اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی الحمد للہ نماز اور خاص طور پر دعا کے اندر اللہ کا دھیان بڑھ رہا ہے۔ آخرت کی فکر بڑھ رہی ہے اور اس بات کی سوچ اور فکر ہے کہ ایسی حالت میں اگر موت آ گئی تو اللہ کے سامنے کیا پیش کریں گے؟ اس کے علاوہ زبان کو بھی قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
جواب:
یہ وہ حصہ تھا جو آپ نے ٹیکسٹ میسیج کیا تھا۔ اس کا میں جواب عرض کر سکتا ہوں کہ یہ اچھی حالت ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ﴾ (الرحمٰن: 46)
ترجمہ: ’’اور جو شخص (دنیا میں) اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا تھا، اس کے لئے دو باغ ہوں گے۔‘‘
یعنی جو اس بات سے ڈر گیا کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں گا، بازپرس ہو گی تو اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ اس وجہ سے بہت اچھی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیقات نصیب فرمائے۔ آپ نے آڈیو میسیج کیا ہے اور آڈیو میں اس مجلس میں نہیں سنا سکتا لہذا اس کو بعد میں دیکھا جائے گا۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم حضرت جی میں فلاں ہوں۔ اللہ پاک آپ کو صحت و عافیت میں رکھے۔ علاجی ذکر کو ایک ماہ ہو گیا تھا الحمد للہ۔ پانچ منٹ سب لطائف کا ذکر اور مراقبہ تنزیہ صفات سلبیہ پر پندرہ منٹ ملا ہوا تھا۔ ساتھ میں مراقبہ دعائیہ دس منٹ ملا ہوا تھا۔ حضرت جی ناغہ نہیں ہے الحمد للہ۔ اکثر دو حصوں میں کرنا پڑتا ہے۔ ایسا لگتا ہے پہلے بہتر کرتی تھی، اب یکسوئی بھی کم ہو گئی اور شوق بھی۔ بوجھ بوجھ لگتا ہے۔ دل سے نہیں کر رہی۔ لطائف بھی کم کم محسوس ہوتے ہیں۔ خیالات بہت زیادہ آتے ہیں۔ مراقبہ دعائیہ بھی کرتی ہوں۔ دوسرا مراقبہ بھی کم کم محسوس ہوتا ہے۔ اس کے فیوض کا تصور کرتی ہوں لیکن ٹھیک طرح نہیں کر پاتی۔ حالانکہ کافی عرصہ سے کر رہی ہوں۔ اس کے اثر کا پتا نہیں چلتا۔ البتہ کبھی کبھی شکر کی توفیق ہوتی رہتی ہے۔ جیسے طبیعت پر قلبی سکون کی کیفیت ہو جاتی ہے۔ ورنہ بے چین رہتی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے اور بھائیوں نے کافی سمجھایا تھا، اس لئے اب حالات بہتر ہیں الحمد للہ۔ بہت سے مسائل کھڑے ہوئے تھے۔ شوہر اتنے بھی کوئی برے نہیں ہیں۔ پیار و محبت سے رکھتے ہیں۔ نماز نہ پڑھنا، گانے سننا، یہ ان کے مسائل ہیں۔ اس کے علاوہ پڑھائی کے لئے جو باہر چلے جاتے ہیں وہ بھی الحمد للہ اب کچھ عرصہ بعد آ جاتے ہیں۔ حضرت جی تصویر اور ویڈیو سے سخت نفرت تھی۔ اب جب یہ ساتھ ہوتے ہیں اور گاڑی میں گانے لگاتے ہیں تو صبر کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی مسئلہ ہے کہ وہ دور ہوتے ہیں، ان کے ساتھ یا ان کے لئے تصویر بنا لیتی ہوں اور ویڈیو بھی بنائی تھی، اب وہ ساتھ نہیں ہوتے تو جب ان کی یاد آتی ہے تو ان کے ساتھ بنائی ہوئی وہی ویڈیو یا تصویریں دیکھ لیتی ہوں۔ اب مجھے لگتا ہے کہ شاید دنیا کی فکر کرنے کی وجہ سے اصلاح کے راستے سے میں بہت پیچھے رہ گئی ہوں۔ اس کے لئے توبہ بھی کرتی ہوں لیکن نہیں سمجھ آتی ان سب چیزوں کو کیسے دور کروں۔ اس کے علاوہ معمولات سب کرتی ہوں۔ چہل درود پاک اور مناجات مقبول میں کبھی کبھی سستی ہو جاتی ہے۔ پچھلے ماہ دو بار فجر کے لئے نہیں جاگ سکی۔
جواب:
ایک ہوتی ہے مجبوری اور ایک ہوتا ہے اختیار۔ یہ دونوں بالکل مختلف باتیں ہیں۔ مجبوری کے حالات میں اللہ جل شانہ کا معاملہ لوگوں کے ساتھ الگ ہوتا ہے اور جب انسان اختیاری طور پر کچھ کرتا ہے تو وہ بات الگ ہوتی ہے۔ حضرت صوفی محمد اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے چند صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے۔ ”ٹھیلے والے کی نماز“ اس میں حضرت نے ایک بات بیان فرمائی ہے کہ ایک ریٹائرڈ آدمی جب خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس کی بات اور ہے اور ایک ٹھیلے والے نے ٹھیلا کھڑا کیا اور نماز پڑھنے مسجد میں چلا گیا۔ اب اس کو فکر ہے کہ میرے ٹھیلے کو کوئی ہلا نہ دے، کوئی چیز گرا نہ دے، کوئی چیز چوری نہ ہو، یہ نہ ہو، وہ نہ ہو۔ یہ سب چیزیں اس کے ذہن میں ہیں اور نماز پڑھ رہا ہے۔ ان سب چیزوں کے ساتھ اس کی نماز، اس ریٹائرڈ آدمی کے خشوع و خضوع والی نماز سے بہت زیادہ مقبول ہے۔ کیونکہ وہ مجبور ہے اور مجبوری کی بات الگ ہوتی ہے۔ مجبوری میں اللہ تعالیٰ بہت کچھ در گزر کر دیتے ہیں۔ لیکن اختیار میں آپ کا امتحان یہ ہے کہ جب آپ گانا نہیں سننا چاہتیں اور آپ منع نہیں کر سکتیں۔ لہذا مجبوراً آپ اس وقت ”یَا ھَادِیُ، یَا نُوْرُ، لَاْ حَوْلَ وَ لَاْ قُوَّۃَ اِلَّاْ بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“ پڑھتی رہا کریں تاکہ اس کا آپ پر غلط اثر نہ ہو۔ آپ چونکہ اس کو روک نہیں سکتیں، اس لئے یہ چیز آپ کی مجبوری بن جائے گی۔ اس پر اللہ پاک آپ کی دستگیری فرمائیں گے۔ جب وہ نہیں ہوتے، پھر بھی اگر آپ گانے سنیں، تو ظاہر ہے پھر وہ آپ کے اختیار میں ہے، اس پر آپ کی گرفت ہو گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ویڈیو یا تصویر آپ اگر اپنے شوہر کے لئے مجبوراً بنا لیتی ہیں، تو وہ معاملہ الگ ہو گا۔ لیکن اگر ان کے جانے کے بعد بھی تصویر کو دیکھتی رہیں، تو یہ اختیاری بات ہو گی۔ لہذا وہ مناسب نہیں ہو گا، اس پہ گرفت ہو سکتی ہے۔ یہ میں نے آپ کو چند اصولی باتیں بتائیں ہیں، انہیں پہ آپ دوسری ساری باتوں کو قیاس کر لیں۔ سستی کا علاج چستی ہے۔ ان تمام چیزوں کا علاج ہمت ہے۔ ہمت کرو تو کیا نہیں ہو سکتا؟ وہ کون سی مشکل ہے جو حل نہیں ہو سکتی؟ میرے خیال میں فی الحال اس پر غور کر لیں۔ اگر کوئی بات سمجھ میں آئی ہے تو وہ بھی بتا دیں اور نہیں سمجھ آئی تو وہ بھی بتا دیں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم اللہ آپ کو صحت اور تندرستی عطا فرمائے۔ ابھی تک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی ذکر کسی دن چھوٹ گیا ہو۔ بہت خوش قسمتی محسوس ہوتی ہے۔
جواب:
اللہ جل شانہ آپ کو اور بھی زیادہ سلسلہ کے فوائد نصیب فرمائے۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت میں فلاں ہوں۔ اپنی امی کے حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ حضرت آپ نے امی کو ساڑھے آٹھ ہزار بار زبانی ’’اَللہ اَللہ‘‘ کا ذکر تلقین فرمایا تھا، جس کی مہینہ کے بعد اطلاع دینی تھی۔ بلا ناغہ ذکر کرنے کا ایک مہینہ 22 دسمبر کو پورا ہو چکا ہے، حضرت آگے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
اب ان کو نو ہزار کا بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم حضرت حال بخیر و عافیت۔ بندہ کی شادی ہونے والی ہے لیکن شادی میں جو خلاف شرع ہونے والے رسوم و رواج، ناچ گانے ہوں گے، اگر روک دیں تو انتشار پیدا ہو گا اور نرمی کرنے سے لوگ بات نہیں مانتے۔ اس طرح ہمارے ہاں یہ بھی رواج ہے کہ عورت کو شوہر کے غیر محرم رشتہ داروں سے پردہ نہیں کرنے دیتے ورنہ گھر والے اور رشتہ دار سب ناراض ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں رہنمائی فرمائیں اور دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
آپ کی یہ بات صحیح ہے کہ لوگ شریعت کو اپنی زندگی میں نہیں لاتے، لیکن جتنا انسان سے ہو سکے، اتنا کرے اور اللہ پاک سے مانگے بھی۔ اپنی طرف سے اس قسم کی کوئی خلاف شرع بات نہ ہو اور اگر لڑکی والوں کی طرف سے ہو تو ان کو نرمی سے منع کریں۔ اگر وہ پھر بھی منع نہیں ہوتے تو صبر کریں۔ کیونکہ فی الحال ان پر آپ کا بس نہیں چلے گا۔ پردہ تو بہرحال کرنا چاہئے، لیکن اگر حالات ایسے نہ ہوں تو نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے۔ جیسے بازار میں خواتین نظر آ جائیں تو اس وقت انسان غضِّ بصر کے حکم کی وجہ سے نظریں نیچے کر لیتا ہے۔ جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے اس پر ہر حالت میں عمل کرنا چاہئے۔ لہذا آپ بھی اس پہ عمل کریں۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم حضرت آپ نے جو ذکر بتایا تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ، ’’اَللہ‘‘ 500 مرتبہ، دس منٹ کے لئے یہ تصور کہ پانچوں لطائف ’’اَللہ اَللہ‘‘ کر رہے ہیں اور پندرہ منٹ کا مراقبہ صفات سلبیہ، اس کا کل دوبارہ ایک مہینہ پورا ہو جائے گا۔ ایک دن کا ناغہ ہوا ہے، جس کا آپ کو بتایا تھا کہ طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اس بار مجھے پکا یقین ہو گیا ہے کہ اللہ ان چیزوں سے پاک ہے جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں، جیسے کھانا، پینا اور شادی وغیرہ۔ باقی آپ بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔
جواب:
کچھ باتیں ایسی ہیں جو مخلوقات میں بھی موجود ہیں اور اللہ پاک کے ہاں بھی ہیں۔ لیکن وہ اللہ پاک کے ہاں کامل صورت میں ہیں اور مخلوقات میں ناقص صورت میں ہیں۔ جیسے اللہ پاک دیکھتے ہیں، ہم بھی دیکھتے ہیں۔ لیکن ہمارا دیکھنا ایسا ہے کہ دیوار سے آگے نہیں دیکھ سکتے، چھت کے اوپر نہیں دیکھ سکتے، لیکن اللہ پاک ہر وقت ہر چیز دیکھتے ہیں۔ اللہ پاک سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ اللہ پاک ہر چیز سنتے ہیں۔ اس طرح جو چیزیں انسانوں میں ہیں، ان میں سے بعض اللہ تعالیٰ کے ہاں کامل صورت میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے لئے صفات ثبوتیہ کا مراقبہ تھا اور صفات سلبیہ کا مراقبہ یہ ہے کہ جیسے: ﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ﴾ (الشوریٰ: 11)
ترجمہ: ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے۔‘‘
یعنی اللہ جل شانہ بعض ان چیزوں سے پاک ہیں جو مخلوقات کی ہیں۔ اس کے لئے یہ مراقبہ پکا کرنا ہوتا ہے۔ ابھی آپ لطیفہ اخفیٰ پر شان جامع کا مراقبہ کر لیں۔ ان تمام لطائف کے فیوض و برکات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کی طرف آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ باقی ذکر و اذکار کرتے رہیں۔
سوال نمبر 7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی الحمد للہ معمولات معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔ میرا ذکر ایک مہینہ کے لئے تھا: 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘، 12500 مرتبہ ’’اَللہ‘‘۔ اللہ کے فضل اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہو گیا ہے۔ کیفیت میں کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی۔ نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنے کا مجاہدہ بھی جاری ہے۔
جواب:
اب تیرہ ہزار مرتبہ ’’اَللہ‘‘ اور باقی چیزیں وہی ہیں۔
سوال نمبر 8:
السلام علیکم حضرت جی امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ اولیاء کے مزار پر حاضری دینا کیسا ہے؟ مجھے اپنے نفس کی پاکیزگی چاہئے۔ جب میں نے آپ سے ایک سال پہلے بیعت کی تھی اس وقت میں نے چالیس دن کا وظیفہ پڑھا تھا۔ اب دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں۔
جواب:
ٹھیک ہے آپ دوبارہ شروع کر لیں۔ لیکن پہلے یہ بتائیں کہ چالیس دن کا وظیفہ آپ نے مکمل کیا تھا یا نہیں؟ اولیاء اللہ کے مزار پر حاضری میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ ان سے اپنی حاجتوں کو نہیں مانگنا چاہئے، حاجتیں اللہ پاک سے مانگنی چاہئیں۔ جیسے ہم سورۂ فاتحہ میں کہتے ہیں: ﴿اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ﴾ (الفاتحۃ: 4)
ترجمہ: ’’(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘
اولیاء اللہ کے مزار پر اللہ کی رحمت برستی ہے، تو ہمیں بھی اس رحمت سے حصہ مل جاتا ہے۔ سب سے بڑی بات، ہمیں یہ تصور کرنا چاہئے کہ اللہ والوں نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ ہمیں بھی اسی طریقے پہ گزارنی چاہئے تاکہ ہم بھی اللہ پاک کے مقبول بندوں میں شامل ہو جائیں۔
سوال نمبر 9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ پیر صاحب مجھے وسوسہ اور وہم بہت زیادہ آتے ہیں۔ رات کو میں بہت زیادہ ڈرتا ہوں۔ تقریباً ایک سال ہو گیا میرے ساتھ یہ معاملہ پیش آ رہا ہے۔ دماغ میں بہت زیادہ خوف ہوتا ہے اور ہر وقت یہی لگتا ہے کہ میں مر رہا ہوں۔ ڈاکٹروں کو بھی دیکھایا، وہ کہتے ہیں کوئی بیماری نہیں ویسے ہی ٹینشن لے رہا ہوں۔ حالانکہ میں بہت زیادہ تنگ ہوں۔ لہذا کوئی وظیفہ یا کوئی عمل بتا دیں۔
جواب:
اس کے علاج کے لئے آپ کو میرے پاس آنا پڑے گا۔ میں اگر پوری کتاب بھی آپ کو لکھ کے بھیج دوں تو اس سے شاید آپ کو اتنا فائدہ نہیں ہو گا۔ کیونکہ شاید آپ نصیحت کی حد سے نکل گئے ہیں۔ آپ آ کر خانقاہ میں تین دن لگا لیں، پھر ان شاء اللہ کچھ بات سمجھ میں آ جائے گی۔
سوال نمبر 10:
السلام علیکم حضرت جی میرا نام فلاں ہے۔ عمر 22 سال، سٹوڈنٹ ہوں۔ آپ نے چوتھا ذکر تیس دن کے لئے دیا تھا۔ تیسرا کلمہ 200 مرتبہ، درود شریف 200 مرتبہ، ”اِستِغْفَار“ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ 200 مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ 400 مرتبہ، ’’اَللہ اَللہ‘‘ 100 مرتبہ، الحمد للہ مکمل ہو چکا ہے۔ اگلا ذکر کون سا ہے؟
جواب:
اب آپ ’’حَقْ‘‘ 600 مرتبہ کر لیں، باقی سب چیزیں یہی رہنے دیں۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی اللہ پاک سے آپ کی صحت اور تندرستی کے لئے دعا گو ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اشراف نفس پہ قابو نہیں پا سکتا اور اس بات کا صحیح معنوں میں ادراک بھی نہیں کر پاتا کہ کس وقت کس بات کا شکار ہوں۔ دوسری بات کسی روز جہانگیرہ جوڑ میں ساتھیوں کے ساتھ شریک ہونے کا پورا ارادہ تھا، لیکن عین روانگی سے پہلے ادارے کی طرف سے اتوار والے دن ایک میٹنگ رکھی گئی، جس میں شمولیت کو لازم قرار دیا گیا۔ میں نے چھٹی لینے کی کوشش کی لیکن نہیں مل سکی جس کے باعث حاضر نہیں ہو سکا۔ ساتھیوں کے ساتھ صرف چوبیس گھنٹے کے جوڑ میں بھی خانقاہ آنے کی ترتیب بنی تھی لیکن دو ساتھیوں کو اچانک ایک ضروری کام کے باعث رکنا پڑا۔ چونکہ سواری کا بندوبست انہی کی طرف سے تھا، اس باعث میں جوڑ میں حاضر نہیں ہو سکا۔ مجھے اپنے راستے سے بھٹکنے کے خدشات بہت زیادہ ہیں۔ حضرت آپ کی دعا اور توجہ کے ذریعے سے چل رہا ہوں۔ براہ مہربانی اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ آپ کی دعاؤں کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔
جواب:
اشراف نفس ایک وسوسہ بھی ہو سکتا ہے اور حقیقت بھی۔ پھر کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہو تو آپ دل میں تہیہ کر لیں کہ اگر کوئی کچھ دے بھی تب بھی نہیں لوں گا۔ بعض دفعہ جڑ سے نکالنے کے لئے اس سے اگلا قدم لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ اشراف نفس میں کسی سے امید ہوتی ہے کہ وہ مجھے کچھ دے گا۔ چنانچہ وسوسہ سے نکلنے کے لئے آپ اپنے آپ کو کہیں کہ اگر کوئی کچھ دے بھی تو میں نہیں لوں گا۔ منع کرنے کا اختیار تو ہر وقت ہوتا ہے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
نمبر1:
لطیفہ قلب پندرہ منٹ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اس کو بیس منٹ کر لیں۔
نمبر 2:
بیٹے کا: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر پندرہ منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ابھی تیسرا دس منٹ کا اور چوتھا پندرہ منٹ کا دے دیں۔
نمبر 3:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سِر دس منٹ، لطیفۂ خفی دس منٹ، لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ، تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، لیکن سر کی تکلیف کی وجہ سے ذکر و مراقبہ کے بعد سخت درد شروع ہو جاتا ہے۔ زیادہ دیر ذکر برداشت نہیں کر سکتی۔
جواب:
اللہ جل شانہ آپ کو صحت عطا فرمائیں۔ اگر اس وقت ساتھ چائے وغیرہ پی لیں تو زیادہ بہتر ہے۔
نمبر 4:
تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر، مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ، الحمد للہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ادراک ہونے لگا ہے۔ اس کے علاوہ دل بہت نرم ہو گیا ہے۔ جب تلاوت قرآن کرتی ہوں یا بیان سنتی ہوں تو غیر اختیاری طور پر آنسو بہنے لگتے ہیں۔
جواب:
اب ان کو مراقبہ شیونات ذاتیہ دے دیں۔
نمبر 5:
تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ معیت پندرہ منٹ۔ اللہ کی معیت کا ہر وقت احساس ہونے لگا ہے۔ جب کوئی کام کرتی ہوں تو ڈرتی ہوں کہ کہیں گناہ نہ ہو جائے۔ اللہ میرے ساتھ ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ، مراقبہ معیت جاری رہے۔ اس کے ساتھ مراقبہ دعائیہ بھی شامل کر لیں۔
نمبر 6:
تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ ذکر، مراقبہ حقیقتِ کعبہ اور حقیقتِ صلوٰۃ اور مراقبہ دعائیہ۔ ایسا لگتا ہے کہ جسم کا ذرہ ذرہ سجدہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے دعا بھی کثرت سے کرتی ہوں۔
جواب:
اس کو جاری رکھیں۔
نمبر 7:
لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح دس دس منٹ اور لطیفۂ سِر پندرہ منٹ کا دے دیں۔
سوال نمبر 13:
معمولات سب ادا ہو رہے ہیں۔ کچھ فری لانسنگ چل رہی ہے۔ بچوں کی خدمت بھی جاری ہے۔ کبھی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ بھی دیکھتا ہوں۔ دوائی بھی معمولی سی چل رہی ہے۔ اضافی وقت بہت ہے جس میں سوچ سوچ کر کچھ دینی و دنیاوی مشغولیت کر لیتا ہوں۔
جواب:
فارغ وقت میں درود شریف پڑھ سکتے ہیں۔ باقی جاری رکھیں۔
سوال نمبر 14:
آج کل کے نوجوانوں کے لئے اللہ کا ولی بننے کا آسان طریقہ کیا ہے؟
جواب:
اللہ کا ولی بننے کے لئے بنیادی چیز قرآن نے بتائی ہے۔ البتہ نوجوانی کے لحاظ سے کچھ بات عرض کر لیتا ہوں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (یونس: 62-63)
ترجمہ: ”یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقوٰی اختیار کئے رہے۔“
یعنی ایمان حاصل کر چکے ہوں گے اور تقویٰ اختیار کر رہے ہوں گے۔ تقویٰ اصل میں گناہ سے بچنے کا نام ہے۔ کسی بھی وقت گناہ کا تقاضا ہو تو اللہ کے ڈر سے اس سے رکنا یہ تقویٰ کہلاتا ہے کہ اپنے نفس کو اس پر قائم رکھنا اور اس کو سمجھانا۔ ایک اس کا فوری حل ہے اور دوسری مستقل صورت ہے۔ فوری حل یہی ہے کہ اس وقت اس گناہ کو نہ کیا جائے، اگرچہ اس کو نہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہو۔ نوجوانوں کے ساتھ زیادہ مسائل یہ ہیں کہ آنکھ غلط استعمال نہ ہو جائے، کان غلط نہ استعمال ہو جائیں، زبان غلط نہ استعمال ہو جائے۔ چنانچہ صحبت ناجنس سے پرہیز کرنا چاہئے، یعنی ایسے لوگوں کے ساتھ نہیں اٹھنا بیٹھنا چاہئے جن کی وجہ سے ان چیزوں میں پڑنے کا امکان زیادہ ہو، اور صحبت صالحین کو اختیار کرنا چاہئے۔ چونکہ نوجوانوں میں صلاحیت ہوتی ہے، لہذا جب ان کو اچھی صحبت نصیب ہو جائے تو بہت جلد اس کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ پیغمبروں پر ایمان لانے والے زیادہ تر نوجوان ہی ہوا کرتے تھے۔ اللہ والوں سے بھی زیادہ متاثر جوان ہوا کرتے ہیں۔ کیونکہ ان میں انرجی بھی ہوتی ہے، قوت ارادی بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نئی گاڑی کا بریک بھی بہت شاندار ہوتا ہے، اس کا ایکسلیٹر بھی بہت شاندار ہوتا ہے، سپیڈ تیز بھی کر سکتے ہیں اور بالکل روک بھی سکتے ہیں۔ لیکن پرانی گاڑی کا ایکسلیٹر بھی آہستہ کام کرتا ہے وہ مشکل سے رکتی ہے۔ اسی طرح خدانخواستہ اگر بوڑھے لوگ گناہوں میں مبتلا ہوں تو ان کا بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اگر نوجوان غلطی میں پڑے ہوں اور بریک لگانا چاہیں تو فوراً لگا لیں گے۔ اگر ان کو صحبتِ صالحین مل جائے تو یہ بہت جلدی سدھر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے نوجوانوں کے لئے صحبت ناجنس سے بچنا اور صحبت صالح اختیار کرنا بہت زیادہ مفید ہے۔ اس کا اصل طریقہ یہی ہے کہ کسی اللہ والے کے ساتھ تعلق قائم کرے، اور اپنی اصلاح شروع کروائے۔ اس طرح اس کے پاس ٹائم بھی بہت ہو گا اور اس کی اصلاح ہونے کا امکان قوی ہے۔ اللہ جل شانہ ہمارے سب جوانوں کو پاک نوجوان بنا دے، اپنے تعلق والا نوجوان بنا دے۔ یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، البتہ ہمت شرط ہے۔
سوال نمبر 15:
کیا ایک عام آدمی کو سیاست میں کچھ حصہ لینا چاہئے؟
جواب:
سیاست میں حصہ لینے کا مطلب اگر یہ ہے کہ باقاعدہ ایک پارٹیشن بن جائے، ایک سیاست دان بن جائے، تو یہ ایک عام آدمی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ہمارے ملک میں سیاست دان بننے کے لئے جو وسائل ہیں، وہ ایک عام آدمی کے بس میں نہیں ہوتے۔ اس کے لئے لوگ غلط راستوں پہ جانا شروع کر دیتے ہیں۔ عام آدمی اگر سیاست دان بننا چاہتا ہے تو یہ بہت مشکل ہے۔ اگر اس کی نیت نیک ہو تو رفاعی کاموں میں حصہ ڈالنا شروع کر دے۔ موجودہ پارٹیوں میں جو سب سے اچھی ہے، اس کے ساتھ تعاون شروع کر دے۔ اس طرح یہ عوام کی نظروں میں بھی آ جائے گا اور اس کا مقام بننا شروع ہو جائے گا۔ پہلے اپنی پارٹی کے اندر حق کا ساتھ دینا شروع کر دے۔ اگر پارٹی غلط طرف جا رہی ہو تو پریشر گروپ کی صورت بنا کر ان کو بھی صحیح طرف لانے کی کوشش کرے۔ اللہ پاک کو منظور ہوا تو اس کو ترقی ملے گی اور آہستہ آہستہ وہ سامنے آتا جائے گا۔ نتیجتاََ ایک وقت میں اس سے اس سلسلہ میں کام بھی لیا جائے گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی اللہ والے کے ساتھ تعلق ہو تاکہ اخلاص پیدا ہو جائے۔ کیونکہ سیاست کے بارے میں ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بڑی عجیب بات بیان فرمائی کہ دنیا سانپ کی طرح ہے، چونکہ سیاست میں دنیا بالکل سامنے اور ساتھ ساتھ ہوتی ہے، لہذا سانپ کو پکڑنے کی کوشش وہ بندہ کرے جو سانپ کا دم جانتا ہو۔ یعنی جو دنیا سے بچ سکتا ہو، اس کا دم جانتا ہو۔ یعنی کسی اللہ والے کے ساتھ تعلق ہو تو وہ سیاست کرے۔
سوال نمبر 16:
اسلام کے مطابق ہم ووٹ کس کو دیں؟ جبکہ کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی اسلامی نظام کی حامی نظر نہیں آتی۔
جواب:
یقیناً کوئی بھی بڑی پارٹی اسلامی نظام کے حق میں نظر نہیں آتی، لیکن ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی پارٹی اسلامی نظام کے حق میں نہ ہو۔ چھوٹی پارٹی بھی بڑی بن جاتی ہے۔ بڑی پارٹیوں میں جب مقابلہ ہوتا ہے اور کوئی بھی حکومت نہ بنا سکے تو اس وقت وہ چھوٹی پارٹیاں اس پوزیشن پہ آ جاتی ہیں کہ وہ حکومت سے اپنی مرضی کی بات منوا سکیں۔ مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا غوث ہزاروی صاحب رحمۃ اللہ علیہ دو حضرات تھے۔ لیکن اپنے دور میں دو سیٹوں سے بہت کچھ کر کے دیکھایا تھا۔ کے پی کے، کے وزیر اعلیٰ بھی تھے۔ وہاں پہلی دفعہ اسلامی نظام کی جو چار بنیادی باتیں نافذ کی تھیں، وہ مفتی محمود صاحب نے نافذ کی تھیں۔ شراب پہ پابندی اور اس کے علاوہ کچھ اور چیزیں تھیں۔ چند سیٹوں کی بنیاد پر انہوں نے یہ کام کر دیا تھا۔ تو ایسا نہیں ہے کہ چھوٹی پارٹی کام نہیں دے سکتی۔ اگر چھوٹی پارٹی میں کام لینے والے اور کام کرنے والے موجود ہوں تو ان کے ساتھ تعاون کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ایسے علاقہ میں ہیں، جہاں ان کی نمائندگی نہ ہو اور آپ یہ سمجھیں کہ کوئی بھی اچھا نہیں ہے تو پھر تین اصول ہیں، نمبر 1: وہ جو ملت کے اور دین کے خلاف ہوں، ان کا ساتھ نہ دیں۔ نمبر 2: جو ملک کے خلاف ہوں، ان کا ساتھ نہ دیں۔ نمبر 3: جو کرپٹ ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ہر ایک کرپٹ ہو تو ان میں دیکھو کہ زیادہ کرپٹ کون ہے؟ ممکن ہے کوئی نوے فیصد کرپٹ ہو، کوئی اسّی فیصد ہو، کوئی پچاس فیصد ہو، کوئی چالیس فیصد ہو، کوئی تیس فیصد ہو۔ اگر کوئی بھی ایمان دار نہیں مل رہا تو تیس فیصد والے کو لے لو۔ یعنی چھوٹی بلا کو لے کر بڑی بلا کا مقابلہ کرنا۔ اسے اَہْوَنُ الْبَلِیَّتَیْنِ کا اصول کہتے ہیں۔ اس طریقے سے یہ کام کیا جا سکتا ہے کہ جو تھوڑا کرپٹ ہے اس کے ذریعے سے بڑے کرپٹ کا راستہ روکیں۔ یہ اصول اس صورت میں ہے جب آپ کو اچھے لوگ نہ ملتے ہوں۔ اچھے لوگوں کی موجودگی میں اس اصول کو استعمال نہ کریں۔ اگر اہل حق کی چھوٹی پارٹی بھی موجود ہے تو اس کے ساتھ بھی تعاون کیا جا سکتا ہے۔ بعض دفعہ کوئی آزاد آدمی کھڑا ہوتا ہے، اس کے ساتھ بھی تعاون کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر اچھی پارٹیاں اور لوگ موجود ہیں تو دیکھ لیں۔ الیکشن کے دنوں میں ”اَللّٰہُمَّ خِرْ لَنَا وَاخْتَرْ لَنَا“ اس دعا کو بہت زیادہ پڑھا کریں تاکہ اللہ پاک آپ کے دل میں صحیح بات ڈالیں۔ ہر نماز کے بعد کم از کم تین تین بار اور ووٹ ڈالنے کے دن اور اس سے پہلی رات تہجد کی نماز پڑھ کر، صلوٰۃ حاجت پڑھ کر، اللہ پاک سے دعا مانگیں کہ اے اللہ صحیح بات میرے دل میں ڈال دے تاکہ میں کسی غلط آدمی کے لئے استعمال نہ ہو جاؤں۔ دعا میں یہ تصور کر لیں کہ اگر میں نے غلط آدمی کو چنا تو وہ جتنے بھی غلط کام کرے گا ان سب میں میرا حصہ ہو گا اور اگر صحیح آدمی کو چنا تو وہ جتنے نیک کام کرے گا ان میں میرا بھی حصہ ہو گا۔ اس سوچ کے ساتھ آپ اللہ پاک سے مانگتے ہوئے صحیح فیصلہ کریں۔
سوال نمبر 17:
حضرت ہم قرآن میں سات آسمانوں کا ذکر پڑھتے ہیں۔ جبکہ سائنس میں جب وہ آسمان کا موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ یہ خلا ہے۔ اس کے بارے میں تھوڑی سی کنفوژن ہوتی ہے کہ اللہ پاک کہتا ہے سات آسمان ہیں اور سائنس کہتی ہے کہ خلا ہے۔
جواب:
اللہ پاک نے جو فرمایا وہ تو حق ہے اگرچہ ہم نہ بھی دیکھ سکیں۔ کیوں کہ ہم اللہ پاک کو بھی نہیں دیکھ رہے۔ اگر صرف دیکھنا بنیاد ہو تو پھر نعوذ باللہ من ذلک اللہ پاک پر بھی ایمان ختم ہو جائے گا۔ ضروری نہیں کہ جو چیز انسان نہ دیکھ سکتا ہو اس سے انکار کر دے۔ اصل میں آسمان بہت دور ہے۔ سائنسدانوں کی بات بھی صحیح ہے کیونکہ ہماری آنکھوں کے دیکھنے کی ایک انتہاء ہے جس پر پہنچ کر ہماری آنکھوں کی نظر رک جاتی ہے۔ اس سے آگے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن کیا جو چیز آپ کو نظر نہیں آتی کیا وہ نہیں ہے؟ جیسے بجلی کو آپ دیکھ نہیں سکتے لیکن کیا بجلی سے انکار کر سکتے ہیں؟ جنات کو بھی ہم نہیں دیکھ سکتے، لیکن جنات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم دیکھ نھیں سکتے لیکن ان سے انکار نہیں کر سکتے۔ آسمان کے بارے میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے سے اطلاع ہے۔ اس کا پتا موت کے بعد چلے گا، جب ہماری روح آسمان کی طرف جائے گی، پھر ساری چیزیں محسوس ہو جائیں گی۔ لیکن دنیا میں ہمیں ایمان کے زور سے اس بات کو سمجھنا ہے۔ مسلمان اور کافر سائنسدان میں یہی فرق ہوتا ہے، کافر سائنسدان صرف اپنے مشاہدے پر یقین رکھتا ہے۔ جبکہ مسلمان سائنسدان اپنے مشاہدے کو بھی دیکھتے ہیں اور وحی کے ذریعے سے جو ہمیں خبر دی گئی ہے اس پر بھی یقین رکھتے ہیں جو ہماری نظر سے زیادہ یقینی ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیٹا فوت ہوا تو آپ ﷺ نے ان کو تسلی دینے کے لئے فرمایا: اگر آپ چاہیں تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں کہ آپ کا بیٹا آپ کو جنت میں دکھا دیں۔ ہماری خواتین ہوتیں تو کہتیں بالکل، ضرور دکھا دیجئے۔ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: اب مجھے اس کو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ مجھے آپ کی زبان پر اپنی نظروں سے زیادہ یقین ہے۔ معراج شریف کے واقعے میں ان باتوں کا ذکر ہے، ہم ان سب باتوں کو مانتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر 18:
حضرت مرشدی السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ کیا اس مسنون دعا کا ورد کیا جا سکتا ہے: ”اٙللّٰھُمّ آٰتِ نٙفْسِیْ تٙقْوٙاھٙا وٙزٙکِّھٙا اٙنْتٙ خٙیْرُ مٙنْ زٙٙکّاھٙا اٙنْتٙ وٙلِیُّھٙا وٙ مٙوْلاھٙا“ کیا یہ درست ہے کہ اب تو تقریباً تمام سلاسل تصوف جذب کسبی کا کوئی نہ کوئی انتظام کرتے ہیں؟ جیسے قرآن پاک کی تلاوت سے مجلس کی ابتدا، حمد و ثنا یا نعت شریف یا عارفانہ کلام کا پڑھنا وغیرہ۔ اور جو واقعات ہیں کہ کسی بزرگ نے کسی اور بزرگ کی نسبت کو سلب کر لیا۔ اولاً یہ کام تکلیف پہنچانے والی بات ہے اور پھر یہ سوال ذہن میں ہے کہ نسبت تو تعلق مع اللہ کو کہتے ہیں تو پھر کوئی کیسے اس تعلق کو سلب کر سکتا ہے؟ اگر میرا سوال فالتو ہے تو میں معافی چاہتا ہوں۔
جواب:
آپ کا سوال بالکل بھی فالتو نہیں ہے، آپ یہ دعا کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ واقعی اب تمام تصوف سلاسل میں چونکہ عوام کے لئے بہت مناسب ہے کہ پہلے دل نرم ہو پھر اس کے بعد نفس کا لوہا گرم ہو، یعنی اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ لہذا جذب کسبی مختلف طریقوں سے پیدا کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے نقشبندی سلسلہ میں مجلس کے اندر مراقبہ کا اجرا کر لیا جاتا تھا لیکن اب باقاعدہ توجہ کرتے ہیں یا اشعار پڑھتے ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ مراقبہ کا اجرا کرتے ہیں۔ اس طریقے سے ہمارے اذکار جذب کسبی کو پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ آج کل واقعتاً تقریباً تمام سلاسل میں یہ بات موجود ہے۔ مجھے ابھی تک کوئی سلسلہ ایسا نظر نہیں آیا جس میں مجاہدہ براہ راست کیا جاتا ہو۔ البتہ تبلیغی جماعت میں یہ ابتداً مجاہدہ کرایا جاتا ہے۔ جیسے ان کو کہتے ہیں کہ باہر نکلو تو یہ باہر نکلنا ان کا مجاہدہ ہے۔ اسی طرح لوگوں کے گھر گھر جا کر ان کی منتیں کرو، یہ مجاہدہ ہے۔ تو وہاں مجاہدہ سے ابتدا کرائی جاتی ہے۔ البتہ وہاں پر بیان وغیرہ کی اجازت ہے۔ اصل میں یہ فضائل کے ذریعے سے قائل کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ کیونکہ فضائل کے ذریعے سے بھی دل نرم کیا جاتا ہے تاکہ دل میں وہ بات آ جائے، پھر اس پر انسان عمل کر لیتا ہے۔ لیکن ذکر والا طریقہ انہوں نے مشائخ کے لئے چھوڑا ہے۔ کیونکہ اصلاحی علاج یعنی ذکر عوام کسی کو نہیں دے سکتے، اس میں مسائل ہیں۔ چنانچہ اگر تبلیغی حضرات کا مجاہدہ کے ساتھ مشائخ کے ساتھ بھی تعلق ہو تو بہت زبردست طریقہ ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ تصوف آپ کے ذکر کا ذریعہ ہے اور تبلیغ میں وقت لگانا آپ کا مجاہدہ ہے۔ معلوم ہوا اگر تبلیغی جماعت میں مشائخ کے ساتھ تعلق ہو تو یہ بہت اچھی ترتیب بن جاتی ہے۔ یعنی مجاہدہ بھی ہو جاتا ہے اور ساتھ میں ذکر اذکار بھی ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے جتنے بھی سلاسل ہیں ان تمام میں اب جذب کسبی سے ابتدا کرائی جاتی ہے۔
سوال نمبر 19:
کیا کسی اور بزرگ کی نسبت کو کوئی سلب کر سکتا ہے؟
جواب:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا بہت اچھا جواب دیا ہے۔ حضرت نے فرمایا ہے کہ تعلق مع اللہ کو کوئی سلب نہیں کر سکتا۔ البتہ شوق و ذوق کو سلب کر سکتے ہیں۔ یعنی بعض دفعہ شوق و ذوق لوگوں کے لئے مسئلہ بن جاتا ہے۔ یعنی ایک تو ان میں عجب کا مسئلہ ہو سکتا ہے اور بعض دفعہ صحت کو نقصان ہوتا ہے۔ بعض دفعہ حقوق پورے نہیں ہو پاتے۔ حضرت نے اپنے ماموں کی مثال دی ہے کہ میرے ماموں مجذوبیت کی طرف جا رہے تھے تو میری والدہ نے اس بات کی شکایت کی تو ایک صاحب نے ان کو دیکھا اور کہا: میری طرف دیکھو اور میرے ماموں کا سارا کچھ سلب کر لیا۔ تو ماموں نے جب یہ بات محسوس کی تو ان صاحب کو کہا: یہ ڈاکو ہے۔ چنانچہ اپنی نارمل زندگی میں واپس آ گئے اور پھر کاروبار وغیرہ اور دوسرے سب کام کر سکتے تھے جو پہلے نہیں کر پا رہے تھے۔ پھر جب آخری وقت آ گیا تو وہی صاحب پھر دوبارہ آ گئے اور انہوں نے کہا: اب میری طرف دیکھو! جب ان کی طرف دیکھا تو جو سلب کیا تھا وہ سارا کچھ واپس کر دیا، جس کی وجہ سے انہیں شوق و ذوق ہوا اور کہا اب تو میرے سامنے دو شانیں ہیں۔ ان صاحب نے فوراً کہا: خبردار! کچھ بھی نہیں کہنا۔ اس کے بعد آرام سے ان کی جان نکل گئی۔ معلوم ہوا شوق و ذوق وغیرہ کو سلب کر سکتے ہیں۔ البتہ اللہ کے ساتھ تعلق کو سلب نہیں کر سکتے۔ شوق و ذوق سلب کرنے کی وجہ سے بعض دفعہ لوگوں کا اللہ کے ساتھ تعلق کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ لوگ شوق و ذوق کی وجہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کا شوق و ذوق کے ساتھ تعلق نہ ہو بلکہ اللہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں تو ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ تو اس مسئلہ میں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ بڑوں کی باتیں ہیں۔ البتہ جو بات ہماری سمجھ میں آئی وہ بتا دی۔
سوال نمبر 20:
اگر شیخ تشریف فرما ہوں تو سالک ان کے سامنے بیٹھ کر وقوفِ قلبی کر سکتے ہیں؟
جواب:
سب سے بڑی بات جو ہمارے مشائخ نے بتائی وہ یہ ہے کہ شیخ کے قلب پر اللہ پاک وہی چیز ڈالتے ہیں جو مریدوں کے لئے مفید ہوتی ہے، کیونکہ شیخ مریدوں کے لئے دروازہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اگر شیخ کی مجلس میں موجود ہو تو شیخ کے قلب کی طرف متوجہ ہو اور یہ سوچے کہ جو ان کی طرف ہمارے لئے آ رہا ہے وہ ہمارے دل میں آ رہا ہے۔ اس سے ان کو وہ چیز ملتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی اپنے شیخ کی مجلس میں بیٹھا ہو تو مشائخ اس کو لسانی ذکر سے بھی روکتے ہیں کیونکہ لسانی ذکر مستحب ہے اور اپنی اصلاح فرض ہے۔ فرض کے وقت آپ مستحب عمل نہیں کر سکتے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ