اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال:
احادیث شریفہ میں دعا مانگنے کے بارے میں بہت تاکیدی احکامات آئے ہیں اور ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک بندہ بے صبری نہ کرے۔ یعنی دعا کی قبولیت میں تاخیر ہونے سے دعا چھوڑ نہ دے۔ حضرت جی انسان کمزور ہے اور بے صبر بھی، جس کی وجہ سے انسان اپنی دعا کی قبولیت جلد چاہتا ہے اور جب اللہ تعالی کسی مصلحت سے اس کی دعا قبول کرنے میں تاخیر کرتا ہے تو شیطان انسان کو ورغلاتا ہے اور اللہ تعالی سے دور کراتا ہے۔ ایسی صورت میں انسان بے صبری سے کیسے بچ سکتا ہے؟ اور دعا کے بظاہر قبول نہ ہونے پر کیسے اپنی دعائیں جاری رکھ سکتا ہے۔ اس کے لئے عملی ترتیب کیا ہو سکتی ہے؟
جواب:
اگر انسان کا آخرت پر یقین مضبوط ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہے اور قرآن کو ایک سچی کتاب مانتا ہے اور احادیث شریفہ میں آپ ﷺ کے اقوال پر بھی اس کو یقین ہے تو ایسی صورت میں بے صبری طبعی ہو سکتی ہے، عقلی نہیں ہو سکتی۔ اس کی بہت عمدہ مثال ہے کہ جب انسان کو خارش ہوتی ہے تو اس سے بہت تنگ ہوتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنی زیادہ خارش کرو گے اتنی ہی بڑھے گی۔ اب عقل کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خارش نہ کرے، برداشت کرے تاکہ وہ نہ بڑھے، کیونکہ خارش کرنے سےخارش بڑھتی ہے بلکہ بعض دفعہ اگر زخم نہ ہو تو زخم ہو سکتا ہے اور اگر ہو جائے تو وہ بگڑ سکتا ہے۔ چنانچہ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ خارش نہ کریں لیکن طبیعت کا تقاضا یہ ہے کہ خارش کریں۔ اب جس نے عقل کو طبیعت پر غالب کر دیا وہ بچ گیا اور جو طبیعت پر عقل کو غالب نہیں کر سکا تو اپنی مصیبت کو دعوت دے دی وہ آگے بڑھے گا۔ اسی طرح طبعی بے صبری کو عقلی صبر کے ذریعے سے control کریں۔ یعنی عقل سے اس کو جواب دیں کہ اللہ کی بات سچی ہے اور مجھے اپنا فائدہ سوچنا چاہیے، مجھے مسلسل دعا کرنی چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ یہاں اس کا نتیجہ نہیں نکلے گا لیکن قیامت میں اس کا اجر محفوظ رہے گا اور اس وقت مجھے زیادہ چاہیے۔ لہذا اگر اللہ پاک نے میرے لئے یہی فیصلہ کیا ہے کہ مجھے سارا کچھ وہیں مل جائے تو میں کیوں اپنے اجر کو کم کروں؟ مسلسل دعا کرتا رہے۔ تو انسان کو دو کاموں میں سے ایک کام ضرور کرنا چاہیے۔ اپنے ایمان اور یقین کو مضبوط کر لیں تو اس سے عقلی استحضار ہو گا کیونکہ یقین عقل سے آتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے طبیعت کو control کر لو، یہ shortcut ہے۔ اصل چیز پورے سلوک کو طے کرنا ہے جس میں مقام صبر کو حاصل کرنا ہے جو پورا ایک مقام ہے۔ پھر اس میں مقام توکل بھی آتا ہے، پھر اس میں مقام تسلیم بھی آتا ہے اور اس میں مقام رضا بھی آتا ہے۔ یہ سارا اس کا علاج ہے۔ اگر کسی کو مقام صبر مل گیا تو صبر کرے گا۔ مقام توکل ملے گا تو کہے گا اللہ پاک جہاں سے بھی چاہے تو کر سکتا ہے۔ اگر مقام تسلیم ملے گا تو ساری چیزوں کو دل سے مان لے گا۔ مقام رضا میں تو یہ سوال ہی ختم ہو جائے گا۔ تفصیلی اور اصل طریقہ سلوک طے کرنا ہی ہے اور shortcut یہ ہے کہ وقتی طور پر اپنے عقلی یقین کو طبعی بے صبری کے اوپر غالب کرنا۔ وقتی طور پر ایسا ہو سکتا ہے۔
دونوں باتیں وقتی ہوتی ہیں یعنی دل سے جو signal نفس کی طرف جاتا ہے یہ بھی وقتی ہوتا ہے اور عقل سے جو signal نفس کی طرف جاتا ہے وہ بھی وقتی ہوتا ہے، کیونکہ نفس ایسی چیز ہے جو وقتی طور پر عقل سے convince بھی ہو سکتا ہے اور وقتی طور پر دل سے دب بھی سکتا ہے لیکن بعد میں یہ ان سب چیزوں کو ہضم کر لیتا ہے اور اپنا زور دکھاتا ہے۔ اس وقت پھر عقل بھی کام نہیں کرتی اور دل بھی اس طرف مائل ہوتا ہے۔ معلوم ہوا اصلی علاج یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخیار جو اپنی عقل کے ذریعے اپنے احوال کو control کرتے ہیں، وہ مستقل نہیں ہوتے ان کو بار بار کرنا پڑتا ہے، جو طریقہ لمبا بھی ہے اور مشکل بھی ہے اور زیادہ لوگ یہی کرتے ہیں، البتہ اس میں کم کامیاب ہوتے ہیں۔ اور ابرار کا طریقہ جو پورا سلوک طے کرتے ہیں وہ لوگ ما شاء اللہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کے اوپر محنت کرتے ہیں اور اصل بات نفس ہی کو control کرنا ہے، گویا کہ نفس کو قابو کرنا چاہیے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان کی منزل طے ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ نصیب فرما دے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِين