اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم۔ حضرت جی صرف 15 منٹ مراقبہ کرنا ہے یا پانچوں لطائف پہ دس دس منٹ کرنا ہے؟ اس بارے میں وضاحت فرما دیں۔
جواب:
پہلے دس دس منٹ لطائف کا ذکر کرنا ہے اس کے بعد 15 منٹ کا مراقبہ کرنا ہے۔
سوال نمبر2:
السلام علیکم۔
جواب:
و علیکم السلام۔ یہ سوال و جواب کا نمبر ہے اس پر سلام بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے اس پہ صرف اپنے احوال بھیجا کریں یا تصوف سے متعلق سوال وغیرہ بھیج دیا کریں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ شاہ صاحب یہ ربیع الاول میں جو درود شریف پڑھتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد نادان لوگ اس کو بدعت کہہ کر اس کی مخالفت کرتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ درود شریف کا شمار کرنا بھی بدعت ہے۔ ایسے لوگوں کو طریقے سے کیسے سمجھایا جا سکتا ہے تاکہ ان کی دل آزاری بھی نہ ہو اور وہ سمجھ بھی جائیں۔
ایسے ماحول میں جہاں نقصان کا اندیشہ ہو اور وہاں جانا بھی ضروری ہو وہاں پر اپنی حفاظت کے لئے سب سے ضروری اقدام کیا کرنا چاہیے۔
شاہ صاحب غیر اللہ کی محبت کو دل سے کیسے دور کیا جائے، دل کو دنیا کی محبت سے کیسے روکنا ہے اور جو کچھ میسر ہو دل اس پر راضی ہو جائے، یہ کیسے ہو۔
جواب:
جو چیز دین نہ ہو اسے دین سمجھنا بدعت ہے لیکن دین کو دین سمجھنا تو بدعت نہیں ہے۔ اگر کوئی قرآن پاک کے حکم پر عمل کرے اور اس کو بدعت کہا جائے تو یہ بات درست نہیں۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿اِنَّ اللهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الأحزاب:56)
ترجمہ: ” بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو۔“
ایسے انداز میں تو کسی چیز کے بارے میں حکم نہیں دیا گیا جس طرح درود شریف کے بارے میں حکم دیا گیا ہے۔ درود شریف کے بے شمار فضائل احادیث شریفہ میں موجود ہیں۔ جنہیں تفصیل سے بیان کرنا اس وقت ممکن نہیں ہے۔ کسی بھی کتاب میں دیکھ لیں۔ ہمارے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فضائل درود شریف کو پڑھ لیا جائے۔ نشر الطیب فی ذکر الحبیب ﷺ کو پڑھ لیا جائے۔
ربیع الاول میں درود شریف پڑھنا بدعت اس صورت میں ہو جب ہم صرف ربیع الاول میں پڑھیں، ہم صرف ربیع الاول میں ہی درود نہیں پڑھتے بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ ہر وقت پڑھو البتہ ربیع الاول میں ایک بات ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ربیع الاول کا آپ ﷺ کے ساتھ ایک تکوینی تعلق ہے، جیسے مدینہ منورہ کا مکانی تعلق ہے، آپ ﷺ کی قبر شریف ادھر ہے اب اگر کوئی مدینہ منورہ شریف جا کر بھی درود شریف نہ پڑھے تو پھر بڑی عجیب بات ہو گی۔ اگر کوئی مدینہ شریف جا کر درود پڑھے تو کیا اسے بدعت کہا جائے گا؟ اسی طرح ربیع الاول کے مہینہ کو آپ ﷺ کے ساتھ زمانی نسبت ہے۔ آپ ﷺ اس دنیا میں ماہ ربیع الاول میں تشریف لائے ہیں اور اسی ماہ میں اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ ربیع الاول کی آپ ﷺ کے ساتھ بڑی نسبتیں ہیں۔ ہجرت بھی ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی ہے۔ ان سب نسبتوں کے حوالے سے ربیع الاول کا مہینہ ہم لوگوں کے لئے اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہم آپ ﷺ کو یاد کریں اور آپ ﷺ کو یاد کرنے کا بہترین طریقہ درود پاک پڑھنا ہے اس وجہ سے اگر کوئی اسے بدعت کہے گا تو اس پہ حیرت ہو گی۔ ان کے ساتھ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے بس اس پر حیرت ہے کہ اس کو بھی اگر کوئی بدعت کہے تو پھر دین کونسی چیز ہے۔
باقی جو ان کا یہ کہنا ہے کہ درود شریف شمار کرنا بدعت ہے تو بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ذکر کو شمار کرنا بھی بدعت کہتے ہیں، کیا ہم ان کی بات بھی سنیں گے؟ بعض احادیث شریفہ میں باقاعدہ شمار کرنے کا واضح طور پر ذکر ہے۔ جیسے 33 دفعہ سبحان اللہ 33 دفعہ الحمد للہ 34 دفعہ اللہ اکبر۔ یہ مسنون طریقے سے بتایا گیا ہے اس کو تسبیحاتِ فاطمی کہتے ہیں جو آپ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سکھایا ہے۔ اگر اجمال ثابت ہو جائے تو تفصیل اس کے اندر خود ہی آ جاتی ہے۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ آپ ﷺ نے ذکر کو گن کر بھی فرمایا ہے تو درود شریف بھی ایک ذکر ہے، ذکر کے احکامات اس پر بھی لاگو ہو جائیں گے۔
ہم ایسے نادانوں کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں۔ ان کے ساتھ لڑنے کے بجائے ان کے لئے دعا کر لیا کریں اور اگر کسی میں تھوڑا سا فہم وغیرہ دیکھ لیا جائے کہ وہ کچھ تھوڑی سمجھداری کی بات کر رہے ہیں تو ان کو طریقے سے سمجھایا جائے جیسے میں نے ابھی عرض کیا ہے، اللہ پاک ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے کافی عرصہ سے خواہش تھی کہ رابطہ کروں گا اور خیریت دریافت کروں گا مگر روایتی سستی غالب تھی۔ آج دوپہر سے آپ کی یاد کا غلبہ تھا اور ابھی حضرت اقدس تھانوی قدس سرہٗ کا یہ ملفوظ گرامی پڑھا تو سوچا کہ آپ کو یہ ارسال کروں اس طرح رابطہ بھی ہو جائے گا۔ اس ملفوظ گرامی میں حضرت کا دیدِ قصور ملاحظہ فرمایئے کس قدر اعلیٰ دیدِ قصور ہے۔
”کام کرنا مخلص اور مقبول ہونے کی دلیل نہیں“۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ”اہل علم اور علماء“ وعظ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس سے چاہیں اپنے دین کا کام لے لیتے ہیں، یہ ضروری نہیں جس سے کام لیا جائے وہ عند اللہ مقبول ہی ہو۔ دیکھو چمار سے بیگاری لی جاتی ہے یعنی اس سے کام لیا جاتاہے، مگر اس سے چمار کا کوئی درجہ نہیں بڑھ جاتا، وہ اپنے درجہ میں چمار ہی رہتا ہے۔ ہمارا حال بھی یہی ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ اپنے بندوں کی کچھ خدمت ہم سے لے لیتے ہیں مگر اپنا حال ہم خود جانتے ہیں کہ ہم کہاں ہیں۔ درجہ تو اللہ تبارک تعالیٰ کے نزدیک صرف عالم با عمل کا ہے۔
جواب:
واقعی حضرت نے اس ملفوظ میں بہت کام کی بات فرمائی ہے۔ علم کا حاصل کرنا بذات خود مطلوب ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ﴾ (الزمر: 9)
ترجمہ: ”کہو کہ: کیا وہ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے سب برابر ہیں؟“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوتے۔ علم کا بذات خود بہت بڑا اجر ہے۔ اس کے بعد علم پر عمل کرنا مطلوب ہے۔ کیونکہ علم ذریعہ ہے عمل کا، اگر کوئی علم کے بغیر عمل کرے گا تو غلط طریقے سے عمل کرے گا اور اپنا نقصان کرے گا، لہٰذا علم کو حاصل کرنا پڑتا ہے اور پھر اس پہ عمل کرنا پڑتا ہے۔
عمل میں انسان سے مختلف کوتاہیاں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً نیت صحیح نہ ہو کیونکہ تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، عجب ہو یا تکبر پیدا ہو جائے، اپنے آپ کو انسان کچھ سمجھ لے تو اس سے بجائے فائدے کے نقصان ہو جاتا ہے۔ ان کوتاہیوں سے بچنے کے لئے سارا سلوک طے کرنا پڑتا ہے۔ جب انسان سلوک طے کرتا ہے تو اسے ہر وقت اس بات کا خیال ہوتا ہے کہ اصل کام تو اللہ پاک کی رضا ہے، کیونکہ سلوک کا آخری مقام مقامِ رضا ہے۔ اللہ سے راضی ہونا اور اللہ کو راضی کرنے کے لئے کوشش کرنا، یہ اصل مقصود ہے اسی کو حاصل کرنا ہے۔ باقی مقامات سلوک بھی اسی کے حصول کے لئے ہیں۔ مقامِ توبہ، مقامِ انابت، مقامِ ریاضت، مقامِ قناعت، مقامِ تقویٰ، مقامِ صبر، مقامِ زہد، مقامِ توکل، مقامِ تسلیم اور مقامِ رضا یہ سارے مقامات تفصیل کے ساتھ طے کرنے ہوتے ہیں۔ یہ پوری محنت کرنی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے انسان آگے بڑھتا ہے، ان مقامات کو طے کرتا ہے، ویسے ویسے اسے اپنے اندر بے شمار کوتاہیاں نظر آنی شروع ہوتی ہیں، کیونکہ اس کی آنکھیں کھل رہی ہوتی ہیں حجابات ہٹ رہے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے انسان سلوک کا رستہ طے کرتا ہے وہ حجابات دور ہوتے جاتے ہیں، نتیجتاً انسان اپنے آپ کو بجائے اس کے کہ بزرگ سمجھے، گناہ گار سمجھتا ہے۔ اصلاحِ نفس کا لازمی نتیجہ اپنے آپ کو کمتر اور گناہ گار سمجھنا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اپنے آپ کو کافر فرنگ سے بھی بدتر نہ سمجھے تو اس کو معرفت نصیب نہیں ہو سکتی۔ یوں سمجھ لیں کہ اللہ کی معرفت سے پہلے اپنی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهٗ۔ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ اپنی معرفت یہی ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں اور یہی دیدِ قصور ہے، اسی کے لئے انسان یہ پوری کوشش اور محنت کرتے ہیں، پہلے جذب حاصل کرتے ہیں پھر سلوک طے کرتے ہیں اور تفصیل کے ساتھ طے کرتے ہیں تب کہیں جا کر یہ کیفیت حاصل ہوتی ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔
ایک یہ ہوتا ہے کہ انسان صرف قولی طور پر کہہ دے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ یہ صرف ایک سطحی چیز ہے۔ انسان واقعی دل سے جان لے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں یہ اصل چیز ہے۔
ہمارے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک موقع پر ارشاد فرماتے ہیں: ”بھئی مقامات کی باتیں تو ہم نے کبھی سوچی بھی نہیں ہیں، ہمیں اگر جنتیوں کی جوتیوں میں جگہ مل جائے یہ بھی ہماری بڑی قسمت ہو گی۔ یہ بھی بطورِ استحقاق نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اس لئے کہ دوزخ کا تحمل نہیں ہے اس لئے یہ بات کر رہے ہیں“۔
ان حضرات کو اللہ پاک نے بصیرت دی تھی، عبدیت کے ساتھ معرفت بھی عطا کی تھی۔ عبدیت اور معرفت کا ایک دوسرے کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب عبدیت حاصل ہوتی ہے تو اس سے معرفت بڑھتی ہے اور جب معرفت بڑھتی ہے اس سے عبدیت بڑھتی ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ موت تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
ایسے حضرات کو اللہ تعالیٰ اس راستے میں دیدِ قصور نصیب فرماتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی نصیب فرمائے، اس کے لئے ہماری کوشش موت تک جاری رہنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں کامیاب فرمائے اور اپنا تعلق خاص نصیب فرما کر دین پر صحیح سمجھ کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میرا ایک ماہ کا وظیفہ مکمل ہو گیا ہے۔ یہ 2، 4، 6 اور 1000 تھا۔ آگے رہنمائی فرمائیں۔
جواب:
اب یہ 2، 4، 6 اور 1500 کر لیں۔ اس کے علاوہ 5 منٹ کے لئے دل کے اوپر یہ تصور کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے۔
سوال نمبر6:
Reminder for next ذکر
حضرت السلام علیکم،
I have been reciting اللہ اللہ for 4500 times followed by
یَا اَللہُ یَا سُبْحانُ یا عَظیمُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا وَھَّابُ یَا وَدُوْدُ یَا کَرِیْمُ یَا شَافِی یَا سَلَامُ
100 times followed by یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ
10 times. Kindly advise next جزاک اللہ.
جواب:
Now you should do اللہ اللہ for 5000 and the rest will be the same ان شاء اللہ.
سوال نمبر7:
السلام علیکم شیخ،
I started to translate زبدۃ التصوف since last month but due to my English and Arabic level, I only can understand around 40٪ of article. But I feel this article is very good and useful for the people, the same as the best quality of medicine for all the people. The ill persons can be treated also as the non-ill person can help them get more health. شیخ this is my feeling after reading this article, but it is so sad that I couldn’t understand all the book. I don’t know how I can get it and understand clearly? I think I can pay someone in China who can do the translation, but I'm thinking they could not translate it well because they do not understand the real meaning of the book. That's why شیخ I need to get your advice for this and let me know what I should do for next month? جزاک اللہ.
جواب:
ماشاء اللہ it's very good that you have started reading this book and you understood this book a little bit and I think brother Faisal is present today with us and I will request him to help you in this regard. He knows this book well, and I think he will be able to communicate the real meaning of this book and ان شاء اللہ you will find its understanding from him and ان شاء اللہ. You will be able to translate it more, although he can also translate it, I don't think that he cannot, he can also, but I have given this to you because you have to understand it yourself as much as possible, and he should only help you. Then you will be able to understand it more, and then you will be able to communicate it to your colleague there easily. So I will request him and I think he will help you ان شاء اللہ.
سوال نمبر8:
السلام علیکم شیخ!
I have completed doing مراقبہ صفات ثبوتیہ for 15 minutes for the second month. After this second month I feel more peaceful than before. Please advise the next جزاک اللہ.
Wife of this person.
جواب:
So ماشاء اللہ it's very good that you have done مراقبہ صفات ثبوتیہ but you should know what's actually the effect of this صفات ثبوتیہ مراقبہ. So, I think if you are able to communicate to me what do you feel the effect of this? Simply, it's not enough that you find yourself peaceful. Peacefulness is the effect of all the اذکار
﴿اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِن الۡقُلُوۡبُ﴾ (الرعد:28)
Whatever ذکر you do you will get اطمینان, so I don't think that it's the effect of this. It has some special effect, and you should understand this, and I think if you don’t understand you can consult your husband and I think he will be able to tell you what's the actual concept of this and what should be the effect of this?
سوال نمبر9:
السلام علیکم شیخ!
I have been doing 2 رکعت for the second month, but I don’t have any special feelings. It's normal. Kindly advise me on what I should do for the next. جزاک اللہ.
Old Lady Care of this person.
جواب:
So I think as far as صلوٰۃ is concerned, so you should understand what can be its output? What صلوٰۃ is this and what effect you will get from this? So I think the basic concept of صلوٰۃ is more عبدیت. It means to find oneself more serving before اللہ and knowing that we are nothing without his help. So I think you should understand more than what I have told you because it is just a hint.
سوال نمبر10:
السلام علیکم! حضرت جی آپ کو اصلاحی ذکر کے بارے میں بتانا تھا، اس بارے میں رابطے میں تاخیر ہو گئی ہے۔ پچھلی مرتبہ 10 منٹ قلب، 10 منٹ روح، 10 منٹ سر سے بڑھا کر 35 منٹ کر دیا تھا 10 منٹ قلب، 15 منٹ روح اور 10 منٹ سر اللہ اللہ محسوس کرنا۔
توجہ سے ذکر کرنے سے اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے، دھیان بٹ جانے یا نیند آ جانے کی وجہ سے اللہ اللہ محسوس نہیں ہوتا۔ گزشتہ ماہ ذکر میں 9 دن کے ناغے ہوئے ہیں کوشش یہ ہوتی ہے کہ روز ذکر کروں۔ اگر رات کو نہ کر سکوں تو اگلے دن کر لیا کروں، لیکن پھر بھی 9 دن کا ناغہ ہو ہی گیا۔ آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
حضرت جی نماز قضا ہو جانے کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔ الحمد للہ 5 وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتی ہوں۔ نماز قضا نہیں ہوتی تھی۔ ابھی کچھ عرصے میں جولائی کے مہینے میں 5 نمازیں قضا ہو گئی تھیں۔ 2 نمازیں اگست میں قضا ہو گئی تھیں۔ ابھی ستمبر میں 4 نمازیں قضا ہو گئی ہیں۔ روزے بھی رکھ رہی ہوں آج چوتھا روزہ رکھا ہے۔ اس سے پہلے جولائی میں تین روزے رکھے، لیکن مکمل نہیں کر سکی تھی۔ معمولات میں چہل درود شریف، مناجات مقبول میں ناغہ ہو جاتا ہے۔ منزل جدید روز پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس میں بھی کبھی کبھی ناغہ ہو جاتا ہے ﴿إِنَّمَا صَنَعُوا﴾ (طہ: 69) آیت کا وظیفہ 111 بار تھا۔ یا سلام عشاء کے بعد 101 بار پابندی سے نہیں پڑھا گیا۔
جواب:
اگر آپ واقعی ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں تو پھر ڈاکٹری کا بنیادی concept آپ کو ابھی سے معلوم ہونا چاہیے۔ ڈاکٹری کا concept یہ ہے کہ ڈاکٹر کا کام صرف دوائی بتانا ہے، دوائی کھانا مریض کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ابھی آپ نے مجھے بتایا کہ آپ نے 9 دن ذکر میں ناغے کئے اور یہ ذکر علاج ہے تو علاج میں ناغے کرنے کا مطلب کیا ہے؟ مجھے کسی اور سے شکوہ نہیں ہے، لیکن ڈاکٹر سے تو شکوہ کر سکتا ہوں کہ اس کو پتا ہونا چاہیے کہ علاج نہ کرنے سے بیماری بڑھتی ہے یا اچھی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں آپ کو ذرا خیال رکھنا چاہیے۔ ابھی موجودہ سبق آپ کو دوبارہ کرنا ہے اور اس میں کوئی ناغہ نہیں کرنا۔ اگر آپ نے ناغے کرنے ہیں تو پھر مجھے نہ لکھا کریں۔ لاعلاج بیماروں کا علاج میں نہیں کرتا۔ جو بھی آپ کے فائدے کی چیز ہے اس میں آپ ناغے کر رہی ہیں۔ نمازوں کے ناغے کا آپ کو معلوم ہے کہ ایک نماز کی قضا کے بدلے تین روزے رکھنے ہوں گے۔
اس بات کو سوچیں کہ ناغے کیوں ہوئے۔ کوئی نہ کوئی وجہ ضرور معلوم ہوگی اس وجہ کو دور کریں۔ اگر آپ کی 4 بجے flight ہو تو کیا آپ late اٹھ سکتی ہیں؟ ظاہر ہے 4 بجے سے کافی دیر پہلے کے کئی الارم لگا دیں گی اور کئی لوگوں کو بتا دیں گی تاکہ آپ کی فلائٹ نہ چھوٹنے دیں۔ کیا نماز کی اہمیت آپ کی فلائٹ سے بھی کم ہے؟
چہل درود شریف اور مناجات مقبول میں ناغہ کرنے سے اجر تو کم ملتا ہے مگر علاج میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن منزل جدید میں اگر آپ ناغہ کرتی ہیں تو یہ اپنے ساتھ دشمنی کر رہی ہیں کیونکہ جب وقت آتا ہے تو پھر آپ کہتے ہیں کہ یہ یہ مسائل ہو گئے ہیں۔ ہر قسم کے مسائل سے بچنے کے لئے منزل جدید کا معمول دیا گیا ہے۔ اگر آپ اپنی حفاظت نہیں کر رہی ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر کسی کو اپنے گھر میں دشمن کے داخل ہونے کا خوف ہو اور وہ 20 دن یا 25 دن چوکیداری کر لے، 5 دن نہ کرے تو کیا خیال ہے، ایسا کرنا ٹھیک ہوگا؟ تو منزل جدید تو چوکیداری ہے، اس کے ذریعے ان دیکھے انجانے دشمنوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ ان سب باتوں کا خیال رکھیں اور عمل کی کوشش کریں۔
سوال نمبر11:
السلام علیکم۔
حال: آج کل میرا لوگوں اور دوست احباب سے ملنے کو دل نہیں کرتا، اگر ملاقات ہو بھی تو جلدی ختم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
اگرچہ ایسی کیفیت بیماری کی وجہ سے ہے، لیکن بذات خود اس کا آپ کو کوئی نقصان نہیں ہے۔ ویسے لوگوں سے ملنے ملانے میں آج کل کوئی اتنی زیادہ خیر نہیں ہے اس لئے اپنے آپ کو بچانا زیادہ بہتر ہے۔ البتہ اپنا علاج ضرور کریں۔
سوال نمبر12:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ محترم حضرت جی! الحمد للہ آپ کی ہدایت کے مطابق درج ذیل ذکر مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ 200 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“ 400 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھو“ 600 مرتبہ ”حق“ اور 500 مرتبہ ”اللہ“۔ آگے کے لئے رہنمائی فرما دیں۔ چند ناغے ہوئے لیکن الحمد للہ آپ کی ہدایت کے مطابق ذکر جاری رکھا۔ میرا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ دنیا چھن جانے کا خوف ہے کہ جو نعمت حاصل ہے وہ چھن جائے گی اس کے طاری رہنے سے کم ہمتی پیدا ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے دینی و دنیاوی اعمال کے تسلسل میں رکاوٹ رہتی ہے اس سوچ کو کیسے بدلوں تاکہ ہر عمل مناسب انداز میں کیا کروں۔
جواب:
اس کے ساتھ ایک یہ خوف بھی شامل کر لیں کہ کہیں آخرت نہ چھن جائے تو ان شاء اللہ دنیا و آخرت دونوں ٹھیک ہو جائیں گی۔ دنیا چھن جانے کا جو خوف ہے چلیں اس کو ختم نہیں کرتے اس کے لئے آپ کوشش جاری رکھیں، لیکن اس کے ساتھ ایک سوچ اور شامل کر لیں کہ کہیں آخرت نہ چھن جائے۔ آخرت کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے، وہ آپ ضرور اختیار کر لیں پھر اس میں ان شاء اللہ ناغے نہیں ہوں گے۔ ذکر کی ترتیب یوں کر لیں کہ 200 دفعہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“ 400 دفعہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُو“ 600 دفعہ ”حَق“ اور 500 دفعہ ”اللہ“ اسی کو جار رکھیں۔ صرف ”اللہ“ کو 1000 دفعہ کر لیا کریں۔
سوال نمبر13:
السلام علیکم۔ حضرت شاہ صاحب الحمد للہ آپ کی برکت اور توجہ سے 200، 400، 600 اور 2500 کے ذکر کو ایک ماہ اور دس دن ہو گئے ہیں۔ ذکر بلا ناغہ جاری ہے۔ درمیان میں کچھ بیماری کی وجہ سے آدھا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائیں۔
جواب:
اگر آپ کی صحت اب اچھی ہے تو ذکر 200، 400، 600 اور 3000 مرتبہ کر لیں اور اگر بیماری ہے تو سابقہ ذکر جاری رکھیں۔ جب ٹھیک ہو جائیں تو بڑھا لیں۔
سوال نمبر14:
السلام علیکم۔ میں گزشتہ جہانگیرہ کے جوڑ میں شریک ہوا تھا۔ گزارش یہ ہے کہ میں آپ کے سلسلہ سے جڑا ہوا تو نہیں ہوں، لیکن کافی متاثر ہو گیا ہوں۔ میرے ذہن میں کچھ اشکالات ہیں جو میں نے note کئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کے مرید ضرورت سے زیادہ آپ کی تعظیم کرتے ہیں، مثلاً جوڑ والے دن رات کو جب آپ حاجت کے لئے اٹھتے ہیں تو ایک بزرگ اپنی نیند سے جاگ کر آپ کے پیچھے آپ کے جوتے اٹھا کر چلنے لگ گئے مجھے لگا کہ آپ کو اسے ایک بار تو منع کرنا چاہیے تھا۔ میں بھی آپ کی بہت عزت کرتا ہوں اور آپ کو پسند بھی کرتا ہوں، بے شک لوگ بھی آپ سے مستفید ہوتے ہیں، لیکن حد سے زیادہ تعظیم عجیب لگتی ہے۔ اس معاملے میں وضاحت کر دیں۔
جواب:
آپ نے یہ بات نوٹ کی، اچھی بات ہے، لیکن آپ ذرا کچھ وقت ہمارے ہاں گزاریں تو پتا چل جائے کہ میں ان چیزوں سے کتنا منع کرتا ہوں۔ جب بھی میں باہر سے آتا ہوں تو لوگ اٹھ جاتے ہیں تو میں فوراً کہہ دیتا ہوں کہ بیٹھ جائیں، اٹھیں نہیں لیکن جب تک میں نہیں بیٹھتا، لوگ نہیں بیٹھتے۔ ایک دفعہ میں اپنے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا تھا، حضرت کسی اور کو بلا رہے تھے اچانک میں چونکا مجھے ایسے لگا کہ مجھے بلایا ہے۔ میرا چونکنا ایسا اچانک تھا کہ حضرت بھی مسکرا دئیے اور فرمایا: ان دیوانوں کا میں کیا کروں۔ تو یہ راستے کے Side effects ہیں ہم اس کو برداشت کرتے ہیں۔
لگی ہو جس دل میں آگ
پرائی لگی دل لگی سوجھتی ہے
آپ چونکہ ابھی سلسلہ میں شامل نہیں ہوئے ہیں اس لئے آپ کو اس کا فی الحال احساس نہیں ہے، آپ ان دیوانوں کو معاف کر دیا کریں میں بھی معاف کرتا رہتا ہوں، حالانکہ میرا مزاج یہ نہیں ہے۔ نہ اپنے لئے تعظیم برداشت کرتا ہوں نہ اپنے آپ کو اس تعظیم کے قابل سمجھتا ہوں لیکن دیوانوں کی دیوانگی اپنے طور پہ ایک حقیقت ہے۔ ایسا ہوا کرتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ آپ ﷺ اپنے لئے اٹھنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: ہاں بالکل پسند نہیں فرماتے تھے لیکن آپ ﷺ دوسروں کے لئے اٹھے ہیں اور یہ بھی فرمایا ہے:
﴿قُومُوا إِلٰى سيِّدكم﴾ (صحیح البخاری: 5907)
ترجمہ: ”اپنے سردار کے لئے کھڑے ہو جاؤ“۔
آپ ﷺ خود فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے اٹھتے تھے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید فرمایا کہ اگر ابھی اس وقت آپ ﷺ آ جائیں تو آپ کیا کریں گے؟ اس عالم نے کہا: حضرت مجھے ڈر ہے کہ کہیں سجدہ نہ کر لوں۔
تو یہ چیز انسان کے control میں نہیں ہوتی۔ انسان ایسے کام عقل سے نہیں کرتا، نہ باقاعدہ سوچ کر کرتا ہے۔ اس کو Reflex action کہتے ہیں، Reflex action کا تعلق چونکہ طبیعت کے ساتھ ہے عقل کے ساتھ نہیں ہے، عقل دور کھڑی ہو کر مسکرا رہی ہوتی ہے اور طبیعت اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔ اسی طبیعت میں جب جذب آ جائے اور یہ نفس کے اوپر تھوڑی دیر کے لئے غالب آ جائے تو نفس کو سلوک کے لئے تیار کر دیتی ہے۔
سوال نمبر15:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ بعد از سلام عرض ہے کہ گزشتہ ماہ فجر کی نماز اکثر انفرادی طور پر ادا ہوئی اور کچھ نمازیں قضا بھی ہوئیں۔ ہر مرتبہ صلوٰۃ التوبہ ادا کی۔ ذکر 200، 200، 200 اور 6000 مرتبہ ہے۔ یکسوئی کم رہتی ہے۔ معمولات میں بھی کوتاہی اور سستی غالب رہتی ہے۔ ریاضت نہ کر سکنے کا سبب یہ محسوس ہوتا ہے کہ توبہ اور رجوع میں اثر نہیں ہے۔ دوسری جانب علمی طور پر آگاہی ہوتی جا رہی ہے۔ حضرت جی دوبارہ تکبیر اولیٰ کے چلہ کی نیت اور ارادہ ہے۔ پہلے چلہ سے بہت فائدہ ہوا تھا۔ کئی رذائل اس کی برکت سے خلاصی ہوئی تھی۔
جواب:
جی بالکل تکبیر اولیٰ کا چلہ ضرور کریں۔ اس میں مجاہدہ بھی ہے اور نماز کا بھی فائدہ ہے۔ تکبیر اولیٰ سے آپ کی نماز قیمتی ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں مطلوب ہیں۔
سوال نمبر16:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
I hope حضرت is well and the family! Could حضرت please explain the following concepts in نقشبندی سلسلہ
No 1: What is کمالاتِ نبوت and رسالت and how is it attained? What is meant by مشرب and how does a person recognize his مشرب? What is the difference between حقیقت محمدیہ and کمال رسالہ و نبوۃ.?
جواب:
ماشاء اللہ these are very good questions but I think it is not the right place for these questions and I think we can address these questions on wednesday at the time of مکتوبات شریف because at that time many نقشبندی people are متوجہ and I think it will be helpful for them.
سوال نمبر17:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی دامت برکاتہم! لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 15 منٹ۔ اس معمول کو کرتے ہوئے تقریباً ایک ماہ مکمل ہو گیا ہے۔ لطیفۂ روح پر ذکر آج کے مراقبے کے دوران واضح محسوس ہوا، لیکن پہلے پورا مہینہ واضح طور پر محسوس نہیں ہوتا تھا۔ ہاتھ رکھ کر محسوس کرنے کی کوشش کرتی تو 15 منٹ میں بس چند ہی منٹ کچھ تھوڑا بہت محسوس ہوتا تھا۔ کبھی کبھی لگتا کہ یہ دل کی آواز ہے جو یہاں محسوس ہو رہی ہے، صرف آج پہلے کی نسبت واضح ہوا ہے۔
جواب:
کوئی بات نہیں، اگر آج پہلی بار محسوس ہوا ہے تو بھی الحمد للہ شروع تو ہو گیا ہے۔ ابھی آپ اس طرح کر لیں کہ لطیفۂ قلب کا ذکر 10 منٹ ہی رکھیں اور لطیفۂ روح 20 منٹ کر لیں۔
سوال نمبر18:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
نمبر 1:
لطیفۂ قلب 5 منٹ، لطیفۂ روح 5 منٹ، لطیفۂ سر 5 منٹ، لطیفۂ خفی 5 منٹ، لطیفۂ اخفیٰ 5 منٹ۔ مراقبۂ ﴿فَعَّالٌ لِّما يُرِيدُ﴾ (البروج: 16) 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔ رزق میں بہت برکت ہو گئی ہے۔
جواب:
یہ بتا دیں کہ ﴿فَعَّالٌ لِّما يُرِيدُ﴾ (البروج: 16) کے مراقبے میں کیا محسوس ہوا ہے۔ رزق میں برکت ہونا ایک نعمت ہے، اس پہ اللہ کا شکر ادا کریں۔
نمبر 2:
لطیفۂ قلب 10 منٹ۔ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب: اب 15 منٹ کے لئے کرنا شروع کریں۔
نمبر 3: تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ ﴿فَعَّالٌ لِّما يُرِيدُ﴾ (البروج: 16) 15 منٹ۔ اس مراقبے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے اور اسباق کے ساتھ شوق بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ نماز کی پابندی اور تلاوت کا شوق بھی بڑھ گیا ہے۔
جواب: اب تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر کیا کریں۔ مراقبہ ﴿فَعَّالٌ لِّما يُرِيدُ﴾ (البروج: 16) 20 منٹ کریں۔ ایک ماہ بعد اطلاع کریں۔
نمبر 4:
تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبۂ شانِ جامع 15 منٹ۔ اس مراقبے کے بعد ذہن تیز ہو گیا ہے، اللہ کی طرف توجہ بڑھ گئی ہے، جب کوئی گناہ کا ارادہ کرتی ہوں تو اللہ یاد آ جاتے ہیں اور ڈر جاتی ہوں۔
جواب:
اب آپ مراقبہ معیت شروع کر لیں، مراقبہ معیت میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق میرے ساتھ ہے۔ 15 منٹ کے لئے یہ مراقبہ کیا کریں۔
نمبر 5: تمام لطائف پر 10 منٹ ذکر اور مراقبہ معیت 15 منٹ۔ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب: ابھی آپ مزید ایک مہینہ تک یہی معمول جاری رکھیں۔
نمبر 6:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ اور لطیفۂ خفی 15 منٹ۔ لطیفۂ قلب اور روح پہ ذکر محسوس ہوتا ہے اور سر و خفی پہ محسوس نہیں ہوتا۔ یہ معمول 3 مہینے کیا تھا، پھر آپ نے انگوٹھا رکھ کے محسوس کرنے کی ہدایت کی تھی، لیکن اس کے باوجود سر اور خفی پہ محسوس نہیں ہوتا۔
جواب: اب آپ اس طرح کریں کہ لطیفۂ قلب اور روح پر 10، 10 منٹ، لطیفۂ سر اور خفی پہ 15، 15 منٹ انگوٹھا رکھ کر ذکر کریں۔
نمبر 7: لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ اور لطیفۂ سر 15 منٹ۔ تینوں لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان تینوں لطائف پر دس منٹ ذکر کریں اور لطیفۂ خفی پہ 15 منٹ ذکر کریں۔
نمبر 8:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ اور لطیفۂ سر 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب تینوں لطائف پہ 10 منٹ اور لطیفۂ خفی پہ 15 منٹ ذکر کریں۔
نمبر 9:
لطیفۂ قلب پر 5 منٹ نزول رحمت کا تصور اور 100 بار درود شریف کا معمول ہے۔ نزول رحمت محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب اس تصور کو لطیفۂ قلب پہ 10 منٹ کیا کریں اور 100 بار درود شریف کا معمول جاری رکھیں۔
سوال نمبر19:
حضرت جی کیا شیخ کے ساتھ انتہائی محبت ہو جانا ہی فنا فی الشیخ ہے یا فنا فی الشیخ کا کچھ اور مفہوم ہے؟
جواب:
فنا فی الشیخ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی خواہش کو شیخ کی خواہش کے سامنے surrender کر دے اور اس کے سامنے اپنے نفس کی خواہشات کی کوئی value نہ رہے۔ انسان کا نفس جو کچھ بھی چاہے اگر شیخ اس سے روک دے تو اس سے رکنے میں ذرہ بھر بھی تامل نہ ہو، یہ فنا فی الشیخ ہے۔
فنا فی الشیخ کی ابتدا عقلی محبت سے ہوتی ہے لیکن بعد میں آہستہ آہستہ طبعی محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور طبیعت نفس کے اوپر غالب آ جاتی ہے۔ اب انسان کا نفس جو بھی کہے اس کی طبیعت اس کے مقابلے میں شیخ کے سامنے surrender کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔ یہی surrender جو پہلے شیخ کے سامنے ہوتا ہے بعد میں شیخ سے بڑھ کر آپ ﷺ کی سنت کے سامنے ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس کو فنا فی الرسول کہتے ہیں اور پھر یہی فنا فی الرسول والا surrender فنا فی اللہ میں تبدیل ہو جاتا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے اور کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس طرح انسان مقام رضا تک پہنچ جاتا ہے۔ اللہ ہمیں بھی پہنچائے (آمین)
سوال نمبر20:
فنا فی الشیخ کا حصول سلوک کے مکمل ہونے کے لئے ضروری ہے یا اس کے بغیر بھی سلوک پورا ہو جاتا ہے۔
جواب:
جی ہاں! ہر سالک فنا فی الشیخ سے گزرتا ہے، البتہ ہر ایک کا فنا فی الشیخ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اب جیسے ہم صحابہ کی طرح کبھی نہیں ہو سکتے لیکن کرنا تو وہی ہے جو صحابہ نے کیا ہے ہم کچھ اور نہیں کر سکتے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر کام آپ ﷺ کی طرح کرنے کی کوشش کرتے تھے، ان کو پتا تھا کہ سو فیصد آپ ﷺ کی طرح تو ہم نہیں کر سکتے، لیکن کرنا پھر بھی یہی ہے۔
فنا فی الشیخ میں نفس کو surrender کرنا ہوتا ہے چاہے وہ عقلی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ بعض لوگوں کو فنا فی الشیخ صرف عقلی طور پر حاصل ہوتا ہے طبعی طور پہ نہیں ہوتا، عقلی طور پر فنا فی الشیخ اتنا strong ہوتا ہے کہ اس میں کیفیت نہیں ہوتی ہے لیکن عمل ضرور ہوتا ہے، جبکہ کیفیت طبعی فنا سے پیدا ہوتی ہے۔ عقلی فنا میں کیفیت نہیں ہوتی، اس میں دیوانگی کی باتیں نہیں ہوتیں لیکن عمل پورا پورا ہوتا ہے۔
الحمد للہ ہم نے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ وہ کیسے اپنے بزرگوں کے سامنے اپنی رائے اور تمام چیزیں چھوڑ دیتے ہیں۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ بستر مرگ پہ تھے، ان کے شاگرد حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ انہی کی طرف آ رہے تھے، سفر میں تھے۔ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے سلہٹ کے علاقے میں ایک عالم کو بھیجنا تھا، لیکن انہوں نے عذر فرمایا تو حضرت نے مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو پیغام بھجوایا کہ آپ یہاں مت آئیں سلہٹ چلے جائیں۔ اب حضرت شیخ الہند بستر مرگ پہ ہیں، مولانا مدنی ان کی طرف ہی آ رہے تھے راستے میں شیخ الہند کا پیغام ملا کہ سلہٹ چلے جاؤ، حضرت مدنی کو پتا تھا کہ میں سلہٹ جاؤں گا تو پھر حضرت سے نہیں مل سکوں گا لیکن انہوں نے اپنی بات چھوڑ دی شیخ کے حکم پر عمل کر لیا اور سلہٹ چلے گئے۔ یہی فنا فی الشیخ ہے، سب سے پہلے یہ حاصل ہوتی ہے، اس کے بعد انسان فنا فی الرسول سے ہوتے ہوئے فنا فی اللہ کے مرتبے کو حاصل کر لیتا ہے۔
سوال نمبر21:
حضرت جی اس قول کی تشریح بتا دیجیے۔ ”اللہ تعالیٰ کی ذات قیدِ اطلاق سے پاک ہے اور قیدِ تنزیہ سے بھی پاک ہے“۔
جواب:
اس بات کو سمجھنے کے لئے اچھی خاصی بنیاد بنانی پڑتی ہے۔ اگرچہ اس کا ایک مختصر جواب بھی ہے، لیکن وہ بھی اسی کو فائدہ دے سکتا ہے جو اس کو سمجھ سکے۔ اللہ جل شانہ وراء الوراء ذات ہے اور یہ تمام اصطلاحات انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ ان کے ذریعے مکمل طور پہ معنی و مفہوم سمجھ نہیں آ سکتا۔
سوال نمبر22:
حضرت!
How can we benefit from the lessons of the مکتوبات شریف especially those who are English-speaking people and don’t understand Urdu?
جواب:
Of course, it is your real requirement, and I am with you. As far as the translation is concerned, مکتوبات شریف have been translated into English. These are available. But as far as our lecture is concerned, I think it is not just started, and I hope ان شاء اللہ it will be done after some time and maybe you will benefit from these but of course first of all if my book فہم التصوف is translated into English ان شاء اللہ then it will be done soon. So I think those things which you need will be available in that book as well because فہم التصوف is written for this time and in this الحمد للہ ثم الحمد للہ ثم الحمد للہ the output of many books have been included for example حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ books حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ books حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ عبقات and کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ and حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ. So therefore, I think that book will be very beneficial for you ان شاء اللہ. There was one صاحب کشف. He went at مزار of حضرت in Lahore علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ and he found in his مراقبہ saying حضرت شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ that فہم التصوف book is کشف المحجوب of this time. I don’t think that I am able for this. No no! it is not. Actually it is written for this time, and it is best in those books, so that’s why probably, he has said this. So I think if you will understand that book فہم التصوف so I think it will be very beneficial for you. for the time being, the book زبدۃ التصوف which is one chapter of that book, actually that has been already translated, and it is available on our website. The base of English portion of our website is best on .زبدۃ التصوف So, I think if you read that text, تو it will help you too much you can read this in English and another thing which you can read on our website is, it’s actually تصوف کا خلاصہ, it means frequently asked questions about تصوف. So the answers of those questions are also available in our book in the form of frequently asked questions, FAQs. So you can read the answers to those questions as well. So I think for this time it will be enough for you, and you should make دعا for فہم التصوف to be translated very soon in English and in many languages and after that ان شاء اللہ if اللہ will grant us توفیق or to someone they may translate those lectures of مکتوبات شریف as well.
سوال نمبر23:
السلام علیکم!
My dear and respected مرشد دامت برکاتہم, I hope you are well ان شاء اللہ! All اذکار are completed for this month without any ناغہ الحمد للہ
2, 4, 6, and 3500, 15 minutes مراقبہ with finger on .قلب I am able to hear اللہ اللہ coming from لطیفۂ قلب now during مراقبہ.
ماشاء اللہ.
احوال:
I feel very shy sitting with my nieces now that they are reaching adulthood to the point that I can't look them in the eyes any more. When I keep silent due to someone, I can feel something leaving my لطیفہ نفس and لطیفۂ قلب towards that person. When I make دعا for you یا مرشد I can feel something enter in my لطیفہ نفس and لطیفۂ قلب.
جواب:
ماشاء اللہ it is very good because these are the two organs to be effected, قلب and نفس, so if you feel entering something in this, so it means it's فیض of سلسلہ coming to you on these things and I think after this, you should do all these اذکار. After that, feel ذکر for 10 minutes at قلب and for 15 minutes at لطیفۂ روح
ان شاء اللہ.
سوال نمبر24:
حضرت جی چلتے پھرتے درود شریف پڑھنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟
جواب:
جی بالکل، چلتے پھرتے بھی درود شریف پڑھا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میرے پھوپھا بہت بڑے عالم تھے فاضل دیوبند تھے اور قادری و نقشبندی دونوں سلسلوں کے شیخ تھے۔ میں اکثر ان کے ساتھ سفر میں جایا کرتا تھا۔ ایک دن ہم تانگے میں بیٹھے تھے، حضرت آگے بیٹھے تھے اور میں پچھلی سیٹ پہ بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت نے رخ موڑ کے مجھ سے فرمایا: ”شبیر یاد رکھنا درود شریف بغیر وضو کے بھی پڑھا جا سکتا ہے اور یہ شیطان کی کاروائی ہے کہ پہلے وضو نہیں رہنے دیتا اس کے بعد کہتا ہے کہ بغیر وضو کے درود شریف نہیں پڑھ سکتے“۔
حالانکہ جب بے وضو حالت میں ذکر کیا جا سکتا ہے تو درود شریف بھی پڑھا جا سکتا ہے حتیٰ کہ قرآن پاک بھی زبانی طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔
لہٰذا بغیر تردد کے درود شریف بے وضو حالت میں بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر25: حضرت جی تعظیم کے حوالے سے ایک سوال ہے۔ کئی جگہوں پہ دیکھا ہے کہ بزرگان دین کے سامنے عجمی لوگ آئے تو وہ بہت زیادہ تعظیم و ادب سے جھک کر سلام کرتے ہیں جبکہ عرب لوگ بالکل سیدھے ہو کر سلام کرتے ہیں کوئی تعظیم وغیرہ نہیں کرتے۔ کیا بزرگوں کو جھک کر سلام کیا جا سکتا ہے؟ اس کی وضاحت فرما دیجیے۔
جواب:
یہ آج کل کے عرب ہیں، ہم نے ایسے عربوں کو دیکھا ہے جو عجمیوں سے بھی زیادہ تعظیم کرتے ہیں۔ در حقیقت عربوں میں ادب بہت زیادہ تھا اور محبت بھی بہت تھی لیکن آج کل کے عرب ذرا اور قسم کے ہیں۔ ہمارے کئی اکابر عرب ہی تھے۔ آج کل بھی اگر آپ شام کے عربوں کو دیکھیں تو حیران ہو جائیں گے۔ شام کے عرب حضرات اتنے با ادب ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔
ایک مرتبہ میں حرم شریف میں حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں ایک شامی بزرگ بھی موجود تھے جو بار بار ادھر ادھر دیکھ رہے تھے جیسے کچھ تلاش کر رہے ہوں۔ جب ان کی نظر حضرت پہ پڑی تو بڑی محبت سے آ کر ملے اور کہنے لگے کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ مجھے کافی دیر سے نور محسوس ہو رہا تھا میں مسلسل پھر رہا تھا اور ڈھونڈ رہا تھا کہ دیکھوں یہ نور کہاں سے آ رہا ہے، اچھا ہوا کہ آپ کے ساتھ ملاقات ہو گئی۔ وہ شامی بزرگ حضرت کے ساتھ کافی دیر بیٹھے رہے اور دونوں حضرات باتیں کرتے رہے۔
بہرحال تعظیم اور ادب عرب حضرات میں بھی بہت زیادہ ہے۔ جن عربوں کو آج کل آپ دیکھتے ہیں یہ اصل عرب نہیں ہے، اس وجہ سے بھی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، اصل عرب لوگوں میں واقعی بہت ادب ہے۔
پہلی دفعہ جب میں حجاز گیا تو حضرت عبد المنان صاحب کے ساتھ تقریباً تین ماہ گزارے۔ حضرت نے مجھے کافی چیزیں سمجھائی تھیں۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ یہاں گڑبڑ اصل عرب لوگوں میں نہیں ہے، بلکہ ہندوستان، پاکستان بنگلہ دیش وغیرہ سے کچھ غیر عرب لوگ یہاں سیٹل ہو چکے ہیں اور وہ ظاہری وضع قطع میں عرب نظر آتے ہیں۔
ایک دن ایسا ہوا کہ ہم منیٰ سے طواف زیارت کے لئے جا رہے تھے راستے میں جانے والی ایک بس کو ہاتھ کے اشارے سے روکا، ہمارے سوار ہونے سے پہلے بس سے ایک آدمی اترا، جس نے عربوں والے کپڑے پہنے ہوئے تھے، فر فر عربی بول رہا تھا، اور ایسے تیز طرار انداز میں بات کر رہا تھا جیسے باقی لوگ انسان نہیں بھیڑ بکڑیاں ہیں۔ میں اس کی باتیں سن کر اور اسے دیکھ کر حیران ہوئے جا رہا تھا، حضرت مولانا حاجی عبد المنان صاحب بالکل آرام سے کھڑے تھے۔ خیر سب لوگ بس میں بیٹھ گئے، بس روانہ ہوئی۔ ہم اگلی دو سیٹوں پہ بیٹھے تھے اور وہ آدمی ہمارے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت حاجی صاحب نے ان سے بہت آرام سے اردو میں پوچھا کہ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔ اس نے کہا: گجرات سے۔ حاجی صاحب نے مجھے اشارہ کیا کہ دیکھو وضع قطع اور بول چال سے یہ کیسا عربی لگ رہا تھا، لیکن در اصل یہ یہاں کا نہیں ہے بلکہ گجرات کا ہے۔
اسی دوران کا ایک واقعہ ہے۔ ایک دفعہ ہمارے خیمے میں تیل ختم ہو گیا۔ حاجی عبد المنان صاحب نے مجھے کہا: آئیے آج میں آپ کو اصل عربوں سے ملاؤں۔ وہ مجھے وہاں کے مقامی عرب لوگوں کے ایک خیمے میں لے گئے، اور ان سے کہا: ہمارے خیمے میں تیل ختم ہو گیا ہے، کچھ تیل دے سکیں تو دے دیں۔
آپ یقین جانیں وہ عرب اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک انہوں نے ہمارے لئے تیل ڈھونڈ نہیں لیا۔ ہم وہاں سے تیل لے کر نکلے تو حاجی عبد المنان صاحب نے کہا: یہ ہیں اصلی عرب۔
بہرحال اب وہاں پر بہت مکسنگ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو confusion ہوتی ہے۔
سوال نمبر26:
حضرت جی کیا بزرگوں کی تعظیم کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں ہے؟
جواب:
نہیں یہ شرک کی بات نہیں، یہ تو محبت کی بات ہے۔ بزرگوں سے ملتے وقت اتنا جھکنا کہ جس سے رکوع اور سجدہ کا شبہ نہ ہو، جیسے بڑوں سے سلام کرتے وقت ہلکا سا جھکا جاتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال نمبر27:
حضرت جی اگرچہ فنا فی الرسول اگلی stage ہے لیکن اتباع سنت کا اہتمام کرتے ہوئے فنا فی الشیخ بھی آسان ہو جاتی ہے۔
جواب:
فنا فی الشیخ مقصد نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک ذریعہ ہے اصل مقصد تو اللہ کی بات ماننا ہے، اگر آپ کو یہ مقصد حاصل ہو گیا تو بس پھر کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر28:
حضرت نماز میں دھیان مطلوب ہے، ذکر و مراقبے میں بھی دھیان مطلوب ہوتا ہے، کیا اس دھیان کا شریعت میں کوئی الگ مقام ہے؟
جواب:
جی آپ نے بالکل ٹھیک سمجھا، اصل میں ان ساری عبادات و ریاضات کا مقصد یہی تو ہے کہ آپ نے دھیان حاصل کرنا ہے، اپنے آپ کو ایسا بنانا ہے کہ ہر دم اللہ کی طرف متوجہ رہیں۔ یہ دھیان انسان کو تب حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنا سب کچھ اس کے ساتھ ہی وابستہ کر لیتا ہے۔ جب آپ کا سب کچھ اس کے ساتھ وابستہ ہوجائے تو آپ کا مانگنا بھی استحضار والا ہو جائے گا آپ کا ذکر و فکر بھی استحضار والا ہو جائے گا، آپ ہر جگہ ہر وقت ہر معاملے میں اللہ کی رضا کو دھیان میں رکھیں گے۔ یہ تب حاصل ہوتا ہے جب آپ کا اللہ پاک کے ساتھ قلبی تعلق پیدا ہو جائے۔ اس کے بعد آپ کا دماغ 100 فیصد اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور یہی دھیان ہے۔
اس دھیان کو آپ توجہ اور concentration بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ اس دھیان اور توجہ میں کچھ فرق ہے۔ عموماً لوگوں کے ذہنوں میں دھیان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کسی چیز کے لئے یکسو ہو کر بیٹھے ہوں تب آپ اس پہ دھیان کر رہے ہوتے ہیں، یہ دھیان نہیں توجہ کا ارتکاز ہے، کہ جب آپ کسی چیز کے یکسو ہو کر بیٹھے اور اسی پہ پوری توجہ مرکوز کر رہے ہوں، جبکہ دھیان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ آپ یکسو ہو کر بیٹھے ہی ہوں، بلکہ جب انسان کو دھیان کی کفیت حاصل ہو جائے تو اسے یہ کیفیت ہر ہر لمحہ میں حاصل ہو رہی ہوتی ہے۔
مثلاً آپ کو کسی کے ساتھ محبت ہے۔ وہ آپ کو کہتا ہے بازار سے میرے لئے فلاں چیز لے آؤ، آپ کا دل اس کے پاس سے جانے کو نہیں چاہتا لیکن پھر بھی آپ اس سے محبت کی بنا پر اس کا حکم ماننے کے لئے جاتے ہیں، اب آپ اس کے کام کے لئے جائیں، بازار کے سارے کام کریں گے، آپ کی ساری چیزیں ہوش و حواس وغیرہ بحال ہوں گی۔ آپ کے آس پاس خواہ کیسے ہی حالات ہوں لیکن آپ کا دھیان اللہ کی ہی کی طرف ہوگا۔ یہی دھیان ہے۔
یہ دھیان ایک دم حاصل نہیں ہوتا، سالہا سال اس کے لئے مشق اور محنت و ریاضات و مجاہدات کرنے پڑتے ہیں۔
اس دھیان کو حاصل کرنے کے لئے تین چیزوں پہ محنت کرنا اور ان کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ قلب، نفس اور عقل۔ آپ کوئی بھی ذریعہ دیکھیں ان تینوں سے باہر نہیں ہوگا، جب آپ روحانی طور پہ بیمار ہوں گے یا آپ کی طبیعت گڑبڑ کر رہی ہو گی اسے ٹھیک کرنا پڑے گا یا دل کسی اور کے ساتھ لگا ہو گا اسے ٹھیک کرنا ہوگا یا پھر عقل کو کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی ہو گی اس کی اصلاح کرنی پڑے گی۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن