اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت کل سیرت النبی ﷺ کی تعلیم میں یہ بات آئی تھی کہ اگر عورت کو شوہر اپنی حيثیت کے مطابق خرچہ نہیں دیتا تو عورت کو حق ہے کہ وہ شوہر کی آمدن سے اپنی ضرورت کے مطابق پیسے لے لے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ آیا عورت نے واقعی اپنی ضرورت کے مطابق خرچہ لیا ہے یا اُس نے اپنی خواہشات کو بھی ضروریات میں شامل کیا ہے اور ان کو پورا کرنے کے لئے اب شوہر کو بتائے بغیر اُس سے خرچہ لے رہی ہے کیونکہ آج کل تو عورت اور مرد دونوں نے اپنی خواہشات کو ضروریات میں داخل کیا ہوا ہے۔
جواب:
نصف جواب تو اس میں موجود ہے کہ عورت اور مرد دونوں نے اپنی خواہشات کو ضروریات میں داخل کیا ہے۔ اگر مرد نے اپنی جائز خواہشات کو ضروریات میں داخل کیا ہے تو پھر عورت کو بھی اس کا حق دے۔ ھمارے علاقوں میں اس کی نوبت بہت کم آتی ہے۔ یہاں بعض دفعہ الٹا ہو جاتا ہے کہ مرد کے پاؤں میں پرانے جوتے ہوتے ہیں اور عورت اکثر جوڑے پہ جوڑے بدل رہی ہوتی ہے۔ انسان کو اللہ پاک نے جو حیثیت دی ہے اس کے مطابق معاملہ کر لے، اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ خود ہی جتنا اس کا حق بنتا ہے وہ اس کو دے دیا کرے تاکہ ایسی نوبت نہ آئے۔ اور باقی جائز اور صحیح چیزوں میں خرچ کرنے کے لئے ترغیب بھی ساتھ دیتا رہے تاکہ فضول چیزوں میں پیسے ضائع نہ ہو۔ فضول چیزوں سے مراد ایسی چیزیں جو نقصان دہ ہوں۔ باہمی افہام و تفہیم سے یہ مسئلہ زیادہ آسانی کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ قانونی طور پر یہ مسئلہ بڑی مشکل سے حل ہوتا ہے کیونکہ قانونی طور پر کون شہادتوں کا انتظام کرے گا؟ اس لیے قانون تک بات ہی نہ پہنچائی جائے، بہت ساری باتیں محبت اور مودت کی ہوتی ہیں۔ لیکن قانون میں اصولی باتیں ہوتی ہیں جیسے بچے کی ماں اس کے باپ سے دودھ پلانے کے بھی پیسے لے سکتی ہے۔چنانچہ آپس میں الفت و محبت ایسی ہو کہ مرد بھی بلاوجہ سختی نہ کرے اور بخیلی کا بھی موقع نہ دے۔ جیسے ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ گزرا، اس میں بھی ان کی بیوی حضرت ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ ﷺ سے دلیل کے طور پر یہی عرض کیا کہ وہ بخل سے کام لیتے ہیں۔ معلوم ہوا اپنی حیثیت کے مطابق جو بنتا ہے وہ دینا چاہیے۔ جیسے جیب خرچہ ہوتا ہے، تو اس میں بہت آسانی ہوتی ہے۔ بعض خاندانوں میں عورتیں بھی سمجھ دار ہوتی ہیں اور مرد بھی سمجھدار ہوتے ہیں۔ مرد گھر میں اخراجات کی ذمہ داری عورت پہ لگا دیتے ہیں اور وہ اپنے طور پہ کچن کا اور تمام چیزوں کا انتظام زیادہ بہتر طریقے سے کرتی ہیں۔ جب مرد کرتے ہیں تو ان سے اس طرح انتظام نہیں ہو پاتا، کیونکہ کچن میں عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر بار بار مردوں کو کہیں کہ فلاں چیز لاؤ، فلاں چیز لاؤ، تو یہ بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن جب خود اس کی ذمہ داری ہو تو وہی منگوا لیں گی، اسی حساب سے ترتیب بنا لیں گی اور خرچ کی ذمہ داری بھی ان کے ذمہ ہو گی۔ ان کو آمدنی کے مطابق اپنا بجٹ maintain کرنا آ جاتا ہے اور پھر آسانی ہو جاتی ہے۔ بہر حال یہ بڑی تفصیلی باتیں ہیں اس پہ پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ علماء نے لکھی ہوں گی، ان کو پڑھ لیں۔ لیکن اگر قانونی بات جاننی ہو تو پھر مفتی صاحبان کے پاس جانا پڑے گا لیکن پھر تقریباً لڑائی کی صورت بن جاتی ہے۔ چنانچہ ایسی صورت تک نہیں پہنچنا چاہیے بلکہ آپس میں الفت و محبت اور مودت کا تعلق قائم رکھنا چاہیے اور بے جا بخل سے اپنے آپ کو پرہیز کروانا چاہیے۔ بعض دفعہ اتنا بخل ضروری ہوتا ہے کہ انسان گناہوں کے کاموں میں خرچ نہ کرے، یعنی اسراف سے بچے۔ کیونکہ اسراف سے بچنا ضروری ہے، لیکن اس کو بخل نہیں کہیں گے۔ اس کو صرف انتظام کہیں گے۔ میں اپنے لئے الگ فیصلہ اور ان کے لئے الگ فیصلہ کر لوں، ایسا نہیں ھونا چاھیے۔ میں ایسی چیزیں بھی اپنی ضرورت میں لے آؤں جس کو کوئی ضرورت نہیں کہتا اور اس کے لئے ایسی چیز کو بھی ضرورت سے نکال دوں جس کو پوری دنیا ضرورت کہتی ہے تو ایسا طریقہ نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ