اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْد
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ پنجم صفحہ 133 پر نماز کے متعلق فرماتے ہیں۔ تمام عبادات بلکہ تمام مذاہب کا مقصد تکمیل اخلاق ہے لیکن اصلاح اخلاق کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ نفس ہر وقت بیدار اور اثر قبول کرنے کیلئے آمادہ رہے۔ تمام عبادات میں صرف نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جو نفس کو بیدار رکھ سکتی ہے۔ یہاں حضرت نے نفس کو بیدار رکھنے کیلئے نماز کی اہمیت ذکر فرمائی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نماز انسان کے نفس کو بیدار رکھتی ہے تو پھر ان لوگوں میں جو باقاعدگی کے ساتھ نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں اخلاقی کمزوریاں کیوں ظاہر ہوتی ہیں؟
جواب:
ان اخلاقی کمزوریوں کے دو اسباب ہو سکتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے طور پہ influential ہیں۔ پہلی چیز غفلت ہے۔ اس پر میں متعدد بار کافی تفصیلی بات کر چکا ہوں۔ غفلت کی وجہ سے انسان حکم عدولی کر سکتا ہے، گناہ کر سکتا ہے۔ اگر اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کمزور ہو اور فوری طور پر توجہ نہ قائم رہ پائے تو یہ غفلت گناہ کا سبب بن جاتی ہے۔
دوسرا سبب ہے نفس کے فوری ہیجان کا غالب آ جانا۔ اگر کسی معاملے میں نفس میں زور پیدا ہو اور نفس کا تزکیہ نہ کیا گیا ہو تو انسان گناہ پہ آمادہ ہو سکتا ہے۔ اگر نفس کا اتنا تزکیہ کیا گیا ہو گا کہ اس کو قابو کیا جا سکے تب انسان ایسے مواقع پر نفس پہ غالب آ کر گناہ سے بچ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک جانور اڑی کرتا ہے۔ ایک شخص کو معلوم ہے کہ جانور کو کیسے قابو کیا جاتا ہے لیکن وہ غافل ہے اس کا دھیان جانور کی طرف نہیں ہے، تو اس علم کے باوجود وہ جانور نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اسی طرح مثال کے طور پر ایک آدمی ڈرائیونگ کر رہا ہے، اسے ڈرائیونگ اچھی طرح آتی ہے لیکن وہ غافل ہے، ڈرائیونگ کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ رہا ہے، موبائل پہ بات کر رہا ہے، غفلت کا مظاہرہ کر رہا ہے، تو ممکن ہے اس غفلت کی وجہ سے اس کا ایکسیڈنٹ ہو جائے۔ اب ایک صورت تو یہ ہے کہ ڈرائیونگ مکمل آتی ہے مگر غفلت کا مظاہرہ ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس شخص کو ڈرائیونگ ہی نہیں آتی، اناڑی ہے، تو یہ آدمی ڈرائیونگ کرتے ہوئے خوب alert بلکہ over-alert ہے۔ جس طرح جو لوگ نئی نئی ڈرائیونگ کرتے ہیں وہ سٹیرنگ پہ زور لگاتے ہیں، حالانکہ سٹیرنگ پہ زور لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی اسے صرف گھمانا ہوتا ہے، لیکن یہ اس وقت ٹینشن میں ہوتے ہیں اور اس ٹینش کی وجہ over alertness ہوتی ہے۔ تو بعض اوقات اس over alertness کی وجہ سے بھی ایکسیڈینٹ ہو جاتا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسی طرح اگر کوئی نمازی آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کی دونوں وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس انسان نے نفس کنٹرول کرنا سیکھا ہوا ہو لیکن وہ غفلت کا مرتکب ہو رہا ہو، یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے نفس کو کنٹرول کرنا سیکھا ہی نہ ہو اور نفس کے تقاضوں اور ہیجان کے سامنے مغلوب ہو کر گناہ کر جاتا ہو۔
پہلی وجہ یعنی غفلت کو توڑنے کا ذریعہ نماز ہے، کیونکہ نماز ذکر کا بہترین ذریعہ ہے۔
﴿اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ (طہ: 14)
ترجمہ: اور مجھے یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرو۔‘‘
﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕوَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ”نماز بے حیائی اور منکرات سے روکتی ہے اور اللہ کی یادتو بڑی چیز ہے“
یہ ذکر غفلت کا توڑ ہے۔ لہٰذا غفلت کی وجہ سے جو نقصانات اور گناہ ہوتے ہیں وہ نماز کے ذریعے رک جاتے ہیں۔
گناہوں کے دوسرے سبب یعنی نفس کے ہیجان کا علاج یہ ہے کہ جو گناہ نفس کے ہیجان کی وجہ سے ہوتے ہیں ان کے علاج کے لئے نفس کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ ایسے گناہ نماز سے وقتی طور پہ تو رک سکتے ہیں لیکن بعد میں دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔ اور اگر نفس کا غلبہ بہت زیادہ ہو تو نماز بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ کوئی غافل کرنے والی چیز موجود ہو تو وہ آپ کو غفلت میں ڈال سکتی ہے۔ مثلاً آپ اللہ کی طرف جا رہے ہیں لیکن آپ کو کوئی بلا لے اور اس سے آپ کو بڑی محبت ہو تو یہ محبت رکاوٹ بن جائے گی۔ اب آپ اللہ کی طرف نہیں جائیں گے اس کی طرف جائیں گے۔ اس طرح آپ کا نقصان ہو جائے گا، اور نماز بھی متاثر ہو گی۔
ایک نوجوان امام صاحب کا واقعہ ہے جو کسی مسجد میں نماز پڑھاتا تھا۔ مسجد سے ملحقہ ایک کمرے میں اس کی رہائش تھی۔ درمیان میں چھوٹی سی دیوار تھی جسے پھلانگ کے وہ اپنے کمرے جاتا تھا۔ ایک بار اس نے جلدی جلدی نماز پڑھائی اور نماز کے فوراً بعد دیوار پھلانگ کر جلدی سے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے ایک دوست کو اس امام کا یوں جلدی جلدی جانا بڑا عجیب لگا اسے تجسس ہوا کہ کونسی ایسی ضرورت پڑ گئی کہ اتنی جلدی نماز پڑھائی اور پڑھاتے ہی کمرے میں چلا گیا۔ تو وہ بھی امام کے کمرے کی طرف چل پڑا۔ جب وہ پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ٹی وی آن ہے، اور اس پہ کرکٹ کا میچ آ رہا ہے اور امام صاحب بڑے ذوق و شوق سے میچ دیکھ رہا ہے۔
اب دیکھیں کہ اس امام کو کرکٹ کا شوق اتنا زیادہ تھا کہ اس کی نماز متاثر ہو رہی تھی۔ جب اس کی نماز ہی متاثرہ تھی تو وہ اس کو باقی برائیوں سے کیسے روک پاتی۔ کیونکہ وہ اپنے نفس کے فوری تقاضوں کی وجہ سے نماز میں کمی کر رہا تھا۔ اس لئے سب سے پہلے آدمی کو چاہیے کہ اپنی نماز پر محنت کرے، کیونکہ نماز برائیوں سے روکنے والی ہے اور غفلت سے نکالنے والی ہے۔ اور دوسرے نمبر پر اپنے نفس پہ قابو پائے۔ نفس کو قابو کرنے کے لئے الگ نظام طے کرنا پڑتا ہے۔ جس طرح غفلت کو دور کرنے میں نماز اہم کردار ادا کرتی ہے اسی طرح نفس پہ قابو پانے میں روزہ کا بہت بڑا دخل ہے۔ اس لئے تقویٰ کا تعلق اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
یہ دونوں چیزیں نماز اور روزہ غفلت دور کرنے اور نفس پہ قابو پانے کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل کا حل ہیں۔ آپ ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ان دو باتوں پہ ہی اللہ تعالیٰ سب چیزیں سکھاتا ہے، جیسے نماز کے لئے ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَکْبَر﴿ (العنکبوت: 45) فرمایا ہے۔ اور روزے کے لئے فرمایا ہے ﴿یَآأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ: 183) یہاں روزے کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے کہ روزہ رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ تم تقویٰ حاصل کر لو۔ تقویٰ نفس کی ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان نفس پہ قابو پا لیتا ہے۔ گویا کہ روزے کے ذریعے نفس کی حالت تبدیل ہوتی ہے، وہ اچھائی کے حکم کو قبول کرنے والا بن جاتا ہے، اور نماز اچھائی کا حکم دینے والی چیز بن جاتی ہے۔ جب دونوں چیزیں مل جائیں تب صحیح اور مکمل فائدہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رمضان شریف میں کی جانے والی عبادات بڑی influential ہوتی ہیں۔ ان کا اثر پورا سال رہتا ہے۔ اللہ پاک نےرمضان شریف کا مہینہ اسی لئے رکھا ہوا ہے۔ اس میں overwhelming ہوتی ہے کیونکہ نفس کے اوپر اچھا خاصا قابو آ جاتا ہے۔ دوسری طرف نماز تروایح بھی ہو رہی ہوتی، اور فرض نمازوں کا ثواب اور اثر اپنی اصل سے کئی گنا زیادہ ہو رہا ہوتا ہے۔ اگر کچھ disturbance رہ بھی جائے تو اسے ختم کرنے کے لئے اعتکاف ہے، جس کے بعد کمال حد تک یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ اعتکاف کے دنوں میں ساری چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں، روزہ، فرض نماز، نماز تراویح دوسری نفل نمازیں اور اعتکاف، یہ سب چیزیں جمع ہو جاتی ہیں اس لئے اعتکاف کے دس دنوں میں جتنی اصلاح ہوتی ہے اتنی پورے سال میں نہیں ہوتی۔ لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ ہر چیز کی اپنی ایک مستقل اہمیت ہے، مکمل فائدہ تب ہو گا جب آپ ان تمام چیزوں کو آپس میں interconnect کر کے استعمال میں لائیں گے۔
حبِ مال کی مثال لے لیں۔ یہ ایک بڑی روحانی بیماری ہے۔ اس کے علاج کے لئے ایک سپیشل عمل مقرر کیا گیا، اللہ پاک نے زکوٰۃ کو فرض کر دیا۔ زکوۃ حبِ مال کا توڑ ہے۔
حج کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ حج میں جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ کسی اور عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔ وہ چیز ہے اللہ کا تعلق۔ اللہ کا جیسا تعلق حج سے حاصل ہوتا ہے ویسا کسی اور چیز سے نہیں ملتا۔ حج کے لئے جو جگہ مقرر کی گئی ، خانہ کعبہ اور آپ ﷺ کے شہر میں داخلہ، یہ دونوں چیزیں کسی اور عمل میں نہیں مل سکتیں۔ اس لئے حج انسان کے اندر کچھ خاص تبدیلی لاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ انسان کے تعلق کو بہت ہی زیادہ enhance کر لیتا ہے۔
ہر چیز کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ اللہ کرے کہ ہمیں ان تمام چیزوں کا علم ہو، اس پر عمل ہو اور اس کا فائدہ بھی نصیب ہو جائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِین