تصوف کا مقصد اور اس کا ذریعہ ہونا

سوال نمبر 509

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

قرآن پاک میں آپﷺ کے جو فرائض منصبی بیان فرمائے گئے ہیں ان میں ایک تزکیہ بھی ہے جس کا آج کل معروف نام تصوف ہے۔ اس لحاظ سے تصوف ایک مقصد ہے۔ لیکن اہل تصوف بھی تصوف کو ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔ جب تصوف آپ ﷺ کا فرض منصبی ہے تو پھر اس کو ذریعے کے معنوں میں کیوں کہا جا رہا ہے؟

جواب:

Technical question ہے اس کا جواب بھی technical ہو گا۔ ہمیں کس چیز کا مکلف کیا گیا ہے ؟ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 56)

ترجمہ: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔“

یعنی میں نے اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا۔ تو یہ ہمارا تخلیق کا مقصد ہو گیا۔ اب عبدیت کیسے حاصل کریں گے اور کیسے کریں گے؟ اس کے دو ذریعے ہیں۔ ایک علم حاصل کرنا ہے، تو قرآن میں ہے: ﴿يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ (الجمعہ: 2)

ترجمہ: ”اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں۔“

﴿وَيُزَكّيهِم اس کے لئے پہلا ذریعہ اس علم کو حاصل کرنا جس کے ذریعے سے ہم وہ عبادت کر سکتے ہوں کیوں کہ آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے: "صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ أُصَلِّیْ" (البخاری، حدیث نمبر: 631) ”مجھے جس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھو اس طرح نماز پڑھو“ مجھے کیسے پتا چلے گا کہ آپ ﷺ نے کیسے نماز پڑھی ہے؟ آپ ﷺ میرے سامنے تو نہیں تھے۔ یہاں پر ایک اور باریک نکتہ سمجھ میں آ گیا جو بعد میں بتاؤں گا۔ آپ ﷺ کو دیکھ دیکھ کر صحابہ کرام نماز پڑھتے تھے، ان کے لئے سامنے کی بات تھی۔ ہمارے لئے کتابوں کی بات ہے بلکہ جو علماء سمجھا رہے ہیں انہوں نے بھی کتابیں پڑھی ہیں۔ انہوں نے خود نہیں دیکھا یا ان لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اگلوں کو دیکھا، پھر انہوں نے اگلوں کو، اس طریقے سے یہ سلسلہ چلا ہے۔ یعنی علم کے ذریعے سے ان کو پتا چلتا ہے۔ پتا چل گیا تو کیا مقصد حل ہو گیا؟ نہیں! بلکہ اب عمل کی ضرورت ہے، عمل کرنے کے لئے ہمیں رکاوٹوں کو دور کرنا ہے تبھی عمل کر سکیں گے۔ رکاوٹ ایک نفس ہے دوسرا شیطان ہے۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کا طریقہ تصوف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم حاصل کرنا جو علماء کا کام ہے، وہ بھی اس چیز کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے، لیکن پورا ذریعہ نہیں ہے یعنی ایک قسم کا ذریعے کا ذریعہ ہے۔ رکاوٹوں کو دور کرنا بھی ذریعہ ہے جس کو تصوف کہتے ہیں اور پہلے والے کو علم حاصل کرنا کہتے ہیں۔ تعلیم و تربیت یہ دو لفظ اکٹھے چلے آ رہے تھے۔ آج کل تربیت درمیان سے اڑ گئی اور تعلیم رہ گئی۔ مدرسے کا نام سن کر کوئی حیران نہیں ہوتا لیکن خانقاہ کا نام سن لیں تو حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے؟ معاشرے کے اندر یہ چیز بہت کم ہو گئی ہے۔ چنانچہ یہ بہت اہم چیز ہے لیکن اس کی لوگ پرواہ نہیں کرتے تبھی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو علماء نہیں ہیں لیکن ان کو اللہ والوں کی صحبت حاصل ہے تو ان کا کام بغیر علم کے ہو جاتا ہے کیونکہ وہ با قاعدہ عالم تو نہیں ہیں بلکہ پوچھ پوچھ کے اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں۔ مثلاً نماز بھی پوچھ پوچھ کر پڑھ لیں گے، روزہ بھی پوچھ پوچھ کے رکھ لیں گے، معاملات بھی پوچھ کے کر لیں گے، کیونکہ ان کی صحبت ہو گی لہٰذا وہ عمل کر لیتے ہیں۔ لیکن بالکل خالص عالم جن کی تربیت نہ ہوئی ہو اور یہ صحبت ان کو حاصل نہ ہو تو وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ حضرت خود عالم تھے اور عالم جب یہ بات کر رہا ہے تو معلوم ہوا وہ اپنی بات کی ذمہ داری لے رہا ہے۔ تصوف بہت بڑے مقصد کا ذریعہ ہے۔ مثلاً آدمی کہتا ہے کہ کھانے کے بغیر تو انسان زندہ نہیں رہتا تو یہ کیسے ذریعہ ہے؟ آپ جو جواب اُس کا دیں گے وہی جواب اِس کا بھی ہے۔ یعنی اس سے انکار کوئی نہیں کر سکتا لیکن ہے ذریعہ۔ لیکن ذرائع ہونے کی وجہ سے نا قدری نہیں کرنی چاہیے۔ آپ حج پہ جا رہے ہیں اور آپ کے پاس پاسپورٹ نہ ہو، اس پر ویزا نہیں لگا ہوا تو آپ نہیں جا سکتے۔ اب پاسپورٹ بس ایک کاغذ ہے، اگر آپ حج پہ جانا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے حج کا ذریعہ ہے۔ اگر آپ پاسپورٹ نہیں بناتے تو آپ حج سے رہ جاتے ہیں۔ بذات خود پاسپورٹ کچھ بھی نہیں ہے لیکن آپ کے لئے اس وقت سب کچھ ہے۔ کیونکہ اگر آپ کے پاس پاسپورٹ نہیں ہیں تو آپ کو نہ کوئی ٹکٹ دیتا ہے نہ کوئی وہاں پر جانے دیتا ہے۔ اس کے لئے لوگ لائنوں میں لگتے ہیں اور پتا نہیں کیسی کیسی منتیں اور کیسی کیسی کوششں کرتے ہیں۔ چنانچہ مقصد جتنا اعلیٰ ہوتا ہے اس کا ذریعہ بھی اتنا اعلی ہوتا ہے۔ ہم اللہ پاک کے بندے بن جائیں، اتنے بڑے مقصد کا یہ ذریعہ ہے۔ تو ہمیں اس کو حاصل کرنا چاہیے بغیر اس کے ہم کیسے رہ سکتے ہیں؟ بعض لوگ کسی عمل کا کہتے ہیں کہ یہ مستحب ہی تو ہے۔ خدا کے بندو اگر آپ کے مستحب سے ہی اللہ پاک کو آپ پسند آ جائیں اور آپ کا کام ہو جائے اور آپ کے سارے گناہ معاف کر دے تو کتنی اچھی بات ہو گی۔ بعض دفعہ معمولی سی چیز پر اللہ پاک بخش دیتے ہیں آپ کے لئے تو وہی کامیابی کا ذریعہ بن گیا۔ تو کسی چیز کو کم نہ سمجھو۔ جیسے ایک فاحشہ نے کتے کو پانی پلایا تھا، اس پر اللہ پاک نے اس کی بخشش کر دی اور اس کے سارے گناہ معاف کر دیئے۔ جو انسان کو پانی پلائے گا یا انسان کی خدمت کرے گا تو اس کا کیا حال ہا گا؟ پانی پلانا یہ دنیاوی زندگی کا کام ہے اور آخرت میں عذاب سے بچانا یہ آخرت کی زندگی کا کام ہے۔ جو شخص کسی کے لئے وہاں کے عذاب سے بچنے کا ذریعہ بن گیا تو اس پہ اللہ پاک بہت دیں گے۔ چنانچہ کون سے مقصد کا یہ ذریعہ ہے؟ اس کے حساب سے اس کی rating ہو گی۔

صحابہ کرام کو آپ ﷺ کی صحبت حاصل تھی، صرف صحبت کی برکت سے ان کو علوم کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کو علوم کی اصل حاصل تھی۔ آپ ان سے کہتے: کیا آپ نے قدوری پڑھی ہے تو وہ کہیں گے کہ قدوری کیا ہوتی ہے؟ قدوری انہی سے پوچھ پوچھ کے یعنی ان کی احادیثِ شریفہ کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ آج کل قدوری کے بغیر ہم نہیں چل سکتے ہیں، ہمارے لئے یہ ذریعہ ہے لیکن صحابہ کرام کے لئے یہ ذریعہ نہیں تھا۔ معلوم ہوا جس طریقے سے صحابہ کرام کے لئے علم کا ذریعے کی ضرورت نہیں تھی اسی طرح تصوف میں آپ ﷺ کی صحبت کی موجودگی میں، مراقبات کی اور ضربیں لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ ہماری ضرورت ہے ان کی نہیں ہے۔ صحابہ کے وقت میں جو معاملات تھے ان کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے، ان کی بات ہی اور تھی لہذا نہ علم کے لحاظ سے ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آپ نے درس نظامی پڑھا ہے یا نہیں؟ اور نہ تزکیہ کے لحاظ سے ان سے مراقبات اور ضربوں کی کوئی بات کی جا سکتی ہے۔ جو لوگ اکثر تصوف پر اعتراض کرتے ہیں ان کے لئے یہ بہت بڑا جواب ہے۔ یہ اس وقت نہیں تھا اور ہونا بھی نہیں چاہیے تھا کیونکہ یہ توہین ہوتی کیونکہ آپ ﷺ کی موجودگی میں کس چیز کی ضرورت تھی؟ اتنا بڑا ذریعہ موجود تھا اور آپ کسی اور ذریعہ کو ڈھونڈ رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن