اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم!
Thank you for your time today. As discussed, I am interested in learning more about the سہروردی طریقہ and have few questions.
Do you have کتاب الاوراد by بہاؤ الدین زکریا رحمہ اللہ? Do you teach the سہروردی طریقہ? I was impressed how the طریقہ emphasises reflection on some verses of the Quran and how they encourage living a normal life in society as opposed to other طریقہ which emphasise poverty. I look forward to a response.
و علیکم السلام
جواب:
My dear brother, actually I am sorry for the late answer but it was due to the fact that you had put questions on my personal number which I don’t have at this time. The right procedure is to ask questions on this number and the answer is given on Monday as I am doing now.
As far as your question is concerned, you are interested in learning more about سہروردی طریقہ. Actually, there is a misconception. There are some differences in principle between these tariqas. Just like every person is different from other persons, therefore for everyone there is a different procedure which is decided by the Sheikh. It is just like a doctor deciding about his patients. Although there is allopathy, homeopathy, acupuncture and حکمت which all treat diseases, the difference in their procedure is there. So for the same purpose, meaning getting treatment, if a patient goes to them they follow their own procedure which is different for different people. Therefore, no one can prescribe all the details of any طریقہ for all the patients. So, this one should be considered.
Secondly, the book which you are asking about, I have downloaded it and I have gone through it but I found it not about you can say علاج (treatment) but actually it is a textbook of اسباق (lessons) which are derived from Quran and حدیث and it is the same for all. It is not only for سہروردی طریقہ but it is the same for قادری طریقہ for نقشبندی طریقہ and for چشتیہ طریقہ. There is no difference between them. They were علماء and علماء know about the Quran and حدیث and they know how to proceed in this regard to get more and more knowledge and to get more and more اثر in those اعمال. So, therefore that book is written about these things not about the procedure of treatment of سہروردی طریقہ.
What is the main difference? The main difference is this that in سہرودی and قادری and چشتی chains, the main thing is that سلوک is first and جذب is the later stage and that is جذب وہبی. While سلوک is the same for all but may be different for different persons because for example, there are different people. It may be because of their nature, their family background, their place of living. For example, someone may be having صبر already but he will not be having other things like توکل. So, they might be treated for that. So there are different مقامات to establish in all the طریقہ in سلوک. But it is different for different people and it is the Sheikh who decides about them as to what procedure should be adopted? However, there is difference in اذکار. Different طریقہ use different اذکار. For example, the main ذکر in the قادری طریقہ is ھو and پاس انفاس and the main ذکر in چشتی is‘‘اِلَّا اللّٰہْ’’ and the main ذکر in سہروردی is ‘‘حَقْ اَللّٰہ’’. So, we use these اَلْحَمْدُ للہ because we follow all the four tareeq. So when the people are coming from different origins so we do those اذکار which are same for all. So, we start from ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ and then ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ and then ‘‘حَقْ’’ and then ‘‘اَللّٰہ’’ and then ‘‘حَقْ’’ and then ‘‘اَللّٰہ’’. We do all but when we know that a person is of سہروردی nature so then we give him اذکار of سہروردی nature and the persons who are having قادری nature, we give them اذکار of قادری nature and the same go for نقشبندی so we follow نقشبندی and چشتی chains. So, the difference in اذکار.
There is another difference which is among the three سلاسل and the نقشبندی chain. In نقشبندی we have جذب in the beginning and then سلوک. So then they follow لطائف and then after that مراقبات and then they have جذب and after that they follow سلوک. Therefore, it is a practical thing, it is not theoretical. If you only study the theoretical things, I think, you will not catch the path but if you come to a practical approach which means that you go to سہروردی شیخ and he puts you on that طریقہ and then you follow that then it will work. But if you say that I read the books of سہروردی and then you will become سہروردی it is impossible. It is not a bookish thing, it is a practical thing. I think it is enough and there is nothing more I can say about these.
وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ
سوال نمبر 2:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں، لیکن یہ چیزیں میرے بس میں نہیں ہیں۔ آپ بھی تہجد کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا ہے اس قسم کی چیزیں میرے ساتھ discuss کرنے سے فائدہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر آپ اپنی اصلاح کرنا چاہتی ہیں تو اس کے بارے میں آپ مجھ سے discuss ضرور کرسکتی ہیں کیونکہ یہ میرا کام ہے۔ اس کے علاوہ نہ میں نفسیاتی ماہر ہوں اور نہ کوئی عامل ہوں کہ اس قسم کے مسائل حل کرلوں۔ اس لئے میرے نزدیک ان مسائل کا حل اللہ پاک سے مانگنا ہے کہ آپ بھی مانگیں اور میں بھی مانگوں۔ اگر آپ مانگنا بھی مجھ پر ہی چھوڑ رہی ہیں تو میرے خیال میں یہ طریقہ غلط ہے، اور نہ میں اس کام کے لئے بیٹھا ہوں۔
سوال نمبر 3:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ نے جو معمولات بتائے تھے وہ میں نے کیے۔ درمیان میں حالات کی وجہ سے ناغہ ہوا لیکن میں نے دوبارہ شروع کر کے مدت پوری کی۔ اس کے بعد میں نے دس اکتوبر کو آپ کو text کیا مگر آپ نے شاید مصروفیت کی وجہ سے جواب نہیں دیا۔ پھر میں نے اپنے شوہر سے پوچھا تو انہوں نے آپ کا یہ والا نمبر دیا۔
میں فلاں ہوں۔ آپ نے جو تین تسبیحات بتائی تھیں وہ اَلْحَمْدُ للہ باقاعدگی سے کررہی ہوں اور دل سے تھوڑا سا دائیں طرف والا وظیفہ بھی کیا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ مجھے کافی سکون محسوس ہوا ہے۔ پہلے آنکھیں بند کر کے اپنے دل کا جائزہ لیتی تھی تو سختی اور سیاہی محسوس ہوتی تھی، اب اَلْحَمْدُ للہ خود بخود محسوس ہوتا ہے کہ دل نرم ہوگیا ہے اور گناہوں سے کچھ پاک بھی ہورہا ہے۔ حضرت جی میں Thursday اور Friday کو گھر آتی ہوں۔ باقی دن جامعہ میں رہائش ہے، وہاں فون کی permission نہیں ہے۔ آپ کو آسانی ہو تو مزید رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
جی آپ نے یہ بات بالکل صحیح فرمائی ہے کہ سوال و جواب اسی نمبر پر ہوتے ہیں۔ یہ نمبر ہم نے اسی لئے رکھا ہے اور پیر کے دن سوالات کا جواب دیا جاتا ہے۔ آج چونکہ پیر کا دن ہے اس لئے آپ کو جواب دے رہا ہوں۔ دوسرا میرا private نمبر ہے، وہ چونکہ میرے پاس یہاں نہیں ہوتا اور اُس میں چونکہ اور بہت سی چیزیں آتی ہیں جن کی وجہ سے یہ ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے کہ کس کو جواب دوں اور کس کو جواب نہ دوں۔ اس وجہ سے وہ نمبر میں یہاں رکھتا ہی نہیں ہوں۔ آپ جب بھی کوئی سوال کرنا چاہیں یا اپنے کوئی احوال بتانا چاہیں تو اسی نمبر کو استعمال کیا کریں، یہ نمبر اسی مقصد کے لئے ہے۔ دوسرا نمبر اس وقت میرے پاس نہیں ہوتا اور وہاں پر یہ نمبر میرے پاس نہیں ہوتا۔ ہر چیز کی اپنی اپنی جگہ ہے۔ آپ نے اپنے شوہر سے یہ نمبر لے کر اچھا کیا، اب آپ مسیجز کے لئے اسی نمبر کو استعمال کر لیا کریں۔
آپ کی تین تسبیحات ویسے ہی جاری رہیں گی جیسے میں نے آپ کو عرض کیا تھا کہ تیسرا کلمہ، درود شریف اور استغفار۔ یہ تسبیحات عمر بھر کے لئے ہیں۔ نماز کے بعد والا وظیفہ بھی عمر بھر کے لئے ہے۔ البتہ آپ نے قلب اور روح والے جن مراقبوں کے بارے میں بتایا ہے، اگر آپ کو دل پر اور اس کے دائیں طرف والی جگہ پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہوتا ہوا محسوس ہورہا ہے تو پھر آپ دس، دس منٹ کا مراقبہ ان دونوں پر پندرہ منٹ کا مراقبہ ایک تیسری جگہ کر لیا کریں۔ تیسری جگہ کا تعین اس طرح کریں کہ دل سے چار انگل اوپر ایک point لگائیں، اس سے دو انگل سینے کی طرف گویا کہ جسم کی درمیانی لائن کی طرف آپ دوسرا point لگا دیں، اس point کو لطیفہ سر کہتے ہیں۔ اس لطیفہ پر بھی آپ نے پندرہ منٹ یہی سوچنا ہے کہ یہاں ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ ہورہا ہے۔ گویا کہ تین جگہیں ہوگئی ہیں: ایک جگہ دل کی، دوسری جگہ لطیفہ روح کی یعنی دل کے دائیں طرف اور تیسری جگہ لطیفہ سر کی۔ آپ نے یہ ایک مہینہ تک کرنا ہے، ایک مہینے کے بعد آپ مجھے ان شاء اللہ اسی نمبر کے whatsapp پر message کریں گی تو آپ کو ان شاء اللہ جواب ملے گا۔
سوال نمبر 4:
السلام علیکم حضرت جی! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ حضرت جی! ذکر کے بارے میں اطلاع دینی تھی۔ ذکر کا ایک ماہ پورا ہوگیا ہے جو کہ بالترتیب دو سو، چار سو، چھ سو اور چار ہزار ہے۔ حضرت جی! معمولات کے تسلسل میں کمی رہتی ہے، اس لئے اطلاع کرنے میں شرم محسوس ہوئی۔ حضرت جی میں نے بہت کوشش کی ہے، لیکن نفس کو جتنا control کرنا چاہئے اس سے زیادہ بگڑتا ہے۔ اگر اپنا موازنہ کروں تو نفس کے معاملہ میں خود کو پہلے سے زیادہ کمزور پاتا ہوں۔ بس اللہ سے دعا کرتا ہوں کیونکہ اللہ کی مدد کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔
جواب:
خود ہی آپ نے اپنی بیماری بتائی اور اب خود ہی شکایت کررہے ہیں۔ اس صورت میں، میں آپ کو کیا بتاؤں؟ آپ نے کہا کہ معمولات میں تسلسل نہیں ہے۔ معمولات کے تسلسل پر میں ایک واقعہ سناتا ہوں، ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے تھے کہ ایک دن میں اپنے شیخ حضرت شاہ عبدالعزیز دعاجو رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں گیا، حضرت گپ شپ میں بہت ساری باتیں سمجھاتے تھے، یہ حضرت کا طریقہ کار تھا۔ تبلیغی جماعت کے بڑے بزرگوں میں سے تھے۔ خیر فرمایا کہ اشرف باہر جا کر دیکھو کچھ ہورہا ہے؟ حضرت باہر چلے گئے کہ کیا ہورہا ہے۔ وہاں جا کر ادھر ادھر دیکھا لیکن کچھ پتا نہیں چلا۔ اندر آ کے حضرت سے کہا کہ مجھے تو کوئی غیر معمولی چیز محسوس نہیں ہوئی۔ حضرت نے فرمایا نہیں نہیں، ضرور کچھ ہے، آپ جا کر تھوڑا غور سے دیکھیں۔ حضرت پھر باہر گئے لیکن کچھ محسوس نہیں ہوا۔ اس طرح کئی بار ان کو بھیجا گیا، اخیر میں حضرت کو نظر آیا کہ چھت میں ایک جگہ شاید کوئی ٹینکی ہوگی، وہاں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ نیچے ایک پتھر سا پڑا ہوا تھا جس میں پانی کے ٹپکنے سے سوراخ ہوگیا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ شاید حضرت اسی کے بارے میں دریافت فرما رہے ہیں۔ اندر جا کر پوچھا کہ کیا آپ اسی پانی سے متعلق پوچھنا چاہ رہے تھے؟ فرمایا: بالکل یہی بات ہے، بتاؤ اس سے تم کیا سمجھے؟ دوسرا سوال ہوا تو حضرت نے اندازہ لگایا کہ شاید کچھ سمجھانا چاہتے ہیں تو عرض کیا کہ حضرت آپ خود ہی بتا دیں کہ آپ کیا فرمانا چاہتے ہیں؟ فرمایا: دیکھو اس پتھر پر اتنے عرصے مثلًا ڈیڑھ، دو سال میں جتنا پانی گرا ہے، اگر وہ سارا پانی جمع کر کے اکٹھا اس پتھر پہ بہا دیا جاتا تو اس کو کچھ نہیں ہونا تھا۔ لیکن جو پانی روزانہ اس کے اوپر ٹپک رہا ہے اس نے اس میں سوراخ کردیا۔ یہی ہمارے حال ہمارے معمولات کا ہے کہ ہم روزانہ باقاعدگی سے اور بغیر کسی انقطاع کے، تسلسل کے ساتھ جو معمولات کرتے ہیں وہ اثر کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے نوافل کے بارے میں فرمایا کہ چاہے تھوڑا عمل ہو لیکن دائمی ہو۔ اس کا اثر ہوتا ہے، گویا کہ ہمارے معمولات ہمارے اندر آہستہ آہستہ تبدیلی لا رہے ہوتے ہیں۔
اگر ایک ڈاکٹر آپ کو روزانہ exercise کا بتائے اور آپ ہفتے میں دو دن exercise کرلیں، پانچ دن نہ کریں یا پانچ دن کریں دو دن نہ کریں اور پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس جا کر کہیں کہ ڈاکٹر صاحب فائدہ نہیں ہوا، تو آپ کو ڈاکٹر صاحب کیا جواب دیں گے؟ ظاہر ہے، وہ کہیں گے کہ آپ نے وہ کام کیا ہی نہیں جو میں نے بتایا تھا، تو میں اب کیا کرسکتا ہوں۔ اس وجہ سے آپ مہربانی کر کے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے معمولات میں تسلسل پیدا کریں۔ اس سلسلہ میں اگر کوئی بات پوچھنی ہو تو ضرور پوچھیں۔ نفس کو control کرنا اتنا آسان نہیں ہے کہ آپ کہیں گے ہوجاؤ، تو یہ ہوجائے گا۔ اس کے لئے کچھ کرنا پڑتا ہے اور وہ جو کچھ کرنا ہے میں وہی آپ کو بتا رہا ہوں، لیکن آپ کو ابھی تک میری بات سمجھ نہیں آرہی۔
سوال نمبر 5:
السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں، اللہ پاک آپ سے راضی ہو۔ تنزیہ و صفات سلبیہ کا جو مراقبہ آپ نے تجویز فرمایا تھا اس کا مفہوم تو سمجھ میں آگیا تھا کہ اللہ پاک انسانی کمزوریوں جیسے جسم، بیوی، اولاد اور اونگھ وغیرہ سے پاک ہیں۔ لیکن مراقبہ کے الفاظ کا لفظی مطلب سمجھ نہیں آیا، براہ مہربانی واضح فرما دیں تاکہ صحیح سمجھ آ جائے۔ اور آپ نے جو یہ فرمایا کہ آپ تشبیہ سے تنزیہ کی طرف بڑھیں گی، یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی۔ اس کے علاوہ آپ نے مراقبہ سے قبل تین بار سورۃ اخلاص پڑھنے کا فرمایا تھا، کیا ناپاکی کے ایام میں اس کی جگہ کچھ اور پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:
سبحان اللہ! آپ نے بہت اچھا سوال کیا۔ سب سے اہم بات یہی ہے کہ تنزیہ کس کو کہتے ہیں، تنزیہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں والے کسی بھی نقص یا کسی بھی مثال سے پاک ہے۔ یعنی کوئی بھی اس کی طرح نہی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہے:
﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ﴾ (الشوریٰ: 11)
ترجمہ1: ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے‘‘۔
آپ نے ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے‘‘ پہ concentrate کرنا ہے، یہ مراقبات اور کچھ نہیں ہیں، ان کا مقصد بس کچھ مفاہیم کو اپنے concepts کے لحاظ سے بالکل صحیح طور پہ سمجھنا ہے۔ جیسے سبحان اللہ کے الفاظ کہنا اور بات ہے اور سبحان اللہ کی کیفیت الگ بات ہے۔ آپ الفاظ سے کیفیت کے درجہ میں آ جائیں اور یہ تنزیہ آپ کا حال بن جائے کہ آپ اللہ جل شانہ کے بارے میں کسی بھی قسم کی دوسری سوچ کہ اللہ ایسا ہے کو کو قبول نہ کریں۔ آپ کا ذہن اور دل ہی اس بات کو نہ مانے۔ اس مراقبے کا مقصد اس چیز تک پہنچنا ہے۔
سورۃ اخلاص کا میں نے اس لئے کہا کہ اس میں یہی بتایا گیا ہے:
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص: 1-4)
ترجمہ: ’’کہہ دو: یہ بات ہے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے۔ اللہ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور اس کے جوڑ کا کوئی نہیں‘‘۔
اس میں سب کچھ آ جاتا ہے۔ ناپاکی کے ایام میں اس کا ترجمہ پڑھ لیا کریں، ترجمہ پڑھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس صورت میں آپ نے فقط اس کا مفہوم لینا ہے۔ اس لئے ان ایام میں ترجمہ پڑھنے سے بھی ان شاء اللہ آپ کو وہی فائدہ ہوگا۔
نصیحت:
ایک بات میں بار بار کہتا ہوں، ہر ایک کی طبیعت ایک جیسی نہیں ہوتی، لیکن انسان اپنی طبیعت کے بارے میں بتا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی کے ساتھ محبت ہو تو اسے بتا دینا چاہئے تاکہ اس کو اس بات کا احساس ہو۔ اسی طرح اگر کسی بات سے کوئی ناراض ہوتا ہو یا برا محسوس کرتا ہو یا اس کو وہ بات پسند نہ ہو تو وہ بھی بتانی چاہئے تاکہ اس کی نوبت ہی نہ آئے۔ جو لوگ مجھے sticker بھیجتے ہیں، وہ ذہن میں رکھیں کہ مجھے یہ طریقہ پسند نہیں ہے۔ کیونکہ دل والے sticker کے ساتھ حقیقت میں دل نہیں ہوتا۔ جو بات انسان اپنے ہاتھ سے لکھتا ہے اس کے ساتھ دل شامل ہوتا ہے، لیکن sticker آپ نے اِدھر سے پکڑ لیا، اُدھر forward کردیا، اس میں آپ کے جذبات کا بھلا کتنا حصہ شامل ہوا؟ اگر آپ اس کام کے لئے اتنا وقت بھی نہیں دے سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا دل اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے مجھے آئندہ کے لئے sticker نہ بھیجا کریں، ہاں دعائیں میرے لئے ضرور کریں، دعاؤں کی درخواست ضرور کروں گا، کیونکہ دعاؤں کا محتاج ہوں، لیکن sticker میری طبیعت کے خلاف ہے۔ میں بھی آپ کے لئے دعا کرتا ہوں اللہ پاک آپ کی ساری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنی طبیعت کے بارے میں صاف صاف بتاتے تھے اور کوئی چیز نہیں چھوڑتے تھے۔ اسی سے مریدین کو فائدہ ہوتا ہے۔
سوال نمبر 6:
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ میں فلاں سعودی عرب سے بات کر رہا ہوں۔ حضرت والا میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ آپ خیر و عافیت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ مجھے صحیح معنوں میں آپ کی اتباع اور ظاہر و باطن کی مکمل اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مجھے آپ کی سچی محبت عطا فرمائے۔ میرا ایک ماہ کا ذکر مکمل ہوچکا ہے۔ دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘، پانچ سو دفعہ ’’اَللّٰہْ‘‘ اور اسم ذات ڈھائی ہزار مرتبہ جہری ہے۔ حضرت والا اطلاع دینے میں پندرہ دن تاخیر ہوچکی ہے جس کے لئے معذرت خواہ ہوں، آئندہ کے لئے تاخیر نہیں کروں گا ان شاء اللہ۔ گھر والی کے ذکر کا بھی ایک ماہ مکمل ہوچکا ہے۔ دس منٹ لطیفہ قلب، یہ محسوس ہورہا ہے۔ دس منٹ لطیفہ روح، یہ بھی محسوس ہورہا ہے۔ پندرہ منٹ لطیفہ سر، یہ بھی اَلْحَمْدُ للہ محسوس ہورہا ہے۔ حضرت والا آگے کی رہنمائی فرمائیے۔
جواب:
سبحان اللہ! ابھی آپ ما شاء اللہ اسم ذات کو تین ہزار کرلیں۔ گھر والوں کے لئے اب سے تین مراقبے یعنی لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیفہ سر دس دس منٹ اور چوتھے لطیفے یعنی لطیفہ خفی کو پندرہ منٹ کرلیں۔ آپ کے اسم ذات کے علاوہ باقی سارے معمولات وہی پرانے رہیں گے۔
سوال نمبر 7:
حضرت جی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میں کراچی سے فلاں ڈاکٹر مخاطب ہوں۔ حضرت اعمال اور اذکار میں استقامت ہے، وہ کیفیت جس سے اب تک نابلد ہوں وہ مراقبہ میں ذکر ہوتا محسوس ہونا ہے۔ اکثر جب توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو رقت طاری ہوجاتی ہے۔ اس سے اور کوئی تشویش تو نہیں سوائے اس کے کہ اب تک جذب کسبی سے بھی بہت دور ہوں اور اپنی نالائقی پر شرمندگی ہوتی ہے لیکن اللہ جل شانہ کا شکر کررہا ہوں کہ اس نے اپنی راہ پر چلنے والوں کا ساتھ دے رکھا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر کچھ اعمال میں استقامت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے استدعا ہے کہ کم از کم مرتبۂ ایمان پر قائم رکھے اور مرتبۂ احسان کی کوشش میں بھی شامل رکھے کہ اللہ جل شانہ سے سعی پر معافی کی امید ہے۔ حضرت کچھ وقت سے دو سو، چار سو، چھ سو، ہزار کی تسبیح اور پانچ منٹ کے مراقبہ کی ترتیب پر ہوں، آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔ نیز میری ستتر سالہ والدہ آپ سے بیعت ہیں اور آپ نے ان کو دائمی تسبیحات اور مراقبہ کی ترتیب بتائی تھی جس پر وہ قائم ہیں۔ انہوں نے میری بہن کے کچھ نامساعد حالات کے دوران کچھ اور تسبیحات شروع کردی تھیں، پھر خیال آیا کہ آپ سے دریافت کرلیں کہ اس کی اجازت ہے تو مجھے کال پر پوچھ کر بتایئے۔ اس سلسلہ میں بھی رہنمائی فرمایئے۔ جزاک اللہ
جواب:
ڈاکٹر صاحب! ہمارے بھی ایک ڈاکٹر صاحب ہیں، ان کا نام ڈاکٹر فدا ہے۔ ہمارا ان کی خدمت میں آنا جانا ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک بڑی عجیب بات فرمائی ہے جو آپ کے لئے بہت زیادہ مفید ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہمارے ہاں دل جاری نہیں ہوتا ہمارے ہاں آنکھ جاری ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اگر آپ پر رقت طاری ہوتی ہے تو آپ بھی ڈاکٹر صاحب کے طریقہ پہ چل رہے ہیں کہ آپ کی آنکھ جاری ہوگئی ہے، اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ حدیث شریف میں دل کے جاری ہونے کا فرمایا یا آنکھ کے جاری ہونے کا فرمایا ہے؟ حدیث شریف میں آنکھوں کا جاری ہونا بیان کیا گیا ہے۔
’’إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ الْمُلِحِّيْنَ فِي الدُّعَاءِ‘‘ (الدعاء للطبرانی، حدیث: 20)
ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالی دعا میں الحاح و زاری کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
اس وجہ سے آپ بالکل بھی پروا نہ کریں، آپ کا مزاج چشتی ہے، لہٰذا آپ دوسروں کو دیکھ دیکھ کر جذب کسبی کی بات کرتے ہیں، خدا کے بندے جو آپ کو ہورہا ہے یہی جذب کسبی ہے۔ ورنہ بیٹھے بیٹھے کس بات پر کسی کو رونا آتا ہے؟ لہٰذا یہ بھی جذب کی ہی قسم ہے، البتہ الوان مختلف ہوتے ہیں۔ سب کا جذب ایک جیسا نہیں ہوتا اس وجہ سے آپ بالکل مطمئن رہیں۔ آپ ان شاء اللہ صحیح track پر ہیں۔ اللہ پاک آپ کو اس میں مزید توفیق عطا فرمائے۔ اب ان شاء اللہ میں آپ کو اسی لائن پہ رکھوں گا۔
ایک مفتی صاحب کے ساتھ میں نے ایک عجیب حرکت کی تھی۔ مفتی صاحب ہمارے تشریف لائے اور وہ میرے ساتھ بے تکلف تھے۔ جس دن اعتکاف شروع ہونے والا تھا اس دن وہ بنوں میں تھے۔ صبح 9 بجے میں نے انہیں ٹیلی فون کیا کہ مفتی صاحب ہمارا اعتکاف آج شام کو شروع ہونے والا ہے، اگر آپ اعتکاف میں تشریف لانا چاہتے ہیں تو تشریف لے آیئے۔ انہوں نے بغیر کسی سوال جواب کے فورا کہا کہ میں چل پڑا ہوں۔ اور ما شاء اللہ بنوں سے راولپنڈی پہنچے اور مغرب سے صرف پانچ منٹ پہلے مسجد میں داخل ہوئے۔ میں بہت سارے کاموں میں مصروف تھا کیونکہ اعتکاف کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ سب کچھ set کرنے کے بعد میں نے ان کو بلایا اور کہا کہ مفتی صاحب اگر آپ نے بھاگنا ہو تو بھاگ سکتے ہیں کیونکہ میرے ارادے آپ کے لئے خطرناک ہیں۔ انہوں نے کہا میں بھاگنے کے لئے نہیں آیا۔ میں نے کہا چلو ٹھیک ہے، بارہ تسبیح سے شروع کرلیں اور اگلے دن اس کے ساتھ ہزار مرتبہ بڑھائیں، پھر اگلے دن اس کے ساتھ مزید ہزار بڑھائیں اور روزانہ آپ ہزار ہزار بڑھاتے جائیں۔ ہمارے ساتھ سارے معمولات میں بھی شامل ہونا ہے، ہمارے معمولات اچھے خاصے ہیں۔ میں قرآن پاک پوری رات سنتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ایسے ہی ہوگا اور وہ ڈٹ گئے اور اللہ پاک نے اسی میں ان پہ فضل فرمایا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے در اصل اس چیز کا دارومدار dedication پر ہے۔ ان کو اللہ پاک نے اسی اسم ذات کے ذریعہ سے دیا، لہٰذا ابھی اپ کا اسم ذات ہی بڑھایا جائے گا۔ چنانچہ آپ اسم ذات اس مرتبہ دو ہزار شروع فرما لیں اور باقی دو سو مرتبہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘، چار سو مرتبہ ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘، چھ سو مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘۔ ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کو اسی کے ذریعہ سے سب کچھ عطا فرمائے گا۔
سوال نمبر 8:
حضرت جی جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قوت قلبی اعلیٰ درجہ پر حاصل ہوئی تھی، جس کی وجہ سے ان کو ضربیں لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ قوت قلبی کیا ہوتی ہے اور کیا اس سے مراد قوت ارادی بھی ہے؟
جواب:
در اصل قوت قلبی قوت عازمہ کو کہا جاتا ہے کیونکہ عزم دل سے ہوتا ہے۔ اس لئے جذب میں نفس دل پر سواری کرتا ہے۔ اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے لیکن بہرحال وہ اس کا ہی ہوتا ہے۔ اس وقت چونکہ سب کے قلوب آپ ﷺ کے قلب کے سامنے تھے اس لئے Power station بہت مضبوط تھا۔ ان کے قلوب براہ راست آپ ﷺ کے قلب مبارک سے لے رہے تھے۔ نتیجتاً جو کچھ ہم لوگ ذکر سے لیتے ہیں وہ ان کو اس ذریعہ سے مل رہا تھا۔ اس لئے جب آپ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ابھی آپ ﷺ کی قبر شریف پر مٹی ڈالنے سے ہاتھ ہٹائے ہی تھے کہ ہمیں اپنے دلوں میں تبدیلی محسوس ہوئی۔ اس سے مراد قوت قلبی تھی۔ اس وقت بھی اگر کوئی اپنے مشائخ سے ایسا تعلق رکھتا ہے تو وہ تعلق اور معمولات دونوں مل کے ایک Strong bonding بن جاتے ہیں اور ما شاء اللہ اس میں بھی وہ چیزیں میسر ہوجاتی ہیں اور فائدہ ہونے لگتا ہے جس کو concerned لوگ محسوس کرتے ہیں، لیکن باقی لوگوں کو شاید اتنا پتا نہ ہو۔
سوال نمبر 9:
حضرت اہل کشف کے حوالے سے کس قسم کے عقائد رکھنا شرک کی طرف لے جا سکتا ہے؟ مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ میرے پیر یا شیخ کو میری ہر طرح کی خبر ہے، شرک کہلائے گا؟
جواب:
یہ بات عقیدہ کے ساتھ ٹکرا رہی ہے۔ علم غیب صرف اللہ کو ہے، البتہ انباء الغیب جتنی بھی اللہ چاہے کسی اور کو ہوسکتی ہیں۔ انباء الغیب میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یعقوب علیہ السلام کو اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کا پتا اس وقت نہیں چلا جب وہ پاس ہی ایک کنویں میں تھے، اس وقت بھی پتا نہیں چلا جب وہ کنعان میں تھے، لیکن جس وقت مصر سے یوسف علیہ السلام کی قمیص آرہی تھی تو اس کا پتا چل گیا کہ ایسا ہورہا ہے۔ دوسرے بیٹوں نے کہا کہ آپ کیوں اس طرح باتیں کر رہے ہیں؟ نَعُوْذُ بِاللہِِ مِنْ ذَالِکَ بہت سخت الفاظ کہے، تو انہوں نے کہا کہ جو میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں تم لوگ نہیں جانتے۔ اس کو انباء الغیب کہتے ہیں۔ انباء الغیب میں جن کو خبر ملتی ہے ان کے بس میں نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ جب چاہیں اور جس کو چاہیں وہ چیز پہنچا دیتے ہیں۔ اس لئے انباء الغیب میں کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ علم غیب میں ہے۔ کیونکہ علم غیب ذاتی اور دائمی ہوتا ہے۔ یعنی کُلی ہوتا ہے، جزوی نہیں ہوتا۔ جب کہ انباء الغیب دائمی نہیں ہوتا، عطائی اور جزوی ہوتا ہے۔
ان باتوں میں فرق ہونے سے اگر آپ غور کریں تو میرے خیال میں کشف بہت ہی کمزور ذریعہ ہے۔ اس میں شیطان بھی مداخلت کرسکتا ہے۔ لہٰذا یہ ظنی چیز ہے اور اس کے بارے میں بہت محتاط رہنا چاہئے کہ میں کون سے کشف کی بات پر عمل کروں اور کون سی کشف پہ عمل نہ کروں۔ جس کو کشف نہیں ہورہا وہ محفوظ ہے، اس کو پروا کی ضرورت ہی نہیں ہے، وہ مزے کررہا ہے۔ اور جس کو ہورہا ہے اس کو مسلسل ایک مشغلہ ملا ہوا ہے کہ وہ اس کشف کو قرآن و حدیث کے ساتھ tally کرے گا کہ کوئی ایسی بات تو نہیں ہے جو قرآن و حدیث کے ساتھ ٹکرا رہی ہو۔
گویا کہ بہت سارے لوگ جو آج کل کشف و کرامات کی باتیں کرتے ہیں ان کو ان چیزوں کا احساس نہیں ہوتا، اسی وجہ سے وہ اپنے راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑا سلسلہ ہے، وہ اپنے آپ کو نقشبندی سلسلے والے کہتے ہیں لیکن ساتھ اویسی بھی لگاتے ہیں حالانکہ اویسی اور نقشبندی آپس میں نہیں ملتے لیکن وہ یہی claim کرتے ہیں۔ ان کا کشفیات پر بہت زیادہ زور ہے۔ وہ ساری چیزوں میں ایک تو قلبی ذکر یعنی دل جاری ہونے کو بہت اہمیت دیتے ہیں، دوسرا کشفیات پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں اور تیسرا توجہ پہ بہت زور دیتے ہیں۔ ان کی توجہ اتنی باکمال ہے کہ وہ باقاعدہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مقام کو بھی بیٹھے بیٹھے اڑا دیتے ہیں۔ یہاں آج کل جو لوگ فوت ہوتے ہیں ان کے ساتھ ان کا یہ normal مشغلہ ہے کہ آپس میں بیٹھے بیٹھے کہہ دیں گے کہ میں نے اس کو فلاں جگہ سے فلاں جگہ پہنچا دیا۔ اس کو detract ہونا کہتے ہیں کہ اپنی اصل چیز سے ہٹ جانا۔ اگر انسان راہ سے ہٹتا ہے تو پھر یہ بھول بھلیاں ہیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی اس میں پڑ گیا تو اس سے باہر نکلنا بہت ہی مشکل ہے۔
ایک صاحب عملیات میں بہت زیادہ مشغول تھے۔ کمزور آدمی تھے، جب کہ عملیات کے لئے بڑا strong آدمی چاہئے ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ کی ٹکر آخر جنوں کے ساتھ ہے اور وہ کمزور نہیں ہیں، اس وجہ سے پھر مسئلہ ہوتا ہے۔ ان کے لئے اکثر پریشانیاں ہوتی تھیں، میں ان کو عملیات سے روکتا تھا حالانکہ اگر صحیح جائز طریقہ سے یہ کام کیا جائے تو یہ کوئی بری چیز نہیں ہے، لیکن اس کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ خیر! ان کے ساتھ یہ مسائل تھے، تو ان کو میں نے روکا، لیکن وہ رک نہیں رہے تھے۔ ایک بار انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ان کی مسجد کے پاس ہی ایک کنواں ہے، کہتے ہیں: میں نے سنا کہ کوئی مجھے کہہ رہا ہے کہ اگر کوئی اس میں گھس گیا تو باہر نہیں نکل سکتا۔ کہتے ہیں اس میں اِدھر اُدھر اتنے راستے تھے کہ آدمی گم ہوگیا تو کچھ پتا نہیں کہ کدھر گیا۔ میں نے کہا کہ یہ آپ کے عملیات ہیں، ان میں ایک دفعہ کوئی گھس گیا تو پھر ان سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ یہ بات انہوں نے خود کہی کہ عملیات میں آنے کے ہزاروں راستے ہیں لیکن نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمارا اس بات میں ان کے ساتھ اختلاف ہے، اس میں ہم ان کی favour میں نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ نکلنے کا ارادہ ہو تو نکلنے کا راستہ ہے۔ میرے خیال میں اپنے آپ کو ایسی چیزوں میں نہیں پھنسانا چاہئے۔
سوال نمبر 10:
میرے مراقبہ کے چودہ دن ہوگئے ہیں، پہلے مجھے concentration ہوتی تھی لیکن اب مجھے نیند آ جاتی ہے، concentration نہیں ہوتی۔ دوسرا میرا دل چاہتا ہے کہ ہر گناہ چھوڑ دوں، but مجھ سے نہیں چھوڑا جا رہا، مثلاً پردہ کرنے کا ارادہ کروں تو دل میں آتا ہے کہ یونیورسٹی کے لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ please guide کریں۔
جواب:
ما شاء اللہ آپ نے بہت صفائی کے ساتھ اپنا مسئلہ بتایا، اس وجہ سے قابلِ داد ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھیں یہ چیزیں ایک دن کی نہیں ہوتیں۔ انسان سب سے بڑی Complicated machine ہے، جس پہ ڈاکٹر اور حکیم حضرات ہزاروں سالوں سے لگے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک یہ پورا دریافت نہیں ہوا۔ انسانی دماغ، نیند اور pathology کے علاوہ بہت ساری چیزیں Question mark ہیں۔ اس طرح اس کا spiritual مسئلہ بھی بہت complicated ہے۔ اگر میں آپ کو اس کا complication بتاؤں تو آپ ڈر جائیں گی، اس وجہ سے میں complications تو نہیں بتا رہا لیکن اتنا بتا رہا ہوں کہ ایسا ہے۔ البتہ اللہ پاک اپنے فضل سے اس کو آسان کردیتے ہیں:
﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔
چونکہ اس کا وعدہ ہے، اس وجہ سے اَلْحَمْدُ للہ ایسا ہوجاتا ہے لیکن ابتدا میں صبر کرنا پڑتا ہے۔ ہر راستے میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ ابتدا میں صبر کرنا پڑتا ہے تو آپ کو صبر کرنا پڑے گا۔ آپ کو ابتدا میں concentration تھی، در اصل میں میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ بچوں کو ابتدا میں مٹھائی دی جاتی ہے اور بعد میں پٹائی ہوتی ہے۔ آپ کو بھی ابتدا میں مٹھائی کھلائی گئی، اب ان شاء اللہ آپ کو خود یہ چیز حاصل کرنی ہے۔ بطور ڈاکٹر آپ اپنے علم کو استعمال کرلیں کہ اپنے آپ کو fresh کیسے رکھا جائے۔ اگر آپ سے وقت کی selection میں غلطی ہوئی ہے تو وہ بھی ٹھیک کرلیں۔ ہمارے تبلیغی حضرات ذکر کرتے ہیں بعض ساتھی سونے کے وقت بستر کے اوپر بیٹھ کر ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم جس وقت تعلیم میں اس طرح پاؤں کھڑے کر کے بیٹھتے تھے تو اگر حضرات ہمیں اس حالت میں دیکھ لیتے تو کہتے کہ فوراً التحیات کی شکل میں بیٹھ جاؤ۔ اس طرح بیٹھنا تو نیند کی نیت ہے۔ اگر کسی نے نیند کی نیت کرلی تو پھر نیند ہی آئے گی۔ آپ اس کے لئے اول تو Fresh time استعمال کر لیں اور جلدی نہ مچائیں، جلدی مچانا اس راستے کی پانچ بنیادی رکاوٹوں میں سے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ آپ یہ نہیں سمجھ سکتی ہیں، اس لئے میں آپ کو کیسے بتاؤں۔ بعض لوگوں نے یہاں ہمارا تین سو، دو سو والا وظیفہ ایک سال میں پورا کیا ہے، ان کو بار بار نیا کرنا پڑتا کیونکہ ان کا ناغہ ہوجاتا تھا لیکن آپ نے ما شاء اللہ بڑی جلدی ترقی کی ہے۔ اس طرح ذکر جاری ہونے میں بعض لوگ دو دو، تین تین سال لیتے ہیں۔ مردوں کے لئے تو پانچ سال، سات سال بالکل عام سی بات ہے، البتہ عورتوں میں ذرا جلدی مسئلہ حل ہوجاتا ہے لیکن بہر حال ٹائم لے سکتا ہے۔ اس لئے آپ جلدی نہ مچائیں، اور اس کے لئے fresh وقت استعمال کرلیں اور یہ بات ٹھیک نہیں کہ اگر آج آپ سے نہیں ہوا تو کل آپ کرنا ہی چھوڑ دیں۔ آپ نے اگلے دن کرنا ہے، شیطان کو یہ پتا لگنا چاہئے کہ وہ چاہے آپ کو کتنا ہی روکے آپ نے اس کو کرنا ہے۔ جب اس کو اس بات کا پتا چل جائے گا کہ اس نے نہیں رکنا تو اس کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذا آپ نے بالکل پروا نہیں کرنی کہ ہورہا ہے یا نہیں ہورہا۔
باقی گناہوں کا چھوٹ جانا سلوک کے ذریعہ سے پورا ہوتا ہے اور سلوک کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ گناہ دو طرح سے چھوٹتے ہیں: ایک concept کے لحاظ سے اور دوسرا قوت ارادی کے ذریعہ سے۔ قوت ارادی سے گناہ چھوڑنے کا ہر آدمی مکلف ہے اور یہ فوری اور وقتی ہوتا ہے۔ یہ بات ہر آدمی پہ لازم ہے۔ لیکن جب گناہ چھوڑنے میں problem ہو تو پھر سلوک کے ذریعہ سے اس کی مدد کی جاتی ہے۔ اس لئے جب آپ کا سلوک کا ٹائم آئے گا تو ان شاء اللہ وہ بھی ہوجائے گا۔ فی الحال آپ اپنی قوت ارادی استعمال کریں۔
میں آپ ایک واقعہ سناتا ہوں، اس سے آپ اندازہ لگائیں گی تو میرے خیال میں شاید آپ کو علم ہوجائے گا۔ یورپ کی ایک خاتون مسلمان ہوئی تھیں، وہ پاکستان آئیں، پاکستان کی کچھ modern خواتین نے ان کے ساتھ ملاقات کی۔ جگہ ایسی تھی جہاں پر مرد بھی تھے، تو انہوں نے برقعہ نہیں اتارا۔ اس پر پاکستانی خواتین نے کہا کہ کیا آپ کو گرمی نہیں لگتی؟ کیونکہ یہ گرمی کے دن تھے۔ انہوں نے سوچا کہ گرمی بہت ہے اور یہ عورت ٹھنڈے ملک کی ہے، کیونکہ یورپ تو ٹھنڈا ملک ہے، لہٰذا اس کو گرمی زیادہ لگتی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جی بالکل لگتی ہے۔ وہ خواتی بولیں کہ پھر آپ نے برقعہ کیوں نہیں اتارا؟ انہوں نے آہستہ سے کہا کہ جہنم کی گرمی اس گرمی سے زیادہ ہے۔ بس آپ یہ تصور کر لیں کہ وہاں کا معاملہ یہاں کی نسبت بہت سخت ہے۔ قرآن پاک میں آتا ہے:
﴿یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌۚ﴾ (آل عمران: 106)
ترجمہ: ’’اس دن جب کچھ چہرے چمکتے ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ پڑ جائیں گے‘‘۔
اس کے علاوہ پتا نہیں کیا کیا ہوگا حتی کہ لوگ کہیں گے کہ کاش ہم پیدا ہی نہ ہوتے۔ اس وجہ سے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہاں کیا ہوگا، یہاں کا نہ سوچیں۔ آپ کو میں یقین دلاتا ہوں کہ جو لوگ ابتدا میں آپ کے اوپر ہنسیں گے بعد میں وہی لوگ آپ سے دعائیں کروائیں گے۔ اس حالت سے ہم بھی گزرے ہیں۔ بے شک ابتدا میں لوگ ہنستے ہیں لیکن بعد میں جب ان کے اوپر کوئی مشکل وقت آتا ہے تو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ ہمارے لئے دعا کریں۔ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ وہ صحیح کس کو سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے میں آپ سے عرض کروں گا کہ آپ نے ہمت بھی رکھنی ہے، صبر بھی کرنا ہے اور جو راستہ آپ نے اختیار کیا ہے مستقل مزاجی کے ساتھ اس پہ چلنا ہے۔
سوال نمبر 11:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حضرت بھتیجیوں نے ذکر مراقبہ چھوڑ دیا ہے۔ ایک نے کہا کہ میں نہیں کرسکتی اور دوسری نے کہا مجھے مراقبہ میں ڈر لگتا ہے اور یہ بہت زیادہ ہے، اس لئے میں نہیں کرسکتی۔ دس منٹ دل، دس منٹ روح، دس منٹ سر، دس منٹ لطیفہ خفی پر اور پندرہ منٹ اخفیٰ پر۔ دو ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر۔ مندرجہ بالا پانچوں مقامات پر ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ یہ معمولات کرتے ہوئے انہیں دو مہینوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے، ان کے لئے آگے کیا حکم ہے؟
جواب:
دس دس منٹ جو وہ کررہی ہیں ان کو ویسے ہی جاری رکھیں اور ساتھ پندرہ منٹ کا ایک اور مراقبہ یعنی مراقبہ احدیت بھی آپ ان کو آپ سکھا دیں کہ وہ یہ تصور کریں کہ اللہ جل شانہ کی جانب سے اس کی شان کے مطابق فیض آپ ﷺ کے قلب مبارک پر آرہا ہے، وہاں سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے قلب پر آرہا ہے۔ باقی بھتیجیوں والی بات کے بارے میں پھر کبھی بات کروں گا، ابھی ٹائم کم ہے۔
سوال نمبر 12:
السلام علیکم حضرت جی! جب میں کسی کو سلسلہ کی دعوت دیتا ہوں، خواہ مرد ہو یا عورت ہو، رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار ہو تو اللہ کے فضل سے ان کا حضرت جی سے تعلق بن جاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد میری دلی حالت بالکل بدل جاتی ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ میرا دل ان سے اٹھ جاتا ہے۔ پھر جب اپنے کچھ حالات کے بارے میں جن کا تعلق اصلاح سے ہوتا ہے، رہنمائی لینا چاہتے ہوں مثلًا اکثر لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ ہم حضرت جی سے کیا پوچھیں یا کیا حال بیان کریں؟ تو ان کو اپنے اوپر زبردستی کر کے ایک ہی جواب دینے کو دل چاہتا ہے کہ جو آپ کا دل چاہے وہ کریں۔ حضرت جی سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا درست ہے؟ کیا شیطان میرے دل کو گرفت میں لیتا اور دعوت کے کام سے روکتا ہے؟
جواب:
اس بات میں کوئی بری بات نہیں کہ آپ ان کو کہیں کہ آپ کا تعلق شیخ کے ساتھ ہوگیا ہے تو شیخ سے براہ راست پوچھیں۔ براہ راست پوچھنے کے لئے کہنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کو اپنے پاس لکھ لیں اور جو بھی آپ سے اس سے متعلق پوچھے تو آپ اسی لکھے ہوئے کو کاپی کرکے اسے بھیج دیا کریں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اس طرح آپ اپنے کام سے آزاد ہوجائیں گے، پھر آگے وہ جو بھی کرنا چاہیں یہ ان کا کام ہے۔
سوال نمبر 13:
السلام علیکم حضرت جی اگر کوئی اپنے تمام مسائل اور مشکلات کو اللہ کے سپرد کردے جیسے ایک نبی علیہ السلام کی دعا ہے:
﴿فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ﴾ (الذّٰریٰت: 50)
ترجمہ: ’’لہٰذا دوڑو اللہ کی طرف‘‘۔
تو کیا میں اس تفویض کے بعد اس مسئلہ کے حل کے لئے کی دعا کرنی چاہئے یا دعا چھوڑ دینی چاہئے؟
جواب:
دعا جاری رہنی چاہئے البتہ دعا کا نتیجہ اللہ پر چھوڑنا چاہئے کیونکہ دعا کا حکم ہے:
﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ (المومن: 60)
ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔
ظاہر ہے، یہ حکم نہیں بدلا، بلکہ ابھی بھی بحال ہے البتہ اس کا نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے کہ اللہ پاک اس کو کس category میں ڈالتا ہے، آیا یہاں پورا کرتا ہے، اس کے بدلے کوئی مصیبت دور کرتا ہے یا آخرت میں ذخیرہ کرتا ہے، یہ اللہ پاک کا اپنا فیصلہ ہے۔ اس کو تفویض کہتے ہیں۔
سوال نمبر 14:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت جی! بندہ صبح شام ’’مومن کا ہتھیار‘‘، ’’مناجات مقبول‘‘ اور رات کو ’’منزل جدید‘‘ پڑھتا ہے۔ دیگر کتابیں بھی مطالعہ میں رکھتا ہے۔ بندہ چاہتا ہے کہ ہر کام آپ کے مشورہ سے کرے، آپ رہنمائی فرمائیں کہ بندہ کس کام کو جاری رکھے، اور کس بند کردے؟
جواب:
ما شاء اللہ آپ کا رابطہ ہوگیا ہے۔ آپ ادھر تشریف لائیں، ان شاء اللہ آپ سے اس مسئلہ پر بات ہوجائے گی۔
سوال نمبر 15:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ شیخ محترم! سوال یہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے اچھا گمان رکھنے کی کیفیت کیا ہے اور یہ کیسے حاصل کی جا سکتی ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
جواب:
دیکھیں! ایک ہوتا ہے حسن ظن اور ایک ہوتا ہے سوء ظن۔ حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ آپ سمجھیں کہ اُدھر سے ہمارے ساتھ خیر کا ہی معاملہ ہے۔ یقین جانیں، یہ بالکل پکی بات ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ آپ مجھے بتائیں کیا اللہ پاک کو ہم کچھ دے سکتے ہیں؟ ہم کچھ نہیں دے سکتے، لیکن اس کے باوجود اللہ پاک ہم سب کو دے رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دنیا میں دستر خوان وسیع کیا ہوا ہے اور سب کچھ اپنی طرف سے دے رہے ہیں اور سب کو دے رہے ہیں یعنی کافر کو بھی دے رہے ہیں اور مسلمانوں کو بھی دے رہے ہیں۔ بلکہ شاید کافر کو بعض صورتوں میں زیادہ دیتے ہیں۔ لیکن وہاں کا معاملہ اعمال پر موقوف رکھا ہے، اگرچہ فیصلہ بالآخر وہی کرتا ہے لیکن ہمیں اعمال کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
﴿وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (العصر: 1-3)
ترجمہ: ’’زمانے کی قسم، انسان در حقیقت بڑے گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں، اور نیک عمل کریں، اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں‘‘۔
اس میں سب کچھ آ جاتا ہے۔ چونکہ وہاں پر یہ معاملہ ہمارے اعمال اور ایمان کے ساتھ وابستہ ہے، لہٰذا ہمیں کوشش کرنی چاہئے، اور اس کے بعد ہم کہیں کہ اللہ پاک بہت کچھ معاف کرتا ہے۔ اگر پکڑتا ہے تو تھوڑے پر پکڑتا ہے۔
﴿وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ﴾ (الشوریٰ: 30)
ترجمہ: ’’اور بہت سے کاموں سے تو وہ در گزر ہی کرتا ہے‘‘۔
اللہ پاک کے ساتھ اچھا گمان کا مطلب یہی ہے۔ اپنے ساتھ ہمیشہ سوءِ ظن رکھنا چاہئے کہ میں ہی کمزور ہوں، مجھ سے ہی گڑبڑ ہوتی ہے، میں ہی اپنا نقصان کرتا ہوں اور یہ بالکل یقینی بات ہے، اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ چیز کیسے حاصل ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا دار و مدار اس بات کی معرفت پر ہے۔ جتنی اس کی معرفت اور ادراک بڑھے گا اتنا یہ چیز راسخ ہوتی جائے گی اور انسان کو پتا چلتا جائے گا۔ معرفت کا طریقہ عبدیت کا ہے، جتنی آپ کی عبدیت بڑھے گی اتنی ہی آپ کی معرفت بڑھے گی اور یہ چیزیں راسخ ہوتی جائیں گی۔
سوال نمبر 16:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا ذکر اور مراقبہ ایک ماہ سے جاری ہے آگے ذکر کے لئے رہنمائی فرمائیں۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ ساڑھے چار ہزار مرتبہ۔ اس کے ساتھ دس منٹ مراقبہ دل پر، دس منٹ لطیفہ روح پر، دس منٹ لطیفہ سر پر، اور پندرہ منٹ لطیفہ خفی پر۔ کیفیت مراقبہ کے دوران focus نہیں رہتا ہے۔
جواب:
آپ اس طرح کریں کہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر پانچ ہزار کرلیں اور مراقبات دس منٹ کی جگہ پانچ پانچ منٹ کرلیں اور آخری لطیفہ پر پندرہ منٹ رکھیں۔
سوال نمبر 17:
ایک سالک کا سوال آیا تھا جو کہ حضرت نے مجلس میں نہیں سُنایا، بلکہ اُس کا صرف جواب حضرت نے دیا ہے۔
جواب:
یہ آپ نے بہت لمبا text بھیج دیا ہے، اس وقت ٹائم نہیں ہے، اس کا جواب ان شاء اللہ آپ کو بعد میں دیں گے۔
سوال نمبر 18:
میں نے آج ہی message کیا تھا، جس کا جواب آپ نے نہیں دیا۔
جواب:
آپ نے اس میں جو لکھا اس کے جوابات بدھ کے دن ملتے ہیں، کیوں کہ اس دن اس کا ماحول ہوتا ہے۔ اور جہاں تک آپ نے والدہ کے معمولات کی بات کی ہے تو یہ نامکمل ہے، آپ نے ان کے معمولات نہیں بتائے۔ در اصل معمولات دو قسم کے ہوتے ہیں: ان میں سے کچھ نورانی ہوتے ہیں جن کے کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ صرف ایک عامل کی تحقیق ہوتی ہے اور اس پر وہ چلتا ہے۔ ان کے بتانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہوتا، کیونکہ آگے عامل ان کے ساتھ کیا کرتا ہے، میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ لیکن بہرحال معمولات کے لحاظ سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ آیا وہ کرنے کے قابل ہیں یا نہیں؟ ان میں کوئی ایسی بات ہو جو نا کرنے کی ہو تو میں عرض کردوں گا اور اگر کوئی ایسی بات نہیں ہے تو آپ جاری رکھیں۔ باقی ان کا معاملہ ان کا عامل کے ساتھ ہوگا میرے ساتھ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 19:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ حضرت جی! لطائف کے point مخصوص اور دائمی ہیں یا اندازے سے بیان کیے جاتے ہیں؟ جیسے مخارج حروف متعین ہیں کیا اس طرح لطائف کا تعین نہیں ہوسکتا؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
دیکھیں! لطائف کے point کشفی طور پر متعین ہیں، اور کشفی چیزیں ظنی ہوتی ہیں اور ان میں تحقیقات مختلف ہوسکتی ہیں۔ نقشبندی سلسلہ کے دو بڑے گروہوں بنوریہ اور معصومیہ کے درمیان ان کے تعیین میں فرق پایا جاتا ہے۔ جو مقام انہوں نے محسوس کرنے کو بتائے ہیں ان دونوں میں مختلف ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں کے بڑے اثرات اور فوائد ہیں۔ لہٰذا جس طرح فقہ میں اجتہادی باتیں ہوتی ہیں اس طرح یہ بھی اجتہادی باتیں ہیں اور یہ ایسے ہی ہے جیسے ڈاکٹر حضرات تحقیق کر کے practice کرتے ہیں۔ چونکہ ان کی جگہیں کشفی طور پر معلوم ہوچکی ہیں، لہٰذا جن کی ان جگہوں کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے ان کو وہاں محنت کے ساتھ اثر محسوس ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جس جگہ سے شیخ کے لطائف جاری ہوتے ہیں اسی جگہ سے مرید کے بھی جاری ہوتے ہیں۔ کیونکہ شیخ نے جو دینا ہوتا ہے اس کے ساتھ شیخ کا ارادہ شامل ہوتا ہے، لہٰذا ان کے وہی point کھلتے ہیں جو شیخ بتاتا ہے۔ لیکن اس پہ زیادہ غور نہیں کرنا چاہئے۔ اگر شیخ بتا دے تو ضرور کریں کیونکہ یہ procedure ہے، لیکن اگر نہ بتائیں تو اس کی خواہش نہ کریں، کیونکہ طریقے بہت زیادہ ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے ایک صاحب کو یہی بات بتائی تھی کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہمارا دل جاری ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ہماری آنکھ جاری ہوتی ہے۔ آنکھ جاری ہونا حدیث شریف سے بھی ثابت ہے، لہٰذا اس کو کوئی بھی غلط نہیں کہہ سکتا۔ جو حضرات لطیفہ قلب ہی مانتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ لطیفہ قلب اصل ہے، کیونکہ اس کا قرآن و حدیث میں ذکر ہے۔ باقی لطائف ظنی اور کشفی ہیں۔ وہ ان کو غلط نہیں کہتے لیکن ان کو follow بھی نہیں کرتے۔ اس وجہ سے ہمیں اس معاملہ میں بہت زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔