گناہ اور اللہ کی مغفرت کی حدیث کی وضاحت

سوال نمبر 520

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال:

جب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی ایک حدیث تم سے چھپا رکھی تھی۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو تمہاری جگہ اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق کو پیدا فرمائے جو گناہ کرے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں وہ ان کی مغفرت فرما دے۔ مسلم شریف کی حدیث۔ آپ ﷺ کی دیگر احادیث شریفہ سے اور قرآن پاک کی متعدد آیات سے گناہوں سے بچنے کی تاکید معلوم ہو رہی ہے جس سے مذکورہ حدیث شریف بظاہر متعارض معلوم ہو رہی ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں؟ اس حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی صفات غفور و رحیم اور کریم اور اس قسم کی دیگر صفات کی انتہا کی طرف اشارہ ہے۔

جواب:

اصل میں اللہ جل شانہ کی جتنی بھی صفات ہیں اللہ تعالیٰ ان کے فاعل ہیں اور مخلوق اس کی مفعول ہے۔ یعنی مخلوق کے اوپر وہ صفات ظاہر ہوں گی۔ اس حدیث شریف کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ گناہ کریں بلکہ اس کا مطلب ہے یہ کہ گناہ گار مایوس نہ ہوں۔ یعنی اگر گناہ گار ہے تو توبہ کر کے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے تو اللہ جل شانہ اپنی رحمت کا اور اپنی عفو کا اور اپنے کرم کا ظہور فرما دے گا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِؕ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ (الزمر: 53) میں نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ حضرت! ہمارے حال تو ایسے ہیں ہم بہت غلطیاں کرتے ہیں وغیرہ۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ آیت کس کی طرف سے ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی طرف سے ہے۔ فرمایا: اس میں ”جَمِیعًا“ اللہ تعالیٰ کا ہے یا میرا یا آپ کا ہے؟ میں نے کہا: یہ اللہ پاک نے فرمایا ہے۔ فرمایا: اگر اللہ پاک معاف کرنا چاہے تو کیا اس کے جَمِیعًا سے کوئی چیز بچ سکتی ہے؟ معلوم ہوا انسان توبہ کی طرف جلدی کرے، یہ اللہ پاک نے مسلمان کو انتہائی درجے کا مؤثر ہتھیار دیا ہے۔ اس کے ذریعے انسان آن کی آن میں کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ Normal routine اور قانون یہ ہے کہ اگر کوئی Zero point سے A پہ چلا جائے جبکہ اس کو جانا B پہ تھا جو اس کے بالکل Opposite direction میں تھا۔ Normal routine میں یہ ہے کہ وہ A سے پہلے zero پہ آئے گا اور zero سے پھر B پہ جائے گا، یہی تعلق ہے۔ لیکن آخرت اور اعمال کے لحاظ سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ جو A پہ پہنچ جائے اور حقیقی معنوں میں توبہ کر لے تو A پہ جتنا distance اس نے cover کیا وہ سارے کا سارا B کی طرف count ہو جائے گا۔ مثلاً ایک جنرل کی پوسٹ تک پہنچنے میں کتنا time لگتا ہے اور کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کتنی مشکلات جھیلی پڑتی ہیں۔ اس نے اپنے جنرل ہونے کے لحاظ سے بڑے ظلم کئے ہیں اور اب اس کو پتا چل گیا کہ میں نے بڑا ظلم کیا ہے اور مجھے اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا، وہ توبہ کر لے اور صحیح نیک انسان بن کر نیک جنرل بن جائے۔ اب جنرل بننے میں اس نے جتنی بھی تکلیفیں اٹھائی ہیں وہ ساری کی ساری اس میں count ہو جائیں گی اور وہ اس مقام پہ پہنچ جائے گا جیسے ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ معلوم ہوا ہم لوگوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ مایوسی کفر ہے اور ہمیں ہر وقت توبہ کرتے رہنا چاہیے اور یہی شیطان کے لئے بہت بڑا challenge ہوتا ہے۔ بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ جس وقت توبہ کے احکامات آ گئے تو شیاطین رونے لگے کہ یہ کیا ہو گیا؟ ہم صبح سے لے کے شام تک لوگوں سے گناہ کرواتے رہیں گے اور شام کو وہ توبہ کر لیں گے تو سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ ہماری ساری محنت رائیگاں ہوتی جائے گی۔ بڑے شیطان نے ان سے کہا: کوئی بات نہیں ہم ان کو وہ گناہ، گناہ سمجھنے ہی نہیں دیں گے۔ جب گناہ نہیں سمجھیں گے تو توبہ بھی نہیں کریں گے بلکہ صحیح لوگوں کو غلط کہیں گے۔ آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے کہ صحیح لوگوں کو غلط کہا جا رہا ہے حالانکہ وہ صحیح ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ اول تو گناہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر آپ کا خیال ہے کہ بعد میں توبہ کر لوں گا اور شیطان کہتا بھی ہے کہ بعد میں توبہ کر لینا تو آپ کو کیا پتا آپ کی زندگی بھی ہو گی یا نہیں؟ عین گناہ کی حالت میں اگر کسی کو موت آ جائے پھر کیا کرے گا؟ زنا کی حالت میں اگر کسی کو موت آ جائے تو وہ بے ایمان مر جاتا ہے کیونکہ اس وقت اس سے ایمان اٹھا ہوتا ہے، اس وقت اس کے ساتھ نہیں ہوتا۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ ڈاکے کے دوران کوئی مر گیا، کوئی زنا کے دوران مر گیا کوئی جھوٹ بولتے بولتے مر جائے، کوئی غیبت کرتے کرتے مر جائے، کوئی چوری کرتے کرتے مر جائے، بد نظری کرتے کرتے مر جائے۔ یہ ساری باتیں خطرناک ہیں۔ مثال کے طور پر آج کل موبائل پہ کوئی غلط چیز دیکھ رہا ہے اور اسی وقت اس کو موت آ جائے تو کیا ہو گا؟ یہ ساری باتیں ڈرانے والی ہیں اور اہل ایمان انہیں باتوں سے ڈرتے ہیں۔ اہل باطل ان چیزوں کا سہارا لے کر گناہ کرتے رہتے ہیں۔ اہل ایمان سے اگر غلطی سے کبھی ایسا ہو جائے تو فوراً توبہ کی طرف رجوع کرتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ اللہ معاف کرنے والے ہیں۔ اس بات کو اس رخ میں لینا چاہیے۔ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: حدیث شریف میں ہے کہ انسان نیک اعمال کرتا رہے، کرتا رہے، کرتا رہے کہ جنت کے ساتھ اس کا ایک بالشت فاصلہ رہ جائے گا پھر اچانک کوئی ایسا غلط کام کرے گا کہ سیدھا جہنم میں جائے گا۔ اسی طرح بعض لوگ جہنمیوں والے کے اعمال کرتے جائیں گے اور اچانک اسے وہ عمل نصیب ہو جائے کہ وہ جنت میں چلا جائے۔ ہم لوگ پھر کیا کریں سمجھ نہیں آتی، پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہو؟ حضرت نے پہلے شعر پڑھا:

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں

شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

پھر فرمایا: اسی حدیث شریف نے صحابہ کو صحابہ بنایا تھا اور تم لوگ اس کی وجہ سے اس طرح کمزور پڑے جا رہے ہو۔ یہ اس لئے ہے کہ جو نیک عمل کریں وہ اس پر اترائیں نہیں اور جو برے عمل کریں وہ مایوس نہ ہوں۔ وہ توبہ کی طرف جلدی کریں۔ بس یہی اس بات کا بھی مدعا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو صحیح باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين