سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 554

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں فلاں ہوں UK سے، آپ نے فرمایا تھا کہ اگر مجھے کوئی بات کرنی ہو تو میں آپ کو فون کرسکتا ہوں، لیکن جب فون کرنے کا وقت آتا ہے تو میرا دماغ خالی ہوجاتا ہے اور اس طرح وقت گزر جاتا ہے۔

جواب:

دیکھیں! آج کل کی جو جدید سہولیات ہیں، اس سے آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ آپ reminder بھی لگا سکتے ہیں یا آپ کسی اور کو کہہ بھی سکتے ہیں یعنی ان چیزوں کا استعمال کرلیں، پھر جب فون کرنے کا ٹائم ہو تو وہ آپ کو inform کردیں، پھر آپ فون پر بات کرلیں ان شاء اللہ! یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔

سوال نمبر 2:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت شاہ صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا اور آخرت کی تمام خوشیاں عطا فرمائے، (آمین) شاہ صاحب! خواتین کا ذکر تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار اور ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر پندرہ منٹ کے لئے آنکھیں بند کرکے کر لیتے ہیں۔ 06 نومبر سے اب تک یہ ذکر جاری ہے۔ خواتین کی خواہش ہے کہ یہ ذکر کرنے کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کا کچھ حصہ پڑھنے کا حکم فرمائیں۔ باقی ذکر سے ہمیں بہت سکون ملا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہے کہ آپ کو ذکر سے فائدہ ہورہا ہے، لیکن اس کا اصل فائدہ اصلاح میں ہے، سکون تو ایک عارضی چیز ہے اور دنیا کی بات ہے، اس لئے سکون کی طرف آپ زیادہ توجہ نہ کریں، بلکہ اگر بالکل (اللہ نہ کرے کہ) بے سکونی بھی ہو، لیکن اس سے آپ کی اصلاح ہوجائے، تو وہ زیادہ بہتر ہے۔ باقی قرآن پاک کی تلاوت سے کس نے روکا ہے؟ یہ عمل تو آپ ضرور کرلیں، البتہ ہمارے ہاں کم از کم ایک پاؤ تلاوت روزانہ کرنی ہوتی ہے اور اگر زیادہ کرسکتی ہیں تو بالکل زیادہ بھی کرسکتی ہیں، یہ اپنی مصروفیات کو دیکھ کر ٹائم بنا لیں۔ اور آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جو پندرہ منٹ ذکر کرلیتی ہیں تو وہ آیا ان کو محسوس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ وہ ذرا بتا دیجئے گا۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت جی! اَلْحَمْدُ للہ! میں نے ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور پانچ سو اور لطیفۂ سر پر مراقبہ شیونات ذاتیہ کا پندرہ منٹ کا ذکر کیا ہے۔ حالات تفصیل سے بتانا چاہ رہا ہوں، مراقبہ کرتے ہوئے دل میں درد محسوس ہوتا ہے، اس کے علاوہ رات کو کئی دن سے تہجد کے وقت بھی ایک دفعہ دل کی طرف درد ہوتا ہے، جیسے کسی نے ایک دفعہ دل دبایا ہو، پھر میں اٹھ جاتی ہوں اور تہجد پڑھ کر مناجات کرتا ہوں۔

نمبر 2: پچھلے شب جمعہ کو رات نو بجے سویا تھا تو تقریباً بارہ بجے آنکھ کھل گئی بہت زیادہ بوجھ کی وجہ سے، سوچا کہ شاید مر جاؤں گا، لیکن پھر دو گھنٹے جائے نماز پر بیٹھا رہا اور نفل پڑھ کر دعا کرتا رہا، مگر آرام نہیں آیا، اس رات کی کیفیت میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا، پھر دو پارے پڑھے اور پھر بھی کیفیت اسی طرح رہی، پھر بچوں کے لئے وصیت لکھی اور دوبارہ جائے نماز پر بیٹھ گیا، اس کے بعد پھر دوبارہ لیٹا، مگر نیند نہیں آئی، پھر بیوی اٹھی، اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے نیند آئی، مگر پھر اٹھ گیا اور فجر پڑھی، اس کے بعد اطمینان ہوا کہ مروں گا تو اللہ سے ملاقات ہوگی ان شاء اللہ!

جواب:

یہ اصل میں panic والی بات ہے، لیکن چونکہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں، اس لئے میں آپ کو کچھ اس بارے میں زیادہ نہیں بتا سکتا، لیکن آپ ڈاکٹر سے مشورہ کرلیں اور اپنے سارے ٹیسٹ کرالیں، باقی امید ہے کہ وہ بالکل normal ہوں گے، صرف یہ ایک نفسیاتی امر ہے، اس کے لئے آپ کو کچھ بتا دیں گے۔ باقی موت کا کوئی وقت نہیں ہے، صحتمند آدمی باتوں باتوں میں جاسکتا ہے اور بیمار آدمی زندہ رہتا ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دے دوں، ہمارے قریب ہی ٹیکسلا میں ایک بزرگ ہیں حکیم سعید الرحمٰن صاحب جو ہمارے حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں، یہ مدت دراز سے بیمار ہیں، کافی بیماریاں ہیں اور ان کے دو چھوٹے بھائی بالکل صحتمند تھے، وہ دونوں بھائی چلے گئے، لیکن اَلْحَمْدُ للہ! یہ موجود ہیں، اب آدمی کیا کہہ سکتا ہے؟ کہ صحتمند بھائی بیماری میں مبتلا ہوکر دنیا سے تشریف لے گئے اور حضرت ابھی تک حیات ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موت بیماری وغیرہ یا اس قسم کی چیزوں کے ساتھ لازمی نہیں ہے، بلکہ اس کے لئے کوئی بھی ذریعہ بن سکتا ہے، اس لئے آپ ان چیزوں میں نہ پڑیں، بس آپ اللہ پاک کو یاد کر لیا کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں سے اپنا مشورہ ضرور کر لیجئے گا، کیونکہ ہمارے ہاں اَلْحَمْدُ للہ! اسباب کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور مسبب الاسباب کی طرف بھی توجہ کرائی جاتی ہے، یہ دونوں باتیں اَلْحَمْدُ للہ! ہمارے ہاں ہیں، یہ ہمارے بزرگوں کا نمونہ ہمارے سامنے ہے ماشاء اللہ!

سوال نمبر 4:

السلام علیکم۔ حضرت! برونائی سے فلاں عرض کررہا ہوں، آپ نے پچھلے ماہ پندرہ منٹ مراقبہ سے پہلے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا جہری ذکر دو ہزار تک بڑھایا تھا، اَلْحَمْدُ للہ! جسے کرتے ہوئے ایک ماہ مکمل ہوگیا ہے۔ حضرت! مراقبہ کے دوران دھیان میں ابھی بھی کافی کمزوری ہے، البتہ جہری ذکر میں دھیان قدر بہتر رہتا ہے، مزید ہدایت کی درخواست ہے۔

جواب:

اسی لئے تو ہم عرض کرتے رہتے ہیں کہ سب کے لئے ایک جیسا راستہ نہیں ہے، بلکہ کسی کو کس راستے سے زیادہ فائدہ ملتا ہے تو کسی کو کس راستے سے زیادہ فائدہ ملتا ہے۔ بہرحال اللہ پاک نے انسان کا مزاج جیسے بنایا ہو، اسی طریقے سے ہم کام کریں۔ ماشاء اللہ! جو ہمارے حکیم حضرات ہیں، انہوں نے بھی چار طبیعتیں بنائی ہوئی ہیں، اور ہر طبیعت کا اپنا علاج ہوتا ہے، ایک طبیعت کا علاج دوسرے کے لئے زہر ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی کا مزاج گرم مرطوب ہے، تو اس کا علاج سرد خشک ہے، وہ سرد خشک چیزیں کھائے گا، اگر یہ گرم مرطوب چیزیں کھائے گا تو اس کی بیماری بڑھ جائے گی۔ اور جو سرد خشک مزاج والے ہیں، ان کو گرم مرطوب چیزیں کھلائی جائیں گی تو درست ہوگا اور اگر سرد خشک چیزیں کھائیں گے تو بیمار ہوجائیں گے۔ لہٰذا اللہ پاک نے یہ نظام بنایا ہوا ہے، اس میں ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ خیر آپ جہری ذکر کو بڑھایئے اور ماشاء اللہ! اسے پچیس سو کرلیں، باقی چیزیں بالکل اسی طرح رکھ لیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں فلاں ہوں، پچھلی مجلس میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ لمبا میسج ہے، وقت کم ہے، کل سوال و جواب کی مجلس میں جواب دوں گا۔ سوال یہ تھا۔

حضرت جی! میں فلاں ہوں، اللہ پاک آپ کو صحت اور عافیت میں رکھے۔ حضرت جی! مجھے موسیقی سے نفرت ہے اور میرے شوہر کو حد درجہ محبت ہے، شروع میں گانے کی آواز پر کانوں میں انگلی ڈال لیتی تھی یا hand free یا کلام یا نعت شریف سن لیتی تھی۔ پہلے وہ اس بات کو پسند کرتے تھے، لیکن اب میری دینی چیزوں سے چڑنے لگ گئے ہیں، ان کو پتا ہے کہ میں آپ سے بیعت ہوں اور میں معمولات بھی کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ extremist بن گئی ہو۔ وہ مجھے باہر کہیں لے کر جانا چاہیں تو گانوں کو ہر بات میں ڈال لیتے ہیں کہ آپ نے میرے ساتھ کھانا پینا ہے، آپ کہیں جارہی ہیں تو تھوڑے بہت گانے لگے ہوں گے، اس میں کیا ہوگیا؟ ہمارا کیا فائدہ اس حالت میں باہر کھانے پینے کا یا سیر کرنے کا کہ ذرا سا گانا ہو تو handsfree لگا لیتی ہو۔ اس طرح وہ مجھے کبھی باہر لے کے جانے سے avoid کر دیتے ہیں، میں اب ان کے سامنے handsfree نہیں لگاتی، لیکن درود شریف مسلسل پڑھ لیتی ہوں یا پھر ’’یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ‘‘ والا وظیفہ پڑھ لیتی ہوں اگر کہیں گانے لگے ہوں۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ مراقبے کا ان کو علم ہے، میں اسے چھپا نہیں سکتی۔ وہ اسے دیکھ کر پوچھتے بھی ہیں کہ آپ کے معمولات ہوگئے؟ مراقبہ کرلیا۔ اور وہ دیکھتے ہیں کہ مجھے دیر بھی ہوجائے، تو تب بھی میں ناغہ نہیں ہونے دیتی یا فجر کے ساتھ لازمی کرتی ہوں، اس پر وہ کہتے ہیں کہ اس میں اتنی شدت پسندی کیوں؟ یہ فرض تو نہیں ہے، اگر ایک دن رہ گیا تو کیا ہوگیا؟ اسی طرح 313 کا معمول بھی ان کو پتا ہے، کیونکہ alarm لگایا ہوتا ہے، پھر میری فکر جب اس کے لئے دیکھتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ اتنا زیادہ وقت کی پابندی کیوں ہے اس میں؟ یہ کوئی ضروری چیز تو نہیں ہے، پھر آخر ایک ایک منٹ کی فکر کیوں؟ حضرت جی! میں ان کو نہیں سمجھا سکتی، نہ قائل کرسکتی ہوں، اگر میں خاموش ہوجاؤں تو کہتے ہیں کہ آپ مجھے بتائیں کہ یہ کیوں کرتی ہیں؟ آپ کو شیخ نے کہا اس لئے کرتی ہیں، پھر ہماری بحث ہوجاتی ہے اور میں دلائل نہیں دے پاتی۔ پہلے میں ان کو اچھی باتیں کہتی تھی، اور پیار سے منع کر دیتی، مگر اب میں کچھ بھی نہیں کہتی اور عجیب بات یہ ہے کہ اب وہ زیادہ چڑنے لگے ہیں۔ ان کا مزاج تبلیغی جماعت کی طرف ہے، وہ آپ کے چند بیانات میں گئے ہیں میرے کہنے پر، لیکن کہتے ہیں کہ مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا، پہلے پسند کرنے لگ گئے تھے، مگر اب نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ نہیں، بس تبلیغ کا کام ٹھیک ہے۔ حالانکہ میں نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ اپنی اصلاح کروانا فرض ہے، اس کے بعد بے شک تبلیغ کرو۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ یہ آپ لوگ مراقبہ اور تسبیح پڑھنے میں لگ گئے ہو، تھوڑا دنیا میں بھی نکلو، حالانکہ میں نے کبھی معمولات کی وجہ سے ان کے کسی کام میں کوتاہی نہیں کی، خدمت بھی پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ دعا کے علاوہ اور کیا کروں؟ سمجھ نہیں آسکتی۔ بعض دفعہ حال کے درجہ میں دعا میں مشغول ہوجاتی ہوں، درود شریف پڑھتی جاتی ہوں، دل سے دعا کرتی جاتی ہوں اور اللہ پاک اور آپ ﷺ کو بیک وقت یاد کرتی ہوں، تو رونے سے آنکھیں سوج جاتی ہیں، وہ اس پر بھی بعض دفعہ بھانپ لیتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیوں روئی ہو؟ کیا پریشانی ہے میرے ساتھ؟ حکمت مجھ میں بالکل نہیں ہے، میرا دل زیادہ پریشان اس لئے ہے کہ مجھے دیکھ کر آپ کے ذہن میں سلسلہ اور تصوف کے بارے میں misconception آگئی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ سے مل کر سوالات اور اشکالات دور کرلیں، میں تو یہی کہہ سکتی ہوں۔ اور اگر کوئی بیان لگا لوں تو سنتے نہیں، بند کر دیتے ہیں، ان حالات میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

سبحان اللہ! میں اس پر آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، جو آپ کے واقعات کا ریورس ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، ان کی بیوی بالکل ان کی نہیں مانتی تھی، وہ بالکل ان کی الٹ تھی۔ تو ایک ولایتی (ولایتی وہ پٹھانوں کو کہتے تھے) یعنی ایک پٹھان ان کا مرید تھا، ان کو حضرت نے کسی کام سے گھر بھیجا کہ آپ وہاں سے کوئی چیز لے آؤ، وہ پیرانی صاحبہ کو کہنا تھا، اب جب دروازہ کھٹکھٹایا تو پوچھا جی کون؟ انہوں نے کہا کہ حضرت نے بھیجا ہے، اس پر وہ کہتی کہ تیرے حضرت کی ایسی کی تیسی، اب یہ پٹھان تھا، تلوار بھی ساتھ تھی، تو کبھی تلوار میان سے نکالتے تو کبھی اندر ڈالتے کہ پیرانی ہے اور کبھی کہتے کہ میرے پیر کی گستاخی کی ہے، تو تلوار نکال لیتے، بس کبھی کیا تو کبھی کیا، بیچارے پہ سب گزر گیا۔ خیر واپس آئے تو طبیعت سے حضرت نے بھانپ لیا کہ کچھ ہوچکا ہے ان کے ساتھ۔ خیر حضرت نے پوچھا بھائی! کیوں لال پیلے ہورہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ حضرت! یہاں جو دیکھتا ہوں تو یہاں آپ ایسے ہیں اور وہاں جب دیکھتا ہوں تو وہاں معاملہ ایسا ہے، یہ سمجھ میں نہیں آتی۔ حضرت نے فرمایا کہ جو وہاں دیکھا ہے، یہ اسی کی برکت ہے جو یہاں دیکھ رہے ہو، یعنی میں نے اس پہ صبر کیا ہے، تو اللہ پاک نے مجھے یہ مرتبہ دیا ہے۔ بس میرے خیال میں آپ کے لئے یہ مجاہدہ کافی ہے، اس سے آپ کا سلوک طے ہورہا ہے ماشاء اللہ! بس آپ کا مجاہدہ ہورہا ہے، اَلْحَمْدُ للہ! اس لئے آپ پریشان نہ ہوں، آپ سے مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کم از کم ماشاء اللہ! زیادہ مخلص تھے، اگر ان کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو میرے خیال میں اس پر پریشان نہیں ہونا چاہئے، قرآن پاک میں بھی یہ بات آئی ہے کہ آپ ﷺ سے اللہ پاک نے فرمایا کہ آپ لوگ اس طرح پریشان نہ ہوں، حالانکہ آپ پر وہ حالات ابھی نہیں آئے جو گزشتہ لوگوں پہ آئے ہیں، جس پر وہ چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ تو اللہ فرماتے ہیں:

﴿اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ﴾ (البقرۃ: 214)

ترجمہ1: ’’یاد رکھو! اللہ کی مدد نزدیک ہے‘‘۔

لہٰذا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی اگر ہوگا تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے، کیونکہ آپ کی ماشاء اللہ! ترقی ہورہی ہے اس کے ذریعہ سے۔ باقی میں آپ کو ایک بات بتا دوں کہ آپ ان کی باتوں سے متأثر بھی نہ ہوں اور ان کی باتوں سے چڑیں بھی نہیں، متأثر اس لئے نہ ہوں کہ وہ خود ہی اپنی باتوں کی تردید کررہے ہیں، کیونکہ تبلیغ کا مطلب کیا ہوتا ہے برائی کی تبلیغ یا اچھائی کی تبلیغ؟ تبلیغی جماعت برائی کی تبلیغ کے لئے تو نہیں آئی، بلکہ اچھائی کی تبلیغ کے لئے آئی ہے، اس لئے جو برائی کی تبلیغ کرے، وہ تبلیغی ہے ہی نہیں، بلکہ وہ تبلیغ کو بدنام کررہا ہے بیچارہ۔ لہٰذا اس وجہ سے تبلیغ پہ ناراض نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اس سے ہمیں دور ہونا چاہئے کہ خدا کے بندے تبلیغ کو بدنام کررہا ہے۔ اور تبلیغ میں ان چیزوں کی کمی کی وجہ سے مسائل ہیں یعنی جو حضرات بگڑے ہوئے ہیں، وہ صرف ان چیزوں کی کمی کی وجہ سے بگڑے ہوئے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو نہیں چاہتے یا ان کی افادیت نہیں جانتے، لہٰذا انہوں نے اپنے ذہن میں تبلیغ کا ایک خاص نقشہ کھینچا ہے اور اس کے علاوہ کسی چیز کو پسند نہیں کرتے، بس ان کے لئے ہم دعا کرسکتے ہیں، باقی اور کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، اور آپ کا تو وہ شوہر ہے، اس لئے آپ نے ان کی بات بھی ماننی ہے۔ اور آپ ان کو دلائل بھی نہ دیں، دلائل دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور اگر کوئی اس قسم کی بات ہو تو آپ اس کو مجاہدہ سمجھیں اور مجاہدہ میں ترقی ہوتی ہے، چنانچہ اللہ فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

لہٰذا اگر آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ مجاہدہ رکھا ہے، تو ہم لوگ کون ہیں جو آپ کے مجاہدہ کو تبدیل کرلیں؟ آپ کے لئے یہ مجاہدہ بہتر ہے، اللہ جل شانہٗ آپ کا حامی و ناصر ہو، ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم۔

Sheikh I did ten minutes meditation for the first four points and fifteen minutes for the fifth point over the last month. Sometimes, I could focus but sometimes I couldn’t. Years ago I always prayed for the blessings in my dua. But recently instead of blessings, I pray more about forgiveness and help from Allah. These are my feelings. Kindly guide me further.

جواب:

ماشاء اللہ اَلْحَمْدُ للہ ثم اَلْحَمْدُ للہ you are going on the right direction because first you were assuming yourself to be deserving for the blessings and now you are aware about your shortcomings and this is a better condition. Therefore, I appreciate you and I congratulate you for this that you are coming down and this coming down is required in this path. So ماشاء اللہ you are doing this. As for ذکر is concerned, I think it is the effect of these things. Now you should do for all the five points ten minutes ذکر and for the rest you will do now مراقبہٗ احدیت and مراقبہ احدیت means that ،فیض which is that thing whatever which is good for someone it's فیض and the main فیّاض is اللہ سبحانہ وتعالیٰ. Hence, it means that فیض is actually coming from اللہ سبحانہ وتعالیٰ and the main source for getting this from اللہ سبحانہ و تعالیٰ is رسول اللہ ﷺ and then after that Sheikh. So, now you will ان شاء اللہ think for fifteen minutes that the فیض is coming from اللہ سبحانہ وتعالیٰ to heart of رسول اللہ ﷺ from where it is coming to the heart of Sheikh and from there it is coming to your heart. So this is مراقبہ احدیت which you will start and it is for one month.

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ میں برطانیہ سے فلاں بات کررہا ہوں، میرا یہ ذکر چل رہا ہے دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’حَقْ‘‘ اور اس کے ساتھ پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر۔ آپ نے جولائی میں صفات ثبوتیہ کی جگہ صفات شیونات کا مراقبے کا اضافہ فرمایا تھا، جوکہ لطیفۂ سر پر ہے پندرہ منٹ، اس مراقبہ کو اب تک تقریباً چھ مہینے سے زیادہ ہوئے ہیں، آخری message میں میں نے آپ کو اپنی دوسری مصروفیت کے بارے میں بتایا تھا اور کہا تھا کہ میرے ذکر میں کافی مشکلات ہیں، آپ نے فرمایا تھا کہ میں خود اپنے حالات کو دیکھوں اور کوشش کروں تاکہ ذکر کی محرومی سے بچ سکوں، اب ذکر کرنا کافی routine پہ آگیا ہے، البتہ اکا دکا ناغہ ہوجاتا ہے یا ذکر مختصر کرنا پڑتا ہے، اس میں شاید میری سستی بھی شامل ہو، لیکن دل سے کوشش کرتا ہوں کہ ذکر میں کوئی ناغہ یا کمی نہ ہو، صحت کے کچھ مسائل ضرور ہیں اور یہ بھی ذکر میں خلل کا سبب بنتے ہیں۔ کیفیات چونکہ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں، اس لئے میں مختصر کرکے دوبارہ لکھتا ہوں کہ مراقبہ میں بہت زیادہ خیالات آتے ہیں، نماز میں اللہ کی طرف دھیان بہت بہتر ہے اور نماز شعور کے ساتھ ادا ہوتی ہے، آخرت کی طرف کافی دھیان ہے اور دنیا سے بے زاری سی ہے، شاید مشکلات کی وجہ سے دنیا کھیل تماشا لگتا ہے، موت کی طرف دھیان رہتا ہے، ایک بات یہ کہ فارغ وقت میں ذکر کافی زیادہ ہوگیا ہے، تہجد کی بالکل پابندی نہیں ہے، ایمانیات کے متعلق وساوس آتے ہیں، کبھی لگتا ہے کہ میری کیفیات میں جمود ہے۔ اس ہفتے پاکستان جانا ہوگا تو مصروفیات کی وجہ سے ڈر ہے کہ شاید ذکر مختصر کرنا پڑے۔ ایک بات دوبارہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کام میں بہت زیادہ ٹائم نکل جائے اور سخت تھکن کی وجہ سے نفس ذکر کو مختصر کرنے کا کہے تو کیا کم کروں جہری ذکر یا قلبی مراقبہ؟

جواب:

ماشاء اللہ! مجھے تو خوشی ہے ان باتوں پر جو آپ نے بتائی ہیں کہ ماشاء اللہ آپ نے کچھ take up کرلیا ہے اور جو چیزیں آپ بتا رہے ہیں کہ مشکلات ہیں وہ Natural ہیں، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے مثلاً آپ کو مراقبہ میں زیادہ خیالات آتے ہیں، تو آنے پہ پابندی نہیں ہے، لانے پہ پابندی ہے، لہٰذا اس میں آپ کے اوپر کوئی گرفت نہیں ہے۔ اور جو آپ نے کہا کہ نماز میں اللہ کی طرف دھیان بہت بہتر ہے اور نماز شعور کے ساتھ ادا ہوتی ہے، سبحان اللہ! یہ تو اللہ پاک کی مدد ہے اور اللہ پاک کی طرف سے gift ہے، اس پر شکر کریں۔ اور آپ نے بتایا کہ آخرت کی طرف دھیان کافی ہے اور دنیا سے بے زاری ہے۔، سبحان اللہ! یہ بھی بہت بڑا fruit ہے اور دنیا واقعی کھیل تماشا ہے، اللہ تعالیٰ خود قرآن میں فرماتے ہیں:

﴿وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾ (آل عمران: 185)

ترجمہ: ’’اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘۔

اور موت کی طرف دھیان رہنا یہ بھی عظیم فضیلت ہے اَلْحَمْدُ للہ! اور فارغ وقت میں ذکر کافی بڑھ گیا ہے، یہ بھی اللہ پاک کا بہت بڑا فضل ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتے ہیں:

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا﴾ (الاحزاب: 41)

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو‘‘۔

اور تہجد کی پابندی بالکل نہیں، تو آپ عشاء کی نماز کے ساتھ چار رکعت پڑھ لیا کریں تہجد کی نیت سے، یہ نہ ہونے سے بہتر ہے۔ ایمانیات کے متعلق وساوس آتے ہیں، تو آپ نے خود ہی وساوس کہا ہے اور وساوس پہ کوئی گرفت ہی نہیں ہے، لہٰذا آپ اس کے بارے میں بالکل ہی پروا نہ کریں، بلکہ اس کے لئے ایک دعا ہے، وہ پڑھ لیا کریں: ’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَذِکْرَكَ‘‘ (اے اللہ میرے دل کے وساوس کو اپنا ذکر بنا دے اور اپنی خشیت بنا دے) اور پاکستان کب آرہے ہیں اور کتنی دیر کے لئے آرہے ہیں؟ یہ ذرا بتا دیجئے گا اور اگر ٹائم کم ہوجائے تو proportionally ان چیزوں کو کم کرسکتے ہیں، لیکن اس کی عادت نہ بن جائے۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم۔

Sheikh I have been doing this month, Allah is our Lord and everyone will be questioned in front of Allah. What and how should I prepare for that for fifteen minutes? I feel Allah is very kind to human beings. One can’t count it if without Allah’s support we can do anything. We are too weak, so we must try to follow Allah. This is for us and try to do it. Sheikh this is my feeling. Kindly advise what I should do next?

جزاک اللہ

Lady Care of فلانہ China.

جواب:

ماشاء اللہ it’s very good condition. May اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant all the فیوضات of this condition to you. Now you should think for fifteen minutes what have you prepared for the life of the hereafter? Think about it every day, write to me about this thinking at the end of the month as what are your feelings about this.

سوال نمبر 9:

السلام علیکم۔

Sheikh I have completed doing مراقبہ صفات ثبوتیہ and صفات تنزیہ in fourth point for fifteen minutes last month and I have got the following feelings

No. 1: Feel good, some stronger and peaceful in my heart. Allah sees hearts of the people so that means that cleaning of the heart is very important and I can feel doing the مراقبہ and ذکر. It looks like cleaning the rubbish in my heart a feeling that got powerful and it is from Allah. Please advise for next جزاک اللہ

جواب:

It's very good. Now you should shift to the fifth point and that is مراقبہ جامع. It means you should consider that the effect of all four مراقبات which means فیض of that is coming from اللہ سبحانہ وتعالیٰ towards رسول اللہ ﷺ and from there to Sheikh and from there to your fifth point. So you should do it this month.

سوال نمبر 10:

Reminder for next.

ذکر .حضرت! السلام علیکم: I have been reciting Allah Allah six thousands five hundred times followed by ‘‘یَا اَللہُ یَا سُبْحَانُ یَا عَظِیْمُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا وَھَّابُ یَا وَدُوْدُ یَا کَرِیْمُ یَا شَافِیُ یَا سَلَامُ’’ hundred times followed by ‘‘یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ’’ ten times. Kindly advise next.

جواب:

You should now do Allah Allah for seven thousands times and the rest will be the same .ان شاء اللہ

سوال نمبر 11:

السلام علیکم۔ حضرت جی! آپ سے عرض کرنا ہے کہ میرا موبائل کا استعمال بہت زیادہ ہوگیا ہے بالخصوص whatsapp کا استعمال بہت زیادہ ہوگیا ہے اور یہ گمان ہورہا ہے کہ دل موبائل میں بہت زیادہ مشغول ہوگیا ہے۔

ابھی عارضی طور پر آپ حضرت جی کی ہدایت کے مطابق موبائل سے اپنے آپ کو دور کرکے روک دیا ہے، دو دن ہفتہ اور اتوار کو زیادہ تر وقت مسجد میں گزارتا ہوں، مزید یہ کہ ان دو دنوں میں ہر وقت دل کی طرف دھیان کرکے یہ دعائیں کرتا ہوں ’’یَا مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ، اَللّٰھُمَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دِینِکَ‘‘ (اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر پھیر دے۔ اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جما دے)

حضرت جی! میری نیت ہے کہ میں دعوت و اشاعت کے کام کے لئے اپنے موبائل کو استعمال کرکے مفید بناؤں۔ حضرت جی! موبائل کے استعمال کو اعتدال پہ لانے کے لئے علاج و معالجہ تجویز فرمائیں۔ حضرت جی! میری ہمشیرہ کہہ رہی ہے کہ ان کو لطیفۂ قلب دس منٹ اور لطیفۂ روح پندرہ منٹ کرتے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا ہے اور کوئی ناغہ نہیں ہوا۔

جواب:

فقہ کا مشہور قاعدہ ہے کہ جلب منفعت سے دفع مضرت زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا موبائل کی بے اعتدالی سے بچنا لازمی ہے۔ اس وجہ سے آپ کم از کم ایک مہینہ موبائل بالکل استعمال نہ کریں، صرف سادہ موبائل اپنے contacts کے لئے استعمال کریں اور وہ بھی ضروری طور پر اور smartphone یہ ہمارے عبید صاحب کے پاس جمع کرا دیں، باقی پھر ان شاء اللہ! دیکھیں گے کہ حالات کیا ہیں۔ اور جہاں تک آپ کی ہمشیرہ کا تعلق ہے تو وہ ماشاء اللہ! ٹھیک ہے، اب ان کو دس دس منٹ لطیفۂ قلب اور اور روح کا بتا دیں اور پندرہ منٹ کے لئے لطیفۂ سر کا بتا دیں۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

نمبر 1: ابتدائی وظیفہ بلاناغہ پورا کرلیا ہے۔

جواب:

اَلْحَمْدُ للہ! اب اگلا دل کا ذکر دس منٹ ان کو دے دیجئے گا۔

نمبر 2: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ دو مہینے کرلیا ہے اور محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو ابھی ایک مہینہ اور کرلیں۔

نمبر 3: لطیفۂ قلب پر دس منٹ، لطیفۂ روح پندرہ منٹ ہے، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب دونوں لطائف پر دس دس منٹ اور تیسرا پندرہ منٹ کا بتا دیں۔

نمبر 4: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ ہے اور کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

کچھ محسوس نہیں ہوتا، یہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا تمام لطائف پر بھی ذکر محسوس نہیں ہوتا؟ یہ بتا دیجئے گا۔

نمبر 5: لطیفۂ قلب دس منٹ، لطیفۂ روح دس منٹ، لطیفۂ سر دس منٹ اور لطیفۂ خفی پندرہ منٹ ہے اور محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

سبحان اللہ! ابھی چاروں لطائف پر دس دس منٹ اور پانچویں پر پندرہ منٹ کرلیں۔

نمبر 6: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ کعبہ پندرہ منٹ ہے۔ مراقبے کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کعبہ سے روشنی آکر میرے دل میں داخل ہوتی ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! اب مراقبہ حقیقت قرآن کرلیں کہ قرآن جو اللہ کا کلام ہے، جیسی اس کی شان ہے، اس کا فیض آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے اور آپ ﷺ سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ سے آپ کی طرف آرہا ہے۔

نمبر 6: تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبۂ معیت پندرہ منٹ ہے۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آئے اور پریشانی ہو تو احساس ہوتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے۔

جواب:

سبحان اللہ! ابھی تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر جاری رکھیں، اور مراقبۂ معیت کی جگہ اب مراقبہ حقیقت کعبہ کا بتا دیجئے گا۔

نمبر 7: اس خاتون نے لطیفۂ قلب کا دس منٹ ذکر ایک ماہ کیا تھا، اور محسوس بھی ہورہا تھا، لیکن پھر چھوڑ دیا تھا، اب فرض عین علم کورس میں داخلہ لیا ہے اور ذکر بھی دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔

جواب:

چونکہ ابتدائی ذکر کر ہی لیا تھا، لہٰذا اب اس کو پہلا دل والا ذکر بتا دیجئے۔

نمبر 8: تمام لطائف پر دس منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ صلوٰۃ پندرہ منٹ ہے، محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

مراقبہ حقیقت صلوٰۃ محسوس نہیں ہوتا، یہ ذرا سمجھنے کی کوشش کریں کہ مراقبہ حقیقت صلوٰۃ کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ نماز جو عبدیت کا بہترین مظہر ہے، اس کی حقیقت کا جو فیض ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کی طرف آرہا ہے، آپ ﷺ کی طرف سے شیخ کی طرف آرہا ہے اور شیخ کی طرف سے ان کی طرف آرہا ہے۔ لہٰذا اس طرح کرلیں۔

نمبر 9: لطیفۂ قلب دس منٹ ہے اور محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ماشاء اللہ! اب لطیفۂ قلب دس منٹ رکھ کر پندرہ منٹ لطیفۂ روح کا بتا دیں۔

نمبر 10: فرماتے ہیں کہ لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے، لیکن مراقبہ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

یعنی تمام لطائف پر تو ٹھیک ہے، مگر میرے خیال میں مراقبہ صفات ثبوتیہ سمجھا نہیں۔ مراقبہ صفات ثبوتیہ یہ ہے کہ اللہ پاک کی صفات کا ہم اپنی صفات کے ذریعہ سے ادراک کرتے ہیں، مثلاً ہم دیکھتے ہیں تو اللہ بھی دیکھتا ہے، لیکن اللہ کا دیکھنا کمال والا ہے اور کامل ہے اور ہمارا دیکھنا ناقص ہے۔ اور اللہ سنتا ہے، اسی طرح اللہ کلام بھی فرماتے ہیں، اللہ پاک زندہ ہے، اللہ کا ارادہ پکا ہے، وہ ذاتی ہے، کسی اور طرف سے نہیں ہے یعنی یہ آٹھ صفات کا جو اثر ہے، اس کو محسوس کرنا ہے کہ ان کا جو فیض ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب کی طرف، آپ ﷺ کے قلب سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفۂ روح پر آرہا ہے، بس اس کو پندرہ منٹ محسوس کرنا ہے، ایک مہینہ اور کرلیں۔

سوال نمبر 13:

یا حضرت صاحب!

May Allah preserve you بَارَکَ اللہُ فِیْکُمْ. I am contacting you to update my ورد which I have been practising for one month. اَلْحَمْدُ للہ I have been regular. There is five hundred ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ thousands times ‘‘حَقْ اَللّٰہ’’ thousands times ‘‘حَقْ’’ and thousands times ‘‘اَللّٰہ’’ two hundred times ‘‘حَقْ ھُوْ’’ and two thousands times ھو. Regarding the احوال, I am still regular in daily religious practices اَلْحَمْدُ للہ and feel closer to the Quran as I learned and practice تجوید rules.

جواب:

So brother I am giving you special ذکر of قادری سلسلہ and be prepared for this and that is doing ھو ذکر and it is done with breathing. When you breathe out you will say اللہ not in words but you will be thinking that اللہ is coming with the breathing. And when you breathe in, feel ھو and you will not be doing this but you will be thinking about it with the breathing. It will automatically start ان شاء اللہ. The rest will be the same .ان شاء اللہ

سوال نمبر 14:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت اقدس! مزاج بخیر ہوں گے، اَلْحَمْدُ للہ! بندہ ایک مسجد میں امام ہے اور اَلْحَمْدُ للہ! مسجد میں روزانہ درس قرآن اور مسائل ’’بہشتی زیور‘‘ کا درس بھی ہوتا ہے اور جمعہ کے دن وعظ بھی ہوتا ہے، تاہم اس خط کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ایک دن حضرت نے مطالعہ سیرت بصورت سوال کے عنوان سے ’’بَلِّغُوْاعَنِّیْ وِلَوْآیَةً‘‘ (بخاری، حدیث نمبر: 3461) والی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ سالک کے لئے الگ حکم ہے، برائے کرم رہنمائی فرمائیں کہ مجھ کو کیا کرنا چاہئے؟ محتاج دعا۔

جواب:

اصل میں سارا علم انسان ایک وقت میں نہیں دے سکتا یعنی جتنا اسے معلوم ہے، وہ ایک دن میں اور ایک وقت میں نہیں دے سکتا، یہ طے شدہ بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس کو دیا جا رہا ہے، اس کو بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ کتنا لے سکتا ہے اور ٹائم کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ جو کررہے ہیں یہ ماشاء اللہ! کافی ہے اور جو دے رہے ہیں یہ بالکل ٹھیک ہے، کیونکہ جمعہ کا وعظ بھی ہوتا ہے، اس میں بھی آپ ساتھیوں کو بتا دیتے ہیں اور ویسے مسائلِ بہشتی زیور کا جو درس ہے، تو سبحان اللہ! یہ فرض عین علم ہے اور درس قرآن بھی آپ دیتے ہیں تو ماشاء اللہ! جتنا اس جگہ پہ ہوسکتا ہے، وہ آپ کررہے ہیں۔ باقی جو سالک کا میں نے بتایا تھا تو وہ یہ ہے کہ مثال کے طور پر اس نے اگر کسی سے اچھی بات سنی ہے تو اس کے پاس اس کا علم ہے، اب وہ اس حوالے سے کسی کو بتا سکتا ہے یعنی یہ نہیں کہ خود اپنی طرف سے بتائے، بلکہ یوں کہے کہ میں نے فلاں سے سنا ہے یا فلاں کتاب میں دیکھا ہے۔ جیسے حدیث پاک ہے:

’’اَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَّعِيَّتِهٖ‘‘ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 2928)

ترجمہ: ’’خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہوگی ‘‘۔

لہٰذا گھر میں خواتین کے پاس کوئی عالم تو نہیں جائے گا، بلکہ گھر میں تو اپنے مرد ہی ہوں گے، اس لئے وہ اگر خواتین کو کوئی بات سنی ہوئی بتانا چاہتا ہے اور وہ تحقیقی بات ہو یعنی اس کو پتا ہو کہ میں نے کس سے سنی یا کس کتاب میں پڑھی ہے، تو وہ بتا سکتا ہے، اور پھر اسی طرح بتانی چاہئے جس طریقے سے سنی ہے یا جس طریقے سے پڑھی ہے یعنی اپنی طرف سے کوئی کم و بیش نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ کم و بیش کرنے کے لئے عالم ہونا ضروری ہے، لیکن اپنی طرف سے جتنا اس نے سنا یا جتنا اس نے پڑھا وہ آگے اسی حوالے کے ساتھ بتا سکتے ہیں، یہ مطلب ہے میری بات کا۔ اور صحابہ کرام یہی کرتے تھے، کیونکہ صحابہ کرام میں ہر ایک صحابی تمام چیزوں کو نہیں جانتا تھا، بلکہ ان میں تو بالکل سادہ حضرات بھی تھے یعنی بالکل ہی دیہاتی اور پھر کبھی کوئی ایک وقت میں صحابی آیا اور پھر بعد میں ملاقات ہی نہیں ہوئی، لیکن انہوں نے جو سنا تھا، وہ آگے بتا دیا، اور یہ حدیث شریف بن گئی، کیونکہ اگر وہ نہ بتاتے تو حدیث شریف کیسے جمع ہوتی؟ اس لئے جو باقاعدہ انہوں نے آپ ﷺ سے سنا، وہ آگے بتا دیا، پھر بعد میں فقہاء نے ان احادیث شریفہ سے مسائل نکالے ہیں اور ان کو چونکہ سوچنے کی اور تمام چیزوں کی صلاحیتیں اللہ نے دی تھیں، اس لئے فقہاء کرام نے ان سے بہت سارے مسائل نکالے ہیں، پتا نہیں ایک ایک حدیث سے کتنے کتنے مسائل فقہاء نے نکالے ہیں، کیونکہ انہوں نے اس کو نہیں دیکھا کہ کس نے بتایا ہے، بلکہ انہوں نے یہ دیکھا کہ کس سے سنا ہے یعنی وہ چونکہ آپ ﷺ کی بات تھی، بس وہ انہوں نے لے لی۔ بعینہٖ یہی بات اب بھی ہوتی ہے کہ جس نے قرآن کے حوالے سے کسی سے کوئی بات سنی کہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے، تو وہ قرآن کی بات ہوگی، وہ اس کی بات نہیں ہوگی۔ اسی طرح کسی حدیث شریف کی بات ہوگی تو وہ بھی اسی طریقے سے ہوگی کہ وہ اس حدیث شریف کی بات ہے، اس کی بات نہیں ہے۔ لہٰذا قدر اس کی کی جائے گی، البتہ یہ ضروری بات ہے کہ درمیان میں اپنے آپ کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ مثلاً کتابوں پہ لکھا ہوتا ہے جملہ حقوق بحق ناشر یا بحق مصنف محفوظ ہیں اور بعض حضرات لکھتے ہیں کہ اگر کوئی اس میں رد و بدل نہ کرے تو چھاپنے کی اجازت ہے۔ اب یہ کیوں لکھتے ہیں؟ یہ اس لئے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی رد و بدل کرنا چاہے گا تو آیا وہ اس قابل ہے بھی یا نہیں؟ وہ رد و بدل صحیح ہوگا یا غلط ہوگا؟ اس وجہ سے ہم لوگ کسی اور چیز کی ذمہ داری نہیں لے سکتے، ہاں! اگر رد و بدل نہ ہو تو پھر وہ ذمہ داری ان کی ہے جس نے کتاب لکھی ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے اپنی کتاب ’’فہم الریاضی‘‘ کے اوپر لکھا تھا بلکہ ساری کتابوں پہ یہی لکھا ہے کہ بغیر کسی تبدیلی کے کوئی بھی اس کو چھاپ سکتا ہے۔ اور اس مسئلہ میں ہم اپنے متقدمین اکابر کے نقش قدم پر ہیں، اگرچہ متأخرین نے اس میں کچھ تبدیلی کی ہے اور وہ ان کی اپنی ذمہ داری ہے اور انہوں نے اپنے علم کے اعتبار سے بات کہی ہے، لیکن ہمیں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات، مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات زیادہ appeal کرتی ہے، اس لئے ہم ان کے طریقے پر ہیں اور ہم نے اپنی کتابوں کے حقوق محفوظ نہیں کیے، البتہ یہ شرط ضرور لگاتے ہیں کہ من وعن اس کو چھاپا جائے، اس کے اندر تبدیلی کی گنجائش نہیں، اور اگر تبدیلی کسی نے کی تو پھر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔ اب جیسے میں نمازوں کے اوقات کا نقشہ بناتا ہوں، تو نمازوں کے اوقات کے نقشے کو اگر کوئی من و عن چھاپ دے تو ذمہ داری میری ہے کہ اگر غلطی ہوگی تو میری طرف سے ہوگی، جیسے ایک دفعہ مجھے حضرت نے حکم فرمایا تھا کہ نقشہ بنا دو، تو میں نے نقشہ بنا کر جب حضرت کو دے دیا، تو فرمایا اپنا نام لکھا ہے؟ چونکہ اس وقت تک میں اپنا نام نہیں لکھتا تھا، اس لئے میں نے کہا: نہیں، حضرت نے فرمایا اگر کوئی غلطی اس میں ہوگی تو کوئی کس کو بتائے گا؟ بس مجھے فوراً بات سمجھ میں آگئی، میں نے کہا ان شاء اللہ! میں لکھ دیتا ہوں، اس کے بعد پھر میں اپنا نام مجبوراً لکھتا ہوں، کیوںکہ ذمہ داری لینی ہوتی ہے۔ خیر اگر کوئی من و عن یہ نقشہ چھاپ دے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن کوئی ذرا ایک بھی تبدیلی کرے گا، مثال کے طور پر اس میں ہم نے لکھا ہے کہ فجر کی اذان اتنے منٹ بعد دے دیں، لیکن کسی نے زیادہ کیا تب بھی ہم قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں اور کسی نے کم بھی کردیا تو پھر بھی ہم قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ہماری بات نہیں مانی۔ اور اگر وہ اپنی علمیت جتانا چاہتے ہیں تو اپنا نقشہ خود چھاپیں، اس پہ ہم کچھ نہیں کہیں گے، لیکن اگر ہمارے نقشے کو چھاپے گا تو اسی طریقے سے چھاپے گا جس طریقے سے ہم نے بنایا ہے، تب ہم اس کی ذمہ داری لے سکیں گے۔ خیر یہ اصولی باتیں ہیں، ان کو سمجھنا چاہئے، اس کا مطلب صرف اتنا ہے۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ حضرت شاہ صاحب! میرا مہینہ اَلْحَمْدُ للہ پورا ہوگیا ہے اور ذیل کا بتایا ہوا ذکر کرتا ہوں دو سو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘، چھ سو ’’حَقْ‘‘ اور ساڑھے تین ہزار اسم ذات ’’اَللّٰہ‘‘ کا جہری ذکر، دس منٹ مراقبہ اسم ذات ’’اَللّٰہ‘‘، دس منٹ مراقبہ لطیفۂ روح اور پندرہ منٹ سر۔ اور کیا ایسی کوئی صورت ممکن ہے کہ لطیفۂ روح اور سر کی کوئی شبیہ قلب کی طرح مل جائے، تاکہ خیال میں آسانی ہو، اس لئے عرض کررہا ہوں اور آئندہ کے لئے رہنمائی چاہتا ہوں۔

جواب:

کیوں نہیں، ہماری website کے اوپر ذکر اور مراقبات کا جو بیان ہے، اس میں اس کے بارے میں آپ دیکھ لیں، وہاں آپ کو یہ تصویریں مل جائیں گی یعنی شبیہ مل جائے گی، کیونکہ تصویر تو نہیں ہوتی، اس لئے شبیہ مل جائے گی کہ لطیفۂ قلب کدھر ہے، لطیفۂ روح کدھر ہے اور لطیفۂ سر کدھر ہے۔ باقی میں آپ کو ابھی آسانی کے لئے بتا دیتا ہوں کہ اگر آپ اپنے جسم کو تقسیم کریں کہ ایک لائن ناک کی سیدھ میں پورے جسم کی لگا دیں، کیونکہ ناک کی نوک بالکل وسط میں ہے، اس لئے پورے جسم میں اگر یہ line draw کرلیں تو دل کا جو مقام ہے اور جتنا وہ اس لائن سے دور ہے، اتنا ہی اس لائن سے دائیں طرف جو مقام ہے، اس کو لطیفۂ روح کہتے ہیں۔ اور قلب سے چار انگلیوں کے برابر جس کو ہم پشتو میں سبق کہتے ہیں، تو اس کو چار انگل کے برابر اوپر کریں (اگلا point اوپر جتنا بھی لگ جائے) تو یہ لطیفۂ سر ہے۔ پھر جو Right side والا point لطیفۂ روح ہے، اس سے چار انگل اوپر ایک point لگا دیں اور وہاں سے جو لائن کی طرف دو انگل point لگا دیں تو یہ لطیفۂ خفی ہوگیا۔ اور اب چار point مل گئے، تو جو اوپر دو points ہیں، یہ دو point لے لیں اور ایک گلے کی جڑ لے لیں تو یہ تین point ہوگئے، ان تین point کے بالکل عین وسط میں جو جگہ ہے، یہ لطیفۂ اخفیٰ ہے۔ اب دیکھو! صرف دل سے آپ کو سارا جغرافیہ کا پتا چل گیا، کیونکہ دل کا مقام سب کو معلوم ہوتا ہے اور اگر کوئی دل کے مقام کو نہیں جانتا تو میرا خیال ہے کہ اسے ہسپتال جانا ضروری ہے۔ خیر اس سے آپ پورا جغرافیہ معلوم کرسکتے ہیں، بس آپ یہ کرلو ان شاء اللہ! کوئی مشکل نہیں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم۔ میرا ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر پانچ ہزار مرتبہ اور دس منٹ مراقبہ دل پر اور پندرہ منٹ روح پر تھا، لیکن میرا transfer ڈی آئی خان ہوگیا تھا اور transfer منسوخ کرنے کے لئے میرا پشاور آنا جانا بہت زیادہ تھا، اس وجہ سے تقریباً تین مہینے ذکر نہ کرسکا۔

جواب:

جہاں سے چھوڑا ہے وہیں سے دوبارہ کرلو اور اب ناغہ نہ کرو اور اس پر استغفار بھی کرو۔

سوال نمبر 17:

Started from fifteen minutes after that. ان شاء اللہ it will become more and more.

سوال نمبر 18:

ایک شخص نے ایک عجیب سوال کیا ہے، اگرچہ میں اصولاً تو اس کا جواب نہیں دیتا، کیونکہ ٹائم تھوڑا ہے، لیکن سوال بھی بڑا relevant ہے، لہٰذا میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ سائل کہتا ہے کہ کل مجھے کوئی صاحب باتوں کے دوران کہہ رہے تھے کہ ادب محبت سے بہت اوپر کی چیز ہے۔ اور دوسری بات یہ کہی کہ محبت کے آداب محبت خود سکھاتی ہے یا کسی سے سیکھنے پڑتے ہیں؟ یہ دو سوال ہیں، سوال اگرچہ تھوڑے سے باریک اور نازک ہیں اور اہل حال ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں اور اہل حال ہی اس کا پوچھ سکتے ہیں۔

جواب:

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ محبت ہوگی تو محبت کے آداب سمجھ میں آئیں گے، یہ confirm بات ہے، یہ کوئی theoretical چیز نہیں ہے، بس محبت نہیں ہوگی تو اس کا question بھی نہیں ہوگا اور اگر محبت ہوگی تو اول تو اس کو خود ہی پتا چل جائے گا اور اگر خود پتا نہیں چلے گا تو ذرا اشارہ دینے سے بھی پتا چل جائے گا، کیونکہ وہ اس کا حال ہوگا، اس لئے کہ محبت قال کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی، بلکہ محبت حال کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، لہٰذا اگر کسی کا حال ہے تو پھر اس کو جان بھی لے گا۔ اب ذرا اس میں Technical point کو آپ سب لوگ جان سکتے ہیں کہ کوئی شخص لاکھ بھی چاہے مگر وہ اپنی مرضی سے شاعر نہیں بن سکتا، کیونکہ یہ فن اللہ پاک نے اگر کسی میں رکھا ہے تو ہوگا، ورنہ نہیں ہوگا۔ اسی طرح دوسرے فنون کی بھی بات ہے کہ جتنے بھی فنون ہیں ان میں یہ بات ہوتی ہے کہ کوئی پیدائشی طور پر اگر ایسا نہیں ہے، تو اس کو اس طرح بنایا ہی نہیں جاسکتا، البتہ اس کی نوک پلک درست کرنا سائنس ہے یعنی اس فن کی نوک پلک دور کرنا theory ہے اور سائنس ہے اور وہ develop ہوسکتا ہے اور استاد اس میں زیادہ بہتری کرسکتا ہے، لیکن وہ خود زیرو سے نہیں بنا سکتا، مثلاً کوئی شاعر نہیں تو اس کو کوئی شاعر نہیں بنا سکتا، البتہ جو شاعر ہوگا تو بڑا شاعر اس کو بہتر شاعر بنا لے گا یعنی اس کے اصول ضوابط بتا کر، جیسے شاعری کے اندر قافیہ ہوتا ہے، ردیف ہوتا ہے یعنی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، یہ تو کوئی سمجھائے گا، کوئی بتائے گا یا خود سیکھے گا، بس یہ چیزیں ہوں گی، لیکن وہ شاعر خود By default ہوگا، کوئی اس کو شاعر نہیں بنا سکتا۔ بس یہ بات اگر سمجھ گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو محبت ہے تو اس کو آداب محبت سمجھ آئیں گے اور اگر کسی کو محبت نہیں ہے، تو اس کو محبت کے آداب theoretically تو سمجھ آسکتے ہیں، لیکن practically نہیں، البتہ اس کے بارے میں کچھ experiences جو لوگوں نے کیے ہوتے ہیں، وہ experiences کام آتے ہیں اور اہل محبت ایسی چیزوں کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ دوسرے اہل محبت نے کیا کیا ہے، اور وہ ان کے experience سے فائدہ ضرور اٹھاتے ہیں، لیکن وہ تب اٹھاتے ہیں جب ان کو پہلے سے محبت ہوتی ہے۔ اب میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ یہ جو شعر ہے کہ محبت خود تجھے آداب اپنے سکھا دے گی، یہ بات بالکل صحیح ہے، کیونکہ جو کوشش ہے دوسروں کی محبت کی یہ بھی محبت ہی سکھا رہی ہے، ورنہ کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے ایسا کرنے کی؟ بلکہ اس کو محبت ہے تو اس محبت کی وجہ سے اس کی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ میں کوئی ایسی غلطی نہ کروں جس سے میری محبت پہ اثر پڑ جائے یعنی میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہو۔ اب اس ناراضگی کا جو ڈر ہے، یہ بذات خود ادب ہے۔ مثلاً بچہ جو ہوتا ہے، وہ جب آئے گا تو وہ داڑھی بھی پکڑ لے گا، ٹوپی بھی آپ سے لے لے گا، چیخے گا بھی کیونکہ اس کو یہ چیزیں معلوم نہیں ہیں، اس کو شعور نہیں ہے، لیکن بڑا آدمی جب آئے گا تو وہ مقام کے حساب سے خیال رکھے گا، کیونکہ وہ جانتا ہے، اس وجہ سے اس سے اگر کوئی غلطی ہوگی تو اس پہ اس کا محبوب ناراض بھی ہوسکتا ہے۔ بس اسی طریقہ سے جو اہل محبت ہیں، وہ اسی وجہ سے دوسروں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ایسا کرتے ہیں، تاکہ میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہو۔ اور سب سے بڑے جو ادب کرنے والے ہیں وہ آپ ﷺ ہیں کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ ادب کرنے والے ہیں۔ اب ہمارے لئے رہنمائی اسی میں ہے کہ ہم دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا ادب کیسے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا ادب کیسے آپ ﷺ نے کیا ہے؟ جیسے قرآن پاک میں ہے:

﴿ذٰلِكَۗ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)

ترجمہ: ’’یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقوی سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔

لہٰذا یہ ادب قرآن میں اللہ نے سکھایا ہے اور پھر یہ سب سے زیادہ آپ ﷺ نے کیا ہے، مثال کے طور پر مسجد سے نکلتے وقت بائیاں پاؤں پہلے نکالنا اور مسجد کے اندر داخل ہوتے وقت دائیاں پاؤں اندر داخل کرنا یہ ادب ہے اور ہمارے لئے سنت ہے، لیکن ہے تو ادب، اور یہ ادب کس نے سکھایا ہے؟ آپ ﷺ نے سکھایا ہے، بلکہ میں ادب کا آپ کو عجیب واقعہ دکھاؤں کہ آپ ﷺ کی مہر میں دیکھیں کہ اس میں یوں لکھا ہوا ہے کہ محمد سب سے نیچے، رسول اس سے اوپر ہے اور اللہ سب سے اوپر، جبکہ عربی کے اندر دو طریقے ہیں یا دائیں سے بائیں لکھنا یا اوپر سے نیچے لکھنا، لیکن کبھی نیچے سے اوپر آدمی نہیں لکھتا۔ اور عربی میں یہاں دائیں سے بائیں کا تو خیال رکھا ہے کہ محمد تھوڑا سا دائیں طرف ہے اور رسول تھوڑا سا بائیں طرف، لیکن نیچے نہیں لائے، بلکہ رسول کو اوپر، پھر اللہ کو اوپر لائے ہیں۔ بس اس چیز سے بھی میرے خیال میں اگر کسی کو ادب سمجھ میں نہ آئے تو پھر روحانی ہسپتال میں جانے کی ضرورت ہے۔ اور پھر آپ ﷺ کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ آپ ﷺ کا ادب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سیکھو اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو فرماتے تھے کہ جب کبھی ہم آپ ﷺ سے ملنے کے لئے جاتے تو پہلے صدقہ کرتے تھے، کیونکہ پہلے یہ حکم تھا، بعد میں حکم نہیں رہا، لیکن اب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو جاری رکھے ہوئے تھے کہ جب آپ ﷺ کے ساتھ ملتے تو سب سے پہلے صدقہ کرلیتے کہ کوئی مجھ سے غلطی نہ ہوجائے، بس یہ ادب ہے اور ادب بہت بڑی بات ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے، اور یہ توحید کی تکمیل ہے یعنی توحید کی تکمیل ادب کے ذریعہ سے ہوتی ہے یعنی ادب توحید کا مخالف نہیں ہے، بلکہ ادب توحید کی تکمیل کرتا ہے، بلکہ اسی آیت میں ہے: ﴿ذٰلِكَۗ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32) اب تقویٰ یعنی ڈرنا کس سے ڈرنا ہے؟ اللہ سے ڈرنا ہے، لہٰذا دلوں کے اندر جو تقویٰ ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ توحید کی تکمیل ہوگی، کیونکہ اللہ سے ڈرنے کا مطلب توحید ہی ہے، لہٰذا ادب توحید کی تکمیل ہے، توحید کے مخالف نہیں ہے، اس لئے جن لوگوں نے عیسائیوں کی طرح ادب کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الہٰی صفات میں شامل کیا اور اس قسم کی باتیں کیں یا کوئی اولیاء کو خدا کی صفات میں شامل کر لے تو یہ توحید کے خلاف ہے اور جب توحید کے خلاف ہے تو پھر ادب بھی نہیں رہا، کیونکہ ادب اس وقت ہے جب توحید ساتھ ہو، اسی لئے توحید کی موجودگی میں ادب کو توحید کی تکمیل کہتے ہیں یعنی اس کے تقاضے کے مطابق۔ لہٰذا یہ بات ہے، اس کو ضروری طور پر سمجھنا چاہئے کہ ادب توحید کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ عین توحید کی تکمیل ہے اور توحید ادب کے خلاف نہیں ہے، یہ عین ادب کا تقاضا ہے، پس اس بات کو اگر ہم سمجھ لیں تو میرے خیال میں بہت سارے مسئلے ہمارے حل ہوجائیں گے۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب) نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب