اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
تسبیحات: کلمہ سوم، درود ابراہیمی، استغفار سو سو دفعہ۔
لسانی ذکر: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ“ 200 بار، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوْ“ 400 بار، ”حَقْ“ 600 بار اور ”اَللّٰہ“ 500 بار۔
قلبی ذکر: لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح لطیفۂ سرّ، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اَخفٰی پہ دس دس منٹ۔
مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ 15 دن 15 منٹ۔
مراقبہ کے دوران کبھی کبھی نیند کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسم ایک خول کی طرح ہے، اور اس میں کوئی خیالی تصور نہیں رہتا، جیسے جسم کے خول کے اندر کچھ بھی نہ ہو۔ کبھی کبھی 15 منٹ بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے، کبھی کبھی مراقبہ کرنا تو دور کی بات، تصور ہی قائم نہیں ہوتا۔ شاید اپنی حالت صحیح بیان نہیں ہو پا رہی، کبھی بہت اچھی ہوتی ہے اور کبھی کچھ بھی نہیں۔ خواب میں خانہ کعبہ کی زیارت ہوئی، لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں میں اپنے لیے جگہ بناتا ہوا نماز میں شامل ہوتا ہوں تو لوگ نماز پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ابھی آپ یہی ذکر جاری رکھیں، لطائف پر بھی اسی ترتیب سے ذکر جاری رکھیں۔ مراقبۂ صفات ثبوتیہ میں صفات کا تصور ذرا بڑھا دیجیے۔ صفات یہ ہیں کہ اللّٰہ پاک دیکھ رہے ہیں اور اس کا دیکھنا کامل ہے، اللّٰہ پاک سن رہے ہیں اور اس کا سننا کامل ہے، اللّٰہ پاک ارادے کا مالک ہے اور اس کا ارادہ کامل ہے، اللّٰہ پاک ہی واقعی زندہ ہے، اللّٰہ پاک ہی یقیناً موجود ہے اور اللّٰہ جل شانہ نے ہی سب کچھ بنایا ہے اور اللّٰہ ہی سب چیزوں کے مالک ہیں۔ یہ صفات ذہن میں رکھتے ہوئے تصور کریں کہ ان کا فیض اللہ پاک کی طرف سے نبی ﷺ کی طرف، وہاں سے آپ کے شیخ کی طرف اور وہاں سے آپ کی طرف آ رہا ہے۔
میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اللّٰہ پاک کے دیکھنے کا فیض کیا ہو گا، اس کو اچھی طرح سمجھیں، بعض لوگ کہتے ہیں پتا نہیں یہ کیسے محسوس ہو گا۔ اللّٰہ پاک کے دیکھنے کا فیض یہ ہو گا کہ آپ گناہ نہیں کر سکیں گے، کیونکہ جب اللّٰہ دیکھ رہا ہو گا تو آپ گناہ کی طرف نہیں جائیں گے، اللّٰہ پاک سن رہے ہیں، آپ جب دعا کریں گے تو آپ کو پورا یقین ہو گا کہ میری دعا سنی جا رہی ہے۔ جیسے نماز میں پڑھتے ہیں ”سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَہٗ“ ”سن لیا اللہ نے اس کو جس نے اس کی حمد کی“۔ اللّٰہ پاک کا ہی ارادہ کامل ہے، میں جو ارادہ کر رہا ہوں اگر اس کے ساتھ اللّٰہ کا ارادہ نہیں ہو گا تو اس پر عمل نہیں ہو سکے گا۔ ان صفات کے بارے میں آپ تھوڑی سی تفصیل ذہن میں رکھیں پھر آپ کا تصور صحیح بنے گا، اور ان شاء اللّٰہ العزیز وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہو جائے گا۔ آپ یہی معمول مندرجہ بالا تصور کے ساتھ مزید ایک مہینہ کر لیں، اس کے بعد مجھے اطلاع کریں۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم، شیخ محترم میں آپ کی مریدہ ہوں۔ آپ کی دعاؤں سے مراقبۂ معیت تک آ گئی ہوں۔ جب میں آپ کی تربیت میں ہوں تو پھر آپ کے علاوہ کسی اور سے مشورہ نہیں کرنا چاہتی، ذاتی طور پر یہی صحیح سمجھتی ہوں کہ اللہ رب العزت نے آپ کے زیر سایہ و زیر تربیت میری اصلاح کروائی تھی پس جب دوسرے دم کرتے ہیں تو میرا دنیا سے بھاگ جانے کو دل کرتا ہے۔
جواب:
دنیا میں اللّٰہ کے لیے رہنا ہے لوگوں کے لیے نہیں رہنا، البتہ لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک ضرور کرنا ہے، ان کے حقوق کو پورا کرنا ہے، اپنی طرف سے ان کو تنگ نہیں کرنا، دوسرے تنگ کرتے ہیں تو اس پر صبر کرنا ہے، صبر کا اجر مل جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کے حال کو بہتر فرمائے۔ (آمین)
سوال نمبر3:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ، حضرت شاہ صاحب دامت برکاتہم میں میران شاہ سے بات کر رہا ہوں۔ سفر کی وجہ سے ماہ نومبر کا معمولات کا پرچہ مکمل نہ کر سکا لیکن الحمد للّٰہ معمولات کی پابندی رہی۔ 3، 4 نمازوں کی تکبیر اولیٰ میں شریک نہ ہو سکا۔ معمولات درج ذیل ہیں: 200، 400 ،600 اور ساڑھے چار ہزار۔ لطیفۂ قلب پر 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطيفۂ سر 10 منٹ، لطيفۂ خفی 10 منٹ، لطيفۂ اخفی 10 منٹ، مراقبۂ تجلیات افعالیہ 15 منٹ۔
علاجی ذکر کا ایک ناغہ ہوا اور ایک دن صرف علاجی ذکر میں سے ہر ایک معمول تھوڑا تھوڑا کیا کیونکہ دن کو صحیح طریقے سے کرنے کا وقت نہیں ملا۔ پھر رات کو سونے سے پہلے ہر معمول تھوڑا تھوڑا کر لیا تاکہ معمول میں ناغہ نہ ہو، پتا نہیں میں نے ٹھیک کیا یا غلط۔ اس کے لیے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
آپ نے تجلیات افعالیہ کے اثر کے بارے میں نہیں بتایا کہ آپ نے اس کا کیا اثر محسوس کیا، پہلے اس کے بارے میں بتا دیں۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جسم کے کسی بھی حصہ پر کچھ دن آنکھیں بند کر کے غور کریں تو اللّٰہ اللّٰہ محسوس ہونا شروع ہو جائے گا، یہ ساری چیزیں صوفیاء نے ایسے ہی بنا رکھی ہیں یا یہ سب سچ ہے؟
جواب:
ڈاکٹروں نے پیراسیٹامول کی گولی ایسے ہی بنا رکھی ہے اس کا قرآن اور سنت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، تو پھر آپ کو چاہیے کہ جب بخار ہو جائے تو اسے استعمال نہ کریں۔
در اصل یہ تجرباتی چیزیں ہیں، یہ کوئی مسنون چیزیں نہیں ہیں، نہ ہی انہیں مسنون چیزیں کہا جاتا ہے، یہ علاجی بات ہے اور علاج تجربے سے ہوتا ہے۔ اللّٰہ پاک نے جن لوگوں کو یہ بصیرت دے رکھی ہے وہ علاج کے نت نئے طریقے نکالتے ہیں جن سے لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔
ہم صرف ان اوامر و نواہی پر عمل کرنے کے مکلف ہیں جو شریعت کے ذریعے ہم پر نافذ کیے گئے ہیں۔ اگر کسی کو ان اوامر و نواہی کے مطابق عمل کرنا بغیر کسی کوشش کے نصیب ہو جائے تو اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر کسی سے ان اوامر و نواہی پر عمل نہیں ہو رہا تو ضرور اس کی کوئی وجہ ہو گی اور اگر وہ وجہ نفسِ امارہ کی شرارت ہے تو نفسِ امارہ کو نفسِ مطمئنہ بنانا پڑے گا۔ قرآن نے 3 قسم کے نفس بتائے ہیں، نفس امارہ شر کا ہے، نفس لوامہ ملامت کا ہے اور نفس مطمئنہ نیک اعمال کرنے کا اور برے اعمال سے بچنے کا ہے۔ نفس امارہ سے نفس مطمئنہ تک پہنچنے کا طریقہ ہر زمانے میں مختلف ہوتا ہے کیونکہ حالات بدل جاتے ہیں، لوگ بدل جاتے ہیں اور صورت حال بدل جاتی ہے لہٰذا مختلف حالات میں اس کا مختلف علاج ہو سکتا ہے، کوئی اس کا علاج ذکر جہری سے کرتا ہے، کوئی اس کا علاج ذکر خفی سے کرتا ہے، کوئی اس کا علاج کسی شغل سے کرتا ہے، جو بھی کامیاب ہو جائے ٹھیک ہے۔
جو لوگ اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں ان سے کہہ دیں کہ آپ کوئی نیا طریقہ ایجاد کر لیں، بس اتنی شرط ہے کہ اس سے فائدہ ہونا چاہیے، فائدہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ روحانی بیماریوں جیسے حسد، کینہ، بغض، غفلت وغیرہ سے حفاظت ہو سکے۔ اب تک جتنے بھی مشائخ اور صوفیاء کرام آئے ہیں، اللہ پاک نے انہیں ان ہی طریقوں سے گزرنے کے بعد صحیح اعمال کی توفیق عطا فرمائی اور وہ باقی لوگوں کے لیے بھی ہدایت کا ذریعہ بن گئے۔ لہٰذا یہ چیزیں ایسے ہی نہیں ہیں، البتہ تجرباتی ہیں۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ، میرا ذکر 200، 300، 300، 100 ہے۔ اس کا 1 ماہ مکمل ہو چکا ہے۔
جواب:
اب آپ یہ ذکر اس ترتیب سے کریں، 200، 400، 400 اور 100۔ ایک ماہ بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم۔ ما شاء اللّٰہ۔
جواب:
”ماشاء اللّٰہ“ لکھنا بہت اچھی بات ہے لیکن سب سے پہلا اور سب سے اہم کام اپنی اصلاح ہے۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ یہ واقعہ ہم نے خود براہ راست مفتی رفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے تب سنا جب وہ اسلام آباد تشریف لائے تھے، اس موقع پر انہوں نے اپنے بیان میں یہ واقعہ ذکر فرمایا تھا۔ حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دونوں صاحبزادوں حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اور مفتی رفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اصلاح کے لئے حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نگرانی میں دیا تھا۔ مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں صاحبزادوں کو اُن سے بیعت کروایا اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ میں آپ کو کسی عالم سے بیعت نہیں کروا رہا بلکہ عالم گر سے بیعت کروا رہا ہوں۔
مفتی رفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہم دونوں بھائیوں پر تقریر کرنے کی پابندی لگائی ہوئی تھی۔
حالانکہ یہ دونوں حضرات فارغ التحصیل علماء تھے۔ کسی عالم پر تقریر کرنے پر پابندی لگا دینا کافی عجیب محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے بڑی حکمت ہوتی ہے۔ یہ پابندی در اصل انہیں کچھ بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ عمل چاہے کوئی بھی ہو اس کی قدر تب ہوتی ہے جب اس کے کرنے کی نیت درست ہو۔ تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ نیت کو درست کرنا سب سے اول کام ہوتا ہے، نیت تب درست ہوتی ہے جب انسان کا نفس مطمئنہ ہو جاتا ہے اور دل پاک ہو جاتا ہے۔ اسی نفس مطمئنہ کے حصول کے لیے یہ حضرات محنت فرما رہے تھے۔
حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم پر تقریر کی پابندی تھی، جب حضرت کو معلوم ہو گیا کہ اب ہم تقریر کر سکتے ہیں تو حضرت نے خود ہی کہا کہ فیصل آباد میں ہمارے مولانا نذیر صاحب ہیں ان کے ہاں بیان کر لو وہ ہمارے اپنے آدمی ہیں۔ گویا کہ آہستہ آہستہ ان کو اجازت دے دی۔ اب اللّٰہ پاک حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب سے کتنا کام لے رہے ہیں، شیخ الاسلام ہیں، مفتی رفیع عثمانی صاحب مفتی اعظم تھے، اللّٰہ پاک نے ان سے کتنا لیا۔ یہ سب ترقیاں ان پابندیوں کی برکت سے تھیں۔
حضرت شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللّٰہ علیہ جو تبلیغی جماعت کے بہت بڑے بزرگ تھے، ایک مرتبہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی۔ حضرت نے فرمایا: بیعت تب کروں گا جب آپ بیان کرنا چھوڑ دیں گے۔ چونکہ یہ تبلیغی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور تبلیغ کے کام کا ایک بڑا حصہ بیان کرنا ہوتا ہے، لہذا ان کی ہمت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں بیعت نہیں کیا۔ حضرت شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللہ علیہ بعد میں بہت افسوس کرتے تھے کہ کاش میں حضرت کی بات مان لیتا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر یہ میری بات مان لیتے تو اسی وقت اجازت دے دیتا۔
بہرحال ان سب چیزوں کی باری بعد میں ہے، سب سے پہلی چیز اصلاح ہے، ممکن ہے آپ کو میری یہ باتیں ابھی سمجھ میں نہ آ رہی ہوں، ہمیں بھی کافی دیر کے بعد سمجھ آئی تھیں، لہٰذا یہ کوئی ایسی عجوبہ کی بات نہیں ہے۔ اللّٰہ جل شانہ ہمارے دلوں کو پاک کر دے یہی سب سے بڑی بات ہے۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم شاہ صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے مجھے 40 دن کے لئے تیسرے کلمہ کا پہلا حصہ 300 اور دوسرا حصہ 200 مرتبہ پڑھنے کا جو وظیفہ بتایا تھا وہ مکمل ہو گیا ہے۔ ہر نماز کے بعد آیت الکرسی اور استغفار کا وظیفہ بھی مکمل ہو گیا ہے لیکن مجھ سے اکثر فجر کی نماز رہ جاتی ہے۔ آپ سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ 100 دفعہ تیسرا کلمہ، 100 دفعہ درود شریف اور 100 دفعہ استغفار روزانہ پڑھا کریں، یہ عمر بھر کے لیے کرنا ہے، نماز کے بعد والا وظیفہ بھی عمر بھر کے لئے کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مہینہ تک آپ نے 10 منٹ کے لیے آنکھیں بند زبان بند قبلہ رخ بیٹھ کے زبان ہلائے بغیر یہ تصور کرنا ہے کہ میرے دل سے اللّٰہ اللّٰہ کی آواز آ رہی ہے۔ دل سے اللہ اللہ کروانا نہیں ہے، صرف یہ تصور کرنا ہے کہ دل اللہ اللہ کر رہا ہے، جب شروع ہو جائے گا تو آپ کو پتا چل جائے گا، بے شک محسوس نہ بھی ہو رہا ہو پھر بھی آپ نے اس پہ توجہ کرنی ہے تاکہ جب شروع ہو تو آپ سے مس نہ ہو۔ لہٰذا روزانہ کوئی خاص وقت مقرر کر کے 10 منٹ کے لئے یہ تصور کیا کریں۔
سوال نمبر8:
معمولات کا پرچہ آپ کو بھیجا ہے یہ میرے نومبر کے معمولات کا پرچہ ہے، میں سستی اور سردی کی وجہ سے تہجد کے لیے نہیں اٹھ پاتی، کبھی کبھار مراقبے میں دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔ مہینے میں دو یا تین دفعہ سوتے ہوئے یا بیٹھے ہوئے بغیر مراقبے کے بھی ایسی کیفیت محسوس کی ہے کہ دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور بائیں طرف باہر لگنے لگتا ہے۔
جواب:
آپ اپنا مراقبہ جاری رکھیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم محترم شیخ صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے 5، 5 منٹ کے لئے پانچوں مراقبے دیے تھے، ان کے ساتھ چار ہزار مرتبہ اللّٰہ کا ذکر دیا تھا اور 15 منٹ دل پر تجلی کہ جو کچھ ہوتا ہے اللّٰہ کی طرف سے ہوتا ہے، ان معمولات کو کرتے ہوئے 2 ماہ ہو گئے ہیں۔ مجھ سے 2 دن کا ناغہ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے 2 ماہ بعد بتا رہی ہوں۔ آج کل ایک پریشانی ہے کہ اعمال پورے دل سے نہیں کر پا رہی، بہت سستی ہے، خواب بھی اچھے نہیں آتے، کبھی دریا، کبھی سانپ، کبھی بھینس، بہت ڈر جاتی ہوں کہ یہ سب میرے اعمال کی وجہ سے ہے۔ آئندہ کے لیے رہنمائی فرما دیں۔ حسد کی نظر سے بچنے کے لیے دعا بھی بتا دیں خاندان میں بہت سے لوگ حسد کرتے ہیں اور مجھے ان کے خیال آتے ہیں، میرے لیے دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے ہدایت دے۔
جواب:
اللہ ہم سب کو ہدایت دے آمین۔ آپ تجلیاتِ افعالیہ کا مراقبہ کر رہی ہیں، یہ بتائیے گا کہ آپ نے اس کا اپنے اوپر کیا اثر محسوس کیا ہے۔ آئندہ ناغہ نہ کیا کریں۔ خوابوں پہ نہ جائیں خوابوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ اپنے اعمال کی درستگی ویسے بھی ضروری ہے، خواب نہ آئے تب بھی ضروری ہے، اچھے خوابوں کا انتظار نہ کریں اور برے خوابوں سے ڈرا نہ کریں۔ حسد کی نظر سے بچنے کے لیے ہماری منزل جدید روزانہ مغرب کے بعد پڑھ لیا کریں۔
سوال نمبر10:
حضرت جی، 100 مرتبہ درود شریف، 100 مرتبہ کلمہ اور 100 مرتبہ استغفار روزانہ پڑھتا ہوں، اس کے علاوہ مہینے کا 30 ہزار درود شریف کا ہدف بھی اللّٰہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے ہر ماہ پورا کر لیتا ہوں آج کل گھر میں چاشت نہیں پڑھتا کیونکہ وقت بعد میں داخل ہوتا ہے، مجھے یونیورسٹی پہلے پہنچنا پڑتا ہے، کیا میں دفتر میں چاشت ادا کر سکتا ہوں؟
جواب:
اگر آپ کے ذمے یونیورسٹی کا کوئی کام نہ ہو تو آپ دفتر میں چاشت پڑھ سکتے ہیں لیکن اس کی عادت ڈالنا اچھا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ جو آپ کو اچھا سمجھتے ہیں جب وہ آپ کو دفتر میں چاشت پڑھتے دیکھیں گے تو وہ بھی چاشت پڑھنے لگیں گے چاہے اس وقت ان کے ذمے دفتر کا کوئی کام ہی کیوں نہ ہو، اور یہ بات جائز نہیں ہے، کیونکہ ہم نے دفتر کا وقت بیچا ہوتا ہے اس وجہ سے ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔ یہ نفل نماز ہے اگر اس وجہ سے رہ بھی جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ فرض نماز کو کوئی روک نہیں سکتا اور نفل کی ہر جگہ اجازت نہیں ہوتی۔ البتہ آپ کے دل میں اس کا جذبہ ہے، اللّٰہ پاک اس جذبے کو قبول فرمائے۔
ہمارے حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا یہ معمول تھا کہ عموماً ان کے دفتری وقت میں ظہر کی نماز آتی تھی، وہ فرض نماز کے بعد یہ تسبیحات 33 دفعہ سبحان اللّٰہ، 33 دفعہ الحمد للّٰہ وغیرہ نہیں پڑھا کرتے تھے، بس فرض نماز اور سنت مؤکدہ پڑھ کے اپنا کام کرنے لگ جاتے تھے۔ ان کے پیش نظر یہی بات ہوتی تھی کہ چونکہ دفتری وقت ہم نے دفتر والوں کو بیچ دیا ہے اس لیے اس وقت میں ہم اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اگرچہ بعض حالات میں اس کی اجازت ہوتی ہے مگر احتیاط اسی میں ہے۔ مثلاً کسی وقت کوئی کام نہیں ہے، صرف فارغ بیٹھنا ہے، ایسے وقت میں کوئی دیکھ بھی نہیں رہا تو نفل پڑھ سکتے ہیں، لیکن عام لوگوں کے سامنے پھر بھی نہ پڑھے کیونکہ پھر دوسرے لوگ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر یہی کام شروع کر لیں گے۔
سوال نمبر11:
سید و مرشد مولانا صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ امید ہے اور دعا ہے کہ حضرت خیریت سے ہوں گے۔ الحمد للّٰہ، اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ذکر کی تسبیحات کا روزانہ معمول رہا ہے، 2 مرتبہ ایسے ہوا کہ وقت پر ذکر نہ کر سکا دوسرے دن صبح و شام ادا کر کے تلافی کی۔ ذکر یہ ہے: 200 مرتبہ ”لَاۤ إلٰہ إلَّا اللّٰہ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوْ“، 400 مرتبہ ”حق“، اور 100 مرتبہ ”اَللّٰہُ“۔
جواب:
اب آپ ذکر کی ترتیب اس طرح کر لیں کہ 200 مرتبہ ”لَاۤ إلٰہ إلَّا اللّٰہ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حق“، اور 100 مرتبہ ”اَللّٰہُ“ کیا کریں۔
مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا ذکر کرنے کا وقت کونسا ہے تاکہ اس کے حساب سے آپ کو بتا سکوں کہ اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے۔ اللّٰہ کرے کہ آپ جلد سے جلد خوابوں اور کشفوں کی دنیا سے نکل آئیں۔ یہ ایسی چیز ہے جو خود بخود حاصل ہو جائے تو ٹھیک ہے، اچھا خواب ہے تو محمود ہے اور اچھا کشف ہے تو محمود ہے لیکن اس سے متاثر ہونا، اس کے انتظار میں رہنا اور اس کو اہم چیز سمجھنا غلطی ہے، لہٰذا ان چیزوں میں نہ پڑیں اور اصل عمل کی طرف توجہ کریں، جو عمل ہم سے مطلوب ہیں وہ عمل کرنے چاہئیں، اصل مقصود اخلاص کے ساتھ شریعت پر عمل کرنے کی پابندی ہے۔
3 چیزیں ضروری ہیں، علم، عمل اور اخلاص۔ اگر علم نہیں ہے تو اس کو حاصل کرنا، پھر اس کے مطابق عمل کرنا اور اس میں اللّٰہ کی رضا کی نیت کرنا۔ اگر یہ 3 چیزیں میسر ہیں تو سب ٹھیک ہے اور اگر ان چیزوں میں کمی ہے تو پھر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تاکہ یہ چیزیں حاصل ہو جائیں۔ باقی ساری باتیں اضافی ہیں، ان سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہیے۔ بہت سارے لوگ اس گڑھے میں گر گئے ہیں اور بہت دور چلے گئے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت جی گزشتہ ماہ کے احوال پیش خدمت ہیں۔
ذکر: 200 مرتبہ ”لَاۤ إلٰہ إلَّا اللّٰہ“، 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوْ“، 200 مرتبہ ”حق“، اور 1000 مرتبہ ”اَللّٰہُ“۔
یکسوئی اور ضعف کی کمی کے باعث پہلے کافی عرصہ مراقبہ کی کوشش کرتا رہا پھر 6 ہزار کا ذکر اور اب مندرجہ بالا ذکر کر رہا ہوں۔ نمازیں بر وقت ادا ہوتی ہیں تاہم فجر گھر پر ہوتی ہے۔ زبان، آنکھ اور دماغ کے رذائل سے دل متاثر اور بے چین ہو کر یکسو رہتا ہے تاہم کبھی ایک اور کبھی دوسرا غالب آ جاتا ہے۔ دعائیں، منزل، سورۂ یسین اور سورۂ ملک تیز تیز نہیں پڑھی جاتیں اور آہستگی کی وجہ سے معمول میں کمی ہو جاتی ہے۔ وقت تیزی سے گزرنے کے باعث میری حالت پہلے کی نسبت رو بہ زوال ہے مزید بر آں دنیاوی امور میں بھی اسی صورتحال کا شکار ہوں، صرف درس مثنوی آن لائن سن رہا ہوں اور اتوار کو خواتین کے بیانات۔ ان شاء اللّٰہ ہمت کرنے کا عزم کیا ہے، رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب:
جس چیز کا آپ نے عزم کیا ہے اس پہ کار بند رہیے اور مجھے اطلاع دے دیا کریں۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و بر کاتہ حضرت جی اللّٰہ پاک سے آپ کی صحت و تندرستی کے لیے دعا گو ہوں۔ میری غیبت کی عادت میں کچھ کمی آئی ہے لیکن ابھی میں اس پر پوری طرح قابو نہیں پا سکا، جب منہ سے کسی کے خلاف کوئی بات نکل جاتی ہے اس کے بعد احساس ہوتا ہے کہ میں غیبت کر چکا ہوں، بعض اوقات احساس بھی نہیں ہوتا۔ پہلے کی نسبت نفسانی و شہوانی وساوس میں کمی آئی ہے، برائے مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں اللّٰہ پاک آپ کو بلند درجات عطا فرمائے اور اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین
جواب:
آپ اپنے اذکار جاری رکھیں اور رابطہ قائم رکھیں، ان شاء اللّٰہ زیادہ فائدہ ہو گا۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و بر کاتہ
Respected and honorable مرشد صاحب I pray that you and your loved ones are well! الحمد للّٰہ I have completed the current 30 day ذکر without missing which is
200 times لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ
400 times لَّا إلٰہ إلَّا ھُو
400 times حق and
500 times اللّٰہ
5 minutes ذکر
Ans: So now you should do حق six hindred times. The rest will be the same ان شاء اللّٰہ.
I also have been attempting to follow your instructions to listen to my heart saying اللّٰہ اللّٰہ throughout the day at random times but I don't do this for a set time. I have been doing it less compared to last update. Regarding مراقبہ, it is pretty much the same as last time. I don't hear anything but many a times get the feeling internally that اللّٰہ اللّٰہ is terminating from the heart and sometimes I feel blankness. I don't hear or feel anything Just my brain is focused on the heart and sometimes thoughts spring up جزاک اللّٰہ خیر and دعا requested.
جواب:
جو ذکر میں نے بتایا آپ وہی کرتے رہیں اور اپنی کوشش جاری رکھیں، جتنا ہو جائے اس پہ اللّٰہ کا شکر ادا کریں اور جتنا نہ ہو اس کی طرف توجہ کرتے رہیں۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم یا سیدی۔ امید ہے آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ آپ کے بتائے ہوئے تمام اذکار کرتے ہوئے آج ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ کبھی اذکار پورے کرنے میں تھوڑی دیر بھی ہو گئی لیکن ناغہ کوئی نہیں ہوا۔ ذکر یہ تھا: 2، 4، 6 اور 3500۔
قلبی ذکر: بنوری لطائف میں لطیفۂ قلب، روح، سر، خفی اور اخفیٰ پندرہ پندرہ منٹ۔ تمام لطائف پر ”اَللہ اَللہ“ محسوس ہوتا ہے۔
I can also feel myself gently rocking backward and forward during مراقبہ. This sensation is also present when I am just sitting and not doing مراقبہ.
15 minutes مراقبہ معیت کے دوران کبھی کوئی وزنی چیز دل پر بالکل سینے کے برابر آ رہی ہوتی ہے، کبھی کچھ پسینہ آنے لگتا ہے، میں اللّٰہ کے خیال میں چلا جاتا ہوں کبھی اور چیزیں بھولنے لگتا ہوں۔ جب میں دعا کے دوران اپنی آنکھیں بند کر لوں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے گویا میرے ماتھے اور قلب سے کوئی چیز جا رہی ہے۔ حسد کی شکایت بہت ہی کم ہو گئی ہے، اب نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پھر بھی مجھے اطمینان نہیں ہے۔ مزید رہنمائی فرما دیں۔ مراقبہ معیت کا اثر یہ ہے کہ مجھے اللّٰہ کا دھیان نصیب ہے لیکن میں اپنے آپ کو اتنا برا سمجھنے لگ گیا ہوں کہ خود اپنے آپ سے اپنی وجہ سے نفرت کرتا ہوں۔
جواب:
اس کو جاری رکھیں۔ ہم آپ کے والد صاحب کے لیے دعا کرتے ہیں۔
”اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا ومَيِّتِنَا وَ شَاهِدِنَا وَ غَائِبِنَا وَ صَغِيْرِنَا وَكَبِيْرِنَا وذَكَرِنَا وَ اُنْثٰنَا اَللّٰهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهٗ مِنَّا فَأَحْيِهٖ عَلَى الْإِسْلَامِ وَ مَنْ تَوَفَّيْتَهٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ وَ لَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ“۔
اللّٰہ پاک آپ کے والد صاحب کی مغفرت فرمائے اور آپ سب لوگوں کو صبر نصیب فرما دے اور ان کے لیے ایصالِ ثواب کا اہتمام سنت طریقے کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم، حضرت جی میرے وظیفے کا مہینہ پورا ہو گیا ہے۔ 3500 مرتبہ زبان پر ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کا ذکر تھا۔ 3 مرتبہ آیت الکرسی اور 10 منٹ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کا مراقبہ دل پر تھا۔ حضرت جی مجھے ابھی تک دل میں کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔ مراقبہ کے دوران نیند آ جاتی ہے۔ اس مہینے کے شروع میں وظیفہ بھی رہ گیا تھا۔
ساس کا وظیفہ دل پر 10 منٹ کا مراقبۂ ہے۔ آئندہ کے لیے کیا حکم ہے۔ حضرت جی میری ساس بالکل ان پڑھ ہیں، ان کو اس کی سمجھ نہیں آتی کہ مراقبہ کس طرح محسوس کیا جاتا ہے۔ نمازوں کے بعد تسبیح فاطمی کرتی ہیں، آئندہ کے لیے کیا حکم ہے۔ دعاؤں کی طلب گار ہوں۔
جواب:
اب آپ اس طرح کر لیں کہ 4 ہزار مرتبہ ”اَللہ اَللہ“ زبانی طور پہ کر لیا کریں، ان شاء اللّٰہ العزیز ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔
اپنی ساس کو یہ بتائیں کہ وہ ہزار مرتبہ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کر لیا کریں۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔
نمبر 1: لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ، پچھلے مہینے قلب پر زیادہ ذکر محسوس ہوتا تھا، اس مہینے میں تھوڑا محسوس ہوتا ہے۔ مہینے کی ابتدا میں تو بالکل محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن آخر میں تھوڑا تھوڑا محسوس ہونے لگا ہے۔ اس مہینہ میں اعمال میں کمزوری آ گئی ہے، تہجد میں ناغے ہونے لگے ہیں۔
جواب:
اب تہجد میں ناغے بند ہونے چاہئیں کیونکہ موسم اچھا ہو گیا ہے، راتیں لمبی ہو گئی ہیں، اگر کوئی ان لمبی راتوں میں بھی تہجد نہیں پڑھتا تو چھوٹی راتوں میں کہاں پڑھے گا۔ ابھی اسی ذکر کو جاری رکھیں تاکہ پکا ہو جائے۔
نمبر 2: لطيفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطيفۂ سر 15 منٹ۔ تینوں پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
آپ تینوں لطائف پر 10 منٹ کر لیں اور چوتھے پر 15 منٹ کریں۔
نمبر 3: ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا ہے۔
جواب:
اس کو پہلے لطیفہ پر دس منٹ کا ذکر بتا دیں اور ساتھ مسنون ذکر بھی بتا دیں۔
نمبر 4: تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبۂ صفات ثبوتیہ 15 منٹ، اللّٰہ تعالیٰ کی صفات پر پختہ یقین ہو گیا ہے، جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس بات پر دل مطمئن ہوتا ہے کہ سب کچھ اللّٰہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ دل پر سکون رہتا ہے زیادہ پریشانی نہیں ہوتی۔
جواب:
اب اس کو مراقبۂ شیونات ذاتیہ دے دیں اور باقی اذکار ساتھ جاری رہیں گے۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم جناب محترم شاہ صاحب اللہ پاک آپ کو خیر و عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔ آپ کا بتایا ہوا ذکر تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار اور ”لَاۤ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ إلٰہ إلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ ”اَللہ“ 2500 مرتبہ، اس مہینہ کی تیس تاریخ کو پورا ہو گیا ہے۔ آئندہ کے لیے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
آپ کا باقی ذکر وہی رہے گا، صرف ”اَللہ“ کی تعداد بڑھا کر 3000 مرتبہ کر لیں۔ آپ اپنا ذکر اشراق کے بعد کرنے کی کوشش کریں کیونکہ آج کل اشراق کے وقت کام زیادہ ہوتا ہے اور فجر کا وقت باقی کام کے بہت قریب ہو جاتا ہے۔ آج کل لوگوں کے موسم ایسے ہیں کہ گرمیوں میں اور سردیوں میں وقت مختلف ہونا ضروری ہے تاکہ آپ سہولت کے ساتھ ذکر مکمل کر سکیں۔
سوال نمبر19:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت جی آپ نے ہمیں تعلیم فرمایا کہ رذائل کے ختم ہونے کے بعد خود بخود ان رذائل کے مقابل اخلاقِ حمیدہ حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ بات بالکل واضح طور پر سمجھ میں آ گئی ہے۔
میرے اندر عاجزی نہیں ہے اپنے اندر عجب پاتا ہوں، یہ صرف وسوسہ نہیں بلکہ واقعی اس مرض میں مبتلا ہوں۔
جب آپ نے سمجھایا تھا کہ سب کچھ اللّٰہ کریم کی عطا ہے میرا کوئی کمال نہیں، تب سے توبہ اور شکر کرتا ہوں مگر اس سے عجب میں کوئی کمی نہیں پاتا۔ جب کبھی اختیاری طور پہ تواضع کرتا ہوں، مثلاً کچھ لوگ جمع ہوں اور جگہ کم ہو گئی تو میں زمین پر بیٹھ جاتا ہوں، اس میں بھی نفس بولتا ہے کہ ماشاء اللّٰہ دیکھو تو نے کتنا اچھا عمل کیا ہے۔ اس کے علاج کے لئے میں کون سا مجاہدہ کر سکتا ہوں، اب مجھے آپ کے میسیج موصول ہوئے ہیں، ورنہ میرے گناہوں کی وجہ سے میرے اندر بہت کمی ہو گئی ہے۔ دل میں بہت تکلیف اور بے چینی ہوتی ہے۔
جواب:
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ رذائل اور فضائل ایک دوسرے کی ضد ہیں، اگر فضائل ہیں تو رذائل نہیں اور اگر رذائل ہیں تو فضائل نہیں، رذیلہ ہے تو اس کے مطابق فضیلت نہیں ہے اور اگر فضیلت ہے تو اس کے مقابلے میں جو رذیلہ ہوتا ہے وہ نہیں ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ اگر فجور نہیں تو تقوی ہے اور اگر تقوی نہیں تو فجور ہے، روشنی نہیں ہے تو تاریکی ہے، تاریکی نہیں ہے تو روشنی ہے۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے، البتہ کسی کو کچھ محسوس ہو جانا ایک الگ بات ہے۔ بعض دفعہ یہ محسوس ہونا ایک وسوسہ بھی ہوتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جو میرے شیخ تھے، انہوں نے مجھے فرمایا تھا کہ وسوسۂ ریا وسوسہ نہیں ہے۔ اگر آپ اس کو واقعی ریا سمجھتے ہیں تو اسے چھوڑ دیں کیونکہ یا تو یہ اختیاری ہو گا، اگر اختیاری ہے تو اس کا چھوڑنا بھی اختیاری ہے، یا پھر غیر اختیاری ہو گا، اگر غیر اختیاری ہے تو پھر آپ اس کے مکلف ہی نہیں ہیں، اور غیر اختیاری چیز کے بارے میں ریا کا خیال آئے تو وہ وسوسہ ہے، آپ اس کی پروا ہی نہ کریں۔ شیطان یہ وسوسہ صرف تنگ کرنے کے لیے ڈالتا ہے۔
عجب کا علاج بہت آسان ہے۔ اپنے آپ پہ غور کریں کہ آپ کو کس بات پر عجب ہو رہا ہے، اگر اس عمل پر ہو رہا ہے جو آپ نے کیا ہے تو آپ کہہ دیں کہ عجب تو نیکی پر ہوتا ہے، چونکہ مجھے اس عمل پر عجب ہو گیا لہٰذا اب یہ عمل نیکی رہا ہی نہیں، جب وہ عمل نیکی ہی نہیں رہا تو پھر عجب کیسا۔ گویا اس بیماری کے اندر ہی اس کا علاج موجود ہے، بس اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
وسوسے کے طور پر اس خیال کا آنا کہ لوگ کہیں گے دیکھو یہ کیسا اچھا آدمی ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لوگوں کو کہنے دو، لوگوں کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ مجھے میرے شیخ نے اس کا علاج بتایا تھا، فرمایا کبھی آپ نماز پڑھ رہے ہوں تو کیا یہ سوچا ہے کہ چٹائیاں مجھے دیکھ رہی ہیں؟ لوگوں کو بھی اس طرح چٹائیاں ہی سمجھو، یہ بھی کسی کو کچھ نہیں دے سکتے۔ لہٰذا آپ بھی وسوسوں اور لوگوں کی پروا نہ کریں۔ ؎
لوگوں کے ساتھ ہمارا کیا
لو اب تمہارے کام کا یہ دوستو نہیں رہا
اس کی پروا نہ کریں کہ لوگ کیا کر رہے ہیں لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔
سوال نمبر20:
السلام علیکم۔ حضرت جی، ابھی چند دن قبل مفتی تقی عثمانی صاحب کے بھائی مفتی رفیع عثمانی صاحب کی وفات ہوئی ہے۔ ان کے بیٹے مفتی زبیر عثمانی صاحب سے جامعۃ الرشید کے کسی صاحب نے انٹرویو کے دوران سوال کیا کہ مفتی رفیع عثمانی صاحب کے آخری ایام میں کوئی خاص بات جو آپ نے محسوس کی ہو، اس کے بارے میں بتائیں۔ انہوں نے بہت سی چیزیں بتائیں، جن میں سے ایک بات یہ بھی بتائی کہ آخری دنوں میں اکثر مجھے یہ کہا کرتے تھے کہ زبیر آج میں مکہ میں جا رہا ہوں، شام کو مدینہ جاؤں گا۔ میں نے اپنے چچا مفتی تقی عثمانی صاحب سے یہ بات ذکر کی تو انہوں نے کہا: یہ تکوینی امور میں سے ہے، اور یہ جاتے ہوں گے۔
انٹرویو لینے والے نے کہا: ہو سکتا ہے بیماری کی وجہ سے ان کے ذہن پہ اثر پڑ گیا ہو۔ اس کے جواب میں مفتی زبیر احمد عثمانی نے کہا کہ نہیں یہ بیماری کی وجہ سے نہیں تھا۔
حضرت جی اس بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں۔
جواب:
میں اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا، کیونکہ تکوینی امور مخفی ہوتے ہیں، لہذا کوئی ان کا اظہار نہیں کرتا۔ عین ممکن ہے کہ ان کے ساتھ ایسے تکوینی امور پہلے سے ہو رہے ہوں لیکن اب بیماری کی وجہ سے انہیں کنٹرول کرنے کی اور چھپانے کی طاقت نہ رہی ہو۔ اور ایسا بیماری کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ کسی بات کے چھپانے کی طاقت نہ رہے۔ اس صورت میں ہم دونوں باتیں کہہ سکتے ہیں کہ تکوینی امور بھی ہیں اور بیماری کا اثر بھی ہے۔
ہمارے حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے آخری وقت میں اشاروں ہی اشاروں میں کچھ باتیں بتائی تھیں لیکن ہم اس وقت نہیں سمجھے، بعد میں پتا چلا کہ یہ تو تکوینی امور تھے۔
میری پھوپھی نے اپنا ایک خواب بتایا کہ شبِ برات کو انہوں نے خواب دیکھا کہ خانہ کعبہ اور روضۂ اقدس سے ایک روشنی ان کی طرف آئی ہے۔ حضرت نے خواب سن کر فرمایا کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس رات میں وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
اگرچہ انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ میں پہنچ گیا ہوں لیکن اتنا ضرور کہا بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس رات میں وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
واقعتاً شبِ برات کے موقع پہ اس قسم کی محفل ہوتی ہے، اہل تکوین حضرات با قاعدہ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
بہرحال تکوینی امور سارے کے سارے مخفی ہیں اور یہ چیزیں بتاتے نہیں ہیں، اگر کوئی بتائے تو ان کی طرف توجہ بھی نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ ہمارا کوئی معاملہ تکوینی امور کے ساتھ رکا نہیں ہوا۔ اگر ہمیں تکوینی امور معلوم ہو بھی جائیں تو اس سے ہمارے مقام میں ذرہ بھر اضافہ نہیں ہوتا، ہمارے مقام میں شریعت پر عمل کرنے سے اضافہ ہوتا ہے، اگر ہم عمل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو مقام میں اضافہ ہو گیا اور اگر عمل میں کامیاب نہیں ہوئے تو ویسے کے ویسے رہ گئے۔ تکوینی امور کے علم سے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ معلومات میں اضافہ ہو جائے اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ان چیزوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔ بعض لوگوں میں کھوج لگانے کی عادت ہوتی ہے، وہ ان باتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ ابھی میں نے ایک ساتھی سے کہا کہ ان چیزوں سے نکل آؤ، کشفیات اور خوابوں کی دنیا سے نکل آؤ، ان چیزوں سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہونے کا۔ آپ کو ہزار اچھے خواب نظر آ جائیں اور دوسرے آدمی کو ایک بار ”سبحان اللّٰہ“ کہنے کی توفیق ہو جائے تو یہ دوسرا آدمی خوابوں والے سے آگے بڑھ گیا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم سنت پر چلیں، اس لیے کہ اللّٰہ پاک نے واضح طور پر قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: 21)
ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے“۔
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
ترجمہ: ”(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“۔
ہم اس چیز کے مکلف ہیں، ہم کشفیات کے مکلف نہیں ہیں اگر وہ خود بخود مل جائیں تو تشکیل ہے، بعض لوگوں کی تشکیل ہو جاتی ہے، ان سے کسی سلسلے میں کام لیا جاتا ہے، اگر ان کو کسی چیز کا کشف ہو جائے اور اس سے وہ کام لے لیا جائے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر کسی کو خود سے نہیں ہوا تو اس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور دوسروں کے کشفوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ میں تو اس بارے میں اس قسم کی بات کرتا ہوں کہ جیسے کہتے ہیں کرکٹ کھیلنا ایک فضول چیز ہے، وقت کا ضیاع ہے اور کرکٹ دیکھنا کھیلنے سے بھی زیادہ فضول کام ہے، اور اس کی کمنٹری سننا دیکھنے سے بھی زیادہ فضول کام ہے، یہی مثال دوسروں کے کشفوں پہ توجہ کرنے والوں پر صادق آتی ہے۔
بعض سلسلوں میں بہت گڑبڑ آئی ہوئی ہے، وہ بیچارے اسی میں گھوم رہے ہیں کہ فلاں کو یہ کشف ہو گیا، فلاں کو وہ کشف ہو گیا۔ خدا کے بندو! یہ چیز جس کے پیچھے تم بھاگ رہے ہو نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ہے نہ صحابہ کرام میں ہے۔ بہت سارے صحابہ کرام ایسے ہیں جن سے ایک کرامت یا ایک کشف بھی مروی نہیں، کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تک کسی ولی کا مقام پہنچ سکتا ہے، بعد میں آنے والے اولیاء کو چاہے ہزاروں کشف ہو چکے ہوں وہ صحابی کے مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں قبولیت کا تعلق کشف و کرامات اور خوابوں سے نہیں بلکہ شریعت پر سنت کے مطابق عمل کرنے سے ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ (آمین)
سوال نمبر21:
حضرت ہر چیز میں افراط و تفریط ہوتی ہے، لوگ تصوف میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ غلط لوگ تو ایک طرف رہے صحیح لوگوں میں بھی بعض حضرات تصوف میں بہت آگے چلے جاتے ہیں، اس سے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کہیں یہ حضرات افراط و تفریط کا شکار تو نہیں ہو رہے۔
جواب:
میں صاف بات عرض کرتا ہوں کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس صدی کے مجدد ہیں، انہوں نے جن چیزوں کی رہنمائی اور نشاندہی کی ہے انہیں خوب اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ وہ فرماتے ہیں: کچھ مقاصد ہیں، کچھ ذرائع ہیں اور کچھ آثار ہیں۔ مقاصد کو سامنے رکھنا چاہیے، ذرائع وقت اور حالات کے مطابق ہوتے ہیں اور یہ ہر شخص کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں۔ بغیر ذرائع اختیار کیے مقصد حاصل نہیں ہوتا، اس لیے ذرائع کو اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن جس نے ذریعے کو مقصد بنا لیا وہ اپنے راستے سے ہٹ گیا، اس نے افراط کا معاملہ کیا لیکن جس نے ذریعے کو ضروری نہیں سمجھا اور بغیر ذریعے کے مقصد حاصل کرنے لگا، اس نے تفریط سے کام لیا، کیونکہ اس کو مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ تصوف میں افراط و تفریط یہی ہوتی ہے کہ بعض لوگ ذرائع میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ذرائع کو مقاصد بنا لیتے ہیں، مثلاً لطائف کو بطورِ مقاصد اختیار کر لینا، یا ذکر بالجہر، مراقبات و اشغال اور پاسِ انفاس وغیرہ ان سب ذرائع کو مقاصد سمجھ لینا، افراط ہے اور ان کی اہمیت اتنی کم سمجھنا کہ انہیں ذریعہ بھی نہ سمجھنا، یہ تفریط ہے۔ ذریعے کے بغیر مقصد حاصل نہیں ہوتا، اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا کو دار الاسباب بنایا ہے، اس میں اسباب کو اختیار کرنا ہوتا ہے۔ اس کسوٹی پر ہم سب اپنے آپ کو پرکھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ وقت کے مجدد کی تعلیمات کو ضرور پڑھنا چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پہ اللّٰہ پاک اس کے دور کے حالات کھول دیتے ہیں۔ باقی حضرات بھی بڑے بزرگ ہوتے ہیں، کسی کی بزرگی سے انکار نہیں ہے لیکن جس کو جس کام کے لیے چنا گیا ہے وہی اُس کام کا اہل ہوتا ہے۔ اس سے اللّٰہ پاک خاص کام لیتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو تحقیقات کی ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ہم حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیقات کو نہیں چھوڑ سکتے، سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے جو کام کیا ہے اور حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو کام کیا ہے یا ان سے پہلے کے مجددین نے جو کام کیے ہیں، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو تجدیدی کام کیے ہیں، ان تمام میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہ سب ہمارے لئے ذرائع ہیں اور مقاصد تک رسائی میں ہمارے رہنما ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد بھلا کسی اور مجدد کی کیا ضرورت ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دوسرے ہزار سال کے مجدد ہیں، حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک صدی کے مجدد ہیں، کہاں یہ کہاں وہ۔ خدا کے بندو! اگر حضور ﷺ کے بعد کسی مجدد کی ضرورت ہو سکتی ہے تو مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بعد کسی مجدد کی ضرورت کیوں نہیں ہو سکتی۔ نبی کریم ﷺ پیغمبر تھے اور خاتم النبیین تھے، ان کے بعد بھی اگر اللّٰہ پاک نے مجددین کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اس کی ضرورت ہے تو مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور مجددین کی ضرورت باقی رہے گی۔ البتہ اتنی بات ضرور ہو سکتی ہے کہ گذشتہ مجددین کی مجددیت کا فیض بعد میں آنے والے سارے مجددین نے لیا ہو گا، جیسے آپ ﷺ کی سنت کا نور تمام مجددین نے لیا ہوتا ہے، اسی طرح مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیقات بھی سب پر چھائی ہوئی ہوتی ہیں، ان کا اثر شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ پر بھی تھا، حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ پر بھی تھا، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ پر بھی تھا اور جو مجددین بعد میں آئیں گے ان سب پر بھی ہو گا۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ