اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ پھر پوچھا گیا: کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ پھر پوچھا گیا: کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کے اندر بخل اور بزدلی ہو سکتی ہے اور بُخل زکوٰة اور صدقات کی ادائیگی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ دوسری طرف جیسے کل سلوک سلیمانی کے درس میں آیا تھا کہ زکوة اور نماز کا بھی آپس میں کافی تعلق ہے اور ایک عمل میں کمزوری دوسرے عمل کو متاثر کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان بخل کی وجہ سے زکوة اور واجب صدقات اداء نہیں کر سکتا لیکن نماز میں فرائض کے اہتمام کے ساتھ نوافل بھی ادا کرتا ہے تو کیا اس کی نمازیں اس کے بخل کے علاج میں معاون ہو سکتی ہیں؟ اسی طرح اگر ایک مسلمان سخی ہے لیکن بدنی عبادات جیسے نماز، روزہ کی ادائیگی میں سست ہے۔ تو کیا اس کی مالی عبادات اس کی سستی دور کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں؟
جواب:
اصل میں combination اور permutation یہ با قاعدہ پوری سائنس ہے جو مختلف combination بن سکتی ہے۔ ایک شخص عبادات بھی اچھی کرتا ہے اور سخی بھی ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ عبادات بہت اچھی طرح کر سکتا ہو لیکن سخی نہ ہو۔ ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جو سخی ہو لیکن عبادات میں سست ہو۔ ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے کہ جو سخی بھی نہ ہو اور عبادات بھی صحیح نہ کر سکتا ہو۔ اس کی وجوہات بہت زیادہ ہیں جن کی تفصیل نہیں ہو سکتی۔ لیکن بہر حال دو رذائل انسان کے اندر بہت اہم ہیں۔ سستی کو ریاضت سے دور کیا جاتا ہے اور بخل کا علاج زکوۃ ہے۔ ریاضت و قناعت یہ دو مجاہدات ہیں۔ ریاضت عبادات میں سستی کو دور کرنے کے لئے ہے اور قناعت مالی معاملات کے اندر سستی و بخل وغیرہ کو دور کرنے کے لئے ہے۔ یہ دونوں جب جمع ہو جاتے ہیں پھر ان کو محفوظ رکھنے کے لئے تقویٰ ہے۔ گزشتہ کی تلافی کے لئے مقام توبہ ہے اور آگے بڑھنے کے لئے مقام انابت ہے۔ یہ باہم اس طرح مربوط ہیں۔ یہ نہیں کہ اگر کوئی سستی کو دور کرنے والا علاج کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس کو قناعت بھی نصیب ہو جائے اور پھر علیحدہ اس مجاہدے کی کیا ضرورت تھی؟ اس لئے اس مجاہدے کی علیحدہ ضرورت ہے۔ البتہ شیخ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کس کے اندر کون سا مرض غالب ہے؟ اس کا علاج پہلے کر لے۔ اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اکثر یہ کرتے تھے کہ جب ان کے پاس کوئی آتا تو حضرت اس سے فرماتے: اپنے سارے کے سارے عیوب ایک کاغذ پر لکھ کر لے آؤ۔ وہ عیوب لکھ کے لاتا۔ اس کے بعد حضرت ان میں سے کسی ایک کا بتاتے کہ اس کا علاج کرو۔ جب وہ مرض ٹھیک ہو جاتا اس کے بعد دوسرے کا علاج، اس کے بعد تیسرے کا علاج، اس کے بعد چوتھے کا علاج، اس طریقے سے علاج کرتے رہتے تھے۔ مجھے ایک ڈاکٹر صاحب نے بڑی اچھی بات بتائی، میرے خیال میں اس کو سیکھنا بہت اہم ہے۔ وہ انگلینڈ میں ریسرچ کر رہے تھے، کہتے ہیں: مجھے میرے ایک پروفیسر نے ایک طریقہ سکھایا جو بالکل ابتداء میں سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی میں تیس، بتیس بیماریاں ہیں وہ سب list کر لیتے ہیں، پھر ہر بیماری کا دوسری بیماری پہ اثر ہوتا ہے۔ جس بیماری کا جس پر اثر ہے اس کو اپنے طریقے سے نمبر کر لیتے ہیں کہ اگر یہ ٹھیک ہو جائے تو یہ بھی ٹھیک ہو جائے گی۔ تو اس میں Basic roots والی پانچ، چھ بیماریاں رہ جاتی ہیں۔ پھر ان میں بھی enlist کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد باقی بھی ٹھیک ہو جائیں گی۔ ان کی ترتیب اس طرح بنا دی جائے کہ پہلے کس کو ٹھیک کرنا ہے تو 3، 4 steps میں اچھی خاصی بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ ان کا آپس میں اس طرح تعلق ہے کہ انسان کو خراب کرنے والی یہ دو بڑی چیزیں ہیں، ان دو بڑی چیزوں کو دور کرنے کے لئے پھر دو بڑے مجاہدے ہیں۔ یہ دو بڑے مجاہدے کرنے پڑیں گے اور اگر کوئی نہیں کرتا تو اپنے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ لیکن بہر حال اگر اس دنیا میں اس کا علاج کر لے تو بہت ساری برائیوں سے اور گناہوں سے بچ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت کی تیاری کے لئے ہمیں کوششیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن