سائنس اور روحانی حفاظت

سوال نمبر 522

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْد! بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں صفحہ 302 پر عرب معاشرے کے حالات میں قبائل کی خانہ جنگیوں کے عنوان ميں فرماتے ہیں: مدینہ میں اوس و خزرج دو قبیلے تھے۔ اسلام سے پہلے دونوں لڑ لڑ کر تھک گئے تھے۔ اسلام کی آواز آئی تو دونوں نے ایک ساتھ لبیک کہا۔ تاہم قبیلہ اوس کا ایک ایک فرد اگر ہمہ تن اخلاص و پُر جوش تھا تو خزرج میں بیسیوں منافق تھے۔ انتہاء یہ کہ اسلام میں ہجرت سے پہلے دونوں قبیلوں کی نماز کی امامت کے لئے باہر سے ایک تیسرے قبیلے کا آدمی بلوایا گیا تھا کہ خدا کے سامنے یہ بھی ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہونے ميں عار تھا۔ حضرت سید سلیمان ندوی نے یہاں عرب معاشرے کی جس حالت کا تذکرہ فرمایا ہے اس کی کچھ جھلک ہمارے معاشرے میں بھی پائی جاتی ہے۔ اگر کسی خاندان کی یا اُس خاندان کے کسی فرد کی مسجد کے امام کے ساتھ کسی دنیوی معاملے پہ لڑائی ہو جائے تو اُس امام کے پیچھے نماز پڑھنا اُس شخص کے لئے بڑی ہی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اُس کے قریبی رشتہ داروں کا بھی اُس امام کے پیچھے نماز پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اُس محلے میں وہ اپنے لئے ایک الگ مسجد بنا لیتے ہیں۔ اس قسم کے مسائل جو ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں اُس کے لئے ہمیں آپ ﷺ کی سیرت سے کیا حل ملتا ہے؟

جواب:

اللہ کے لئے نماز پڑھنی ہے کسی اور کے لئے نہیں پڑھنی۔ اور پھر اللہ پاک کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پڑھنی ہے اور اس میں اللہ جل شانہٗ کے احکامات کو ماننا ہے جو آپ ﷺ کے ذریعے ہمیں دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ چاہے فاسق اور فاجر ہو پھر بھی آپ اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ میرا حساب کر لے تو پتا نہیں کتنے گڑھے نکل آئیں، پھر میں بھی کسی کی جماعت نہیں کرا سکوں گا۔ اور اگر مجھے اپنے بارے میں نیک گمان ہے کہ اللہ پاک معاف فرما دیں گے کیونکہ کمزوریاں ہر انسان میں ہوتی ہیں۔ چنانچہ یہی latitude مجھے دوسروں کو بھی دینا چاہیے، ان کے ساتھ بھی اللہ پاک کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ تو یہ والی بات ختم ہو گئی کہ کسی کے فاسق فاجر ہونے کی وجہ سے کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا درست نہیں۔ مثال کے طور پر جس امام کے مخالف ہیں اس کے اندر اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بہت ساری برائیاں ہیں تو ان کی وجہ سے ہم اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے نہیں رک سکتے۔ اگر ہم اس طرح کریں گے تو کسی کے پیچھے بھی نماز نہیں پڑھ سکیں گے۔ یہ ہماری requirement نہیں ہے کیونکہ ہم اللہ کے حکم کے مطابق نماز پڑھ رہے ہیں۔ اپنے نفس کے لئے نہیں پڑھ رہے۔ اگر کسی ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنی ہو جس کے ساتھ میرا کچھ بغض ہو اور میرا دل اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو نہ چاہے لیکن میں اپنے بغض کو چھوڑ کے اللہ کے لئے اس کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں تو اس میں اجر بڑھ جائے گا۔ چنانچہ بھائی چارے والی فضا جو اسلام نے قائم کی ہے اور آپ ﷺ کے مدینہ جانے کے بعد وجود میں آئی تھی، ہمیں بھی یہاں وہی طریقہ کار اختیار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ زمانہ جاہلیت میں اس طرح کی مخالفتیں بڑی عروج پر تھیں۔ نفسا نفسی والا معاملہ تھا۔ لیکن جس وقت اللہ جل شانہ نے ان کے درمیان الفت پیدا کی اور دینی محبت پیدا ہو گئی تو پھر بات بدل گئی۔ ہمارا پاکستان مختلف النوع قوموں سے وجود میں آیا ہے۔ اس میں پٹھان بھی ہیں، بلوچ بھی ہیں، پنجابی بھی ہیں، سندھی بھی ہیں۔ پھر ان کی cast بھی ہیں۔ پٹھانوں میں یوسف زئی بھی ہے، خٹک بھی ہے۔ اسی طرح پنجابیوں میں مختلف خاندان ہیں۔ اگر ہم لوگ بغض کی بنیاد پر ایسا کریں تو یہ ملک نہیں رہ سکتا۔ ملک میں اپنی انفرادیت بے شک قائم رکھو لیکن اس انفرادیت کو اجتماعیت کے مقابلے میں نہ لاؤ۔ اجتماعیت کے وقت انفرادیت کو support کے لئے استعمال کرو۔ مثال کے طور پر پنجابی میں ایک صلاحیت نہیں ہے اور پٹھان میں ہے۔ تو پٹھان کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ اسی طرح اگر پٹھان میں نہیں ہے اور پنجابی میں ہے تو پنجابی اس کی مدد کے لئے آ جائے۔ کیونکہ اللہ پاک نے جس طرح مختلف علاقوں میں وسائل تقسیم کئے ہیں اسی طرح capabilities بھی تقسیم کی ہیں۔ سب کو اللہ پاک نے اپنے اپنے طور پر صلاحیتیں دیں ہیں۔ سب اکٹھے رہیں گے تو ایک دوسرے کو support کریں گے اور اگر علیحدہ علیحدہ رہیں گے تو کسی کا کام بھی پورا نہیں ہو گا۔ معاشرے کا ہر شخص دوسرے کا محتاج ہے۔ اس کے لئے اللہ پاک نے پیسے کو ایک میڈیم بنایا ہے جس کے ذریعے ایک دوسرے کی صلاحیتیں اور ان capabilities، ان کے تجربات یا تعلیم کے فوائد وغیرہ خریدتے ہیں۔ تاجر کا اپنا کام ہے، ڈاکٹر کا اپنا کام ہے، انجینئر کا اپنا کام ہے حتیٰ کہ سوئپرز کا اپنا کام ہے۔ آپ کسی کو بھی معاشرے سے exclude نہیں کر سکتے ورنہ آپ کا وہ کام نہیں ہو گا جو ان کے ساتھ وابستہ ہے۔ مثلاً آپ معاشرے سے سوئپروں کو نکال دیں، پھر آپ کو خود سوئپر بننا پڑے گا۔ اگر آپ ڈاکٹروں کو نکال دیں تم پھر آپ کو خود ڈاکٹر بننا پڑے گا۔ انجینئر زکو نکال دیں تو انجینئر بننا پڑے گا۔ دکان داروں کو نکال دیں تو سودا سلف خود مارکیٹوں سے اور بازاروں سے لانا پڑے گا۔ چنانچہ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہے، سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جس کی تنخواہ زیادہ ہے لوگ اس کے زیادہ محتاج ہیں۔ سونا مہنگا ہے لیکن لوہے کی محتاجی زیادہ ہے۔ کیونکہ سونا کم ہے اس لئے مہنگا ہے۔ ورنہ لوہے کو exclude کر لو اور سب کچھ سونے سے بناؤ۔ سب کچھ بن جائے گا۔ معلوم ہوا سب چیزوں کا اپنا اپنا نظام ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو کسی کی بھی نا قدری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ سارے لوگ مکمل نہیں ہیں۔ آپ ضرور دوسرے کی طرف احتیاج کی نظر لڑائیں گے۔ تو بجائے اس چیز کو انتشار کا باعث بنانے کے اس کو اتحاد کا باعث بناؤ اور ہر ایک کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاؤ۔ ورنہ شیطان اور نفس کی حکمرانی ہو گی اور تباہی و بربادی ہو گی۔ طالبان کے آنے کی وجہ یہ بنی تھی کہ بہت سارے warlords تھے اور انہوں نے جگہ جگہ حکومتیں بنائی ہوئی تھیں اور ہر ایک نے chain لگایا ہوتا تھا اور اپنی مرضی سے ٹیکس لیتے تھے۔ طالبان نے accidentally یہ کام شروع کیا اور اس کا لوگوں کو بڑا فائدہ ہوا۔ کیونکہ لوگ یہی چاہتے تھے۔ چنانچہ جہاں جہاں طالبان کی حکومت ہوتی وہاں لوگوں پہ بوجھ کم ہوتا گیا۔ بس لوگ ان کو support کرنے لگے اور warlords بھاگنے لگے۔ اس وقت غالباً 78یا 80% افغانستان پہ قبضہ ہو گیا تھا اور اب تقریباً %100 پہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ اگر ہم اجتماعیت کی طرف آئیں تو اس میں سب کا فائدہ ہے ورنہ نقصان ہی نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ