سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 601

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنِ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر: 1

السلام علیکم۔ شیخ محترم! میرا پانچ پانچ منٹ لطائف کا ذکر، پندرہ منٹ مراقبہ معیت، دل ہی دل میں دعا والا عمل، الحمد للہ اس ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ پچھلے ماہ اس مراقبے کے دوران میں کافی پریشانی میں مبتلا رہی ہوں، اس دوران اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے بار بار یہ آیت دکھائی کہ ’’اللّٰہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مدد گار نہیں ہے‘‘ اور ایسی آیات سامنے آتی رہیں جن کا مفہوم یہ تھا کہ میرے لئے اللہ آسانی پیدا کر دے گا، میں لوگوں کی باتوں سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ صبر کروں، اللّٰہ پاک ہر کام کی تدبیر کرنے والا ہے، وہی دعا قبول کر کے بندے کو تکلیف سے نجات دیتا ہے، مجھے ہر سوچ کا جواب کسی آیت یا تحریر کی صورت میں ملا ہے، پھر میں مسلسل آیت کریمہ پڑھتی رہی تو فی الحال پریشانی میں کمی آئی ہے۔ نیز اس دوران یہ بات بھی سمجھ آ گئی کہ واقعی اللّٰہ کے سوا کوئی میرا دوست یا مدد گار نہیں، میرا اللّٰہ پر یقین بڑھ گیا ہے۔ ابھی اس ماہ جو آیت میرے سامنے آئی، وہ حالات کے مطابق صبر والی یہ آیت تھی کہ ’’اور اللّٰہ پر بھروسہ رکھو اور کام بنانے کے لئے اللّٰہ پاک بالکل کافی ہے‘‘۔ میں محسوس کرتی ہوں کہ مراقبہ معیت اور میری پریشانی کا آپس میں گہرا تعلق ہے، جس کی وجہ سے میں رب کے قریب ہوئی ہوں اور زیادہ تر اللّٰہ کی یاد، دعا، ذکر میں مصروف ہوں۔ اب آگے رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

مراقبہ معیت یعنی یہ سوچنا کہ اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے۔ کیسے ساتھ ہے؟ وہ ہمیں معلوم نہیں، اللّٰہ پاک کو علم ہے لیکن بہرحال اللّٰہ پاک ہمارے ساتھ ہیں، مراقبہ معیت کے دوران دل ہی دل میں دعا مانگنا بڑی نعمت ہے، آپ اس کو فی الحال اس ماہ بھی جاری رکھیں کیونکہ اس سے آپ کو فائدہ ہو رہا ہے اور اصل میں فائدہ ہی مطلوب ہے۔

سوال نمبر: 2

200، 400، 600، اور 100 والا ذکر مکمل ہو گیا ہے، اب اگلا ذکر ارشاد فرما دیں۔

جواب:

اب ایک مہینے کے لئے 200، 400، 600 اور 300 والا ذکر کر لیں۔

سوال نمبر: 3

حضرت! میں آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوا تھا، میرا پہلا وظیفہ چالیس دن کا مکمل نہیں ہو پا رہا تھا جو کہ اب مکمل ہو گیا ہے۔ برائے مہربانی! مجھے اگلا وظیفہ دے دیجیے۔

جواب:

تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار سو سو دفعہ، یہ وظیفہ عمر بھر کے لئے ہو گا۔ جو نماز کے بعد والا وظیفہ ہے، وہ بھی ان شاء اللہ عمر بھر جاری رہے گا۔ اس کے علاوہ جہری ذکر اس طرح کریں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ 100 دفعہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ 100 دفعہ، ’’حَقْ‘‘ 100 دفعہ اور ’’اَللّٰہُ‘‘ 100 دفعہ، یہ وظیفہ 100 100 دفعہ کوئی وقت مقرر کر کے بلا ناغہ ایک مہینہ تک کریں، پھر مجھے اطلاع کر دیجیے گا۔

سوال نمبر: 4

میری والدہ بیعت ہوئی ہیں اور وہ ذکر شروع کرنا چاہتی ہیں۔

جواب:

ٹھیک ہے، وہ ذکر شروع کر لیں، ان کو پہلا ذکر بتا دیجیے۔ 300 دفعہ ’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ ِللّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ اور 200 دفعہ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘۔ یہ ذکر چالیس دن تک بلا ناغہ کر لیں، درمیان میں ناغہ نہ کریں اور ہر نماز کے بعد 33 دفعہ ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘، 33 دفعہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘، 34 دفعہ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘، 3 دفعہ ’’کلمہ طیبہ‘‘، 3 دفعہ ’’درودِ ابراہیمی‘‘، 3 دفعہ ’’استغفار‘‘، ایک مرتبہ ’’آیت الکرسی‘‘۔ چالیس دن تک یہ عمل کر کے پھر مجھے اطلاع کریں۔

سوال نمبر: 5

معذرت! آئندہ احتیاط کروں گا، جناب! بے ادبی معاف کر کے شفقت فرما دیں، بندہ ناچیز کو کوئی مناسب وظیفہ عطا فرما دیں۔

جواب:

اصل میں ہمارے ہاں جو لوگ آتے ہیں یا رابطہ کرتے ہیں، وہ اپنی اصلاح کے لئے ایسا کرتے ہیں اور اپنی اصلاح بہت بڑی نعمت ہے، جس کے لئے قرآن پاک میں خصوصی طور پر پوری سورت اتاری گئی ہے، لہذا اگر آپ بھی اس طرف آنا چاہتے ہیں تو یہ بڑی نعمت ہے، اگر اللّٰہ پاک نے آپ کے دل میں اپنی اصلاح کا خیال ڈالا ہے تو آپ اس طرح کر لیں کہ 300 دفعہ ’’سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ ِللّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاللّٰهُ أَکْبَرُ‘‘ اور 200 دفعہ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘۔ اس عمل کو چالیس دن تک بلا ناغہ مکمل کیجئے اور ہر نماز کے بعد 33 دفعہ ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘، 33 دفعہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘، 34 دفعہ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘، 3 دفعہ ’’کلمہ طیبہ‘‘، 3 دفعہ ’’درودِ ابراہیمی‘‘، 3 دفعہ ’’استغفار‘‘ اور ایک مرتبہ ’’آیت الکرسی‘‘۔ اس عمل کو عمر بھر کرنا ہے لیکن پہلے والا وظیفہ چالیس دن تک کر کے پھر مجھے بتا دیجیے گا، اس عمل میں اپنی اصلاح کی نیت رکھیں کہ اس سے آپ کی ان شاء اللّٰہ اصلاح ہو گی۔

سوال نمبر: 6

معمولات درج ذیل ہیں:

200، 400، 600، ساڑھے چار ہزار تمام لطائف پر 10 منٹ، مراقبہ تجلیات افعالیہ 15 منٹ۔ معمولات میں الحمد للّٰہ پابندی ہے لیکن تجلیات افعالیہ میں بالکل یکسوئی نہیں، توجہ بھی نہیں ہوتی، پریشانی بہت زیادہ ہے، دل نہیں لگتا، رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

یہ عمل آپ جاری رکھیں اور مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ کا مطلب سمجھ لیں، وہ یہ ہے کہ اللّٰہ پاک ہی سب کچھ کرتے ہیں، یہ تو ہمارا ایمان ہے، اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اللّٰہ پاک ہی سب کچھ کرتے ہیں، بس اسی ارادے کو پختہ کرنا ہے کہ اس وظیفہ کا فیض اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آ رہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آ رہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ قلب پہ آ رہا ہے۔ بس اتنی بات ہے۔ اس عمل کو آپ مزید ایک مہینہ کر لیں، ان شاء اللّٰہ فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر: 7

اللّٰہ کے فضل سے میرا ذکر مکمل ہو چکا ہے، 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘، اور ساڑھے 4 ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہُ‘‘۔ اس کے ساتھ پانچوں لطائف پر دس دس منٹ اور 15 منٹ مراقبہ صفات سلبیہ یعنی ان صفات کا دھیان کرنا جن سے اللّٰہ جل شانہ پاک ہے اور جو اللّٰہ کی شان کے مطابق نہیں ہیں، مثلاً: اللّٰہ جل شانہ سوتے نہیں، کھاتے نہیں، اللّٰہ جل شانہ جسم سے پاک ہیں، نہ وہ کسی کا والد ہے اور نہ اس کی اولاد۔

اس مراقبہ میں فیض کے آنے کی ترتیب یہ ہے کہ فیض اللّٰہ جل شانہ کی طرف سے حضرت محمد ﷺ کی طرف، حضرت محمد ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے میرے لطیفہ خفی پر آ رہا ہے۔ اب گزارش یہ ہے کہ اگلا ذکر تجویز فرما دیں۔

جواب:

آپ نے یہ نہیں بتایا کہ اس وظیفے کا آپ کے اوپر کیا اثر ہوا ہے، وہ ذرا مجھے بتا دیں، اس کے بعد عرض کروں گا۔

سوال نمبر: 8

اگر کہیں مجھے جماعت کرانا پڑ جائے تو بطور امام مجھے نماز میں اتنی یکسوئی نہیں ہوتی جتنی کہ مقتدی ہونے کی صورت میں ہوتی ہے یا انفرادی نماز پڑھنے میں ہوتی ہے، امام ہونے کی صورت میں کئی خیالات آتے رہتے ہیں۔ مثلاً: کہیں میں غلطی نہ کروں، نماز لمبی نہ ہو جائے، اس طرح کے خیالات آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح دفتر میں صبح کے وقت جب ہم جاتے ہیں تو وہاں تلاوت ہوتی ہے اور کبھی کبھار میں تلاوت کرتا ہوں، اس وقت بھی میری توجہ قرآن کی طرف یا اس کے ترجمے کی طرف یا آخر میں جب دعا مانگتا ہوں تو دعا کی طرف نہیں رہتی، اس کے مقابلے میں جب کوئی دوسرا تلاوت کر رہا ہو تو میری توجہ تلاوت کی طرف ہوتی ہے اور ترجمے میں بھی توجہ رہتی ہے، آخر میں دعا کے وقت بھی توجہ برقرار رہتی ہے لیکن جب خود تلاوت کر رہا ہوتا ہوں تو توجہ نہیں ہوتی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب:

اصل میں انسان کے سامنے جو چیز زیادہ فکر کی ہوتی ہے، اس کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں غلطی نہ ہو جائے۔ یہ تو اچھی فکر ہے۔ لیکن لوگ کیا سمجھیں گے؟ یہ اچھی فکر نہیں ہے، اس سے بچیں۔ لوگ جو بھی سمجھیں، لوگوں سے کیا واسطہ ہے؟ اللّٰہ پاک کی طرف توجہ رکھنی چاہیے کہ اللّٰہ پاک دیکھ رہے ہیں اور اللّٰہ جل شانہ کے لئے میں یہ عمل کر رہا ہوں، لوگوں کے ساتھ ہمارا کیا کام ہے؟ اگر یہ تصور آپ کے ذہن میں پختہ ہو جائے تو پھر یہ فکر لاحق نہیں ہو گی، تاہم کام کی طرف اتنی توجہ تو ہونی چاہیے کہ اس میں غلطی نہ ہو۔

سوال نمبر: 9

ایک صحابی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ وہ رات کے وقت سونے سے پہلے سب لوگوں کے لئے اپنے دل کو صاف کرتے تھے اور ان کے اس عمل پر آپ ﷺ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت سنائی تھی، میں کافی دنوں سے رات کے وقت اپنے دل کو سب لوگوں کے لئے صاف کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اکثر اوقات لوگوں کے لئے دل میں تلخی برقرار رہتی ہے، خصوصاً ان لوگوں کے لئے جن سے اس دن میں تلخی ہو چکی ہوتی ہے اگرچہ میں زبانی طور پر ان کو معاف کر دیتا ہوں اور اللّٰہ سے بھی ان کے لئے معافی مانگتا ہوں لیکن عین اس وقت جب کہ میں ان کے لئے دعا مانگ رہا ہوتا ہوں، میرا دل ان کے لئے صاف نہیں ہوتا، دل کو دوسروں کے لئے صاف کرنے کے لئے مزید کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

جواب:

جو چیز انسان کے اختیار میں ہے، انسان وہ کرے اور جو چیز اختیار میں نہیں ہے، اس کی پروا ہی نہ کرے۔ جس چیز کا آپ ذکر کر رہے ہیں، یہ انقباض ہے اور یہ فطری ہے، اس پہ کوئی گرفت نہیں ہے۔ البتہ بدلہ لینے کی کوشش یا اس کو نقصان دینے کی کوشش یا اس کے بارے میں منفی خیال کہ اس کو یہ نقصان پہنچائیں، یہ چیزیں نہیں ہونی چاہیں، یہ چیزیں آپ کے اختیار میں ہیں، باقی جو چیز اختیار میں نہیں ہے، جیسے انقباض دور ہو جائے، یہ انسان کے بس میں نہیں ہے، یہ شدہ شدہ ختم ہوتا ہے۔ یہی تو فرق ہے انسان اور اللہ جل شانہ میں، اللّٰہ جل شانہ چوں کہ جذبات سے پاک ہے لہذا اللّٰہ پاک جب معاف کرتے ہیں تو بالکل معاف کر دیتے ہیں، پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا لیکن انسان اس طرح نہیں کر سکتا کیوں کہ انسان کمزور ہے، اس کے اوپر طبیعت کا اثر ہوتا ہے تو طبیعت کے اثر سے کوئی نقصان نہیں ہے، وہ فطرت ہے۔ البتہ اس کے اوپر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہونا چاہیے، بس اتنا کافی ہے۔

سوال نمبر: 10

حضرت صاحب!

May Allah preserve you بارک اللہ فیکم! I am contacting you to update my ورد۔

I have been practicing for almost 1.5 months but I haven't been regular at all. I had the feeling that I didn't have the time yet. It was clearly due to negligence. I have renewed my niya (resolve) and will do my best for sure ان شاء اللّٰہ۔

Actual ورد:

500 ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘،

1500 ’’حَقْ اَللّٰہُ‘‘،

1500 ’’حَقْ‘‘ ،

1500 ’’اَللّٰہُ‘‘

1500 ’’حَقْ ھُوْ‘‘،

and 500 ’’ھُوْ‘‘،

30 minutes ’’اَللّٰہْ‘ with respiration.

May Allah preserve you. from France

جواب:

ما شاء اللہ۔

You should be regular in all اوراد. It will be very good for you and if you have missed something then you should regain this again. ان شاء اللّٰہ Allah will help you. You should continue it one month more ان شاء اللّٰہ then I shall tell you because your renewed niya and keep this یعنی in practice ان شاء اللّٰہ Allah will help you.

سوال نمبر: 11

حضرت صاحب! میں امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے مجھے جو ذکر بتایا تھا، وہ میں نے کر لیا ہے، اس سے پہلے میں نے تیسرا کلمہ اکٹھا پڑھا تھا تو آپ نے کہا تھا کہ دوبارہ شروع کر دوں، میں نے دوبارہ پہلا ذکر چالیس دن تک پورا کر لیا ہے اور الحمد للّٰہ اب یہ میرا معمول بن گیا ہے۔ اب اگلا میرے لئے کیا ذکر ہے؟ آگے میں نے کیا کرنا ہے؟

جواب:

اب آپ اس طرح کر لیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار یہ سو سو دفعہ تو عمر بھر کے لئے کرنا ہے، نماز کے بعد والا جو ذکر بتایا تھا وہ بھی عمر بھر کے لئے کرنا ہے۔ ان شاء اللّٰہ۔ اور ذکر جہری کے لئے ایک وقت مقرر کر کے روزانہ آپ نے کرنا ہے، 100 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘، 100 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 100 دفعہ ’’حق‘‘، 100 دفعہ ’’اَللّٰہُ‘‘۔ یہ آپ 100 100 دفعہ روزانہ ایک ہی وقت میں سارا کر لیا کریں اور اس کے علاوہ تیسرا کلمہ، درود استغفار 100 100 دفعہ، یہ ثوابی ذکر بھی آپ کر لیا کریں اور ہر نماز کے بعد جو ذکر بتایا تھا وہ بھی عمر بھر کے لئے کرتے رہیں۔ یہ آخری ذکر جو ابھی میں نے بتایا ہے یعنی ذکرِ جہری، یہ ایک مہینے کے لئے کریں، ایک مہینے کے بعد آپ مجھے بتا دیں۔

سوال نمبر: 12

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

I pray you are well حضرت جی. This is فلاں from UK. I right after completing another month of my 10 minutes مراقبہ facing the قبلہ imagining my heart saying اللّٰہ I feel like my مراقبہ has not gotten better. If anything, some days my heart feels dead and I can't feel it at all and other days I feel it heats up near the top for some time with my university dissertation also going on. At the same time I feel like my stress and worry for that has affected my focus and توجہ towards اللّٰہ تعالیٰ in general. Some days, I missed my تلاوت and although most of my نماز are with جماعت I have missed quite a couple of فجر جماعت this month. Also, I feel quite annoyed with myself that I am not progressing despite doingمراقبہ for so long. I also want to ask how we can get برکہ in our time as it feels like every week just goes by faster and faster? Kindly advise the next.

جواب:

ما شاء اللّٰہ۔ اللّٰہ پاک نے آپ کو فکر عطا فرمائی ہے، اللّٰہ تعالیٰ آپ کو اس کا فائدہ بھی پہنچا دے۔ اس فکر کے دو اثرات ہوتے ہیں، ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کو گھبراہٹ محسوس ہونے لگتی ہے اور جو کر سکتا ہے، وہ بھی چھوٹ جاتا ہے، اس کو ٹینشن کہتے ہیں، اس کو سٹریس کہتے ہیں۔ اور دوسرا اثر اس کا یہ ہے کہ انسان اپنی کمزوریاں خود تلاش کر لے کہ میری کن چیزوں میں کمزوری ہے، ان کمزوریوں کو میں کیسے دور کر سکتا ہوں۔ یہی اصل طریقہ ہے، اس طریقے سے انسان اپنی غلطیوں کو درست کر لے۔ میرے خیال میں تقسیمِ کار بنیادی بات ہے، جس کو انتظام بھی کہتے ہیں تو آپ تقسیم کار کر لیں، ہر چیز کے لئے اپنا اپنا وقت رکھ لیں اور اس وقت میں پھر وہی کام کر لیا کریں، ان شاء اللّٰہ پھر کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ جہاں تک برکت کی بات ہے تو وہ اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، اللّٰہ پاک سے برکت مانگ لیا کریں، صبح کے وقت میں بڑی برکت ہوتی ہے، یہ ہمارا تجربہ ہے۔ صبح تہجد کے لئے جب انسان اٹھتا ہے، اس وقت میں جتنا کام ہو سکتا ہے، یقین جانیے پورے دن میں اتنا کام نہیں ہو سکتا تو اگر آپ اس وقت کو استعمال کرنا شروع کر لیں تو آپ کا مسئلہ بہت حد تک حل ہو سکتا ہے اور آج کل تو مسلمانوں کی عید ہے کیوں کہ سردیاں ہیں اور سردیوں میں تہجد پڑھنا بھی آسان ہوتا ہے، روزے رکھنا بھی آسان ہوتے ہیں تو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر فجر کے وقت کی جو برکات ہیں، ان کو آپ حاصل کریں۔ رات کو جلدی سو جایا کریں اور پھر جلدی اٹھ جایا کریں، ان شاء اللّٰہ آپ کی نیند بھی پوری ہو جایا کرے گی۔ میرے خیال میں انگلینڈ میں تو اور بھی رات لمبی ہے، ہمارے یہاں سے بھی لمبی ہے، اس میں تو آپ ان شاء اللّٰہ زیادہ بہتر پرفارم کر سکتے ہیں، میرا اپنا خیال ہے کہ شاید آپ کے یہاں مغرب ساڑھے چار بجے کے لگ بھگ ہو گی اور صبح آپ کے ہاں میرے خیال میں چھ، سوا چھ بجے کے لگ بھگ ہو گی تو اس لحاظ سے آپ کے پاس کافی ٹائم ہے، اگر آپ عشاء کی نماز پڑھ کر جلدی سو جائیں تو میرے خیال میں سات گھنٹے نیند پوری کرکے بھی اگر اٹھیں گے تو پھر بھی ان شاء اللّٰہ آپ کے پاس کافی ٹائم ہو گا۔ تہجد پڑھ کر اپنے اوقات اس مشغلہ میں استعمال کر لیں، اپنا ذکر بھی اسی وقت کر لیا کریں اور اپنا پریپریشن بھی اس وقت میں کر لیں تو میرے خیال میں بہت برکت ہو گی۔ اللّٰہ جل شانہ توفیق عطا فرما دے۔ بہرحال فی الحال میں آپ کا ذکر نہیں پڑھاتا کیوں کہ آپ کے اوپر پہلے سے سٹریس موجود ہے تو میں اس کو مزید بڑھانا نہیں چاہتا۔ فی الحال جتنا ہے، اسی کو کرتے رہیں۔

سوال نمبر: 13

حضرت! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت! الحمد للّٰہ میں نے آپ کی دعاؤں کے توسط سے ایک مہینہ 200 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘، 400 دفعہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 دفعہ ’’حَقْ‘‘، اور 500 دفعہ ’’اَللّٰہُ‘‘ کی تسبیحات پابندی کے ساتھ کی ہیں، پچھلی مرتبہ رابطہ کے بعد ذکر الہی پر پابندی چھوٹ جاتی، میں پورا ذکر مہینہ کرتا لیکن ایک دو دن درمیان میں ناغہ ہو جاتا یا آئندہ دن متأخر ہو جاتے، اس لئے میسیج نہیں کرتا تھا لیکن الحمد للّٰہ آپ کے دروس سن کر دوبارہ استقامت کی توفیق ہو گئی اور اس کی اہمیت دل میں اتر گئی، اب طے کر لیا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، علاجی ذکر نہیں چھوٹے گا اور دروس سننے کی پوری کوشش کرتا ہوں خاص کر مکتوبات شریفہ اور سلوک سلیمانی کے دروس۔ آج کل عبادت کرتے وقت اللہ تعالی کی طرف بہت زیادہ توجہ رہتی ہے اور نماز میں بھی زیادہ شوق رہتا ہے۔ آپ سے دعاؤں اور مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! یہ بہت اچھی بات ہے۔ اب آپ 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘، اور 1000 مرتبہ ’’اَللّٰہُ‘‘۔ یہ ذکر ایک مہینے تک کے لئے شروع کر لیں۔ نیز آپ جس حال میں بھی ہوں، اطلاع ضرور کر لیا کریں کیوں کہ بعض دفعہ شیطان اسے رابطہ توڑنے کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔

سوال نمبر: 14

حضرت! ذکر کو مہینہ ہو گیا ہے، چار لطائف پہ دس دس منٹ اور پانچوں لطیفوں پر پندرہ منٹ۔ الحمد للّٰہ محسوس ہوتا ہے لیکن چوں کہ میں روز ذکر نہیں کرتی تو تھوڑا مدہم محسوس ہوتا ہے لیکن ہوتا ضرور ہے۔ روز اس لئے نہیں کر پاتی کہ ذکر کرنے میں وقت بہت زیادہ لگتا ہے، اتنا وقت نکالنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے، سستی بھی ہے۔

حضرت جی! جب زندگی میں تھوڑی سی آسانی آتی ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری توجہ اللّٰہ کی طرف تھوڑی کم ہو گئی ہے۔ ذکر میں ناغہ تو میں مشکل حالات میں بھی کرتی تھی، لیکن اس وقت نیک اعمال کرنے کا دھیان موجودہ حالت کی بنسبت زیادہ ہوتا تھا۔ خواب بھی دیکھا تھا کہ آپ مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے تم مجھ سے رابطہ زیادہ رکھتی تھیں، اب کم کر دیا ہے، پھر میں دیکھتی ہوں کہ تمبوڑی میرے ارد گرد گھومتی ہے اور میرے آستین میں گھس رہی ہوتی ہے تو میں اس کو پکڑ لیتی ہوں۔ اسی پریشانی میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

اب میں بد نظری نہیں کرتی الحمد للّٰہ، میں نے یوٹیوب ویڈیوز دیکھنا چھوڑ دی تھیں، وہ ویڈیوز جن میں صرف عورتیں ہوتی تھیں وہ پھر سے آج کل دیکھتی ہوں، بعض اوقات مرد حضرات میں سے جو اسلامی اسکالر ہیں، ان کی ویڈیوز بھی سن لیتی ہوں، پر بد نظری نہیں کرتی لیکن ویڈیوز لگاتے ہوئے نظر پڑ جاتی ہے، پھر آپ نے کہا تھا کہ نظر پڑجانے میں کسی کو گھورنا نہیں ہے تو وہ میں نہیں کرتی۔

جواب:

اول تو سب سے پہلے آپ اپنے اذکار میں باقاعدگی پیدا کریں یعنی روزانہ اپنا ذکر کیا کریں، ان شاء اللّٰہ اس کا فائدہ آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ آڈیوز سن لیا کریں اور ویڈیوز نہ دیکھا کریں خواہ وہ بہت ہی اچھی کیوں نہ ہوں۔ فی الحال آپ کے لئے یہی بہتر ہے اور ناغوں سے بچنے کی کوشش کریں۔ پھر آپ مجھے اپنی صورت حال بتائیں۔

سوال نمبر: 15

حضرت جی! اللّٰہ پاک سے آپ کی صحت کے لئے دعا گو ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ غیبت کرنے کی میری عادت قابو میں نہیں آ رہی، بعض اوقات تو منہ سے بات نکلنے سے پہلے سوچ کر رک جاتا ہوں لیکن اکثر غیبت ہو ہی جاتی ہے، بعد میں توبہ اور شرمندگی بھی بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ پیر و جمعرات کا روزہ رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی، صرف ایک مرتبہ ہی رکھ سکا ہوں، تہجد کا معمول باقاعدگی کے ساتھ شروع نہیں ہو رہا، دو یا تین مرتبہ تہجد ادا ہو جاتی ہے، پھر چھوٹ جاتی ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ اللّٰہ پاک آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ کو بہترین اجر عطا فرمائے۔

جواب:

’’ہمتِ مرداں مدد خدا‘‘ جب انسان ہمت کرتا ہے تو اللّٰہ پاک مدد فرماتے ہیں۔ آپ ہمت کریں اور ہمت سے مراد یہ ہے کہ باقاعدگی کی کوشش کر لیں۔ انسان جب باقاعدگی کا ارادہ کر لیتا ہے تو پھر باقاعدگی ہو بھی جاتی ہے لیکن اگر بے فکری ہو جائے تو پھر مسئلہ خراب ہو جاتا ہے۔

اس لئے جہاں تک غیبت کرنے کی بات ہے تو یہ انسان کے اختیار میں ہے، اس سے بچنے کی کوشش کر یں اور خاموشی کا مشاہدہ کریں۔ خاموشی کا مجاہدہ یہ ہے کہ جب کبھی آپ کا کسی بات چیت میں شامل ہونے کا ارادہ ہو تو آپ اس میں دس منٹ بعد شامل ہوا کریں یعنی دس منٹ پہلے انتظار کر کے خاموش رہیں پھر اس کے بعد اس میں شامل ہوں، یہ بھی اس صورت میں ہے کہ جب وہ بات چیت جائز ہو، نا جائز بات چیت میں تو شامل ہی نہیں ہونا چاہیے۔ اس مجاھدہ میں ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ والی بات سمجھ میں آ جائے گی۔ ان شاء اللّٰہ۔

باقی جو روزہ رکھنے کی کوشش ہے تو اگر روزہ نفلی ہے تو نفلی روزے میں یہ اختیار ہوتا ہے کہ کوئی رکھے یا نہ رکھے۔ تہجد بھی نفل ہے البتہ اس کے اثرات بہت زبردست ہیں۔ آج کل تو چوں کہ راتیں بہت لمبی ہیں اس لئے تہجد بہت آسان ہے۔ اگر آپ عادت بنانا چاہیں تو یہ اچھا موقع ہے، اس کے ذریعے سے آپ کو ان شاء اللّٰہ فائدہ ہو سکتا ہے۔

سوال نمبر: 16

نمبر: 1

لطیفہ قلب پر پندرہ منٹ ذکر اور زبانی ذکر 1500 مرتبہ۔

جواب:

لطیفہ قلب پر پندرہ منٹ ذکر کیسے ہو رہا ہے؟ یہ ذرا بتانا ہو گا۔

نمبر: 2

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ پندرہ منٹ، دو ماہ تک کر لیا لیکن محسوس نہیں ہوتا تھا، آج میں نے صفات ثبوتیہ کا مطلب سمجھا دیا، پہلے سمجھ نہیں رہی تھی، آج سمجھ گئی، ان شاء اللہ مزید ایک ماہ کرلیتی ہوں۔

جواب:

ٹھیک ہے۔

نمبر: 3

تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ احدیت پندرہ منٹ، یہ طالبہ سخت بیمار ہوئی تھی، سات ماہ سخت بیماری کی حالت میں گزرے ہیں، مدرسہ بھی چھوٹ گیا تھا اور ذکر بھی۔ اب صحت کچھ بہتر ہو گئی ہے، اب طالبہ مدرسے بھی آنے لگی ہے اور ذکر بھی شروع کر دیا ہے لیکن کہتی ہے کہ آنکھیں بند کرنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے، اس لئے لطائف پر ذکر اور مراقبہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ برائے مہربانی! طالبہ کے حال کے مطابق ذکر کے بارے میں رہنمائی کیجیے۔

جواب:

ٹھیک ہے، اس کے لئے آنکھیں بند کرنا ضروری نہیں ہے، وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ مراقبہ کر لیا کریں، جتنا وہ آسانی کے ساتھ مراقبہ کر سکتی ہیں، اتنا کر لیں۔

سوال: 17

نمبر: 1

حضرت جی! کبھی کبھی اعمال صالحہ کے لئے سستی رکاوٹ بن جاتی ہے لیکن میں صرف اپنے شیخ کے حکم کی وجہ سے عمل کر لیتی ہوں تاہم دل میں یہ وسوسہ آتا ہے کہ کہیں یہ اخلاص کے منافی تو نہیں ہے؟

جواب:

میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کہ آپ نے شیخ کے ساتھ تعلق کس لئے رکھا ہے؟ یہ کوئی دنیا کے لئے تو نہیں ہے، یہ تعلق بھی تو اللّٰہ کے لئے ہے اور کسی عمل کا اللہ کے لئے ہونا اخلاص ہوتا ہے یا نہیں؟ تو اس تعلق کے اندر ہی اخلاص ہے۔ اگر آپ یہ تعلق اللّٰہ کی رضا کے لئے رکھتی ہیں تو اس وسوسے کی فکر نہ کریں، یہ اخلاص ہے۔ اور اس کی وجہ سے جتنے کام ہوں گے ان شاء اللّٰہ وہ بھی اخلاص ہی کو بڑھا رہے ہوں گے۔ ورنہ پھر اخلاص پیدا کرنے کا اور کیا طریقہ ہو گا؟ ظاہر ہے کہ ذرائع تو اختیار کیے جاتے ہیں اور یہ اخلاص پیدا کرنے کا اچھا ذریعہ ہے۔

نمبر: 2

مراقبہ شیخ کی بتائی ہوئی مقدار سے زیادہ کرنے میں کوئی حرج ہو گا؟

جواب:

عمومی طور پر حرج نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی لوگوں کے حالات کے اعتبار سے حرج ہو بھی جاتا ہے۔ جیسے ابھی ایک طالبہ کی بات گزری ہے، تو ان کو فرق ہو سکتا ہے، وہ اگر اپنی مرضی کر لے تو پھر کیا ہو گا؟ اس لئے پوچھ کر اضافہ کر لیا کریں، پوچھ کر اضافہ کرنے میں فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ جب شیخ کو حالات بتا دیتے ہیں تو پھر اس کے مطابق شیخ رہنمائی فرما دیتے ہیں۔

سوال نمبر: 18

بغیر ارادے کے اگر ذکر کی مقدار بڑھ جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:

کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ انتظام کے لحاظ سے بہتر یہی ہے کہ اس کو کنٹرول میں رکھا جائے۔

سوال نمبر: 19

حضرت اقدس! بندہ کو آپ نے جو ذکر تلقین فرمایا تھا، اس کا ایک مہینہ بلا ناغہ پورا ہو گیا ہے اور وہ ذکر یہ تھا: 200 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘، 400 مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، 600 مرتبہ ’’حَقْ‘‘، اور 500 مرتبہ ’’اَللّٰہُ‘‘ اور مراقبہ تجلیاتِ افعالیہ پندرہ منٹ کے لئے تھا، جو الحمد للّٰہ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ما شاء اللّٰہ! بہت اچھی بات ہے۔ اللّٰہ جل شانہ مزید توفیق سے نوازیں۔ اذکار تو سارے یہی جاری رکھیں، مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ شروع کر لیں، مراقبہ صفاتِ ثبوتیہ کا مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ پاک کی جو آٹھ خاص صفات ہیں کہ اللّٰہ پاک ہی سب چیزوں کے بنانے والے ہیں، اللّٰہ پاک کا سننا اصل سننا ہے، اللّٰہ پاک کلام فرماتے ہیں، اللّٰہ پاک دیکھتے ہیں، اللّٰہ جل شانہ کا ارادہ ہی اصل ارادہ ہے۔ یہ جو آٹھ صفات ہیں، ان کو آپ ذہن میں رکھیں اور یہ کہ اس کا فیض اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آ رہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آ رہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔ اس مراقبہ کو مراقبہ تجلیات افعالیہ کی جگہ پندرہ منٹ کر لیں۔

باقی جو آپ کا دوسرا سوال ہے، اس کا میں پرسنل میں جواب دے دوں گا۔ ان شاء اللّٰہ۔

سوال نمبر: 20

آپ کی کتاب میں ایک جملہ پڑھا کہ چشتی حضرات لطیفہ قلب کو اصل لطیفہ سمجھتے ہیں۔ سر! قلب اور لطیفہ قلب میں کیا فرق ہے؟ ذکرِ قلبی میں ذکر قلب پر کیا جاتا ہے یا لطیفہ قلب پر؟

جواب:

لطیفہ قلب بھی ادھر ہی ہے جہاں قلب ہے۔ البتہ اس کو علیحدہ اس لئے بتایا جاتا ہے کہ لطیفۂ قلب دل کے روحانیت والے حصے کو کہا جاتا ہے اور قلب کا اطلاق دونوں حصوں پر ہوتا ہے، جسمانی حصے پر بھی اور روحانی حصے پر بھی، اس وجہ سے قلب کا ترجمہ دل ہے۔ اگر آپ کسی کافر کو بھی کہیں کہ آپ کا دل کہاں ہے؟ تو وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ دے گا کہ ادھر ہے۔ لیکن اگر کسی کو کہہ دیں کہ لطیفۂ قلب کہاں ہے تو وہ اس کو اس انداز سے سمجھے گا۔ کیوں کہ اس کا تعلق عرش سے اوپر ہے، یہ تو صرف یہاں پر محسوس کیا جا رہا ہے، ورنہ اس کی جو جڑ ہے وہ وہاں پر ہے۔

لطیفۂ قلب بیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تعلق متحرک ہو جاتا ہے، ویسے تو تعلق موجود ہے لیکن متحرک نہیں ہوتا۔ یہ تو لطیفۂ قلب والی بات ہے۔

باقی چشتی حضرات جو کہتے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ کا تیسرا سوال بھی ہے، پہلے اس کو دیکھتے ہیں۔

سوال نمبر: 21

سر! مجھے آپ کے بیانات سے پتا چلا کہ نقشبندی سلسلے میں لطائف پر محنت کروائی جاتی ہے جب کہ دیگر سلسلوں میں صرف زبانی ذکر دیا جاتا ہے، دیگر سلسلوں میں لطائف پر کیوں محنت نہیں کروائی جاتی؟ اس سے وہ کیوں محروم ہیں؟ مجھے چشتیہ سلسلہ میں بارہ اذکار پڑھتے ہوئے آٹھ سال ہو چکے لیکن لطائف کے بارے میں سن کر احساس ہوا کہ شاید اس چیز سے میں محروم رہا ہوں۔ آپ رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

بھائی! احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔ چشتیہ سلسلہ بھی اتنا ہی مفید سلسلہ ہے جتنا نقشبندیہ ہے، قادریہ ہے اور سہروردیہ ہے۔ سارے سلسلے اپنے اپنے طریقے سے مفید ہیں، مزاجوں کا فرق ہوتا ہے، کسی کی چشتی نسبت ہوتی ہے اور کسی کی قادری، کسی کی نقشبندی اور کسی کی سہروردی۔ لیکن ساری نسبتیں درست ہیں اور فائدہ سب سے ہوتا ہے، صرف سوچ کا فرق ہوتا ہے۔

فقہاء کے درمیان بھی تو سوچ کا فرق پایا جاتا ہے تو آپ کس فقہ کو اچھا قرار دے کر کس فقہ کو کم تر سمجھیں گے؟ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ سب سے آخر میں آئے ہیں لیکن ان کے مقلدین میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ہیں، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ہیں اور چشتی حضرات میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں اور اسی طرح امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ شافعی ہیں، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی شافعی ہیں، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نقشبندی اور حنفی ہیں۔ اس لئے ہم کسی بزرگ کو کم نہیں سمجھتے، اسی طرح کسی سلسلے کو بھی کم نہیں سمجھتے۔ باقی سوچ کی بات ہے۔

اس کو مثال سے سمجھیں کہ ہم پمپ دیکھتے ہیں واٹر پمپ یا ہوا کا پمپ، اگر آپ اس پمپ کو تھوڑا سا پریس کریں تو پانی تھوڑا دور پھینکے گا، اگر آپ اس کو ذرا زیادہ زور سے پریس کریں تو زیادہ دور پانی پھینکے گا، پھر مزید زور سے دبائیں تو اور زیادہ دور پھینکے گا۔ اسی طرح چشتی حضرات کہتے ہیں کہ دل پر محنت کرو، سارے لطائف اسی میں ہیں۔ بس جتنا جتنا آپ کا زور بڑھتا جائے گا وہ پورے جسم میں سرایت کرتا جائے گا۔ نقشبندی حضرات ہر ہر لطیفے پر ذکر کراتے ہیں، دونوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ ہاں مزاجوں کا فرق ضرور ہوتا ہے۔ میں چشتی سلسلے کے ایک بزرگ سے بیعت ہوا تھا، انہوں نے میری ساری تربیت چشتی طریقے پر کی، لیکن خود مجھے فرمایا کہ آپ کی نسبت نقشبندی ہے۔ اب اس میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟ لہذا یہ کوئی ایسا مشکل طریق نہیں ہے کہ آپ اس میں احساس کمتری محسوس کریں۔ چشتیہ سلسلہ بھی بہت اونچا سلسلہ ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت خواجہ گنج شکر رحمۃ اللّٰہ علیہ اور اسی طرح ہمارے اکابر رحمھم اللہ یہ سب ما شاء اللہ بڑے بڑے حضرات ہیں تو کیا ہم ان کو کم سمجھیں گے؟ یہ تو بہت بڑے اللّٰہ والے ہیں، اس وجہ سے ہم سب کو اونچا سمجھتے ہیں، سب ہمارے سرتاج ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کے فیوض و برکات ہم سب کو نصیب فرمائے۔

جس سلسلے میں بھی آپ ہو، متابعت اسی کی کریں لیکن محبت سب کے ساتھ رکھیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کو سارے سلسلوں کا فیض ملے گا، تربیت ایک سلسلے میں ہو گی لیکن فیض سارے سلسلوں کا ملے گا۔ یہ ایسا زبردست نقطہ ہے جن کو بھی سمجھ آیا، ان کو بہت فائدہ ہوا۔ الحمد للّٰہ خود مجھے بھی اس کا بہت فائدہ ہوا ہے۔ الحمد للّٰہ مجھے سارے سلسلوں کے ساتھ محبت ہے۔ البتہ مزاج نقشبندی تھا اور مجھے اس کا علم بھی نہیں تھا، بعد میں معلوم بھی ہو گیا اور فائدہ بھی ہو گیا لیکن اگر اس کا علم نہ بھی ہوتا تو پھر بھی فائدہ ہوتا کیوں کہ مزاج تو اللّٰہ پاک بناتے ہیں، اس میں انسان تو کچھ نہیں کر سکتا۔

بہرحال! آپ کبھی بھی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں اور آپ نے فرمایا کہ آپ یہاں پر آئیں گے۔ یہاں ضرور تشریف لائیں، ہماری خانقاہ میں لوگوں نے سال بھی لگایا ہے، چار ماہ بھی اور صرف دس دس دن بھی لوگ لگا چکے ہیں، لوگ سہ روزہ بھی لگاتے رہے ہیں۔

سوال نمبر: 22

حضرت! آپ کے کئی بیانات میں احساس کمتری کے بارے میں سنا ہے، کیا یہ بھی ایک رذیلہ ہے؟ کیوں کہ تصوف کی کتابوں میں اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اگر یہ رزیلہ ہے تو اس کا علاج کس طرح کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

دنیا کی محبت انسان میں احساس کمتری لاتی ہے اور دنیا کی محبت جب نکل جاتی ہے تو احساس کمتری بھی نکل جاتا ہے۔ گویا اس کے لئے کوئی علیحدہ محنت کی ضرورت نہیں ہے البتہ احساس کمتری دنیا کی محبت کی علامت ہے، لہذا اسے ختم کرنے میں انسان کو زیادہ مصروف ہونا چاہیے۔

مثلاً: دنیا کے اعتبار سے اگر کوئی شخص آپ سے آگے ہے تو آپ کو تکلیف ہو گی، حسد ہو گا اور اگر آپ کی برکت سے کوئی انسان اللّٰہ پاک کے قریب ہو رہا ہے تو کیا آپ کو تکلیف ہو گی؟ آپ تو کہیں گے کہ شکر ہے، میرے لئے صدقہ جاریہ ہے، یہ بھی جنت میں جائے گا، مجھے بھی ساتھ لے جائے گا۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مشہور فقرہ ہے کہ میں جب کسی کو بیعت کرتا ہوں تو میں نیت کرتا ہوں کہ اگر مجھے اللّٰہ نے قبول کر لیا، میں کامیاب ہو گیا تو میں اس کو جنت میں لے جاؤں گا اور اگر اس کو اللّٰہ نے قبول کرلیا تو یہ مجھے جنت میں لے جائے گا، اس وجہ سے اس میں کوئی مسئلہ نہیں بنتا۔ اگر ہماری ہر چیز اللّٰہ کے لئے ہو جائے تو پھر یہ ساری چیزیں ختم ہو جائیں گی۔ البتہ احساس کمتری کا علیحدہ ذکر میں اس لئے کرتا ہوں کہ اس نے بہت نقصان پہنچایا ہے، ہمارے برصغیر کے لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان احساس کمتری نے پہنچایا ہے، یہ جو آپ کو کالے انگریز ملتے ہیں، یہ احساس کمتری کی وجہ سے ہے۔ یہ خود کو ان سے کم سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ الحمد للّٰہ ہمیں ایمان کی دولت حاصل ہے، اس کے مقابلے میں ان کے پاس پوری دنیا بھی آ جائے تو کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ الحمد للّٰہ۔ اس پر ہمیں اللّٰہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اگر دنیا چند روز کسی کو مل بھی جائے تو اس سے کیا ہوتا ہے؟ پس چوں کہ احساس کمتری کی وجہ سے بہت نقصان ہوا ہے، اس لئے ہم اس کو علیحدہ ذکر کرتے ہیں۔

سوال نمبر: 23

حضرت! بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بندہ سفر میں ہوتا ہے یا کسی مشکل جگہ میں بیٹھا ہوتا ہے تو منزلِ جدید دیکھ کر نہیں پڑھ سکتا، لیکن اس کا آخری حصہ جو نیلے کلر کا ہے، جسے چھ دفعہ پڑھنا ہوتا ہے، وہ مجھے یاد ہے۔ تو کیا اس بعد والے حصے کو پہلے پڑھا جا سکتا ہے؟ کہ پہلا حصہ جب انسان گھر پہنچ جائے تو اس وقت اسے دیکھ کر پڑھ لے۔ اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟

جواب:

دیکھیے! میں اس مسئلے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ یہ منزل میں نے نہیں لکھی۔ جس طریقے سے آئی ہے، اسی طریقے سے میں نے بتا دی ہے، اب اس کے بعد میں اس میں کیا کر سکتا ہوں؟

خود مجھے یہ شبہ تھا کہ کیا میں اس کو عشاء کے بعد پڑھ سکتا ہوں کیوں کہ مغرب کے بعد ہی پڑھنے کا بتایا گیا ہے۔ پھر بعد میں میں نے استخارہ کیا تو پتا چلا کہ اس کی گنجائش ہے۔ لہذا میں اس مسئلے میں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ اگر موقع ملا اور معلوم ہو گیا تو پھر بتا دوں گا۔

سوال نمبر: 24

منزل پڑھنا کبھی یاد نہ رہے یا بندہ سو جائے یا کسی کام کی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب:

میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یاد رہنا چاہیے یا نہیں۔ ایک دفعہ ایک صحابی رسول ﷺ دعائے حادثات پڑھنا بھول گئے تھے تو ان کو حادثہ پیش آ گیا، دوسرے صحابی جو ان کے ساتھی تھے، وہ انہیں گھور گھور کر دیکھ رہے تھے کہ آپ کے ساتھ یہ حادثہ کیسے ہوا؟ دونوں کا معمول دعائے حادثات پڑھنے کا تھا، تو جن کو حادثہ پیش آیا تھا، انہوں نے کہا کہ آپ مجھے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں؟ میں آج دعا پڑھنا بھول گیا تھا، اس وجہ سے یہ حادثہ میرے ساتھ پیش آیا۔ یعنی دعائے حادثات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں پڑھنا بھول گیا تھا، اس لئے میرے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا۔

لہذا بھول جانا خطرناک ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھ لیں کہ پانچ گیٹ ہیں، ہر گیٹ پر آپ نے چوکیدار کھڑا کیا ہے، ان میں سے کسی چوکیدار کو نیند آ جاتی ہے اور ڈاکو، چور اسی گیٹ سے اندر آ جاتے ہیں تو کیا خیال ہے آپ اس کو نیند کی گنجائش دے دیں گے؟ کہ بس ٹھیک ہے، انسان ہے، کبھی کبھی غلطی ہو جاتی ہے چلو چھوڑیں۔ چوکیدار کو ادنٰی غفلت کی بھی اجازت نہیں ہوتی کیوں کہ نقصان تو ہو ہی جاتا ہے۔ اس لئے اس میں بہت محتاط رہنا چاہیے۔

الحمد للّٰہ یہ جو ہم نے پورے سلسلے کے لئے حفاظتی دعا ’’اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ‘‘ کو سب میں تقسیم کیا ہے تو احتیاطاً ہم نے متعدد افراد کو اس عمل پر لگایا ہوا ہے کہ کسی سے رہ نہ جائے، اگر لوگوں سے رہنا شروع ہو جائے تو ہمیں اللہ تعالی کے فضل سے کسی طریقے سے پتا چل جاتا ہے تو پھر میں عبید صاحب سے کہتا ہوں کہ بھائی! ذرا معلومات کرو کہ کیا ہو رہا ہے؟ کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ تو پتا چلتا ہے کہ واقعۃً گڑ بڑ ہو گئی تھی۔ پھر میں کہتا ہوں کہ بھائی! ان کو بتا دو اگر کوئی نہیں کر سکتا تو ہم اس کی جگہ کسی اور کو مقرر کر لیں۔ کیوں کہ اس میں ذمہ داری ہے۔ جیسے چوکیدار کی ذمہ داری ہوتی ہے، اسی طرح یہ بھی ذمہ داری ہے۔ اگر چوکیدار بار بار سوتا ہوا پایا جائے تو پھر اس کو تبدیل کرنا پڑتا ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ بھائی اس کو تبدیل کر لو، یہ آدمی ذمہ داری نہیں لے رہا۔ لہذا اس عمل میں بہت محتاط رہنا چاہیے، ایک مرتبہ غلطی ہو جاتی ہے اور پھر بعد میں لوگ روتے رہتے ہیں۔

سوال نمبر: 25

حضرت! گھر کے ایک فرد کا منزلِ جدید پڑھ لینا کافی ہے یا سارے افراد پڑھیں؟

جواب:

دیکھیں ایک یہ طریقہ ہے کہ کوئی عمل اجتماعی طور پر کیا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انفرادی طور پر عمل کیا جائے، فرداً فرداً عمل کر لینا زیادہ مفید ہے۔ مثلاً: گھر میں آپ نے یہ عمل کر لیا اور آپ گھر پر نہیں ہوتے، باہر چلے جاتے ہیں، باہر آپ کے ساتھ کچھ ہو جائے تو اس کا کیا کریں گے؟ اپنی حفاظت ضروری ہے یا نہیں؟ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب والی بات یاد رکھیں کہ جب ان پر گولیاں چل رہی تھیں تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کیا بات پوچھی تھی؟ انہوں نے پوچھا تھا کہ دعائے انس پڑھی تھی؟ گھر والوں نے کہا کہ ہاں پڑھی تھی تو کہا کہ پھر کوئی فکر نہ کرے۔ پھر دیکھو ان کو اور ان کے گھر والوں کو کوئی گولی نہیں لگی اور ڈرائیور زخمی ہو گیا تھا۔ مولانا نے ڈرائیور سے کہا کہ میں گاڑی چلا لوں؟ لیکن ڈرائیور نے گاڑی دینے سے انکار کیا اور یہ کہا کہ حملہ آور دوبارہ بھی آسکتے ہیں، میں اسی حالت میں گاڑی کو نکال لیتا ہوں۔

مقصد یہ ہے کہ یہ ہمارے لئے حفاظتی ذرائع ہیں، باقی سب اختیار تو اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن ہمیں آپ اپنے حفاظتی طریقے تو استعمال کرنا چاہئیں۔ مفتی زر ولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے خود سنایا، کوئی بابا تھا، جس پر کسی نے جادو کیا تھا، وہ ان کے سامنے آیا تھا تو اس پہ بات شروع ہوئی، انہوں نے کہا کہ بھائی جو بھی دین کا کام کرے، اس کے لئے اپنی حفاظت ضروری ہے۔ کیوں کہ ہمارے دشمن ہمیں فارغ نہیں چھوڑیں گے۔ لہذا جو بھی دین کا کام کرے، وہ اپنی حفاظت کا بندوبست بھی کرے۔

آج کل بہت خطرناک حالات ہیں، جہاں کوئی مدرسہ کامیاب ہونے لگتا ہے تو ارد گرد کے لوگ متحرک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب کوئی چیز کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر کچھ دوسرے عوامل بھی متحرک ہو جاتے ہیں۔ آج کل حسد بھی بہت زیادہ ہے، کینہ بھی بہت ہے اور دشمنوں کے لئے استعمال ہونا بھی عام ہے۔

الحمد للّٰہ جب سے اللّٰہ نے یہ حفاظتی اعمال دئیے ہیں، اللّٰہ کا شکر ہے کہ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں، میں خود بھی باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، مجھے اندازہ ہے کہ یہ اعمال اللّٰہ پاک کی ایک نعمت ہیں، اگر میں ان کی قدر نہیں کروں گا تو نقصان تو میرا ہی ہو گا۔

آج ایک خاتون کا فون آیا تھا، مجھے ابھی یاد آیا، اس نے کہا کہ اس کی تین سال کی چھوٹی بچی ہے، پہلے وہ ما شاء اللّٰہ میرے ساتھ نماز پڑھتی تھی اور جو بھی میں کام کرتی، میرے ساتھ ہوتی تھی، بڑی اچھی اچھی باتیں بھی کرتی، اس خاتون نے کہا کہ اب وہ چند دنوں سے مجھے نماز سے بھی روک رہی ہے اور میں جو بھی اچھا کام کرتی ہوں تو وہ اس میں رکاوٹ ڈالتی ہے، اس وقت رونا شروع کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ فلاں بچہ آ گیا، وہ مجھے چھیڑ رہا ہے۔ اب وہ کوئی جن ہو گا یا کوئی اور ہو گا۔ وہ خاتون کہتی ہے کہ جب میں آپ کی بتائی ہوئی منزل پڑھتی ہوں تو وہ بچی کہتی ہے کہ وہ بھاگ گیا۔ وہ بچی تو تین سال کی ہے، ظاہر ہے کہ جو وہ دیکھتی ہے، وہی بتاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعۃً منزل کا اثر ہے یعنی یہ ایسی چیز ہے کہ اس کے سامنے وہ نہیں ٹھہر سکتے۔

ظاہر ہے کہ لوگوں کے اوپر اثر تو ہوتا ہے، کسی نہ کسی وجہ سے لوگ مخالفت میں آ جاتے ہیں، ان میں انسان بھی ہوتے ہیں، جنات بھی ہوتے ہیں۔ اگر انسان کو ان سے بچنا ہے تو یہ ذرائع ہیں، ان ذرائع کو استعمال کرنا چاہیے، باقی مدد تو اللّٰہ ہی کی طرف سے آتی ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ