اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں روزے کا ذکر تقویٰ کے حصول کے لئے فرمایا ہے۔ اسی طرح نماز کے بارے میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ نماز فواحش اور منکرات سے بچاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ روزہ اور نماز کی جو خاصیتیں بیان فرمائی گئی ہیں کیا یہ فرض روزہ اور فرض نماز کے ساتھ مشروط ہيں یا نوافل کے ذریعے بھی ان خاصیتوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟ نیز شوال کے 6 روزوں کے بارے میں جو حدیث شریف میں آیا ہے، کیا یہ روزہ کی خاصیت یعنی تقویٰ کے حصول کے اعتبار سے ہے یا اس کے اجر کے لحاظ سے ہے؟ یعنی شوال کے نفلی 6 روزے اور دیگر مہینوں کے نفلی 6 روزے اجر کے لحاظ سے ایک جیسے ہیں یا ان میں فرق ہو گا؟
جواب:
سوال بالکل واضح ہے، اس میں صرف ایک بات سمجھانی ہے کہ ایک ہوتا ہے کسی عمل کا اثر، اور ایک ہوتا ہے کسی عمل کا اجر۔ جہاں تک اثر کی بات ہے تو نفل نماز پڑھیں گے تو اس کا بھی وہی فائدہ ہے جو فرض نماز کا ہے۔ یعنی عبدیت اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی برکت سے انسان فواحش سے رکتا ہے۔ اور روزہ میں انسان تین چیزوں سے رکتا ہے یعنی نفس پر پیر رکھتا ہے، پس نفلی روزہ بھی رکھے گا تو اس کا وہی اثر ہو گا۔ البتہ ماحول کا اثر ضرور ہوتا ہے، مثلاً رمضان شریف میں سارے لوگ روزے رکھتے ہیں، تو اس کا اثر پورے ماحول پر آتا ہے۔ جبکہ نفلی روزے کوئی کوئی رکھتا ہے، لہٰذا اس کے لحاظ سے اس کا اثر انفرادی ہوتا ہے۔ اسی طرح مردوں کی فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور فرض ہونے کی وجہ سے باقاعدگی کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، لہٰذا اس کا اثر اس کے حساب سے ہوتا ہے۔ اور نفل چونکہ انفرادی ہوتا ہے اس لئے اس کا اثر بھی انفرادی ہوتا ہے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ البتہ جہاں تک فرق کا سوال ہے، تو ضرور فرق ہے۔ کیونکہ فرض نماز کے اجر تک نفل نہیں پہنچ سکتے۔ لیکن فرائض محدود ہیں، یعنی وہ خاص تعداد کی رکعتیں ہوتی ہیں۔ جیسے فجر میں دو رکعات فرض ہیں، ظہر میں چار رکعات فرض ہیں، عصر کی بھی چار رکعات ہیں، مغرب کی تین رکعات ہیں اور عشاء کی چار رکعات فرض ہیں اور تین رکعات وتر (واجب) ہیں۔ ان کا اجر یقیناً بہت زیادہ ہے، اتنا زیادہ اجر ہے کہ اگر فرض کسی سے رہ جائے تو چاہے ساری عمر نفل پڑھے، اس اجر کو حاصل نہیں کر سکتا۔ لہٰذا فرائض کا اہتمام بہت زیادہ ہونا چاہیے کہ کہیں وہ رہ نہ جائیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ نفل قیامت میں فرائض کی تکمیل بھی کریں گے۔ یعنی اگر کسی سے فرض رہ گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نوافل سے ان کی تکمیل کروا دے گا۔ لہٰذا نوافل کا اچھا خاصا کوٹہ اپنے ساتھ رکھنا چاہیے۔ بہر حال شوال کے چھ روزوں کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ شیطان کے آزاد ہونے کی وجہ سے ماحول کے اندر جو ایک بگاڑ آنا شروع ہو جاتا ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ روزے رکھنے کا فرمایا گیا ہے تاکہ اس کے سامنے بند باندھا جا سکے اور آدمی اس سے محفوظ رہ سکے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ