اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میں اپنی اَمّی کے حوالہ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے ان کو آٹھ ہزار بار زبانی ”اَللہ اَللہ“ کا ذکر تلقین فرمایا تھا جس کی ایک مہینہ بعد اطلاع دینی تھی۔ آج 17 نومبر کو ایک مہینہ پورا ہو چکا ہے۔
جواب:
اب ان کو ساڑھے آٹھ ہزار ذکر بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اپنے بچوں کے مراقبہ کی رپورٹ دینی ہے، ان کے مراقبہ کو ایک مہینہ ہو گیا ہے، ترتیب یہ ہے:
نمبر1 کا مراقبۂ معیت ہے، پھر پانچوں لطائف پر پانچ منٹ یہ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ”اَللہ اَللہ“ کر رہا ہے۔ اس کے بعد پندرہ منٹ مراقبۂ معیت ہے، مراقبہ کے دوران اللہ تعالیٰ کی معیت کا ادراک ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی ہے۔ کوئی ناغہ نہیں ہوا۔ کیفیات یہ ہیں کہ الحمد للہ پانچوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ غلطی سے مراقبۂ معیت کی بجائے مراقبۂ شانِ جامع کیا ہے، ان کو مراقبۂ معیت سمجھا دیں تاکہ وہ یہ کریں۔
نمبر2 کا مراقبۂ صفاتِ شیوناتِ ذاتیہ ہے، پہلے پانچوں لطائف پر پانچ پانچ منٹ تصور کرنا ہے کہ میرے لطیفہ کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور میرا لطیفہ ”اَللہ اَللہ“ کر رہا ہے، اس کے بعد پندرہ منٹ صفاتِ شیوناتِ ذاتیہ کا مراقبہ کرنا ہے۔ ناغہ نہیں ہوا۔ کیفیات کچھ زیادہ محسوس نہیں ہوئیں لیکن شکر کا مادہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔
نمبر 3 کا وظیفہ یہ ہے کہ درود پاک 200 مرتبہ، پہلا کلمہ 200 مرتبہ، استغفار 200 مرتبہ اور تیسرا کلمہ 200 مرتبہ۔ ”اَللہ“ 100 مرتبہ، ”حَقْ“ 100 مرتبہ۔ الحمد للہ ناغہ نہیں ہوا، پہلے اس کا ناغہ ہوا تھا، اس مرتبہ اس کو یاد رہتا ہے، وظیفہ مکمل کرنے پر میں یاد کروا دیتی تھی۔
جواب:
نمبر 2: یہ مراقبہ صفاتِ شیوناتِ ذاتیہ نہیں ہے بلکہ مراقبۂ شیوناتِ ذاتیہ ہے۔ شُیُونات شان کی جمع ہے اور اس سے صفات پیدا ہوتی ہیں۔ آپ ان کو بتائیں کہ شیوناتِ ذاتیہ کا مراقبہ کرنا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ کرنی ہے کہ اللہ پاک کی شان ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے اور اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آ رہا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے ان کے لطیفۂ سِرّ کی طرف آ رہا ہے۔
نمبر 3: اس دفعہ ان کو کہیں کہ ”اَللہ اَللہ“ 300 دفعہ اور ”حَقْ“ 100 دفعہ کریں، باقی چیزیں وہی رہیں گی۔
سوال نمبر3:
ربیع الاول کے مہینہ میں ہمارا اجتماعی درود پاک نو لاکھ تھا۔ اب آپ سے درخواست ہے کہ آگے رہنمائی کریں۔
جواب:
درود پاک جاری رکھیں، جتنا پڑھا جائے بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر4:
نمبر1:
پچھلے ہفتہ ایک دن میں دفتر گاڑی میں گیا تھا، واپسی پر راستے بند تھے، پہلے میں گولڑہ موڑ والے راستہ سے جا رہا تھا، آگے راستہ بند تھا تو میں شمس کالونی کی طرف مڑ گیا۔ وہاں عصر کی نماز پڑھ کر چلا تو اس طرف راستہ بند تھا، میں دوبارہ مسجد میں گیا، وہاں مغرب کی نماز بھی پڑھ لی، پھر عشاء تک اپنے معمولات پورے کئے، عشاء پڑھ کر پھر شمس کالونی سے نصیر آباد والے راستے سے رات نو بجے گھر پہنچا۔ یہ غیر اختیاری مجاہدہ تھا اس پر مجھے کافی اجر ملتا اگر میں اس مجاہدہ کو ظاہر نہ کرتا مگر میں نے گھر اور دفتر میں کچھ لوگوں کو یہ بات بتا دی کہ مغرب سے عشاء تک مسجد میں رہا۔ اس سے میرے اندر ریا کا مرض ظاہر ہو رہا ہے۔
جواب:
اس سے آپ کو تجربہ ہو گیا، لہٰذا آئندہ ایسا مت کیا کریں۔
نمبر2:
کل دفتر کی مسجد میں ظہر کی سنتیں پڑھ رہا تھا کہ نماز میں وضو ٹوٹنے کا اندیشہ ہوا، میں پہلی صف میں تھا، نماز میں ہی ارادہ کیا کہ سنتیں پوری کرنے کے بعد بیت الخلاء جا کر دیکھ لوں گا لیکن جب سنتیں پوری کیں تو جماعت کھڑی ہونے میں ایک منٹ باقی تھا، اس وقت لوگوں سے شرم کی وجہ سے وضو ٹوٹنے کی تصدیق کے لئے نہ نکلا، فرض پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ میرے اندر اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں مخلوق کی وقعت زیادہ ہونے کا مرض ہے۔
جواب:
اس میں کچھ گنجائش نظر آتی ہے، کیونکہ ایسے مواقع پر اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب آپ دیکھتے ہیں تو وضو نہیں ٹوٹا ہوتا، لہٰذا آپ ایسے مسائل میں گمانِ غالب پر عمل کر سکتے ہیں، اگر گمانِ غالب یہ ہو کہ یہ ویسے ہی وہم ہے، وضو نہیں ٹوٹا تو پھر اس خیال کی پروا نہ کریں، شک نہیں کرنا چاہیے، البتہ بعد میں دیکھ لیا کریں اگر واقعتا وضو ٹوٹا ہو تو نماز دہرا لیا کریں۔
سوال نمبر5: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ یا مولانا یا حضرت۔
Hope everything is good for you ان شاء اللہ! May Allah preserve you! I am فلاں from France and my friend is from France too. الحمد للہ I have finished the first 300 times zikar
سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ
and 200 times
وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
I wanted to know what to recite ان شاء اللہ? Thanks a lot in advance for your responses یا مولانا . May Allah bless you and highly reward you!
جواب:
My dear brother now you should do 100 times third kalma سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ and 100 times darood وَ صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ and 100 times استغفار اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَيْهِ. You should keep the same اوراد after صلوۃ. And besides this, you should do now لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ this way, you should recite it and it is 100 times each day and 100 times لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ and 100 times حَقْ، and 100 times اَللہ اَللہ اَللہ and this will be for one month only. It means the last وظیفہ which is لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ hundred times لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ hundred times, حق hundred times and اللہ hundred times, this will be ان شاء اللہ for one month and the rest will be forever ان شاء اللہ.
سوال نمبر6:
ایک ملفوظ ہے؟
”مرشد کامل باطنی طریق پر حضور ﷺ کی مجلس میں پہنچا سکتا ہے، اس حقیقت کو احمق اور مردہ دل کیا جانے، خواہ وہ تمام عمر مطالعہ ہی کیوں نہ کرتا رہے“۔
کیا یہ بات درست ہے، اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
السلام علیکم! آپ بہت زیادہ گہرائی میں کیوں جاتے ہیں۔ انسان کو اپنی موجودہ پوزیشن کے مطابق ہی جاننا چاہیے، اسی سے فائدہ ہوتا ہے۔ اگر آپ بعد کی باتیں، جو معارف کی باتیں ہیں اور اخیر میں آتی ہیں، ان کو ابھی سمجھنا چاہیں گے تو شاید آپ کی سمجھ میں نہ آئیں، آپ خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کریں گے اور وہ چیز بھی رہ جائے گی جو آپ موجودہ وقت میں حاصل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا آپ ان چیزوں میں نہ پڑیں۔ آپ نے جو سوال کیا ہے یہ کوئی مشکل سوال نہیں ہے، ایسا نہیں کہ میں آپ کو جواب نہیں دے سکتا، صرف یہ بات ہے کہ آپ کے لئے ابھی ان چیزوں میں پڑنا مناسب نہیں ہے۔
اس کو سمجھنا چاہیے کہ آپ ﷺ کی مجلس میں پہنچانے کا مطلب کیا ہے؟ اگر کسی کو اتباعِ سنت نصیب ہو جائے تو اس کو اور کیا چاہیے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
ترجمہ: ”(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: 21)
ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے“۔
اب آپ ہی بتائیں کہ قرآن پاک میں ایک چیز کے بارے میں بتایا گیا ہو، حدیث شریف میں بتایا گیا ہو، پھر آپ اس کے دوسرے طریقے ڈھونڈیں اور اس کے بارے میں سوال کریں تو اس کا کیا تک ہے۔ جو چیز ابھی آپ کے لیے ضروری نہیں ہے آپ اس کے اوپر کیوں زور دے رہے ہیں، خواہ مخواہ اس چیز کو سمجھنے کی آپ کو کیا ضرورت ہے؟ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہیں اس کے لئے ابھی بھی کر سکتے ہیں، اللہ پاک کے لیے کوئی مشکل نہیں ہے، لیکن ہر ایک کے لئے ایسا نہیں ہوتا، بہرحال جس کے لئے ہوتا ہے اس کو دے دیا جاتا ہے اور جس کے لئے نہیں ہے اسے اس کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ یہ چیزیں محمود ہوتی ہیں مقصود نہیں ہوتیں۔ آپ ان چیزوں میں پڑ کر خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ یہ بات آپ یاد رکھیں کہ بہت زیادہ گہری باتوں میں پڑ کر انسان اصل چیز سے رہ جاتا ہے۔ آپ نے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے۔ بھلا ہم جیسے کمزور لوگوں کو ان بڑے بزرگوں کے احوال اور معارف کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اگر کوئی بزرگ بتا دے کہ میں عرش پر پہنچ گیا ہوں تو میں انکار تو نہیں کروں گا لیکن اس میں میرے فائدے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ روحانی معراج ہے اور روحانی معراج ممکن ہے لیکن ہر ایک کے لئے یہ چیز نہیں ہے، نہ ہی آپ سے اس کا مطالبہ ہے، آپ سے شریعت پر چلنے کا مطالبہ ہے۔ آپ شریعت پر چل لیں یہی سب سے بڑی بات ہے۔ آپ اس بات کو مد نظر رکھیں اور اپنے نفس کا علاج کر کے شریعت پر چلنے کے لئے تیاری کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سے ان چیزوں کے بارے میں نہیں پوچھے گا جن کے آپ درپے ہو رہے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے اس قسم کی بات پوچھی تو فرمایا کہ اللہ آپ سے یہ نہیں پوچھے گا اور اگر پوچھ لیا تو کہہ دینا کہ میں نے اشرف علی سے پوچھا تھا اس نے نہیں بتایا تھا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ آخری صدی کے مجدد ہیں لہٰذا وہ آج کل کے لوگوں کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے ان کے ملفوظات ایسے لوگوں کو سیدھا کر سکتے ہیں۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم۔ حضرت جی درج ذیل معمولات کرتے ہوئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اَللہُ“ 500 مرتبہ۔
دس منٹ مراقبۂ قلب، روح، سِر، خفی، اور اخفیٰ، پندرہ منٹ قلب پر مراقبۂ تجلیات افعالیہ۔ آئندہ کے لیے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اللہ تعالیٰ آپ کی ہمت اور بڑھا دے۔ مراقبہ تجلیات افعالیہ تو آپ نے کر لیا اب مراقبۂ صفاتِ ثبوتیہ کریں۔ صفاتِ ثبوتیہ وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں، مثلاً اللہ پاک دیکھ رہے ہیں، اللہ پاک سن رہے ہیں، اللہ پاک کلام فرماتے ہیں، اللہ پاک ارادہ فرماتے ہیں اور اللہ جل شانہ نے ہی یہ ساری چیزیں بنائی ہیں، اللہ پاک تکوین فرماتے ہیں۔ یہ آٹھ صفات ہیں جن کو خاص طور پر صفاتِ ثبوتیہ ثمانیہ کہتے ہیں، اب صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ یہ ہے کہ اس بات کا تصور کریں کہ ان صفات کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب پر آ رہا ہے اور آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کی طرف آ رہا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ روح پر آ رہا ہے۔ اس کو آپ پندرہ منٹ کے لئے کر لیا کیجئے۔ باقی چیزیں وہی ہوں گی۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم!
I am that one. I wanted to tell you that in my college everyone thinks every girl drinks, every boy drinks, every doctor drinks, every teacher and everyone. Why is it that I am the only one who says drinking is bad? Even the lecture I listened to online says drinking is not bad. There is none in my college who will understand me. Everyone talks to me like they would do anything for me but when I speak, they will always make me down. Whatever I speak is wrong for them. I don’t think someone damned stupid like me with a weak personality . My grandfather says I am suitable for being a doctor. Today a professor came who is a gynecologist. She said that girls can wear shirts because they want to feel beautiful and it is their right. Man can see them but from a distance. She said that people who think girls should be covered are narrow-minded. One day I know it will come when people who don’t drink alcohol will become narrow-minded.
جواب:
My daughter, you should not feel ashamed of these things. You are on the right path الحمد للہ and when on the day of judgment you will be awarded and they will be punished, what will the people be saying about them? Think about it. Don’t think about these things today, which is the day of practice. It means we are in examination hall and in examination hall, one can sleep but when a person sleeps what will happen to his results? So one can walk, one can dance, one can do anything but what will be the result of that? They will fail, so don’t be afraid of these people. Whatever they are saying, don’t take any interest in these things, just sticK to the right things, right principles, right work, this is your duty and don’t be afraid of such people. May Allah سبحانہ و تعالیٰ help you!
سوال نمبر9:
السلام علیکم! حضرت جی پچھلے ماہ مراقبہ با قاعدگی سے ہوتا رہا، اطلاع کرنے میں سستی ہوئی لیکن اس ماہ پندرہ دن سے مراقبہ چھوٹ گیا ہے۔ اللہ پاک کی محبت دل میں محسوس ہوتی ہے لیکن زیادہ تر دنیا کی چیزیں اللہ سے مانگتی ہوں۔ والسلام۔
جواب:
ایک بات سمجھ لیں کہ اختیاری چیز اختیاری ہوتی ہے اور غیر اختیاری چیز غیر اختیاری ہوتی ہے۔ اگر کوئی بیمار ہو جائے، کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے یا کوئی اور مسئلہ پیش آ جائے جس کی وجہ سے مراقبہ نہ ہو سکے تو اس کو ہم کچھ نہیں کہتے ہیں، کیونکہ یہ غیر اختیاری عوارض ہیں، لیکن اگر کوئی سستی کرے اور سستی کی وجہ سے اس کے معمولات رہ جائیں تو یہ وجہ غیر اختیاری نہیں ہے، یہ اختیاری ہے۔ سستی کا علاج چستی ہے لہذا چستی کرنی چاہیے، اپنے معمولات کو وقت پر پورا کرنا چاہیے۔
اگر ڈاکٹر نے دوائی دی، مریض نے استعمال نہیں کی اور ڈاکٹر کے پاس آ جائے کہ میں نے تو استعمال نہیں کی، معذرت کرتا ہوں معاف کیجئے گا، ڈاکٹر اسے ایک کروڑ مرتبہ بھی معاف کر دے تو کیا اس کا مداوا ہو جائے گا؟ اسے جو نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ہو جائے گی؟ ہر گز نہیں ہو سکتی۔ جو نقصان ہوا ہے وہ تو ہو ہی گیا ہے۔ اگر آپ اپنا علاج چاہتی ہیں تو مراقبہ میں سستی نہ کریں اور اس کو اپنا کام سمجھیں۔ زندگی بار بار نہیں ملا کرتی، اگر اس کے ذریعہ آپ کا علاج ہو جائے اور آپ صحیح راستہ پر چلنا شروع ہو جائیں تو اس کے بعد آپ کی باقی تمام زندگی کام کی زندگی ہو گی ورنہ اگر آپ اسی طرح رہیں تو وقت ضائع ہوتا رہے گا، اصل کام پیچھے رہتا جائے گا اور بعد میں افسوس کے علاوہ کچھ نہیں رہے گا۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی مزاج مبارک اور طبیعت مبارک بعافیت ہوں گے۔ اگر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب نمبر 260 پر آپ کا کوئی بیان یا تحریر ہو تو براہِ کرم ارسال فرما دیں۔
جواب:
ان شاء اللہ آپ کو بھیج دیں گے۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم۔ جب سے میری منگنی ہوئی ہے، شیطان اور خوف نے مجھے گھیرا ہوا ہے، عجیب عجیب خیالات ہیں، شیطان مجھے کہتا ہے کہ تیری شادی نہیں چلے گی۔ خوف زیادہ ہو جاتا ہے، شیطان کی بات دماغ سے جاتی ہی نہیں، خوف ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں شیطان کی باتیں اور خوف اللہ سے میری امید اور یقین پر غالب نہ آ جائے۔ میں بہت مشکل میں ہوں، ایک باپ ہونے کے ناطے میرے مستقبل کے لئے بہت دعا کیجئے گا۔ والسلام۔
جواب:
میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ لیکن آپ کا معاملہ ایسا ہے کہ ابھی کچھ ہوا نہیں ہے اور آپ کو پریشانی نے گھیر لیا ہے۔ ایسی عادت قنوطیت پسند لوگوں کی ہوتی ہے، مایوس لوگ ایسی باتیں سوچتے ہیں۔ بلاوجہ تو ایسا نہیں ہونا چاہیے، دنیا امید پر قائم ہے۔ اگر عملی طور پر کوئی مسئلہ ہو جائے تو اس کا عملی حل ہونا چاہیے، یہ نہیں کہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشانی میں ڈال لیا جائے۔ آپ ایک تو اللہ پاک سے امید رکھیں، دوسرا یہ کہ اللہ پاک سے دعا کرتی رہیں اور تیسرا یہ کہ اپنے رویے کو بہتر رکھیں تاکہ آپ ہر ایک کے ساتھ چل سکیں۔ بس اتنی سی بات ہے، اس سے زیادہ فکر کی بات نہیں ہے۔ بلاوجہ کی پریشانی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جیسے بے صبری سے مصیبت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے اسی طرح بلاوجہ کی پریشانی سے فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہوتا ہے۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم۔ حضرت جی میں کراچی سے مخاطب ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا بے شمار احسان ہے کہ اعمال و اذکار کی توفیق محسوس ہونے لگی ہے۔ آج کل ان اعمال کی نوارنیت اور قلب کی کیفیت میں خاص کمی محسوس ہو رہی ہے۔ آپ سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔ میری جہری تسبیحات درج ذیل ہیں:
”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ 200 مرتبہ، ”اِلَّا اللہُ“ 400 مرتبہ، ”اَللہُ اَللہ“ 600 مرتبہ اور ”اَللہُ“ 3000 مرتبہ۔
آئندہ کے لئے رہنمائی کریں۔ جزاک اللہ۔ اللہ آپ کو ہمارے لئے خاص فیض کا ذریعہ بنائے اور آپ کو اپنے مقربین میں شامل فرمائے۔
جواب:
کیفیات آنی جانی ہوتی ہیں، ان کی آپ زیادہ فکر نہ کریں، اصل چیز اعمال ہیں، فیصلہ اعمال پر ہوتا ہے احوال پر نہیں ہوتا۔ لہذا آپ اپنے اعمال کو بہتر کرنے کی کوشش کر لیں۔ اگر آپ کے اعمال بہتر ہو رہے ہیں تو اور کوئی فکر نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ سب سے پہلے عقیدے کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ عقیدہ کیسا ہے اور اس کے بعد اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس کے بعد اعمال میں جان ڈالنے کے لئے احوال و کیفیات کا نمبر آتا ہے۔ اس لئے آپ اعمال کے بارے میں زیادہ سوچیں۔ اور ذکر میں ”اَللہ“ کا ذکر ساڑھے تین ہزار مرتبہ کریں باقی ذکر کی تعداد وہی رہے گی۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم شیخ
I completed doing that Allah is with me. I don’t know how is He with me but it really is that He is very near to me. This برکت coming from Allah to our Prophet ﷺ and to my Sheikh and to my whole body in this month. I got some feelings as below.
Everything is happening with myself whether good or not good Allah knows better is a test from Allah for me only. So no need to feel happy or sad but just to think about Allah and be obedient to Allah for that.
Trying to make myself avoid unhalal things from watching and hearing and behaving.
Feeling that my soul has a connection with اللہ سبحانہ و تعالیٰ during the prayers and concentration while reciting during the prayers.
Feeling about myself and being too poor and weak اللہ اکبر. Sheikh, above are my feelings this month. Please guide me what should I do for the next جزاک اللہ خیرا?
جواب:
ماشاء اللہ you are doing well and you should continue this ان شاء اللہ . Allah will help you more.
سوال نمبر14:
السلام علیکم شیخ
I completed doing Allah is with me I don’t know how is He with me but it’s really with me. This feeling coming from Allah to رسول اللہ ﷺ and from him to my Sheikh and from him to my whole body last month according to your guidance. I need to think about what I ask from Allah
I feel more relaxed and listening from my heart and brain are more positive and fulfilling.
Get improvement on controlling نفس and emotions.
Start realizing that the words during meditation has slowly reached to my heart الحمد للہ
Sheikh, please guide me what should I do next? جزاک اللہ for that!
جواب:
ماشاء اللہ you should also continue this, it is helping you.
سوال نمبر15:
السلام علیکم شیخ
I did 15 minutes thinking of Allah’s صفات. This فیض coming from اللہ to رسول اللہ ﷺ from him to my Sheikh and from Sheikh to my second point and tried to control my نفس for the last one month.
My feelings:
I feel that my eman gives me right guidance for my life and ways of thinking. And it is strong in my heart. I don’t want to lose it but people around me, mainly at the workplace, are showing negative and wrong behaviors and thoughts. I keep myself not misguided and distracted by these wrong, haram and negative things. In the meantime, I feel upset and tough because I need to face these everyday. But on the other hand I regard this as a test and try to learn and grow from it. Kindly guide me for the next one! جزاک اللہ خیرا daughter of فلاں.
جواب:
ماشاء اللہ you are performing good and you should stick to your own principles and do what is good and what the other people are doing is bad. So, at this time you should not think about them. You are to protect yourself from them. This is in fact this time and the other thing you should do is now you should turn to شیونات because those were صفات. Now you should come to شیونات، شیونات means Allah has شان, from Allah’s شان all the صفات are originating. So, you should now start شیونات ذاتیہ and see that فیض of شیونات ذاتیہ is coming from اللہ to رسول اللہ ﷺ and from رسول اللہ ﷺ to Sheikh and from Sheikh to your third point. So, this you should do for one month and the rest would be the same ان شاء اللہ.
سوال نمبر16: السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
نام: فلاں، تعلیم: MBA، شہر: فیصل آباد۔
تسبیحات: کلمہ سوم 100 مرتبہ، درود ابراہیمی 100 مرتبہ، استغفار 100 مرتبہ۔
لسانی ذکر: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ اور ”اَللہُ“ 500 مرتبہ۔
قلبی ذکر: لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سِر، لطیفۂ خفی، لطیفۂ اخفیٰ پر دس منٹ مراقبہ۔ مراقبۂ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ۔
مراقبہ کے دوران کبھی کبھی نیند کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اکثر محسوس ہوتا ہے کہ جسم ایک خول کی طرح ہے اور اس میں صرف اللہ ہے، کوئی خیال تصور نہیں آتا جیسے جسم کے خول کے اندر کچھ بھی نہ ہو۔ کبھی کبھی پندرہ منٹ بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کبھی تو مراقبہ بہت اچھا ہوتا ہے اور کبھی تصور ہی قائم نہیں ہوتا۔ شاید اپنی حالت صحیح طرح بیان نہیں کر پا رہی ہوں۔ کبھی تو بہت اچھی حالت ہوتی ہے، کبھی کچھ بھی نہیں۔ خواب میں خانہ کعبہ کی زیارت ہوئی، لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور میں اپنے لئے جگہ بناتی ہوں تاکہ نماز میں شامل ہو جاؤں مگر تب تک لوگ نماز پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ مراقبۂ صفات ثبوتیہ کی جگہ مراقبۂ شیونات ذاتیہ کریں۔ اللہ کی شان ہر وقت بدلتی رہتی ہے، اس سے صفات وجود میں آتی ہیں۔ اب آپ نے شیوناتِ ذاتیہ کی طرف متوجہ ہونا ہے کہ ان کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے آپ کے تیسرے لطیفہ، لطیفۂ سِر پہ آ رہا ہے۔ باقی چیزیں جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گی۔
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
احوال: الحمد للہ معمولات معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔
ذکر: حضرت جی ایک مہینہ کے لئے 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ 400 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 600 مرتبہ ”حَقْ“ اور 12000 مرتبہ ”اَللہُ“ اللہ کے فضل سے اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے مکمل ہو گیا ہے۔ کیفیت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہو رہی۔ نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کا مجاہدہ ابھی جاری ہے۔ میرے لئے آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار۔ یہ تسبیحات آپ پڑھ رہے ہیں یا نہیں پڑھ رہے؟ اگر نہیں پڑھ رہے تو اس کو پڑھنا شروع کر لیں اور ”اَللہُ“ کا ذکر 12000 کی جگہ 12500 مرتبہ کر لیں۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی اعمال کی جو توفیق مل جائے کر لیتا ہوں مگر منزل، مناجاتِ مقبول، ذکر اور مراقبہ میں استقامت نہیں ہے۔
جواب:
جس چیز کی کمی ہو اسے پورا کرنا چاہیے۔ اگر آپ ان چیزوں میں کمی پاتے ہیں تو اس کمی کو پورا کر لیں پھر مجھے اطلاع کر دیں۔
سوال نمبر19:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی مزاج اقدس بخیر ہوں گے۔ بندے کو دیئے گئے ذکر کو ایک مہینہ بلا ناغہ پورا ہو گیا ہے۔ ذکر یہ تھا: 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ 400 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 600 مرتبہ ”حَقْ“ 500 مرتبہ ”اَللہُ“ اور پندرہ منٹ مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ۔
جواب:
اب آپ اس طرح کریں کہ پہلے تو مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ کا جو اثر آپ محسوس کر رہے ہیں وہ مجھے بتا دیں، اگر کوئی اثر نہیں ہے تو بھی بتا دیں۔ شاید آپ تجلیات افعالیہ کا مراقبہ سمجھ نہیں رہے۔ تجلیاتِ افعالیہ کا مراقبہ اصل میں اس چیز کا تصور ہے کہ اللہ پاک سب کچھ کرتا ہے، اللہ پاک ہی کے حکم سے سب کچھ ہو رہا ہے، اللہ کے ارادے سے ہی سب کچھ ہو رہا ہے، اگر اللہ کا ارادہ شامل حال نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ تصور کرنا ہے کہ اس مراقبہ کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آ رہا ہے، آپ ﷺ کی طرف سے آپ کے شیخ کی طرف آ رہا ہے اور آپ کے شیخ کی طرف سے آپ کے دل پر آ رہا ہے۔
سوال نمبر20:
السلام علیکم
My dear and respected murshid, I hope you are well ان شاء اللہ! Yesterday, due to ill health, I was not able to complete my my Quran Telawat. I completed my علاجی ذکر and مراقبہ while lying down last night. I am making them without wuzu right now due to feeling very cold within myself and severe body itches and shewring. Request for dua.
جواب:
May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant you perfect health as early May اللہ سبحانہ و تعالیٰ do you توفیق of performing amal in good health
سوال نمبر21:
السلام علیکم حضرت جی میں سٹوڈنٹ ہوں۔ آپ نے مجھے چوتھا ذکر 30 دن کے لئے دیا تھا، وہ آپ کو بروقت میسج نہ کرنے کی وجہ سے تقریباً چالیس دن تک کر لیا ہے۔ تیسرا کلمہ 200 مرتبہ، درود شریف 200 مرتبہ، استغفار 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 300 مرتبہ، ”حَقْ“ 300 مرتبہ ”اَللہ اَللہ“ 100 مرتبہ۔ آپ سے گزارش ہے کہ آئندہ کے لیے ذکر بتا دیں۔
جواب:
اب آپ اس طرح کر لیں کہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ اور ”حَقْ“ 400، 400 مرتبہ کریں باقی سب پہلے کی طرح رہے گا۔
سوال نمبر22:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
نمبر1:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سِر 15 منٹ۔
نمبر2:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔
ان دونوں بچیوں کو لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے لیکن تقریباً ڈیڑھ سال سے کسی حادثہ کی وجہ سے ان سے ذکر رہ گیا تھا۔ پچھلی جمعرات کو یہ بچیاں آئی تھیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ اپنی اصلاح کو دوبارہ جاری کرنا چاہتی ہیں۔
جواب:
پہلے بتا دیں کہ ان کو ذکر محسوس ہو رہا ہے یا نہیں۔
نمبر3:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ دونوں پہ محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
ان کو لطیفۂ قلب، اور لطیفۂ روح کا دس دس منٹ اور لطیفۂ سِر کا ہے 15 منٹ ذکر بتا دیں۔
نمبر4:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سِر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 15 منٹ۔ تمام لطائف پہ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان کو چاروں لطائف پر 10، 10 منٹ اور پانچویں لطیفہ پر 15 منٹ کا ذکر بتا دیں۔
نمبر5:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ان کو لطیفۂ قلب 15 منٹ کا بتا دیں۔
سوال نمبر23:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی آپ نے تین ماہ پہلے مجھے دوسری مرتبہ ”دل ”اَللہ اَللہ“ کر رہا ہے“ سننے کا مراقبہ دیا تھا، جو میں اس وقت تو مکمل نہیں کر سکی لیکن اب میں نے ایک مہینہ لگا کر اس کو مکمل کر لیا ہے، مجھے بہت کم آواز کو سننا محسوس ہوا مگر جب میں سانس لیتی ہوں تو جو آواز محسوس ہو رہی ہوتی ہے وہ غائب ہو جاتی ہے۔ حضرت جی میرے لئے خصوصی دعا کریں کہ اللہ کریم اپنی رحمت سے نیک صالح اولاد سے نوازے۔ دل کا ایک مراقبہ پہلے مکمل کر چکی ہوں، یہ دوسری دفعہ دس منٹ کا ہے۔
جواب:
اس دفعہ 15 منٹ کے لئے یہ مراقبہ کریں۔ روزانہ سو سو دفعہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار عمر بھر جاری رہے گا اور نماز کے بعد والا ذکر بھی عمر بھر جاری رہے گا۔
سوال نمبر24:
منزل پڑھتے ہوئے، منزل پڑھنے کے دوران اور منزل پڑھنے کے بعد میں معانی کے استحضار کے ساتھ یہ مراقبہ کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے شیخ کی طرف اور میرے شیخ سے میری طرف فیض آ رہا ہے۔
جن لوگوں کے پاس میں پہلے جاتا رہا ہوں، وہ روشنیوں کا سلسلہ تھا، میں نے دیکھا کہ وہاں سے روشنی آ رہی تھی، لیکن جب سے یہ مراقبہ کر رہا ہوں تب سے یہ کیفیت ہے کہ کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی، بہرحال وہ روشنی نہیں ہے لیکن دکھائی نہیں دیتی، میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ روشنی سی آ رہی ہے اور جس وقت وہ میرے جسم کے اندر آتی ہے تو وہ روشنی اچانک ختم ہو جاتی ہے، ان کی طرف جاتی ہے اور وہ تڑپ رہے ہیں۔ آج سے چند سال پہلے مراقبہ والی کیفیت ہوتی تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ کوئی منفی چیز ہے، کیونکہ میں روشنیوں کے پیچھے جا رہا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے پچھلا ہفتہ بہت مشکل گزارا ہے۔ میری طبیعت بہت زیادہ خراب رہی ہے۔ زیادہ اوقات میں میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ میں مراقبہ کرتا رہوں۔ کچھ الفاظ کے بارے میں قرآن مجید کی کچھ آیات پر غور کرتا رہا کہ یہ الفاظ یا مضامین قرآن پاک میں کہاں کہاں پہ آئے ہیں، ان کے سیاق و سباق میں کون کون سے کلمات ہیں اور کیا مضمون چل رہا ہے۔ اس طریقہ سے بہت سے معاملات واضح ہوئے۔ لیکن میری طبیعت کافی خراب رہی اور دو تین دن سے تو ایسی کیفیت ہو رہی ہے جیسے ایک آدمی کو زور دار طریقے سے گھمایا جائے وہ گھومتا رہے، گھومتا رہے، پھر گھومنے کے بعد اچانک سے بیٹھ جائے تو جس طرح اسے چکر آتے ہیں، مجھے دو تین سے مستقل اسی طرح چکر آ رہے ہیں۔ ہمارے صدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا تھا، اس لیے کچھ افسوس بھی زیادہ تھا۔ میں نے ان سے آپ کے پاس آنے کی بات ذکر کی تھی اور روشنی وغیرہ والا معاملہ بھی بتایا تھا، اس کے بارے میں انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہم نے مشائخ سے سنی ہو۔
کل رات میں تقریباً چار بجے اٹھا، تہجد کی نماز تو نہیں پڑھ سکا البتہ فجر کی نماز پڑھی ہے۔ اس وقت سے میرے دل کے اوپر جیسے کوئی وسوسہ سا آ گیا ہے، غم زدہ ہونا اور قبض کی کیفیت شدت پکڑتی گئی یہاں تک کہ میرے دفتر کے ساتھیوں نے کہا کہ بھائی تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ انہیں پتا ہے کہ میری کیا صورتحال چل رہی ہے، وہ دائیں بائیں دیکھ کے اندازہ لگا لیتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ میں نے ایک عرصہ گزارا ہے۔ آج انتہائی انقباض والی کیفیت ہے۔
جواب:
آپ سے ایک بات عرض کرتا ہوں۔ اگر پہلے یہ بات بتاتا تو شاید آپ کو سمجھ نہ آتی اور شاید میں بتا بھی نہ سکتا، لیکن اب بتا سکتا ہوں کیونکہ اب ہم ایک دوسرے کو تھوڑا سا جان گئے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ آپ اپنے آپ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں، آپ نے مراقبات کا جو سلسلہ اپنی طرف سے شروع کیا ہے، یہ آپ اپنے اوپر اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈال رہے ہیں، آپ صرف وہی کریں جو آپ کو بتایا جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ اگر کچھ کرنا ہی چاہتے ہیں تو جب بھی آپ کے پاس فرصت ہو تو صبح سے لے کے دوپہر تک ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ“ اور دوپہر سے مغرب تک جو وقت ملے اس میں درود شریف اور مغرب سے رات سونے تک جو وقت ملے اس میں استغفار کر لیا کریں۔ یہ ہمارا عمومی ذکر ہوتا ہے جس پہ سب چلتے ہیں۔ یہ ہمارے پاس ایک ایسی چیز ہے جو ہم سب کو بتاتے ہیں۔
تصوف میں تمام مراحل تدریجی طور پہ طے ہوتے ہیں، اس کی بنیاد تدریج ہے، اس میں سب کچھ ایک دم سے نہیں ہوتا۔ ابھی میں نے ایک صاحب کو ڈانٹا ہے کہ بھائی جو چیز بعد کی ہے اس کو بعد پہ رکھو، جو چیز پہلے ہے اس کو پہلے رکھو، خواہ مخواہ اُڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ کچھ لوگ اپنے آپ پر زیادہ بوجھ ڈال لیتے ہیں، ان میں جس چیز کی طاقت ابھی ہے ہی نہیں، اس کے درپے ہو جاتے ہیں۔
آپ نے جن کیفیات و احساسات کا تجربہ کیا، وہ اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور آپ کی ذاتی کیفیات ہیں، لیکن ان کی وجہ سے نہ آپ میں کچھ آیا نہ گیا، سوائے اعصاب پر بوجھ اور وساوس کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔
اس وقت جس نئی لائن میں آپ آئے ہیں یعنی تصوف کی لائن، اس کا انداز بالکل نرالا ہے۔ روشنی وغیرہ کے معاملے میں جو آپ کے حضرت صدر صاحب نے بتایا، وہی بات درست ہے۔
آپ یہ کریں کہ صرف اپنے کام سے کام رکھیں، جتنا آپ کو بتایا جائے اتنا کریں، اپنے آپ کو اپنے معاشی مشاغل میں مصروف رکھیں، شریعت کے مطابق معاملات کو درست کرنے کی کوشش کریں اور یہی ارادہ اور نیت قائم رکھیں کیونکہ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے، اس کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا۔
آج میرے پاس ایک عالم تشریف لائے تھے، ان کو میں نے اپنی ایک غزل سنائی تھی، جس میں اپنے شیخ کی تعلیمات کو بیان کیا گیا ہے۔ غزل سن کر انہوں نے کہا کہ الحمد للہ یہ تو پورے تصوف کا خلاصہ ہے۔
ہم لوگوں کو straightforward (دو ٹوک) رہنا چاہیے، اپنے آپ پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے اور وقت سے پہلے ان معاملات کے درپے نہیں ہونا چاہیے، جس کام کا جو وقت ہے، اسے اسی وقت پہ کرنا چاہیے۔ یقین جانیے اگر کوئی F.Sc کا سٹوڈنٹ M.Sc کے سوالات حل کرنا شروع کر دے تو اس کی حالت خراب ہو جائے گی کیونکہ ابھی وہ اس مرحلہ تک پہنچا ہی نہیں ہے۔ جو چیز جس وقت آنی ہے اس وقت تک انسان تدریج سے پہنچ ہی جاتا ہے۔ میٹرک میں ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ایٹم نا قابل تقسیم ہوتا ہے، اب بعد میں وہ اجزا تقسیم ہو گئے بلکہ تقسیم در تقسیم ہو گئے، اگر پہلے ہی یہ سب تفصیلات بتاتے تو سمجھ نہ آتا۔ حالانکہ تحقیق تو ہو چکی ہے، ساری چیزیں معلوم ہو چکی ہیں، لیکن یہ سمجھانے کا ایک انداز ہوتا ہے۔
ہمارے ایک استاذ نجم صاحب ہمیں نیو کلیر فزکس پڑھاتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے ایک ماڈل سمجھانے کی کوشش کی تو طلبا کو کچھ سمجھ نہیں آیا، انہوں نے کہا: ابھی یوں ہی مان لیجئے، بعد میں سمجھ آ جائے گا۔ آپ سے بھی یہی عرض کرتا ہوں کہ ابھی اپنی مکمل توجہ اس کام پہ رکھیں جس کی ضرورت ہے اور جو آپ کو بتایا گیا ہے، اس کے علاوہ باقی چیزوں کی طرف دھیان مت دیں۔ جیسے میں نے آپ کو بتایا کہ جب آپ کے پاس وقت ہو، کلمہ طیبہ، درود شریف، استغفار پڑھ کر لیا کریں۔ اس کے علاوہ اضافی مطالعہ نہ کریں اور نہ ہی ان چیزوں کی طرف توجہ کریں۔ یوں بھی اب آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ بہت ساری چیزیں غیر ضروری ہیں جو ہمارے اوپر خواہ مخواہ بوجھ ڈالتی ہیں، لہٰذا آسانی کا معاملہ اختیار کریں۔
سوال نمبر25:
حضرت جی میں نے آپ کو اپنا مسئلہ بتایا تھا، اس حوالہ سے مزید پریشانی پیش آ رہی ہے۔ رات میں بستر پہ لیٹا ہوا تھا، اچانک آنکھ کھلی اور شیطان نے میرے دل میں وسوسہ ڈال دیا، یا شاید دوسری طرف سے کوئی تصرف ہو گیا ہے۔ اس کا اثر یہاں تک ہوا کہ جس وقت میں صبح بائیک پہ آفس جا رہا تھا، سارے راستہ میں میرا رد عمل بڑھتا جا رہا تھا، یہاں تک کہ میں تیز رفتاری سے بائیک نہیں چلاتا لیکن اس دن قابو نہ رہا۔
جواب:
انسان جب تک مطمئن رہتا ہے اس وقت تک اس کے تمام کام آسانی سے ہو رہے ہوتے ہیں، اگر کوئی وسوسہ آئے بھی تو انسان اس کا سامنا کر لیتا ہے، اسے جھٹکنے میں کامیاب رہتا ہے لیکن جب انسان اپنے آپ کو غیر ضروری طور پر تھکا دیتا ہے تو اس کے لئے ایک کمزور سا وسوسہ بھی کافی ہوتا ہے، ایک ہلکا سا وسوسہ آتا ہے اور آدمی کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ اس لئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ اپنے اوپر غیر ضروری بوجھ نہ ڈالیں۔ یقین جانیے ہمیں آپ سے زیادہ وسوسے آتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم ان کی پروا ہی نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وسوسہ کے ساتھ کچھ کیا ہی نہیں جا سکتا لہٰذا ہم اسے نظر انداز کر کے بھلا دیتے ہیں۔
ابتدا میں میری اپنی حالت یہ تھی کہ جب میں نماز پڑھتا تھا تو بہت زیادہ تھک جاتا تھا، میں حضرت کو اپنی یہ حالت بتاتا تو حضرت ہلکے پھلکے انداز میں سمجھا دیتے۔ ایک دن میں نے کہا کہ حضرت اب تو بس میں نماز ہی پڑھوں گا کسی اور چیز کی طرف دھیان ہی نہیں دوں گا۔ یہ سن کر فرمایا کہ بس اب بات بن گئی۔
اگر میں کسی اور کے پاس چلا جاتا تو وہ شاید کسی اور انداز میں بات کو لیتے لیکن حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان معاملات میں بہت تجربہ کار شخصیت تھے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے صاف صاف فرمایا ہے، میں نے خود مواعظ میں پڑھا ہے، فرماتے ہیں کہ جو انسان جتنا زیادہ ذہین ہو گا، اس کا ذہن اتنا ہی زیادہ متحرک ہو گا، وہ کسی ایک چیز پر ٹک نہیں سکے گا۔ اس لئے زیادہ تر ذہین لوگ کسی ایک چیز پہ توجہ مرکوز نہیں کر سکتے، وہ ایک چیز کو کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ چار پانچ اور چیزیں ان کے دماغ میں چل رہی ہوتی ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ ان چیزوں کی پروا نہیں کرنی چاہیے، بس اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے، جو چیزیں خود بخود ہو رہی ہیں انہیں چھوڑ دیں۔
سوال نمبر26:
حضرت جی آپ نے فرمایا کہ وساوس کی پروا نہیں کرنی چاہیے، بس اپنے اصل کام پہ توجہ رکھنی چاہیے اور وہی کرنا چاہیے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو mechanical (مشینی قسم کا) ہونا پڑتا ہے؟
جواب:
میرا مطلب یہ ہے کہ وساوس کے معاملے میں ”آ بیل مجھے مار“ والی بات نہیں کرنی چاہیے۔ وسوسہ ایک فضول قسم کی چیز ہے، جس کا آپ کے اوپر کوئی ذمہ نہیں ہے، لہٰذا آپ کو اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، جو چیز آپ نے نہیں بنائی، آپ کی طرف سے ہے بھی نہیں، بھلا آپ اس کے لیے کیوں پریشان ہوں، بس اسے بھول جائیں، اس کی پروا نہ کریں۔ آپ صرف اس کے چیز کے ذمہ دار ہیں جو آپ کی طرف سے ہو۔ یا تو آپ یہ ثابت کریں کہ وسوسہ آپ کی طرف سے ہے، پھر میں آپ کو جواب دوں گا، اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ وسوسہ آپ کی طرف سے نہیں ہے تو پھر یہ بات کافی ہے کہ آپ اس کی پروا نہ کریں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اصول بڑے واضح اور دو ٹوک ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اختیاری کو چھوڑو نہیں اور غیر اختیاری کے درپے مت ہو۔ یہ فارمولا بہت آسان ہے کہ مقصود کو چھوڑو نہیں اور محمود کے پیچھے نہ پڑو، صرف مقصود پہ خوش ہو جاؤ، اتنا کافی ہے۔ ہمیں تو الحمد للہ ان حضرات کا پس خوردہ ملا ہے ہم انہی کے خوشہ چین ہیں۔
سوال نمبر27:
زندگی گزارنے اور خاتمہ بالخیر سے متعلق سوال ہے۔ بہشتی زیور میں عقیدہ نمبر 48 میں لکھا ہوا ہے کہ انسان زندگی میں جتنا برا بھلا ہو لیکن فیصلہ خاتمہ پر ہو گا۔ اسی طرح مثنوی رومی میں یہ مضمون بتایا گیا ہے کہ زندگی چاہے جن حالات میں بھی گزاری ہو گی، اعتبار خاتمہ کا ہے جس حالت میں آپ کی موت آئے گی، آپ کا حشر بھی اسی طرح ہو گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی صالح طریقے سے گزاری جائے اور خاتمہ بالخیر کے لئے کوشش کی جائے تاکہ خاتمہ صحیح ہو جائے، اور ہر انسان کو فوری طور پر اس کوشش میں لگ جانا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو سو فیصد شریعت پہ لے آئے، حضرات مشائخ بتاتے ہیں کہ فوری طور پر اصلاحِ نفس کا کام شروع کر لینا چاہیے۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ انسان کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز اپنے نفس کی اصلاح ہے اور طاعت میں زندگی گزارنا ہے اور خاتمہ بالخیر کے لیے کوشش کرنا ہے، اس کے علاوہ باقی چیزیں غیر ضروری ہیں۔ مثلاً ایک عام بندے نے زندگی گزارنی ہے، وہ اپنے بیوی بچوں کی کفالت کے لیے چھوٹے چھوٹے کام مزدوریاں وغیرہ کرتا ہے، وہی کرتا رہے اور کوئی بڑے بڑے منصوبے نہ بنائے، بڑی بڑی چیزوں میں نہ پڑے۔ جس طرح وسوسے غیر اختیاری ہیں اس لئے ان کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، اسی طرح بہت بڑے بڑے کام جو اس کی بساط میں نہیں ہیں ان کے بارے میں وہ نہ کوشش کرے اور زیادہ نہ سوچے، اپنی روٹین میں مطمئن رہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:
کم از کم یہ بات ہم سب کو سمجھ آتی ہے کہ شیخ چلی تو کبھی نہیں بننا چاہیے۔ باقی یہ ہے کہ عملی طور پر انسان جائز حد تک اپنی ضروریات پوری کرنے کی بہتر منصوبہ بندی ضرور کرے، اس کے بارے میں مشورہ بھی کرے پھر اس کے مطابق چلتا رہے لیکن جو چیزیں ضروری نہیں ہیں یا ابھی ضروری نہیں ہوئیں ان کے بارے میں فکر نہ کرے۔
آپ کو ایک کام کی بات بتاتا ہوں۔ ایک حدیث قدسی ہے:
”اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ“ (صحیح بخاری: 7405)
ترجمہ: ”میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں“۔
یہ حدیث شریف ہمیں بہت زیادہ پریشانیوں سے بچا لیتی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے، لہٰذا اللہ کے ساتھ ہمیشہ اچھے گمان رکھو اور اپنے اوپر ہمیشہ بد گمانی رکھو، اور اپنے آپ کو بہتر کرتے رہو۔ خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالو، جو چیزیں اپنے ذمہ باقی ہیں ان کو پورا کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہو، مثلاً کسی پہ حج فرض ہے تو اس کو اس کے بارے میں سوچنا چاہیے، اس کے لیے تیاری کرنی چاہیے، پانچ وقت کی نماز کے بارے میں اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے، اس کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے۔ لہٰذا جو چیزیں ضروری ہیں ان کے بارے میں تو تیاری اور منصوبہ بندی کرنی چاہیے، جو چیزیں بعد میں آنے والی ہیں، فی الحال آپ کے اختیار میں نہیں ہیں، ان کے لئے اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں۔
ایک مرتبہ میں نے اپنے شیخ سے پوچھا کہ حضرت مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ میری موت کیسے آئے گی؟ فرمایا: ان شاء اللہ مسلمانوں جیسی آئے گی۔
بس یہی بات صحیح ہے۔ ہمارا تجربہ یہ تھا کہ حضرت کی زبان سے جو چیز نکلتی تھی، اللہ پاک اس طرح ہی کر لیتے تھے، لہٰذا الحمد للہ ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ بلاوجہ پریشانی میں نہیں پڑنا چاہیے اور سستی بھی نہیں کرنی چاہیے۔
سوال نمبر28:
مشورہ کب افضل ہے اور استخارہ کب افضل ہے، اور کیا یہ دونوں چیزیں دین اور دنیا دونوں طرح کے معاملات میں کی جا سکتی ہیں؟
جواب:
جی ہاں، دین اور دنیا دونوں طرح کے کاموں میں مشوہ اور استخارہ دونوں کیے جا سکتے ہیں۔ اجتماعی کاموں میں مشورہ افضل ہے جبکہ انفرادی کاموں میں استخارہ افضل ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ