اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم، صفحہ 197 پر فرماتے ہيں: جن اشخاص اور جن قبائل نے اسلام کو لبیک کہا ان کے حالات پیش نظر کر لینے کے بعد صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اپنے لئے صرف اثر پذیر دل اور ذوق آشنا نگاہوں کا جویاں تھا۔ قریش کے مشرکین و کفار خدا کا کلام تیرہ برس تک متصل سُنتے رہے لیکن ان کے دل کی سنگینی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ورقہ مکہ کا قریشی عیسائی صرف ایک بار قرآن سُنتا ہے اور ناموس اکبری کی آواز پہچان لیتا ہے۔ مکہ کے مشرک ترپن برس تک آپ ﷺ کا چہرہ پُر نور دیکتھے رہے لیکن نورِ الہی کو نہ پہچان سکے اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ یہودی عالم نے صرف ایک دفعہ جمال پُر انوار کو دیکھا اور پُکار اُٹھے کہ یہ حق کی تجلی ہے۔ جیسے حضرت نے فرمایا کہ آپ ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے کے لئے اثر پذیر دل کی ضرورت تھی۔ اسی طرح اس دور میں بھی دین اسلام کی دعوت کو وہی لوگ قبول کریں گے جن کے دل حق کے متلاشی ہوں۔ اس بات کو عملی طور پر سمجھنے کے لئے دین کی طرف دعوت دینے والے مسلمانوں کو کس قسم کی بصیرت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی محنت حق کی طرف مائل لوگوں پر کریں اور اس بصیرت کو حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:
سوال کا کچھ حصہ ٹھیک ہے اور کچھ حصے میں کمزوری ہے۔ کیا ہم اس سے یہ مطلب لے سکتے ہیں کہ جن سے طلب نہ ہو ان پہ محنت نہ کریں؟ کیا آپ ﷺ نے ان کو چھوڑا تھا؟ ابو جہل کو بھی آخر تک دعوت دیتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے یہ دعا بھی کی تھی کہ اگر یہ ایمان نہیں لائے تو ان کے بعد والے ایمان لائیں گے لیکن اخیر تک ان کو دعوت دیتے رہے۔ چنانچہ یہ بات درست نہیں ہے کہ فلاں کو دعوت دینی ہے فلاں کو دعوت نہیں دینی۔ البتہ جن میں طلب ہو گی وہ لے لیں گے اور جن میں طلب نہیں ہو گی ان کی اپنی قسمت ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: "وَ مَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلَاغ" کہ ہمارے اوپر صرف پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی بار بار نبی ﷺ سے فرماتے تھے کہ تیرے اوپر تو پہنچانا ہے۔ ہدایت تیرے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ میرے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ اپنے چچا ابو طالب کو آپ ﷺ اخیر وقت تک دعوت دیتے رہے۔ یہاں تک فرمایا کہ آپ میرے کان میں چپکے سے کلمہ کہہ دیں، میں آخرت میں آپ کی سفارش کر لوں گا۔ تو دعوت دینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم دعوت دینے سے رک جائیں۔ البتہ اگر وہ نہ مانے تو ہمیں پریشانی نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ہم دعوت دینا چھوڑ دیں بلکہ ہمارا کام آخر دم تک پہنچانا ہے۔ جتنا ہم سے ہو سکتا ہے ہم اپنا پیغام پہنچاتے رہیں گے۔ البتہ جس جس کے مقدر میں ہو گا، طالب ہو گا، جس کو سمجھ آتی ہو گی وہ لے لے گا اور جس کو نہیں آتی ہو گی وہ نہیں سمجھے گا۔ مثال کے طور پر سورج نے اپنی روشنی بند نہیں کی بلکہ اس کی روشنی مسلسل آ رہی ہیں، exposed ہے۔ لیکن لوہے پر بھی پڑتا ہے، لکڑی پر بھی پڑتا ہے، پانی پر بھی پڑتا ہے، زمین پر بھی پڑتا ہے۔ ہر ایک اپنے اپنے لحاظ سے گرم ہو رہا ہے۔ کیا سورج یہ کہہ سکتا ہے کہ جو گرم نہیں ہو رہا تو میں اس پہ اپنی گرمی کیوں ضائع کروں؟ اسی طریقے سے ہماری دعوت مسلسل جاری رہے گی۔ البتہ اگر کوئی قبول نہیں کرتا تو ہم کہیں گے ہمارا کام تو صرف پہنچانا ہے، ہم نے پہنچا دیا اور ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس طریقے سے ہمارا دل بھی رہے گا اور محنت بھی جاری رہے گی اور ان کے لئے بھی chance رہے گا کہ شاید کسی وقت وہ ایمان لے آئیں۔ جیسے ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابتدا میں نہیں مانتے تھے اور اخیر میں انہوں نے بھی قبول کر لیا۔ اگر ان پہ محنت چھوڑ دی جاتی تو پھر کیا ہوتا؟ اسی طرح ان کی بیوی ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ ﷺ کی بہت سخت دشمن تھی۔ کچھ ہی دن پہلے وہ کہتی تھی کہ نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذَالِک آپ ﷺ کے خیمے سے زیادہ برا خیمہ مجھے کوئی نظر نہیں آ رہا لیکن جب ہدایت اللہ تعالیٰ نے دے دی تو پھر کہا کہ آپ ﷺ کے خیمے سے اچھا خیمہ مجھے کوئی نظر نہیں آ رہا۔ تو ہم اول تو یہ assume نہیں کر سکتے کہ ہدایت قبول نہیں کریں گے لیکن اگر قبول نہیں کرتے تو ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے اور اپنی دعوت جاری رکھنی چاہیے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن