رشتہ داری اور فضیلت: حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کا واقعہ

سوال نمبر 534

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کی بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا سے نکاح کا پیغام دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں نے تو فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اپنی تمام بیٹیوں کی شادی صرف اپنے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں سے کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاآپ ایسا مت کریں، ان کو میرے نکاح میں دے دیں۔ کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے رشتہ اور تعلق کے علاوہ ہر رشتہ و تعلق قیامت کے دن ختم ہو جائے گا۔ اس سعادت کو حاصل کرنے کے لئے میں نے اپنی بیٹی کی شادی حضور ﷺ سے کی تھی۔ اب میری خواہش ہے کہ حضور ﷺ کی نواسی سے میری شادی ہو جائے تو مزید رشتہ کا تعلق حاصل ہو جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ تفصیل سن کرمان گئے اور اپنی بیٹی کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔

آپ ﷺ کے ساتھ اپنی رشتہ داری کا تعلق پیدا کرنے کے حوالے سے ہمیں اس واقعے سے کیا تعلیم ملتی ہے۔ کیا آج کل کے غیر سادات بھی سادات کے ہاں نکاح کر کے یہ فضیلت حاصل کر سکتے ہیں؟

جواب:

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور پاک ﷺ کے خاندان کے ساتھ تعلق ہونا ایک نعمت عظیمہ ہے۔ اگر کسی شخص کو کسی بھی واسطہ سے خاندانِ نبوت سے تعلق حاصل ہو جائے تو یہ اس کے لئے سعادت سے کم نہیں۔ اور اگر یہ تعلق نکاح والا ہو تو پھر یہ اور بھی بڑی نعمت بن جاتی ہے۔ لیکن اگر کسی کو یہ نعمت حاصل ہو جائے تو پھر اس کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ کیونکہ شادی ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس میں معاملات بہت rude form میں سامنے آ جاتے ہیں۔ گھروں کے اندر بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکررنجی ہو جاتی ہے، جس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ لہٰذا اگر کسی غیر سید کا سادات کے ساتھ ایسا تعلق بنتا ہے تو اسے اس تعلق کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔

ہمارے ایک پڑوسی ہمیں کافی تنگ کرتے تھے۔ ایک بار میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے شاہ صاحب نہ کہا کریں۔ کہنے لگے، کیوں نہ کہا کروں؟ میں نے کہا کہ اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے۔کہتے ہیں: میرا کیا فائدہ ہے؟ میں نے کہا: اگر آپ مجھے شاہ صاحب کہتے ہیں تو گویا آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ میرا سلسلۂ نسب آپ ﷺ کے ساتھ ملتا ہے۔ اور جب آپ اس بات کا اقرار کر لیتے ہیں تو پھر آپ کے اوپر لازم ہو جاتا ہے کہ آپ اس کا خیال رکھیں اور مجھے تنگ نہ کریں۔لیکن اگر آپ میرے خاندانِ سادات میں ہونے کا اقرار بھی کرتے ہیں، اور اس کے باوجود تنگ کرتے ہیں تو پھر آپ کا نقصان ہے۔

سادات کےہاں نکاح کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، کہ اگر کوئی آدمی نبی پاک ﷺ کے خاندان مبارک سے تعلق کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے سادات میں نکاح کرتا ہے، اور بعد میں خیال نہیں رکھتا، تو اس میں اس کا بہت نقصان ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو انتہائی انصاف والے شخص تھے۔ ان کا انصاف مشہور تھا۔ لہذا ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ سادات کی حرمت کا خیال نہیں رکھیں گے۔لیکن ان کے علاوہ اگر کوئی شخص سادات میں صرف برکت حاصل کرنے کے لئے رشتہ کرتا ہے تو پھر وہ برکت تب ہی حاصل ہو گی جب اس کا خیال بھی رکھا جائے گااور ایسا انتظام کیا جائے گا کہ بعد میں اس کی وجہ سے مسائل پیدا نہ ہوں۔ اس لئے اگر کوئی شخص خیال رکھ سکتا ہے تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں وہ اس فضیلت کے حصول کے لئے سادات کے ہاں نکاح کر سکتا ہے۔

اس معاملے میں ایک بات یہ ہے، کہ کسی بھی شادی میں جوڑ کا خیال رکھنا چاہیے۔ اگر سادات غیر سادات میں شادی کر لیں، یعنی لڑکی غیر سید ہو، تو پھر تو جوڑ برقرار ہے، بلکہ لڑکی والے خاندان کو اپنے سے اونچے خاندان کا رشتہ مل گیا ہے۔ لڑکی اپنے جوڑ سے اوپر والے خاندان میں جا رہی ہے۔ لیکن اگر سید لڑکی کا رشتہ غیر سادات میں ہوتا ہے تو اس صورت میں لڑکی اپنے سے کم درجہ والے خاندان میں جا رہی ہے۔ ایسی صورت میں اکثر نباہ کم ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، عام مشاہدہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے۔ اس لئے ان معاملات میں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور دور اندیشی سے کام لے کر اچھی طرح غور و فکر کرنا چاہیے کہ بعد میں معاملات کیسے ہوں گے۔ اچھی طرح سوچ بچار کرنی چاہیے، مشورہ بھی کرنا چاہیے اور استخارہ بھی کر لینا چاہیے۔ اس میں صحیح طریقہ استخارہ کا ہے۔اگر ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سعادت حاصل ہو تو بڑی اچھی بات ہے۔ اللہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوانا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن