اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں صفحہ نمبر 198 پر عرب معاشرے کا اپنے آبائی دین و رسوم کی پابندی کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں: ہر نئی تحریک کو غور سے دیکھو تو معلوم ہو گا کہ اس کے قبول کرنے میں جو چیز سب سے پہلے حائل ہوتی ہے وہ قومی رسم و رواج اور آبائی دین و مذہب کی پابندی ہے۔ انسانیت کے پاؤں ميں اس سے بھاری کوئی زنجیر نہيں ہے۔ دوست و آشنا کا چھوٹنا، ماں باپ سے علیحدگی، آل و اولاد سے کنارہ کشی، قوم سے انقطاع اور وطن سے دوری ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کو ہر انسان آسانی سے برداشت کر سکتا ہے۔ ملکی رسم و رواج کی دیرینہ محبت اور آبائی کشش، حق و باطل کی تمیز اور نیک و بد کی پہچان کی حس مٹا دیتی ہے۔ عام دنیا کی فطری حالت کے علاوہ عرب کی قوم قدامت پسندی اور قدیم حالت پر بقا اور استحکام میں خاص شہرت رکھتی ہے۔
یہاں حضرت نے ملکی و خاندانی رسم و رواج کو کسی بھی نئی تحریک کی قبولیت میں سب سے بڑی رکاوٹ شمار کیا ہے۔ عرب معاشرے کا اپنے رسم و رواج کا انتہائی پابند ہونے کے با وجود آپ ﷺ نے اُسی معاشرے کے لوگوں کی تربیت فرما کر اُنہی کو دین و دنیا کا تاجدار بننے کا اہل بنا دیا۔ سوال یہ ہے کہ آج کل بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ اپنے آباء و اجداد کی رسوم کے انتہائی پابند ہوتے ہيں۔ ایسے لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے کا کیا طریقہ ہے اور کیا ہر ایک کے لئے ایک ہی طریقہ اختیار کرنا ہو گا یا یہ طریقے مختلف بھی ہو سکتے ہیں؟
جواب:
لوگوں کی موجودہ حالت اور مستقبل کی حالت ان کے ماضی کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ماضی ایسا تھا۔ چنانچہ ماضی کی وجہ سے ہم اپنے حال کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ تو ماضی کو مستقبل سے توڑو۔ یعنی مستقبل کا ایسا حال طاری کرا دو کہ وہ مستقبل کی فکر کرنے لگیں تو وہ ماضی کو بھولنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ قرآن پاک میں جو باتیں آئی ہیں اور آپ ﷺ نے جو ارشادات فرمائے ہیں وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک تو ماضی میں ان کو ان قوموں کا حال بتایا گیا ہے جو اپنی بری خصلتوں کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہیں اور دوسرا مستقبل میں ان کو ڈرا دیا گیا ہے کہ اگر تم ایمان نہیں لائے تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔ یہ دو باتیں ایسی ہیں جو اپنے حال کو سنبھالنے کے لئے کافی ہیں۔ اب آپ ان کو کتنے موثر طریقے سے انجام دیتے ہیں، یہ Man to man, person to person, place to place vary کرتا ہے کہ انسان اس کو اس طریقے سے کرے کہ لوگوں کو اپنے مستقبل کی فکر ہو جائے۔ مستقبل دو قسم کا ہے۔ ایک مستقبل دنیا کا ہے، دوسرا مستقبل دین کا ہے۔ دنیا کے مستقبل کا اتنا زبردست effect ہوتا ہے کہ وہ مائیں جو اپنے بچوں کے ساتھ بہت محبت کرتی ہیں اور ان کو ذرہ بھر بھی تکلیف نہیں پہنچاتیں، وہ ان کو صبح صبح اسکول بھیجنے کے لئے اٹھاتی ہیں، چاہے وہ رو رہے ہوں کہ ہم نے اسکول نہیں جانا۔ لیکن وہ ترغیب و ترہیب والا طریقہ استعمال کرتی ہیں اور خود ان کو اسکول لے جاتی ہیں پھر خود لے آتی ہیں یا کسی ذمہ دار کے حوالے کرتی ہیں اور اپنے جگر گوشے کو وہ کچھ وقت کے لئے اپنے سے ایسی عمر میں جدا کر لیتی ہیں کہ جس عمر میں وہ اس کے اوپر dependent ہوتا ہے۔ یہ مستقبل کی ہی بات ہے لیکن ہے دنیا کا مستقبل۔ اس دنیا کے مستقبل سے اس کو آخرت کے مستقبل کی طرف لایا جائے۔ قرآن نے یہی تو کہا ہے۔ قرآن پاک میں جا بجا قیامت کی منظر کشیاں ہیں۔ جیسے فرمایا: ﴿اَلْحَاقَّۃُ مَا الْحَاقَّۃ﴾ (الحاقۃ: 1، 2) اور وہ بھی اسی طرح کی جو چند آیات مبارکہ گزری ہیں کہ یہ حقیقت ظاہر اور واقع ہو کے رہے گی۔
اس موثر انداز میں بتایا گیا کہ لوگ جاگ جائیں اور سننا شروع کر دیں کہ کون سی حقیقت؟ پھر ان کو بتا دیا جائے کہ حقیقت تو یہ ہے۔ ساتھ ہی اس کو ماضی کے ساتھ ملا دیا کہ فلاں قوموں نے اس حقیقت کو جھٹلایا تھا، ان کے ساتھ پھر کیا ہوا؟ یہ Case study ان کو دکھائی اور قیامت میں با قاعدہ ایسا ہو گا کہ باپ، بیٹے سے بھاگے گا۔ بیٹا، باپ سے بھاگے گا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهٖ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيهِ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُّغْنِيهِ وُجُوهٌ يَّوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ وَوُجُوهٌ يَّوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ﴾ (عبس: 33 تا 36)
ترجمہ: ”یہ اس دن ہو گا جب انسان اپنے بھائی سے بھی بھاگے گا۔ اور اپنے ماں باپ سے بھی۔ اور اپنے بیوی بچوں سے بھی۔ (کیونکہ) ان میں سے ہر ایک کو اس دن اپنی ایسی فکر پڑی ہو گی کہ اسے دوسروں کا ہوش نہیں ہو گا۔ اس دن کتنے چہرے تو چمکتے دمکتے ہوں گے۔ ہنستے، خوشی مناتے ہوئے۔ اور کتنے چہرے اس دن ایسے ہوں گے کہ ان پر خاک پڑی ہو گی۔“
ایسی منظر کشی ہے کہ ہر ایک آدمی اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔ عتبہ جب آپ ﷺ کے پاس گیا تھا تو آپ ﷺ نے جب اس کو سورت سنائی تو وہ اتنا ڈر گیا کہ آپ ﷺ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ بس کرو، میں اس کو اور نہیں سن سکتا۔ یعنی قرآن پاک میں بڑے مؤثر انداز میں بتایا گیا ہے۔ ہمیں بھی قرآن پاک اسی مؤثر انداز میں سمجھانا چاہیے۔ چنانچہ مختلف جگہوں پہ درس قرآن ہوتے ہیں جن میں بعض بڑے مؤثر درس قرآن ہوتے ہیں، جو کایا پلٹ دیتے ہیں۔ جیسے مفتی زرولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ درسِ قرآن ہی دیا کرتے تھے۔ ان کا درسِ قرآن پوری دنیا میں سنا جاتا تھا اور ما شاء اللہ اس کا بڑا اثر تھا۔ چنانچہ لوگوں کو قرآن کے ذریعہ سے متاثر کرانا، احادیث شریفہ کے ذریعے سے متاثر کرانا، صحابہ کرام کے واقعات کے ذریعے متاثر کرانا، اچھے اچھے لوگوں کے واقعات بتا کر متاثر کرانا، یہ حسبِ حال ہونا چاہیے۔ یعنی بچوں کے level کا بھی ہونا چاہیے اور بڑوں کے level کا بھی ہونا چاہیے۔ ہر ایک کو ان کے level کے مطابق dose ملنی چاہیے۔ اس طریقے سے ان شاء اللہ العزیز تبدیلی آ سکتی ہے۔ تبدیلی کا لفظ تو ویسے بد نام کر دیا گیا ہے لیکن اگر اس کو صحیح معنوں میں لایا جائے تو حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن