سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 596

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ حضرت جی اللّٰہ آپ کو صحت و عافیت میں رکھے۔ علاجی ذکر کو ایک ماہ ہو گیا ہے۔ پانچ منٹ سب لطائف پر ذکر، مراقبہ تنزیہ و صفات سلبیہ 15 منٹ اور مراقبہ دعائیہ 10 منٹ کے لیے ملا ہوا تھا۔ حضرت جی ابھی معمولات توڑ توڑ کر کرتی ہوں، بعض اوقات وساوس بہت زیادہ ہو جاتے ہیں، ذکر میں دھیان نہیں رہ پاتا۔ آپ نے اوقات کو بہتر بنانے کی تلقین کی تھی، میں کوشش کرتی ہوں مگر پھر بھی مشکل میں رہتی ہوں، شاید اس لیے ذکر کو بھی خاص بہتر نہیں کر سکی اور خیالات بہت آنے لگے ہیں۔ مراقبہ دعائیہ اکثر رہ بھی جاتا ہے۔

جواب:

خیالات اور وساوس کا علاج یہ ہے کہ ان کی پروا نہ کی جائے، آپ ان کو کچھ بھی نہ سمجھیں۔ اگر آپ ان کے ساتھ لڑنا شروع کریں گی تو یہ نہیں جائیں گے بلکہ اور زیادہ ہو جائیں گے، لہذا آپ ان کی پروا نہ کریں۔ مراقبہ دعائیہ کیوں مشکل ہے؟ اس میں تو دعا ہی ہے اور دعا تو ہم سب کی ضرورت ہے، اس کے رہ جانے پہ میں حیران ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔

سوال نمبر2:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ شیخ محترم! میرا مراقبۂ معیت گزشتہ ماہ سے چل رہا ہے، میں نے اس مراقبہ میں اللّٰہ تعالیٰ کی معیت کو محسوس کیا تھا، اِس ماہ بھی اسی کیفیت کو حال میں محسوس کرتے ہوئے آپ نے دل ہی دل میں دعا مانگنے کا حکم دیا تھا، اور اس کے ساتھ پانچ پانچ منٹ لطائف کا ذکر بھی تھا جو مکمل ہو گیا ہے۔ اس دوران میں کسی پریشانی میں مبتلا ہوتی ہوں تو ہر وقت آیت کریمہ پڑھتی رہتی ہوں اور دعا میں اپنے رب سے دل ہی دل میں باتیں کرتی ہوں، جو حالات ہوتے ہیں اللّٰہ تعالی ان کے مطابق میرے سامنے کوئی آیت یا تحریر لے آتے ہیں جس سے مجھے تسلی ملتی ہے۔ اس دوران ایک آیت بار بار میرے سامنے آئی ہے کہ اللّٰہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ ہی مدد گار۔ میں ہر پل اللّٰہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ محسوس کرتی ہوں۔ شیخِ محترم! آگے رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ، یہ مناسب ترین حالت ہے۔ مشکلات اور تکالیف کی حالت میں اللّٰہ پاک کی معیت کو محسوس کرنا اور اس سے دعا مانگنا اقرب الی السنہ ہے، لہذا آپ اس کو فی الحال جاری رکھیں، اس میں آپ کو بہت فائدہ ہو گا۔ آپ فکر نہ کریں، پریشانی تو ہر کسی کو پیش آ سکتی ہے لیکن جو آپ آیت کریمہ پڑھ رہی ہیں یہ اس کے لیے مناسب تجویز ہے۔ آپ فی الحال اس کو جاری رکھیں اور ایک مہینے بعد پھر رپورٹ کریں۔

سوال نمبر3:

السلام علیکم! حضرت میرے ذکر کو 40 دن ہو گئے ہیں۔

جواب:

40 دن کے ذکر سے میں 300 اور 200 والا ذکر مراد لیتا ہوں۔ آپ نے اپنا تعارف نہیں کرایا۔ بہر حال اب آپ اس طرح کریں کہ روزانہ 100 دفعہ تیسرا کلمہ، 100 دفعہ درود شریف اور 100 دفعہ استغفار کیا کریں۔ یہ تو عمر بھر کے لیے رہے گا اور نماز کے بعد والا ذکر بھی عمر بھر کے لیے رہے گا۔ اگلے ایک ماہ کے لیے یہ معمول روزانہ کریں کہ 10 منٹ کے لیے تصور کیا کریں کہ میرے دل میں زبان بن گئی ہے جو ”اَللہ اَللہ“ کر رہی ہے، دل سے ”اَللہ اَللہ“ کروانا نہیں ہے بس یہ تصور کرنا ہے کہ دل کی زبان ”اَللہ اَللہ“ کر رہی ہے۔ جب یہ چیز آپ کو محسوس ہو گی تو آپ کو پتا چل جائے گا۔ ایک ماہ یہ معمول کر کے مجھے اطلاع کریں۔

سوال نمبر4:

One of your murshid gave me your contact number. I was living in فلاں Scotland. I want some zikar for not getting involved in haram sins. You know there is everything easily accessed which leads one to haram things. I want to stay away from زنا because most of my friends get involved in it. And also, something in my exam to get good marks in it. I am 24 years old.

جواب:

چونکہ آپ کو معلوم نہیں ہے اس وجہ سے آپ نے اس قسم کی باتیں لکھ دی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جن سے آپ کو ملاقات ہوئی وہ میرے مرشد نہیں ہیں، مرید ہیں، کیونکہ میرے مرشد آپ کے ساتھ نہیں ملے نہ ہی وہ انگلینڈ میں ہیں، لہٰذا مرشد کا لفظ آپ غلط استعمال کر رہے ہیں، شاید آپ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میرے مرید سے ملاقات ہوئی۔ بہرحال جن سے آپ ملے مجھے ان کا نام بتائیں اس سے آپ کو فائدہ ہو گا ان شاء اللّٰہ۔

باقی یہ ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ مجھے کچھ ذکر دے دیں۔ اس سے پہلے آپ اس بات کو جان لیں کہ تمام گناہ انسان کے نفس کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ انسان کے نفس کی خواہشات ہوتی ہیں، کچھ خواہشات حلال ہوتی ہیں کچھ حرام ہوتی ہیں۔ شریعت نے حلال خواہشات کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور حرام خواہشات کو پورا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا نفس کی حرام خواہشات پر عمل نہیں کرنا ہوتا اور حلال خواہشات میں سے جو جائز طریقے سے پوری ہو سکتی ہوں انہیں پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے نفس کی اصلاح ہوتی ہے، نفس کا علاج ہوتا ہے۔ اگر آپ ہم سے اپنی اصلاح کروانا چاہتے ہیں تو یہ کام ہم آپ کے لیے شروع کر سکتے ہیں۔

فی الحال آپ اس طرح کریں کہ روزانہ 300 دفعہ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ“ اور 200 دفعہ ”لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ“ ایک ہی مجلس میں پڑھا کریں۔ آپ نے یہ معمول 40 دن تک متواتر کرنا ہے، اس میں ناغہ بالکل نہیں کرنا کیونکہ ناغہ ہو گیا تو دوبارہ شروع سے کرنا ہو گا۔ آپ اس کو شروع کر لیں اور ہر نماز کے بعد اپنے امتحان میں کامیابی کے لیے دعا کیا کریں، اللّٰہ پاک سے لینے کا کوئی ذریعہ دعا سے بہتر نہیں ہے۔ اللّٰہ پاک خود فرماتے ہیں

﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (غافر: 60)

ترجمہ: ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا“۔

جو ذکر میں نے بتایا ہے اسے مکمل کر لیں۔ 40 دن بعد مجھے اطلاع کریں اس کے بعد اگلی ترتیب بنے گی۔

سوال نمبر5:

200، 400، 400، اور 100 والا ذکر مکمل ہو گیا ہے۔ آگے ترتیب ارشاد فرمائیں۔

جواب:

اب 200، 400، 600 اور 100 کی ترتیب شروع فرما لیں۔

سوال نمبر6:

In this way what is فنا فی الرسول ? Is فنا فی الرسول a station that a person’s روح must go to where it is blessed with the کیفیت فنا فی الرسول. Does the روح have to travel somewhere or is فنا فی الرسول simply annihilation in the Sunnah of the Prophet ﷺ Or is it something else? And what role does فنا فی الرسول play in the سیر الی اللّٰہ and سلوک? Does فنا فی الرسول have anything to do with حقیقت محمدیہ and حقیقت احمدی? What is حقیقت محمدی and احمدی? Does روح travel to these places?

جواب:

آپ نے بہت سارے سوال کیے ہیں، ہمارا سوال و جواب کا مختصر سا سیشن ہے، اگر میں صرف آپ کے میسج کا جواب دینے لگوں تو باقی لوگوں کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکوں گا۔ اس لئے میں آپ کو مختصر طور پر فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے بارے میں بتا دیتا ہوں۔

فنا یہ ہے کہ جو چیز آپ کے سامنے ہے وہ سامنے سے ہٹ جائے۔ ہم سب کے سامنے ہمارا نفس ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ O وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ﴾ (القیامہ: 20-21) کے مصداق نفس کی عاجلہ خواہشات ہمارے سامنے ہیں، جس کی وجہ سے شریعت کے احکام ہمارے سامنے سے فنا ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اس نفس کو فنا کر دیں یعنی اس کی خواہشات کو پس پشت ڈال دیں، ان کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں، یہ ہمارے اوپر مؤثر نہ رہیں تو نفس فنا ہو جائے گا، اس کے حجابات دور ہو جائیں گے، مشاہدات شروع ہو جائیں گے اور شریعت کے احکام ہمارے سامنے آ جائیں گے، جو چیز محسوس ہونی چاہیے وہ محسوس ہونا شروع ہو جائے گی اور جو ابھی محسوس ہو رہی ہے وہ رہ جائے گی۔ اس کو فنا کہتے ہیں۔ پہلے فنا فی الشیخ کا مرحلہ ہوتا ہے، فنا فی الشیخ اس لیے ہوتی ہے کہ شیخ سامنے ہوتا ہے اور اس میں فنا ہونا سب سے آسان ہے کہ انسان شیخ کی بات کو اپنے نفس کی بات پر ترجیح دے، اپنے نفس کی بات کو نہ سنے، اس پہ نہ چلے بلکہ شیخ کی بات پہ چلے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جس کا شیخ نہ ہو، اس کا نفس اس کا شیخ ہوتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ جس کا شیخ نہیں ہو گا وہ اسی کی بات سنے گا جو اس کے سامنے فوری طور پہ موجود ہے۔ اللّٰہ پاک نے خود فرمایا ہے:

﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ O وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ﴾ (القیامۃ: 20-21)

ترجمہ: ”اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کیے ہوئے ہو“۔

فوری فائدہ کی چیز کی طرف متوجہ ہونا ہماری کمزوری ہے، لہٰذا جب کوئی شیخ نہیں ہو گا تو خود بخود ہم نفس کا شکار ہو جائیں گے۔ فنا فی الشیخ ہمیں نفس سے ہٹا کر شیخ کی طرف لاتی ہے، پھر شیخ ہمیں آپ ﷺ کی طرف لے جاتے ہیں، کہ سنت پہ ڈالتے ہیں، جسے فنا فی الرسول کہتے ہیں اور آپ ﷺ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے ہیں:

”قُوْلُوْا لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ تُفْلِحُوْا“

ترجمہ: ”کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کامیاب ہو جاؤ گے“۔

جب ہم اپنی ہر چیز پر اللہ کی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں، تو یہ مرحلہ فنا فی اللّٰہ کہلاتا ہے۔

مختصر طور پر فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کی تشریح یہی ہے، اس کے بعد اس میں تفصیلات بہت ہیں، اس وقت تفصیلات کے بارے میں بات نہیں ہو سکتی۔ ابھی آپ یہ کلام سن لیں، اس سے آپ کو فنا فی الرسول کا اندازہ ہو جائے گا۔ یہ ہماری ایک غزل ہے جس کا عنوان ہے: ”فنا فی الرسول“۔

جو شیخ اتباع میں سنت کی مشغول ہو

اس کو ہی دیکھتے دیکھتے فنا فی الرسول ہو

یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا

سالک کا ہر عمل پھر خدا کو قبول ہو

محبوبیت خدا کی جب سنت میں ہے پنہاں

رحمت کا دل پہ اس سے نہ پھر کیوں نزول ہو

خوشنودیِ خدا کا یہ رستہ جسے ملے

اس کی نظر میں بدعتیں رستے کا دھول ہو

سنت میں جذب قبول کے درجے میں ہیں موجود

ایک جست میں باخدا بنے شرک کا ذہول ہو

سنت کی اتباع کو کرو شیخ سے حاصل

تو اولیاء کے گروہ میں تیرا شمول ہو

یہ جذب کو دعوت ہے تو ایک جست میں شبیر

سالک کا طے ایک آن میں رستے کا طول ہو

اس کو ہی دیکھتے دیکھتے فنا فی الرسول ہو

جو شیخ اتباع میں سنت کی مشغول ہو

اب ہم فنا فی اللّٰہ والا کلام سنائیں گے، اس کے بعد مختصر ترین طریقے سے عرض کروں گا کہ آپ اپنے آپ کو اصطلاحات کی الجھن میں نہ ڈالیں بلکہ اس کی اصل لے لیں۔ اصطلاحی چکروں میں پڑ کے آپ پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے اور اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکیں گے

فنا فی اللّٰہ

راستہ جس کو دوامی اگر سنت کا ملے

بالآخر اس کو پھر مقام عبدیت کا ملے

تشریح:

فنا فی الشیخ سے فنا فی الرسول کا حصول ہو جاتا ہے پھر اتباعِ سنت کے ذریعے انسان فنا فی اللّٰہ ہو جاتا ہے۔

یہی فنائیت فی اللّٰہ کا مقام تو ہے

جو کہ سنت کے طریقے پہ سہولت سے ملے

خدا نے ایک ہی رستہ تو باقی رکھا ہے

اسی کو پا کے ہی پھر راستہ جنت کا ملے

جو بندگی میں ہے آگے وہی محبوب زیادہ

اسی کو آگہی مقام پھر قربت کا ملے

یہی وصول ہے یہی وصل ہے اور یہی فلاح

شبیرؔ اس کو ہی تو نام پھر نسبت کا ملے

آپ نے دیکھ لیا کہ اس میں سب ضروری اصطلاحات آ گئی ہیں، اصل میں یہ بہت سادہ باتیں ہیں۔ قرآن پاک سے بڑی بات کسی کی نہیں ہو سکتی، اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:

﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ O ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً O فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ O وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ (الفجر: 27-30)

ترجمہ: ”اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہو جا میری جنت میں“۔

اصلی اور حتمی بات یہ ہے کہ نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے، جب نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے تو کیفیتِ احسان حاصل ہو جاتی ہے، کیونکہ نفسِ مطمئنہ کے حصول کے بعد انسان اللّٰہ پاک سے راضی ہو جاتا ہے، جب انسان اللّٰہ پاک سے راضی ہو جاتا ہے تو وہ اللّٰہ پاک کی طرف کلی طور پر متوجہ ہو جاتا ہے، رکاوٹ ڈالنے والے تمام حجابات ختم ہو جاتے ہیں۔ جب یہ بات سمجھ میں آ گئی تو اب ہمیں اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، نفس کی اصلاح کی کوشش کو سیر الی اللہ کہا گیا ہے۔ انسان اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لے، یہ سیر الی اللّٰہ ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق اس نفس کی مکمل اصلاح کرنے کے لئے درج ذیل دس مقامات طے کرنے ہوتے ہیں: مقامِ توبہ، مقامِ انابت، مقامِ قناعت، مقامِ ریاضت، مقامِ تقوی، مقامِ صبر، مقامِ زہد، مقامِ توکل، مقامِ تسلیم اور مقامِ رضا۔ نفس کی فنائیت کے لیے یہ 10 مقامات تفصیلی طور پر طے کرنے ہوتے ہیں۔ اس کو فنا فی اللّٰہ بھی کہتے ہیں اور اس کو سیر الی اللّٰہ بھی کہتے ہیں۔ جب سیر الی اللّٰہ مکمل ہو جاتی ہے اور اللہ اسے قبول کر لیتا ہے تو اسے باقی باللّٰہ کہتے ہیں، یعنی وہ انسان اللّٰہ کا بن جاتا ہے۔ اب اللّٰہ اس سے کام لیتا ہے، اسے مخلوق کی طرف لوٹا دیتا ہے، اس کو وہ علم بھی واپس کر دیتا ہے جو وہ بھول چکا ہے، اس کو دنیا کی تمام چیزیں دوبارہ لوٹا دی جاتی ہیں، اب وہ ان سب چیزوں کو محض اللہ پاک کی رضا کے لیے استعمال کرتا ہے جنہیں پہلے نفس کے لیے استعمال کرتا تھا۔ یہی بہت بڑی تبدیلی ہے جو انسان میں نفس کی اصلاح کے بعد آتی ہے۔ جب یہ تبدیلی آ جاتی ہے تو وہ شخص لوگوں میں رہتا ہے لیکن اس کا ہر کام لوگوں کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اللّٰہ کے لیے ہوتا ہے، اسی کو بقا باللّٰہ کہتے ہیں۔

اب اگر ہم لوگ ان اصطلاحات کے چکر میں پڑے رہیں اور وہ کام نہ کریں جس سے فنا فی اللہ حاصل ہوتی ہے، تو محض اصطلاحات کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بعض لوگ کسی اصطلاح کو نہیں جانتے لیکن سارے مقامات سے گزر جاتے ہیں۔ مثلاً کسی آدمی کے اندر صبر کی صفت موجود ہے، علمی طور پر اس کو پتا بھی نہیں کہ صبر کیا ہوتا ہے پھر بھی اس کو مقامِ صبر حاصل ہے۔ اسی طرح اگر کسی آدمی کے اندر ریاضت موجود ہے، چاہے اسے علمی طور پر پتا نہ بھی ہو کہ ریاضت کیا ہے، پھر بھی اسے مقامِ ریاضت حاصل ہے۔ اگر کسی آدمی کے اندر قناعت موجود ہے، چاہے اسے علمی طور پر پتا نہ بھی ہو کہ قناعت کیا ہے، پھر بھی اسے مقامِ قناعت حاصل ہے۔

در اصل مقامات کا جاننا ضروری نہیں ہے بلکہ ان کو حاصل کرنا ضروری ہے، ان کے حصول کے لیے شیخِ کامل کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہوتا ہے، شیخ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کو فنا فی الشیخ کہتے ہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے ؎

قال را بگزار مردِ حال شو

پیشِ مردِ کاملِ پامال شو

یعنی قال کو ایک طرف رکھ دو، صاحبِ حال بن جاؤ اور اس کے لیے اپنے آپ کو کسی شیخِ کامل کے سامنے پامال کر دو۔

راستہ یہی ہے، اگر کوئی اس راستہ کو اختیار نہیں کرتا تو وہ چلتا رہے، کوشش کرتا رہے اگر کامیاب ہو گیا تو ہم بھی مبارک باد دے دیں گے، لیکن تجربہ یہ کہتا ہے کہ اس طرح کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ اگر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے تو راستہ یہی ہے کہ سیر الی اللّٰہ کے لیے کسی شیخ کا دامن پکڑ لے اور جیسے جیسے وہ کہتے جائیں اس طریقے سے کرتا جائے، چاہے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ جب ڈاکٹر کسی کا علاج کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ اس کو یہ بھی بتائے کہ آپ کی بیماری کیا ہے اور میں آپ کی بیماری کا علاج کیسے کروں گا، بلکہ ضروری یہ ہوتا ہے کہ اس کا علاج ہو جائے، اور ڈاکٹر تفصیلات نہ بتائے تب بھی مریض کا علاج ہو جاتا ہے۔

اگر آپ اصطلاحات کے چکروں میں پڑے رہے تو شاید آپ کی ٹرین چھوٹ جائے گی، لہٰذا آپ ان چیزوں میں نہ پڑیں بلکہ کسی شیخِ کامل کا دامن پکڑ لیں۔ شیخِ کامل ڈھونڈنے کے لیے ہم آپ کو آٹھ نشانیاں بتا دیتے ہیں، آپ شیخ کی تلاش کریں، جس میں یہ نشانیاں پوری پوری مل جائیں اس کا دامن تھام لیں۔ ایک نشانی یہ ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو، عقیدہ اہل سنت والجماعت کا ہو۔ دوسری نشانی یہ کہ اس کو فرضِ عین درجے کا علم حاصل ہو۔ تیسری یہ کہ اس کو اس علم پر عمل حاصل ہو۔ چوتھی یہ کہ اس کی صحبت کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک پہنچتا ہو۔ پانچویں یہ کہ اس کو اجازت حاصل ہو۔ چھٹی نشانی یہ کہ اس کے ہم عصر علما و صلحا میں اس کی شہرت اچھی ہو۔ ساتویں نشانی یہ ہے کہ وہ اصلاح میں مروت اور کسی قسم کی رو رعایت سے کام نہ لیتا ہو۔ آٹھویں اور آخری نشانی یہ کہ اس کی مجلس میں بیٹھ کر اللّٰہ یاد آتا ہو اور دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔

اگر یہ آٹھ نشانیاں کسی میں موجود ہیں تو پھر اِدھر اُدھر کے چکروں میں نہ پڑیں، اس میں کرامات نہ دیکھیں، اس کے کشفوں کو نہ دیکھیں، یہ چیزیں ثانوی ہیں، ہو بھی سکتی ہیں اور نہیں بھی ہو سکتیں۔ بہت سارے صحابہ ایسے ہیں جن کے بارے میں ہمیں ایک کشف اور ایک کرامت کا علم بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ صحابی ہیں، ان کی صحابیت پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا۔ اور ایسے صحابہ بھی ہیں جن کو یہ چیز حاصل تھی۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو کشف ہوتا تھا، اور بھی کئی ایسے حضرات تھے۔ کشف و کرامات کا ہونا یا نہ ہونا اصل بات نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ وہ چیز حاصل ہو جس کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ بھی ان چکروں میں نہ پڑیں، اصل اور مفید کام کریں۔ اللّٰہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

سوال نمبر7:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

My dear and respected Murshid, last night I had a dream. I was with سید فلاں. We were both in خدمت of رضا الحق صاحب دامت برکاتہم. We go to مسجد for حضرت مفتی رضا الحق صاحب. I notice سید فاروق and حضرت مفتی رضا الحق صاحب are not present. I heard an announcement that رضا الحق صاحب will not be doing Bayan in the Masjid and will be doing bayan in Oxford University. Again I go outside the Masjid and find the woman making the announcement. She is making this announcement whilst sitting in her car. But you can hear her voice in the Masjid. She is very ugly looking with grayish hair. I make telephone call to ask him where he and مفتی صاحب are? I am assured that they are coming to collect me. Hope you are well. My father is unwell and has been admitted into a hospital a couple of nights ago. My father is facing difficulty in his chest. Alhmdulillah my father is ok and he is recovering.

جواب:

آپ ایک بات یاد رکھیں کہ اس قسم کے خواب والی باتیں اور ذاتی معلومات میرے ذاتی نمبر پر بھیج دیا کریں، یہاں ان چیزوں کے بیان کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے اور اس سے لوگوں کا فائدہ بھی نہیں ہے۔ خوابوں کے بارے میں اتنا زیادہ نہ سوچیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جاگتے میں آپ نے ان کو دیکھا، یہ بڑی اچھی بات ہے کہ مفتی صاحب کو آپ نے جاگتے میں دیکھا ہے۔ میں نے بھی ایک دفعہ اس طرح کہا تھا کہ میں نے مفتی محمود صاحب کو خواب میں دیکھا ہے، تو حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے ان کو جاگتے میں دیکھا ہے۔ آپ نے بھی جاگتے میں دیکھا ہوا ہے، بس اتنا کافی ہے، مزید باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال نمبر8:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت جی اللّٰہ کے فضل سے میرا ذکر 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ 400 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 600 مرتبہ ”حَقْ“ اور ساڑھے 4 ہزار مرتبہ ”اَللہُ“ مکمل ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ پانچوں لطائف پر دس دس منٹ اور 15 منٹ مراقبۂ صفات سلبیہ، یعنی ان صفات کا دھیان کرنا جن سے اللّٰہ جل شانہ پاک ہے، جو اللّٰہ کے شایانِ شان نہیں ہیں، ان صفات کا سوچتے ہوئے عجیب سا محسوس ہوتا ہے، اللّٰہ جل شانہ سوتے نہیں ہیں، کھاتے نہیں ہیں، اللّٰہ جل شانہ جسم سے پاک ہیں، نہ وہ کسی کے والد ہیں نہ کسی کی اولاد۔ اس میں فیض آنے کی ترتیب یہ ہے کہ فیض اللّٰہ جل شانہ کی طرف سے حضرت محمد ﷺ کی طرف، حضرت محمد ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف اور شیخ کی طرف سے میرے لطیفۂ خفی پر آ رہا ہے۔ گزارش ہے کہ اگلا ذکر تجویز فرما دیں۔ اللّٰہ آپ سے راضی ہوں۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ بڑی اچھی بات ہے، آپ نے صحیح بتایا ہے۔ اس ذکر کو جاری رکھیں اور یہ بتا دیں کہ اس کا آپ کے اعمال پہ کیا اثر پڑا ہے؟

سوال نمبر9:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ میرا مراقبہ 52 دن سے جاری ہے، اگلے مرحلے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔ 5 منٹ قلب پر ”اللّٰہ اللّٰہ“، 5 منٹ لطیفۂ روح پر، 5 منٹ لطیفۂ سِر پر، 5 منٹ لطیفۂ خفی پر اور 15 منٹ مراقبۂ تجلیات افعالیہ، اس میں یہ تصور کرتا ہوں کہ ہر کام اللّٰہ ہی کرتے ہیں۔ دو ماہ سے زوال محسوس کر رہا ہوں، جیسے کہ صالحین کے پاس اصلاحی مجالس میں جانا کم ہو گیا ہے، اس کے علاوہ نفلی عبادت میں بھی کمی آ چکی ہے۔

جواب:

آپ نے خود ہی اس کے بارے میں فرما دیا ہے کہ صالحین کی مجالس میں جانا کم ہو گیا ہے۔ یہ اختیاری فعل ہے، اگر آپ نے اس کا اثر محسوس کر لیا ہے تو اصلاحی مجالس میں جانا بڑھا دیں، کیونکہ آپ کو اس کے فائدے کا بھی پتا چل گیا اور نہ جانے کی صورت میں نقصان کا بھی پتا چل گیا ہے۔ یہ بتا دیجئے کہ 15 منٹ کے مراقبۂ تجلیات افعالیہ کا آپ کے اوپر کیا اثر ہوا ہے؟

سوال نمبر10:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ میں اپنے اندر طلبِ جاہ اور اخلاص میں کمی کے رذیلے محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنے اعمال میں اخلاص نہیں پاتا، ہر عمل میں جاہ کی طلب میں ہوتا ہوں، عین عمل کے وقت جب نیت درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو نفس کوئی نہ کوئی دلیل پیش کر کے نیک کام کو ضائع کر دیتا ہے، اس پر میں افسوس کرتا ہوں، توبہ کرتا ہوں مگر دل کی کڑھن پھر بھی محسوس ہوتی ہے۔ ہسپتال میں ہر نماز کی کئی جماعتیں ہوتی ہیں، جیسے وزیٹرز، ڈاکٹر اور سٹاف کو بریک ہوتی ہے، وہ با جماعت نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ کم از کم چار اور بعض اوقات 5 منٹ قبل لوگ پھرتے ہیں، آج پہلی دفعہ میں نفل کی نیت سے جماعت میں شامل ہو گیا کیونکہ میں مسجد میں تھا اور کسی نے جلدی اقامت کہی، فتنہ کا اندیشہ تھا، اس کے 10 منٹ بعد ہی مسجد جانے لگا اور دوسری یا تیسری جماعت میں شامل ہو گیا۔ مگر جب امام کی تلاوتِ قرآن پاک سنتا ہوں تو اکثر غلط ہوتی ہے جس سے مجھے خشوع میں خلل پیدا ہوتا ہے، میں اسے وسوسہ سمجھ کر اپنے آپ کو حضرت حبیب عجمی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حسن بصری رحمۃ اللّٰہ علیہ کا واقعہ یاد دلاتا ہوں اور نماز پڑھتا رہتا ہوں، مگر ایک دن جب وضو کے دوران دیکھا کہ بعض حضرات جرابوں کے اوپر مسح کر رہے ہیں تو اپنی نماز کی فکر ہوئی، پھر میں نے خود آگے بڑھا کر نماز پڑھانا شروع کیا۔ نفس اس بات پر خوش ہوتا ہے۔ نماز ختم ہوتے ہی آپ کی ہدایت یاد آئی کہ جو خود اپنے آپ کو آگے کرتا ہے اس کے ساتھ مسائل ہو سکتے ہیں مگر جسے دوسرے آگے کریں اس کے ساتھ اللّٰہ کی مدد ہوتی ہے۔ میں اللّٰہ تعالی سے اس کی معافی مانگتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں، اللّٰہ مجھے ریا اور جاہ سے بچائے۔ علماً تو میں جانتا ہوں کہ کوئی بھی مخلوق مجھے نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتی مگر پھر بھی نفس کی ناپاک خواہشات میرے اندر سے کیوں نہیں نکلتی، کبھی اپنے آپ کو اپنی خطائیں یاد دلاتا ہوں کہ تیری حقیقت تو ایسی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ستاری کا معاملہ نہ فرمائیں تو شاید لوگ تم پر تھوکیں بھی نہیں۔ اگر آپ کے پاس ہوتا تو کم از کم آپ مجھے تنبیہ اور ڈانٹ ڈپٹ کر کے اس بیماری کو دفعہ فرماتے، ہدایت فرماتے، حکم فرماتے۔ دعا کےبارے میں تو جانتا ہوں کہ آپ کسی کے لئے دعا کرنا نہیں بھولتے۔ میرے اندر تواضع صرف الفاظ کی حد تک ہے۔ آپ سے بہت دور ہوں، آپ کی دعاؤں سے باقی معمولات جاری ہیں۔ سفر میں ہوں یا ہسپتال، کسی مجلس کا ناغہ نہیں ہوتا۔ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے جب سورۂ فاتحہ میں ﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾ آتا ہے تو امید ہوتی ہے، جب ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾ آتا ہے تو خوف سے روتے روتے ہچکیاں نکل جاتی ہیں۔

جواب:

ایک اہم بات یہ ہے کہ شریعت پر چلنا اور شریعت پر چلنے کے لیے راستہ بنانا بہت ضروری ہے، اگر کوئی غلط نماز پڑھا رہا ہو اور آپ طاقت رکھنے کے با وجود ایسا ہوتا دیکھتے رہیں تو ایسا کرنا غلط ہو گا، اس کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ اگر امام غلطی کرتا ہے تو اس سے سارے نمازیوں کی نماز متاثر ہو جاتی ہے، اگر کوئی انفرادی غلطی کرتا ہے تو صرف اس کی اپنی نماز متاثر ہوتی ہے۔ ایسے شخص کو آگے ہونے دینا جس سے سب لوگوں کی نماز متاثر ہوتی ہے، شرعاً غلط ہے۔ لوگوں کو اس سے بچانا ضروری ہے۔ اگر آپ کو شرح صدر ہے کہ وہ غلط نماز پڑھا رہا ہے تو پھر آپ کو خود آگے ہونا پڑے گا اور یہ مجبوراً آگے ہونا ہے، آپ خود اپنی مرضی سے آگے نہیں ہو رہے ہیں، اگر وہ صحیح نماز پڑھاتا تو آپ آگے نہ ہوتے۔ لہٰذا اس صورت حال میں آپ کے لیے خود آگے بڑھ کر نماز پڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اگر ہم سفر میں نماز پڑھانے کے لیے آگے نہ ہوتے تو ڈاکٹر فدا صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمیں ڈانٹا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی نے اس طرح نماز پڑھائی تھی، میں نے ڈاکٹر فدا صاحب کو بتایا تو مجھے سخت ڈانٹا، فرمایا: میں نے آپ کو بتایا نہیں ہوا کہ سفر میں خود نماز پڑھایا کریں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں باقی لوگوں کا پتا نہیں ہے کہ وہ کس طرح نماز پڑھائیں گے۔ جرابوں پہ مسح تو بہت عام ہے، اور آپ کو علم ہے کہ جرابوں پہ مسح کرنے سے ہمارے نزدیک نماز نہیں ہوتی، اس وجہ سے اپنی نماز بچانا ضروری ہو گیا ہے، آپ چونکہ جرابوں پہ مسح نہیں کرتے اور مسائل بھی جانتے ہیں لہٰذا آپ نماز ضرور پڑھایا کریں اور اس کام کو ایک ذمہ داری سمجھ کر کیا کریں۔

اللّٰہ پاک سے معافی مانگتے رہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ جو دعا نماز میں کرتے تھے، وہی دعا اخیر میں کر لیا کریں، اس سے تلافی ہو جائے گی۔

وساوس پر دھیان نہ دیا کریں۔ ریا کاری ایسی چیز نہیں ہے جو انسان کو خود بخود لگ جائے، یہ ایک اختیاری فعل ہے اگر آپ اختیاری طور پر نہیں کرتے اور آپ کو خیال آتا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کو کوئی گناہ نہیں۔

آپ کو ڈر بھی ہے اور امید بھی، یہی ایمان ہے۔ کیونکہ فرمایا گیا ہے: ایمان خوف اور امید کے درمیان ہتے۔ لہذا آپ فکر نہ کریں۔ اللّٰہ جل شانہ آپ سے دین کا کام لے لے۔ آمین۔

سوال نمبر11:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ ذکر و مراقبات کی تفصیل درج ذیل ہے:

ذکر: ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ 200 مرتبہ، ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 400 مرتبہ، ”حَقْ“ 600 مرتبہ، ”اَللہ“ 100 مرتبہ، ”حَقْ اَللہ“ 500 مرتبہ، ”ھُوْ“ 500 مرتبہ، ”اَللہ ھُوْ“ 200 مرتبہ۔ حق اللّٰہ کے ساتھ یہ تصور کرتا ہوں کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، اللّٰہ تعالی سے راضی ہوں۔

مراقبات: پہلا مراقبہ: یہ تصور کہ اللّٰہ جل شانہ میرے ساتھ ہے جیسا کہ اس کی شان ہے۔ اس کی مقدار 15 منٹ ہے۔ دوسرا مراقبہ: یہ تصور کرنا ہے کہ میں اللّٰہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے طریقے پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں، اس کی مقدار 10 منٹ ہے۔ تیسرا مراقبہ: یہ تصور کرتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کی امت کو تمام فتنوں سے بچائے اور ہمیں قبول فرمائے۔ یہ دل میں دعا ہے، اس کی مقدار 15 منٹ ہے۔ چوتھا مراقبہ: اس پر شکر کہ اللہ پاک نے مجھ پر جو فضل و کرم کیا اور نعمتیں دیں ان پر شکر ادا کرنے کا تصور کرتا ہوں۔ پانچواں مراقبہ: روز صبح کے وقت 10 منٹ یہ سوچتا ہوں کہ آج میں کیا نیک کام کر سکتا ہوں، لوگوں کی کیا جائز خدمت کر سکتا ہوں۔ رات کو 5 منٹ یہ مراقبہ کرتا ہوں کہ یہ جو نیک عمل کیے، لوگوں کی جائز خدمت کی اس پہ اللّٰہ تعالی کا شکر اور جو رہ گیا اس پہ استغفار۔

جواب:

فی الحال اسی کو جاری رکھیں، آپ کے لیے اس وقت یہی مفید ہے۔

سوال نمبر12:

سیّدی و سَنَدِی و مولائی حضرت شاہ صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ اللّٰہ پاک سے دعا اور امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ اللّٰہ پاک کے فضل و کرم اور آپ کی دعا سے تسبیحات جاری ہیں۔ روزانہ ایک تسبیح درود شریف، ایک تسبیح تیسرا کلمہ اور ایک تسبیح استغفار کی کرتی ہوں۔ ہر نماز کے بعد 3 مرتبہ درود شریف، 3 مرتبہ پہلا کلمہ، 3 مرتبہ استغفار اور ایک مرتبہ آیت الکرسی کا معمول بلا ناغہ جاری ہے۔ 15 منٹ مراقبہ کرتی ہوں کہ دل ”اَللہ اَللہ“ کر رہا ہے۔ عام دنوں میں مراقبہ بشاشت سے ہوتا ہے مگر ایام کے دنوں میں اونگھ آ جاتی ہے، لیکن پھر بھی مراقبہ کر لیتی ہوں کیونکہ ناغہ سے بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔

حضرت جی دل کا ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کرنا صحیح طور پر اس وقت سمجھ میں آیا جب پچھلے دنوں سر کا MRI سکین ہوا، مشین کے اندر ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کرتے ہوئے اللّٰہ پاک کو دیکھنے اور ملنے کا شوق پیدا ہوا، پھر نزلہ زکام اور بخار میں بستر پر لیٹے لیٹے دل سے ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کرنے کا بھی اپنا ہی لطف رہا۔ اللّٰہ پاک سے محبت میں یقیناً اضافہ ہوا ہے کہ اللّٰہ پاک سے ملاقات کے شوق سے موت کا خوف نہیں رہا۔ اپنی نا اہلی پر ندامت ضرور ہے مگر کیا کوئی کبھی اپنی ماں سے ملنے سے بھی گھبرایا ہے! اللّٰہ پاک سے معافی کی امید ہے۔ شاید ریاض الصالحین کی پڑھائی کی وجہ سے بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ آپ کے ریاض الصالحین کے دروس کی ریکارڈنگ سن کر مطالعہ کروں۔ اللّٰہ پاک ہمیں آپ سے مزید مستفید فرمائے اور ہماری کوتاہی کو معاف فرمائے۔

حضرت جی، پچھلے 25 سالوں سے میں نے اپنے ابا جی اور اپنے شیخ یوسف رحمۃ اللّٰہ علیہ کے کہنے پر ہر وقت درود شریف پڑھتے رہنے کی عادت ڈالی ہے۔ کوشش کرتی ہوں کہ تنہائی میں زبان سے درود شریف پڑھوں اور خاموش ہوں تو دل سے ”اَللہ اَللہ“ جاری ہو، لیکن بہت مشکل ہوتی ہے، خاموشی میں بھی دل سے درود شریف ہی جاری ہوتا ہے۔ شروع تو یہ سوچ کر کیا تھا کہ درود شریف میں اللّٰہ پاک کا بھی ذکر ہے۔ آپ بتائیں کہ اب مجھے کیا کرنا ہے۔ نماز کے بعد درود شریف سے پہلے بھی سورہ توبہ کی آخری آیت ﴿لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ O فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۠﴾ (التوبہ: 128-129) سے آخر تک پڑھ لوں تو کوئی حرج تو نہیں؟

جواب:

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ سادہ ذکر سے درود شریف افضل ہے کیونکہ اس میں ذکر بھی ہے، دعا بھی ہے اور درود بھی ہے، لیکن شیخ کا دیا ہوا ذکر درود شریف سے بھی افضل ہے کیونکہ اس میں اپنے نفس کی اصلاح کی نیت ہے اور نفس کی اصلاح فرض ہے تو اس کی نیت بھی معتبر ہے۔ اس وجہ سے قرب حاصل ہوتا ہے۔ شیخ کا دیا ہوا ذکر تو آپ کر ہی رہی ہیں، ماشاء اللّٰہ اس کے ساتھ درود شریف بھی پڑھ رہی ہیں، اس میں ذکر بھی ہے۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ:

’’اللہ کے رسول! میں آپ پر بہت درود پڑھا کرتا ہوں، سو اپنے وظیفے میں آپ پر درود پڑھنے کے لیے کتنا وقت مقرر کر لوں؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو، میں نے عرض کیا چوتھائی؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا دو تہائی؟ آپ نے فرمایا: جتنا تم چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے، میں نے عرض کیا: وظیفے میں پوری رات آپ پر درود پڑھا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اب یہ درود تمہارے سب غموں کے لیے کافی ہو گا اور اس سے تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے“۔

لہذا آپ درود شریف ضرور پڑھا کریں۔ آپ کو درود شریف کی جو عادت پڑی ہوئی ہے یہ آپ پر اللّٰہ پاک کا خاص فضل ہے، آپ اس کو جاری رکھیں، اس میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے، لیکن شیخ کا دیا ہوا وظیفہ پہلے ہے۔ اس وظیفہ کے بعد جتنا وقت آپ کے پاس ہے آپ اس میں درود شریف پڑھتی رہیں۔

البتہ درود شریف میں ایک بات سمجھ لیں کہ کچھ حضرات مختصر درود شریف پڑھنے کو ترجیح کہتے ہیں اور کچھ حضرات تفصیلی درود شریف پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ جس وقت طبیعت جس طرف مائل ہو وہی بہتر ہے، اگر طبیعت تفصیلی درود کی طرف مائل تو لمبا درود شریف پڑھنا بہتر ہے جیسے درودِ ابراہیمی ہے اور اگر طبیعت اس طرف مائل ہے کہ مختصر درود زیادہ تعداد میں پڑھ لیا جائے تو اس وقت وہی بہتر ہے۔ سورۂ یونس کی آخری آیات پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ان میں آپ ﷺ کے ساتھ امت کی ایک نسبت کی طرف توجہ ہو جاتی ہے۔ اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ ﷺ کی سنتوں پر چلنے کے لیے اس کو ذریعہ بنا دے۔

سوال نمبر13:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میرا ایک مسئلہ ہے کہ میں ٹھیک بیٹھی ہوتی ہوں، اچانک مجھے گھٹن اور گھبراہٹ ہونے لگ جاتی ہے، جس سے میں بہت پریشان ہوتی ہوں، پریشانی سے طبیعت مزید خراب ہو جاتی ہے۔ کافی ڈاکٹروں کو چیک کروایا ہے، وہ ڈپریشن کی دوائیاں دیتے ہیں۔ میں بعض اوقات بہت ڈر جاتی ہوں کہ مجھے کچھ ہو جائے گا۔ میرے دو بچے ہیں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ میرے شوہر میر پور ہوتے ہیں۔ اس کا کچھ حل بتائیں میں بہت پریشان ہوں، مجھے دمہ کا مسئلہ بھی ہے۔

جواب:

یہ تو panic ہے، ڈاکٹر حضرات اس عارضے کو panic کہتے ہیں۔ یہ ایک بیماری ہے جس میں انسان بے چین ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کچھ ہو جائے گا لیکن وہ صرف ڈر اور خوف ہی ہوتا ہے۔ ڈر اور خوف کی وجہ سے ہی پریشانی ہوتی ہے اور بے چینی بڑھتی ہے جس کے اثرات جسم پہ آ جاتے ہیں، اس سے انسان مزید گھبرا جاتا ہے۔ اس کا مکمل علاج ڈاکٹر حضرات ہی بتا سکتے ہیں اور کر سکتے ہیں، ایک نفسیاتی علاج جو مجھے ڈاکٹر نے بتایا شاید آپ کے ڈاکٹر بھی آپ کو یہ بتائیں، وہ یہ ہے کہ جب ڈر اور خوف کی کیفیت طاری ہو تو آپ اس کی انتہائی اور آخری حالت کے بارے میں سوچیں، ظاہر ہے آخری حالت موت ہی ہوتی ہے تو آپ موت کے لیے تیار ہو جائیں، اپنے آپ سے یہ کہیں کہ زیادہ سے زیادہ مر ہی جاؤں گی، اس سے زیادہ اور تو کچھ نہیں ہو سکتا، مر بھی گئی تو کیا ہو جائے گا، ایک دن تو سب نے مرنا ہی ہے۔ جب آپ ذہنی طور پر یہ سوچیں گی تو آپ کی یہ حالت ختم ہو جائے گی۔ یہ حالت مجھ پہ بھی گزری ہے اس لئے میں اس کو صرف ڈاکٹر کی بات نہیں سمجھتا بلکہ اپنے تجربے سے بتاتا ہوں۔ مجھ پر طالب علمی کے زمانے میں یہ بات گزری ہے کہ ایک مرتبہ رات کے دو بجے میری یہ حالت ہو گئی تھی، دھڑکن بہت تیز ہو گئی تھی اور پورے جسم پہ کپکپی طاری ہوگئی تھی۔ اس دن میں کمرے میں اکیلا تھا، میرا room mate اس دن وہاں نہیں تھا۔ میں نے ساتھ والے کمرے سے ایک ساتھی کو کہا کہ آپ میرے کمرے میں آ جائیں تاکہ میں اکیلا نہ رہوں، وہ آ گیا، سردیوں کے دن تھے، وہ لحاف اپنے ساتھ لایا اور آتے ہی سو گیا۔ میں نے سوچا کہ اس کے آنے کا فائدہ تو نہیں ہوا۔ پھر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ مر جاؤں گا، مرنا ہی ہے تو ایسا کرتا ہوں کہ سنت طریقے پہ مرتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے اپنا دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کے کلمہ پڑھا اور سنت طریقے پہ لیٹ گیا، اس کے تھوڑی دیر بعد مجھے نیند آ گئی، صبح اٹھا تو بالکل ٹھیک تھا۔

اس بیماری کا اصل علاج تو یہی ہے، اس کے علاوہ لمبا علاج بھی ہے، وہ آپ جس سے بھی کروانا چاہیں، ضرور آپ کروائیں البتہ مختصر علاج یہی ہے۔ اگر آپ اپنا علاج کرنا چاہتی ہیں تو آپ پروا نہ کریں، اللّٰہ پاک بہت مہربان ہے، اور اس حالت میں سہولت کے لیے ”یَا شَافِیُ یَا قَوِیُّ یَا سَلَامُ یَا مَتِیْنُ“ 7 مرتبہ پڑھ کر اپنے دل پہ دم کر لیا کریں، اس سے کافی سہولت ہو جائے گی۔

سوال نمبر14:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و بر کاتہ

I pray you are well dear Sheikh! This is فلاں from UK. I just wanted to ask a question about health which I know is not the primary purpose of the مجلس but as Sophia Karam have mentioned four مجاہدات تقلیل طعام، تقلیل منام? I wanted to ask can we go to the gym? If there is no fear of فتنہ? I ask because I have noticed that going makes me a little hungrier and needing more sleep at night which goes against the mujahidat mentioned by Sofia kraam. I have done استخارہ as well. Also someone told me شیخ تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ advised in بہشتی زیور that women should do exercise in the homes by going up and down the stairs. How should we make our sisters and mothers be active? This is something in which Muslims do not tend to take care especially those seen as religious. I am sorry if my question is inappropriate but I only trust your judgment and do not want other people's opinions to have an effect on me.

جواب:

صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ صحت پر ہماری تمام عبادات موقوف ہیں، اگر ہم صحت کا خیال نہیں رکھیں گے تو عبادات خطرے میں پڑ جائیں گی، اس نیت سے اگر آپ صحت کا خیال رکھیں گے تو یہ خیال رکھنا عبادت بن جائے گا، لہٰذا آپ اپنی صحت کا خیال رکھیں البتہ یہ بات یاد رہے کہ اس کو اصل کام نہ سمجھیں، جیسے بعض لوگ صرف اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، اور شب و روز جم میں جسم بنانے میں لگے رہتے ہیں، ان کا کام ہی یہی ہوتا ہے، لیکن ہمارا اصل کام یہ نہیں ہے، ہم صرف صحت کو بر قرار رکھنے کے لئے ضرورت کے مطابق جم جائیں تو اچھی بات ہے، اس سے زیادہ اس کام میں لگنا ہماری ضرورت نہیں ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ چہل قدمی کیا کرتے تھے جسے ہم مارننگ واک کہتے ہیں، اس دوران حضرت کے ساتھ با قاعدہ حمائل شریف ہوتا تھا، چونکہ خود بھی حافظ تھے اس لئے چلتے چلتے قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتے تھے، چہل قدمی کے ساتھ ساتھ تلاوت بھی ہوتی رہتی تھی۔ حضرت فرماتے کہ ہمارا جسم سرکاری مشین ہے، ہمیں اس کا خیال رکھنا ہو گا، کیونکہ اس کے لیے جواب دینا پڑے گا۔ لہٰذا ہمیں اس کا خیال سرکاری مشین سمجھ کر رکھنا چاہیے۔ جہاں تک تقلیلِ طعام اور تقلیل منام کی بات ہے، میں نے آپ کو ابھی وہ مجاہدہ نہیں دیا، جب دوں گا تب اس کا خیال رکھیں گے۔ فی الحال آپ ذکر کریں، وقت آنے پر آپ کو بتا دیں گے اور اسے سنبھال بھی لیں گے، کیونکہ یہ مجاہدہ مینیجمنٹ پر مبنی ہوتا ہے، اس کا مخصوص طریقۂ کار ہوتا ہے، اسی طریقے سے کیا جاتا ہے۔ اگر آپ اس وقت تقلیل منام و تقلیل طعام والا مجاہدہ کرنا ہی چاہیں تو ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق کریں، بلاوجہ نہ کریں اور مقصدیت کے ساتھ کریں تو یہ مفید رہے گا۔

خواتین کو یہ بتانا مفید رہے گا کہ اگر حضرت نے اس کے بارے میں فرمایا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ واقعی ہم لوگ اس میں حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اپنی خواتین کو بتانا چاہیے کہ وہ بھی اپنے گھر کے اندر ایکسر سائز کا اہتمام کر لیں، عورتوں کے لیے ایکسر سائز الگ ہوتی ہے، اتنی نہیں ہوتی جتنی مردوں کے لیے ہوتی ہے۔ ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ مردوں میں 23 فیصد سے کم fats (لحمیات) ہونے چاہئیں اور عورتوں کے لیے غالباً 35 فیصد سے کم ہونے چاہئیں، اس لحاظ سے مردوں کی ایکسر سائز زیادہ ہوتی ہے اور خواتین کی کم ہوتی ہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ کچھ نہ کچھ حرکت خواتین کو بھی کرنی چاہیے، بالخصوص ہاتھ پاؤں کی حرکت ضرور ہونی چاہیے تاکہ ہاتھ پاؤں آخر وقت تک چلتے رہیں، ورنہ جب انسان اعضاء کو ہلانا جلانا چھوڑ دیتا ہے تو یہ کام چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لئے کسی متقی اور ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں، جیسے وہ بتائیں اس کے مطابق عمل کر لیں بہت فائدہ ہو گا۔

سوال نمبر15:

مراقبہ تجلیات افعالیہ کے اثر کے بارے میں اور تو کچھ پتا نہیں البتہ اپنے اعمال کے زوال کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔

جواب:

آپ فی الحال اسی کو جاری رکھیں اور اللّٰہ پر بھروسہ کی کیفیت کو بڑھانے کی کوشش کریں۔

سوال نمبر16:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت آپ نے کل کے بیان میں نہی عن المنکر کے بارے میں بتایا تھا کہ آج کل اس میں کافی کمی ہے۔ ایک عام انسان اپنے ارد گرد کے لوگوں، اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں کیسے نہی عن المنکر کر سکتا ہے، اس کا کیا طریقہ کار ہے؟ میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ جب میں اپنے ہم عمر لوگوں کو کسی بات سے روکتا ہوں تو وہ اس کو سن تو لیتے ہیں لیکن ان کے چہرے اور اندازِ گفتگو سے لگتا ہے جیسے وہ سوچ رہے ہوں کہ یہ تو ہماری عمر کا آدمی ہے نہ عالم ہے نہ مفتی ہے، اس کی بات پر کیا عمل کرنا۔ جب بڑوں کو کسی بات سے روکوں تو ان کے چہرے کے تاثرات سے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ یہ ابھی چھوٹا ہے، یہ کیا ہمیں بتائے گا۔ اور اگر کسی کو برے کام سے نہیں روکتا تو دل میں یہ بات آتی رہتی ہے کہ میں نے اس کو کیوں نہیں روکا اور ایسا لگتا ہے جیسے میں نے خیانت کی ہو۔ کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اب تک خود کون سا ٹھیک ہوا ہوں جو دوسروں کو ٹھیک کرنے چلا ہوں۔ نہی عن المنکر کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

جواب:

میں نے اپنے بیانات میں یہ بات واضح طور پر بیان کی ہے کہ نہی عن المنکر کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ اس کے لیے حکمت کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے خطابِ خاص چاہیے ہوتا ہے اور بعض لوگوں کے لیے خطابِ عام چاہیے ہوتا ہے کیونکہ وہ خطابِ خاص سے چڑتے ہیں، اگر آپ ان کا نام لیں یا ان کی طرف اشارہ کریں تو وہ اس سے خجلت محسوس کرتے ہیں، اپنی برائی پر مزید پختہ ہو جاتے ہیں اور کئی مرتبہ بحث مباحثہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو خطابِ عام کر لیا کریں۔ جیسے لَعْنَةُ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ“جھوٹوں پر اللّٰہ پاک کی لعنت ہو“۔ اب اس کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بات قرآن میں ہے۔ لہٰذا جب اس قسم کے حالات ہوں تو خطابِ عام کہنا چاہیے، باتوں باتوں میں کسی کی طرف خاص طور پر اشارہ کیے بغیر قرآن کی بات اور حدیث کی بات کرنی چاہیے، کسی کو خاص طور پہ نہیں کہنا چاہیے، اس سے نقصان ہوتا ہے۔

سوال نمبر17:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت کے مزاج بخیر ہوں گے۔ بندہ کو جو ذکر دیا تھا اس کا ایک مہینہ بلا ناغہ پورا ہوا۔ ذکر یہ تھا: 200 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ“ 600 مرتبہ ”حَقْ“ اور 500 مرتبہ ”اَللہُ“۔ 15 منٹ تک مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ۔

جواب:

آپ نے مراقبۂ تجلیاتِ افعالیہ کا کیا اثر محسوس کیا اس کے بارے میں بتا دیں۔

سوال نمبر18:

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ مراقبہ دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ بڑی اچھی بات ہے۔ اس کو جاری رکھیں اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے آپ منع ہو رہے ہیں۔

سوال نمبر19:

Thanks to Allah and all due to Allah, all نفل prayers are offered regularly and Islahi zikar without missing. منزل جدید and مناجات مقبول are also going on regularly, Alhamdulillah. I try hard to offer prayers باجماعت. Left seeing YouTube and Google. Daily کلمہ and درود شریف and استغفار is also going on زبان. Not In contact. I try but sometimes fail and then do استغفار. And this is all only because of برکت of silsila and your prayers.

جواب:

اللّٰہ پاک آپ کو مزید توفیقات سے نوازے۔ مراقبۂ تنزیہ و صفاتِ سلبیہ کا بنیادی اثر یہ ہے کہ اللّٰہ پاک کی ذات تمام عیوب سے پاک ہے، اللّٰہ پاک انسانی صفات سے پاک ہے، اللّٰہ پاک کی شان ان تمام چیزوں سے بلند ہے۔ یعنی ”سُبْحَانَ اللہِ“ کی کیفیت انسان پر زیادہ ظاہر ہو جائے۔ اس کو فی الحال جاری رکھیں۔

سوال نمبر20:

السلام علیکم۔ اللّٰہ آپ کو صحت و تندرستی دے۔ جب سے آپ سے تعلق ہوا ہے زندگی میں بہت تبدیلی آئی ہے، صحت اچھی ہوئی ہے اور اللّٰہ پاک کا قرب حاصل ہوا ہے۔ کیا ایک شیخ کے ہوتے ہوئے دوسرے شیخ کی بیعت ہو سکتی ہے؟

جواب:

شیخ کو تبدیل کرنا بہت بڑی بات ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ کوئی گپ شپ کی بات نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی آدمی کسی غلط شیخ سے بیعت ہوا ہو تو اس کے لیے شیخ تبدیل کرنا لازمی ہوتا ہے۔ کیونکہ بیعت اصلاح کے لیے کی جاتی ہے، یوں ہی سیر سپاٹے کے لیے نہیں کی جاتی۔ لہٰذا اگر کوئی غلط شیخ سے بیعت ہوا ہو پھر تو تبدیلی ضروری ہے، اور اگر کسی کا شیخ صحیح ہے لیکن اس سے مناسبت نہیں ہے، پھر بھی شیخ میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن اس میں کچھ تفصیل ہے، اگر کسی کے ساتھ ایسا مسئلہ ہے، وہ مجھے اس کے بارے میں کچھ بتائے گا تو اس کا جواب دے سکوں گا، کیونکہ اس میں بہت سی معلومات کی ضرورت پڑتی ہے، یہ کافی پیچیدہ معاملہ ہوتا ہے، لہٰذا اس پر فی الحال تو میں کچھ عرض نہیں کرنا چاہتا، البتہ اتنی بات ہے کہ اگر شیخ میں آٹھ نشانیاں نہ پائی جائیں تو پھر شیخ تبدیل کرنا ضروری ہے اور اگر وہ آٹھ نشانیاں موجود ہیں لیکن مناسبت نہیں ہے تو اس میں تفصیل ہے۔

سوال نمبر21:

آپ نے پچھلی دفعہ فرمایا تھا کہ اصل دشمن نفس اور شیطان ہے۔ اگر کسی کو کسی پہ غصہ ہے، اس کے دل میں اس کے بارے میں انتقام وغیرہ کے خیالات آتے ہیں، ایسا آدمی اگر مراقبہ کرے، اپنے نفس اور اپنی ذات کے اندر غور کرے کہ اس کی بنیاد کیا ہے، پھر ”اَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ“ اس کے اسباب پہ غور کرنا شروع کرے۔ کیا یہ صحیح طریقہ ہے؟

جواب:

جی نہیں، یہ طریقہ نہیں ہے۔ نفس کا علاج مراقبات یا ذکر سے نہیں بلکہ مجاہدے سے ہوتا ہے۔ نفس کی مخالفت کو مجاہدہ کہتے ہیں۔ جب تک کوئی اس لائن سے نہ گزرا ہو اس وقت تک اسے اخیار کے طریقے پر عمل کر کے نفس کو قابو کرنا ہوتا ہے۔ اخیار کا طریقہ یہ ہے کہ وقتی طور پر نفس کی اتنی مخالفت کی جائے کہ نفس کی بات پہ عمل نہ ہو پائے۔ مثلاً غصہ کے بارے میں جیسا کہ مسنون طریقہ ہے، بتایا گیا ہے کہ جب غصہ آ جائے اگر آدمی اس وقت کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے، پانی پی لے یا وضو کر لے، یا جگہ تبدیل کر لے، اگر سامنے والا چھوٹا ہو تو اسے اپنے سامنے سے ہٹا دے، اگر بڑا ہو تو خود ہٹ جائے۔ ان طریقوں سے وقتی طور پر اپنے آپ کو غصہ کے نقصان دہ اثرات سے بچایا جا سکتا ہے۔ غصہ کی انتہائی حالت 15، 20 منٹ کی ہوتی ہے، جب یہ پندرہ بیس منٹ عافیت کے ساتھ گزر جائیں تو پھر آدمی خود ہی سنبھلنے لگ جاتا ہے۔ جب تک نفس کی اصلاح نہ ہو اس وقت تک تو یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا اور جب اصلاحِ نفس سے تکمیل ہو جاتی ہے پھر یہ چیز قابو میں آ جاتی ہے۔

سوال نمبر22:

سوال یہ ہے کہ کیا یہ غصہ انسان کے وجود کے اندر خون کی وجہ سے آتا ہے، کیونکہ دیکھا گیا ہے بعض لوگوں کو غصہ نہیں آتا اور بعض لوگوں کو غصہ آ جاتا ہے جب کہ انہوں نے کوئی مربّی بھی رکھا ہوا نہ ہو۔ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب:

غصے کا آنا نہ آنا، یہ طبیعت پر موقوف ہے، بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں غصہ ہوتا ہے اور بعض طبیعتیں ہی ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں غصہ نہیں ہوتا، یہ اللہ پاک کی تقسیم ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کے لیے پیسہ خرچ کرنا آسان ہوتا ہے کسی کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کے لیے مشکل کام کرنے آسان ہوتے ہیں، بعض کے لیے آسان نہیں ہوتے، بعض بزدل ہوتے ہیں بعض بہادر ہوتے ہیں۔ یہ مختلف مزاجوں کی بات ہے، مزاجوں کی تقسیم اللّٰہ پاک نے کی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللّٰہ پاک نے ایک مخصوص راستہ بنایا ہوتا ہے کہ کرنا اس طرح ہے، اگر انسان کے اندر اس راستے پر چلنے میں کمی ہو تو اس کمی کو تربیت کے ذریعے اختیاری طور پورا کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اگر کسی کو غصہ نہیں آتا تو اسے علاج کی ضرورت ہی نہیں ہے، اسے یہ چیز مفت میں ملی ہے لہذا اس کو فکر کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن اگر کسی کو غصہ آتا ہے تو پھر اسے ٹھیک کرنا پڑے گا۔ باقی خون کی گردش تیز ہو جانا، یہ غصے کا اثر ہے، ٓغصہ اس سے نہیں آتا بلکہ غصے سے یہ ہو جاتا ہے، جس کو غصہ آتا ہے اس کا خون جوش مارتا ہے۔ غصہ تو انسان کی قلبی اور ذہنی کیفیت ہے، جس وقت قلب اور ذہن غصے کی کیفیت محسوس کرتے ہیں تو نفس کو ابال آتا ہے۔ غصے کو محسوس تو انسان کا قلب و ذہن کرتا ہے لیکن اس پہ رد عمل نفس کرتا ہے۔ اگر طبیعت غصے والی ہو تو غصہ کا اظہار ہو گا۔ کہا جاتا ہے کہ پٹھانوں کو غصہ زیادہ آتا ہے لہٰذا ان کے لیے یہ مجایدہ زیادہ ہو گا اور ان کو اس میں اجر بھی زیادہ ملے گا۔

اگر اللّٰہ نے کسی کی طبیعت جلالی بنائی ہو تو وہ اپنے غصے کو مثبت طور پر استعمال کرے، اس کا ازالہ نہ کرے بلکہ امالہ کرے یعنی اسے بالکل ختم نہ کرے بلکہ اسے حق کے لیے استعمال کرے۔

مجھے مولانا عزیز الرحمن صاحب کی ایک بات یاد آ گئی۔ ایک شخص بد دعائیں کرتا تھا، وہ اسے کہتے تھے کہ یار مسلمانوں کے لیے بد دعائیں نہ کرو، جو غلط فرقے کے لوگ ہیں اور جو کافر ہیں ان کے لیے بد دعائیں کرو، اپنی بد دعاؤں کا رخ اس طرف کر لو۔

جب حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ مسلمان نہیں ہوئے تھے تو آپ ﷺ کو شہید کرنے کے لیے آ رہے تھے اور جس وقت مسلمان ہو گئے تو ان کی غصہ والی طبیعت کا رخ دوسری طرف مڑ گیا، پھر ہجرت کے وقت اعلان کیا کہ جس نے اپنی بیوی کو بیوہ کرنا ہو، جس نے اپنی ماں کو اپنے اوپر رلانا ہو وہ آ جائے، عمر ہجرت کر رہا ہے۔ دیکھیے غصہ تو ان میں پہلے بھی تھا، بعد میں بھی تھا، غصہ ختم نہیں ہوا تھا بلکہ اس کا اِمالہ ہو گیا تھا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ