اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر لڑتی رہے گی اور اپنے دشمن پر غالب رہے گی اور جو کوئی ان کی مخالفت کرے گا، وہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس حدیث شریف میں جس اہل حق جماعت کا ذکر ہے اس کی پہچان اس دور میں کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ اہل حق تو دین کے ہر شعبہ میں ہوں گے۔
جواب:
یقیناً اہل حق سے مراد یہ ہو گا کہ ان کا عقیدہ اور ان کے اعمال صحیح ہوں اور ان کی جہاد کی نیت بھی خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے سمجھا نہ جا سکے، گویا ہر شخص کے عمل سے اس کا پتا چل جاتا ہے لہذا عقیدے کا بھی پتا چل جاتا ہے کہ ان کا عقیدہ اہل سنت و جماعت والا ہے یا نہیں ہے۔ اور عمل کا بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ عمل کرنے والے ہیں یا نہیں۔ مثلاً عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق میں اسلام کی پیروی کرتے ہیں یا رواج کی پیروی کرتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ان کی جہاد کی نیت کیا ہے؟ آیا صرف کسی جگہ پر قبضہ کرنا ہے یا اپنا دفاع کرنا ہے یا پھر اسلام کی سربلندی کے لئے قربانی دینا ہے۔ یہ ساری باتیں واضح ہیں۔ ہم کیوں کسی کا نام لیں کہ اس سے مراد فلاں جماعت ہے کیونکہ سب چیزیں واضح ہیں، لوگ پہچان سکتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے ساتھ کر دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن