تہجد کی اہمیت اور اصلاح کے طریقے

سوال نمبر 531

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

سورہ المزمل میں تہجد کی اہمیت کافی واضح فرمائی گئی ہے۔ یہ نماز ابتداء اسلام میں فرض تھی اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ پر یہ نماز تمام عمر فرض تھی اور آپ ﷺ بہت اہتمام کے ساتھ یہ نماز پڑھتے تھے۔ جس سے تعلق مع اللہ کے لئے اس نماز کی خصوصیت بہت واضح ہو رہی ہے۔ حضرت اصلاح کے جو تین طریقے ہیں ان میں ابرار اور شطاریہ تو اپنے شیخ کے حکم پر عمل کریں گے لیکن اگر کوئی اخیار کے طریقے پر اپنی اصلاح کی ابتداء کرنا چاہے اور وہ ابتداء تہجد کی نماز سے کرنا چاہے تو کیا اس طرح کرنا ٹھیک ہے؟

جواب:

تہجد ہر حالت میں ٹھیک ہے، چاہے اخیار ہو، ابرار ہو یا شطاریہ ہو۔ اس میں اخیار کے لئے کوئی الگ بات یا ابرار کے لئے کوئی الگ بات نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ وَ لَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُؕ (العنکبوت: 45) مجھ سے کوئی پوچھے کہ میں بیعت نہیں ہونا چاہتا، میں اسی سے اپنی اصلاح کرتا ہوں۔ ھم کہیں گے کہ بیعت کرنا فرض نہیں، آپ بالکل بیعت نہ ہوں۔ البتہ اپنی اصلاح ضرور کریں۔ اصلاح کرانا فرض ہے بیعت ہونا فرض نہیں ہے۔ پس اگر کوئی شخص بغیر بیعت ہوئے اپنی اصلاح کروا سکتا ہے تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ تہجد کے ذریعے کر لے یا ذکر کے ذریعہ کر لے یا پھر کسی بھی طریقے سے لیکن اس کی ذمہ داری خود اس پر ہو گی۔ وہ خود چونکہ اپنے لئے ساری چیزیں منتخب کرے گا، اپنی ذمہ داری قبول کرے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا۔ تجربے سے ثابت ہے کہ استاد کے بغیر سیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، انسان چاہے کتنا ہی صلاحیت والا ہو اس کی صلاحیتوں کو نکھار نہیں ملتا جب تک کہ استاد نہ ہو۔ جیسا بھی علم ہو اس کے لئے استاد کی ضرورت ہے اور جب عمل کا تعلق اصلاح کے ساتھ ہو جاتا ہے تو اسے تربیت کہتے ہیں، اس میں بھی استاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر کوئی شخص کر سکتا ہے تو بے شک کرے، اس میں پابندی نہیں ہے کہ کسی بزرگ سے بیعت ہو جائے۔ چونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو پڑے پڑے بہت بڑا خزانہ ہاتھ لگ جائے یا بادشاہت مل جائے یا ابھی آپ نے کاروبار شروع کیا اور اس چیز کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی اور آپ کو بہت فائدہ ہوا، یہ ساری باتیں ممکن ہیں لیکن یہ عمومی قانون یا طریقہ نہیں ہے۔ کوئی بھی اس طرح اپنے آپ کو باقی کاموں سے نہیں چھڑواتا کہ فلاں کے ساتھ ایسا ہوا ہے لہذا میں بھی اس طرح کرتا ہوں۔ بلکہ اس میں جو reported کامیاب طریقے ہوتے ہیں وہ تلاش کرتا ہے، کاروبار کرتا ہے تو پوچھتا ہے کون سا طریقہ آج کل بہتر ہے؟ اگر ملازمت کرتا ہے تو پوچھتا ہے کہ کون سی ملازمت بہتر ہے؟ گویا ہر چیز میں انسان کو معلوم کرنا پڑتا ہے۔ کسی میں تھوڑا اور کسی میں زیادہ۔ اور اصلاح کا کام چونکہ زیادہ پیچیدہ ہے یعنی نفس کے اعمال کے ذریعے سے اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہوتی ہے۔ تو یہ بہت زیادہ پیچیدہ طریقہ ہے۔ اس میں اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ مجھے استاد کی ضرورت نہیں ہے تو یہ اس کی اپنی ذمہ داری ہے، وہ اپنی ذمہ داری کو خود پورا کرے گا۔ لیکن جن لوگوں نے تجربہ کیا ہے، صحیح جگہ انتخاب کر کے صحیح شیخ کامل کے ہاتھ پہ بیعت کی ہے تو ان کو فائدہ زیادہ اور جلدی ہوا ہے۔ یہ چیز ہمیں نظر آتی ہے ورنہ پابندی تو کسی پر بھی نہیں ہے۔ قرآن پاک میں نماز کے بارے میں ہے، روزے کے بارے میں بھی ہے، زکوۃ کے بارے میں بھی ہے، حج کے بارے میں بھی ہے۔ یہ اصلاح کے نظام ھیں، لیکن ان کو اپنی پوری اصلاح کے لئے کس طریقے سے کرنا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ کرنا ہے یہ ایک کام ہے جو انسان خود کر لے تو ٹھیک ہے۔ ویسے تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ جن لوگوں کا یہ کام ہے ان سے تعلق قائم کر کے زیادہ آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن