اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
حضرت جی، کبھی درس میں، کبھی ممبر پر یا کبھی ویسے کسی کے پوچھنے پر کوئی مسئلہ غلطی سے غلط بتا دیا جائے، بعد میں کتاب کے حوالے کے ساتھ صحیح مسئلہ بتا بھی دیں تو وہ شخص اچھا نہیں سمجھتا اور اتنا ناراض ہو جاتا ہے کہ سلام تک چھوڑ دیتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب میں کون سا ذکر شروع کر لوں؟
جواب:
ذکر لینے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے گذشتہ ذکر بتانا چاہیے تاکہ آپ کو اگلا ذکر بتایا جائے۔ 30 اگست کو آپ نے دو، چار، چھ اور ایک بتایا تھا اس کے حساب سے اب آپ دو، چار، چھ اور تین کر لیں۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم محترم مرشد کریم حضرت صاحب۔ آپ سے ایک خصوصی دعا کی درخواست ہے۔ میری والدہ بہت بیمار ہیں۔ میرے والد صاحب کی صحت تندرستی اور طویل عمر کے لیے دعا فرمائیے۔ میں بہت پریشانی میں ہوں۔ میرا یہ ذکر پابندی کے ساتھ چل رہا ہے:
200 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ“، 600 دفعہ ”حَقْ“ اور 300 مرتبہ ”اَللہُ“۔
جواب:
اللہ پاک آپ کے والدین کو صحت عطا فرمائے۔
ذکر کے حوالے سے آپ کو ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے کہ آپ یہ ذکر کب سے کر رہے ہیں۔ اب 200، 400، 600 اور 500 کی تعداد میں کر لیا کریں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے آپ کی بات سمجھ آ گئی ہے میں اس لیے آپ سے رہنمائی چاہتی ہوں جو سوالات میں نے آپ کو بھیجے ہیں ان کے بارے میں رہنمائی کر دیجیے باقی باتیں میں آپ کو بتاتی رہوں گی، ان شاء اللّٰہ آپ سے رابطے میں رہوں گی۔
جواب:
آپ کی تحریر بہت زیادہ مشکل سے پڑھنے میں آ رہی ہے۔ اتنی طویل بات نہ کیا کریں۔ ایک وقت میں اتنے زیادہ سوال مت پوچھا کریں، صرف ایک دو سوال پوچھا کریں۔ میں آپ کو اپنی ذاتی بات بتاتا ہوں۔ میں بھی ذرا زیادہ لکھنے والا تھا، ایک دن میں نے اپنے شیخ کو کافی لمبا خط لکھا، حضرت نے جواب تو دے دیا لیکن ہمارے بڑے پیر بھائی نے باہر آ کر مجھے بتایا کہ اگر آپ اپنا فائدہ چاہتے ہیں تو اتنا لمبا خط نہ لکھا کریں، اگر شیخ کے دل پہ تکدر آ گیا تو اس سے نقصان کا خطرہ ہے۔
آپ بھی ایک وقت میں ایک صفحے سے زیادہ کا خط نہ لکھا کریں، اور جو ایک صفحے کا خط لکھیں وہ بھی کھلا کھلا ہو، درمیان میں ایک لکیر کھینچیں جس کے ایک طرف نمبر دے کر سوالات لکھیں تاکہ دوسری طرف جواب لکھا جا سکے۔ خیر آج کل ہم سوالات کے جوابات اسی کاغذ پہ لکھ کر تو نہیں بھیجتے اس لیے آپ اتنا ضرور کریں کہ ایک صفحے پر کھلا کھلا لکھ کر بھیجیں تاکہ سمجھ میں آ جائے کہ کیا لکھا ہے۔ اس طرح آپ کو سوالات کے جوابات ملتے جائیں گے۔
سائلہ کی طرف سے جواب
بہت معذرت، کم علمی اور فکر کی وجہ سے لکھ دیا تھا کہ کہیں میری طرف سے (احوال بتانے میں) کوتاہی نہ ہو جائے لیکن اب سمجھ آگئی ہے کہ کیسے اور کتنا لکھنا ہے۔ جزاک اللہ۔
اس کو اسی طرح لکھ دیں سائلہ کا جواب کی ہیڈنگ دے دکر
سوال نمبر4:
حضرت جی، مجھے جو ذکر آپ نے 10 دن کے لیے دیا تھا وہ مکمل ہو گیا ہے۔
جواب:
اس کی تفصیل بتا دیں کہ آپ کو 10 دن کے لیے کون سا ذکر دیا گیا تھا، تب مزید رہنمائی کی جا سکتی ہے۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم حضرت صاحب، میں نے آپ سے بہت عرصہ پہلے سے بیعت کی ہوئی ہے۔
جواب:
آپ نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ آپ کون ہیں اور یہ بیعت کب ہوئی تھی۔ اپنا تعارف بھی کروا دیا کریں۔ اتنے عرصے کے بعد آپ نے میسیج کیا بھی تو ایسا کہ جس کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ آج پتا نہیں کیا مسئلہ ہے۔ اللّٰہ کرے میں یہ بات سب تک پہنچا سکوں کہ خط کیسے لکھنا چاہیے اور WhatsApp کیسے کرنا چاہیے۔ یہ طریقے بتانا بھی ضروری ہے ورنہ لوگ اسی طرح گڑبڑ کرتے رہیں گے۔ اس سے فقط وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ! میں تقریباً ڈیڑھ مہینے سے ذکر کر رہا ہوں، جس میں ایک دفعہ ناغہ ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کام کی وجہ سے بدن اتنا تھکا ہوا تھا کہ میں سو گیا۔ مجھے منزل پڑھنا مشکل لگتا ہے، آدھا وقت پڑھتا ہوں اور آدھا وقت یا تو چھوڑ دیتا ہوں یا صرف آدھی منزل پڑھ لیتا ہوں۔ ثوابی تسبیح پڑھتا رہتا ہوں لیکن وہ بھی مکمل نہیں ہو پاتی۔ ذکر کے بعد مجھے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ میرا ذکر یہ ہے:
200 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حَقْ“ اور 1000 مرتبہ ”اَللہُ“۔
جواب:
آپ سب سے پہلے اپنے اذکار میں پابندی پیدا کریں پھر بتائیے گا کہ آپ کو محسوس ہوتا ہے یا محسوس نہیں ہوتا۔ اس طرح آدھا آدھا ذکر کریں گے تو آپ کو کچھ محسوس نہیں ہو گا، یہ تو نا قدری والی بات ہے، نا قدروں کو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ! میں برطانیہ سے بات کر رہا ہوں۔ میرا یہ ذکر چل رہا ہے:
200 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حَقْ“ اور اس کے ساتھ پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ ہے۔
جولائی 2021 میں صفاتِ ثبوتیہ کی جگہ صفاتِ شیونات کا مراقبہ دیا گیا تھا جو لطیفۂ سرّ سے پندرہ منٹ کا تھا۔ اس معمول کو تقریباً تیرہ مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ آپ نے جولائی میں آخری میسج میں یہ عمل جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ اردو ٹائپنگ میں وقت لگتا ہے اس لیے دوبارہ میسیج کرنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ میں نے آخری میسیج میں اپنا tempo (تسلسل) ٹوٹنے کا ذکر کیا تھا، اب یہ معاملہ کافی بہتر ہے، البتہ سفر میں یا سخت تھکن میں ناغہ ہو جاتا ہے۔ جس دن ذکر چھوٹ جائے، کوئی کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ سخت تھکن یا سفر میں بھی ذکر جاری رکھوں لیکن کبھی ایسا نہیں بھی کر پاتا۔ عام طور پہ ذکر جہری اور مراقبہ الگ کرتا ہوں لیکن جب موقع ہو تب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کر لیتا ہوں۔ پہلے یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ کرنا مشکل تھا تب آپ نے فرمایا تھا کہ الگ الگ بھی کر سکتا ہوں جس کی وجہ سے پابندی ہو گئی۔ خصوصی مراقبہ میں ارتکاز ہو جاتا ہے لیکن قلب کے مراقبہ میں بہت کم ہوتا ہے اور سخت کوفت ہوتی ہے اس وجہ سے مختصر کر دیتا ہوں۔ ایک خصوصی مراقبہ کو پورا وقت دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ کافی وقت سینے میں اللّٰہ اللّٰہ محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی اندر ہی اندر بول رہا ہو یا سوچ رہا ہو، لیکن پانچوں لطائف کے مقام پر مخصوص جگہ پر نہیں محسوس ہوتا۔ روزانہ کی تسبیحات میں کافی پابندی ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت بھی کافی شوق سے کرتا ہوں، تھوڑا پڑھنے کا سوچتا ہوں لیکن زیادہ پڑھ لیتا ہوں۔ نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ نماز کے بعد کچھ دیر کے لیے ہلکی سی حلاوت محسوس ہوتی ہے جو کچھ دیر رہنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے، پہلے یہ حلاوت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ بعض اوقات نفل نماز کا ارادہ نہیں ہوتا صرف حلاوت کی وجہ سے پڑھ لیتا ہوں۔ عام طور پر سنتِ مؤکدہ میں بھی کافی سستی ہے۔ خواب میں گندگی کم نظر آتی ہے۔ کسی نہ کسی ذکر کی خصوصی کوشش کرتا ہوں خاص طور پر استغفار کی۔ زندگی میں کافی مشکلیں آئیں اس لیے اپنے دوستوں سے پیچھے رہ گیا، اس وجہ سے کبھی کبھی مایوسی ہوتی ہے، پتا نہیں یہ حسد ہے یا کچھ اور۔ اللّٰہ کے بارے میں وساوس آتے ہیں، سوچتا ہوں کہ طریقت کوئی چیز نہیں شریعت ہی اصل ہے۔ کسی کو سچی روحانی کیفیت حاصل نہیں ہوتی اور روحانی دنیا کا کوئی وجود نہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں وساوس کے بارے میں الگ میسیج بھیجوں گا۔ مجموعی طور پر ذکر کے اثرات محدود ہیں۔ اپنے اندر خرابی زیادہ نظر آتی ہے جو واقعی ہے بھی۔ ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے طرزِ زندگی یا حالات کی وجہ سے اس سے زیادہ ترقی نہیں کر سکتا اور اگر اتنا ہی عمل تسلسل سے جاری رکھوں تو یہی میری کامیابی ہے۔
جواب:
آپ نے ایک نکتے کی بات کی ہے کہ شریعت اصل ہے اور طریقت کوئی چیز نہیں۔ آپ کی یہ بات سو فیصد صحیح ہے کہ شریعت اصل ہے اور آپ کی یہ بات سو فیصد غلط ہے کہ طریقت کچھ نہیں ہے۔ بس اِس غلط بات کو صحیح کر لیں تو آپ کا کام ٹھیک ہو جائے گا۔ اِس غلط بات کی تصحیح یہ ہے کہ طریقت شریعت کا خادم ہے، اگر آپ کس چیز سے خادم کو ہٹا دیں تو یہ اچھی بات نہیں ہوتی۔
اگر آپ پہلے سے ہی شریعت پر عامل ہیں تو آپ کو ہمارے ساتھ تعلق رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ آپ کو مقصد حاصل ہے اور آپ کامیاب ہیں ہم آپ کو مبارک باد دیتے ہیں، بس آپ شریعت پر چلتے رہیں لیکن اگر آپ شریعت پر عمل میں کچھ کمی محسوس کرتے ہیں، جیسے ابھی آپ نے کچھ غلطیوں کے بارے میں بتایا کہ آپ کو محسوس ہو رہی ہیں۔ غور کریں کہ یہ غلطیاں کس وجہ سے محسوس ہو رہی ہیں؟ یہ اسی طریقت کی برکت ہے کہ آپ کو اپنی غلطیاں محسوس ہو رہی ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ طریقت میں کیا ہوتا ہے؟ طریقت میں یہ ہوتا ہے کہ غلطیوں کے sources (ذرائع) کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں آپ کو آپ ہی کے انداز میں سمجھاتا ہوں اور آپ کے انداز میں ایک فقرہ بولتا ہوں، آپ ڈاکٹر ہیں، اگر میں غلط کہوں تو آپ میری تصحیح کر دیں۔ ”اصل صحت ہے، بیماری کو ٹھیک کرنا کچھ نہیں ہے“۔ اگر میری یہ بات صحیح ہے تو آپ بتا دیں، اگر غلط ہے تب بھی بتا دیں۔ اگر صحیح ہے تو کس وجہ سے صحیح ہے اور اگر غلط ہے تو کس وجہ سے غلط ہے، یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
طریقت بیماری کو ٹھیک کرنے کا طریقۂ کار ہے اور شریعت صحت مندی کے ساتھ اعمال کرنے کا نام ہے۔ اگر کوئی شریعت پر چلتا ہے تو وہ صحت مند ہے، بیمار نہیں ہے، جب وہ بیمار ہی نہیں تو اسے علاج کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن اگر کوئی بیمار ہے تو اس کے لیے علاج ضروری ہے، اس علاج ہی کو ہم طریقت کہتے ہیں۔ آپ جسمانی لحاظ سے اسے ایلوپیتھی کہہ لیں، ہومیوپیتھک کہہ لیں، یونانی علاج کہہ لیں یا حکمت کہہ لیں، جو بھی نام دے لیں ایک بات سب میں مشترک ہے کہ یہ سب بیماری دور کرنے کا ایک Medical treatment ہیں۔ اسی طرح طریقت بھی ایک Medical treatment ہے، چاہے نقشبندی ہو چاہے چشتی ہو چاہے سہروردی ہو چاہے قادری ہو، ہم اس میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ لہٰذا پہلے آپ یہ بات درست کر لیں۔
وسوسے کی کوئی پروا نہ کریں، وسوسے آتے رہتے ہیں بلکہ (نعوذ باللّٰہ) اگر اللّٰہ کے بارے میں بھی وسوسے آ جائیں تب بھی کچھ بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وساوس آپ کی طرف سے نہیں بلکہ شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اگر آپ وساوس کی پروا نہیں کرتے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے اس لیے میں یہی کہوں گا کہ وساوس کی پروا کرنا چھوڑ دیں تو کوئی نقصان نہیں ہو گا اور اگر آپ ان کی پروا کریں گے تو نقصان کا اندیشہ ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ وسوسے بجلی کی تار کی طرح ہیں، اگر ان کو ہٹانے کی نیت سے بھی ہاتھ لگائیں تو نقصان ہو گا۔ لہذا وساوس کی پروا کرنا چھوڑ دیں۔
ذکر میں با قاعدگی رکھیں۔ علاجی ذکر کا فیصلہ اپنے طور پہ نہ کریں بلکہ اس کا فیصلہ اپنے شیخ پہ چھوڑ دیا کریں، جیسے کوئی ڈاکٹر سے علاج کراتا ہے تو دوائی کا فیصلہ ڈاکٹر پہ چھوڑتا ہے، اسی طرح آپ بھی یہ فیصلہ اپنے شیخ پہ چھوڑ دیا کریں۔
شیخ کو اپنا حال پورا بتانا چاہیے جیسے ابھی آپ نے بتایا، اس میں آپ نے کوئی غلطی نہیں کی۔
نوافل پڑھنا بڑی اچھی بات ہے، نوافل کے ذریعے سے ترقی ہوتی ہے اور اتنی زیادہ ترقی ہوتی ہے کہ اللّٰہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس بندے کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ البتہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل نہیں پڑھنے چاہئیں، فرائض و واجبات کے ساتھ ہوں تب یہ کیفیت حاصل ہوتی ہے۔
سب سے زیادہ ضروری چیز ایمان ہے، اگر ایمان نہ ہو تو فرائض بھی کام نہیں دیتے، ایمان کے بعد سب سے زیادہ ضروری چیز فرائض و واجبات ہیں، اگر یہ نہ ہوں تو نوافل کام نہیں دیتے۔ صرف نوافل پڑھنا فرائض و واجبات کو چھوڑنے کی سزا سے بچا نہیں سکے گا۔
آپ کے لیے اتنا جواب کافی ہے۔ سوالات تھوڑے تھوڑے کر کے بھیجا کریں۔ ان شاء اللّٰہ بہت ساری باتوں کی وضاحت ہو جائے گی۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ آج میرا اکتالیسواں دن ہے۔ میں نے آج ہی معمولات کی شیٹ ای میل کی ہے۔ جی چاہ رہا تھا کہ آج بھی 500 مرتبہ والی تسبیح جاری رکھوں جب تک ای میل کا جواب نہیں آتا۔
جواب:
میرے خیال میں آپ 300 اور 200 والی تسبیح کا ذکر کر رہے ہیں، اگر آپ نے یہ مکمل کر لی ہے تو اب یوں کریں کہ تیسرا کلمہ 100 دفعہ، درود شریف 100 دفعہ اور استغفار 100 دفعہ، یہ عمل آپ نے عمر بھر کے لئے روزانہ کرنا ہے، نماز کے بعد والا ذکر بھی عمر بھر کرنا ہے۔ اس کے علاوہ آپ روزانہ یہ ذکر کیا کریں:
”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ“ 100 دفعہ، ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا ھُو“ 100 دفعہ، ”حَقْ حَقْ“ 100 دفعہ، ”اَللہ اَللہ“ 100 دفعہ۔ ایک مہینہ تک روزانہ یہ تسبیحات پڑھیں اور ایک مہینہ بعد مجھے اطلاع کریں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم! حضرت شاہ صاحب میں آپ سے بیعت ہو چکا ہوں، میرے لیے ذکر تجویز فرما دیں۔
جواب:
میں نے آپ کو ایک چیز بھیجی تھی غالباً آپ کو ملی ہی نہیں۔ بہرحال چونکہ آپ پہلے بھی سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ اور سہروردیہ میں کچھ کر چکے ہیں، اس وجہ سے میں عرض کروں گا کہ آپ 40 دن تک روزانہ ایک مرتبہ صلوۃ التسبیح پڑھا کریں۔ 40 دن بعد مجھے اطلاع کریں۔ آپ سے ایک گزارش اور بھی ہے، چونکہ آپ پہلے سے ان سلسلوں سے واقف ہیں، اگر آپ کو موقع ملے تو خانقاہ تشریف لے آئیں، بالمشافہ ملاقات بھی ہو جائے گی اور آپ کو مجھ سے اور مجھے آپ سے تھوڑی سی مناسبت بھی ہو جائے گی جس کے بعد میں زیادہ بہتر طریقے سے آپ کی خدمت میں عرض کر سکوں گا۔
سوال نمبر 10:
شیخ محترم، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
گزشتہ ماہ کے اذکار: قلبی ذکر، لطیفۂ قلب لطیفۂ روح، لطیفۂ سر، لطیفۂ خفی اور لطیفۂ اخفیٰ میں سے پہلے چار لطائف 10 منٹ اور آخری لطیفہ 15 منٹ، کیفیت اچھی ہے۔ اب غصہ نہیں آتا، پہلے سے بہت بہتر محسوس کرتی ہوں، روزانہ کی تسبیحات معمول کے مطابق جاری ہیں، مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔ اللّٰہ ربِ کریم آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے، آمین۔ پچھلے پیر کو آپ کی طرف سے جواب نہیں آیا تھا اس لئے میں بہت پریشان اور فکر مند تھی۔ اگر آپ کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو مجھے معاف کر دیں۔
جواب:
مجھے نہیں معلوم کہ کس طرح جواب رہ گیا تھا، واللّٰہ اعلم۔ بعض دفعہ وٹس ایپ میں میسیج گم ہو جاتا ہے، شاید اسی وجہ سے آپ کو جواب دینا رہ گیا ہو۔ اب آپ اس طرح کریں کہ پانچوں لطائف پہ 10، 10 منٹ ذکر کر لیا کریں، 15 منٹ یہ محسوس کریں اور 15 منٹ کے لیے مراقبۂ احدیت کیا کریں۔ مراقبہ احدیت میں یہ تصور ہوتا ہے کہ یوں تو اللّٰہ پاک کی طرف سے سب کو فیض آتا ہے لیکن سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کی طرف سے آتا ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے سب سے پہلے آپ ﷺ کے پاس فیض آتا ہے پھر وہاں سے شیخ کے پاس آتا ہے اور شیخ کی طرف سے آپ کے لطیفۂ قلب پر آتا ہے۔ فیض ہر وہ چیز ہے جس سے فائدہ ہوتا ہے۔ آپ 15 منٹ کے لیے اس کا تصور کیا کریں۔ ایک مہینہ بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ! آپ نے مجھے Best reward دیا تھا کہ بچوں کو پڑھائیں لیکن پہلے میرے ساتھ طالبات زیادہ تھیں اب انہوں نے کسی دوسرے مدرسے میں حصول علم شروع کیا ہے۔ میں تو صرف دوپہر کو جاتی تھی، وہاں ناظرہ قرآن پڑھاتی تھی۔ اب میرے ساتھ وہاں بچے بچیاں نہیں ہیں۔ میرے لیے مسئلہ یہ ہے کہ میں اب بہشتی زیور کسی کو نہیں پڑھا سکتی، کوئی ہے ہی نہیں جس کو پڑھا دوں۔ جب بھی کسی سے کہتی ہوں تو وہ ہنس دیتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ نہیں پڑھنا چاہتی۔ آپ اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائیں اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
جواب:
میں اس پر آپ کو کوئی چھوٹا سا بیان بھیجوں گا جس سے اس مسئلہ کی وضاحت ہو جائے گی۔ یہ معاملہ صرف آپ کے ساتھ ہی نہیں ہے، سب کے ساتھ یہ مسئلہ ہے۔ اکثر لوگوں کو فرضِ عین علم کے بارے غلط فہمی ہوتی ہے۔
جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے اس کی سب سے زیادہ نا قدری کی جاتی ہے۔ مثلاً ہوا کے بغیر کسی کا گزارا ممکن نہیں ہے، ہوا کو اللّٰہ پاک نے اتنا وافر پیدا کیا ہے کہ اسے کوئی روک ہی نہیں سکتا، وہ خود ہی آئے گی، چاہے آپ دروازے بند کر لیں پھر بھی کسی نہ کسی طریقے سے ضرور آئے گی۔ کیونکہ اللّٰہ پاک نے ہمیں زندہ رکھنا ہے او زندہ رکھنے کے لیے ہوا ضروری ہے، اس لئے اللّٰہ تعالیٰ نے ہوا کو اس طرح پیدا کیا ہے۔ ہوا کا کوئی پیسہ نہیں ہے، ہوا جتنی ضروری ہے اتنی ہی وافر ہے اور جتنی وافر اور ضروری ہے اتنی زیادہ اس کی نا قدری کی جاتی ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ مال دار لوگ Bad quality (گھٹیا معیار) کی ہوا استعمال کرتے ہیں اور غریب لوگ اچھے معیار کی ہوا استعمال کرتے ہیں۔ وہ کھلی جگہوں میں ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کی ہوا بہتر ہوتی ہے، مال دار لوگ اے سی کی ہوا استعمال کرتے ہیں، وہ بار بار استعمال ہوتی ہے اس لئے برے معیار کی ہو جاتی ہے۔ چونکہ ہوا مفت ملتی ہے اس لئے اس کی پروا نہیں ہے۔ ہوا کے بعد سب سے زیادہ اہم چیز پانی ہے، پانی پر بھی بہت کم پیسے لگتے ہیں، اسی لیے تو دودھ میں پانی ڈالتے ہیں کیونکہ پانی پہ پیسے نہیں لگتے، اگر پانی دودھ سے مہنگا ہوتا تو لوگ دودھ میں پانی کیوں ڈالتے۔ اللہ پاک نے یہ چیز وافر مقدار میں پیدا کی ہے۔ پوری دنیا میں تین چوتھائی حصہ پانی ہے اور ایک چوتھائی خشکی ہے۔ آپ مشاہدہ کر لیں کہ پانی جتنا وافر ہے اتنی ہی اس کی نا قدری کی جاتی ہے۔
اسی لیے عرض کرتا ہوں کہ جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہے اس کی سب سے زیادہ نا قدری کی جاتی ہے۔ اگر کسی کو اپنے فرائض و واجبات معلوم نہیں ہیں اور وہ ان کا علم حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تو اس سے بڑا بے وقوف اور کون ہو گا۔ وہ دنیا جہاں کے علوم تو حاصل کر رہا ہے لیکن اسے فرائض و واجبات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ ایک دفعہ ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ وہاں ایک مولوی صاحب بھی موجود تھے جنہیں کالج کے چند طالب علموں نے گھیرا ہوا تھا اور ان سے فضول سوال کر رہے تھے۔ وہ مولوی صاحب بھی جہاں تک ممکن تھا انہیں جواب دے رہے تھے۔ وہاں ایک اور متشرع آدمی موجود تھا وہ بھی ان کے اوپر ہنس رہا تھا اور لڑکے بھی ہنس رہے تھے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں دیکھا تو حضرت کو معلوم ہو گیا کہ یہ طالب علم ویسے ہی ان مولوی صاحب کو تنگ کر رہے ہیں۔ حضرت نے ان لڑکوں سے کہا کہ ان سے نہ پوچھو مجھ سے پوچھو۔ ان طالب علموں نے وہی سوال حضرت کے سامنے دہرا دیا جو ان مولوی صاحب سے پوچھا تھا۔ سوال یہ تھا کہ قطبین پر 6 مہینے کی نمازیں پڑھیں گے یا ایک دن کی نماز پڑھیں گے؟ کیونکہ وہاں 6 مہینے رات ہوتی ہے اور 6 مہینے دن ہوتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کا جواب دینے سے پہلے میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم قطبین جا رہے ہو یا قطبین سے آ رہے ہو؟ یہ سن کر وہ چپ ہو گئے کیونکہ نہ تو وہ قطبین جا رہے تھے نہ قطبین سے آ رہے تھے۔ حضرت نے مزید ان سے یہ فرمایا کہ اب میں آپ سے اس چیز کے بارے میں پوچھتا ہوں جس کی روز مرہ کی بنیادوں پہ ضرورت ہوتی ہے۔ آپ بتائیں کہ آپ کو ایسے کتنے فرائض اور کتنے واجبات معلوم ہیں جو آپ کو روز کرنے ہوتے ہیں؟ ان کے بارے میں تو آپ کو معلوم ہی نہیں اور جس چیز کی آپ کو کبھی ضرورت پیش نہیں آئی اس کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟ ایسا نہیں ہے کہ مجھے تمہارے سوال کا جواب نہیں آتا، مجھے اس کا جواب آتا ہے لیکن پہلے میں تمہارے کان کھول رہا ہوں۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میرا ایک اور سوال ہے کہ اگر تمہاری سرکاری ڈیوٹی قطبین پر لگ جائے تو 6 مہینے کی تنخواہ لو گے یا ایک دن کی؟ انہوں نے کہا: 6 مہینے کی۔ فرمایا: پھر نمازیں بھی 6 مہینے کی پڑھنی پڑیں گی اور طریقہ ہم بتا دیں گے۔
اس کے بعد حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس متشرع آدمی کی طرف متوجہ ہوئے جو ان مولوی صاحب پہ ہنس رہا تھا، اور اس کی خوب خبر لی، فرمایا: تم سے یہ توقع نہیں تھی، تمہیں تو ان کی مدد کرنی چاہیے اس کے بجائے تم الٹا ان پہ ہنس رہے تھے!
در اصل لوگوں کے پاس فرض عین علم ہے ہی نہیں لیکن وہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ سب سے پہلے یہی چیز حاصل کرنی چاہیے اس کے بعد کچھ اور سوچنا چاہیے۔ لہٰذا اس کے بارے میں آپ اپنے آس پاس مزید تلاش کر لیں۔ اگر آپ کو دو تین اخلاص والی خواتین مل جائیں جو اس کی ضرورت سمجھتی ہوں تو ان کو پڑھانا شروع کر دیں۔ آپ ان کو بہشتی زیور کا نہ بتائیں بلکہ یہ کہیں کہ فرض عین علم جو سب پر فرض ہے میں وہ آپ کو پڑھانا چاہتی ہوں۔ اگر آپ پہلے ہی بہشتی زیور کا کہیں گی تو وہ کہیں گی کہ بہشتی زیور تو ہم بھی پڑھ سکتی ہیں۔ بات یہ ہے کہ پڑھ تو سکتی ہیں لیکن پڑھتی نہیں ہیں۔ اب اگر کوئی کہے کہ ہم بھی پڑھ سکتی ہیں تو ان سے کہیں کہ ٹھیک ہے میں تمہارا امتحان لیتی ہوں کہ تم نے صحیح پڑھا ہے یا نہیں پڑھا، اور اگر نہیں پڑھا تو مجھ سے سیکھو۔ بہرحال آپ اس کے لیے محنت کریں، ان شاء اللّٰہ، اللّٰہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں گے۔
سوال نمبر12:
حضرت السلام علیکم
Reminder for next zikar. I have been reciting اللّٰہ اللّٰہ
9000 times followed by یا اللّٰہ یا سبحان یا عظیم یا رحمن یا رحیم یا وہاب یا ودود یا کریم یا شافی یا سلام hundred times followed by یا ارحم الراحمین ten times followed by 15 minutes مراقبہ احدیت. This is in addition to muraqba on five points تسبیحات 200 plus 400 plus 600 plus 100. Kindly advise next zikar.
جواب:
میرے خیال میں ابھی اچھا موقع ہے کہ آپ خود تشریف لائیں۔ آپ کے ساتھ مزید گفتگو کر کے آپ کو بتاؤں گا۔ فی الحال اس کو چلائے رکھیں۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، جناب محترم شاہ صاحب اللّٰہ پاک آپ کو عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔ آپ نے خواتین کے لیے جو ذکر دیا تھا، یعنی تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار، لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹۂ لطیفۂ سر 10 منٹ، لطیفۂ خفی 10 منٹ اور لطیفۂ اخفیٰ 15 منٹ۔ 19 اکتوبر کو ان کا وقت پورا ہوا۔ آئندہ کے لیے کیا حکم ہے۔
جواب:
اب ان کو یہ بتا دیجیے کہ تمام لطائف پر 10 منٹ کے لیے ذکر محسوس کریں اور مراقبہ احدیت 15 منٹ کے لیے کریں۔ مراقبہ احدیت یہ ہے کہ فیض ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے فائدہ ہوتا ہو، سب سے اول فائدہ پہنچانے والے اللّٰہ پاک ہی ہیں، اللّٰہ جل شانہ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف فیض آتا ہے اور آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آتا ہے اور شیخ سے مرید کے لطیفۂ قلب پر آتا ہے۔ یہ مراقبہ احدیت ہے، ایک مہینے کے لیے اسے کریں۔ ذکر سے پہلے جو ہم دین کی باتیں کرتے یا سنتے تو دل پر تنگی چھا جاتی تھی لیکن اب الحمد للّٰہ دین کے بیانات میں خشوع اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم حضرت، آپ نے جو اذکار دیئے ہیں ان کا ایک مہینہ مکمل ہو چکا ہے۔ اذکار یہ ہیں: 200 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ“، 600 دفعہ ”حَقْ“ اور 7000 مرتبہ ”اَللہُ“۔ اس کے ساتھ 5 منٹ تصور کرنا تھا کہ دل ”اَللہ اَللہ“ کر رہا ہے۔ ذکر محسوس نہیں ہوتا۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
چونکہ ابھی ذکر محسوس نہیں ہوتا اس لیے ابھی ”اللّٰہ اَللہ“ ساڑھے سات ہزار مرتبہ کریں، باقی ذکر کی وہی ترتیب باقی رکھیں۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم حضرت میں آپ کی ہدایات کے مطابق ذکر کر رہا ہوں۔ آپ نے مجھے تین ہفتوں تک موبائل سے دور رہنے کو کہا تھا، تین ہفتوں کا عرصہ ہو چکا ہے، اس دوران میں تین بار اپنے کام سے پھسل گیا۔ میں ایسی سر گرمی سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں، ان شاء اللّٰہ اس پر قابو پاؤں گا۔ میں رات کو نہیں سوتا تھا جس کی وجہ سے یہ معمول بن گیا ہے کہ پوری رات بیدار ہوتا ہوں اور صبح پانچ بجے سے صبح گیارہ بجے تک اپنی نیند مکمل کرتا ہوں۔ براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
آپ چونکہ مکمل وقت موبائل سے دور نہیں رہ پاتے اور پھسل جاتے ہیں اس لئے آپ ایسا کریں کہ اپنا موبائل سم وغیرہ نکال کر کسی اور کو دے دیں، کہیں محفوظ رکھوا دیں خود اپنے پاس نہ رکھیں۔ اگر خود موبائل رکھنا ہو تو سادہ موبائل میں سم ڈال لیں۔ کسی بھی صورت سمارٹ فون اپنے پاس نہ رکھیں۔ یہ جو رات کو نہ سونے کا آپ کا معمول بن گیا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں ذرا تفصیل بتا دیجئے۔
سوال نمبر16:
السلام و علیکم
My name is fulan. I am MBA student living in Azad Kashmir. I lost my mother in 2005 earthquake. That time, I was two years old. I want to have spiritual relation with you kindly guide me.
جواب:
آپ اس طرح کر لیں کہ کل پاکستانی وقت کے مطابق ٹھیک 3 بجے مجھے لینڈ لائن پر ٹیلی فون کر لیں۔ میرا نمبر یہ ہے: 0515470582
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ۔ حضرت جی میرا وظیفہ 3000 مرتبہ ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ زبان پر، 3 مرتبہ آیت الکرسی اور آدھا گھنٹہ مراقبہ دل پر ہے۔ دل میں کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ 3 مہینے سے میں نے آگے وظیفہ نہیں لیا، مجھ سے وظیفہ رہ بھی گیا، اب الحمد للّٰہ پھر سے معمولات شروع کر لیے ہیں۔ حضرت جی میری ساس آپ کے ساتھ بیعت ہیں انہوں نے 40 دن کا وظیفہ پورا کر لیا ہے، اب بھی وہی کر رہی ہیں، میں نے ایک دو ہفتے پہلے میسیج کیا تھا لیکن ہم دونوں کو نیا وظیفہ نہیں ملا، اب ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ حضرت جی کوتاہیوں پر معافی چاہتی ہوں۔
جواب:
آپ کے وظیفہ میں آدھا گھنٹہ مراقبہ کس چیز کا تھا، اس کے بارے میں تفصیل بتا دیں، وہ صرف ”اَللّٰہ اَللّٰہ“ کا تھا یا اس میں کچھ اور چیزیں بھی تھیں؟ بہرحال اب آپ ساڑھے تین ہزار مرتبہ ”اللّٰہ اللّٰہ“ کا ورد شروع کر لیں اور باقی چیزیں ویسے ہی رکھیں۔
اپنی ساس کو روزانہ 5 منٹ کے لئے لطیفۂ قلب کے اوپر ذکر محسوس کرنے کے بارے میں بتا دیں۔ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار کا ورد 100 100 مرتبہ روزانہ کرنا ہے، نماز کے بعد والا ذکر بھی جاری رکھنا ہے۔ یہ دو چیزیں تو عمر بھر جاری رہیں گی البتہ لطیفۂ قلب والے معمول کو ایک مہینہ کرنے کے بعد اطلاع دیں۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم حضرت جی، 200 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ“، 400 مرتبہ ”لَاۤ إِلٰہَ إِلَّا ھُوْ“، 600 مرتبہ ”حَقْ“ اور 3000 مرتبہ ”اَللہُ“۔ یہ ذکر کرتے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہو چکا ہے۔ بخار کی وجہ سے کچھ دن ذکر نہیں ہوا۔ پہلے آپ نے ”حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ نِعْمَ الْمَوْلىٰ وَنِعْمَ النَّصِيْرُ“ 111 مرتبہ پڑھنے کی اجازت دی تھی، اس کو دوبارہ شامل کر دیجئے۔ جب میں ”اَللہ“ کی تسبیح کرتا ہوں تو بوجھ پڑتا ہے۔
جواب:
ان شاء اللّٰہ العزیز یہ بوجھ کم ہو جائے گا لیکن اس کے لیے آپ کو کچھ محنت کرنی پڑے گی، یہ بوجھ آپ کو صرف اس بات کی یاد دلا رہا ہے کہ آپ کو گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ ابھی آپ اس طرح کر لیں کہ 200، 400، 600 اور 3500 مرتبہ ذکر کر لیا کریں۔ اور اگر آپ 111 مرتبہ ”حَسْبُنَا اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ نِعْمَ الْمَوْلىٰ وَنِعْمَ النَّصِيْرُ“ کا ورد کرنا چاہتے ہیں تو یہ جاری رکھیں۔ ایک مہینہ بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر19:
السلام علیکم حضرت میرے اندر خود اعتمادی کا مسئلہ ہے اس کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں۔ نیز خود اعتمادی اور فخر میں فرق کیسے کریں اور اس سے کیسے بچا جائے؟
جواب:
آپ نے کہا ہے کہ ”میرے اندر خود اعتمادی کا مسئلہ ہے“۔ یہ آپ نے ذو معنیٰ لفظ استعمال کیا ہے، اتنی بات سے آپ کا درست مسئلہ معلوم نہیں ہو رہا۔ یہ بات واضح نہیں ہو رہی کہ آیا آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ میں خود اعتمادی ہے، یا پھر آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ میں خود اعتمادی نہیں ہے۔ آپ مجھے اس کے بارے میں بتائیں کہ آپ کس چیز کو مسئلہ کہہ رہے ہیں۔ مثلاً میں کہتا ہوں کہ مجھے پیسے کا مسئلہ ہے، اس سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ پیسہ ہونے سے مسئلہ ہے یا نہ ہونے سے مسئلہ ہے۔ اسی طرح آپ کی بات سے بھی وضاحت نہیں ہو رہی لہٰذا پہلے آپ یہ بات بتا دیں کہ آپ اپنے اندر خود اعتمادی محسوس کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ اس کے بعد میں آپ کو اس بات کا صحیح جواب دے سکتا ہوں۔
خود اعتمادی اور فخر میں فرق کے بارے میں عرض ہے کہ خود اعتمادی یہ ہے کہ اللّٰہ کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے جس ہمت کی ضرورت ہو انسان وہ ہمت اپنے اندر پائے، یہ خود اعتمادی ہے۔ اگر ان صلاحیتوں پہ ناز کرے، دوسروں کو کمتر سمجھے تو یہ فخر ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
”أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلَا فَخَرَ“ (صحیح مسلم: 5940)
ترجمہ: ”میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور (مجھے) اس پر کوئی فخر (غرور) نہیں ہے“۔
لہٰذا اللہ پاک کی نعمتوں کا شکر ضرور ادا کریں لیکن اس پہ فخر نہ کریں۔
(سائل کی طرف سے وضاحت آئی ہے وہ فرما رہے ہیں کہ میرا مطلب یہ ہے کہ مجھ میں خود اعتمادی نہیں ہے۔)
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسان کے اندر خود اعتمادی کیسے آ سکتی ہے۔ اگر انسان اللّٰہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو نظر انداز کرے تو اس میں ہمت کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بے اعتمادی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً اللّٰہ پاک نے ہمیں آنکھیں دی ہیں، کان دیئے ہیں، زبان دی ہے، دماغ دیا ہے الغرض اللّٰہ پاک نے ہمیں ساری چیزیں دی ہیں۔ یہ نعمتیں دینے کے ساتھ ساتھ اللّٰہ جل شانہ نے ہمیں ان کو استعمال کرنے کا موقع بھی دیا ہے۔ ان نعمتوں کو استعمال کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ شریعت سے ان کا صحیح استعمال سمجھ کر ہمت کے ساتھ ان نعمتوں سے کام لینا چاہیے اور بھروسہ اللّٰہ پہ کرنا چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ میری مدد فرمائیں گے۔ جتنا جتنا آپ کا بھروسہ اللّٰہ تعالیٰ پہ بڑھتا جائے گا اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کے استعمال میں آپ کی اتنی اتنی ہمت بڑھتی جائے گی، یہی خود اعتمادی ہے۔ اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو خود اعتمادی نصیب فرمائے۔ (آمین)
سوال نمبر20:
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
نمبر 1:
تمام لطائف پہ 5 منٹ ذکر، مراقبہ حقیقتِ کعبہ 15 منٹ۔ خانہ کعبہ کی زیارت کا شوق دل میں بڑھ گیا ہے اور کچھ خاص محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو خانہ کعبہ کی زیارت کا شوق نصیب فرمائے۔ آپ اس کے فیض کا تصور کیا کریں کہ میرے دل پر خانہ کعبہ کا فیض آ رہا ہے کیونکہ اگرچہ انسان ہر وقت خانہ کعبہ میں نہیں ہو سکتا لیکن اس کا فیض ہر وقت آ سکتا ہے۔ لہٰذا آپ اس کا تصور کر لیں کہ خانہ کعبہ کا فیض آ رہا ہے بالخصوص نمازوں کے اوقات میں یہ تصور کیا کریں۔
نمبر 2:
تمام لطائف پہ 5 منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ کعبہ 15 منٹ۔ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھ گیا ہے، ہر کام کے لیے نماز پڑھتی ہوں جس سے وہ آسان ہو جاتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ پر توکل بڑھ گیا ہے۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ یہ بہت اچھی بات ہے، ابھی آپ اسی کو جاری رکھیں۔
نمبر3:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ قرآن 15 منٹ۔ قرآن پاک کی تلاوت میں مزہ محسوس کرتی ہوں، تجوید کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کو سننا پسند کرتی ہوں اور قرآن میں عجائب و غرائب کا مشاہدہ کرتی ہوں۔
جواب:
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کے بارے میں اتنا سمجھیں کہ یہ اللّٰہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے کہ یہ اللّٰہ کا کلام ہے جو ہمارے درمیان موجود ہے۔ اس کے دو حق ہیں ایک یہ کہ یہ محبوب کا کلام ہے، اس وجہ سے اس کو پڑھنے میں محبوب کا تصور ہونا چاہیے کہ میں اس کو خوش کرنے کے لیے پڑھ رہی ہوں، دوسرے یہ تصور کیا کریں کہ یہ اللّٰہ پاک کا پیغام ہے، اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مجھے کیا بتایا جا رہا ہے، اللّٰہ پاک مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ ان دو حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے تلاوت کیا کریں۔
نمبر 4:
تمام لطائف پہ 5 منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ کعبہ 15 منٹ۔ کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
آپ خانہ کعبہ کا فیض محسوس کرنے کی کوشش کریں، نماز کے وقت یہ تصور کریں کہ وہ فیض آ رہا ہے۔ یہ توجہ الی اللّٰہ ہی ہے کیونکہ مسجودِ حقیقی اللّٰہ تعالی ہے، خانہ کعبہ تو مسجودِ مجازی ہے۔ اس مسجودِ مجازی کی طرف توجہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ کو اس طرف توجہ کرنے سے اللّٰہ پاک کی طرف توجہ محسوس ہو جائے۔ میں آپ کو اس کا آسان حساب بتاتا ہوں۔ حدیث پاک میں آتا ہے:
”اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا وَاَشَارَ اِلَی الْقَلْبِ“ (مسلم: 2564)
ترجمہ: ”تقوٰی یہاں ہے اور دل کی طرف اشارہ فرمایا“۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقوٰی گوشت پوست کے دل میں ہے یا اس جگہ پر جو روحانی دل ہے اس میں ہے۔ جواب ظاہر ہے کہ یہاں روحانی دل مراد ہے لیکن اشارہ تو جسمانی دل کی طرف ہی ہو گا۔ اسی طرح جب آپ خانہ کعبہ کی طرف سے اپنی طرف فیض کے آنے کا تصور کرتی ہیں تو در اصل یہ فیض اللہ کی طرف سے ہی آ رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ خانہ کعبہ بذات خود پتھروں کا گھر ہے لیکن وہ کوئی عام گھر نہیں ہے، بہت سارے پتھروں کے گھر ہیں ممکن ہے بظاہر خوبصورت بھی بہت ہوں لیکن جو چیز اس پتھروں کے گھر (خانہ کعبہ) کے اندر ہے وہ کسی اور جگہ نہیں ہے۔ در اصل خانہ کعبہ سے مراد وہ پتھروں کا گھر نہیں بلکہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ پاک کی تجلی اترتی ہے۔ اگر وہاں دیواروں اور پتھروں وغیرہ سے بنی عمارت نہ ہو تب بھی وہ کعبہ ہی ہو گا اور اسی کی طرف رخ کیا جائے گا کیونکہ تجلیِ باری تعالیٰ وہاں اترتی ہے۔ اگر وہاں عمارت ہے بھی تو وہ صرف اور صرف اشارہ کرنے کے لیے ہے کہ اس تجلی مسجودی کی طرف اشارہ ہو سکے جو اس کے اندر ہے۔ آپ کو بس اس کا فیض محسوس کرنا ہے۔
نمبر 5:
تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ معیت دن میں 3 مرتبہ 10 ,10 منٹ۔
جواب:
ماشاء اللّٰہ ٹھیک ہے، بہت اچھی بات ہے۔ اسی کو جاری رکھیں۔
نمبر6:
چار مہینے مسلسل مراقبہ کر لیا ہے نیک اعمال کی رغبت بڑھ گئی ہے۔
جواب:
میرے خیال میں نیک اعمال آپ نے پورے نہیں کیے ہوں گے۔ اسی کو جاری رکھیں ان شاء اللّٰہ اور بھی ملیں گے۔
نمبر7:
ہم سب نو مہینے سے مراقبہ حقیقتِ کعبہ کر رہی ہیں۔
جواب:
اللّٰہ تعالیٰ اس کے فیوض و برکات پے در پے نصیب فرمائے۔ (آمین) ہمیں بھی دعاؤں میں یاد رکھیں)۔
سوال نمبر21:
حضرت یہ جو مراقباتِ مشارب ہیں جیسے حقیقت کعبہ، حقیقت قرآن اور حقیقت صلاۃ وغیرہ، یہ تمام سلاسل میں ہیں یا سلسلہ نقشبندیہ میں ہی ہیں؟ دوسرا یہ کہ کیا طریقت کی تکمیل کے لیے یہ ضروری بھی ہیں یا اضافی ہیں؟
جواب:
یہ مراقباتِ مشارب حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پہلے سلسلہ نقشبندیہ میں بھی نہیں تھے، یہ حضرت نے بنائے ہیں۔ حضرت کو کام کے لئے جو زمانہ اور وقت ملا تھا وہ مسلمانوں کے لیے انتہائی انارکی کا وقت تھا، مسلمانوں کے عقائد پر حملے ہو رہے تھے، شریعت میں نئی نئی چیزیں داخل ہو رہی تھیں اور ان کو با قاعدہ نافذ کیا جا رہا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان مراقبات وغیرہ کے ذریعے عقائد کو پکا کرنے کی کوشش کی ہے اور اللّٰہ پاک سے لینے کے ان ذرائع سے تمسک کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ مشارب میں پہلا مشربہ قلب والا ہے، اس میں تجلیات افعالیہ کا مراقبہ ہے۔ تجلیات افعالیہ در اصل اس بات کا تصور کرنا اور سوچنا ہے کہ سب کچھ اللّٰہ کر رہا ہے اور یہ پہلے سے ہی ہمارا عقیدہ ہے، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے، بس اس کا استحضار ہونا چاہیے، اس استحضار کے لیے اس مراقبہ کو مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اللّٰہ پاک کی صفاتِ ثبوتیہ کا مراقبہ ہے۔ اللہ پاک کی صفات کو تو سب مسلمان پہلے سے ہی مانتے ہیں، صرف ان صفات کے استحضار کے لیے یہ مراقبہ بنایا گیا ہے۔ اگر ہم اللّٰہ پاک کی صفات کا استحضار کر لیں تو اللّٰہ جل شانہ کے سامنے اپنی موجودگی کا احساس ہو جائے گا جو کہ ضروری ہے، مراقبہ سے یہ چیز حاصل ہو جائے گی۔ اس کے بعد شیوناتِ ذاتیہ کا مراقبہ ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ صفات میں پھنسیں نہیں بلکہ اللّٰہ کی ذات کے ساتھ تعلق مضبوط ہو۔ اس کے بعد صفاتِ سلبیہ اور تنزیہ کا مراقبہ ہے جس میں اس بات کا تصور اور استحضار کیا جاتا ہے کہ اللّٰہ جل شانہ ہماری طرح نہیں ہیں، اللّٰہ پاک کے بارے میں میرا جو خیال ہو گا وہ وہی ہو گا جو میں دیکھ رہا ہوں یا سن رہا ہوں، اور اللہ پاک میرے دیکھنے اور سننے کے مطابق نہیں ہیں، وہ کسی کے خیال اور تصور میں آ ہی نہیں سکتے۔ حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی توجہ اس بات کی طرف تھی کہ خالق اور مخلوق میں مغائرت کا استحضار کرایا جائے کہ اللّٰہ پاک ہماری طرح نہیں ہیں، کسی مخلوق کی طرح نہیں ہیں بلکہ وہ وراء الوراء ذات ہے، اس کی صفات کامل ہیں اور جو مخلوق کی صفات ہیں، ضروری نہیں کہ وہ اللّٰہ پاک کی ہوں۔ مثلاً انسان کھاتا ہے اللّٰہ پاک نہیں کھاتے، انسان پیتا ہے اللّٰہ پاک نہیں پیتے، انسان سوتا ہے اللّٰہ پاک نہیں سوتے، انسان کو شادی کی ضرورت ہے، اللہ پاک کو ایسی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تنزیہ ہے، اس میں ہم خالق اور مخلوق کے درمیان مغائرت کو سامنے لاتے ہیں۔ اس کے بعد شان جامع کا مراقبہ ہے۔ اس میں ان تمام چیزوں کا مجموعی طور پر مراقبہ اور استحضار کرایا جاتا ہے۔ اس کے بعد مراقبہ احدیت ہے جس میں یہ استحضار کیا جاتا ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے نبی کریم ﷺ کی طرف فیض آ رہا ہے اور نبی کریم ﷺ کی طرف شیخ کے دل پر اور وہاں سے مرید کے دل پر فیض آ رہا ہے۔ کیونکہ اللہ پاک ہی سب چیزیں سب کو دیتے ہیں، فیض بھی سب سے پہلے اللّٰہ ہی کی طرف سے آتا ہے، اور سب سے پہلے آپ ﷺ کی طرف آتا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ بے شک میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ پاک دینے والے ہیں۔ انسان کے لیے فیض حاصل کرنے کے معاملہ میں سب سے بڑا ذریعہ شیخ ہوتا ہے، اس لیے نبی کریم ﷺ کی طرف سے وہ فیض شیخ کی طرف آتا ہے پھر شیخ سے مرید کے لطیفۂ قلب پہ آتا ہے۔ تو یہ مراقبہ احدیت تھا جس میں ان سب کو ایک لڑی میں پرو دیا گیا۔
اس کے بعد دوسرے مراقبات آ جاتے ہیں جن میں مراقبہ حقیقتِ قرآن ہے، مراقبہ حقیقتِ صلاۃ ہے، مراقبہ حقیقتِ کعبہ ہے۔ یہ سب مراقبات در اصل ان چیزوں کو ہمارے اندر مستعد اور بیدار کرنے کے ذرائع ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے اللہ پاک کی تجلیاں نازل ہوتی ہیں، نماز پڑھتے ہوئے اللہ پاک کی طرف سے رحمتیں اترتی ہیں اور خانہ کعبہ پر اللہ کی رحمتیں اور تجلیاں نازل ہوتی رہتی ہیں، یہ سب باتیں ہمیں معلوم ہے لیکن ان کے مراقبات کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ان رحمتوں کا احساس اور استحضار ہو جائے۔ حقیقتِ کعبہ کے بعد مراقبہ حقیقتِ قرآن ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پہ کافی باتیں فرمائی ہیں کہ قرآن پاک اللّٰہ کا کلام ہے اور اللّٰہ کا کلام اللّٰہ کی صفت ہے، ہمارے درمیان اللہ کے کلام کے موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ کی صفت ہمارے درمیان موجود ہے، جب یہ اللہ کی صفت ہے تو یہ کائنات کی چیز نہیں بلکہ یہ مرتبہ وجوبی کے ساتھ ہے۔ اس مراقبہ کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ادراک ہو جائے کہ قرآن کے ذریعے سے ہم اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کیسے تعلق جوڑ سکتے ہیں۔ اس کے بعد حقیقتِ صلاۃ کا مراقبہ ہے۔ یہ عبدیت پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ نماز کے ذریعے سے انسان کے اندر بندگی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس مراقبہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ چیز ہمارے اندر آ جائے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مشارب اور مراقبات ہمارے عقائد کو پکا کرنے کے لئے بنائے ہیں۔ دوسرے حضرات یہ مراقبات اپنے طریقوں سے کرتے ہیں، جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے نقشبندی حضرات دوسرے طریقوں سے یہ چیزیں حاصل کیا کرتے تھے، ان کی اصلاح بھی ہو جاتی تھی۔ اُن حضرات کے وقت میں وہی مناسب اور ضروری تھے اس لیے انہوں نے وہ طریقے اختیار کیے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں یہ طریقے زیادہ مناسب تھے لہٰذا حضرت نے یہ طریقے اختیار کر لیے۔ یہ مراقبات وغیرہ ہر سلسلے کے الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ چشتیہ سلسلے میں دوسرے لطائف نہیں ہیں ان کے ہاں لطیفۂ قلب ہی اصل لطیفہ ہے اور وہ اسی کے ذریعے روحانیت حاصل کر لیتے ہیں۔ اصل مقصد روحانیت کو حاصل کرنا ہے، کسی کو روحانیت حاصل ہو جائے، چاہے ان لطائف کا نام بھی نہ آتا ہو نہ ان کے مقامات کا پتا ہو تب بھی سمجھا جائے گا کہ اس کو مقصد حاصل ہو گیا۔ اگر کسی آدمی کو نظر نہ آتا ہو لیکن اس کے جسم کے ذرہ ذرہ کا اللّٰہ کے ساتھ تعلق ہو چکا ہو تو اسے ان اصطلاحات کے نہ جاننے کا کوئی نقصان نہیں ہے۔
گویا کہ طریقۂ کار کا فرق ہے۔ بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ مراقبات نقشبندی حضرات میں زیادہ ہوتے ہیں۔ میں کہتا ہوں خدا کے بندے ہم نے تو دوسروں کو بھی مراقبات کرتے ہوئے دیکھا ہے، ان کے بھی مراقبات ہیں لیکن وہ الگ طریقے سے ہیں، جو جس طریقے سے چل رہا ہے ٹھیک ہے۔
سوال نمبر22:
ایک آدمی کسی شیخ سے بیعت ہے، کیا وہ کسی دوسرے شیخ کے اجتماع میں یا ان کے جوڑ میں جا سکتا ہے یا شیخ کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا؟
جواب:
ایسے معاملات میں ایک کسوٹی کو مد نظر رکھنا چاہیے، اور وہ ہے توحیدِ مطلب۔ اگر توحیدِ مطلب کو نقصان نہیں ہوتا تو جا سکتا ہے اور اگر توحید مطلب کو نقصان ہوتا ہے تو بالکل نہیں جانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سوچ اور مزاج کا فرق ہے، بعض حضرات دل پھینک ہوتے ہیں جہاں جائیں بس وہاں کے ہو جاتے ہیں، ان کو کسی جگہ سے بھی کچھ نہیں ملتا۔
ہماری پشتو میں ایک کہاوت ہے جس کا اردو میں مفہوم ہے کہ "بہت سارے گھروں کا مہمان بھوکا سوتا ہے"۔ اگر کسی کے ساتھ بھی رابطہ پکا نہیں ہے تو ہر ایک اس کو دوسرے کا سمجھتا ہے، ایسے آدمی کو کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا یہ بات پختہ طور پہ مد نظر رکھنی چاہیے کہ اگر توحید مطلب برقرار ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، جو آدمی توحیدِ مطلب پر پختہ ہے تو وہ دوسری جگہ صرف صحبتِ صالحین کی نیت سے جائے گا لیکن اس سے تربیت کی کوئی بات نہیں پوچھے گا، تربیت کا معاملہ صرف اپنے شیخ سے رکھے گا۔
میں یہاں مولانا عزیز الرحمن صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا کیونکہ ہمارا گھر حضرت کی قیام گاہ کے ساتھ ہی تھا۔ میں نے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت کیا میں ان کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں؟ فرمایا: ہاں صحبتِ صالحین کی نیت سے بیٹھ سکتے ہو۔ لہٰذا میں ان کی مجلس میں صحبتِ صالحین کی نیت سے بیٹھا کرتا تھا۔ میرا مقصد صرف یہی تھا، تربیت والی کوئی بات نہ میں نے پوچھنی تھی نہ انہوں نے بتانی تھی۔ اسی طرح مفتی مختار الدین شاہ صاحب، نواب قیصر صاحب اور دوسرے کئی مشائخ کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا رہا، ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب کے خلیفہ تھے، وہ کراچی میں ہوتے تھے، جب میں کراچی گیا تو حضرت کی خدمت میں بھی حاضر ہوا، واپس آ کر اپنے شیخ کو بتایا کہ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاں بھی جانا ہوا تو میرے شیخ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مجھے بتا کر جاتے، میں بھی سلام کے لیے کہتا۔
لہٰذا اگر توحیدِ مطلب سلامت رہے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صرف صحبتِ صالحین کی نیت ہو تو کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن اگر اِس چیز میں ذرہ بھر بھی مسئلہ آتا ہو تو پھر نقصان ہوتا ہے۔
سوال نمبر23:
آپ ﷺ کے دل کا نور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ملتا تھا کیونکہ وہ براہ راست آپ ﷺ کے سامنے بیٹھے ہوتے تھے۔ ہمیں آپ ﷺ کے دل کا نور یا فیض شیخ کے ذریعے ملتا ہے۔ فیض اور نور میں کیا فرق ہے کیا ایک ہی چیز ہیں؟
جواب:
اصل چیز فیض ہے، فیض کسی بھی صورت میں ہو سکتا ہے، نور کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جو لوگ نور کی بات کرتے ہیں، بعض دفعہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فیض کی صرف یہی صورت ہے اور کوئی صورت نہیں ہے، ایسے لوگ خواہ مخواہ وہموں میں پڑ جاتے ہیں۔ اصل چیز فیض ہی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے صحابہ کرام نے فیضِ صحبت لیا، پھر ان کی صحبت کا فیض تابعین نے لیا، تابعین سے صحبت کا فیض تبع تابعین نے لیا اس کے بعد اجتماعی طور پر یہ بات ختم ہو گئی، صرف انفرادی طور پر رہ گئی کہ فلاں بزرگ سے فلاں بزرگ نے فیضِ صحبت لیا، اس طرح ہوتے ہوتے شیخ اور مرید تک سلسلہ پہنچ جاتا ہے، یہ فیضِ صحبت ہے۔
سوال نمبر24:
حضرت جی یہ جو اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار ہوتا ہے، کیا یہ سب لوگوں کو ایک ہی جیسا ہوتا ہے یا مختلف لوگوں کو مختلف طریقے سے ہوتا ہے؟
جواب:
سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ اس دنیا میں اللّٰہ پاک کا دیدار ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جن کو دیدار ہوتا ہے اس کی حقیقت بقولِ حضرت مجدد الفِ ثانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ یہ ہے کہ وہ ایک تمثال ہے جو ہر ایک کے لئے مختلف صورت میں ہو سکتی ہے۔ جو صورت جس کے احوال کے مناسب ہو اسے اس صورت میں دیدار ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ سب کے لیے ایک جیسا ہو، ہر ایک کے لیے مختلف ہو سکتا ہے۔ بعض لوگوں کے لیے با قاعدہ کسی آدمی کی صورت میں ہو جاتا ہے، بعض کے لیے بغیر جہت کے ایک نور کی صورت میں ہوتا ہے، بعض کے لیے صرف آواز آتی ہے، بعض لوگوں کو خواب کی صورت میں بھی ہوتا ہے، کشفی طور پر بھی ہو سکتا ہے، بعض اوقات دل کے اوپر الہام کے طریقے سے بھی ہوتا ہے۔ الغرض مختلف لوگوں کے لیے مختلف طریقوں سے دیدارِ باری تعالیٰ ہو سکتا ہے۔
حضرت حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت میں بہت درود شریف پڑھ رہا ہوں، بہت کوشش کر رہا ہوں مگر مجھے ابھی تک نبی کریم ﷺ کی زیارت نہیں ہوئی۔ فرمایا: تیرا بڑا حوصلہ ہے، ہم تو کہتے ہیں کہ گنبد خضریٰ کی بھی زیارت ہو جائے تو ہم اس کے قابل بھی نہیں ہیں، پتا نہیں آپ میں کیسے اتنی جرات ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم تو کسی قابل نہیں ہیں۔ ہاں اللّٰہ تعالیٰ کسی کو بغیر استحقاق کے دینا چاہتا ہے تو ضرور دے سکتا ہے، ورنہ کوئی انسان اپنی ذات میں مستحق نہیں ہے۔ یہ بہت اونچے درجہ کی بات ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ