بدل گئی۔ اب اس کی زندگی عام زندگی نہیں ہے، وہ زندگی ایک ولی اللہ کی زندگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا﴾ یہ صفت اولیاء اللہ کی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (یونس: 62)
ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
لیکن یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ ولی اللہ بنے کیسے ہوں گے؟ یہاں تو ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ فرمایا گیا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا:
﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾ (یونس: 63)
ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقویٰ کیے رہے‘‘۔
وہاں پر بھی دو لفظ ہیں: ﴿الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾ کہ جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ اختیار کرلیا۔ اور یہاں پھر بھی دو لفظ ہیں: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾۔ اس کا مطلب ہے یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں۔ یعنی جنہوں نے کہا کہ رب ہمارے اللہ ہیں اور اس پر استقامت اختیار کی۔ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے۔ اس طرح یہ اللہ کے ولی بن جائیں گے۔ اور جو اللہ کے ولی ہیں ان کے لئے وہ ساری چیزیں ہیں جو بیان کی گئی ہیں۔ روزہ کس لئے ہے، قرآن پاک میں اللہ پاک نے اس کا بھی بتا دیا ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 183)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہارےاندر تقویٰ پیدا ہو‘‘۔
یہاں خطاب ایمان والوں سے ہے کہ اے ایمان والو! تم پر رمضان شریف کے روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پچھلوں کے اوپر فرض تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کرلو۔ یعنی ہم پر روزہ اس لئے فرض کیا تاکہ ہم تقویٰ حاصل کرلیں۔ معلوم ہوا کہ روزہ سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ اور چونکہ ایمان والوں سے خطاب ہے، اس سے پتا چلا کہ روزہ ایمان اور تقویٰ کو ملا دیتا ہے اور اگر انسان روزے کے تمام تقاضوں پر عمل کرلے تو یہ اس کو ولی اللہ بنا دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ روزے کے تقاضے کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل کی صورت میں بہت بڑی دولت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر ہم تھوڑی سی بھی عقل استعمال کرلیں تو بہت زبردست قسم کا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
دیکھیں! اللہ پاک نے روزے میں محدود وقت کے لئے تین چیزوں سے روکا۔ وہ تینوں چیزیں یعنی کھانا پینا اور مباشرت، یہ ویسے تو جائز ہیں لیکن اللہ پاک نے اس کو ان کاموں سے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک تیس یا انتیس دن تک روک دیا کہ یہ نہیں کرنے۔ اس سے روزہ واقع ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ روزہ کتنا زبردست ہے یا کتنا تقویٰ والا ہے؟ یہ بات یہیں پوری نہیں ہوتی، بلکہ آگے کی چیز ہے۔ مثال کے طور پر میں ایک دیوار کھڑی کرتا ہوں۔ اب دیوار تو میں نے کھڑی کردی، لیکن اس کے اندر طاقت کتنی ہے، یہ اس کے material پر منحصر ہے کہ میں نے اس میں کون سا material استعمال کیا ہے۔ میں نے لوہا استعمال کیا ہے، concrete استعمال کیا ہے، اینٹ استعمال کی ہے، مٹی استعمال کی ہے یا گارا استعمال کیا ہے۔ جو چیز میں نے استعمال کی اس کے حساب سے دیوار میں طاقت ہوگی۔ اسی طریقہ سے روزہ کے اندر تقویٰ کی طاقت لانے کے لئے بھی کچھ چیزیں ہیں۔ جس اللہ نے انسان کو ان تین چیزوں سے محدود وقت کے لئے روکا ہے، اُس اللہ نے انسان کو کچھ مزید چیزوں سے ہمیشہ کے لئے روکا ہوا ہے۔ ان سے رکنے کے لئے روزہ شرط نہیں ہے۔ مثلًا جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، دھوکہ دینا، ظلم کرنا، زبردستی کسی کا مال چھیننا، نماز نہ پڑھنا، زکوٰۃ نہ دینا، فرض ہونے کے باوجود حج نہ کرنا وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں اللہ جل شانہٗ نے ہمیشہ کے لئے ہم پر لازم کی ہیں کہ ان غلطیوں کا ارتکاب نہیں کرنا۔
جب یہ پتہ چل گیا کہ کچھ چیزیں روزے میں ممنوع ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لیے ممنوع ہیں، تو ہمیشہ والی چیزوں کی ممانعت ان محدود اوقات میں زیادہ بڑھ جائے گی۔ اگر کوئی شخص مسجد کے باہر کوئی غلطی کررہا ہو مثلًا جھوٹ بول رہا ہو یا کوئی گالی دے رہا ہو، تو اس کا گناہ ہے، لیکن اگر کوئی مسجد میں یہ حرکت کرے تو یہ بڑا گناہ ہے اور اگر حرم شریف میں یہی حرکت کرے تو اس گناہ کی سختی مزید بڑھ جائے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان زمانًا یا مکانًا جس قدر پاکی کے ماحول میں جاتا ہے تو اس کی ناپاکی زیادہ شدید ہوتی جاتی ہے، اور یہ اصولی بات ہے۔ چنانچہ اگر میں رمضان شریف میں روزے کی حالت میں جھوٹ بولوں تو کیا مجھے تقویٰ حاصل ہوگا؟ میں اگر دھوکہ کروں تو کیا مجھے تقویٰ حاصل ہوگا؟ کیا میں نماز چھوڑ دوں تو تقویٰ حاصل ہوگا؟ کسی کے اوپر ظلم کرلوں تو کیا تقویٰ حاصل ہوگا؟ اس طرح تو میں نے جانا ہی نہیں ہے کہ تقویٰ کیا ہے۔ سب سے پہلے کسی چیز کا علم ہوتا ہے، اس کے بعد نظر آنا شروع ہوتا ہے، اور اس کے بعد سمجھ آنا شروع ہوتا ہے۔ تو ایک ہوتا ہے علم الیقین، دوسرا ہوتا ہے عین الیقین اور تیسرا ہوتا ہے حق الیقین۔
اگر مثال کے طور پر میں نے تقویٰ کا مفہوم ہی نہیں سمجھا کہ تقویٰ کیا چیز ہے تو میں کیسے تقویٰ حاصل کروں گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر میں نے رمضان شریف کے اندر کچھ تقویٰ حاصل کیا ہے تو یہ بہت بڑی دولت ہے، اللہ اس کو سلامت رکھے۔ سبحان اللہ! تقویٰ بند دروازوں کو کھولنے والی چیز ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا﴾ (الطلاق: 2)
ترجمہ: ’’اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا‘‘۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرہ: 2)
ترجمہ: ’’یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے‘‘۔
قرآن پاک تقویٰ والوں کے لئے ہدایت کی کتاب ہے۔ اگر کوئی قرآن پڑھتا ہے لیکن اس سے ہدایت حاصل نہیں کرتا تو اس کو قرآن کا ثواب تو ہوگا، لیکن اس کو ہدایت نہیں ملے گی، ہدایت تقویٰ والوں کو ملے گی۔ اس طرح تقویٰ کے ذریعہ سے ہمیں ساری چیزیں مل جاتی ہیں۔ اس لئے جو نعمت ہم نے حاصل کی ہے اللہ ہمیں یہ صحیح معنوں میں نصیب فرما دے۔ تقویٰ کو سنبھال کے رکھنا ہے، اس کو بڑھانا ہے، اس کو کم نہیں ہونے دینا۔ ورنہ پھر وہی حال ہوگا جیسے ایک آدمی دوسرے ملک میں کام کرے اور وہاں بہت سارا مال کمائے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے وہ مال سونے، platinum اور مختلف قیمتی دھاتوں کی صورت میں اپنے ساتھ لا رہا ہو، جیسے ہی وہ ایئرپورٹ سے کسی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف نکلے تو راستے میں ڈاکو وہ مال لوٹ لیں۔ اب یہ اپنے گھر مال تو نہیں پہنچا سکا، صرف حسرت، پریشانی، تکلیف اور دکھ گھر پہنچائے گا۔ اسی طریقہ سے اگر ہم نے رمضان شریف میں کچھ حاصل کیا اور عید کے بعد شیطان آزاد ہوگیا اور اس نے ہمارا سب کچھ لوٹ لیا تو ہمارے پاس تو اس وقت کچھ بھی نہیں رہا۔ لہٰذا اس وقت Emergency grounds پر اپنی protection کرنی ہے اور اپنے آپ کو بچانا ہے ورنہ جو کچھ کمایا ہے وہ ضائع ہوسکتا ہے۔ ایک دفعہ میں سکردو گیا، سکردو شمالی علاقہ جات میں بہت دور ہے۔ میں وہاں سے واپس آرہا تھا تو گلگت کے پاس میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑ پہ برف جمی ہوئی ہے۔ اکتوبر کا مہینہ تھا، اور اکتوبر کے مہینے میں گرمی گزر جاتی ہے۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ گرمیاں گزر گئیں، لیکن اس پہاڑ پر ابھی تک برف جمی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ گرمی اس برف کو نہیں پگھلا سکی۔ اس کے بعد سردیاں شروع ہونے والی ہیں، اب پھر برفباری شروع ہوگی تو اس پہ مزید برف پڑے گی۔ اگر اگلی گرمی بھی اس کو نہ پگھلا سکی تو اس کی تہہ مزید موٹی ہوجائے گی، اس طرح موٹی ہوتے ہوتے یہ glacier بن جائے گی اور بہت مفید پانی کا ایک source ہمارے پاس آجائے گا۔ اسی طریقہ سے اگر ایک رمضان میں ہم نے محنت کے ذریعہ سے تقویٰ حاصل کیا ہے، نیکیاں حاصل کی ہیں وہ ہمارے پاس ہیں۔ ہم ان کو بچاتے ہوئے پورا سال اس طرح گزار لیتے ہیں کہ وہ سارا ضائع نہیں ہوتا، کافی حصہ ہمارے پاس بچ جاتا ہے اور پھر اگلا رمضان شریف آجاتا ہے اور ہم رمضان شریف میں پھر محنت کرکے نیکیوں کو مزید بڑھا دیتے ہیں تو اس طرح بچتے بچاتے پوری زندگی گزار کے اَلْحَمْدُ للہ اپنے ساتھ بہت مفید اعمال کا ذخیرہ لے جا سکیں گے جو وہاں پر ان شاء اللہ کام آئے گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کماتے رہیں گے اور ضائع کرتے رہیں گے۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ رمضان شریف کی نیکیوں کو اور رمضان شریف میں حاصل شدہ تقویٰ کو بچانے کے لئے ہم Emergency ground پر محنت کریں۔
وہ محنت کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے اس کی Root cause کو سمجھنا ہوگا کہ نیکیاں کیوں ختم ہوتی ہیں، کس وجہ سے انسان خراب ہوتا ہے، اور کس وجہ سے انسان کو نقصان ہوتا ہے۔ ماحول ایک حقیقت ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ میں تو سائنس کے قاعدہ کے لحاظ سے کہتا ہوں کہ اگر آپ تھوڑا سا گرم پانی اور تھوڑا سا ٹھنڈا پانی لے کر ان کو آپس میں ملائیں تو گرم پانی تھوڑا ٹھنڈا ہوجائے گا اور ٹھنڈا پانی تھوڑا گرم ہوجائے گا۔ جب یہ صورتحال ہے تو اگر اچھے لوگ اور برے لوگ آپس میں اکٹھے ہوجائیں تو بروں کو اچھے لوگوں کے ساتھ ملنے کی وجہ سے تھوڑا سا فائدہ ہوجائے گا اور اچھے لوگوں کو بروں ہے ساتھ ملنے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ نقصان ہوجائے گا۔ یہ ایک قدرتی بات ہے، اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آسکے۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو سوال پیدا ہوا کہ اچھے لوگ اپنے آپ کو کیسے بچائیں کہ ان کو بھی نقصان نہ ہو اور دوسروں کو بھی فائدہ ہوجائے۔ اس کا ایک طریقہ ہے جو حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں موجود ہے۔ حضرت ماشاء اللہ اس صدی کی بہت بڑے شخصیت ہیں جن کی field ہی لوگوں کو نصیحت کرنا، لوگوں کو راہ حق پر لانا تھی۔ اس کے لئے انہوں نے پوری دنیا میں خیر پھیلانے کی ایک پوری ترتیب بنائی۔ اس بات کو ہم سب مانتے ہیں، دشمن بھی مانتے ہیں اور دوست بھی مانتے ہیں، اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ان کے ملفوظات کو سنیں کہ آخر انہوں نے اس کام کے دوران اپنی حفاظت کیسے کی تھی۔ باقی لوگ تو یہ نہیں بتاتے البتہ انہوں نے بتا دیا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ میں جب میوات گشت کے لئے جاتا ہوں تو صالحین کی صحبت کے ساتھ جاتا ہوں۔ یعنی پہلی حفاظت یہ ہے کہ جماعت میں نیک لوگوں کے ساتھ صحبت رہے تاکہ مجھے نقصان نہ ہو۔ آگے جا کر فرماتے ہیں کہ اس کے باوجود جب میں گشت پہ جاتا ہوں تو مجھے اپنے دل میں کچھ فرق محسوس ہوتا ہے۔ پھر اس کمی کو دور کرنے کے لئے میں سہارنپور شریف کی خانقاہ جاتا ہوں یا رائے پور شریف کی خانقاہ جاتا ہوں یا مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ حضرت نے تین چیزیں جگہیں بتائیں ان میں سے دو تو خانقاہیں ہیں، کیونکہ ایک خانقاہ یعنی سہارنپور والی میں حضرت خود بنے تھے اور دوسری خانقاہ ما شاء اللہ ان کے بزرگوں یعنی شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی تھی جن کا مزار سرگودھا میں ہے۔ حضرت وہاں سے بھی فیض لیتے رہے تھے۔ ان دو خانقاہوں کے ساتھ تو یہ تعلق تھا لیکن اگر وہاں جانے کا موقع نہ ملے تو پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔
مسجد میں اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ انسان اپنے ماحول کے شر سے اپنے آپ کو کیسے بچاتا ہے۔ معتکف ذنوب یعنی گناہوں سے بچا رہتا ہے۔ کیونکہ گناہ ماحول کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کسی کے ساتھ بیٹھیں گے تو کوئی جھوٹ کی بات ہوگی، کوئی غیبت کی بات ہوگی، کوئی چغلی بات ہوگی، کچھ اور بات ہوگی۔ اگرچہ ملنے جلنے میں حرج نہیں ہے، ہم بھی ملتے جلتے ہیں، سب ملتے جلتے ہیں لیکن اپنی حفاظت کے ساتھ ملتے ہیں۔ جب انسان مثلًا سہ روزہ یعنی تین دن کے لئے مسجد میں اعتکاف کے لیے آتا ہے تو کم از کم تین دن تک ذنوب سے بچا رہا۔ اس کی سند ایک حدیث شریف ہے جس کے ذریعے سے ما شاء اللہ اس کی explanation ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بری صحبت سے خلوت اچھی ہے اور اچھی صحبت خلوت سے بھی اچھی ہے۔ جب یہ بات سمجھ میں آگئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی خدانخواستہ برے ماحول میں ہے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ خلوت میں چلا جائے اور اگر اس کو اچھا ماحول ملتا ہے تو خلوت چھوڑ کے اس میں چلا جائے۔ اور اگر اس کو خلوت میں ہی جلوت مل جائے یعنی کوئی اللہ والا شیخ ہو جس کی صحبت بھی میسر ہو تو پھر نور علی نور ہے۔ یعنی یہ شخص بروں سے بچ گیا اور اچھوں کے ساتھ ہوگیا۔ گویا کہ اس کے اندر ایک پورا انتظام ہے۔ خانقاہوں کا بنیادی concept اسی حدیث شریف پر ہے کہ آپ خلوت میں رہیں اور شیخ کے ساتھ ہوں تو نتیجتًا آپ ماحول سے کٹے رہیں گے۔ جو برائیاں آپ کو لگ سکتی ہیں آپ ان سے بچے رہیں گے۔ جب آپ درست ہوجائیں اور دوسروں کو دینے کے قابل ہوجائیں تو باہر چلے جائیں اور لوگوں کو دے دیں۔ پھر ان سے کچھ لیں تو دوبارہ واپس آجائیں۔
ہمارے پاس اس کی ایک بہترین مثال Central Heating System ہے، یہ سسٹم یورپ میں ہوتا ہے۔ اس میں ایک بہت بڑا گیزر ہوتا ہے اس گیزر سے hot water کے pipes کمروں کی طرف آتے ہیں جہاں ان کو پہنچانا ہوتا ہے، وہاں پہنچ کر یہ پانی پھیل جاتا ہے اور اس کے سامنے fans لگے ہوتے ہیں۔ پھیلنے کی وجہ سے وہ حرارت کمروں کو مل جاتی ہے اور خود پانی ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ اب یہ ٹھنڈا پانی دوبارہ پھر گیزر میں چلا جاتا ہے اور وہاں دوبارہ گرم ہو کر پھر واپس آکر کمروں کو گرمی دے کر پھر ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ خانقاہ کا نظام یہی چیز ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے کے قابل ہوجائیں تو ان شاء اللہ دین کا کام بھی کریں گے اور خراب بھی نہیں ہوں گے۔ اور اگر ایسا نہیں ہوا بلکہ ہم نے یک طرفہ کاروائی کرلی کہ ہم تو اچھے ہیں، ہمیں تو کچھ بھی نہیں ہوگا، تو کچھ ہی دیر بعد پتا چل جائے گا کہ آپ کا دین کا کام بھی دنیا بن جائے گا۔ اس کو بدلتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ مثلاً مجھے یہ خیال آجائے کہ میں کتنا اچھا نمازی ہوں، تو یہ کیا دین ہے یا دنیا بن گئی؟ اس طرح یہ سوچنا کہ میں کتنا اچھا حاجی ہوں، میں بزرگ بن گیا، میرے علاوہ سارے لوگ خراب ہیں وغیرہ۔ یہ ساری چیزیں غلطی کی طرف چلی جائیں گی اور اتنی آہستہ آہستہ جائیں گی کہ آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ برائی اس طرح آہستہ آہستہ رینگتے رینگتے آتی ہے۔ شیطان اتنا فوری حملہ نہیں کرتا، وہ ہر ایک کو دیکھتا ہے، عالم کے ساتھ عالم والا معاملہ کرتا ہے جاہل کے ساتھ جاہل والا معاملہ کرتا ہے۔ scientist کے ساتھ scientist والا معاملہ کرتا ہے اور ڈاکٹر کے ساتھ ڈاکٹر والا معاملہ کرتا ہے۔ ہر ایک کے ساتھ اپنا اپنا معاملہ کرتا ہے۔ اس کو سب کے ساتھ deal کرنے کے طریقے آتے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ سب کو خراب کرتا ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو اپنی حفاظت کرنی ہے اور اپنی حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ اچھے ماحول یعنی صالحین کی صحبت میں آجائیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119)
ترجمہ: ’’اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو‘‘۔
صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ صادقین کے ساتھ ہونے کا مطلب ہے کہ ان کی طرح ہوجاؤ، ان کے ساتھ بیٹھنا شروع کردو ان سے لینا شروع کردو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس راستے تو موجود ہیں کہ صحبت صالحین حاصل کریں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں سورۃ فاتحہ میں ایک دعا سکھائی ہے، میں دعا کرتا ہوں اللہ مجھے توفیق دے کہ میں اس کو پوری دنیا کے ہر مسلمان تک پہنچاؤں۔ اللہ مجھے اس کے لئے قبول فرمائے، یہ بہت بڑی دعا ہے۔ سورۃ فاتحہ کا مفہوم اگر کسی کو سمجھ آجائے تو اس کی زندگی بدل سکتی ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ (الفاتحۃ: 3-1)
ترجمہ: "تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے۔ جو روز جزا کا مالک ہے"
یہ اللہ پاک کا تعارف ہے۔ پھر اس کے بعد فرمایا:
﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ﴾ (الفاتحۃ: 4)
ترجمہ: "ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہی مدد مانگتے ہیں"
یہ ہمارا اللہ کے ساتھ تعلق کا system بن گیا۔ اس کے بعد اصل چیز جو ہم اللہ پاک سے مانگتے ہیں یعنی:
﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾ (الفاتحۃ: 5)
ترجمہ: "ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما"۔
پھر اللہ پاک خود ہی طریقہ بتاتے ہیں کہ سیدھا راستہ کون سا ہے:
﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ﴾ (الفاتحۃ: 6)
ترجمہ: "ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا"۔
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ہے۔
﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ﴾ (الفاتحۃ: 7)
ترجمہ: "نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں"۔
نہ ان لوگوں کا راستہ جن پہ غصہ ہے تیرا اور نہ وہ جو گمراہ ہوچکے ہیں۔ اِن سے بچنا ہے اور اُن کا راستہ حاصل کرنا ہے جن پر اللہ پاک نے انعام کیا۔ انعام یافتہ لوگوں کے بارے میں اللہ پاک قرآن میں ایک جگہ خود ہی فرماتے ہیں کہ وہ لوگ انبیاء ہیں، صدیقین ہیں، شہداء ہیں اور صالحین ہیں۔ اب انبیاء تو چلے گئے، صدیقین بہت تھوڑے ہوتے ہیں، شہداء کا پتا ہی اس وقت چلتا ہے جب وہ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، تو باقی صالحین رہ گئے۔ تو اگر ہدایت چاہتے ہو تو ان صالحین کو پکڑلو۔ شیخ ہاشم صاحب ایک مرتبہ بیان کے لئے اسلام آباد تشریف لائے تھے، میں بھی ان کا بیان سننے کے لئے گیا، جب ہم پہنچے تو بیان تقریبًا ختم ہونے والا تھا، ہم نے ان کا آخری فقرہ سنا کہ You should be with Allah if not, you should be with those who are with Allah تمہیں اللہ کے ساتھ ہونا چاہئے، اور اگر تمہارے لئے یہ ممکن نہیں تو اللہ والوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ حضرت نے یہ بہت ہی خوبصورت بات کی۔ اس کا مطلب ہے اللہ تک پہنچنے کا راستہ ہی اللہ والوں تک پہنچنا ہے، پہلے اللہ والوں تک پہنچو گے پھر اللہ تک پہنچو گے۔ کیا ڈاکٹر کے ساتھ practice کیے بغیر ڈاکٹری حاصل ہوتی ہے؟ پانچ سال مسلسل پڑھنے کے باوجود بھی House job کی ضرورت ہوتی ہے۔ وجہ ہے کہ practice کرنی ہوتی ہے۔ اس کو عملی طور پر باقاعدہ سیکھنا ہوتا ہے۔ یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ عملی طور پر ڈاکٹری کیسے کی جاتی ہے، اس کے بعد انسان کو ڈاکٹری کا پتہ پتا چلتا ہے۔ اس لئے جس نے اللہ والوں اور صالحین کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کردیا تو ما شاء اللہ اس کو حسب توفیق اور حسب استعداد ہدایت ملنا شروع ہوجائے گی۔
بہرحال میری عرض یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی زندگی بدلنے کی کوشش کریں۔ اس سے پہلے یہ کام کرلیں کہ جو زندگی بدلی ہے اس کو maintain رکھیں۔ اس کو maintain رکھنے کے لئے استقامت ہے اور استقامت کا ذریعہ یہ ہے کہ صالحین کی صحبت کو پکڑو تاکہ کم سے کم leakage ہو۔ اس کے بعد اعمال کا سلسلہ ان شاء اللہ قائم رہے اور بڑھتا رہے، کم نہ ہو۔ میں کہتا ہوں کہ اللہ پاک نے ہمیں بڑی تسلی دی ہے، اللہ پاک ہم سب کو اس کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی تسلی پہ بات ختم کرتا ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔
اللہ کو بہت سارے راستوں کا پتا ہے اور اللہ ہدایت ضرور دیتا ہے، لیکن ہم ہدایت طلب تو کریں۔ طلب کا مطلب ہے کہ اگر آپ کو کہا جائے کہ آپ کی ایک دعا قبول ہوگی تو کون سی دعا کرو گے؟ اس وقت جو دعا آپ کی زبان پر آئے گی وہ آپ کی طلب ہے۔ اس لئے ہدایت ہماری طلب ہوجائے۔ دو دعائیں ہمیں ہمیشہ کرنی چاہئیں، ایک ہدایت مانگنی چاہئے، یہ ہمیں قرآن شریف میں سورۃ فاتحہ نے سکھا دی جو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں مانگتے ہیں۔ لیکن تھوڑا سا اللہ کی طرف حاضر ہوجائیں، نماز میں ہم سمجھیں کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں۔ دوسری چیز جس پر اللہ خوش ہوتے ہیں وہ ہے عافیت مانگنا۔ ’’اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ‘‘ کہ اے اللہ میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عفو و عافیت مانگتا ہوں۔ کم از کم یہ دو دعائیں لازمی کیا کریں۔
مجھے خوب یاد ہے کہ ہمارے ایک ساتھی تھے جو آزاد خیال type لوگوں جیسے تھے۔ میرے ساتھ دفتر میں تھے۔ دفتر میں جب اس قسم کے لوگ ساتھ ہوتے ہیں تو ان کو بتانا بھی ذرا مشکل ہوتا ہے، اس وجہ سے میں بڑی احتیاط سے ان کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن ہم سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مقالہ پڑھ رہے تھے، جب ہم نے وہ مقالہ پڑھ لیا تو ان کے ہاتھ اٹھ گئے اور زبان سے بے اختیار نکلا: یا اللہ مجھے ہدایت دے دے۔ انہوں نے جیسے ہی یہ دعا کی تو میرے دل نے کہا کہ ان کی دعا قبول ہوگئی ہے۔ مجھے اس حد تک یقین تھا، لیکن یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ قبولیت ظاہر کب ہوتی ہے۔ ایک مہینہ گزر گیا، میں نے کہا پتا نہیں کیا ہوا۔ ان کے ایک دوست کے سامنے جو میرے بھی دوست تھے، میری زبان سے ایک بات نکلی، میں نے کہا یار ان کو سمجھا دو، ان کی دعا شاید قبول ہوگئی ہے اور اللہ جب ہدایت دیتا ہے تو اس کے دو راستے ہیں یا تو بندہ خود آجاتا ہے یا strature پہ لایا جاتا ہے۔ جیسے کبھی کبھی Operation theater میں strature پہ لے جایا جاتا ہے، اس طرح اللہ کی طرف بھی کبھی کبھی strature پہ لایا جاتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کو strature پہ لایا جائے۔ یہ بات ہوگئی۔ چند دن گزرے تو پتا چلا کہ ان کا accident ہوگیا ہے، چھ مہینے تک وہ چارپائی پہ پڑے رہے اور اسی حالت میں تبدیل ہوگئے، ساری چیزیں چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ نے سب کچھ ٹھیک کردیا۔ نمازیں بھی پڑھنا شروع کردیں، روزے بھی رکھنے لگے، ما شاء اللہ لمبی داڑھی بھی رکھ لی، اور تسبیح بھی کررہے ہیں۔ میں نے کہا اللہ پاک ہدایت اس طرح دیتے ہیں، آسان طریقہ یہ ہے کہ خود ہی آجاؤ، کیونکہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ اس کو لانا ہے، تو اس کے لئے لانا کوئی مشکل نہیں ہوتا، کبھی ہتھکڑی لگا کے لاتے ہیں، کبھی strature پہ لاتے ہیں، کبھی تھپڑ لگوا کے آتے ہیں اور کبھی کسی اور طریقہ سے لاتے ہیں، وہ ذرا مشکل طریقے ہیں۔ اس لئے آسان طریقہ اختیار کرلو یعنی اللہ والوں کی صحبت اختیار کرلو۔ ہدایت مانگنا شروع کردو اور ہدایت کو حاصل کرنے کے طریقہ پہ چلنا شروع کردو۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
- (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔