سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 552

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

السلام علیکم شیخ!

Ok ان شاء اللہ. I will try to translate ان شاء اللہ. Now I just want to ask you that now I am doing reading ‘‘سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ’’، hundred times ‘‘صَلَّی اللہُ عَلَی النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ’’ hundred times and ‘‘اَسْتَغْفِرُ اللهَ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ’’ one hundred times.

‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ’’ two hundred times, ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ four hundred times, and حق six hundred times. After this, I am doing five minutes each for five points thinking Allah Allah. So this is what I am doing now. Can you kindly tell me either to just continue this all and do translation of the book I just informed about ان شاء اللہ. Please let me know what I should or should not do.

جزاکم اللہ خیراً

جواب:

السلام علیکم

Now you should do two hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ’’ four hundred times ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ six hundred times حق and one hundred times Allah. After this, think, as your heart is saying Allah Allah, similarly all your five points are saying the same one after the other and after that you should think that Allah is with me and I don’t know how but Allah is with me. The فیض of this is coming from اللہ سبحانہ وتعالیٰ to رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم and from there to my Sheikh and from there to your whole body. So this you should now do besides this. You should translate the book as well. I have told Faisal بھائی and I think you should contact him.

سوال نمبر 2:

السلام علیکم محترم حضرت جی! میرا زبانی ذکر ساڑھے تین ہزار مرتبہ، ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کا مراقبۂ دل دس منٹ تک۔ ذکر میں دل چاہتا ہے کہ کرتی رہوں۔ مراقبہ کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ مراقبہ میں کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ مجھے Corona ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ناغہ ہوگیا۔ اب طبیعت بہتر ہے، بس کھانسی ہے۔

جواب:

اَلْحَمْدُ للہ! اللہ جل شانہ نے آپ کو صحت عطا فرمائی، اللہ پاک مزید صحت عطا فرمائے۔ اب آپ یوں کریں کہ دل کا مراقبہ دس منٹ کی جگہ پندرہ منٹ کر لیں۔ اس کے علاوہ آپ کی باقی سب چیزیں پرانے طریقے پر ہی رہیں گی۔ ابھی آپ یہ شروع فرما لیں، چونکہ اس میں زور نہیں لگتا اس لئے آپ اس کو ان شاء اللہ آسانی سے کرسکیں گی۔ اللہ جل شانہ آپ کو مزید صحت عطا فرمائے۔

سوال نمبر 3:

السلام علیکم حضرت جی! میں فلاں ہوں، اللہ پاک آپ سے راضی ہو۔ آپ نے مراقبہ شیونات ذاتیہ کی تفصیل پوچھی تھی، حضرت جی! باہر کے ملک آ کر رہنے پر اللہ پاک نے جو حالات دیئے، ان میں بار بار اپنے میاں کو دیکھتی ہوں تو دین کی فکر بڑھ جاتی ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ دعا کرنا بھی پہلے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ چلتے پھرتے کام کے ساتھ ساتھ دعا اور درود تنجینا پڑھتی رہتی ہوں۔ گناہوں کی چیزوں کو دیکھ کر تکلیف پہلے سے زیادہ ہوتی ہے اور اَلْحَمْدُ للہ اس کے نتیجے میں اللہ کی طرف توجہ بھی بڑھ گئی ہے۔ شاید یہ مراقبہ کی وجہ سے ہے یا پتا نہیں کسی اور وجہ سے، لیکن دنیاوی چیزوں میں سے موسیقی میرے پاس بار بار چلائی جائے تو میرے دل پر اثر ہوتا ہے۔ اس کی مجھے بہت tension ہے۔

اس بات کا احساس بھی بڑھ گیا ہے کہ کہیں دنیاوی چیزوں میں غفلت کو دیکھ کر میرے دل میں میرے میاں کا مقام کم نہ ہوجائے جس کی وجہ سے اللہ میاں مجھ سے نارض ہوکر توفیق سلب نہ کر لے۔ کیونکہ یہ تو اللہ ہی کو پتا ہے کہ آخری عمل کون سا ہوگا۔ یہ نا ہو کہ تھوڑے سے اعمال کر کے ایسا عمل کر لوں کہ سب کے اوپر پانی پھر جائے۔ میرے لئے استقامت کی دعا فرمائیں۔

جواب:

ما شاء اللہ، یہ بہت اچھے حالات ہیں، اللہ جل شانہ آپ کے حالات کو اور بھی زیادہ بہتر فرما دے۔ یہ بات آپ کی بالکل صحیح ہے کہ کسی کی طرف بھی حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے اور اپنے آپ کو کامل بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔ اپنے گناہوں اور اپنے عیوب کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے۔ یہ صفت ما شاء اللہ آپ کو حاصل ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اس پر استقامت نصیب فرما دے۔

ابھی آپ مراقبہ شیونات ذاتیہ سے آگے مراقبہ تنزیہ پر آپ متوجہ ہوجائیں، باقی سارے معمولات پہلے کی طرح کریں گی۔ مراقبہ تنزیه جو کہ چوتھے point یعنی لطیفہ خفی پر ہے اس کا فیض محسوس کرنا ہے۔ دراصل اللہ جل شانہ کی کچھ صفات کو ہم اپنی صفات کے ذریعے محسوس کرتے ہیں اور کچھ ایسی صفات ہیں جو مخلوق میں موجود ہی ہی نہیں ہیں، یا مخلوق کی کچھ صفات ایسی ہیں جو خالق یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ جیسے اللہ پاک سوتا نہیں ہے، اللہ پاک اونگھتا نہیں ہے، اللہ جل شانہ کی اولاد نہیں ہے، اللہ جل شانہ کی بیوی نہیں ہے اور اللہ جل شانہ تمام چیزوں سے پاک ہیں۔

مراقبہ سے پہلے تین دفعہ سورۃ اخلاص پڑھ لیا کریں اور اس کے بعد یہ مراقبہ شروع کرلیا کریں تو اس سے ان شاء اللہ تقویت ہوگی۔ ان شاء اللہ آپ تشبیہ سے تنزیہ کی طرف بڑھیں گی۔ اللہ پاک توفیق عطا فرمائے۔ باقی چیزیں آپ کی وہی ہیں۔

سوال نمبر 4:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت! میں فلاں ہوں، میرا ذکر پانچوں لطائف پر دس دس منٹ، اور ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16) والا مراقبہ۔ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ والا مراقبہ نہیں ہورہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ پندرہ منٹ لطیفہ قلب اور باقی لطائف پر دس دس منٹ کرلیا کرو۔ اس کو اکیس دن ہوگئے ہیں، صرف تین جنوری کو لطیفہ قلب پر تھوڑا سا اثر محسوس ہوا، لطیفہ سر اور خفی پر اس سے کم اور لطیفہ اخفیٰ مکمل طور پر محسوس نہیں ہوا۔ باقی بیس دن کسی لطیفہ پر تھوڑی دیر بھی محسوس نہیں ہوا۔

حضرت جی! جب ’’حَقْ حَقْ‘‘ اور ’’حَقْ اَللّٰہ‘‘ کا ذکر ہو تو اس میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اڑنے والا ہوں۔ فجر کی پانچ نمازیں قضا ہوگئی تھیں، تین روزے رکھنے تھے، دو روزے رکھے اور تیسرے دن بیمار ہوگیا۔ اب جب ارادہ کرتا ہوں تو سر میں درد شروع ہوجاتا ہے، اور یہ کئی بار ہوا ہے، اصلاح فرما دیجئے۔

جواب:

ابھی آپ ذکر جاری رکھیں، اس طرح اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ دو سو، چار سو، چھ سو اور اسم ذات والا ذکر تو آپ کو کرنا ہے، باقی پانچوں لطائف پہ آپ دس دس منٹ اور ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ والے مراقبے کو ہی جاری رکھیں۔ اگر یہ محسوس نہیں ہوتا تو پھر صرف لطائف پر رکھیں اور جب ان شاء اللہ محسوس ہونے لگے تو اس کے بعد آپ اس کو آگے بڑھائیں گے۔ روزے رکھنا شروع کرلیں کیونکہ روزوں کے لئے بہترین وقت یہی ہے، بعد میں بہت مشکل ہوجائے گی۔ گرمیوں میں روزہ رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، ابھی آسان ہے اس لئے ابھی شروع فرما لیں۔

سوال نمبر 5:

السلام علیکم شیخ محترم! میری تجلیات افعالیہ کا مراقبہ مکمل ہوچکا ہے۔ اَلْحَمْدُ للہ میرا عقیدہ کافی حد تک پکا ہوگیا کہ ہر شے اللہ تعالیٰ کے ”کُنْ“ کی محتاج اور اس کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اس عقیدے کے پکا ہونے سے زندگی میں سکون سا آگیا ہے۔ پہلے متوجہ ہونے پر لطائف کی movement محسوس ہوتی تھی، اب اکثر لطائف میں یہ movement خود متوجہ ہوا کرتی ہے۔ ذکر جاری ہے، اور شیخ محترم! میرے رب کے قرب کی پیاس بڑھتی جارہی ہے اور کسی چیز میں سکون نہیں آتا۔ براہ مہربانی اگلے ذکر کی رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

تجلیات افعالیہ کے بعد اس کی جگہ آپ نے صفات ثبوتیہ کا مراقبہ کرنا ہے باقی چیزیں وہی پرانی ہوں گی۔ صفات ثبوتیہ کا مراقبہ پندرہ منٹ کے لئے ہوگا جس میں اللہ پاک کی جو آٹھ خاص صفات ہیں کہ اللہ پاک سب کچھ پیدا کرتا ہے، صفتِ تکوین، صفتِ کلام، صفتِ ارادہ، اللہ پاک دیکھتا ہے اور سنتا ہے۔ ہماری یہ صفات ناقص ہیں اور اللہ پاک کی صفات کامل ہیں۔ اس مراقبے میں یہ خیال کرنا ہے کہ یہ صفات جو اللہ کے لئے ثابت ہیں ان کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کے قلب سے آپ کے لطیفہ روح پر آرہا ہے۔ یہ آپ شروع فرما لیں، ان شاء اللہ اب ایک مہینے کے لئے آپ کا سبق یہی ہوگا۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم، حضرت جی! غفلت اور سستی رہی، اس پر میں شرمندہ ہوں، آج سے بلا ناغہ اصلاح کے لئے ملے ہوئے اعمال پورے کرنے کا ارادہ کرتا ہوں اور ماضی کے لئے معافی کی درخواست ہے۔

جواب:

بھائی صاحب! صحیح بات یہ ہے کہ مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ آپ نے میرا کوئی نقصان نہیں کیا۔ اگر نقصان کیا ہے تو اپنا کیا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیں اور اپنے اندر استقامت پیدا کرنے کی کوشش کر لیں کیونکہ ساری چیزیں استقامت کی بنیاد پر ہی فائدہ دیتی ہیں۔

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ (حم السجدہ: 30)

ترجمہ1: ’’(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے‘‘۔

اسی پر ساری چیزوں کے نفع کا دار و مدار ہے۔ اگر استقامت نہیں ہوگی تو ساری چیزیں واپس ہوسکتی ہیں۔ اس لئے آپ مجھ سے بالکل معافی نہ مانگیں، کیونکہ آپ نے میرا کوئی قصور نہیں کیا ہے البتہ اللہ پاک سے ضرور معافی مانگیں اور اپنے اندر استقامت پیدا فرمائیں۔

سوال نمبر 7:

حضرت! میرے معمولات کا چارٹ ملاحظہ فرما لیں۔

جواب

اَلْحَمْدُ للہ میں نے آپ کے معمولات کا چارٹ دیکھ لیا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ آپ کو معمولات پر استقامت نصیب ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو روز بروز بڑھا دے اور اس پر استقامت نصیب فرمائے اور آپ اس کو آگے بھی چلائے رکھیں کیونکہ کامیابی تو ان شاء اللہ اسی پر ہی ہوگی۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم! میں UK سے فلاں ہوں۔ اَلْحَمْدُ للہ ذکر جاری ہے اور مغرب کے بعد منزل بھی پڑھتا ہوں۔ میرا ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور پندرہ سو ہے۔ کرتے وقت سوائے اچھے خیالات کے کچھ محسوس نہیں ہوا۔ جو لوگ چھیڑتے تھے جس سے پریشانی ہوتی تھی، منزل پڑھنے سے وہ سلسلہ کافی کم ہوگیا ہے لیکن مکمل طور پر ابھی بھی نہیں رکا۔

جواب:

ما شاء اللہ، آہستہ آہستہ یہ کیفیت بڑھے گی اور بہتر ہوتی جائے گی۔ اگرچہ کچھ بھی محسوس نا ہو، آپ اپنا ذکر جاری رکھیں، یہ بھی ایک حال ہے۔ آپ جاری رکھیں گے تو ان شاء اللہ العزیز اس کے اثرات آپ کے لئے خود ہی ظاہر ہوجائیں گے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اثرات عین اس وقت تو ظاہر نہیں ہوتے لیکن بعد میں اپنے وقت پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اس لئے آپ اپنا ذکر جاری رکھیں اور منزل میں بھی ناغہ نہ کیا کریں۔

سوال نمبر 9:

السلام علیکم شاہ صاحب میں خرم ہوں۔

جواب:

اس نمبر پر text ہی بھیجا کریں، آڈیو نہ بھیجا کریں۔

سوال نمبر 10:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، حضرت جی! میرا ایک ماہ کا وظیفہ مکمل ہوگیا ہے جو دو، چار، چھ، پندرہ سو اور لطیفہ قلب اور روح پر دس منٹ اور لطیفہ سر پر پندرہ منٹ ذکر محسوس کرنا تھا۔ مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ یہ خیال آتا ہے کہ یہ لاحاصل practice ہے، اگر اس کی بجائے یہی ٹائم تلاوت یا نوافل کو دوں تو زیادہ موزوں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں۔ بہت سے مشائخ سے مل کر بھی مجھے اپنی بیماری سے شفا نہیں مل سکی۔ رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

در اصل آپ کو غلط فہمی صرف اسی سے ہوئی ہے کہ آپ صرف ایک ہی طریقہ کو اپنے لئے محسوس کرچکے ہیں۔ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ اَلْحَمْدُ للہ ہم چاروں طریقے چلاتے ہیں اس لئے اگر کسی کو ایک طریقہ کے ساتھ مناسبت نہ ہو تو ہم اس کو دوسرے طریقہ پہ لے جاتے ہیں۔ آپ جانتے ہوں گے کہ شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ کیا کیا تھا۔ انہوں نے جب کہا کہ یہ میں نہیں کرسکتا تو انہوں نے فوراً گلے لگا لیا کہ ہم آپ کو دوسرے طریقہ سے لے جائیں گے۔

بہر حال بالکل disturb نہ ہوں، آپ 2001 سے کوشش کررہے ہیں اور آپ کو بالکل محسوس نہیں ہورہا تو بالکل پروا نہ کریں۔ آپ کو اس کے ساتھ اگر مناسبت نہیں ہے تو دوسرا طریقہ آپ چلائے رکھیں۔ اب آپ اس طرح کریں کہ دو، چار، چھ اور پندرہ سو کی جگہ دو ہزار دفعہ ’’اَللّٰہْ‘‘ کا ذکر کرلیں۔ اسی طریقہ سے اب ان شاء اللہ آپ آگے بڑھیں گے۔ لطائف کے ذریعہ سب کچھ ہونا ہر ایک کے ساتھ ضروری نہیں ہے۔ ہمارے چشتیہ سلسلہ کے ہاں اصل صرف لطیفہ قلب ہی ہے، باقی لطائف کشفی ہیں، اور کشف میں تو اختلاف بھی ہوتا ہے اس وجہ سے ہم لوگ یعنی چشتیہ حضرات لطائف کے اوپر محنت نہیں کراتے بلکہ وہ دل پر ہی کراتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ دل کا تعلق پیدا کرتے ہیں۔ اسی سے ان کے سارے مراقبات clear ہوجاتے ہیں لہٰذا آئندہ آپ اسی لائن پہ رہیں۔

اصل میں دوا کو شفا سمجھنا غلط فہمی ہے۔ دوا شفا نہیں ہوتی، شفا الگ چیز ہے اور دوا الگ چیز ہے۔ دوا کو مقصود نہیں سمجھنا چاہئے۔ دوا ایک نہیں ہوتی۔ اللہ کا شکر ہے، اَلْحَمْدُ للہ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس پر کافی اطمینان نصیب فرمایا ہے کہ دوا ایک نہیں ہے۔ میں خود اپنی مثال دیتا ہوں، میرے شیخ نے میرے ساتھ سب سے بالکل مختلف طریقہ رکھا تھا۔ اس وقت مجھے بھی حیرت ہوتی تھی کہ باقی سب کے ساتھ یہ کیا طریقہ اختیار کررہے ہیں اور میرے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ لیکن اخیر میں اس کا فائدہ معلوم ہوا۔ تو ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا معاملہ نہیں ہوسکتا۔ یہ لطائف کا سلسلہ نقشبندی سلسلے کی تحقیق ہے اور بہت اچھی تحقیق ہے، لیکن سارے لوگ اللہ پاک نے ایک جیسے نہیں پیدا کیے، لہٰذا جن کے لئے یہ مفید نہیں ہے، ان کے لئے نہیں ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس طرح ہوتا ہے کہ مثلًا insulin بہت اچھی دوائی ہے، اسی طرح Augmentin اور دیگر antibiotic ہیں، لیکن بعض کو یہ راس ہی نہیں آتیں اس لئے ان کو ڈاکٹر یہ نہیں دیتے۔ مجھے بھی ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کو اگر کبھی antibiotic کی ضرورت ہو تو آپ Penciline اور Augmentin وغیرہ استعمال نہ کریں، آپ صرف Tetracycline origin Apramycin استعمال کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ان سے پوری دنیا کو فائدہ ہورہا ہے لیکن مجھے نقصان ہورہا ہے، تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ اس لئے میں ان کی بات پر عمل کرتا ہوں۔ اگر کسی اور ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں تو ان کو بھی بتاتا ہوں کہ مجھے فلاں ڈاکٹر نے یہ کہا ہے۔ وہ سمجھ جاتے ہیں لہٰذا وہ مجھے اسی قسم کے طریقہ سے guide کرتے ہیں۔

یہ مختلف نظام اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں اسی لئے طریقے بھی مختلف ہیں۔ اس وجہ سے میں نے آپ کو کہا کہ آپ یہ طریقہ بالکل ہی چھوڑ دیں، کیونکہ لطائف والی باتیں سب کے لئے نہیں ہیں۔ آپ صرف دو، چار، چھ اور پندرہ سو کی جگہ دو ہزار مرتبہ ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کریں۔ ذکر لسانی اگر بذات خود دل میں اتر جائے تو یہ انسان کی توجہ سے اتارنے کے مقابلے میں زیادہ strong ہوتا ہے۔ کیونکہ جب یہ خود بخود اترتا ہے تو رکتا نہیں ہے۔ یہ ہم نے دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر مجھے تو حضرت نے لطائف تو دور کی بات، خود لطائف کا نام تک نہیں بتایا۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ لطائف کیا ہوتے ہیں۔ ممکن ہے ہمارے بعض پیر بھائیوں کو بتائے بھی کرائے بھی ہوں گے، لیکن مجھے ایک تو لسانی ذکر بھی تھوڑا بتایا تھا یعنی آخر تک صرف چار تسبیحات بتائی تھیں، اس سے زیادہ نہیں بتایا، اور مراقبہ کی تو بات ہی نہیں تھی۔ کبھی کبھی میں کہتا کہ حضرت! میں زبان سے جو ذکر کرتا ہوں تو وہ دل میں اترتا محسوس ہوتا ہے۔ فرماتے ٹھیک ہے ناں، یہ اچھی بات ہے۔ پھر میں کہتا حضرت! ادھر تھوڑی سی گرمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ فرماتے ہاں، یہ ذکر کا اثر ہے۔ بس اس طرح بے خیالی سے کہہ دیتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اخیر میں جب بات ہوئی تو حضرت نے فرمایا کہ میں پہلے بھی یہ خیال کرتا تھا کہ آپ کی نسبت نقشبندی ہے، اب تو مجھے یقین ہوگیا کہ نقشبندی ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے نقشبندی حضرات والے معمولات نہیں کرائے۔ کیونکہ ہر ایک کے ساتھ اللہ پاک کا اپنا نظام ہے، اس کو ہم محسوس نہیں کرسکتے۔

بہرحال یہ جہری ذکر والا طریقہ بھی لاوارث نہیں ہے، بلکہ بہت strong طریقہ ہے اور اس کے ذریعہ سے بہت سارے لوگوں کا بھلا ہوا ہے۔ پہلے ہم صرف چشتیہ سلسلہ کا ذکر کرتے تھے، پھر ہم نے سوچا کہ ہمارے پاس تو سارے سلسلوں کے لوگ آتے ہیں، اجتماعی ذکر میں تو سب کا حق ہوتا ہے، پھر ہمیں یہ چاروں سلسلوں والا ذکر ملا۔ ہمارے ایک ساتھی جو کشفی ہیں، حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پہ گئے تو ان کی کشف میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی۔ وہ ساتھی چونکہ پرانے ہیں، اس لئے اس وقت انہوں دونوں ذکر کیے، یعنی چشتیہ کا پرانا ذکر بھی کیا اور موجودہ ذکر جو انہیں تازہ تازہ ملا تھا وہ بھی کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ مجھے بارہ تسبیحات کا ذکر یہاں ملا تھا۔ یہ بات کتب تاریخ میں بھی موجود ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پہ چلہ کاٹا تھا۔ جب آپ نے فرمایا کہ یہ ذکر مجھے یہاں ملا تھا تو اس ساتھی نے فورًا کہہ دیا کہ حضرت! ہم تو اس وقت یہ ذکر نہیں کررہے، ہم تو دوسرا ذکر کررہے ہیں۔ فرمایا کوئی بات نہیں، وہ بھی ہمارا ہی ذکر ہے۔ اس میں ہم چاروں سلسلوں کا ذکر کرکے اپنے سلسلے کا فیض بھی لے لیتے ہیں دوسرے سلسلوں کا فائدہ بھی ہوجاتا ہے۔ مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ اَلْحَمْدُ للہ حضرت اس پہ خوش ہیں۔ اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ آپ دو چار چھ اور دو ہزار کی ترتیب سے شروع فرما لیں۔

باقی رہا یہ سوال کہ میں اس کی جگہ تلاوت یا نوافل کو دوں تو زیادہ فائدہ ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تلاوت کے فائدے کا کون انکار کرسکتا ہے؟ یہ تو شاہی ذکر ہے، اور نوافل میں اللہ پاک کے سامنے کھڑا ہونا تو بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔

﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِؕ﴾ (البقرۃ: 45)

ترجمہ: ’’اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو‘‘۔

اس کا اس کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ جیسے حلوے کا Paracetamol کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ کوئی کہہ دے کہ میں Paracetamol کی جگہ حلوہ کھا لوں گا، تو حلوہ اگرچہ بہت اچھی چیز ہے، اور اگر بادام کا حلوہ ہو تو وہ تو ہے ہی بہت اچھی چیز، لیکن Paracetamol کی جگہ آپ اسے استعمال نہیں کرسکتے۔ Paracetamol کی اپنی افادیت ہے اور حلوے کی اپنی افادیت ہے۔ اس لئے یہ بات نہ کریں کیونکہ یہ علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، علاج اپنی جگہ اہم ہے اور غذا اپنی جگہ، لہٰذا دونوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھنا چاہئے، ان شاء اللہ بہتر ہوگا۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت! میں مسجد رحمانیہ سے فلاں ہوں۔ اللہ کے فضل سے میرا ذکر مکمل ہوچکا ہے۔ دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے چار ہزار۔ اس کے علاوہ دس منٹ دل کے اوپر، پندرہ منٹ روح پر اور پندرہ منٹ لطیفہ سر پر۔ تینوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے لیکن لطائف پر ذکر کرنے کے دوران نیند آتی ہے۔ گزارش ہے کہ اگلا ذکر تجویز فرمائیں۔ غیب اور لا یعنی سے بچنے کے لئے اگر کوئی طریقہ ہو تو بتا دیجئے، بڑی مہربانی ہوگی۔

جواب:

ما شاء اللہ اس کو جاری رکھیں۔ دو سو، چار سو، چھ سو اور ساڑھے چار ہزار تو آپ کا ہے ہی۔ اب دس منٹ دل کے اوپر، دس منٹ روح کے اوپر، دس منٹ لطیفہ سر پر اور پندرہ منٹ لطیفہ خفی پر شروع کر لیں ان شاء اللہ۔

سوال نمبر 12:

السلام علیکم حضرت جی! میں بہت پریشان ہوں، مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔ مجھے یہ نہیں پتا کہ میں کیا کروں۔ کیا میں کال کرسکتی ہوں؟

جواب:

بالکل! آپ کال کرسکتی ہیں۔ کال کے لئے ہمارے پاس بارہ بجے سے ایک بجے تک ٹائم ہے۔ آپ اس وقت میں ضرور کال کیجئے گا تو ان شاء اللہ جو بات بھی آپ نے کرنی ہوگی آپ میرے ساتھ کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کسی اور وقت میں میرے نمبر 03005010542 پر آڈیو بھیج دیں تو مجھے جب فرصت ہوگی تو میں ان شاء اللہ اس کو سن لوں گا اور آپ کو ٹائم بھی دے دوں گا۔

سوال نمبر 13:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت! اَلْحَمْدُ للہ میرے ذکر کو ایک مہینہ مکمل ہوگیا ہے۔ آپ نے چھ دسمبر کو یہ ذکر تلقین فرمایا تھا: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ دو سو مرتبہ، ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ‘‘ چار سو مرتبہ، ’’حَقْ‘‘ چھ سو مرتبہ اور ’’اَللّٰہْ‘‘ ہزار مرتبہ۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔ حضرت کبھی کوئی دنیاوی خدشات یا کسی گناہ کا خیال دل میں آئے تو ہچکی سی آتی ہے۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے وسوسے کی دعا پڑھ کے سنائی تھی کہ ”اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ ذِکْرَكَ وَخَشْیَتَكَ“۔ جب بھی آپ کے دل میں اس قسم کی بات آتی ہو تو استغفار کرلیا کریں۔ ان شاء اللہ استغفار ہر حالت میں مفید ہے۔ اس کے علاوہ ذکر دو سو، چار سو، چھ سو اور پندرہ سو کر لیں۔

سوال نمبر 14:

حضرت وقوفِ قلبی کا مطلب میں یہ سمجھا ہوں کہ دل ہر لمحہ اللہ کی طرف متوجہ ہو، چاہے ’’اَللّٰہ اَللّٰہ‘‘ کررہا ہو، شکر کررہا ہو یا دعا کررہا ہو۔ کیا یہ درست ہے؟ اور کیا وقوفِ قلبی کسی دنیاوی سوچ کو سوچتے ہوئے بھی رکھا جاسکتا ہے؟

جواب:

ما شاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ وقوف ٹھہرنے کو کہتے ہیں اور قلبی قلب سے ہے۔ اس کا مطلب ہے دل کسی ایک جگہ پہ ٹھہرا رہے۔ یعنی اس کی طرف دائمی توجہ ہو، اس کو آپ وقوف قلبی کہہ سکتے ہیں۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں کہ جیسے کوئی گاڑی چلا رہا ہو تو اگر مشّاق ڈرائیور ہو تو وہ بے شک لوگوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہا ہو یا ٹیلی فون سن رہا ہو یا بچے ساتھ بیٹھے ہوں تو ان کو مار کر چپ بھی کرا رہا ہو، سب کچھ کررہا ہو، لیکن اس کے دماغ کا کچھ حصہ مسلسل سڑک کے اوپر رہتا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ایک خیال کے علاوہ کوئی دوسرا خیال نہیں آ سکتا، تو یہ کیسے ممکن ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ یہ بات بالکل صحیح ہے، دھیان ایک سے زائد جگہوں پہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس مثال میں ڈرائیور کی توجہ اس طرف ضروری حد موجود ہے، اور باقی حصوں سے وہ اپنا کام چلا رہا ہے۔ اس طرح وقوف قلبی میں یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی مشّاق ہوجائے تو وہ ہر حالت میں اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اصل ذکر بھی اللہ کی طرف متوجہ ہونا اور اللہ کا یاد ہونا ہے۔ باقی جتنے بھی اذکار ہیں وہ سارے کے سارے اس مقصد کے لئے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی output کے بارے میں ایک بات فرما دی کہ اصل ذکر یہ ہے کہ انسان گناہ سے بچ جائے۔ کیونکہ گناہ نافرمانی کو کہتے ہیں اور نافرمانی اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اللہ کے ذکر کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہے؟ گویا جو ہر وقت اللہ کا ذکر کررہا ہو وہ نافرمانی نہیں کرسکے گا۔

اس بات کو ہمارے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے زیادہ آسان انداز میں بیان کیا ہے۔ حضرت نے بیان فرمایا کہ ابتدا میں توجہ ذکر کی طرف ہو، یعنی مجھے معلوم ہو کہ میں فلاں ذکر کررہا ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ میں خیالات میں ادھر ادھر پھر رہا ہوں اور میری زبان سے ذکر کے الفاظ نکل رہے ہوں۔ اس کے بعد توجہ ذاکر یعنی دل کی طرف ہو کہ دل اللہ کو یاد کررہا ہے یا نہیں؟ دل اللہ کی طرف متوجہ ہے یا نہیں؟ یہ متوسط کے لئے ہے۔ منتہی کے لئے یہ ہے کہ قلب اللہ کی طرف متوجہ ہو یعنی یہ گویا دل کی توجہ اللہ کی طرف ہو۔ ہم اس کو آسان طریقے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم دل کی حالت کو دیکھیں کہ اللہ کی طرف ہے، تو اسی سے ان شاء اللہ ہمارا کام ہوجائے گا۔ اس کو آہستہ آہستہ ما شاء اللہ پکا کردیا جاتا ہے۔ اور جب یہ پکا ہوجائے تو اس کے بعد بے شک کچھ بھی حالات ہوجائیں انسان کا دل ما شاء اللہ واقعتًا اللہ کی طرف ہی ہوتا ہے۔ بلکہ میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ آپ ﷺ کی تمام مسنون دعاؤں میں بھی یہ سبق موجود ہے۔ ہر حالت کی مسنون دعا میں اللہ پاک کی طرف دھیان ہوتا ہے، کپڑے پہن رہے ہیں تو بھی اللہ کی طرف، کپڑے اتار رہے ہیں تو بھی اللہ کی طرف، شیشہ دیکھ رہے ہیں تو بھی اللہ کی طرف، بیت الخلاء میں جا رہے ہیں تو بھی اللہ کی طرف، باہر نکل رہے ہیں تو بھی اللہ کی طرف، کھانا کھا رہے ہیں تو بھی اللہ کی طرف، کھانا ختم کررہے ہیں تو بھی اللہ کی طرف، ہر چیز میں اللہ کی طرف دھیان ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی میں چونکہ یہی بات تھی تبھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں آپ ﷺ دائم الذکر تھے۔ دائم الذکر ہونے کا یہی مطلب ہے کہ وقوف قلبی پکا ہوچکا ہو۔ ان شاء اللہ العزیز اگر آپ کو وقوف قلبی حاصل ہوجائے تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ نعمت نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 15:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت! میں job کی تلاش میں عرب امارات آیا ہوں، دعا کی درخواست ہے، خصوصی دعا کیجئے گا۔

جواب:

آپ بھی دعا فرمائیں میں بھی دعا کرتا ہوں۔

سوال نمبر 16:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

I hope and pray you are keeping well dear Sheikh. This is فلاں from UK. I was supposed to write to you last week but due to my travelling I was delayed. Therefore, I now am doing the following ذکر for the past five weeks. Two hundred, four hundred, six hundred and five hundred. I am very ashamed of myself to inform you that I missed nine days of ذکر in total over this time though I have strong reason for most of them. I know very well that this has only harmed me. The main reason for missing so many days was when we were travelling or had guest over, I couldn’t find a room for me to do my ذکر no matter how hard I tried. Also, I was not sure if it was appropriate to let everyone in my extended family know that I need to do my ذکر. However, I heard someone ask the same question last week in مجلس and the answer was too at least say it quietly to oneself. I wish I had known this earlier but ان شاء اللہ now I will never miss a day for the same reason.

I still feel all parts of the ذکر and my eyes tear constantly during it even though my focus is not always full but I do feel it although a bit less now since coming back from our one week of travelling. I did my مسنون اذکار on most days and on the day of holidays there would be travelling to meet family. I completed an average of two thousands ذکر daily of the ثوابی ذکر. I was also able to recite six thousand درود شریف on the Thursday of our trip and at least a thousand on other Thursday. Despite this, perhaps due to missing my علاجی ذکر I consistently felt uneasy so much and have a strong desire to sit somewhere quietly and do the ذکر of Allah and recite Quran. Because of this, I didn’t completely enjoy the travelling we did as a family. I was able to look after my grandmother while she was unwell at our house and gained a lot of duas from her اَلْحَمْدُ للہ. Kindly advise further. I also had two questions I wanted to ask dear Sheikh.

First, what is the definition of تقویٰ? It seems like there are so many meanings explained for it that it becomes hard to define especially for non-muslims. Second, what made ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ the best صحابی and gave him the highest place from amongst all the صحابہ? Kindly always remember me in your duas beloved Sheikh.

جواب:

ما شاء اللہ آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ اللہ جل شانہ آپ کو استقامت نصیب فرمائے۔ اچھا ہوا کہ آپ کو طریقہ معلوم ہوگیا کہ اگر انسان لوگوں کے سامنے ذکر نہ کرسکے تو کم از کم خاموشی کے ساتھ اپنا ذکر جاری رکھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علاجی ذکر الگ ہے اور ثوابی ذکر الگ ہے۔ ثوابی ذکر علاجی ذکر کا substitute نہیں ہوسکتا، البتہ مفید ضرور ہوسکتا ہے۔ مفید ضرور ہے مگر اس کا replacement نہیں ہے کہ ہم لوگ اس کو اس کے ذریعہ سے replace کرسکیں۔ آپ اپنا علاجی ذکر regularly کرلیا کریں، کیونکہ یہ بہت ضروری ہے۔ اور آپ نے جو اپنی محسوسات بتائی ہیں یہ ما شاء اللہ بہت اچھی ہیں، کیونکہ آپ کو خود ہی اس کا احساس ہوگیا کہ یہ کیا چیز ہے۔

ہر وقت کے مسنون اذکار بہت بڑے اجر کا باعث ہیں اور آپ ﷺ کی سنت پہ چلنا بذات خود بہت بڑی دولت ہے، اللہ تعالیٰ اس پر استقامت نصیب فرمائے۔ اور خلقِ خدا کی خدمت بھی بڑے اجر کی بات ہے۔ آپ نے اپنی grandmother کی خدمت کر کے ان کی جو دعائیں لیں، یہ بھی بہت اچھا کیا۔ آپ ما شاء اللہ اس کو جاری رکھیں۔

جو اذکار آپ نے مجھے بتائے ہیں ان کی وضاحت کردیں کہ کون سے لطائف پر آپ کے اذکار چل رہے تھے، کیونکہ مجھے محسوس نہیں ہورہا۔ مجھے آپ بتا دیں گے تو میں آپ کو اس کے بارے میں بتا دوں گا۔ اب میں ان سوالات کا جواب دیتا ہوں جو آپ نے لکھے ہیں:

Q No. 01: What is the definition of تقویٰ?

جواب:

قرآن میں تقویٰ کا ذکر سورۃ شمس میں آیا ہے:

﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 8)

ترجمہ: "پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیز گاری کی ہے۔"

یہاں پر فجور کے مقابلہ میں تقویٰ ہے یعنی اگر انسان اپنے آپ کو فجور سے بچائے گا تو یہ تقویٰ ہوگا۔ کیونکہ یہ دو چیزیں ہیں، ان میں سے ایک ہوگی، یا فجور ہوگا یا تقویٰ ہوگا۔ لہٰذا کوئی ایسی چیز جس کی وجہ سے انسان فجور میں پڑ سکتا ہے اس سے بچنے کا اہتمام کرنا تقویٰ ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ This is the only one definition یہ میں صرف سمجھانے کے لئے کہہ رہا ہوں، کیونکہ definition کی اپنی definition ہوتی ہے۔ میں اس کی طرف نہیں جا رہا۔ میں صرف سمجھانے کے لئے کہہ رہا ہوں کہ اس کا قرآنی concept یہی ہے۔ تقویٰ میں ساری چیزیں آ جاتی ہیں، ان میں فجور سے بچنا تقویٰ کی اصل روح ہے۔ اپنے آپ کو فجور سے بچانا اور اس کے بارے میں اہتمام کرنا تقویٰ ہے۔ اس میں ڈر والا concept بھی آتا ہے کہ انسان ڈرتا ہے کہ میں کہیں گناہ میں مبتلا نہ ہوجاؤں، کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کو ایمان حاصل ہو، اسے ایمان جانے سے ایسے ڈر لگتا ہے جیسے وہ آگ میں گر رہا ہو۔ اگر اس concept کے ساتھ آپ اس کو ملا دیں تو یہی حاصل نکلتا ہے۔

No. 02: What made ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ the best صحابی and gave him the highest rank amongst all the صحابہ?

جواب:

Yes آپ ﷺنے خود ارشاد فرمایا، الفاظ مجھے یاد نہیں ہیں، اس کا concept بتا رہا ہوں کہ ابوبکر آپ لوگوں سے اعمال کی وجہ سے زیادہ نہیں ہیں، ان کے دل میں ایک چیز ہے جس کی وجہ سے وہ آگے ہیں۔

ان کی زوجہ محترمہ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے کیا چیز محسوس کی؟ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم، البتہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گہری سوچ میں ہوتے تھے اور اچانک ان کی زبان سے ایک آہ نکلتی تھی اور اس کے ساتھ ایسی بو محسوس ہوتی جیسے گوشت جل گیا۔ اس کو ہم دل سوزی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا گہرا تعلق تھا۔ میرا ایک کلام ہے:

؎ نبی کی اتباع میں دو جہاں کی کامیابی ہے

اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے جو stanza ہے، میرے خیال میں اگر اس کو آپ سامنے رکھیں تو اس میں بھی وہی بات ہے کہ:

؎ جو عشق و سوز سے پُر ہے وہی اس کی کہانی ہے

یعنی ان کی special بات یہی تھی کہ ان کو عشق و سوز حاصل تھا۔ یہ چیز اتنی آگے بڑھ جاتی ہے تو اس کو آپ حضرت ابو بکر صدیق کی فضیلت کی وجہ کہہ سکتے ہیں۔ و اللہ اعلم بالصواب۔ مجھے جتنا معلوم تھا بتا دیا، اللہ ہی کو بہتر علم ہے۔

سوال نمبر 17:

السلام علیکم حضرت جی! پچھلے ماہ آپ نے میرا ذکر بالجہر بڑھایا تھا جو کہ درج ذیل ہے: دو سو، چار سو، چھ سو اور سو۔ حضرت جی یہ ذکر کرتے ہوئے ایک ماہ ہوگیا ہے۔

جواب:

اب آپ دو سو، چار سو، چھ سو اور تین سو دفعہ کر لیں۔

سوال نمبر 18:

السلام علیکم

One month and ten days of meditation has been completed. Meditation was ten minutes لطیفہ قلب, ten minutes لطیفہ روح and لطیفہ سر fifteen minutes in which ذکر of Allah was to be felt. I do feel for five to six minutes in both لطیفہ قلب and لطیفہ روح, three to five minutes in لطیفہ سر. Some days were skipped.

جواب:

Don’t skip days in these things. It will affect you but you should continue this ان شاء اللہ for one month more.


سوال نمبر 19:

السلام علیکم

My dear and respected ,مرشد I hope you are well ان شاء اللہ. I have completed my ذکر for fifty four days without any ناغہ اَلْحَمْدُ للہ hundred times each ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہْ’’ ‘‘لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ’’ ‘‘حَقْ’’ and اللّٰہْ

حضرت جی دامت برکاتھم Please advise me what to do next.

جواب:

Now two hundred two hundred two hundred and hundred ان شاء اللہ.

سوال نمبر 20:

کیا دفتر کا کام کرتے ہوئے مراقبہ باندھ سکتے ہیں کہ کام میں سستی نہ کریں اور حلال پاک صاف کمائیں۔

جواب:

یہ مراقبہ نہیں ہے، یہ نیت ہے۔ حدیث پاک میں ہے:

’’إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (مسلم: 4927)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

آپ اس میں یہ نیت کریں کہ میں نے حلال طریقہ سے کمانا ہے اور اس کام میں سستی نہیں کرنی۔ نیت میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ نیت کرنے کے بعد جب تک اس کے خلاف نہ ہو تو نیت جاری رہتی ہے، دوبارہ نیت نہیں کرنی پڑتی ہے۔ Until you change it اگر آپ نے change نہیں کی تو یہ نیت جاری رہے گی۔

آپ آتے ہوئے آپ یہ نیت کر لیا کریں میں نے حلال کام کرنا ہے اور اپنی روزی میں سستی نہیں کرنی تو آپ کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

سوال نمبر 21:

کیا کبھی کبھی یہ سوچا جا سکتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے؟

جواب:

ہمیشہ کے لئے یہ سوچیں کہ اللہ آپ کے ساتھ ہے۔ اللہ پاک خود ہی فرماتے ہیں کہ میں حَبْلِ الْوَرِیْدِ“ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔

﴿وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق: 16)

ترجمہ: "اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں"۔

اس سے پتہ چلا کہ اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے۔ البتہ ساتھ ہونا کس معنی میں ہے، اس کے بارے میں ہم یہی امید کریں گے کہ یہ ساتھ مہربانی والا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک کے ساتھ ہم جو امیدیں رکھیں گے اللہ پاک ہمارے ساتھ وہی معاملہ فرمائیں گے۔

سوال نمبر 22:

اگر ہمیں گناہ یاد آ جائیں تو پھر کیسے اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے، ہم تو گناہ گار ہیں۔

جواب:

تو فوراً استغفار کرلیا کریں، یہی چیز ان شاء اللہ آپ کو استغفار پر لائے گی۔

سوال نمبر 23:

السلام علیکم حضرت جی! گھر کا ایک حال بتانا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے میرے والد صاحب نے retirement کی رقم بچت کے ادارہ میں رکھوا چھوڑی ہے جس سے ماہانہ آمدن ہوتی ہے۔ کچھ مفتیان کرام سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ جائز آمدن نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت سود جیسی ہے۔ اس صورتحال میں والد صاحب کو کیسے منع کیا جائے کہ یہ آمدن غلط ہے۔ اس کا باقی گھر والوں کو کیا نقصان ہوسکتا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

جواب:

اللہ اکبر! یہ تو بہت ہی فکر مندی والی بات ہے۔ یہ شریعت کی بات ہے اور شریعت کی بات شیخ سے نہیں پوچھی جاتی، بلکہ مفتی سے پوچھی جاتی ہے۔ آپ کسی بھی اچھے مفتی سے جس پر آپ کے والد صاحب کو بھی اعتماد ہو، باقاعدہ استفتا لکھ کر پوچھیں کہ اس قسم کی صورتحال میں کیا حکم ہے؟ وہ جو جواب دیں گے، آپ وہ اپنے والد صاحب کو دکھا دیں۔ ان شاء اللہ امید ہے کہ ان کو بات سمجھ آجائے گی۔

اس کا یہی حل ہوسکتا ہے، کیونکہ میری بات سے تو آپ کے والد صاحب مطمئن نہیں ہوں گے، کیونکہ میں مفتی نہیں ہوں۔

سوال نمبر 24:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! وعظ کہتے ہوئے وعظ کی کیا نیت کرنی چاہئے اور وعظ کہنے میں اخلاص کا تقاضا کیا ہوتا ہے؟

جواب:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد بتا دیتا ہوں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں جس چیز کی کمی سمجھتا ہوں اسی پہ وعظ کہہ دیتا ہوں تاکہ میری اصلاح ہوجائے۔ میرے خیال میں وقت کے مجدد کا یہ حال ہے تو میں اس سے بہتر میں کون سی بات کرسکتا ہوں۔

سوال نمبر 25:

السلام علیکم

نمبر 1:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقتِ صلوٰۃ پندرہ منٹ۔ اس مراقبہ سے نماز کا شوق بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے نوافل کی توفیق بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ پہلے نوافل پڑھتے ہوئے نفس پر بہت بوجھ محسوس ہوتا تھا اس مراقبہ سے وہ بوجھ بہت ہلکا ہوگیا ہے۔ نوعمری میں جو نمازیں قضا ہوگئیں تھیں، ان کی قضا پڑھنا بھی شروع کیا ہے۔

جواب:

اَلْحَمْدُ للہ! یہ آپ کے لئے بہت مفید ہے، فی الحال اسی کو جاری رکھیں۔

نمبر 2:

اس بچی کی عمر کے بارہ سال ہوگئے ہیں۔ اس کا وظیفہ سو مرتبہ درود شریف ہے۔ اب اس کے لئے وظیفہ بدلیں گے یا نہیں؟

جواب:

بالکل ٹھیک ہے، اب ان کو چالیس دن کے لئے تین سو دفعہ تیسرے کلمے کا پہلا حصہ اور دو سو دفعہ ’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ دے دیں۔

نمبر 3:

لطیفہ قلب دس منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب اس کو لطیفہ قلب کے ساتھ لطیفہ روح بھی دے دیں۔ لطیفہ قلب پہ دس منٹ اور لطیفہ روح پہ پندرہ منٹ۔

نمبر 4:

لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح پندرہ منٹ، محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

اب لطیفہ قلب اور لطیفہ روح دس دس منٹ اور لطیفہ سر پندرہ منٹ دے دیں۔

نمبر 5:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ صفات ثبوتیہ پندرہ منٹ۔ محسوس نہیں ہوتا

جواب:

اس کو آگے جاری رکھیں۔

نمبر 6:

لطیفہ قلب دس منٹ، لطیفہ روح دس منٹ، لطیفہ سر دس منٹ اور لطیفہ خفی پندرہ منٹ۔ محسوس ہوتا ہے۔

جواب:

ما شاء اللہ! اب ان کو مراقبہ احدیت بتا دیجئے گا۔

نمبر 7:

تمام لطائف پر دس دس منٹ ذکر اور مراقبہ تجلیات افعالیہ پندرہ منٹ۔ اس بات پر یقین پختہ ہوگیا ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں۔ یہ خاتون کہتی ہیں کہ میرے اوپر گھر کی بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ اگر اس وظیفے کا وقت تھوڑا کم کردیا جائے تو میرے لئے آسانی ہوجائے گی۔

جواب:

اگر میں پوچھوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو یہ نعمت عطا فرمائی ہے کہ آپ کا عقیدہ پختہ ہوگیا ہے، اس کا زیادہ فائدہ ہے یا دوسرے کاموں سے زیادہ فائدہ ہوگا؟ تو ان کا کیا جواب ہوگا؟ میں کم تو کردوں گا لیکن پھر یہ چیزیں نہیں رہیں گی۔ اس وجہ سے آپ ان کو بتا دیں کہ ہمت کریں اور اس کے لئے وقت نکالا کریں۔

نمبر 8:

تمام لطائف پر پانچ منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت صلوٰۃ پندرہ منٹ۔ نماز کی اہمیت دل میں بڑھ گئی ہے۔ اور کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

جواب:

اس کو ابھی جاری رکھیں۔

سوال نمبر 26:

عبادت کی ابتدا کرتے وقت میں بہت مشقت محسوس کرتی ہوں، لیکن جب نفس پر جبر کر کے شروع کر لیتی ہوں تو عبادت کرنا اچھا لگتا ہے۔ نماز کی اہمیت دل میں بڑھ گئی ہے، توجہ اور شوق بڑھ گیا ہے اور نوافل کی توفیق بھی بڑھ گئی۔

جواب:

ما شاء اللہ! اس سے دونوں فائدے ہوں گے، ایک عبادت کا فائدہ ہوگا اور دوسرا نفس کی اصلاح ہوگی۔ سلوک میں یہ چیز کام آتی ہے۔

سوال نمبر 27:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ (بخاری: 7405)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے۔‘‘


اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس طرح گمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ویسے ہی معاملہ کرتے ہیں، جب کہ دوسری ایسی حدیث شریف میں آتا ہے کہ:

’’وَالعَاجِزْ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهٗ هَوَاهَا وَتَمَنّٰى عَلَى اللّٰهِ‘‘ (ترمذی: 2459)

ترجمہ: ’’اور بے وقوف وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لگائے اور اللہ پر امیدیں باندھے‘‘۔

یعنی خود تو نفس کی خواہشات پر چلے اور اللہ سے اچھی امیدیں لگائے رکھے۔ اس کے علاوہ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ انسان کو جتنا جتنا اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب ہوتا ہے اتنا اتنا اپنے عیوب پر نظر ہونے لگتی ہے اور اپنے تمام اعمال ناقص نظر آنے لگتے ہیں بلکہ ناقص ہونے کی وجہ سے اپنے نیک اعمال پر بھی عند اللہ مردود ہونے کا ڈر لگا رہتا ہے۔ اب جس شخص کی نظر اپنے عیوب پر ہو تو وہ ’’وَالعَاجِزْ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهٗ هَوَاهَا وَتَمَنّٰى عَلَى اللّٰهِ‘‘ کی روشنی میں اللہ پر نیک گمان کو ”تَمَنّٰى عَلَى اللّٰهِ‘‘ سمجھے گا اس صورت میں انسان اللہ تعالیٰ سے کس طرح گمان رکھے؟ براہ مہربانی دونوں احادیث میں تطبیق دے دیں کہ اللہ تعالیٰ پر اچھا گمان بھی رہے اور ”تَمَنّٰى عَلَى اللّٰهِ‘‘ کی صورت بھی نہ رہے کیونکہ انسان کی تمام کوتاہیاں نفس کی خواہش ہی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

جواب:

سبحان اللہ! یہ تو آپ نے مجھے پورے ایک lecture کا مواد دے دیا ہے۔ lecture تو اس وقت میں نہیں دے سکتا کیوں ہمارا ٹائم پورا ہونے والا ہے، البتہ مختصر سی بات عرض کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ بعد میں کسی وقت اس پہ تفصیل سے بات ہوسکے گی۔ سب سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ پاک سے امید رکھنا کس کو کہتے ہیں؟ مثلًا:

﴿وَالَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)

ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی، ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچا دیں گے‘‘۔

اس آیت کو اپنے سامنے رکھیں کہ جو انسان نیکی کی کوشش کرتا ہے اور اللہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستے نکالتا ہے۔ یہ بالکل پکی بات ہے۔ اس لئے اگر کوئی شخص کوئی اچھا کام کرتا ہے تو یہ وسوسہ قریب نہ لائے کہ میں کامیاب نہیں ہوں گا، بلکہ اللہ سے اچھی امید رکھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گناہ کرتے ہوئے یہ امید رکھے کہ اللہ مجھے معاف کردے گا۔ گناہ ہوجانے کے بعد تو امید رکھ سکتا ہے لیکن اس امید پر گناہ کرنا کہ اللہ پاک مجھے معاف کردیں گے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ”مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهٗ هَوَاهَا“ کا مطلب یہ ہے کہ اس نے نفس کو گناہ سے روکا ہی نہیں اور نہ روکنا چاہتا ہے۔ لیکن ایک شخص پوری کوشش کررہا ہے کہ میرا نفس ٹھیک ہوجائے اور اس کے لئے جو اسباب ہیں وہ بھی اختیار کررہا ہے تو اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھے۔ اور اللہ تعالیٰ واقعی مدد بھی فرماتے ہیں اور اگر یہ بات نہ بھی حاصل ہو پھر بھی اللہ پاک ایسا کرلیتے ہیں جیسے حاصل ہوچکی ہے۔ لیکن اگر ایک انسان کوشش ہی نہ کرے اور اپنے نفس کے وسوسے اور اس کی بات پر چلے اور اس کے بعد کہے کہ اللہ غفور ورحیم ہے، اس چیز سے روکا گیا ہے۔ یہ مختصر بات ہے، اس پر ان شاء اللہ اگر اللہ پاک نے توفیق دی تو کسی وقت تفصیلی بات عرض کروں گا۔ فی الحال میرے خیال میں اتنا کافی ہے۔

سوال نمبر 28:

اگر دفتر میں کام کے دوران فارغ بیٹھ کے یہ سوچیں کہ ہم اللہ کی عبادت کررہے ہیں، اور حلال رزق کما رہے ہیں تو کیا یہ مراقبہ ہوگا؟

جواب:

میں نے معاملہ بہت آسان کردیا تھا، اگر آپ اس کو مشکل کرنا چاہتے ہیں تو میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے عرض کیا کہ صبح آتے وقت یہ نیت کرلیں۔ جب تک آپ کی اس نیت کے خلاف کوئی نیت نہیں ہوگی تب تک پہلی نیت بدستور جاری رہے گی۔ کیونکہ نیت کا معاملہ ایمان کی طرح ہے۔ ایمان تب تک حاصل رہتا ہے جب تک ایمان کے نہ ہونے کا کوئی واقعہ نہیں ہوتا۔ اور کفر اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک ایمان نہیں آتا۔ بالکل اس طرح نیت بھی وہی جاری رہتی ہے جو آپ نے کی ہے۔ Unless and until آپ اس کو change کرلیں۔ آپ آتے ہوئے یہ نیت کرلیں اور پھر اس کے بعد سارا کام کریں۔ مراقبات اس سے الگ ہیں۔

سوال نمبر 29:

یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، کیا یہ متشابھات میں سے ہے؟

جواب:

حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے بارے میں ہم لوگ واضح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ ہمارے ساتھ کیسے ہیں؟ لیکن اللہ ہمارے ساتھ ہیں، کیونکہ اللہ پاک خود فرماتے ہیں کہ میں تمھارے ساتھ ہوں تو اس سے انسان کو کچھ انس یا محبت محسوس ہوتا ہے۔ یقیناً یہ اچھی بات ہے اور ما شاء اللہ اسی سے فائدہ ہوتا ہے۔ جیسے اس سے فائدہ ہوتا ہے کہ:

’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ (بخاری: 7405)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں‘‘۔

اسی طرح اس سے بھی فائدہ ہوتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہیں۔ اس کا مراقبہ کرایا جاتا ہے جس کو مراقبہ معیت کہتے ہیں۔ لیکن حضرت نے فرمایا کہ یہ متشابھات میں سے ہے، اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہئے، صرف اس کے اجمال کو اپنے ذہن میں رکھیں۔

سوال نمبر 30:

حضرت! آپ نے ہفتے کے روز فرمایا تھا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسم ذات کا ذکر دو ہزار سے چوبیس ہزار تک بتلایا تو یہ شیخ کی اجازت سے کرنا چاہئے؟

جواب:

جی بالکل اجازت سے کرنا چاہیے، اس کی وجہ یہ ہے یہ ایک طرح کی exercise ہے۔ اگر exercise کا کوئی master ہو جس سے انسان سیکھ رہا ہو تو وہ صحیح معنوں میں exercise کرلیتا ہے۔ اور جو دوسروں کو دیکھ دیکھ کر exercise شروع کرتا ہے تو اکثر کچھ ایسی غلطی کرلیتا ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑ جاتا ہے۔ مثلًا کوئی muscle pull ہوجاتا ہے یا کوئی اور ایسی غلطی ہوجاتی ہے کیونکہ اس کو پتا نہیں ہوتا کہ میرے ساتھ کیا ہوسکتا ہے۔ اس وجہ سے یہ ذکر بھی پوچھ پوچھ کے کرنا ہوتا ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ


  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔

سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات - مجلسِ سوال و جواب