مکی اور مدنی زندگی سے موجودہ دور کی رہنمائی

سوال نمبر 519

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال:

عصر حاضر میں آپ ﷺ کی مکی اور مدنی زندگی سے ہمیں کیا رہنمائی مل رہی ہے؟ یعنی کن حالات میں آپ ﷺ کی مکی زندگی ہمارے حالات سے زیادہ مطابقت رکھ رہی ہے اور کن حالات میں مدنی زندگی ہمارے حالات سے زیادہ مطابقت رکھ رہی ہے؟

جواب:

جس وقت انسان ایسی حالت میں ہو کہ وہ کھلے بندوں اپنے اعمال ادا نہ کر سکتا ہو تو وہ مکی زندگی کی طرح ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر افغانستان میں اسلامی امارات کا دور آنے سے پہلے مسلمانوں کے لئے جو حالات تھے ان میں ایسا ہی تھا۔ اب الحمد للہ وہاں پر صحیح اسلامی حکومت آ گئی ہے تو مدنی زندگی والی بات شروع ہو گئی ہے۔ اب ان کو اختیار اور آزادی ہے جس سے وہ سارے کام الحمد للہ اپنے اپنے طریقے کے مطابق کر سکتے ہیں۔ بہر حال اسلام چونکہ اب مکمل آ چکا ہے تو مکی اور مدنی زندگی کی بنیاد پر یہ عذر نہیں ہو گا کہ مجھے پتا نہیں تھا، میں کر نہیں سکتا تھا کیونکہ مثالیں موجود ہوتی ہیں۔ مثلاً پاکستان میں اگر کوئی کہتا ہے میں یہ عمل نہیں کر سکتا کیونکہ یہاں مشکل ہے جبکہ ایسے ہی لوگ یہاں پر موجود ہوں گے جو تمام اعمال پر عمل کرنے والے ہوں گے۔ کیونکہ اس وقت علم ہر جگہ پہنچ گیا ہے، کوئی لینا نہ چاہے تو علیحدہ بات ہے۔ مثال کے طور پر چونکہ حدیث شریف ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ افطار کرو۔ کسی علاقے میں چاند کو نہیں دیکھتے تھے تو روزے بھی نہیں رکھتے تھے۔ ایک دن وہ لوگ دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے تو پانی میں چاند نظر آ گیا۔ کہتے ہیں: ظالم یہاں بھی نظر آ گیا۔ معلوم ہوا اگر کوئی نہ کرنا چاہے تو ظاہر ہے اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ کیونکہ علم آج کل گھر گھر پہنچ گیا ہے۔ مثلاً موبائل پہ کون سی چیز نہیں ہے؟ اگر غلط چیزوں کے لئے استعمال کرتا ہے تو صحیح چیزوں کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا جا سکتا؟ ہر شخص کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں۔ معلوم ہوا اگر کوئی حاصل کرنا چاہے تو sources ہیں۔ پوچھنا ہو تو مفتی حضرات دستیاب ہیں۔ جہاں تک عمل کرنے کی بات ہے تو جو باتیں ابھی بتائی گئی ہیں ان پر عمل کہاں نہیں ہو سکتا؟ یعنی جو نماز کی پابندی کرتے ہیں اور اس کے آداب کا خیال رکھتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ مال میں جو لوگوں کے حقوق ہیں وہ ادا کرتے ہیں۔ اگر چاہے تو ان میں کون سا ایسا عمل ہے جو انسان نہیں کر سکتا؟ نہ چاہے تو انسان کھانا بھی نہ کھا سکےاور چاہے تو یہ سارے کام کر سکتا ہے۔ لہٰذا مکی زندگی اور مدنی زندگی کے لحاظ سے جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابھی ہماری مکی زندگی ہے اس لئے عمل نہیں ہو سکتا وہ جھوٹ کہتے ہیں۔ ایسے لوگ نفس کے فتوے پہ عمل کر رہے ہیں، یہ شریعت کا فتویٰ نہیں ہے یہ نفس کا فتویٰ ہے۔ جو عمل کرنا چاہیں وہ الحمد للہ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جرمنی میں اور انگلینڈ میں ایسے مسلمان موجود ہیں جو ساری باتوں پر عمل کر رہے ہیں۔ امریکہ میں کر رہے ہیں، russia میں کر رہے ہیں۔ البتہ حکمت کی بات یہ ہے کہ آپ ہر جگہ کے حساب سے حکمت کے ساتھ چلیں تاکہ آپ کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ حکمت کا مطلب یہ نہیں کہ عمل چھوڑ دو۔ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ عمل کرنے کے لئے راستہ ڈھونڈو۔ جس وقت جو راستہ میسر ہو اس راستے کو اختیار کر لو اور اگر راستہ موجود نہ ہو تو وہاں پر مفتیانِ کرام گنجائش بتا دیتے ہیں کہ کتنی گنجائش ہے اور کتنی نہیں ہے۔ معلوم ہوا انسان اگر عمل کرنا چاہے تو اس وقت عمل کیا جا سکتا ہے یہ کسی کے لئے عذر نہیں ہے کہ اب ہمارے حالات وہ نہیں رہے۔ اگر پھر اس جیسے حالات ہو جائیں تو اس وقت معاملہ سامنے آ جائے گا جیسے ترکی میں حالات آ گئے تھے چونکہ وہاں با قاعدہ ساری باتوں پر پابندی لگ گئی تھی جیسے عربی میں اذان نہیں دے سکتے وغیرہ۔ اس وقت وہاں پر ہمارے جو بزرگ تھے انہوں نے یہ strategy اپنائی کہ اس وقت ایمان کی حفاظت لازمی ہے تو انہوں نے پھر ایسا طریقہ اپنا لیا اور اللہ کا شکر ہے کہ لوگوں کا ایمان محفوظ رہا۔ ان کو تڑپ تھی جو ہوتے ہوتے ہوتے آج ما شاء اللہ یہاں تک بات آ گئی کہ اب وہ dominate ہیں اور دوسرے لوگ دبے ہوئے ہیں۔ حکمت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ راستہ تلاش کریں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو پورے پورے دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ قرآن پاک کا حکم ہے ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ﴾ (البقرۃ: 208)

ترجمہ: ”اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقشِ قدم پہ نہ چلو یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“

اللہ تعالیٰ اس کے شر سے ہمیں محفوظ فرمائے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين