اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اَلْحَمْدُ للہ! ذکر کی پابندی ہورہی ہے اور ذکر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو بار، ’’حَقْ حَقْ‘‘ چھ سو بار اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ پانچ سو بار ہے۔ دعاؤں کا طالب۔
جواب:
اب ان شاء اللہ! اس طرح کرلیں کہ دو سو، چار سو، چھ سو تو باقاعدگی کے ساتھ کرلیں اور پانچ سو کی جگہ ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کرلیا کریں۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔ آپ نے پوچھا تھا کہ میں کتنے دن میں پاکستان جارہا ہوں، تاکہ مصروفیات میں کوئی ذکر کم کرسکوں یعنی ذکر جہری، ذکر قلبی یا ذکر خصوصی یعنی شیونات ذاتیہ۔ میرا پاکستان کا ویزہ تقریباً سوا مہینے کا ہے، اب آپ بتا دیں کہ کون سا ذکر مختصر کروں؟
جواب:
آپ اس طرح کرلیں کہ مجھے کل بارہ اور ایک کے درمیان ٹیلی فون کرلیں، پھر آپ سے کچھ باتیں پوچھوں گا، پھر ان شاء اللہ بات ہوجائے گی۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، میں تین ماہ سے آپ کا دیا ہوا ذکر پڑھ رہی ہوں۔ اَلْحَمْدُ للہ! طبیعت میں بہتری ہے، غصہ بہت آجاتا ہے۔ ذکر یہ ہے کہ درود پاک سو بار، استغفار سو بار، تیسرا کلمہ سو بار اور مراقبہ دس منٹ کے لئے۔ کوئی تبدیلی کرنی ہے تو رہنمائی فرمائیں اور میرے اہل خانہ کے لئے دعا فرمائیں، خاص کر میرے والد مرحوم کے لئے۔
جواب:
آپ نے مجھے دس منٹ کے مراقبے کے بارے میں بتانا ہے کہ آپ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس کررہی ہیں یا نہیں کررہیں؟
سوال نمبر 4:
السلام علیکم۔ حضرت جی! ذکر مکمل ہوگیا ہے۔
جواب:
کون سا ذکر ہے؟ ذرا تفصیل بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں فلاں ہوں UK سے، آپ نے پچھلے سوال جواب میں کسی کو بتایا تھا کہ ماشاء اللہ! آپ ابھی نیچے ہورہے ہیں اونچے جانے کے بعد، (کم و بیش الفاظ کے ساتھ) تو کیا آدمی اتنی جلدی اونچا چلا جاتا ہے؟ پھر اتنی جلدی نیچے کس طرح آجاتا ہے؟ پھر نیچے آنے کے بعد کیا اس کا سلوک ختم ہوجاتا ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو پھر میرا شاید عروج و نزول ہوگیا ہے۔
جواب:
مہربانی کرکے آپ دوسروں کے جوابات سن کر اپنے اوپر منطبق نہ کریں، یہ بالکل غلط بات ہے۔ کیا کسی بھی ڈاکٹر کے کلینک میں آپ بیٹھ جائیں اور وہ اگر کسی کو کچھ بتا دیں تو کیا دوسرا مریض بیٹھ کر اس کو اپنے اوپر fit کرسکتا ہے؟ یہ بہت بڑی غلطی ہے، اس لئے آپ اس چیز سے بچنے کی کوشش کرلیں اور خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع نہ کریں۔
سوال نمبر 6:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ محترم شیخ صاحب! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ محترم! پانچ پانچ منٹ کا دل، روح اور سر کا مراقبہ دیا گیا تھا اور پندرہ منٹ لطیفۂ خفی کا اور اس کے ساتھ چار ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ کا ذکر دیا گیا تھا، اسے ایک ماہ ہوگیا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! ذکر محسوس ہوتا ہے، بس لطیفۂ خفی میں کبھی کبھی شک پڑتا ہے کہ نہیں ہوا، ورنہ وہ بھی ہوتا ہے۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ماشاء اللہ! یہ بڑی اچھی بات ہے کہ اَلْحَمْدُ للہ! آپ ترقی کررہی ہیں۔ اب آپ اس طرح کرلیں کہ جو پانچوں لطائف ہیں، ان پر تو پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ جاری رکھیں اور ہر ایک کے اوپر ذکر محسوس کرنے کی کوشش کرلیا کریں۔ اور اب دل کے اوپر آپ کو خاص مراقبہ دے رہا ہوں، اس مراقبہ کو مراقبۂ احدیت کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چونکہ ہر وہ چیز جو کہ بہتری کے لئے ہوتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے، لہٰذا جیسے کہ اللہ کی شان ہے، اس لحاظ سے اس کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آرہا ہے، (کیونکہ آپ ﷺ ہی ذریعہ ہیں ساری خیروں کا) اور پھر یہ آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے دل پر آرہا ہے، کیونکہ شیخ مرید کے لئے ذریعہ ہوتا ہے آپ ﷺ سے فیض لینے کا، اور پھر وہ آپ کے دل پر آرہا ہے۔ بس یہ مراقبہ پندرہ منٹ کے لئے آپ نے کرنا ہے، ان شاء اللہ العزیز! ایک مہینے کے لئے۔
سوال نمبر 7:
حضرت جی! میں ایک کتاب میں پڑھ رہا تھا کہ سلسلہ نقشبندیہ میں اصلاح کے دو طریقے ہیں، ایک قلب کے ذریعہ سے، دوسرا نفس کے ذریعہ سے اور قلب کے ذریعے سے اصلاح زیادہ آسان ہے بنسبت نفس کے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:
بالکل غلط ہے، جس نے بھی کہا ہے، غلط کہا ہے۔ دراصل یہ آج کل چکر چلا ہے اور یہ غلط ہے، بہت بڑی غلط فہمی ہے، مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نقشبندی تھے یا نہیں تھے؟ بالکل تھے، لیکن حضرت تین چیزوں کا بتا رہے ہیں، جبکہ ادھر دو سے بھی انکار کررہے ہیں۔ حضرت تین بتا رہے ہیں یعنی دل، نفس اور عقل۔ جب تک ان تینوں کو اعتدال پہ نہیں لایا جائے گا، اس وقت تک انسان کی اصلاح نہیں ہوتی، چونکہ قلب اور نفس باہم مربوط ہیں، جیسے کئی بار میں نے مثال دی ہے کہ قلب کو جو راستے جاتے ہیں، وہ نفس سے ہوکے جاتے ہیں، مثلاً آنکھ سے راستہ جاتا ہے، یہ بھی نفس والا راستہ ہے، زبان سے راستہ جاتا ہے، یہ بھی نفس والا ہے، دماغ سے راستہ جاتا ہے، یہ بھی نفس والا ہے، کان سے راستہ جاتا ہے، یہ بھی نفس والا ہے اور دوسرے اعضاء جو حس رکھتے ہیں ان سے جو راستے جاتے ہیں، وہ بھی نفس سے جاتے ہیں، لہٰذا اگر ان کی صفائی نہ ہوچکی ہو، اور آپ دل کے اوپر لگے رہیں، صفائی کرتے رہیں، تو کیا وہ صفائی باقی رہے گی؟ صفائی باقی نہیں رہے گی، بس آپ کرتے رہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بس آپ صاف کرتے رہیں، وہ خراب ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ آپ اس کے ساتھ نفس کی اصلاح نہ کرلیں۔ دوسری بات قرآن اور حدیث آپس میں مقابل نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک دوسرے کو support کرتے ہیں، چنانچہ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا﴾ (الشمس: 9)
ترجمہ1: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے‘‘۔
اب یہ نفس کے لئے اللہ فرماتے ہیں، اس لئے اگر صرف دل کا ہم نے کہہ دیا تو قرآن کے حکم پہ عمل نہیں ہوا اور صرف نفس کے بارے میں کہہ دیا تو حدیث شریف پہ عمل نہیں ہوا، جبکہ ان دونوں پہ عمل ہونا چاہئے۔ اس لئے یہ بات بہت بڑی غلط فہمی ہے، کیونکہ وہ جس نے کتاب لکھی ہے وہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بڑے نقشبندی نہیں ہیں، حضرت نے مکتوب نمبر 287 میں سارا زور ہی اسی پر دیا ہے کہ جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوگی، اس وقت تک سلوک طے نہیں ہوگا، اور مجذوب ہواؤں میں اڑے گا، بس پھر وہ مجذوب متمکن بن جائے گا۔ لہٰذا یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے اور جس نے بھی یہ کہا ہے، اس نے لوگوں پہ ظلم کیا ہے، اللہ پاک سب کی حفاظت فرمائے۔ کیونکہ جس چیز سے فائدہ نہیں ہوتا، لیکن آپ کہہ دیں کہ اس سے ہوتا ہے تو لوگ تو خواہ مخواہ لاعلمی میں مارے جائیں گے، بس ان کا خیال ہوگا کہ شاید اس سے اصلاح ہوجاتی ہے، حالانکہ اس سے اصلاح نہیں ہوتی ہوگی۔ اور یہ بات بالکل سو فیصد پکی ہے اور مجھے پہلی دفعہ اس وقت پتا چلا جب میرے پاس ایک نقشبندی عالم آئے، چونکہ میں بھی ان چیزوں سے آگاہ نہیں تھا، اس لئے کہ میں اس راستے سے آیا نہیں ہوں، اور میں حیران ہوں کہ رمضان شریف کا مہینہ تھا اور میں اعتکاف میں تھا، اعتکاف کے دوران میرے اعتکاف خانے میں وہ تشریف لائے اور مجھے کہا کہ شاہ صاحب! میں کیا کروں؟ اس وقت میں نے نقشبندی سلوک سارا طے کیا ہے، لیکن اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ رمضان شریف میں میں نے cable لگوائی ہے اپنے گھر میں۔ اب دیکھیں! اس سے زیادہ میں کیا کروں؟ میرے تو پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی، میں نے سوچا کہ میں اس کو کیا جواب دوں، چونکہ وہ خود کہہ رہا ہے کہ میں نے نقشبندی سلوک سارا طے کیا ہے، اس لئے اب میں کیا کروں، لیکن پھر میں نے اللہ پاک سے دعا کی کہ اے اللہ! میرے دل میں ان کے لئے کوئی جواب بھیج دیجئے، کیونکہ میرے لئے یہ ساری باتیں نئی تھیں، خیر پھر اللہ پاک نے دل میں بات ڈالی اور اس سے میں نے کہا کہ حضرت! آپ نے دل کا سلوک طے کیا ہے، نفس کا سلوک طے نہیں کیا، اس وجہ سے دل کی اصلاح تو آپ کی ہوگئی ہے، اسی لئے آپ رو رہے ہیں یعنی آپ کو احساس ہے کہ یہ مسئلہ ایسے ہے، اس لئے آپ کا دل رو رہا ہے، لیکن نفس آپ کا باغی ہے، لہٰذا جب تک آپ نفس کی اصلاح نہیں کریں گے۔ تو آپ اسی طرح روتے رہیں گے۔ پھر مجھے کہتے کہ اب میں کیا کروں؟ میں نے کہا کہ اگر ارادہ بنے تو پھر آپ عید کے بعد آجائیں۔ اچھا! خیر ان کے ساتھ بات ہوگئی اور وہ چلے گئے، لیکن عید کے بعد پھر میں نے اپنے ایک ساتھی جو چاروں سلسلوں کے شیخ ہیں اور تصوف کا جو علمی حصہ ہے، وہ اَلْحَمْدُ للہ! اس سے آگاہ ہیں، کیونکہ کافی کتابیں پڑھی ہیں، ان سے share کرنے کے لئے میں نے ان کو ٹیلی فون کیا اور میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! یہ بات ہوئی ہے، یہ کیسے ہے؟ اس پر وہ اچھل پڑے اور کہتے کہ آپ نے تو میرے سوال کا جواب دے دیا، میں نے کہا کون سے سوال کا؟ کہتے کہ میں اور بھائی (بھائی بھی چاروں سلسلوں کے شیخ ہیں اور نقشبندیہ میں خصوصی طور پہ آگے ہیں) دونوں بیٹھے تھے اور آپس میں بات کررہے تھے کہ کیا ہوجاتا ہے کہ نقشبندی سلوک سارا طے کرلیتے ہیں، لیکن اصلاح نہیں ہوتی، تو یہ ہم باتیں کررہے تھے، لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں ملا، پر اب آپ نے جواب دے دیا، اب آپ بتائیں کہ مجاہدہ اس کے لئے جو ہوگا وہ کیسے کریں گے؟ چونکہ ہم لوگ تو کہتے ہیں کہ مجاہدہ متروک ہے، اس پر میں نے کہا کہ مجاہدہ کبھی کریں، کبھی نہ کریں یعنی جس وقت مجاہدے سے خطرہ ہو کہ وہ برداشت نہ ہو تو روک دیں کچھ دنوں کے لئے، پھر جب دوبارہ سہولت ہوجائے تو دوبارہ مجاہدہ کریں، تو وہ کہتے کہ یہ تو کاکا صاحب کا مجاہدہ ہے، میں نے کہا کہ پھر تو آپ نے خود ہی بتا دیا۔ خیر اس طریقے سے ماشاء اللہ! یہ بات ہمیں پہلی دفعہ پتا چلی، حالانکہ اس وقت ہم نے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریف نہیں دیکھے تھے اور نہ پڑھے تھے، غالباً 2007 یا 2008 کے لگ بھگ کی بات ہے، جبکہ ہم نے حضرت مجدد صاحب کے مکتوبات 2015 میں شروع کیے ہیں، مگر یہ بنیادی چیزیں ہیں، جو سب کی ایک ہیں، اس لئے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، بات بالکل واضح تھی کہ اصلاح جو ہوتی ہے، وہ نفس کے ذریعے ہوتی ہے، کیونکہ قرآن قرآن ہے، اس کو کیسے نظرانداز کیا جائے؟ کیسے آنکھیں بند کی جاسکتی ہیں اس سے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
لہٰذا یہ بالکل واضح اور بیّن بات ہے، اسے کوئی آگے پیچھے نہیں کرسکتا، اس لئے نفس کی اصلاح لازمی ہے، کیونکہ نفس کی تین قسمیں بتائی گئی ہیں قرآن میں: نفس امّارہ، نفس لوامّہ اور نفس مطمئنہ۔ اور دل کی دو ہیں: قلب سلیم اور قلب سقیم، اس لئے ہم کس طرح اس کو ignore کرلیں، کیونکہ قرآن میں جو تین قسمیں ہیں، آخر کسی وجہ سے چلی ہیں۔ اور میرے خیال میں یہ اس وقت ہوئی ہے، جب ہماری باتیں ان کو پہنچی ہیں یعنی کچھ لوگوں نے پوچھا ہوگا، اس لئے جوابات پھر آنا شروع ہوگئے کہ یہ بھی ہے اور یہ بھی صحیح ہے، اس کی مثال lift کی ہے اور اس کی مثال سیڑھیوں کی ہے۔
سوال نمبر 8:
حضرت! وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ سے جو آسان سلوک مانگا تھا، وہ یہی دل کا ہے۔
جواب:
اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ! یہی بات حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سمجھائی ہے کہ جو دل والا سلوک ہے، وہ جذب ہے، اور جذب پہلے اخیر میں تھا، مگر اب ابتدا میں کرلیا، بس اتنی بات تھی، مثلاً آپ مجھے بتائیں کہ حضرت بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے اوپر کوئی نیا قرآن اترا ہے؟ نہیں، اس لئے یہ قرآن تبدیل نہیں ہوسکتا، اللہ فرماتے ہیں:
﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ﴾ (المائدہ: 3)
ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کرلیا (لہٰذا اس دین کے احکام کی پوری پابندی کرو)‘‘۔
لہٰذا یہ تبدیل نہیں ہوگا، یہ اپنی جگہ پہ قائم ہوگا، اس لئے قرآن کو ہم تبدیل نہ سمجھیں اور یقیناً ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس کو آپ ﷺ کے بعد کبھی بھی تبدیل نہیں کہہ سکتے، لہٰذا جب ایسی بات ہے تو پھر ان باتوں کی ہمیں سمجھ کی ضرورت ہوگی کہ ان حضرات کا کیا مطلب ہے؟ اور پھر جب حضرت نے اس کی تشریح فرما دی تو اب اس کے بعد مزید تشریح کیا کریں ہم؟ حضرت نے اس کی تشریح فرما دی کہ اصل بات یہی تھی کہ جو چیز بعد میں ملتی تھی سب کو، وہ یہ حضرات نے محنت کرکے ابتدائی طور پر لے آئے، تاکہ اس کے ذریعے سے سلوک طے کرنا آسان ہوجائے، بس اس طرح آسانی پیدا ہوگئی۔ خیر کیا کہیں! بس اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، گمراہی گمراہی ہوتی ہے، جیسے بھی ہو اس سے انسان بچ نہیں سکتا۔
سوال نمبر 9:
حضرت! یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا ہے؟ یعنی یہ جو تبدیلی آگئی ہے کہ قلب کی طرف لوگ بھاگ رہے ہیں اور نفس کی اصلاح کی فکر نہیں ہے، یہ ہمارے جو بڑے اکابر شجرے میں گزرے ہیں، ان میں سے کب سے یہ کام شروع ہوا؟
جواب:
حضرت! میرا اندازہ ہے کہ اس کی ابتدا حضرت کے سامنے ہی ہوچکی ہوگی، اسی لئے حضرت نے alert ہوکر اس کے اوپر اتنا ضخیم مکتوب شریف لکھا ہے، آخر کوئی وجہ تو تھی، حضرت کے سامنے اگر یہ بات نہ ہوچکی ہوتی تو پھر حضرت نے اس پر کیوں لکھا؟ بلکہ حضرت کے جو الفاظ ہیں وہ تھوڑا ہلا دینے والے ہیں، الفاظ یہ ہیں، حضرت فرماتے ہیں کہ مجھے لگ رہا ہے کہ جذب اور سلوک کے سمجھنے میں لوگ گڑبڑ کررہے ہیں، میرے خاطر فاطر میں یہ آتا ہے۔ یعنی ذرا اپنے بارے میں حضرت کے الفاظ دیکھیں، یہ انتہائی غصہ کی علامت ہے کہ انسان اپنے بارے میں اگر کہتا ہے کہ میرے خاطر فاطر میں آتا ہے کہ میں اس پر کچھ لکھوں، لہٰذا میں آپ کو لکھ رہا ہوں، پھر حضرت نے جو مثال دی ہے، وہ بہت جلالی مثال ہے، لیکن میں حیران ہوں کہ پتا نہیں لوگ کیوں نہیں پڑھتے ان چیزوں کو، جبکہ حضرت نے جلالی مثال دی ہے، حضرت نے فرمایا کہ ایک شخص ہے، وہ خانہ کعبہ جارہا ہے، لیکن وہ خانہ کعبہ جانے کا ارادہ تو رکھتا ہے، مگر خانہ کعبہ کے بارے میں پتا نہیں کہ خانہ کعبہ کون سا ہے اور کیا ہے، تو وہ راستے میں کسی جگہ کو خانہ کعبہ سے ملتی جلتی دیکھ کے سمجھ لیتا ہے کہ شاید یہ خانہ کعبہ ہے اور وہیں پر بیٹھ جاتا ہے اور وہیں اعتکاف کرنا شروع کرلیتا ہے، وہیں پر طواف کرنا شروع کرلیتا ہے، فرمایا: یہ علماً بھی محروم ہے، عملاً بھی محروم ہے، کیونکہ اس کو خانہ کعبہ کا پتا بھی نہیں ہے، اس لئے علماً محروم ہے، عملاً اس لئے کہ یہ پہنچا نہیں ہے۔ اور اس کے مقابلے میں وہ شخص جو جانتا ہے کہ خانہ کعبہ کون سا ہے اور وہ غلط نہیں ہورہا، لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں ہے، مگر پھر بھی وہ اس سے اچھا ہے، کیونکہ وہ صرف عملاً محروم ہے، علماً محروم نہیں ہے، اور تیسرا وہ شخص ہے جو چلا، مگر پہنچا نہیں ہے ابھی، یہ ان دونوں سے اچھا ہے اور چوتھا یہ ہے کہ جو پہنچ گیا ہے، بس یہ اصل میں ہے۔ اب یہ بات جو حضرت نے جلالی انداز میں فرمائی کہ جو بالکل محروم ہے یعنی علماً بھی محروم ہے اور عملاً بھی محروم ہے، آخر یہ کیوں فرمائی ہے؟ کیونکہ جو صرف جذب کو کافی سمجھتا ہے، وہ علماً بھی محروم ہے اور عملاً بھی محروم ہے، اس لئے ان کو حضرت نے باقاعدہ مجذوب متمکن کا title دیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ نہ خود پہنچا ہے، نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے، بلکہ یہاں تک فرمایا کہ دوسروں کے راستے کا ڈاکو نہ بنے، بلکہ اس کو چاہئے کہ جن لوگوں کی تکمیل ہوچکی ہے ان کی طرف لوگوں کو بھیجے۔ اور یہ بات بڑی عجیب ہے، جو میں کہتا ہوں اور یہ حضرت ہی کی بصیرت تھی، حضرت ہی یہ بات کرسکتے تھے، ہم جیسے لوگوں کی زبان نہیں ہے کہ ایسی بات کریں کہ جو لوگ مجذوب متمکن ہوتے ہیں، ان کی توجہ کی طاقت منتہی سے زیادہ ہوتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ منتہی مخلوق کے ساتھ وہ مناسبت نہیں رکھتا، جو مجذوب باقی لوگوں کے ساتھ رکھتا ہے، کیونکہ یہ ابھی ان میں ہے، ابھی ادھر سے آگے گیا ہی نہیں یعنی مقام قلب سے آگے گیا ہی نہیں ہے، اس وجہ سے لوگ اس سے زیادہ متأثر ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ ساری باتیں اُس وقت سے شروع ہیں، البتہ یہ بات ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بچتے گئے ہیں، تو وہ بچتے گئے ہیں۔ اب دیکھیں! میری کتاب ’’حقیقت جذب و سلوک‘‘ بہت سارے حضرات کے پاس پہنچی ہے، ان میں سے ایک شوڈاگو بابا جی بھی ایک بزرگ گزرے ہیں، ایک سو تین یا ایک سو چار سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں یعنی ابھی ابھی فوت ہوئے ہیں، ان کو ہمارے ایک ساتھی نے یہ کتاب دے دی اور اس کے بارے میں ان کو بتا دیا، تو حضرت نے کہا اچھا! لوگ اس طرح بھی کہتے ہیں؟ یہ کون سا نقشبندی سلسلہ ہے؟ یعنی ان کو حیرت ہوئی کہ لوگ اس طرح بھی کہتے ہیں یعنی شوڈاگو بابا جی رحمۃ اللہ علیہ کو اس کا ادراک نہیں ہوا کہ اس طرح بھی لوگ کرسکتے ہیں۔ حضرت! میں آپ کو کیا بتاؤں اس وقت تھوک کے حساب سے جو اجازتیں دی جارہی ہیں، آخر اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی کہ جس کو ذرا بھر بھی مناسبت نہیں کسی سلسلے کے ساتھ، ان کو بھی تعلیم کی اجازت پیش کی جارہی ہے اور ذرا بھی اس کے معمولات کے بارے میں اور اس کی تمام چیزوں کے بارے میں نہیں پوچھتے، بلکہ بعض لوگوں کی تو تحریرات تصوف کے خلاف ہیں، ان کو بھی اجازتیں مل رہی ہیں، لہٰذا یہ بالکل ایک کاروباری قسم کا سلسلہ لگ رہا ہے کہ جیسے لوگوں کی بھیڑ اکٹھی کی جارہی ہو کہ میرے اتنے خلفاء ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، اللہ تعالیٰ ہی اس بھنور سے نکال سکتے ہیں، یہ بھنور بہت سخت ہے، کیونکہ اس میں شہرت بہت ہے، اس لئے اگر کوئی نہ نکلے اور وہ اس بھنور میں پھنسا رہے تو خطرناک بات ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کا شکر ہے کہ جس وقت ہم نے یہ باتیں شروع کیں تو ابتدا میں تو ہم پر تابڑ توڑ حملے ہوئے ہیں، اور مجھے یہاں تک کہا گیا (میرے پاس وہ recording موجود ہے) کہ شاہ صاحب کو نقشبندی سلسلہ کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے، اور میری بات جو میں نے حبِ صِرف کے بارے میں کی تھی (حبِ صرف ایک term ہے، ایک اصطلاح ہے) یہاں چونکہ حضرت نے حبِ صرف لکھا تو میں نے بھی حبِ صرف کہہ دیا، اس پر وہ کہتے کہ ان کو تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ صرف اور صرفہ میں کوئی فرق ہے؟ اس لئے بس یہ آسان مکتوبات کی تشریح کرتے رہیں، لیکن گہرے مکتوبات کی تشریح نہ کیا کریں، کیونکہ ان کو غلطی لگ جاتی ہے، جبکہ اس پہ تو حضرت نے کافی لکھا ہے اور بھی پتا نہیں بہت ساری باتیں مجھے کیں، تو پھر میں نے حضرت کا مکتوب جو فارسی والا ہے، وہ بھیج دیا اس کو اور میں نے کہا کہ حضرت نے کیا لکھا ہے؟ چلو اردو میں کسی نے غلطی کی ہوگی اگرچہ حضرت سید زوار شاہ صاحب کا ترجمہ تھا، لیکن پھر بھی میں نے کہا چلو حضرت! ان سے بھی غلطی ہوسکتی ہے، مگر یہ تو حضرت کی تحریر ہے اور فارسی کی ہے، اردو کی نہیں ہے، اور حبِ صَرف کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا، کیونکہ صَرف تو صَرف ہے یعنی حب صَرف کا مطلب گھومنے والا صَرف، جبکہ حب صِرف کا مطلب ہے کہ جو بالکل محبت ہی ہو صرف حُب ہو، تو یہ چیز ٹھیک ہے، جبکہ حبِ صَرف کا مطلب کیا ہے؟ اس پر پھر انہوں نے کہا کہ او ہو! مجھے غلطی لگی ہے اصل میں اس میں یہ بات تھی اور یہ بات تھی۔ خیر! پہلے تو تاپڑ توڑ حملے ہوئے ہیں، مگر اب اَلْحَمْدُ للہ! اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے فضل فرمایا کہ ان کو بھی سمجھ آگئی اور باقی لوگوں کو بھی سمجھ آگئی اور جن لوگوں نے کافی اعتراضات کیے تھے، وہ بھی اَلْحَمْدُ للہ! ساتھ ہیں اور چل رہے ہیں۔ لہٰذا ابتدا میں ایسا ہوتا ہے، اس لئے اس میں ہمیں کسی سے گلہ بھی نہیں ہے، بس اللہ کا شکر ہے کہ اگر ان کو اندازہ ہوگیا تو بڑی اچھی بات ہے، لیکن بہرحال حضرت والی بات جو آپ نے ابھی فرمائی ہے، اس کا کوئی تُک نہیں بنتا، حضرت نے پتا نہیں کسی کتاب سے حوالہ دیا کہ دل سے بھی اصلاح ہوسکتی ہے اور نفس سے بھی اصلاح ہوسکتی ہے یعنی دونوں ٹھیک ہے اور ساتھ پھر یہ بھی کہ خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کو جو خاص طریقہ القاء ہوا وہ یہی دل والا تھا کہ دل کے ذریعہ سے اصلاح ہوجاتی ہے۔
سوال نمبر 10:
حضرت وہ اس کی مثال یہ دیتے ہیں کہ جیسے آج کے دور میں ایک بندہ ہوائی جہاز پہ سفر کررہا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آج کے دور کے کمزور انسان کو دیکھ کے سواری کا ایک بندوبست کیا ہے، ایسے ہی روحانی سواری بھی اللہ تعالیٰ نے اتنی آسان رکھی ہے کہ قلب کے ذریعے سے انسان وہاں پہ پہنچ جاتا ہے۔
جواب:
ٹھیک ہے، لیکن میں اس کے بارے میں عرض کروں کہ اسی مثال کو لے لوں، اس مثال میں تین stages ہیں، Take off ہے، سفر ہے، پھر landing ہے، اور اسی کتاب میں یہی چیز ہے۔ خیر جو Take off ہے وہ عروج ہے جو کہ جذب ہے، پھر سفر ہے یعنی پہنچنے کی مسافت، پھر نزول ہے اور نزول سلوک کے ساتھ ہوتا ہے، نزول جذب کے ساتھ نہیں ہوتا، اس لئے اگر سلوک آپ نے طے نہیں کیا تو اوپر اڑتے رہو، کبھی تو نیچے اترنا پڑے گا۔ بلکہ ایک عالم ہیں جو کہ نقشبندی سلسلے کے نہیں ہیں، لیکن اس نے علمی طور پر حضرت کے ’’مکتوبات‘‘ شریف پڑھے ہیں اور میری آج ہی ان سے ملاقات ہوئی ہے، دارالعلوم کراچی کے فارغ ہیں، ان سے میں نے باتوں باتوں میں کہا کہ ہمارے ایک ساتھی نے خواب دیکھا تھا کہ ایک جہاز ہے، اور وہ آپ چلا رہے ہیں اور اس میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں اور برابر برابر ہیں یعنی جتنے مرد ہیں اتنی عورتیں ہیں، لیکن آپ ہماری طرف نہیں دیکھتے، بس ایئرپورٹ کے اوپر آپ کی نظر ہے، اور اس میں بڑی رکاوٹیں ہیں یعنی کوئی بس جتنی رکاوٹ ہے، کوئی بیگ جتنی رکاوٹ ہے، کوئی ادھر problem ہے، تو وہ ساتھی کہتا کہ ہم حیران تھے کہ حضرت یہ جہاز کیسے اتاریں گے؟ یہ تو بہت مشکل جگہ ہے، لیکن کہتے ہیں کہ بس آپ ماشاء اللہ! اس کی طرف دیکھتے ہیں اور اس طرح Zig zag کرکے جہاز کو آرام سے اتار دیتے ہیں، تو ہم سب خوش ہوئے۔ اس پر میں نے کہا کہ اَلْحَمْدُ للہ! ثم اَلْحَمْدُ للہ! ہمارے سلسلے کے لئے اللہ پاک نے نزول کو آسان کردیا ہے یعنی نزول ہوجایا کرے گا، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی۔ اس پر فوراً اس نے کہا کہ اچھا! وہ جو مجدد صاحب والا نزول ہے؟ جس کو مجدد صاحب نزول کہتے ہیں، جس پہ اللہ پاک ان سے کام لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہاں! یہ وہی نزول ہے۔ لہٰذا نزول کے بغیر تو انسان کام ہی نہیں کرسکتا۔
سوال نمبر 11:
حضرت! یہ جو خالی ایک side پہ بندوں کو لے جایا جارہا ہے، یہ تو اکابرین علماء دیوبند کے طریقے کے بالکل خلاف ہے یعنی ہمارے اکابر نے نہ کبھی کوئی دعویٰ کیا ہے، بس اصلاح کا کام کیا ہے اور اصلاح نفس کا کام کیا ہے ہمیشہ۔
جواب:
بالکل اور ہمیشہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھا، جتنے بھی ہمارے حضرات ہیں جیسے میاں اصغر حسین صاحب یہ بڑے لوگ تھے، معمولی لوگ نہیں تھے، لیکن اپنے آپ کو بالکل مٹا ہوا رکھتے تھے، جیسے شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ مٹے ہوئے تھے، حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ یا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، ایسے ہی حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ یہ سب مٹے ہوئے لوگ تھے، اور ان میں ظاہر ہے کہ نسبتیں مختلف موجود تھیں، جیسے حضرت خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ چاروں سلسلوں کے تھے، لیکن ان کا نقشبندی ذوق سب سے اعلیٰ تھا یعنی ان کی اپنی ذاتی نسبت نقشبندی تھی۔ لہٰذا مقصد یہ ہے کہ یہی محفوظ راستہ ہے، دعویٰ ہمیشہ کے لئے انسان کو گرا دیتا ہے۔ اصل میں جو معرفت کے بظاہر خوگر لوگ ہیں، وہ اس سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے، وہ انہی باتوں میں بس چکر لگا رہے ہوتے ہیں، بس اس میں لگے ہوتے ہیں اور جو اصلاح والی بات ہے تو اصلاح والی بات کی طرف وہ نہیں آتے، اور آپ بیشک دیکھ لیں، بلکہ ماشاء اللہ! آپ خود جانتے ہیں کہ ان کے خطوط میں کبھی اصلاح کی کوئی بات ہوتی ہے؟ تکبر کے بارے میں بات، حسد کے بارے میں بات یا ریا کے بارے میں بات یعنی اس قسم کی باتیں آپ نے دیکھی ہیں؟ نہیں، بس وہی مراقبات کی بات ہوتی ہے کہ فلاں یہ ہوگیا تو فلاں یہ ہوگیا، میں نے یہ دیکھا وغیرہ، بس یہی چیزیں ہوتی ہیں، جبکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو پڑھو، ان کی ’’تربیت السالک‘‘ میں کیا ہے؟ یہی چیزیں ہیں یعنی سب اصلاح کی باتیں ہیں، دوسری بات اگر تھوڑی سی ہو تو اس پر سے جلدی گزر جاتے ہیں اور جو اصلاح کی بات ہوتی ہے تو اس میں بڑی تفصیل بتاتے ہیں، کیونکہ یہی اصل میں بنیادی بات ہے۔ اچھا! اب میں عرض کرتا ہوں، بلکہ کئی بار پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اللہ کی حکمت، اس کی منشاء بہت اوپر ہوتی ہے، وہ مالک ہے ساری چیزوں کا، اب آپ غور سے دیکھیں! حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک پل ہیں اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی پہلی نسبت نقشبندی ہے اور یہ اپنے شیخ کے بڑے محبوب یعنی نقشبندی بزرگ کے (جو کہ سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے، یہ ان کے) خلیفہ ہیں، لیکن پھر اس کے بعد آپ ﷺ خواب میں ان کا ہاتھ میاں جی نور محمد جھنجھانوی جو چشتی بزرگ ہیں ان کے ہاتھ میں دے رہے ہیں، جبکہ یہ ان کو جانتے بھی نہیں ہیں، کافی تگ ودو کے بعد وہ ملے ہیں، اس کے بعد حضرت نے چشتی نسبت پر محنت کی اور وہ دونوں حاصل کرلیں اور جب دونوں مل گئیں تو اب یہاں پر combination بن گیا چشتی اور نقشبندی کا، اور یہ دونوں سلسلے ہندوستان کے لئے بہت اہم ہیں، کیونکہ چشتی نسبت کے ذریعہ سے ہندوستان میں اسلام پھیلا ہے اور نقشبندی سلسلے کی برکت سے محفوظ ہوا ہے یعنی حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو محنت کی ہے، اس کے ذریعہ سے محفوظ ہوا ہے، ورنہ پتا نہیں کتنا بڑا طوفان دہریت کا اور اس طرح کی چیزوں کا آیا ہوا تھا، لیکن حضرت کی برکت سے وہ محفوظ ہوگیا اور پھر دونوں سلسلوں کو یکجا کرکے دیوبند کا سلسلہ بنا دیا اور دیوبند سے علمی کام بھی لے لیا اور یہ تزکیہ کا کام بھی لے لیا اور اسی سلسلے میں زیادہ تر تبلیغی جماعت بھی ہے، گویا اللہ پاک نے اپنی حکمت سے ان دونوں کو جمع کردیا ہے۔ اور پھر حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جو فکر ہے، وہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ تک بھی پہنچی ہے، لیکن جن میں لوگوں نے تصرف کیا اور کچھ اور چیزوں کی طرف لے گئے، تو حضرت نے بالکل truncate کرلیا ہے، ان کی طرف ذرا بھر بھی توجہ نہیں کی، یعنی توجہات کی طرف اور تمام چیزوں کی طرف حضرت بالکل ہی نہیں جاتے، بس سادہ سادہ جو سلوک کی باتیں ہیں، وہی حضرت فرماتے رہتے ہیں اور پھر حضرت کے سارے خلفاء میں بھی یہی چیز آئی ہے اور اس طریقے سے ماشاء اللہ! بچت ہوگئی ہے، کیونکہ اگر یہ چیز بالکل اس طرح direct آجاتی تو جن تبدیلیوں پہ اب ہم رو رہے ہیں، تو بس پھر مسئلہ بہت خطرناک ہوتا۔ باقی اَلْحَمْدُ للہ! روحانیت کو اللہ تعالیٰ ہی چلاتے ہیں، کیونکہ یہ چھپی ہوئی چیز ہے، اللہ پاک ہی اس کی حفاظت فرماتے ہیں، لیکن آپ دیکھیں! ہماری کیا حیثیت ہے؟ ہم تو ان چیزوں سے واقف بھی نہیں تھے، ہمیں تو ان چیزوں کا علم بھی نہیں تھا یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ 2015 سے پہلے مجھے کچھ بھی پتا نہیں تھا، اگرچہ حضرت نے فرما دیا کہ آپ کی نسبت نقشبندی ہے، لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ نسبت نقشبندی کیا ہوتی ہے اور اس میں کیا چیز ہوتی ہے؟ مجھے تو کچھ پتا نہیں تھا، مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت کے مکتوبات شریفہ کے ساتھ ملا دیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ یہ بات کھل جاتی ہے۔ اور میں آپ کو بتاؤں کہ ایک ایسا نازک topic جو اتنے سارے نقشبندی حضرات جو نقشبندی channel سے آئے ہوئے ہیں، ان کے سامنے ظاہر ہی نہیں ہورہا، اور بلکہ انگلینڈ میں باقاعدہ وہ حضرات فرما رہے ہیں کہ کمال ہے کہ ہم نے کیوں نہیں دیکھا یعنی وہ مان گئے کہ چیز تو یہ ہے، لیکن ہمیں نظر کیوں نہیں آیا؟ دراصل یہ ایسی بات ہے کہ جس کے لئے خصوصی طور پر ذہن ان تمام چیزوں سے خالی ہو، کیونکہ جو ان چیزوں سے بھرا ہوا ہوگا، تو اس کو یہ چیزیں سمجھ نہیں آسکتیں، مگر ان چیزوں سے میرا ذہن چونکہ خالی تھا، اس لئے بات کھل گئی، ورنہ مجھے تو کچھ پتا بھی نہیں تھا کہ یہ کیا ہوتا ہے، بلکہ مجھے تو حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مراقبہ نہیں کرایا حتیٰ کہ ذکر بھی نہیں کرایا، بہت کم یعنی سب سے کم آپ کہہ سکتے ہیں۔ خیر یہ ساری باتیں جو خالی الذہن ہو اس کے اوپر کھلتی ہیں اور پھر ہمارا معاملہ یہ تھا کہ صرف اکابر کے reference سے ہماری باتیں تھیں کہ ہم نے اپنے اکابر کو پڑھا تھا اور وہی کھٹکتا تھا کہ یہ چیز کیوں نہیں، یہ چیز کیوں نہیں! یعنی بہت سارے سوالات تھے، مگر جوابات کچھ بھی نہیں تھے، بس سوالات ہی سوالات تھے اور میں جن سے سوال کرتا تو وہ جواب دیتے ہی نہیں تھے، وہ بات کو آگے پیچھے کردیتے کہ جیسے کوئی بات ہی نہیں ہے، مثلاً میں نقشبندی حضرات سے سوال کرتا کہ آپ کا مجاہدہ کے بارے میں کیا خیال ہے کہ مجاہدہ کیسے ہوتا ہے؟ وہ کہتے کہ یہ جو ہم ذکر کرتے ہیں، یہ مجاہدہ ہے۔ لیکن اس طرح تو کھانا کھانا بھی مجاہدہ ہے اور اگر ہونٹ ہلاتے ہیں، ہم زبان بھی ہلاتے ہیں تو پھر یہ بھی مجاہدہ ہے، نہیں یہ مجاہدہ کا مفہوم ہی نہیں۔ خیر سوالات تو میرے ذہن میں تھے اور بھرے ہوئے تھے۔ اور ’’مکتوبات شریف‘‘ سے پہلے لاہور میں ایک بیان ہوا تھا ’’مثنوی شریف‘‘ کے درس میں، اس کے بعد پھر یہ ’’مکتوبات شریف‘‘ کا درس شروع ہوا، کیونکہ اصل میں یہ چیزیں تیار ہورہی تھیں، جیسے مجھے حضرت ڈاکٹر ارشد نے مکہ مکرمہ میں جو message کیا اور اس نے بتایا کہ آپ جو قلب، عقل اور نفس کی باتیں اتنی زیادہ زور و شور سے کرتے ہیں، یہ تو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میں بہت زیادہ لکھی ہوئی ہیں اور ساتھ ہی کتاب بھی مجھے بھیج دی ’’الطاف القدس‘‘، اسے میں نے جب کھول کے دیکھا تو میں نے کہا کہ واقعی باتیں تو یہی ہیں، اور پھر میں نے کہا کہ چلیں ان شاء اللہ! پاکستان جاکر اس کو پڑھیں گے، کیونکہ وہاں تو موقع نہیں ملتا۔ خیر یہاں آکر جب اس کو پڑھا تو واقعی پوری ایک نئی دنیا کھل گئی، اس کے بعد پھر اَلْحَمْدُ للہ! اس کتاب کی تعلیم بھی کروائی۔ خیر میرا مقصد یہ ہے کہ یہ چیزیں چل رہی تھیں اور پھر حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ والی جو بات آگئی تو وہ بھی بالکل نفس ہی کی بات تھی، مگر جو کام اللہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے اسباب خود ہی بنا لیتا ہے، وہ اس کے پاس ہوتے ہیں، اس میں planning نہیں ہوتی، اگرچہ planning کے ساتھ چلنا عام لوگوں کے لئے صحیح ہے، لیکن اس قسم کے کام planning والے نہیں ہوا کرتے، کیونکہ planning کے لئے تو پہلے سے پتا ہونا چاہئے اور جب پہلے سے پتا نہ ہو تو planning کیا کریں گے؟ بلکہ خود حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایسے ہی ہوا کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو نقشبندی سلسلہ ایسے ہی ملا ہے کہ حضرت باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوگئی، ورنہ حضرت کی پہلی نسبت چشتی تھی۔
سوال نمبر 12:
حضرت! ابھی آپ نے فرمایا کہ ایک نقشبندی ساتھی نے رمضان المبارک میں اپنے گھر میں کیبل لگوائی، اس کی کیا کیا وجہ تھی؟
جواب:
جی بالکل یہ بات میں کرچکا ہوں، یہ بالکل ایسے ہی ہوا تھا، البتہ ہماری اس سے پہلے بھی مجاہدہ پہ بات چیت چلتی تھی، کیوںکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پہ پہلے سے بات فرمائی ہے، حضرت نے اپنی کتاب ’’شریعت و طریقت‘‘ (جو حضرت کے افادات پہ لکھی گئی ہے) میں صاف فرمایا ہے کہ ایک فاعلہ ہوتی ہے اور ایک مجاہدہ ہوتا ہے یعنی ذرائع دو ہیں، ایک فاعلہ اور ایک مجاہدہ۔ جو فاعلہ ہے وہ انسان کے اندر جو صلاحیتیں ہوتی ہیں، ان کو اجاگر کرتی ہے اور مجاہدہ یہ کرتا ہے کہ جو رذائل ابھرے ہوتے ہیں ان کو دباتا ہے یعنی جو ہونا چاہئے مگر وہ نہیں ہورہا تو ان کو ہونے دیں اور ان کو باہر لے آئیں اور جو نہیں ہونا چاہئے، مگر وہ ہورہا ہے تو ان کو دبا دے، تاکہ وہ نہ رہے۔ بس یہی بنیادی بات ہے، لہٰذا ایک plus کے لئے ہے اور ایک minus کے لئے ہے۔ خیر یہ باتیں تو ہماری پہلے سے چلی آرہی تھیں، لیکن جب اس صاحب نے خود ذکر کیا اور صاف بتایا کہ شاہ صاحب! میں کیا کروں؟ میں نے پورا نقشبندی سلوک طے کیا ہے، لیکن حال یہ ہے کہ میں نے اپنے گھر کے اندر رمضان کے مہینے میں cable لگائی ہے، اب میں کیا کروں؟ اب یہ واقعی ایک ڈرانے والی بات تھی، تو میں نے اللہ پاک سے مانگا کہ یا اللہ! مجھے پتا نہیں کہ اس کو میں کیا کہوں؟ اس پر پھر ڈاکٹر ارشد نے اس کو second کیا اور کہا کہ یہ تو آپ نے ہمیں جواب دے دیا ہے، ہم تو اس میں پھنسے ہوئے تھے اور کوئی حل سمجھ میں نہیں آرہا تھا، لیکن اس کا جواب آپ نے آج دے دیا۔ میں نے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ملفوظ کی بنیاد پر ایک غزل بھی لکھی ہے۔
سوال نمبر 13:
صبح اٹھ کر اگر نیتیں کرنے بیٹھیں تو اس دن کے لئے کیا کیا نیتیں کریں اور اگر ساری زندگی کی نیتیں باندھ لیں تو کیا باندھیں؟
جواب:
ماشاء اللہ! اچھا سوال ہے، لیکن ہر ایک کے اپنے اپنے احوال ہوتے ہیں، باقی سب سے اہم بات اور جو سب کی common ہے، وہ ہے شریعت پر چلنا، لہٰذا اس دن شریعت کے جو احکام آپ کے سامنے ہیں یعنی کرنے کے ہیں انہی کی نیت کرلیں، مگر ان میں سے کچھ ہوجائیں گے اور کچھ نہیں ہوسکیں گے، پھر جو نہ ہوسکیں، ان کی پھر نیت کرلیں کہ آئندہ مکمل کریں گی اور جو ہوجائیں، تو اس پر اللہ پاک کا شکر ادا کریں، بس یہی طریقہ ہے کہ آپ روزانہ یہ نیت کرلیا کریں۔ باقی پوری عمر کے لئے اگر آپ نے نیت کرنی ہے تو وہ تو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ سے ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ ہم نے نیت کرلی ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے سب کچھ کریں گے اور محمد ﷺ کے طریقہ پہ کریں گے، اس لئے یہ تو ایک جامع نیت ہے، جو سب کی ہے۔ لیکن عمل کے اوپر لانے والی چیز جو ہوتی ہے، وہ شعوری نیت ہوتی ہے، جیسے توبہ شعوری ہوتی ہے، اسی طرح شعوری نیت بھی ہوتی ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ میں کس چیز کی نیت کررہی ہوں، بس اس کے لئے آپ کے سامنے جو چیزیں ہیں، ان کی نیت کرسکتی ہیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ ذکر اَلْحَمْدُ للہ! آپ کی برکت سے دو سو، چار سو، چھ سو اور چار ہزار ہے، جسے تقریباً ایک ماہ ہوگیا ہے اور معمولات بلاناغہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری ہیں۔ دل کے مقام پر کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا، بس ذکر ایک routine کی طرح ہورہا ہے، جس میں کوئی شوق اور جذبہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے چھوڑنے کا حوصلہ ہے۔ آپ کی برکت سے پہلے جو کیفیات میسر تھیں، اب وہ ایک خواب محسوس ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ایسا حال نصیب ہو جو شریعت پر چلنے کے لئے معاون و مددگار ہو۔ اَلْحَمْدُ للہ! آپ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعمال کی توفیق مل رہی ہے۔
جواب:
ماشاء اللہ! آپ نے درمیان درمیان میں باتیں کی ہیں، لیکن ان چیزوں کو آپ کچھ سمجھ نہیں رہے، شاید میرے خیال میں کچھ اہمیت نہیں دے رہے۔ نمبر ایک آپ نے جو بات کی کہ ذکر کو چھوڑنے کا حوصلہ نہیں ہے، تو یہ انس کی کیفیت ہے یعنی جن اعمال سے آپ مانوس ہیں، ان کو آپ چھوڑ نہیں سکتے، سبحان اللہ! یہ بڑی اچھی بات ہے، کیونکہ ذکر سے آپ مانوس ہیں۔ باقی ذکر کا شوق نہیں ہے، تو شوق ہوتا ہے آئندہ کی چیز کے لئے یعنی جو ابھی نہیں ملا، مثال کے طور پر میں کسی اللہ والے سے بیعت ہونا چاہتا ہوں اور ان سے کچھ لینا چاہتا ہوں، تو یہ اس وقت شوق کا عالم ہوگا، لیکن جس وقت میں بیعت ہوجاؤں اور وہ مجھے کچھ دینا شروع کرلیں تو پھر ان کے ساتھ میں مانوس ہوجاؤں گا، یہ پھر انس کی حالت ہوگی۔ اور جو انس کی حالت ہے، وہ تو برقرار رہتی ہے، مگر شوق کی حالت ہر وقت برقرار نہیں رہ سکتی، بس اللہ تعالیٰ کا یہ تکوینی نظام ہے کہ وہ اس کو وقتی طور پہ کرلیتے ہیں، مگر جو انس ہوتا ہے، تو وہ دائمی ہوتا ہے، اور انس کا پتا اس وقت چلتا ہے جب وہ چیز نہیں ہوتی، پھر پتا چلتا ہے کہ اوہ ہو یہ میرے لئے بہت بڑی چیز تھی، اس لئے آپ کو ماشاء اللہ! ذکر کے ساتھ انس ہے، اس پہ آپ اللہ تعالیٰ کا شکر کریں، باقی شوق یہ تو ابتدائی بات ہوتی ہے۔ دوسری بات جو آپ کرتے ہیں کہ ایسا حال نصیب ہو جو شریعت پر چلنے کے لئے معاون ہو، سبحان اللہ! یہ بڑی اچھی نیت ہے، کیونکہ اس کے علاوہ انسان اور کیا کرے؟ شریعت پر ہی چلے گا، اس لئے یہ نیت اچھی ہے، بس اب عمل بھی اس کے مطابق ہو۔
سوال نمبر 15:
Monthly اذکار up to date and احوال
السلام علیکم my dear and respected مرشد. I hope you are well ان شاء اللہ یا سیدی دامت برکاتھم. All اذکار completed for this month without any ناغہ اَلْحَمْدُ للہ. Two, four, six and thirty five hundred. Ten minutes مراقبہ with fingure on لطیفۂ قلب، روح، سر، خفی and fifteen minutes مراقبہ with fingure on لطیفۂ اخفیٰ. I am able to sense Allah Allah coming from لطیفۂ قلب، روح، سر، خفی and اخفیٰ during مراقبہ. I can also feel myself gently rocking backward and forward during مراقبہ. I start to sweat sometimes when doing مراقبہ.
حضرت جی! اگر مراقبہ کے علاوہ دیگر اوقات میں اگر اچانک بغیر ارادہ لطائف کے Sensing points کو چوم لوں تو فوراً لطائف جاری ہوجاتے ہیں۔
جواب:
ٹھیک ہے، ماشاء اللہ! آپ نے جو بات بتائی ہے، اس طرح ہوتا ہے، یہ کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہے، بلکہ معمول کے مطابق ہے، اس لئے آپ اس کو فی الحال جاری رکھیں اور اپنے لطائف کو دس دس منٹ ٹائم دیں، باقی جو اذکار ہیں اس کے بعد پھر ایک مراقبۂ احدیت ہے، وہ آپ شروع کرلیں۔ اس مراقبہ میں یہ ہوتا ہے کہ جو فیض یعنی جو بھی اچھی چیز ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو مل رہی ہے۔ تصور یہ کرنا ہے کہ آپ ﷺ کے قلب پر وہ پہلے آتی ہے اور آپ ﷺ کے قلب سے وہ شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پر، بس یہ جو فیض کا سلسلہ ہے یہ آپ کی طرف آرہا ہے، پندرہ منٹ کے لئے آپ نے یہ سوچنا ہے۔ باقی یہ اچھی باتیں ہیں، اللہ جل شانہٗ مزید توفیقات سے نوازے۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر دس دس منٹ اور لطیفۂ خفی پندرہ منٹ ہے اور تمام لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے اور عام حالت میں بھی دھیان اگر جائے تو بھی active محسوس ہوتا ہے، اپنی اصلاح کی فکر رہتی ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! یہ بڑی اچھی بات ہے، اپنی اصلاح کی فکر جاری رہنی چاہئے۔ باقی اب آپ اپنا لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح، لطیفۂ سر اور لطیفۂ خفی دس دس منٹ کریں اور لطیفۂ اخفیٰ پندرہ منٹ کریں۔
سوال نمبر 17:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! گزشتہ دو ماہ کے احوال درج ہیں، اَلْحَمْدُ للہ! نمازوں کی پابندی ہورہی ہے، ذکر دو سو، دو سو، دو سو، چھ ہزار ہے، مگر چھ ہزار کی تعداد ایک نشست میں پوری نہیں ہورہی اور یکسوئی بھی کم ہے، باقی احوال وہی اوپر والے ہیں، چونکہ صرف نماز کی تاکید فرمائی تھی، اس لئے باقی احوال کے متعلق ارشادات چھوڑ دیئے گئے تھے۔ جزاکم اللہُ خیراً۔
جواب:
ٹھیک ہے، اب آپ کی جو چھ ہزار کی تعداد پوری نہیں ہورہی تھی تو اس کو پورے کرلیا کریں، پھر ان شاء اللہ! مجھے ایک مہینے کے بعد بھیج دیں۔
سوال نمبر 18:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں، اللہ پاک آپ سے اور ہم سب سے راضی ہوجائے۔ (آمین) حضرت میرے ذکر کی ترتیب درج ذیل ہے: دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ سو اور دس منٹ پانچوں لطائف پر ’’اَللہ اَللہ‘‘ محسوس کرنا اور پندرہ منٹ لطیفۂ سر پر مراقبہ شیونات ذاتیہ ہے۔ احوال یہ ہیں کہ حضرت جی! جنوری سے تہجد اور اشراق باقاعدگی سے پڑھ رہا تھا۔ جنوری کے بیچ میں بیمار ہوگیا اور دس دن بیمار رہا، جس کی وجہ سے معمولات disturb رہے اور ذکر کی کوشش کرتا تھا، مگر پھر بھی پورا نہیں کر پاتا تھا، اس لئے دل میں آیا کہ میں بیماری کی اطلاع کروں، مگر پھر خیال آیا کہ شیخ کو اپنے ذاتی مسائل نہیں بتاتے، اس لئے پھر نہیں بتا سکا، باقی اَلْحَمْدُ للہ! میری فرض نماز اور قرآن پاک کی تلاوت قضا نہیں ہوئی، اگرچہ مسجد نہیں جاسکتا تھا، مگر گھر نماز پڑھ لیتا تھا اور کھانے کا مجاہدہ قدرتی طور پر ہورہا تھا، کیونکہ کوئی چیز کھانے کو دل ہی نہیں کرتا تھا، اب طبیعت بہتر ہورہی ہے اَلْحَمْدُ للہ! ذکر کی اور باقی معمولات کی پابندی کی نیت ہے، آپ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
ابھی چونکہ آپ کو کمزوری ہوگی، اس لئے آپ انہی معمولات کو establish کرکے ایک مہینے کے بعد پھر مجھے بتا دیجئے گا۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
I hope حضرت is well and the family. One of the brothers said from a young age he hates how he feels and he wants to be normal like a normal man. What should he do?
جواب:
I will ان شاء اللہ answer directly.
سوال نمبر 20:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خوف اور رجا کے درمیان اعتدال کی کیفیت کیا ہو؟ اور یہ کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
جواب:
اصل میں یہ ہے تو ایک علمی بات، لیکن اس کا عمل کے ساتھ یہ تعلق ہے کہ انسان کو اللہ پاک سے خوف ہونا چاہئے، لیکن اتنا نہ ہو کہ امید ختم ہوجائے، اور امید ہونی چاہئے لیکن اتنی نہ ہو کہ خوف ختم ہوجائے یعنی دونوں چیزیں اپنی اپنی جگہ پر برقرار رہیں، ورنہ پھر بے اعتدالی ہوجاتی ہے۔ آپ اس کو ذرا دوسرے معنوں میں دیکھ لیں کہ انسان جب بیمار ہوتا ہے تو دو باتیں ہوتی ہیں یا بے احتیاطی ہوتی ہے یا وہم ہوتا ہے، اگر بے احتیاطی سے بچتا ہے تو وہم ہونے کا گمان ہوتا ہے اور وہم سے بچتا ہے تو بے احتیاطی ہونے کا گمان ہوتا ہے، اس لئے ان دونوں کے درمیان درمیان ہونا پڑتا ہے، مگر جس کی شامت آچکی ہوتی ہے، تو وہ ان میں سے کسی ایک طرف چلا جاتا ہے یا وہم کی طرف چلا جاتا ہے یا اس بے احتیاطی کی طرف چلا جاتا ہے، بس اسی طریقے سے اس روحانیات میں یہ بات ہے کہ اللہ پاک سے امید ہر وقت ہونی چاہئے، کیونکہ جن کو امید نہیں ہوتی تو وہ بیچارے مایوسی کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں اور وہ ایک روحانی مریض بن جاتے ہیں۔ اور دوسری طرف جو امید والی بات ہے کہ اس طرف اگر چلے جائیں تو بے خوفی والی بات شروع ہوجاتی ہے، بس پھر وہ دھڑلے سے گناہ کرتے ہیں اور ان کو پروا ہی نہیں ہوتی، بس وہ کہتے ہیں کہ اللہ غفور ورحیم ہے۔ یقیناً اللہ غفور ورحیم ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس پہ جرأت کرے، لہٰذا اس چیز سے بچنے کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر 21:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
نمبر 01: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ، لطیفۂ خفی پندرہ منٹ ہے اور تمام لطائف پر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ماشاء اللہ! لطیفۂ اخفیٰ کا بتا دیں پندرہ منٹ کے لئے اور باقی دس منٹ کرے۔
نمبر 2: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ اور لطیفۂ خفی پندرہ منٹ ہے۔ پہلے تین لطائف پر محسوس ہوتا تھا، مگر اب کسی پر بھی محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
اب اس طرح کرلیں کہ لطیفۂ قلب پر ہی بیس منٹ اس کو بتا دیں، باقی پہ صرف پانچ پانچ منٹ کرے۔
نمبر 03: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ ہے۔ مراقبہ تجلیات افعالیہ کے بعد نیک اعمال کی توفیق بڑھ رہی ہے اور جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ہے۔
جواب:
سبحان اللہ! اب تجلیات افعالیہ کے بجائے صفات ثبوتیہ کا بتا دیں اور تمام لطائف پر پانچ پانچ منٹ جاری رکھئے گا۔
نمبر 04: لطیفۂ قلب پندرہ منٹ ہے، مگر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
ابھی یہی جاری رکھیں۔
نمبر 05: لطیفۂ قلب دس منٹ ہے اور کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اس کو بھی جاری رکھیں اور پندرہ منٹ کرلیں۔
نمبر 06: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت صلوٰۃ پندرہ منٹ ہے، ہر نماز کے اندر الگ الگ محسوس ہوتا ہے اور کہتی ہوں کہ اگر یہ نماز نہ ہوتی تو ہم کیا کرتے؟
جواب:
سبحان اللہ! بڑی اچھی بات ہے، اب ماشاء اللہ! دو رکعت نماز کم از کم دن میں ایسے پڑھ لیا کریں کہ آپ سمجھیں کہ بس میں اللہ پاک کے سامنے کھڑی ہوں۔
نمبر 07: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبۂ معیت اور یہ احساس کرنا کہ میں ایسا کروں کہ اللہ خوش ہوجائے۔ اس مراقبے سے دل نرم ہوگیا ہے اور رونا بہت آتا ہے، اور اسے دو مہینے ہوگئے ہیں۔
جواب:
تمام لطائف پر دس منٹ کا ذکر جاری رکھیں اور مراقبۂ معیت کو آپ ماشاء اللہ! مختلف اوقات میں گاہے گاہے پانچ پانچ، دس دس منٹ کرلیا کریں۔
سوال نمبر 22:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
The حدیث مبارکہ tells us that Allah is with the broken heart. محدیثیں have written many things in this regard but I am not seeking شرح of the حدیث of its level of authority. My question is what is regarded as a broken heart is the pain of losing someone’s love. Is it the broken heart and pain felt after having committed sins and breaking Allah’s commands and then feeling sick inside and pain due to the loss of the connection? Sorry if my question is not appropriate for the مجلس.
جواب:
No. This question is appropriate for the مجلس. It’s no problem.
یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں جو مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ کسی بھی وجہ سے انسان کے جذبات کو اگر ٹھیس پہنچے، تو اس کو کہتے ہیں دل کا ٹوٹ جانا، مثال کے طور پر کوئی خواہش تھی اور وہ پوری نہیں ہوئی، اگرچہ جائز خواہش ہو، مگر وہ پوری نہیں ہوئی یا کوئی صدمہ پہنچا ہو، جیسے کسی کا بچہ فوت ہوجائے یا بیوی فوت ہوجائے یا کوئی اور صدمہ اچانک کسی کو آجائے، تو ان سب سے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے، اور یہ سب Broken heart میں آجاتے ہیں۔ اس صورت میں پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اَنَا عِنْدَ الْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُہُمْ‘‘ کہ میں ٹوٹے ہوئے دل والوں کے ساتھ ہوتا ہوں، لہٰذا اس وقت انسان جب اللہ پاک کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کو بہت جلدی وصول ہونے لگتا ہے۔ اور یہ بات ہم قرآن کی اس آیت سے بھی اخذ کرسکتے ہیں:
﴿الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156۔157)
ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں‘‘۔
سوال نمبر 23:
السلام علیکم۔ حضرت جی! میں فلاں کی اہلیہ فلاںی ہوں۔ حضرت جی! میرے معمولات میں دس دس منٹ لطیفۂ قلب، لطیفۂ روح اور پندرہ منٹ لطیفۂ سر ہے۔ کیفیت یہ ہے کہ لطیفۂ سر ابھی محسوس نہیں ہوتا، کیونکہ میں نے اس ذکر میں ناغہ کیا ہے۔ حضرت جی! کوتاہی کے لئے معذرت، لیکن معمولات باقاعدگی سے شروع کردیئے ہیں۔ حضرت جی! میں اپنے احوال تفصیل سے بتانا چاہتی ہوں کہ میں آپ کے بتائے ہوئے معمولات کے علاوہ کوئی نفلی عمل اور ذکر نہیں کر پاتی، اس کی وجہ سے غفلت کا بہت احساس ہوتا ہے، زندگی میں آزمائشیں ایسی نازل ہوتی ہیں کہ ایک مشکل ختم ہونے کے بعد دوسری شروع ہوجاتی ہے اور ایک دن کا وقفہ بھی نہیں ہوتا اور روح کی بے شمار برائیاں ہیں، جو میں ٹھیک کرنا چاہتی ہوں، لیکن نہ دل لگتا ہے اور نہ دنیاوی زندگی موقع دے رہی ہے، معمولات بھی خود سے ڈنڈے کے زور پر کرواتی ہوں۔ حضرت جی! میں اپنے شوہر کی دوسری زوجہ کے ساتھ رہتی ہوں، انسانی حالات کے مطابق مجھ میں بھی جلن، تنگ نظری اور منفی سوچ موجود ہے، جو کہ میں کہہ نہیں پاتی، لیکن میرا تزکیہ نفس کا سفر اس سے اثرانداز ہورہا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات ان آزمائشوں کے ذریعہ نفس کی training کرنا چاہتی ہے، لیکن پھر بھی صبر نہیں آتا۔ حضرت جی! برائے مہربانی خصوصی دعا کی درخواست ہے۔ حضرت جی! دو دن پہلے خواب دیکھا کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ ایک building سے گزر رہی تھی کہ اچانک آپ کی آواز آئی کہ آپ ’’حَقْ حَقْ‘‘ کی ضرب لگا رہے تھے، میں شوہر کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوگئی تو وہاں دسترخوان لگا ہوا تھا، ہزاروں نعمتیں تھیں اور آپ بیان فرما رہے تھے کہ ایک دم آپ نے کہا بی بی جان! (یعنی اپنی اہلیہ کو کہا کہ) لبیک کی تیاری کریں، تو بی بی جان مجھے باہر لے گئی اور ایک جالی کے سامنے کھڑا کردیا، میں نے دیکھا کہ سامنے خانہ کعبہ تھا، میں زار و قطار رونے لگی، اسی رونے سے آنکھ کھل گئی، خواب چونکہ مختلف تھا، اس لئے آپ کو بتانا مناسب سمجھا۔
جواب:
ماشاء اللہ! آپ کو اللہ جل شانہٗ راستہ دے رہے ہیں۔ اور تکالیف جو ہوتی ہیں، یہ من جانب اللہ تربیت کا سامان ہوتی ہیں، کیونکہ دو قسم کے مجاہدے ہوتے ہیں، ایک مجاہدہ اختیاری ہوتا ہے اور ایک مجاہدہ غیر اختیاری ہوتا ہے، مجاہدہ اختیاری میں کیفیات زیادہ ہوتی ہیں اور ترقی کم ہوتی ہے، جبکہ مجاہدہ غیر اختیاری میں کیفیات کم ہوتی ہیں، لیکن ترقی زیادہ ہوتی ہے۔ اور مجاہدہ اختیاری انسان کی اپنی صواب دید پر ہوتا ہے، جبکہ مجاہدہ غیر اختیاری اللہ تعالیٰ کی صواب دید پر ہوتا ہے، اس وجہ سے اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا آپ کو اگر اللہ پاک غیر اختیاری مجاہدات کے ذریعہ سے ترقی دلا رہے ہیں تو آپ اس سے تنگ دل نہ بنیں، ان شاء اللہ! یہ آپ کے لئے اچھا ہوگا، باقی ہر عورت کے لئے جس کی کوئی سوکن ہو، تو یہ بذات خود ایک مجاہدہ ہے اور اس مجاہدے پہ بہت اجر ملتا ہے، اس لئے اگر اس کو اللہ کے لئے برداشت کیا جائے تو یہ بہت بڑا مجاہدہ ہے اور ماشاء اللہ! اس پہ بہت کچھ ملتا ہے۔ باقی جو خواب ہے تو اَلْحَمْدُ للہ! وہ بھی اچھا خواب ہے اور ماشاء اللہ یہ ’’حَقْ‘‘ کا ذکر ایک خاص کیفیت کی طرف اشارہ کررہا ہے، جس پہ بعد میں بات ہوگی ان شاء اللہ العزیز! اللہ جل شانہٗ آپ کو ان تمام فیوض و برکات کو پانے کی اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر 24:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے تین ہزار اسم ذات کا ذکر اور لطیفۂ قلب اور روح کا ذکر کررہا ہوں۔ اور جب سے میں نے لطیفۂ سر دس منٹ اور خفی پندرہ منٹ شروع کیا ہے، ذہنی بوجھ بڑھ رہا ہے اور فلاں کی طرف زیادہ میلان ہورہا ہے، توبہ استغفار بھی زیادہ ہے، لیکن عدم توجہی اور بہت بے سکونی ہے اور روزانہ تلاوت قرآن بھی دو ہفتے سے نہیں ہورہی، آپ کی رہنمائی اور خصوصی دعاؤں کی درخواست۔
جواب:
اصل میں بعض لوگوں کے لئے کچھ چیزیں ان کی چھپی ہوئی چیزوں کو بڑھانے کے لئے یعنی ظاہر کرنے کے لئے ہوتی ہیں، لہٰذا جو ذکر سے آپ کی چیزیں ظاہر ہورہی ہیں، اس پر آپ کو مجاہدہ کرنا ہوگا، کیونکہ روحانیت نے آپ کی جسمانیت کو ظاہر کردیا ہے، اس وجہ سے اب آپ اس کے لئے تیاری کرلیں کہ ان چیزوں کو دبا دیں اور دبانے سے اگر ہوتا ہے، تو دبانا یہ مجاہدہ ہے اور اسی سے اصلاح بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ ان کو دبایا کریں اور اس کی طرف توجہ نہ دیں، بالخصوص اس کے زور کے وقت اپنے آپ کو کسی اور چیز میں مصروف کرلیا کریں، ان شاء اللہ العزیز! اور معمولات میں بالکل کمی نہ لائیں اور عدم توجہی والی خطرناک بات ہے، اس لئے جو آپ کو کرنے کو بتایا گیا ہے، بے شک کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں، مگر اس کو کرتے رہیں، تاکہ آپ کو ذکر اور مجاہدہ دونوں کا فائدہ حاصل ہوجائے۔
سوال نمبر 25:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت اقدس! مزاج بخیر ہوں گے، بندہ کو جو ذکر ایک مہینے کے لئے دیا تھا، اس کا بلاناغہ ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور پانچ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ‘‘ اور اس کے ساتھ دس منٹ مراقبۂ قلبی ’’اَللّٰہ‘‘ کا تھا۔
جواب:
’’اَللّٰہ‘‘ کا مراقبۂ قلبی کیسے ہورہا ہے؟ اس کی تفصیل بتا دیں۔
سوال نمبر 26:
Respected Hazrat, can I speak to you?
جواب:
Yes. Speaking time is specified and the time specified for that is between 12 and 01 o’clock pakistan standard time ان شاء اللہ.
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔