اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ!
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیج رہے تھے تو فرمایا کہ تدریج کے ساتھ ان کو دین کے احکامات سناؤ، یکدم سارے احکامات نہ سناؤ۔ تبلیغ کے لئے تدریج ایک اہم اصول ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں کی ایک جماعت کو اعمال کی تبلیغ کرنی پڑے اور اس جماعت میں مختلف استعدادوں کے لوگ ہوں، جیسے اگر ان میں ایک مسلمان عبادات میں کمزور ہے، دوسرا مسلمان معاملات میں، تیسرا معاشرت میں اور کچھ مسلمان اخلاق میں تو ایسی صورت میں اجتماعی تبلیغ میں تدریج کیسے رکھ سکتے ہیں؟
جواب:
ماشاء اللہ اچھا سوال ہے اور اس میں ایک عملی بات پوچھی گئی ہے۔ در اصل حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے اور آپ ﷺ سے وہ چیزیں سیکھ گئے تھے لہٰذا ان کے لئے تو یہ سب معاملہ بالکل مشکل نہیں تھا، وہ اسی پر عمل فرماتے رہے۔ ہمارے ہاں ان لوگوں سے تبلیغ کروائی جاتی ہے جو فی الحال خود سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں دو باتیں ہیں۔ پہلی بات تبلیغ میں جانے والوں کو یہ یاد دہانی کروانا ضروری ہے کہ ہم سیکھ رہے ہیں۔ ہمیں کم از کم یہ بات بتائی جاتی تھی۔ اپنی اصلاح کے لئے جا رہے ہیں تو اگر اس نیت سے جائیں گے تو اپنی اصلاح نصیب ہو گی۔ دو طرح کی تبلیغ ہوتی ہے۔ ایک مشائخ کے ہاں تبلیغ کا طریقہ تھا، بزرگوں کے واقعات میں آپ کو یہ بات ملے گی کہ کسی بزرگ کے پاس جو حضرات اپنی اصلاح کے لئے تشریف لاتے تو کافی عرصہ خانقاہ میں ان کے ساتھ رہتے تھے اور سارے کام کرتے تھے۔ اصلاح کے لئے جو ضروری باتیں ہوتیں وہ سب ان پہ نافذ ہوتی تھیں۔ پھر جب ان میں سے کسی کی اصلاح ہو جاتی تو با قاعدہ اسی وقت اس کی تشکیل ہو جاتی کہ فلاں جگہ چلے جاؤ۔ ہمارے پیر بابا علیہ الرحمۃ اجمیر شریف کے ہیں۔ افغانستان سے اجمیر شریف آئے۔ وہاں ان کی تربیت ہوئی اور وہاں سے ان کی تشکیل مردان کے علاقے میں ہوئی۔ پہاڑی علاقوں میں حضرت نے تبلیغ فرمائی اور بہت کام کیا۔ یہاں شرک و بدعت کا جو ماحول تھا اس کو ختم فرما دیا۔ اسی طریقے سے حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت ہوئی اور پھر تشکیل ہوئی۔ اسی طرح خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی۔ چنانچہ ہمارے اکابر اصلاح کر لیتے تھے اس کے بعد ان کو حکم دیتے کہ اب فلاں جگہ جاؤ اور تبلیغ کرو۔ اس وقت کی تبلیغ بڑی safe تبلیغ تھی۔ اس میں اصلاح یافتہ حضرات ہوتے تھے، وہ جہاں بھی جاتے ، بات کرنا تو دور کی بات ہے صرف ان کے چلنے سے بھی لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پہ 90 لاکھ لوگ مسلمان ہوئے۔ کیا حضرت نے اتنی تقریریں کی ہوں گی یا تقریروں سے اتنے لوگ مسلمان ہوتے ہیں؟ ان کے اخلاق اور ان کی روحانیت تھی جس سے لوگ متاثر ہوتے تھے اور مسلمان ہوتے جاتے تھے۔ تبلیغ کا یہ طریقہ بالکل safe side ہے اور صحابہ کے طرز پر ہے۔ اِس وقت کی تبلیغ کو اُس سے مختلف سمجھنا چاہیے، ایسا نہیں ہے کہ یہ غلط طریقہ ہے۔ اس وقت کے لحاظ سے یہ بڑا اہم طریقہ ہے۔ البتہ جس بنیاد پر اس کو کھڑا کیا تھا اسی بنیاد پر اس کو کیا جائے تو صحیح ہے۔ یعنی ایک تو اس میں جن کو بھی اٹھایا جاتا تھا ان کو آگے بھیجا جاتا تھا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اپنی اصلاح کی نیت سے پھریں۔ اس میں جو مجاہد ہو گا اس سے ان کی اصلاح ہو گی اور جو ذکر اذکار کریں گے اس سے ان کو استحضار ہو گا۔ اللہ جل شانہ کی یاد نصیب ہو گی۔ اس سے ان کو معلوم ہو گا کہ میری اصلاح نہیں ہوئی، مجھے اپنی اصلاح کرنی ہے۔ وہ پھر مشائخ سے رابطہ کریں گے اور اپنی اصلاح کروائیں گے اور اگر علم حاصل کرنا چاہیں گے تو علماء اور مدارس کے ساتھ رابطہ کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔ یعنی دو باتیں ہیں علم و ذکر۔ یہ ایک نمبر پر ہونی چاہیے جس کو تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ معلوم ہوا چھ نمبر اصل میں صرف دین پر آنے کے لئے اور motivation دلانے والے نمبر ہیں۔ جو کام کرنا ہے اس کے بارے میں یاد دہانی کرنے والی باتیں ہیں۔ یہ پورا دین نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ دین کیسے حاصل کریں اور دین پر کیسے عمل کیا جائے۔ جیسے علم و ذکر کا میں نے عرض کیا۔ علم علماء سے حاصل کیا جاتا ہے اور ذکر بزرگانِ دین سے اور ساتھ اپنی اصلاح کرائی جاتی ہے۔ نمبر دو، اپنی اصلاح کے لئے با قاعدہ اپنے قریبی اللہ والوں کے ساتھ رابطہ کر لیں اور علم حاصل کرنے کے لئے علما سے رابطہ رکھیں تو پھر ان شاء اللہ العزیز فائدہ ہو گا۔ لوگوں کی استعدادیں مختلف ہیں، جن مشائخ کے پاس جائیں گے وہ اس چیز کو پہچان جائیں گے کہ کوئی نمازوں میں کمزور ہے، کوئی عبادات میں، کوئی معاملات میں، کوئی معاشرت میں، کوئی اخلاق میں کمزور ہے۔ پھر وہ حضرات ان کی مناسب تربیت کر لیں گے۔ جیسے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جذب حاصل کر نے بعد دس مقامات کو تفصیل سے طے کرنا ہے۔ صرف تبلیغ میں وقت گزارتے رہنے سے اصلاح نہیں ہوتی۔ یہ ان کا بہت بڑا دعویٰ ہے جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اصلاح کے لئے الگ لوگ ہیں اور علم کے لئے الگ لوگ ہیں۔ ہم تبلیغی جماعت میں چلے پھرے ہیں، وہاں ہمیں تربیت سے منع کیا جاتا تھا۔ مولانا مصطفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو رائیونڈ میں ہدایات دیا کرتے تھے۔ وہ ہدایات دے رہے تھے۔ فرمایا کہ بھائیو یاد رکھیں! کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی نیا آدمی آئے آپ سوچیں کہ اس کی تربیت کرتے ہیں تاکہ اس کا مجاہدہ ہو جائے اور اس کو ڈول پکڑا کے کہو کہ پانی نکالو۔ ہمارا کام تربیت کرنا نہیں بلکہ یہ مشائخ کا کام ہے۔ ہم صرف اکرام کریں گے۔ ایک اور بات بھی ہم نے حضرت سے سنی ہے۔ حضرت کار گزاری سن رہے تھے تو درمیان میں یہ بات فرمائی: بھائیو، بزرگو! ایک بات یاد رکھو! اگر تم کسی سے بیان میں کوئی بات سنو تو اس کو آگے جا کر بیان نہیں کرنا بلکہ اپنے علاقے کے علماء سے پوچھ کے کہ آیا یہ صحیح ہے یا نہیں، جب تسلی ہو جائے پھر آگے بیان کر سکتے ہو۔ پھر ہمیں سمجھانے کے لئے ایک آدمی کو اٹھایا اور کہا: گشت کے آداب بیان کرو۔ اب یہ بالکل بنیادی بات تھی، تبلیغی جماعت میں گشت کے آداب بیان کئے جاتے ہیں۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: گشت بہت اونچا عمل ہے۔ اس کے پہلے قدم پہ سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ حضرت نے روک دیا اور پوچھا: یہ کس سے سنا ہے؟ خدا کے بندے پوچھ لیا کرو۔ پھر فرمایا کہ سارے گناہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں، آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ گشت سے بہت سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، سارے گناہوں کا نہیں کہنا چاہیے۔ اگر کوئی کسی کو قتل کر دے اور ہمارے ساتھ گشت کر لے اور سوچے کہ میرا گناہ معاف ہو گیا تو ایسا نہیں ہو گا۔ معلوم ہوا علمی بات علماء سے پوچھنی ہے اور تربیت مشائخ سے کروانی ہے۔ لیکن آج کل بعض تبلیغی حضرات ان باتوں کو نہیں مانتے، وہ ان باتوں کو سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اس طرح اصلاح نہیں ہوتی۔ اصلاح اس وقت ہوتی ہے جب با قاعدہ اصلاحی طریقے سے ہو۔ تبلیغ اصلاح کا implementation تھا۔ جیسے مشائخ کیا کرتے تھے کہ اصلاح کروا کے پھر تشکیل کر دیتے تھے۔ یعنی پہلے اصلاح کروانی ہے، اس کے بعد اس کی implementation کروانی ہے۔ لیکن چونکہ آج کل ہمارے پاس کمی ہے چنانچہ مولانا مصطفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ایک طریقہ ہمیں سکھا دیا اور واقعی اس سے فائدہ ہوتا ہے۔
سخاکوٹ میں میرا ایک دوست کے پاس جانا ہوا ان کے ایک وکیل صاحب دوست تھے۔ وہ بھی آ گئے۔ انہوں نے مجھ سے کچھ باتیں کیں۔ بعد میں میرے دوست نے کہا کہ جب اس نے آپ سے سوال کرنا شروع کیا تو میں دل میں دعائیں کر رہا تھا کہ شاہ صاحب کو تنگ نہ کرے، کیونکہ یہ لوگوں کی زبان سے بات نکلواتا ہے اور کوئی بات مل جائے تو اس میں پھنساتا ہے۔ اس وکیل نے مجھ سے پوچھا تھا کہ تبلیغی جماعت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: سبحان اللہ اس سے بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ البتہ ایک بات کو سمجھنا ضروری ہے۔ مثلاً کسی جگہ وبا آ گئی جس سے بہت سارے لوگ مرنے لگے۔ ڈاکٹر جمع ہو گئے اور انہوں نے علاج کرنا شروع کیا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ مریض زیادہ تھے اور ہسپتال بھی کم تھے۔ اس وجہ سے پریشانی بڑھی اور علاج پورا نہیں ہو سکا۔ پھر ڈاکٹروں نے کمپوڈرز کو training دے دی کہ تم لوگ فلاں فلاں کام کر لو جس کی یہ یہ نشانیاں ہیں۔ اگر یہ مسئلہ ہو تو یہ گولیاں دو وغیرہ۔ وہ چونکہ اسی field سے تھے تو جلدی سیکھ گئے۔ لیکن کمپوڈر بھی تھوڑے تھے اور پھر بھی کام نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور شہر سے ہوشیار سمجھدار لوگوں کو بلایا اور ان کو دس دن training دی۔ وہ چونکہ بہت زیادہ تعداد میں تھے تو وبا کنٹرول ہو گئی۔ اب آخر والے لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں سے ہوا نہ کمپوڈر سے ہوا، ہم لوگوں نے کنٹرول کیا۔تو ان کی بات صحیح ہو گی؟ کہتے ہیں: ان کی بات غلط ہو گی کیونکہ اگر ڈاکٹر نہ ہو تو کمپوڈر اور ان لوگوں کو کون سکھاتا؟ ان سے سیکھ کر ہی لوگوں نے کام کیا۔ صرف تعداد میں چونکہ وہ زیادہ تھے implementation میں فائدہ ہوا۔ میں نے کہا تبلیغی جماعت بھی ایسی ہی ہے۔ اس سے جو فائدہ ہو رہا ہے وہ ان بزرگوں کی برکت سے اور علماء و مشائخ کی برکت سے ہو رہا ہے لیکن لوگوں کو سمجھ نہیں آئی اور وہ ان کو اپنا مقابل سمجھتے ہیں۔ اگر بزرگوں کو ان سے نکال دو تو پھر یہ لوگ جہالت ہی پھیلائیں گے۔ وہ سمجھ گیا اور کہا: شاہ صاحب! بالکل صحیح مثال دی ہے۔ چنانچہ اگر ہم یہی چیزیں جان لیں تو پھر کوئی مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی برکات سارے ساتھیوں کو جو تبلیغ میں پھر رہے ہیں نصیب فرمائے۔ ہماری دلی دعا ہے کہ جلد سے جلد یہ اپنے پاؤں پر ایسے ہی کھڑے ہو جائیں جیسے حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں تھے اور مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں ایک سہ روزہ سے جتنا فائدہ ہوتا تھا آج کل سال لگانے سے بھی نہیں ہوتا۔ اس کی کچھ تو وجہ ہے۔ ہمیں اس طریقے پر دوبارہ آنا ہو گا۔ اللہ جل شانہٗ سے دعا ہے کہ جتنے بھی دینی کام، جہاں جہاں جو بھی کر رہے ہیں ان کو قبولیت نصیب فرمائے اور صحیح طریقے سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ