اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کی ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا اور بے وقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو کھلا چھوڑا اور بغیر توبہ کے اللہ سے مغفرت کی امید کرتا رہا۔ اس حدیث شریف میں نفس اور عقل کی بات ہوئی ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نفس کو قابو کرنے کے لئے عقل کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لیکن صوفیاء کے ہاں طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ پہلے دل پر محنت کرائی جاتی ہے اور پھر دل کے ذریعے نفس کو قابو کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے عقل کی اہمیت بیان فرمائی ہے تو کیا اصلاح نفس کے لئے نفس کو عقل کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
صوفیاء حضور ﷺ کی بات کے خلاف نہیں کر سکتے۔ البتہ ذرا بات سمجھ میں صحیح نہیں آئی ہو گی۔ در اصل آپ پہلے جذب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ جذب آپ کیوں شروع کر رہے ہیں، یہ کس کا فیصلہ ہے؟ یقیناً یہ عقل کا فیصلہ ہے۔ پہلے انسان عقل کے ذریعہ convince ہوتا ہے کہ مجھے اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اس کے بعد دو قسم کے طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ direct نفس کی اصلاح یعنی سلوک طے کروانا شروع کر دے یا پھر پہلے دل میں جذب پیدا کرے، جذب نفس کو قابو کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ اگر کسی کو جذب حاصل ہو جائے تو اس کو بھی عقل سے کنٹرول کرنا ہوتا ہے کہ کس چیز کے لئے استعمال کرنا ہے اور کس چیز کے لئے استعمال نہیں کرنا۔ کیونکہ اگر وہ جذب کو اس چیز کے لئے استعمال کرنا شروع کر دے جس کے لئے مجذوب متمکن کرتا ہے تو وہ بے وقوف ہے۔ کیونکہ اس نے اتنی بڑی چیز کو چھوڑ دیا اور ایک دنیاوی چیز میں پھنس گیا۔ آیا تھا دنیا سے دور ہونے کے لئے اور دنیا میں ہی آ کر پھنس گیا۔ معلوم ہوا عقل استعمال نہیں ہوئی کیونکہ اگر عقل استعمال کرتے تو مجذوب متمکن نہ بنتے۔ اللہ پاک نے بڑا کرم کیا ہے کہ ہمیں ایسے سلسلے کے ساتھ ملایا ہے جس نے عقل کی قدر کی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے عقل کی اتنی زیادہ قدر کی ہے کہ اس کے بارے میں لوگوں کی confusions کو با قاعدہ عقلی دلائل کے ذریعہ سمجھایا ہے۔ ”تربیت السالک“ یا ”مواعظ“ پڑھیں تو اندازہ ہو گا کہ ایک ایک چیز کو عقل کی کسوٹی پہ چلا رہے ہیں، لیکن حق کے لئے۔ کیونکہ عقل کو غلط کام اور مخالفت کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جیسے atheist وغیرہ بھی اپنی عقل کو استعمال کر تے ہیں۔ یونانی فلاسفہ کا جواب علم کلام والے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یونانی فلاسفر عقل ہی استعمال کرتے تھے اور علم کلام والے ان کی عقل کا توڑ کر لیتے تھے۔ چنانچہ اس معاملے میں balance بہت ضروری ہے۔ جیسے انسان کے اوپر عقلیت بہت زیادہ غالب ہو جائے اور اس کے اندر حب والی کیفیت کی جو طاقت اور جذبی حالت ہے، اس کی نا قدری کرنے لگے تو اس وقت اس کو عشق کی بات بتانی پڑتی ہے۔ کیونکہ ہر جگہ عقل کی بات نہیں چلتی۔ علامہ اقبال نے غالباً کسی ایسے ہی موقع پہ کہا ہو گا کہ:
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
یعنی کچھ مواقع ایسے ہیں جہاں پر عقل کی بات نہیں چلتی۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس balance یعنی Technically speaking کے بارے میں بات کی ہے۔ انہوں نے عقل، نفس اور دل تینوں کا balance لوگوں کو سمجھایا ہے کہ عقل بھی important ہے، دل بھی important ہے اور نفس بھی important ہے۔ یعنی نفس کی اصلاح بھی important ہے۔ پھر حضرت نے ایک عجیب analysis بیان کیا۔ فرمایا کہ ان کی بنیادی اصلاح تو balance ہی ہے لیکن اللہ پاک نے بعض لوگوں کو اہل قلب بنایا ہوتا ہے۔ یعنی ان کے اوپر قلب کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ بعض نفس کو زیادہ کنٹرول کر سکتے ہیں، بعض نفس کے اوپر زیادہ حاکم ہوتے ہیں، بعض لوگ عقل سے زیادہ کام لے سکتے ہیں۔ یعنی یہ speciality ہے جو ہر ایک کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ فرمایا: پھر ان میں جن کے اوپر عقل کا غلبہ ہوتا ہے وہ علمائے راسخین بن جاتے ہیں۔ ان کی تعریف بھی قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ اور جن کے اوپر قلب کا زیادہ اثر ہوتا ہے وہ صدیقین بن جاتے ہیں اور جن کو نفس کی صفائی زیادہ حاصل ہو جاتی ہے ان کو زہاد کہتے ہیں۔ ہمارے سلسلے پہ اللہ پاک نے یہ مہربانی فرمائی کہ ہمیں تینوں سلسلوں کے ساتھ ملا دیا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا قلب والا معاملہ، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا عقل والا معاملہ اور کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا زہد والا معاملہ، یہ تینوں الحمد للہ ہمارے اس سلسلے کو سیراب کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے اس میں ایک Natural balance ہے ورنہ اگر آپ کسی اور جگہ جائیں تو کسی پر الگ غلبہ ہو گا اور کسی پر الگ غلبہ ہو گا۔ ایک کوئی اور بات کریں گے، دوسرے کوئی اور بات کریں گے۔ وہ غلط نہیں ہوں گے بلکہ غلبے کی بات ہو گی۔ لیکن افضل چیز balance ہے تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ ہر چیز کا اپنا رول ہے۔ عقل کو بھی استعمال کرو لیکن اسے آزاد نہ چھوڑو۔ دل کو بھی محبت کے ساتھ آشنا کرو لیکن عقل سے کام لیتے ہوئے۔ اور نفس کو بھی قابو کرو لیکن خشکی کے ساتھ نہ ہو۔ یہ تمام چیزیں اپنا اپنا اثر رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ