دین کی دعوت دینے کے لئے ضروری باتوں کا خیال رکھنا

سوال نمبر 510

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ میں فرمایا ہے کہ: عرب ایک طرف اگر دیگر آسمانی مذاہب یہودیت اور عیسائیت کی آلائشوں سے محفوظ تھے تو دوسری طرف ان کی یہی خاصیت خدائے رحمان کی وحدانیت اور ایک بشر کو بحیثیت رسول ماننے میں رکاوٹ بنی تھی۔ قرآن پاک میں جا بجا کفار عرب کے اعتراضات بیان فرمائے گئے ہیں کہ سارے کاموں کے لئے ایک خدا کیسے ہو سکتا ہے اور ایسا انسان کیسے رسول ہو سکتا ہے جو کھاتا، پیتا ہو؟ آپ ﷺ نے عربوں کی خصوصیات کو باقی رکھ کر انہی خصوصیات سے وجود میں آئی ہوئی خرابیوں کو دور کر کے عربوں کو ساری دنیا کے لئے رہنما بنا دیا۔ سوال یہ ہے کہ اس دور میں بھی مسلمانوں کا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑ سکتا ہے جو کہ دیگر مذاہب کی خرابیوں سے محفوظ ہوں؟ لیکن اس کا ایک Side effect یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے متعلق عقیدہ کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے اور نہ ہی رسول اور کتاب کی صفات کے بارے میں آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینے میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے؟

جواب:

عربوں کی بنیادی خصوصیت کو سامنے رکھ کر اس بات کو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ قرآن نے ان سے کس انداز میں کلام کیا ہے؟ قرآن پاک چیزوں کی تفصیلات میں نہیں جاتا بلکہ موٹی موٹی بات کرتا ہے جو سب کو سمجھ آ سکتی ہے۔ یہاں دو باتیں کی گئی ہیں کہ سارے کاموں کے لئے ایک خدا کیسے ہو سکتا ہے؟ اسی میں سائنس دان بھی پھنسے ہوئے ہیں جو اپنے آپ کو بہت بڑے پھنے خان کہتے ہیں۔ Cause and effect کو سائنس مانتی ہے کیونکہ پوری سائنس کی بنیاد Cause and effect پہ ہے۔ اس وجہ سے جب Cause and effect کو مانتی ہے تو فاعل اور مفعول کی بات کو ضرور مانتی ہو گی۔ یعنی اگر فعل ہو رہا ہے تو اس کا کوئی فاعل بھی ہو گا۔ لوگ اس میں گمراہی کی طرف چلے گئے۔ کچھ لوگوں نے کہا: سارا کچھ خود بخود ہو رہا ہے وہ atheism ہے بالکل unnatural non-scientific ہے۔ بغیر فاعل کے فعل ممکن نہیں ہو سکتا، impossible ہے۔ قرآن پاک نے جا بجا ان باتوں کا جواب دیا ہے کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ نباتات کون اگا رہا ہے؟ ماں کے پیٹ میں بچہ ہے کیسے develop ہو رہا ہے؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے لئے کوئی فاعل ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ اگر فرشتے کو بھیجا جاتا تو وہ تمہارے لئے مفید ہی نہ ہوتا کیونکہ فرشتوں کے پاس وہ چیز نہیں ہے جو تمہارے پاس ہے۔ تمہاری خواہشات الگ ہیں، ان کی خواہشات الگ ہیں، لہذا تمہاری چیزوں کو وہ جان ہی نہیں سکتے۔ پیغمبر کو انسان بنا کر اس لئے بھیجا گیا کہ وہ انسانوں کو جانتا ہو، انسانوں کی معلومات رکھتا ہو، انسانوں کے جذبات وغیرہ کو جانتا ہو، انسانوں کے انداز میں بات کر سکتا ہو۔ یہ بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ﴾ (الکہف: 110)

ترجمہ: ”کہہ دے کہ میں تمہی جیسا ایک انسان ہوں۔“

تمہاری طرح سے مراد یہ ہے کہ جس طرح تم طبعی حواس رکھتے ہو اسی طرح میں بھی طبعی حواس رکھتا ہوں۔ جس طرح تم دیکھتے ہو میں بھی دیکھتا ہوں۔ جس طرح تم سوچتے ہو میں بھی سوچتا ہوں۔ جس طرح تم بولتے ہو میں بھی بولتا ہوں۔ جس طرح تم سنتے ہو میں بھی سنتا ہوں۔ جس طرح تم کھاتے ہو میں بھی کھاتا ہوں۔ جس طرح تم پیتے ہو میں بھی پیتا ہوں۔ جس طرح تم سوتے ہو میں بھی سوتا ہوں یعنی سارے انسانوں والے کام پیغمبر کر رہے ہوتے ہیں البتہ فرق اس چیز میں ہے کہ ﴿يُوحَىٰٓ إِلَىَّ﴾ (الکہف: 110)

ترجمہ: ”(البتہ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے۔“

وحی بہت بڑی بات ہے۔ compatibility نا ممکن ہے۔ اللہ جل شانہ کے ساتھ کلام کرنا اور اس کے لئے اللہ پاک نے جو وحی کا system بنایا ہے اس کو بھی برداشت کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ جس کے بارے میں اللہ پاک نے اپنے کلام میں فرمایا ہے: ﴿لَوْ أَنزَلْنَا هٰذَا الْقُرْآنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللهِ﴾ (الحشر: 21)

”ترجمہ: اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم اسے دیکھتے کہ اللہ کے رعب سے جھکتا جا رہا ہے۔“

یعنی آپ ﷺ کا ہی سینہ ہے جس پہ یہ چیز اتر رہی ہے، یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔ آپ ﷺ کو وہ خصوصیات دی گئی تھیں جو عام لوگوں کو نہیں دی گئیں۔ جیسے مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دعوت کے لئے جن کو اللہ پاک استعمال فرماتے ہیں لوگوں کو اللہ پاک کی طرف بلانے کے لئے تو جب ان کی اصلاح ہو جاتی ہے تو پھر وہ روح کے ذریعہ سے لیتے ہیں اور نفس کے ذریعے سے دیتے ہیں، وہ خود برزخ بن جاتے ہیں۔ چونکہ آپ ﷺ کی روح عام روح نہیں تھی، وہ وحی کے ساتھ compatible تھی۔ لہذا روح کے ذریعہ سے لیتے تھے اور انسانیت کے ذریعہ سے دیتے تھے۔ یعنی ملکوتی صفات روحانی بات میں ہیں چنانچہ آپ ﷺ کی روح خاتم النبیین کی روح تھی، اور جسم بشر کا تھا۔ پھر سب سے بڑی تفصیلی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کا عروج اور نزول بہت زیادہ تھا۔ یعنی عروج اتنا تھا کہ اپنے جسم، اپنے کپڑوں اور اپنے جوتوں کے ساتھ معراج پہ تشریف لے گئے اور نزول اتنا تھا کہ معمولی سے معمولی آدمی کے level پہ بات کر لیتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کا شیطان بھی مسلمان ہو گیا۔ یہ آپ ﷺ کی انفرادی خصوصیات تھیں۔ تو ہمیں بھی اس انداز میں ایسے لوگوں سے بات کرنی چاہیے کہ ہم ان کو سمجھائیں۔ البتہ جو لوگ polluted نظریات رکھتے ہیں۔ مثلاً ہندو اپنی جہالت کی وجہ سے ہر supernatural چیز کو خدا مان لیتے ہیں۔ جس کی وہ اپنی انسانی بنیادوں پر تشریح نہیں کر سکتے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا ہے۔ جیسے کرونا کو بھی خدا بنا لیا اور اس کا بھی بت بنا لیا۔ یعنی جو چیز ان کو فائدہ پہنچائے اس کے سامنے بھی surrender کرتے ہیں اور جو چیز ان کو نقصان پہنچائے اس کے سامنے بھی surrender کر لیتے ہیں۔ کچھ کے سامنے لالچ کے طور پہ اور کچھ سے ڈرنے کے طور پہ۔ ترغیب و ترہیب والی بات ہے۔ اسی ہندومت کے بت کو توڑنے کے لئے جو ان کے اندر ہے، اللہ پاک نے ہمیں کلمہ دیا ہوا ہے کہ "لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم" ہندوؤں کے مندروں اور ان کی تمام چیزوں کی نحوست جن کے اثرات ہوتے ہیں ان کے لئے یہ کلمہ بہت زبردست ہے۔ حضرت نے بھی یہ فرمایا کہ "یَا ہَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم" یَا ہَادِیُ یَا نُوْرُ ساتھ ملا دے۔ اللہ پاک سے آدمی ہدایت مانگتا ہے اور نور یعنی نور ہدایت ہے۔ یہ ان کا بہت بہترین توڑ ہے۔ کیونکہ وہ surrender ہی دو چیزوں کے سامنے کرتے ہیں جو ان کو ظاہری نفع پہنچائے ان کے سامنے بھی surrender اور ان کو بھی سجدے کرتے ہیں اور جو نقصان پہنچا سکتے ہیں ان سے بھی ڈر کے سجدے کر سکتے ہیں۔ یہ Might is right والے لوگ ہیں۔ یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ تو ان کو سمجھایا جائے کہ "لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم" کہ سب کچھ اللہ ہی کرتے ہیں۔ سائنسدان حضرات کو اس انداز میں convince کیا جائے کہ آپ خود آج کل Unified concept چلا رہے ہیں یعنی ساری چیزیں ایک ہی طریقے سے ہو رہی ہیں۔ کیا ابھی تک تمہیں صرف اتنا پتا چلا ہے؟ اس سے آگے بھی سوچو۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سارے نظام اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں لیکن ان سب کی باگ ڈور ایک کے ہی ہاتھ میں ہے۔ اس کی مثال شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دی ہے کہ سورج کی ایک روشنی آ رہی ہے اور شیشوں میں سے گزر رہی ہے۔ سبز روشنی سبز شیشے میں سے گز رہی ہے، تو اس کی سبز روشنی بنتی ہے۔ سرخ سے گزرے تو سرخ بنتی ہے۔ زرد سے جاتی ہے تو زرد بنتی ہے۔ گویا کہ material الگ ہو تو ایک ہی چیز اس روشنی کو مختلف بنا دیتی ہے۔ گویا Signal creates different actions کہ تمام چیزیں اگرچہ مختلف نظر آتی ہیں لیکن اللہ جل شانہٗ کے ایک ارادے سے وہ ساری چیزیں چل پڑتی ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بجلی جب چلی جاتی ہے تو پنکھا بھی بند ہو جاتا ہے، oven بھی بند ہو جاتا ہے اور فریج بھی بند ہو جاتا ہے اور بلب بھی بجھ جاتا ہے۔ سب بالکل مختلف چیزیں ہیں لیکن ایک ہی بجلی سے ساری کے ساری چیزیں چل پڑتی ہیں، بجلی چلی جاتی ہے تو سب چیزیں بند ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح اللہ پاک کا ایک ہی ارادہ ان ساری چیزوں کے اندر شامل ہوتا ہے۔ گویا کہ ساری چیزیں Unified concept ہیں۔ ہم سائنسدانوں کو سمجھا سکتے ہیں کہ ساری چیزیں ایک ہی طرف سے ہو سکتی ہیں۔ پہلے فلسفے میں یہ باتیں ہوتی تھیں اب سائنس میں یہ باتیں ہوتی ہیں۔ عوام کو اس انداز میں سمجھائیں گے جس انداز میں قرآن نے سمجھایا ہے کہ یہ سارے کام کوئی تو ہے جو کر رہا ہے۔ وہ جتنا عظیم ہو گا اتنا ہماری سمجھ سے باہر ہو گا کیونکہ جو ہمارے level کا ہو گا ہم اس کو سمجھ جائیں گے لیکن جو ہمارے level سے اوپر ہے جس نے ہمیں بنایا ہے اس کو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ بہر حال سب کچھ وہی کر رہا ہے۔

قادیانی جو لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں تو ان کا سب سے بڑا tool یہ ہے کہ یہ باریکات میں لے جاتے ہیں۔ باریکات کا چونکہ لوگوں کو پتا نہیں ہوتا تو لوگ بیٹھ جاتے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ بھئی باریکات میں نہ جاؤ، موٹی موٹی باتیں کرو۔ تو موٹی باتوں میں وہ چل ہی نہیں سکتے، بھاگ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ باریک باتیں نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن