سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 595

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ! حضرت، مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ میرا سوال یہ ہے کہ درود شریف کس نیت سے پڑھنا چاہئے؟

جواب:

درود شریف اللّٰہ پاک کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ پاک نے حکم فرمایا ہے:

﴿اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الأحزاب: 56)

ترجمہ: ”بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو“۔

اور درود شریف آپ ﷺ کا حق سمجھتے ہوئے پڑھنا چاہئے کیونکہ آپ ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہم آپ ﷺ پر کثرت سے درود شریف بھیجیں۔ البتہ علمائے کرام نے یہ تخصیص فرمائی ہے کہ جب آپ ﷺ کا نام نامی کسی کے سامنے لیا جائے تو پہلی دفعہ درود شریف پڑھنا واجب ہے، اس کے بعد جتنی مرتبہ آپ ﷺ کا نام نامی اس مجلس میں لیا جائے تو درود شریف پڑھنا مستحب ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ!

I pray you are keeping well dear شیخ!

الحمد للہ on your advice my wife got a new phone but has not downloaded WhatsApp. She will therefore message in سوال جواب after me and I humbly request if possible if her reply could be recorded separately. I have completed my monthly مراقبہ of facing the قبلہ and thinking that اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ is looking at my heart with love and it is saying ‘‘اَللہ’’. Unfortunately it is still very inconsistent with my focus being good on some days in which I feel it and around my heart and very poor focus on other days. Kindly advise the next. I just had one additional question, you mentioned ذکر and فکر in your جمعہ بیان two weeks period and I want what is meant exactly by these two terms جزاک اللّٰہ۔

جواب:

ما شاء اللّٰہ۔ آپ نے اچھا کیا کہ جو کہا گیا تھا اس پہ عمل کر لیا۔ ان شاء اللّٰہ اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ علیحدہ جواب دیا جائے۔ جو مراقبہ آپ نے شروع کیا ہے وہ اتنے ہی ذکر کے ساتھ جاری رکھیں تاکہ آپ کو بے تکلف ”اَللہ اَللہ“ ہوتا ہوا محسوس ہونے لگے۔

سوال نمبر 3:

ذکر اور فکر سے کیا مراد ہے؟

جواب:

ذکر“ اللّٰہ کی یاد کو کہتے ہیں۔ انسان کو اللّٰہ پاک ہر دم یاد رہے یہی ”ذکر“ ہے۔

”فکر“ سے مراد یہ ہے کہ جو کام کرنا ہے اس کے بارے میں غور و فکر کیا جائے۔ اپنے بارے میں غور و فکر کیا جائے کہ میں کون ہوں۔ کائنات کے بارے میں غور و فکر کیا جائے کہ کائنات کس لئے پیدا کی گئی ہے، اس میں کیا کیا چیزیں ہیں اور اس کے بارے میں کیا احکامات ہیں۔ یہ سب کام غور فکر میں آتے ہیں۔

غور و فکر کی کئی قسمیں ہیں۔ عام انسان اپنے طور پہ غور و فکر کرتے ہیں، علماء کرام اپنے طور پہ غور و فکر کرتے ہیں، فقہاء کرام اپنے طور پہ غور و فکر کرتے ہیں۔ ہر ایک کا غور و فکر کا اپنا اپنا میدان ہے جب کہ ذکر سب کا ایک جیسا ہوتا ہے کہ ہر وقت ہر جگہ اللّٰہ یاد ہو۔

اگر صرف غور و فکر ہو اور ذکر نہ ہو تو وہ غور و فکر اللّٰہ کے لئے نہیں رہتا بلکہ دنیا کے لئے ہو جاتا ہے اور ذہنی عیاشی بن جاتا ہے۔ اس کے بجائے اگر اللّٰہ یاد ہو اور غور و فکر اسی کے لئے ہو تو یہ غور و فکر دین بن جاتا ہے، یہی عقل مندی ہے۔ اس لئے اللہ پاک نے قرآن شریف میں فرمایا:

﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِۚۙ O الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)

ترجمہ: ”بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انھیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجئے“۔

اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں ذکر کے ساتھ غور و فکر کی توفیق عطا فرما دے۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ الحمد للّٰہ! جو تسبیحات آپ نے حکم فرمائی تھیں وہ 40 دن تک مکمل کر لی ہیں۔ آگے کیا کرنا ہے مزید رہنمائی فرمائیں۔ دوسری بات یہ عرض کرنی تھی کہ نیک صالح اولاد کے لئے ہمیں کن چیزوں کا اہتمام کرنا چاہئے اور کن سے اجتناب کرنا چاہئے؟

جواب:

یہ بات حیا کے خلاف نہیں ہے، ہماری ضرورت ہے۔ جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ پاک کی ایک خاص قدرت کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم میوے آئے تھے، جب حضرت زکریا علیہ السلام نے وہ میوے دیکھے تو فوراً ان کا دل اس طرف متوجہ ہو گیا کہ میرے لئے اس عمر میں اولاد کا ہونا بے موسم ہے کیونکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بوڑھا ہوں لہٰذا میں بھی اللّٰہ پاک سے مانگ سکتا ہوں، اللہ بے موسم میوہ مجھے بھی دے سکتا ہے۔ انہوں نے اللّٰہ پاک سے مانگا، اللّٰہ پاک کی طرف سے فرشتے کے ذریعے جواب دلوایا گیا اور یحییٰ علیہ السلام کی بشارت ہوئی۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ﴾ (البقرہ: 20) کہ اللّٰہ پاک ساری چیزوں پہ قادر ہے لہذا آپ بھی اللّٰہ پاک سے مانگ لیں اور ظاہر ہے اس میں کوئی خلافِ حیا بات نہیں ہے۔

آپ نے 40 دن کی تسبیحات مکمل کر لیں، الحمد للّٰہ مبارک ہو، یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ اب آپ اس طرح کریں کہ تیسرا کلمہ 100 دفعہ، درود شریف 100 دفعہ اور استغفار 100 دفعہ، اس کو لازمی طور پر عمر بھر کے لئے روزانہ کر لیا کریں۔ نماز کے بعد والا جو ذکر بتایا تھا وہ بھی عمر بھر کے لئے جاری رکھیں۔ اس کے علاوہ آپ نے 10 منٹ کے لئے آنکھیں بند، زبان بند، قبلہ رخ بیٹھ کر تصور کرنا ہے کہ میرا دل اللّٰہ کو یاد کر رہا ہے، اَللہ اَللہ کر رہا ہے اور میں اس کو سن رہی ہوں، آپ نے اَللہ اَللہکو صرف سننے کی کوشش کرنی ہے، اَللہ اَللہکروانے کی کوشش نہیں کرنی۔ کوئی اپنے دل سے اَللہ اَللہنہیں کروا سکتا۔ لہذا آپ صرف سننے کی کوشش کریں، جب دل اللہ اللہ کرنا شروع کر لے گا تو آپ خود ہی سن لیں گی، بس اپنی توجہ اس کی طرف رکھیں۔ ایک مہینہ یہی معمولات کر کے مجھے اطلاع کر دیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ! حضرت جی مہربانی فرما کر مجھے فرضِ عین کورس کے بارے میں بتا دیں کہ کونسی کتاب پڑھنی چاہئے، کیا آپ کی خانقاہ میں اس بارے میں کوئی کتاب ہے؟

جواب:

آپ ”بہشتی زیور“ پڑھنا شروع کریں اور ”تعلیم الاسلام“ جو بچوں کے لئے لکھی گئی ہے، اس کا مطالعہ کریں۔ اِس وقت ہمارے لئے یہ باتیں بھی بہت ضروری ہیں تاکہ یاد رہیں۔ تعلیم الاسلام اور بہشتی زیور تو مطبوعہ شکل میں ہیں۔ ہمارے ہاں الحمد للّٰہ فرضِ عین علم پر لیکچرز بھی دیے گئے ہیں، وہ بھی آپ کو بھیجے جا سکتے ہیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ! میرا روز کا معمول کچھ یوں ہے کہ صبح کے وقت کالج جانا ہوتا ہے، جہاں جا کر میں چاشت اور اشراق پڑھ لیتی ہوں، کالج کے بعد ظہر پڑھتی ہوں، پھر مدرسے جانا ہوتا ہے، مدرسے سے واپسی پر نمازِ مغرب اور پھر کھانا کھا کر بچوں کو قرآن اور دینی تعلیم پڑھاتی ہوں، پونے دس بجے ایک باجی کو حفظ کی سورتیں سناتی ہوں، پھر نمازِ عشاء مکمل کرتی ہوں۔ اس طرح کام نمٹانے میں دیر ہو جاتی ہے اور میں ایک دو بجے سے پہلے نہیں سو پاتی۔ اکثر نماز میں ہی سو جاتی ہوں۔ اس سب کے علاوہ کچھ چیزیں ہیں جو میں نہیں کر پا رہی، مثلاً میں روزانہ ایک معلمہ کا درس سن کر ایک گھنٹہ حدیث پڑھنا چاہتی ہوں، کیونکہ مدرسہ میں قرآن پاک کی تعلیم ہوتی ہے، حدیث کی نہیں۔ میں دین کے لئے لکھنا چاہتی ہوں، ایک گھنٹہ شروع کیا ہے مگر برقرار نہیں رہ پایا۔ اس کے علاوہ مدرسے کی طرف سے ملا ہوا گھر کا کام کرنا ہوتا ہے، جس کے لئے مجھے آدھا گھنٹہ چاہئے، کالج کی پڑھائی کرنا چاہتی ہوں اس کے لئے پونا گھنٹہ چاہئے اور گھر والوں کے لئے وقت نکالنا چاہتی ہوں، جو بہت کم نکل پاتا ہے اور گھر والوں کو شکایت بھی ہوتی ہے۔ سورۂ ملک، سورۂ سجدہ، سورۂ واقعہ، سورۂ رحمٰن اور سورۂ حدید پڑھنا چاہتی ہوں۔ بچوں کو پڑھانے کی تیاری کرنے کے لئے بھی کچھ وقت چاہئے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ میری نماز کا معمول یہ ہے کہ دو رکعت تقریباً پچیس منٹ میں اور چار رکعت پینتالیس منٹ میں اور اگر تشہد لمبا کروں تو مزید وقت بڑھ سکتا ہے، مغرب کی نماز عشاء تک چلی جاتی ہے۔ اکثر نمازیں اکیلے کونے میں جا کر پڑھتی ہوں۔ میں نے ایک سیرت کی کتاب میں پڑھا ہے کہ آپ ﷺ کے چوبیس گھنٹوں میں سے 1/3 حصہ عبادت، 1/3 گھر بار، بیوی بچوں کے لئے اور 1/3 طعام اور شب باشی کے لئے تھا۔ اب میں نہ کالج کا پڑھ پاتی ہوں، نہ گھر والوں کو صحیح وقت دے پاتی ہوں، نہ دینی کام پوری طرح ہوتا ہے، نہ لکھائی کا کام کر پاتی ہوں، نہ سورۂ ملک پڑھ پاتی ہوں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ اس معمول میں کیا کمی اور کیا غلطی ہے، اگر میرا ایک کام رہ جائے تو پورا معمول خراب ہو جاتا ہے۔

جواب:

گھنٹے تو 24 ہی ہوتے ہیں، پچیسواں گھنٹہ کسی کو نہیں ملتا لہذا 24 گھنٹوں کو ہی مینیج ہوتا ہے، ان 24 گھنٹوں میں ہی سارا کچھ کرنا ہوتا ہے۔ مینیج کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے فرائض و واجبات پورے ہونے چاہییں، اس کے بعد سنن مؤکدہ پوری ہونی چاہییں، اس کے بعد مستحبات کی باری آتی ہے، مستحبات میں جس چیز کے ساتھ زیادہ مناسبت ہو وہ کرنی چاہئے۔ اب اگر آپ مستحبات زیادہ کرنا چاہیں جس سے فرائض و واجبات رہ جائیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے، اس طرح نقصان ہو جائے گا۔ آپ اپنے شیڈول کے مطابق بتائیں کہ فرائض و واجبات پر کتنا وقت لگتا ہے، سنن مؤکدہ پر کتنا وقت لگتا ہے، مستحبات پہ کتنا وقت لگتا ہے؟ مجھے یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیجیں، تاکہ میں آپ کو بتاؤں کہ اس کا حل کیا ہے۔

سوال نمبر 7:

کسی خاتون نے اپنے معمولات کا چارٹ بھیجا ہے۔

نماز سو فیصد، نوافل سو فیصد، 2 رکعات صلوٰۃ شکرانہ سو فیصد، روزانہ سورۂ یٰسین سو فیصد، سورۂ ملک سو فیصد، قرآن پاک سو فیصد۔

ذکر: تیسرا کلمہ سو فیصد، درود پاک سو فیصد، استغفار سو فیصد، زاد السعید سو فیصد، مناجاتِ مقبول سو فیصد، مراقبات سو فیصد، سورۂ کہف سو فیصد، المنزل الجدید سو فیصد، چودھواں سپارہ زیرو فیصد (خواتین کے ختمِ قرآن گروپ میں ان کو دیا گیا ہو گا)، صلوۃ التسبیح زیرو فیصد، درود تنجینا ہر جمعہ سو فیصد، درود تنجینا روز تیس مرتبہ سو فیصد، پہلا کلمہ 300 دفعہ سو فیصد، سلسلہ کا شجرہ سو فیصد، سادات کا شجرہ سو فیصد، ”یَا ہَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“ 111 مرتبہ سو فیصد، ”اَللّٰهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُوْرِهِمْ“ سو فیصد، ”لَآ اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ“ 100 دفعہ سو فیصد۔ اس مہینے سات لاکھ بتیس ہزار (732000) مرتبہ درود پاک پڑھا۔ فارغ اوقات میں حضرت جی کے بیانات سنے۔ الحمد للّٰہ!

جواب:

اللّٰہ پاک آپ کے ان معمولات اور اعمال کو قبول فرمائے اور مزید توفیقات نصیب فرمائے۔ آمین۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ! حضرت شاہ صاحب! اکتوبر کے مہینے کے معمولات بھیج رہا ہوں، معمولات درج ذیل ہیں:

200، 400، 600، 4500۔ لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10، منٹ لطیفہ اخفیٰ 10 منٹ، مراقبۂ احدیت 15 منٹ۔ اس مہینے معمولات پابندی سے ہوئے صرف ایک دن مراقبہ کا ناغہ ہوا۔ آگے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

باقی چیزیں وہی رکھیں۔ مراقبۂ احدیت کی بجائے مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ کریں۔ تجلیاتِ افعالیہ سے مراد یہ ہے کہ ”سب کچھ اللّٰہ پاک ہی کرتے ہیں“ اس کا خاص فیض اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ قلب پہ آ رہا ہے۔ اس کا 15 منٹ کے لئے تصور کیا کریں۔ باقی چیزیں وہی رہیں گی۔

سوال نمبر 9:

معمولات: ہر روز 300 مرتبہ تیسرا کلمہ جز اول اور 200 مرتبہ جز ثانی۔ ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللّٰہ، 33 بار الحمد للّٰہ، 34 بار اللّٰہ اکبر، 1 بار آیت الکرسی، 3 بار استغفار، 3 بار درودِ ابراہیمی۔

جواب:

اس میں 3 بار کلمہ طیبہ بھی ہے، وہ شاید آپ بھول گئی ہیں. جو معمولات میں نے بتائے ہیں فی الحال وہی کرتی رہیں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم۔ میں شانگلہ سے ہوں میں پہلے بھی ذکر کرتا رہا ہوں۔ پہلے میرا ذکر یہ تھا: 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حَقْ“، 500 مرتبہ ”اَللہ“ اور اس کے ساتھ 10 منٹ کا مراقبہ تھا۔ مگر ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے کہ ذکر نہیں کیا۔ اب میں دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں۔ آج کل میں پشاور میں پڑھتا ہوں۔ چونکہ یہاں کالج میں، راستے میں ہر جگہ عورتیں ہیں، ان کی طرف بہت زیادہ مائل ہو رہا ہوں، مجھے بہت ڈر ہے کہ میں اس فتنے کا شکار نہ ہو جاؤں۔ میں بہت کوشش کرتا ہوں پھر بھی کبھی کبھی ذہن میں اس طرح کے خیالات آتے ہیں میں کیا کروں؟

جواب:

پہلی بات یہ ہے کہ آپ اپنے ذکر کی طرف توجہ کریں اور رابطے کا اہتمام رکھیں۔ مہینے میں کم از کم ایک دفعہ اپنے احوال بتا دیا کریں۔ ابھی آپ یہاں سے شروع کر لیں۔ ایک مہینہ 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“، 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“، 200 مرتبہ ”حَقْ“ اور 100 مرتبہ ”اَللہ“ کیا کریں۔ ایک مہینہ بعد مجھے اطلاع کریں۔ بد نظری کے سلسلے میں اللّٰہ پاک کے اس حکم پر عمل کریں کہ ”اپنی نگاہیں نیچی رکھو“۔ جس کو ”غضِّ بصر“ کہتے ہیں۔ آپ اپنی نظروں کی حفاظت کریں گے تو اللّٰہ جل شانہ آپ کے دل کو محفوظ رکھیں گے۔ در اصل یہ دل کے دروازے ہیں، آنکھ بھی دروازہ ہے، کان بھی دروازہ ہے اور زبان بھی دروازہ ہے۔ ہم ان دروازوں کو بند رکھیں گے تو دل محفوظ رہے گا ان شاء اللہ۔ بس اپنے دل کو محفوظ رکھنا ہے اور رابطہ مضبوط کرنا ہے تاکہ ہمت قائم رہے اور توفیق ملتی رہے۔ جو ذکر بتایا گیا ہے اسے با قاعدگی سے کر لیا کریں۔

سوال نمبر 11:

میری اہلیہ کو مراقبہ میں ”اَللہ اَللہ“ کی آواز محسوس ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ اگست کے اخیر سے اب تک جاری ہے۔ لیکن وہ مراقبہ روزانہ نہیں کرتیں، چند دن کے بعد ایک دن ناغہ ہو جاتا ہے۔

جواب:

دو چیزوں کا اہتمام کرنا لازمی ہے۔ اول: رابطہ۔ دوم: معمولات کی پابندی۔ جیسے انسان علاج کے لئے ڈاکٹر کے ساتھ رابطہ کرتا ہے تو اس میں بھی دو چیزیں لازمی ہوتی ہیں، ایک: ڈاکٹر کو ہر وقت اپنا حال بتانا، دوسرا جو علاج ڈاکٹر تجویز کرے اس پہ عمل کرنا، چاہے وہ دوائی کے بارے میں ہو چاہے پرہیز کے بارے میں ہو۔ اگر کوئی ڈاکٹر کی اس بات پر عمل نہیں کرتا تو اس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر سے یہ گلہ کرے کہ میں ٹھیک نہیں ہوا۔ وہ یہ بات ڈاکٹر سے تب ہی کر سکتا ہے جب اس نے اس کی ہدایات پر عمل کیا ہو۔ آپ اپنی اہلیہ کو بتا دیں کہ معمولات میں با قاعدگی پیدا کریں۔ جو مراقبہ دس منٹ کے لئے کر رہی ہیں اس کا وقت بڑھا کر 15 منٹ کر لیں۔ ایک مہینہ بعد اطلاع کریں۔

سوال نمبر 12:

مجھے عربی نہیں آتی۔ کیا معنی کے استحضار کے بغیر بھی اذکار کا فائدہ اور اثر ہو گا؟

جواب:

اذکار کا ترجمہ زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ مثلاً ہر آدمی کو ”سُبْحَانَ اللہِ“، ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“، ”حَقْ“ اور ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ“ وغیرہ کے معانی کا علم ہوتا ہے۔ یہ سارے معنے کوئی مشکل نہیں ہیں۔ اگر آپ کو معلوم نہیں ہیں تو ان کو سیکھ لیں اور اس طرح پکا کر لیں کہ ان کے معانی آپ کے ذہن میں اس حد تک راسخ ہو جائیں کہ وہ آپ کے لئے مادری زبان کی طرح ہو جائیں۔ اس سے یہ ہو گا کہ آپ کو استحضار بھی صحیح ہو گا اور فائدہ بھی پورا ہو گا، ورنہ استحضار میں جتنی کمی ہو گی اس حساب سے فائدہ میں بھی کمی ہو گی۔ البتہ دعاؤں کے اندر ایک کام کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ دعائیں بہت زیادہ ہیں، اس لئے تمام دعاؤں کا ترجمہ ایک عامی شخص کو معلوم نہیں ہوتا۔ وہ ایسا کرے کہ برکت کے لئے مسنون دعائیں پڑھے اور سمجھنے کے لئے ان کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ دیکھا کرے۔ اس سے دونوں فائدے ہوں گے۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم۔ حضرت جی جہلم سے فلاں عرض کر رہا ہوں۔ آپ کے ارشاد فرمانے پر مراقبۂ حقیقتِ قرآن 15 منٹ روزانہ کر رہا ہوں۔ قرآن مجید کی محبت بڑھ رہی ہے۔ رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

ما شاء اللّٰہ۔ جس طرح میں نے کہا تھا اس مراقبہ کو اسی طریقے سے کریں۔ یعنی حقیقتِ قرآن کا مراقبہ میں یہ تصور کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف فیض آ رہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے میرے پورے جسم پہ آ رہا ہے۔ چونکہ قرآن مجید اللّٰہ کا کلام ہے اور اللّٰہ کا کلام اللّٰہ کی صفت ہے اور اللّٰہ کی صفت اللّٰہ کے ساتھ متصل ہے۔ اس وجہ سے یہ اللّٰہ تعالیٰ کے تعلق حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ آپ اس طریقے سے مراقبہ کریں تاکہ اس کا پورا فائدہ ہو۔

سوال نمبر 14:

حضرت! مجھے دوسرا ذکر 24 اکتوبر سے سو سو (100) مرتبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“، ”حَقْ“ اور ”اَللّٰہ“ 30 دن کے لئے دیا گیا ہے۔ الحمد للّٰہ پابندی سے کر رہا ہوں اور 30 دن مکمل ہونے پر رہنمائی لوں گا۔ اس وقت رابطے کا مقصد ایک خواب ہے جو میں نے آج مغرب کا وقت شروع ہونے سے پانچ منٹ پہلے دیکھا۔ میں عصر کی نماز پڑھ کر لیٹا اور آپ کا بیان لگایا، بیان سنتے سنتے آنکھ لگ گئی۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ آپ میرے نانا کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کسی سے بات کر رہے ہیں۔ میرے نانا کو وفات پائے بہت سال ہو چکے ہیں۔ اور آپ کلین شیو ہیں۔ دراصل معلوم نہیں کہ وہ آپ ہیں بھی یا نہیں کیونکہ میں نے آپ کو بہت پہلے سے دیکھا ہوا ہے۔ خواب میں کوئی درمیانے قد کا سانولے رنگ کا شخص ہے لیکن میں خواب میں یقین کرتا ہوں کہ وہ آپ ہی ہیں کیونکہ آواز بالکل آپ کی ہوتی ہے۔ میں یہ دیکھ کر بہت غمگین ہوتا ہوں کہ میرے شیخِ طریقت شریعت کے تابع نہیں ہیں۔ پھر میرے ماموں جو کہ ابھی چند ماہ پہلے فوت ہوئے ہیں، ان کی عمر 50 سال تھی اور نیک شریف انسان تھے، وہ کہتے ہیں کہ یہ بڑے عالم ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کس کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟ میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ یہ بات آپ کے لئے ہو لیکن وہ ایک عالم کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کہ جی۔ نائن۔ وَن میں رہتے ہیں اور تقویۃ الایمان میں امام ہیں، ہم وہاں پر ہی نماز پڑھتے تھے۔ ان کا تعلق اہل سنت و الجماعت سے ہے۔ یہی سوچتے ہوئے میری آنکھ کھلی تو آپ کا بیان چل رہا تھا جس کے آخری حصے میں آپ شیخ کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ حضرت جی آخری بات یہ کہ میں خود کلین شیو ہوں۔

جواب:

جب انسان اپنے شیخ کو خواب میں دیکھتا ہے تو وہ اس کے لئے آئینہ ہوتے ہیں بلکہ اگر کوئی خواب میں آئینہ دیکھے تو اس سے مراد شیخ ہوتا ہے یعنی اس کی تعبیر شیخ کی دی جاتی ہے، کیونکہ آئینہ انسان کو اس کا عیب بتاتا ہے، اس کا چہرہ جیسا ہوتا ہے، جیسی اس کی چال ڈھال ہوتی ہے وہ سب کچھ آئینہ میں نظر آتا ہے اور آئینہ جھوٹ نہیں بولتا۔ لہٰذا آپ کو اس خواب کے ذریعے آپ کے بارے میں بتا دیا گیا ہے۔ چونکہ آپ کلین شیو ہیں اس لئے اس خواب کو ایک تنبیہ سمجھ لیں۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو داڑھی رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین) یہ سلسلے کی برکت ہے، سلسلہ آپ کی طرف متوجہ ہے۔

جس عالم کے بارے میں خواب میں کہا گیا کہ یہ بڑے عالم ہیں۔ اس کے بارے میں ہم یہ کہیں گے کہ ما شاء اللہ علماء تو علماء ہیں، ان سے علم حاصل ہوتا ہے لیکن آئینے والا کام علماء نہیں کرتے بلکہ مشائخ کرتے ہیں۔

کوئی شخص اپنا عیب آسانی کے ساتھ نہیں مانتا۔ جو آپ کہہ رہے تھے کہ مجھے پتا نہیں کہ وہ آپ ہیں بھی یا نہیں ہیں، یہ بھی اس طرف اشارہ ہے کہ آپ فی الحال شعوری طور پر اس چیز کو تسلیم نہیں کر رہے، اگرچہ آپ ظاہری طور پہ سمجھتے ہوں گے کہ میں تسلیم کرتا ہوں لیکن ابھی وہ حالت نہیں آئی۔ آپ دعا کریں اور کوشش بھی کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ وہ حالت لے آئے کہ شعوری طور پر آپ اس چیز کو محسوس کریں، اپنی غلطیوں کو محسوس کریں اور غلطیوں کی اصلاح بھی شروع کریں۔ اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو اپنی تمام غلطیوں کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ میرا ذکر 6 ہزار مرتبہ زبانی طور پر “اَللہ اَللہ“ ہے، جسے کرتے ہوئے مہینہ پورا ہو چکا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

اب آپ 7 ہزار مرتبہ روزانہ “اَللہ اَللہ“ کرنا شروع کر لیں۔ گھبرائیں نہیں، ہمارے شیخ بعض خوش نصیب مریدوں کو صبح و شام 24 24 ہزار کی تعداد میں ذکر دیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے آپ گھبرائیں نہیں، یہ بہت بڑی چھلانگ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کو جلدی یہ چیز ملنی چاہئے۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی آپ نے جو وظیفہ بتایا تھا دو تاریخ کو اس کے 40 دن پورے ہو گئے ہیں۔ مجھے مغالطہ ہوا کہ شاید ابھی کچھ دن باقی ہیں لیکن جب میں نے حساب کیا تو 40 دن پورے ہو گئے تھے۔ ذکر درج ذیل ہے:

ہر نماز کے بعد 33 دفعہ ”سُبْحَانَ اللہِ“ 33 دفعہ تیسرا کلمہ، 33 دفعہ درود شریف، 33 دفعہ استغفار، ایک تسبیح ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ ایک تسبیح ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ ایک تسبیح ”حَقْ“ اور ایک تسبیح ”اَللہُ“۔

10 تاریخ کو میرے بیٹے کے ذکر کا ایک مہینہ پورا ہو جائے گا۔ اس کا ذکر یہ تھا: ہر نماز کے بعد 50 دفعہ درود شریف، 50 دفعہ پہلا کلمہ۔

اہلیہ کو یہ ذکر دیا گیا تھا۔ تیسرا کلمہ ایک تسبیح، استغفار ایک تسبیح، درود شریف ایک تسبیح۔ مراقبہ کے بارے میں آپ نے فرمایا تھا کہ اسے جاری رکھیں۔ اس میں طبیعت کی خرابی اور بیماری کی وجہ سے ناغہ ہوا ہے۔

دعا کی درخواست ہے کہ اللّٰہ پاک ہمیں نیک اور تندرست اولاد نصیب کرے۔

جواب:

اب آپ 66 مرتبہ تیسرا کلمہ، 66 مرتبہ درود شریف، 66 مرتبہ استعفار۔ 2 تسبیح ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ“، ایک تسبیح ’’لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا ھُوْ“، ایک تسبیح ”حَقْ“ اور ایک تسبیح ”اَللّٰہ“ کی شروع کر لیں۔

بیٹے کو بتا دیں کہ ہر نماز کے سو سو (100) دفعہ درود شریف اور پہلا کلمہ پڑھا کرے۔

اہلیہ سے یہ پوچھ کر بتا دیں کہ کیا مراقبہ کے دوران دل میں ”اَللہ اَللہ“ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟

سوال نمبر 17:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ!

نمبر 1: حضرت جی دس منٹ لطیفۂ قلب، 15 منٹ لطیفۂ روح۔ ذکر محسوس کرتی ہے۔

نمبر 2: مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ مکمل ہوا۔ 3 لطیفے قلب و روح 5 ,5 منٹ اور لطیفہ سر 10 منٹ۔ ذکر محسوس کرتی ہیں۔

نمبر 3: لطیفۂ قلب و روح 5 ,5 منٹ، لطیفہ سر 10 منٹ۔ محسوس کرتی ہیں۔

جواب:

نمبر 1: اس کو بتا دیں کہ 10 منٹ لطیفۂ قلب، 10 منٹ لطیفۂ روح اور 15 منٹ لطیفۂ خفی اور لطیفۂ سر۔

نمبر 2: ان سے پوچھیں کہ اس کا اثر کیا محسوس ہوتا ہے وہ اثر مجھے بتا دیں۔

نمبر 3: اب لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح اور لطیفۂ سر 5 5 منٹ اور لطیفۂ خفی 10 منٹ کے لئے شروع کر لیں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم میں نے اس مرتبہ قرآن نہیں پڑھا، مصروف ہو جاتی ہوں، تین بج جاتے ہیں۔ آج کل مجھے میری ایک میڈم اسائنمنٹ بھیجتی ہیں جو غیر ملکی طلبا کی ہوتی ہیں، جن پر کام کر کے ہم کمائی کرتے ہیں جبکہ وہ طلبا یہ اسائنمنٹس بنوا کر اپنی یونیورسٹیوں میں جمع کرواتے ہیں۔ اس بارے میں پوچھنا تھا کہ یہ کام جائز ہے یا نا جائز۔ برائے مہربانی اس کا جواب جلد از جلد عنایت فرما دیں تاکہ میں نئی اسائنمنٹ بنوا لوں۔ آج خواب میں دیکھا کہ رات ہے اور میں اندر سے گھر کی گیلری میں نکلتی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کہ ایک چیل اوپر پھر رہی ہوتی ہے، میں اس کو چھیڑتی ہوں تو وہ اوپر سے میری طرف بڑھتی ہے اور پھر میرے پیچھے پڑ جاتی ہے۔ میں کہتی ہوں یہ تو پیچھے ہی پڑ گئی۔ اس کو ایک دفعہ بھگاتی تو وہ نہیں جاتی۔ میں دروازے سے گھر کے اندر آ جاتی ہوں اور اس سے ڈرتی نہیں۔

جواب:

اصولی طور پر تو یہ غلط ہے کیونکہ طلباء کو جو اسائنمنٹ دی جاتی ہیں ان پر انہیں خود کام کرنا ہوتا ہے، یہ تعلیم کا مسئلہ ہے اور کسی اور سے کام کروانا تعلیم میں دھوکا اور دھوکے میں تعاون نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ (المائدہ: 5)

ترجمہ: ”اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو“۔

ایک فقہی مسئلہ ہے کہ حرام چیز کافر کو بھی نہیں کھلانی چاہئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کے ساتھ بھی دھوکہ نہیں کرنا چاہئے۔ آپ اس سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو دوسرے حلال طریقوں سے رزق حلال نصیب فرمائے۔ خواب کے بارے میں یہ عرض ہے کہ غیر ضروری چیزوں کے پیچھے نہ پڑیں۔

سوال نمبر 19:

السلام علیکم۔ حضرت جی، کچھ اچھی چیزیں جیسے خود اعتمادی، محنت کشی اور دیانت داری وغیرہ کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ ان چیزوں کی وجہ سے لوگ مجھ سے متاثر ہو جائیں گے اور میری طرف التفات کریں گے۔ اس کا کیا علاج ہے؟

جواب:

اللّٰہ تعالیٰ کا جو حکم ہو اسے پورا کرنا ہوتا ہے اور اس کے لئے جو ذرائع میسر ہوں انہیں اسباب کے طور پر استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ان خوبیوں کی وجہ سے اگر لوگ بندے کی طرف دیکھیں تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔

ایک دفعہ میں نے اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت جب میں نماز پڑھتا ہوں تو مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں، تو ریا کا شبہ پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے فرمایا: کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ چٹائیاں آپ کو دیکھ رہی ہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: بس لوگوں کو چٹائیوں کی طرح سمجھو۔ جیسے چٹائی آپ کو کچھ نہیں دے سکتی، اس کا آپ کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے اسی طرح لوگوں کے ساتھ آپ کو کوئی لینا دینا نہیں، بس آپ اللّٰہ کے لئے کام کریں۔ رہا وسوسہ، تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 20:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔

نمبر 1: لطیفۂ قلب 15۔ منٹ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ابھی اس کو لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ بتا دیں۔

نمبر 2: لطیفۂ قلب 19 منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب اس کو لطیفۂ قلب 10 منٹ اور لطیفۂ روح 15 منٹ بتا دیں۔

نمبر 3: ابتدائی وظیفہ بلا ناغہ پورا کر لیا ہے۔

جواب:

اب اس کو تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار 100 100 دفعہ اور 10 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب بتا دیں۔

نمبر 4: تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ 15 منٹ۔ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

تمام لطائف پر 10 منٹ کا ذکر تو محسوس ہوتا ہو گا۔ مجھے شاید اس میں غلطی لگ رہی ہے کہ آپ نے اس کے لئے ”محسوس نہیں ہوتا ہے“ نہیں کہا۔ اگر ایسا ہے تو آگے بڑھتے ہیں۔ مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ جو 15 منٹ ہے اگر آپ اس کو محسوس نہیں کرتے تو اس کا مطلب ہے کہ اللّٰہ پاک کی ذات کی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کی طرف تو توجہ ہونی چاہئے، صفات بہت ہیں مگر اللّٰہ تعالیٰ کی ذات تو ایک ہی ہے۔

نمبر 5: تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شیونات ذاتیہ 15 منٹ۔

جواب:

سابقہ جواب ان کے لئے بھی ہے۔

سوال نمبر 21:

حضرت مرشدی السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ ذکر اور معمولات کے بارے میں دو ہفتے پہلے تفصیلاً عرض کیا تھا کہ اس میں صرف درود شریف کو ہزار سے پندرہ سو مرتبہ روزانہ کرنے کی توفیق ہوئی۔ درود تنجینا 100 مرتبہ سونے سے پہلے اور پہلے مختصر درود ”صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْأُمِّيِّ“ پڑھتا، کچھ دیر بعد ”اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَکْتَ وَ سَلِّمَ“ زبان پر جاری ہوتا، پھر جب اس کا استحضار ہوتا تو دوبارہ پہلے والا درود شریف پڑھتا، اس طریقے سے کئی دفعہ ہوتا ہے۔ اور دل تب ہی مطمئن ہوتا ہے ”اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ“ ساتھ پڑھتا ہوں۔ یہ درود بھی مسنون ہے کیا اس کو جاری رکھا جائے؟

جواب:

جی بالکل یہ درود بھی جاری رکھا جائے۔ یہ درود ”صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْأُمِّيِّ“ تو ہم نے مختصر درود پاک کے طور پر بتایا ہے ورنہ جو آپ پڑھتے ہیں وہ تو اور بھی بہتر ہے۔

سوال نمبر 22:

احوال: جو امید اور خوف کی گھڑی سے ابھی گزرے ہیں، جن سے آپ واقف ہیں، جن میں آپ کی دعاؤں کی برکت سے دل سے عبادت کی اور دعائیں مانگی ہیں، اس کی توفیق سے ہر وقت اللّٰہ پاک سے دل کو ملا ہوا پایا۔ الحمد للّٰہ یہ محسوس ہوا کہ اللّٰہ جل شانہ میرے ساتھ ہیں۔ کسی ذاتی چیز کی پروا نہیں تھی مثلاً کھانا، پینا، سونا، البتہ جب طبیعت خراب ہونے لگی تو اس کو درست کر لیا۔ پھر آپ کی دعاؤں کی برکت سے اچھی خبر آئی تو ایک بوجھ دل سے ہلکا ہوا۔ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ تھکاوٹ کی وجہ سے نیند آ رہی تھی، نماز اور معمولات ادا کرنے کی توفیق ہو چکی تھی اس لئے لیٹ گیا مگر چند ہی منٹ میں اتنی شرم آئی کہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا تو ہر سانس کے ساتھ دعا جاری تھی اور جب اللّٰہ تعالیٰ نے دعائیں سن لیں تو دو رکعات شکرانہ نماز اور چند الفاظ میں تیرا شکر ادا ہو گیا فوراً قرآن پاک کی یہ آیت یاد آئی:

﴿وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖۤ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآىِٕمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَاۤ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّهٗ كَذٰلِكَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (یونس: 12)

ترجمہ: ”اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے بیٹھے اور کھڑے ہوئے (ہر حالت میں) ہمیں پکارتے ہیں۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو اس طرح چل کھڑا ہوتا ہے جیسے کبھی اپنے آپ کو پہنچنے والی کسی تکلیف میں ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ جو لوگ حد سے گزر جاتے ہیں، انھیں اپنے کرتوت اسی طرح خوش نما معلوم ہوتے ہیں“۔

پھر آپ کی دعا کی برکت سے توبہ کی اور نیند اڑ گئی۔ جیسے آپ نے ہمیں تعلیم فرمائی کہ مبارک راتوں میں عبادات کا گلدستہ پیش کریں، الحمد للّٰہ اس کی توفیق ہوئی۔ خدا کی قسم یہ سب آپ کی برکت ہے اور آپ کو میں ہمیشہ ساتھ ساتھ بتاتا ہوں۔

جواب:

اللّٰہ تعالیٰ کی توفیقات پر بہت شکر ادا کرنا چاہئے۔ اللّٰہ پاک نے جو صحت دی ہے اس پر بھی شکر کرنا چاہئے۔ شکر کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اللّٰہ تعالیٰ کے فضل کا مشاہدہ کرنا چاہئے اور اللّٰہ پاک کی طرف دعا کے ساتھ اور توفیقات کی طلب کے ساتھ متوجہ ہونا چاہئے۔

یہ جو آپ نے فرمایا کہ تھکاوٹ تھی۔ یقیناً اس مرحلے پہ تھکاوٹ ہوتی ہے۔ جب سونے کا وقت ہو تب آپ کو سونا چاہئے کیونکہ با قاعدہ آپ ﷺ کی طرف سے فرمایا گیا ہے:

”لِنَفْسِكَ عَلَیْكَ حَقٌّ“ (مسند احمد: 6878)

ترجمہ: ”تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے“۔

انسان اپنی عبدیت کو محسوس کر لے۔ عبدیت میں اپنی کمزوریوں کو محسوس کرنا اور ان کے مطابق اللّٰہ پاک نے جہاں گنجائش دی ہے اس گنجائش پہ عمل کرنا یہ بھی شکر میں آتا ہے، لہٰذا اگر سونے کے وقت آپ سو گئے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوا۔ شکر کے الوان مختلف ہیں، ایک یہ لون ہے کہ آپ زبان سے شکر کر رہے ہیں، ایک یہ ہے کہ آپ اپنے شکر کو نا کافی سمجھ رہے ہیں، یہ بھی تو ایک لون ہے۔ اس وجہ سے جو ہوا اچھا ہوا۔ اللّٰہ تعالیٰ مزید کی توفیقات بخشے اور خیریت نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت جی اللّٰہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں اور میرے لئے استقامت کی دعا فرمائیں۔ حضرت جی، میرے ذکر کی ترتیب کچھ یوں ہے:

200 مرتبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“، 400 مرتبہ ”اِلَّا اللّٰہُ“، 600 مرتبہ ”اَللّٰہُ اَللّٰہ“، 500 مرتبہ زبان سے خفی طور پر ”اَللّٰہْ اَللّٰہْ“ اور 10 منٹ پانچوں لطائف پر ”اَللّٰہْ اَللّٰہْ“ محسوس کرنا اور 15 منٹ لطیفۂ اخفی پر مراقبۂ شان جامع۔

احوال: حضرت جی الحمد للّٰہ ذکر اچھا ہو جاتا ہے اور تازہ دم ہو جاتا ہوں لیکن مراقبۂ شانِ جامع میں نیند کا غلبہ چھا جاتا ہے۔ پچھلے مہینے اچھا نہیں ہوا۔

جواب:

ذکر انسان کو جاگتا ہوا رکھتا ہے۔ البتہ مراقبہ میں چونکہ یکسوئی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کے تمام اعضاء پُر سکون ہو جاتے ہیں اور اعضاء جب پُر سکون ہوتے ہیں تو انسان کو نیند آ جاتی ہے لیکن یہ ایک منفی اثر ہے اس منفی اثر کو کم کرنے کے لئے آپ کچھ چیزوں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ ایسا کیا کریں کہ چائے وغیرہ پی کر اطمینان کے ساتھ اپنا مراقبہ مکمل کر لیا کریں۔

سوال نمبر 24:

حضرت جی، عشاء کے بعد تہجد کے نفل پڑھ لیتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ رات کو تہجد بھی پڑھوں گا لیکن آنکھ نہیں کھلتی اور کھل جائے تو اٹھا ہی نہیں جاتا۔

جواب:

آج کل تو بہت آسانی ہے، راتیں لمبی ہو گئی ہیں، اپنے پاس گلاس میں پانی بھر کر رکھ لیا کریں، جب ذرا بیدار ہوں تو اپنی انگلیاں پانی میں بھگو کر پپوٹوں کے اوپر رگڑیں تاکہ آپ کی آنکھ مکمل طور پہ کھل جائے، جیسے ہی نیند کا خمار کم ہو اٹھ کر بیٹھ جائیں۔ ان شاء اللّٰہ تہجد کی توفیق ہو جائے گی۔

سوال نمبر 25:

حضرت! 12 سال کی قضا نمازیں ہیں، ابھی 10 مہینے کی پڑھی ہیں، باقی ساری رہتی ہیں، سستی ہو رہی ہے۔

جواب:

آپ اس طرح کر لیں کہ تہجد کے وقت بھی چار رکعات تہجد پڑھ کر باقی رکعتیں قضاء نماز کی پڑھ لیا کریں۔

سوال نمبر 26:

حضرت جی جس دن سارے معمولات مکمل ہوں روحانی سکون ہوتا ہے، طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے، اگر کسی دن کوئی معمول رہ جائے تو طبیعت بڑی چڑ چڑی سی ہوتی ہے۔

جواب:

جی ہاں معمولات شروع کرنے کے بعد ایسے اثرات ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 27:

حضرت جی دفتر اور گھر میں جتنی بھی مصروفیت ہو آپ دل کے ایک کونے میں رہتے ہیں، یاد آتے رہتے ہیں اور روحانی خوشی ملتی ہے۔

جواب:

الحمد للہ۔

سوال نمبر 28:

بیماری کی وجہ سے ایک ہفتہ ناغہ ہو گیا جس کے بعد ذکر محسوس ہونا بند ہو گیا۔

جواب:

بیماری کی وجہ سے اجر بند نہیں ہوتا کیونکہ بیماری ایک غیر اختیاری چیز ہے۔ ارادہ تو بیماری کی حالت میں بھی یہی ہوتا ہے کہ اگر ممکن ہوا ناغہ نہیں کریں گے، تو اس ارادے اور معمول کی وجہ سے سالک کو اجر ملتا ہے۔ لہٰذا اجر تو بند نہیں ہوتا، لیکن اثر ختم ہو سکتا ہے۔ اجر اور اثر میں فرق ہے، ذکر کا محسوس ہونا چونکہ ذکر کا اثر تھا اس لئے جب ناغہ ہوا تو یہ اثر ختم ہو گیا، اور ذکر محسوس ہونا بند ہو گیا۔ اس کو دوبارہ محسوس کروانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ دوبارہ اسی مستقل مزاجی کے ساتھ ذکر شروع کریں تاکہ دوبارہ وہ اثر حاصل ہو جائے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر آپ بیماری کی وجہ سے ورزش چھوڑ دیں تو ورزش کا اثر ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح ان چیزوں کا اثر بھی ختم ہو سکتا ہے، البتہ اجر ختم نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بیماری کی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے، اس کو پورا اجر ملتا ہے، اگر کوئی بیٹھ کر نماز نہ پڑھ سکے تو اشارے سے پڑھنے پر پوری نماز کا اجر ملتا ہے، وضو نہ کر سکنے کی وجہ سے تیمم کر کے نماز پڑھنے پر پورا اجر ملتا ہے۔

سوال نمبر 29:

حضرت آپ نے مجھے منزل پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ پہلی مرتبہ جب میں نے منزل پڑھی ہے تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے لطائف کے اندر آگ سی لگ گئی ہے، بہت مشکل ہوئی لیکن میں نے مکمل طور پہ پڑھ لی۔ دوسری مرتبہ پڑھنے میں اس قدر آگ نہیں لگی جس طریقے سے پہلی مرتبہ تکلیف ہوئی تھی۔ دو تین دن کے بعد میں بہت زیادہ بیمار ہو گیا۔ یہ بیماری ایک دو دن تک چلتی رہی لیکن میں منزل باقاعدگی کے ساتھ پڑھتا رہا بلکہ میں نے اعراب کے ساتھ ٹائپ بھی کی، میرے پاس وہ soft form میں موجود ہے، ابھی میں اس پہ نظر ثانی کر رہا ہوں تو کچھ جگہوں پر اعراب کی غلطی لگ رہی ہے، آپ کے سامنے پیش کروں گا تو درستگی فرما دیجئے گا۔ ایک تبدیلی مجھے یہ محسوس ہوئی کہ اگر پہلے میں بہت زیادہ مقدار میں اذکار کر رہا تھا یا مختلف نجوم کی ساعات میں اذکار کر رہا تھا، جس طریقے سے میں نے آپ کو بتایا کہ میں أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ سولہ سو انیس مرتبہ اس کے اعداد کے مطابق ہر لطیفے کے اوپر دو دو سو مرتبہ پڑھی۔ اور 100 100 مرتبہ کر کے اس طریقے سے میں مکمل کرتا رہا۔ میں ساعات کے اعتبار سے جو وظائف کرتا تھا وہ آہستہ آہستہ بالکل کم ہو گئے۔ تصرفات وغیرہ والا معاملہ بھی کافی حد تک ختم ہو گیا ہے۔ مجھے تقریباً 10 سال سے محسوس ہوتا تھا کہ میرے ساتھ ایک شیطان ہے، اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ میرے جسم کے اندر نہیں ہے بلکہ باہر ہے، یعنی میرے ساتھ تو ہے لیکن اب جسم کے اندر محسوس نہیں ہوتا۔ کیا میں منزل کو مسلسل جاری رکھوں؟

جواب:

جی ہاں، منزل جاری رکھیں، منزل تو آپ نے کبھی چھوڑنی ہی نہیں ہے کیونکہ منزل آپ کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ روحانیت کی مخالف چیزیں آپ کو منزل کی طرف نہیں آنے دیں گی، یہ طے شدہ بات ہے کیونکہ یہ آپ کا اسلحہ ہے اور دشمن سب سے پہلے انسان کے اسلحے پہ حملہ آور ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اسلحہ نہ رہے اور آپ اپنی حفاظت نہ کر سکیں۔ ایسی صورت میں مستقل مزاجی کام آتی ہے، آپ مستقل مزاجی سے منزل پڑھتے رہیں تو آہستہ آہستہ ان مخالف چیزوں کے اثرات کم ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔

در اصل تمام شیطانی تصرفات نفسانی چیزیں ہیں، ان سے بچاؤ کے لئے مجاہدہ ہی کام آتا ہے، اب مجاہدہ میں یہی بات ہوتی ہے کہ آپ اپنی نفس کی خواہش کے خلاف کر رہے ہوتے ہیں اس میں نفس کی طرف سے مزاحمت محسوس ہو رہی ہے اور آپ کی طرف سے زیادہ زور لگ رہا ہے، یہی آپ کا مجاہدہ ہے۔ آپ نے اس چیز کو جاری رکھنا ہے، اس سے آپ کے لئے مجاہدہ روز بروز آسان ہوتا جائے گا، آپ منزل کے قریب ہوتے جائیں گے اور یہ سب منفی چیزیں ان شاء اللّٰہ ختم ہو جائیں گی۔ در اصل ہمارے ہاں یہ ساعات اور نجوم وغیرہ والی چیزیں نہیں ہیں، ہمارے ہاں سیدھا سادا قرآن اور سیدھی سادی سنت ہے، درمیان میں کوئی اور چیز نہیں ہے۔ جیسے حدیث شریف میں آتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا:

’’يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِيْ سَبْعُوْنَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ قَالُوْا: مَنْ هُمْ يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: هُمُ الَّذِيْنَ لَا يَسْتَرْقُوْنَ، وَلَا يَكْتَوُوْنَ، وَلَا يَتَطَيَّرُوْنَ وَعَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۔‘‘ (مسلم شریف: 547)

ترجمہ: ’’میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ صحابہؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول وہ کون لوگ ہوں گے؟ فرماہا: جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے، داغنے کے عمل سے علاج نہیں کراتے، شگون بد نہیں لیتے ہیں اور صرف اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘

ساعات وغیرہ والی باتیں تو دوسروں کی طرف سے آئی ہیں، یہ ہماری چیزیں نہیں ہیں۔ اگر میرے پاس ایک ستھرا کھانا موجود ہے تو مجھے مشتبہ کھانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ الحمد للّٰہ ہمارا سو فیصد یقین ہے کہ اگر ہم لوگ اللّٰہ کی پناہ میں رہتے ہیں تو ہمیں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہی توکل مطلوب ہے کہ اللّٰہ پاک پر بھروسہ کرنا چاہئے، اسی میں حفاظت اور بہت سے مزید فائدے بھی ہیں۔

احادیث میں جو حفاظتی اذکار بتائے گئے ہیں، سورۂ فاتحہ اور منزل وغیرہ، اگر کسی کو ان احادیث پر یقین ہو جائے تو یقیناً اس سے بڑی چیز کوئی نہیں ہے۔ اگر آپ کو سورۂ فاتحہ، آیۃ الکرسی اور بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وغیرہ کی طاقت کا صحیح ادراک ہو جائے تو آپ حیران ہو جائیں۔ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جو قرآن میں تھا وہ سورۂ فاتحہ میں آ گیا، جو سورۂ فاتحہ میں تھا وہ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ میں آ گیا، اور جو بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ میں تھا وہ با میں آ گیا اور جو با میں تھا وہ اس کے نقطۂ وحدت میں آ گیا۔ بِسْمِ اللّٰهِ یعنی اللّٰہ کے نام کے ساتھ پڑھتا ہوں۔ اس میں ”ساتھ“ کا معنی ”ب“ سے ادا ہوتا ہے۔ اور اصل چیز یہی اللہ کا ساتھ ہے۔ اگر کسی کو یہ چیز مل جائے تو گویا اسے سب چیزوں کا علم حاصل ہو گیا۔ کیونکہ ساری چیزیں اللّٰہ پاک ہی کی ہیں، اگر آپ کو اللّٰہ کے ساتھ تعلق ہو گیا تو پھر کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اللہ پاک کےسا تھ تعلق کو بڑھانا پڑے گا۔

میں نے آپ کو کئی عاملوں کے واقعات سنائے تھے جو ابھی زندہ ہیں، وہ آپ کو خود بتا سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کیا مسائل پیش آئے، ان کی عملیات دھری کی دھری رہ گئیں اور انہیں ان ہی چیزوں سے فائدہ ہوا۔

سوال نمبر 30:

میں نے ابتداءً تین چار دن منزل کو معانی کے استحضار کے ساتھ پڑھا۔ مجھے اس دوران آیات کے معانی و مفہوم کی اپنی کیفیات کے ساتھ مطابقت محسوس ہوتی رہی۔ آج آٹھواں دن ہے۔ گذشتہ ایک دو دن سے مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جب میں مراقبہ کرنے لگتا ہوں تو تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔ لطائف والی جگہ درد سا محسوس ہوتا ہے۔ پہلے ایسا تب ہوتا تھا جب ہزاروں کی تعداد میں ذکر کرتا لیکن اب جیسے ہی معانی کی طرف غور کرنے لگتا ہوں تو میرے لطائف میں درد ہونے لگتا ہے۔

جواب:

ہاں صحیح ہے۔ اصل میں معانی کے اندر غور کرنے میں اگر تقسیم ہو تو تکلیف ہوتی ہے، تقسیم سے مراد یہ ہے کہ معنی اور لفظ ایک ہو جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، کیونکہ فلسفے کا قول ہے کہ ایک وقت میں خیال دو طرف نہیں جا سکتا، ایک وقت میں دو چیزوں پہ ارتکاز نہیں ہو سکتا۔

سوال نمبر 31:

اگر کسی دوسری چیز کی طرف میری توجہ جاتی ہے تب درد بھی نہیں ہوتا۔ کل میں نے محسوس کیا ہے کہ میری توجہ میں دائیں بائیں ذہول ہو رہا تھا۔

جواب:

جو ذہول ہو رہا ہے وہ تو آپ کی چیز کو کم کر رہا ہے، وہ کمی کی صورت میں جا رہی ہے، یعنی ذہول اثر کو کم کر رہا ہے۔

سوال نمبر 32:

ایک بیان میں آپ نے فرمایا تھا کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ کافر کو ذکر نہیں سکھانا چاہئے۔ اس سے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ آج کل غیر ماہر شیوخ اور پیر عام فاسق فاجر لوگوں کو ذکر دیتے ہیں، جو نقصان کافروں کو ہوتا تھا وہ آج کل ان لوگوں کو بھی ہو رہا ہے، یہ محروم ہو جاتے ہیں، اسی ذکر کے اوپر سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ حاصل ہو گیا ہے۔

جواب:

یہ در اصل وہی جذب و سلوک والی بات ہے۔ جس کو جذب شروع کرا دیا اور وہ جذب پر مطمئن ہو گیا سلوک تک نہیں پہنچا تو اس کو یہ نقصان ہوتا ہے کہ وہ عمل سے رہ جاتا ہے۔ آج کل آپ کثیر تعداد میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بارے میں ہم نے اپنی کتاب ”نقشبندی سلسلہ کی تجدید“ میں لکھا ہے، آپ اسے نوٹ کر لیں:

”اس وقت چونکہ سلوک کا تعارف نہیں ہوتا اور جذب شروع ہو جاتا ہے تو اسی میں لوگ گم ہو جاتے ہیں اور سلوک تک نہیں پہنچتے۔ اس لئے ہمارا طریقہ ہے کہ کچھ سلوک کی ابتدا جذب سے پہلے کرا دیتے ہیں تاکہ سلوک کا تعارف ہو جائے اور سالک کو معلوم ہو کہ اس نے کیا کام کرنا ہے۔ تھوڑے سے سلوک کے بعد ہم جذب کے طریقوں پہ لگاتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ ہم اس تجربے کی وجہ سے کہہ رہے ہیں جیسا آپ نے فرمایا کہ اگر فساق و فجار کو ذکر سکھائیں اور انہیں ذکر میں مزہ آنے لگ جائے تو وہ اسی مزے کے عاشق ہو جائیں گے اور اصل چیز یعنی علاجی ذکر کا فائدہ ان کو نہیں پہنچے گا۔ اس وجہ سے ہم شروع سے ہی سلوک پر بھی لگاتے ہیں، خط و کتابت کرنا اور معمولات سے مسلسل آگاہ کرتے رہنے سے مرید کے احوال سے آگاہی ہوتی رہتی ہے اور ان کے احوال کے مناسب ان کی رہنمائی ہوتی رہتی ہے۔ جن لوگوں کے ہاں ابتداءً سلوک پر چلانے کی ترتیب نہیں ہے، ان کے ہاں یہی مسائل پیش آتے ہیں کہ مرید مراقبوں میں گم ہوئے رہتے ہیں۔

میرے پاس کئی ایسے لوگ آئے جن کے ساتھ یہی مسائل تھے کہ وہ سارے مراقبے کر چکے تھے اور مراقبوں کی دنیا کے بادشاہ بن چکے تھے مگر عمل میں بہت کمی تھی، اللہ نے ان کو ہدایت نصیب فرمائی۔ میرے پاس ان کے واٹس ایپ موجود ہیں اگر میں آپ کو سنا دوں تو آپ حیران ہو جائیں گے۔ جب ہمارے پاس آ کر انہیں حقیقتِ حال کا پتا چلا تو انہوں نے کہا ہم کیا سوچ رہے تھے، اپنے آپ کو کیا سمجھ رہے تھے اور اصل میں کیا نکلا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ آپ کے سامنے ہی ایک ہی شخص پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا کہ میں نے اپنی پوری زندگی ضائع کر دی، وہ انہی مسائل میں پھنسا ہوا تھا۔ اللہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ