پاکستان کے قومی اسمبلی کا قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ

سوال نمبر 513

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آج یعنی 7 ستمبر کے دن پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ عقیدہ ختم نبوت اور اس ضمن میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اس فیصلے کی شرعی اور قانونی اہمیت کی وضاحت فرمائیں۔

جواب:

در اصل کفر چالیں چلتا ہے، جیسے طالبان کے ساتھ چالیں چلی گئیں۔ اسی طریقے سے جب پاکستان بن گیا تو پاکستان کو سب سے بڑا نقصان بھی قادیانیوں سے ہوا یعنی قادیانیوں نے گورداسپور ضلع کے الحاق کے حوالے سے ہندوستان کا ساتھ دیا تھا۔ اگر وہ نہ ہوتا تو کشمیر کے لئے ان کا کوئی راستہ نہیں تھا، کشمیر ہمارا ہی ہوتا۔ اس کے بعد ہم پر قادیانی وزیر خارجہ راجہ ظفر اللہ کو مسلط کر دیا گیا۔ وہ ہماری جڑوں میں بیٹھ گیا اور ہماری خارجہ پالیسی ایسی بناتا گیا کہ اس میں اپنے لئے راستے بناتا گیا اور با وجود اس کے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ تھا قائد اعظم نے اس کو بنایا تھا تو قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا۔ کسی نے اس سے کہا کہ آپ کیوں جنازہ نہیں پڑھ رہے؟ اس نے کہا: مجھے مسلمان ملک کے کافر وزیر خارجہ قرار دیں یا کافر ملک کے مسلمان وزیر خارجہ قرار دیں۔ عبدالسلام قادیانی نے ہمارے ایٹمی راز ہر جگہ پہنچا دئے، ہر موقع پر انہوں نے پاکستان کو ڈسا ہے۔ لیکن ان کی سپورٹ میں بیرونی ممالک بالخصوص America اور U.K کھڑے رہتے ہیں چونکہ انہوں نے ان کو بنایا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد جہاد کے نظریے کے اوپر چوٹ لگانا ہے کیونکہ غلام احمد قادیانی نے کہا تھا کہ جہاد ختم ہو گیا اب صرف ترغیب ہے اور اپنے آپ کو اس مقصد کے لئے عیسی علیہ السلام قرار دیا۔ چونکہ عیسی علیہ السلام آئیں گے تو وہ جہاد کو ختم کرنے کا اعلان فرمائیں گے اور اس وقت سارے عیسائی مسلمان ہو چکے ہوں گے۔ یہ فتنہ اپنے اندر establishment اور تمام چیزوں میں بڑا اثر و رسوخ رکھتے تھے اور government کے قوانین اپنے حق میں استعمال کرتے تھے جس پر جو صحیح مسلمان تھے انہوں نے احتجاج کیا۔ حکومت نے احتجاج والوں پہ گولیاں چلوائیں، بہت زیادہ مسلمانوں کو نقصان ہوا۔ چنانچہ پھر قادیانیوں کے خلاف تحریک شروع ہو گئی اور مسلمانوں نے اپنے لئے کچھ نظام بنا لیا۔ حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ اس تحریک کے سر پرست ہو گئے، اس سے پہلے سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ اصل میں اس تحریک کو انہوں نے اٹھایا تھا لیکن بعد میں مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ ہو گئے۔ پھر جس وقت معاملہ بہت خطرناک حد تک پہنچ گیا اور بھٹو کے وقت میں حکومت اور عوام بالکل آپس میں ٹکرا گئے تو مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھٹو کو مشورہ دیا کہ تم اس مسءلے کو پارلیمنٹ میں لے جاؤ۔ اس کے علاوہ غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ نے جو چٹان کے مدیر تھے، بھٹو کی پہلے سے ذہن سازی کی ہوئی تھی اور ان کے ساتھ رابطے بنا لئے تھے۔ بہر حال معاملہ پارلیمنٹ میں چلا گیا۔ پارلیمنٹ میں مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت میں اندر گیا اور دیکھا کہ مرزا ناصر احمد شرعی داڑھی، پگڑی، تسبیح، درود شریف پڑھتے ہوئے ہمارے سامنے آیا تو میں ڈر گیا کہ اس ظالم کو کون غلط ثابت کرے گا؟ یعنی اس نے تو مکمل شعبدہ بازی کی ہوئی ہے۔ اس کے بعد مجبوراً مجھے کچھ طریقہ کار استعمال کرنا پڑا۔ ان کے خلاف جتنی بھی کتابیں تھیں وہ میرے ساتھ موجود تھیں۔ جس میں ان کے خلاف ثبوت موجود تھے۔ خود پارلیمنٹ کے ممبران بھی حیران تھے کہ ہم ان کو کیسے کافر کہیں؟ چنانچہ میں نے ان کے سامنے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہا کہ مرزا صاحب! آپ کا ہمارے بارے میں کیا خیال ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا کافر ہیں؟ کیونکہ ان کی کتابوں میں غلام احمد قادیانی کی طرف سے کھلا لکھا ہوا ہے کہ جو مجھے پیغمبر نہیں مانتا، اس کو میری اطلاع پہنچی ہے یا نہیں پہنچی وہ کافر، خنزیر اور کتے کی اولاد ہے اور کنجریوں کی اولاد اور پتا نہیں کتنی بڑی گالیاں دیں ہیں۔ تو اس کو پتا تھا کہ اگر میں کہتا ہوں کہ مسلمان ہیں تو یہ کتاب نکال کے دکھا دے گا کہ تم ٹھیک کہتے ہو یا تمہارا پیغمبر؟ اس نے کہا: کافر کہتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبران کے کانوں سے ہوا نکل گئی کہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟ ابھی ہم نے ان کو کافر نہیں کہا یہ ہمیں پہلے سے ہی کافر سمجھتے ہیں۔ تو فوراً سنبھل گیا اور کہتا ہے: لیکن کفر کی دو قسمیں ہیں، ایک مطلق ہے اور ایک معلق ہے۔ یہ اصل میں اس طرح کی باریکات میں جاتے ہیں۔ مفتی صاحب نے کہا کہ ہم مطلق میں ہیں یا معلق میں ہیں؟ پھر تو وہ پھنس گیا۔ بہر حال پارلیمنٹ والوں کا ذہن تو پہلے سے بن گیا تھا، اب صرف چیزوں کو ثابت کرنا تھا۔ بس ان کے اوپر جرح شروع ہو گئی اور سب نے متفقہ طور پر کہا کہ یہ کافر ہیں۔ اس کے بعد بھٹو کے قریبی حضرات جیسے حفیظ پیرزادہ اور کوثر نیازی وغیرہ۔ حفیظ پیر زادہ وکیل تھے، چالاک تھے۔ کہا کہ مفتی صاحب بھٹو نے کہا کہ میں اگر دستخط کر لوں تو یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔ یعنی کافی ساری ڈرانے کی باتیں کی۔ فرمایا: نہ کرو میں باہر جاتا ہوں اور کہہ دیتا ہوں کہ کوئی دستخط نہیں کرتا حالانکہ پارلیمنٹ نے کہہ دیا ہے۔ اس کے بعد عبدالحفیظ پیرزادہ نے یہ بات کہی کہ مفتی صاحب اس خبیث نا پاک آدمی کا نام آئین میں کیوں لانا چاہتے ہیں؟ پاک آئین کو اس سے کیوں نا پاک کرنا چاہتے ہیں؟ یعنی چاہتے تھے کہ کسی طریقے سے نام نہ آئے تو پھر ہم تاویل کر لیں گے۔ مفتی صاحب بھی مفتی صاحب تھے، انہوں نے کہا: قرآن پاک سے تیرا آئین مقدس نہیں ہے اور شیطان سے زیادہ نا پاک غلام احمد نہیں ہے۔ شیطان کا نام اگر قرآن میں آیا ہے اور اس سے وہ نا پاک نہیں ہوتا تو غلام احمد کا نام آنے سے آئین نا پاک نہیں ہو گا۔ بس ان کی دلیل ختم ہو گئی، پھر الحمد للہ قانون منظور ہو گیا۔ شریعت میں پہلے سے تھا، پھر پارلمنٹ میں بھی قانون پاس ہو گیا کہ غلام احمد قادیانی نے چونکہ نبوت کا دعوی کیا ہے اور اپنے آپ کو پیغمبر کہتا ہے تو جو لوگ اس کو پیغمبر مانتے ہیں وہ کافر ہیں اور کافر مسلمانوں کے طریقوں کو استعمال نہیں کر سکتے، مسلمانوں کے طریقے پہ عبادت نہیں کر سکتے، اپنے عبادت خانے کو مسجد نہیں کہہ سکتے، اذان نہیں دے سکتے۔ یعنی اسلام کے جو شعائر ہیں وہ استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ آئین میں بھی آ گیا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اقلیت بھی نہیں مانتے اور کہتے ہیں اقلیتوں کے حقوق دے دو۔ یعنی یہ الٹی بات ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پہلے اپنے آپ کو اقلیت مانو کہ ہم کافر ہیں، مسلمان نہیں ہیں۔ پھر تم اقلیتوں کے حقوق لے لو جیسے ہندوؤں کے ہیں، سکھوں کے ہیں، پارسیوں کے ہیں، وہی تمہارے بھی ہوں گے۔ لیکن وہ مسلمانوں کی چیزیں بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اقلیتوں کے حقوق بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ڈبل پالیسی ہے جو وہ اختیار کرتے ہیں۔ موجودہ ختم نبوت کی تحریک یہی ہے، ان کا اور کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ پہلے سے ان کو کافر قرار دیا ہوا ہے لیکن آئین پر مکمل عمل کیا جائے گا۔ ختم نبوت والے آئین کی حمایت میں بول رہے ہیں اور یہ آئین کے خلاف بول رہے ہیں۔ کس کا ساتھ دینا چاہیے، آئین کی حمایت والوں کا ساتھ دینا چاہیے یا آئین کی مخالفت کرنے والوں کا ساتھ دینا چاہیے؟ چنانچہ ہمارا طریقہ کار بالکل واضح ہے، اس میں کوئی اختلافی بات نہیں ہے۔ جو آئین میں ہے اس کو نافذ کر دو، اس میں دراڑ نہ ڈالو، جو کچھ لکھا ہے وہی سمجھو اور جو اس کی مخالفت کر رہا ہے اس کو سزا دو۔ یہ بالکل صحیح مطالبہ ہے، ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر استقامت نصیب فرمائے۔

سوال:

دیگر ممالک میں بھی یہ غیر مسلم قرار دیئے گئے؟

جواب:

جنوبی افریقہ میں بھی ان پر کیس چلا تھا وہاں پر کافر قرار دیئے گئے۔ سعودیہ عرب میں بھی ان کو کافر مانتے ہیں۔ پہلے سے چونکہ مسئلہ ہمارے یہاں تھا، البتہ وہاں بتانا ضروری تھا۔ اس لئے انہوں نے بتا دیا کیونکہ حج کے لئے وہ قادیانیوں کو اجازت نہیں دیتے، ان کو کافر سمجھتے ہیں لہٰذا حج پہ ان کو آنے نہیں دیتے۔ وہ پہلے سے ان کے مخالف ہی نہیں تھے بلکہ یہ پاکستان میں مسئلہ تھا یہاں کے لئے movement چلی۔ کیونکہ وہاں ان کے ساتھ کوئی interaction نہیں ہے۔ مثلاً عراق میں یا ایران میں یا دوسرے ملکوں میں چونکہ قادیانی نہیں ہیں لہذا ان کے آئین خاموش ہیں۔ جبکہ سعودی عرب میں کیونکہ حج ہے اور حج پہ آ سکتے تھے، اس لئے انہوں نے با قاعدہ قانون بنایا کہ حج کے لئے نہیں آ سکتے۔ تو اب کھل کر نہیں جا سکتے، چھپ کے آ جائیں یا تو پھر منافق بھی ہوتے ہیں۔ ممکن ہے مکہ مکرمہ میں منافقین موجود ہوں، مدینہ منورہ میں بھی موجود ہوں۔ منافق تو ہر وقت ہوتے ہیں۔ آپ ﷺ کے وقت میں بھی منافق تھے۔

سوال:

ایک قادیانی مسلمان ہوا تھا، اس کا بیان یہ تھا کہ میں سعودیہ عرب میں ان کو سہولت فراہم کرتا تھا حج کرانے کے لئے۔ یہ حج کے لئے پاسپورٹ میں لکھتے تھے کہ ہم قادیانیوں پہ لعنت بھیجتے ہیں۔

جواب:

بالکل منافق منافق ہوتا ہے۔ یہ تقیہ کی بے انتہا Superlative degrees پہ عمل کرتے ہیں۔ ان کا یہ معاملہ بالکل مختلف ہے یہ منافق کے طور پہ تو جا سکتے ہیں لیکن کھلے بندوں نہیں جا سکتے۔

دعا

اے اللہ اس فتنے کو ہمیشہ کے لئے ختم فرما دے۔ اس فتنے کو فروغ دینے والوں کو بھی ختم فرما دے۔ یا اِلٰہ العالمین جس طرح تو نے طالبان کی مدد فرمائی ہے اس طرح ہماری بھی اس میں مدد فرما دے اور یا اِلٰہ العالمین ہم سب کو اس مسئلہ میں سرخرو فرما دے اور یا الہ العالمین اگر گورنمنٹ کے کچھ ادارے اس میں رکاوٹ ڈال رہے ہوں تو ان کو ہدایت عطا فرما دے اور یا الہ العلمین تو اپنے فضل و کرم سے سب کو صحیح مسلمان ہونے کا ثبوت دینے کی توفیق عطا فرما دے۔ آمین۔