اثر پزیر دل اور حق کے قبول کرنے کی استعداد

سوال نمبر 508

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف سیرت النبیﷺ کے حصہ چہارم میں عربوں کی کچھ صفات بیان فرمائی ہیں، جن میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ عرب کسی مذہب یعنی یہودیت، عیسائیت، مجوسیت، ہندو مت وغیرہ کے پیروکار نہیں تھے، بلکہ اپنے آپ کو دین ابراہیمی کا پیروکار کہتے تھے۔ وہ دیگر مذاہب کی آلائشوں سے محفوظ تھے، اس وجہ سے وہ آپ ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے کے لئے ایک طرح سے تیار تھے۔ یہاں سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ جو قوم دیگر اقوام کے اثرات سے محفوظ ہو ان میں قبول حق کی استعداد زیادہ ہوتی ہے۔ کیا اس دور میں بھی اسی طرح ہے، کہ جو فرد یا قوم دیگر افراد یا اقوام کے اثرات سے محفوظ ہو تو وہ حق کو جلدی قبول کرتی ہے؟

جواب:

انسان کی اپنی جو جہالت ہوتی ہے اس کا علاج علم ہوتا ہے، مثال کے طور پر ہمارے ہاں کچھ فرقے ایسے ہیں جو علمی لحاظ سے گمراہ ہیں، یعنی وہ قرآن و حدیث اور یہ ساری چیزیں پڑھتے ہیں، لیکن اس میں غلط چیزیں انہوں نے بنائی ہوئی ہیں، ان کا علاج بہت مشکل ہے، آپ سمجھانا چاہیں گے تو وہ آپ کے ساتھ بحث کریں گے، بلکہ الٹا آپ کو غلط کہیں گے، کسی طریقے سے ان کو بات سمجھ نہیں آئے گی، لیکن جو جاہل قسم کے لوگ ہیں، جو کچھ نہیں جانتے، غلط رسموں میں پڑے ہوئے ہیں، غلط باتیں کرتے ہیں، جہالت میں پڑے ہوئے ہیں، ایسے لوگ جب شہروں میں آ جاتے ہیں اور ان کو علماء کی مجلس نصیب ہو جاتی ہے، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نصیب ہو جاتا ہے تو تھوڑے دنوں میں وہ جان لیتے ہیں، بس وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں، یعنی ان کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ چیز صحیح ہے اور یہ چیز غلط ہے۔ اس طرح جو عرب تھے وہ بالکل اجڈ تھے، وہ اہل کتاب نہیں تھے، ان کے پاس کتاب کا علم ہی نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہود جو اہلِ کتاب تھے یہ جب اوس و خزرج کے ساتھ لڑتے تھے تو ان کو کہتے تھے کہ ایک پیغمبر آئے گا، ہم ان کے ساتھ ہوں گے اور پھر تمہیں ماریں گے۔ یہ بات ان کو بھی پتا چلی کہ آخری پیغمبر ﷺ نے آنا ہے۔ جب ان کو آپ ﷺ کا پتا چلا، اور آپ ﷺ کی صفات دیکھیں، اور آپ ﷺ کے اخلاق دیکھے، تو انہوں نے کہا یہ تو وہی نبی ہے، تو وہ ایمان لے آئے۔ دوسری طرف یہود کو جب پتا چلا کہ یہ تو بنی اسماعیل سے ہیں تو ان کو حسد ہو گیا کہ ہماری قوم میں سے کیوں نہیں آئے، تو انہوں نے نہیں مانا، مخالفت کی، اب معاملہ الٹا ہو گیا، جو ایمان لانا چاہتے تھے، جن کو علم تھا، وہ ضد، غصے اور حسد کی وجہ سے محروم ہو گئے، اور جو جاہل تھے، جن کو کچھ پتا نہیں تھا، اہل کتاب نہیں تھے، ان کو جب پتا چل گیا کہ یہ تو وہی ہیں، تو وہ ایمان لائے اور انہی اوس و خزرج نے یہود کو مار دیا۔ تو اس کا مطلب ہے کہ جو پڑھی لکھی جہالت ہے وہ زیادہ خطرناک ہے، اور ان کو سمجھانا بڑا مشکل کام ہے، اور جو جاہل لوگ ہیں جو نہیں جانتے ان کو ہدایت ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے طائف کے موقع پہ جو دعا کی تھی اس میں یہی کہا تھا یا اللہ! یہ نہیں جانتے، یہاں تک فرمایا کہ اگر ان میں کوئی ایمان نہیں لائے گا تو ممکن ہے ان کی اولاد میں لے آئے، تو ان کے لئے بد دعا نہیں فرمائی بلکہ دعا کی، حالانکہ انہوں نے آپ ﷺ کو بہت زیادہ تکلیف پہنچائی تھی، چونکہ آپ ﷺ کو پتا تھا کہ یہ جاہل ہیں، اور جاہلوں کو جب صحیح بات کا علم ہو جائے گا تو وہ مان جائیں گے۔ پس جو پہلے سے علمی گمراہی میں ہوں ان کا علم ان کو روک دیتا ہے، جیسے شیطان ہے، اس کو کون سی چیز سمجھائیں گے، آپ کونسی دلیل دیں گے؟ وہ ساری چیزیں خود جانتا ہے۔ اس کی گمراہی کا source حسد ہے، چنانچہ حسد تو اس کے ساتھ ہے، وہ تو ختم نہیں ہوا، تو کیسے مانے گا؟ اسی طرح یہود بھی ہیں، ان کے ساتھ بھی یہی source ہے، حالانکہ جانتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ﴾ (البقرۃ: 146) ترجمہ: "وہ اس کو اتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں" چونکہ عیسائی ان چیزوں کو نہیں جانتے، وہ گمراہ ہیں، اس لئے ان میں زیادہ لوگ مسلمان ہوتے ہیں۔ ہمارے حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے ایک ہوتی ہے کچی روٹی، ایک ہوتی ہے جلی روٹی، کچی روٹی کا علاج تو ہے کہ آپ اس کو آگ پر رکھ دیں تو پک جائے گی، اور آپ اس کو کھا سکیں گے، لیکن جلی روٹی کے ساتھ کیا کریں گے؟ فریج میں رکھیں گے تو بھی ٹھیک نہیں ہو گی ظاہر ہے وہ تو کسی طریقے سے بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ پس یہی بنیاد ہے، عرب قوم بالکل کسی طرف بھی نہیں تھی، گویا لَآ اِلٰہَ والی بات کے قریب تو تھے ہی، بس اِلَّا اللہ والی بات باقی تھی۔ وہ بت پرست ضرور تھے، لیکن وہ جہالت کی وجہ سے تھے، ان کو اپنے دنیاوی مفادات ان میں نظر آتے تھے کہ اس سے ہمارے مسائل حل ہوتے ہیں، لیکن جب ان کو پتا چلتا تو سب سے زیادہ مخالف بت پرستی اور شرک کے وہی ہوتے تھے، کسی طریقے سے بھی پھر وہ اس طرف نہیں آتے تھے۔ اس لئے ہم لوگوں کو حق کا متلاشی ہونا چاہیے، اور اپنے علم اور اپنے تقوی پر ناز نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنا چاہیے، اللہ پاک ان چیزوں کو ہمارے لئے حق سے آڑ نہ بنا دے، بلکہ ان کو ہمارے لئے خیر کا ذریعہ بنا دے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو حقیقی سمجھ عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن