اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال:
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم اپنے بھائی کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ ایک مسلمان اپنے لئے آخرت میں کام آنے والی چیزیں پسند کرتا ہے لیکن اس کا دوسرا مسلمان بھائی دنیا کی ایسی چیزوں کو پسند کر رہا ہے جو آخرت میں اس کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور جب اس کو دنیاوی چیزوں سے ہٹانے کی کوشش کرے یا دنیاوی چیزوں کے حصول میں اس کی مدد نہ کرے تو وہ بھائی ناراض ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک مسلمان کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ دوسرا مسلمان بھائی بھی آخرت کی چیزوں کو پسند کرنے لگے؟
جواب:
سوال میں ایک رخ ذرا مخفی ہے۔ حدیث شریف ہے کہ اپنے بھائی کے لئے تم وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ آپ اپنے لئے صرف آخرت کا فائدہ پسند کرتے ہیں یا دنیا کا بھی کرتے ہیں؟ ظاہر ہے دنیا کا بھی فائدہ پسند کرتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (البقرۃ: 201) دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔ اپنے بھائی کے لئے بھی دونوں چیزیں پسند کرو، آخرت بھی اور دنیا بھی۔ یہ اصولی بات ہو گئی ہے۔ ایک فروعی بات اس کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اگر آپ کسی کی دنیا کا خیال رکھتے ہیں تو آپ کی آخرت کی باتوں کا وہ یقین کرے گا۔ یہ اس کے لئے lubrication ہے۔ ڈاکٹر صاحب علاج کرتے ہیں۔ اگر کسی مریض کے ساتھ مہربانی کریں اور اس کو Overdue respect دے دیں، ان کے علاج معالجے وغیرہ میں تو وہ مریض ان کا ممنون ہو گا۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب اگر ان کے دین کی بات بتائیں گے تو زیادہ فائدہ ہو گا یا ویسے ہی کہہ دے تو زیادہ فائدہ ہو گا؟ یہ صرف ہمارا طریقہ نہیں ہے بلکہ جتنے بھی مشنری لوگ ہیں جیسے عیسائی وغیرہ، یہ با قاعدہ planning کرتے ہیں۔ یہ ممنون کرتے ہیں اور جس وقت لوگ ممنون ہو جاتے ہیں پھر اپنی کتابیں بھیج دیتے ہیں اور ان کے ایمان کو خراب کرتے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے شیخ ہیں۔ چونکہ پشاور یونیورسٹی میں تھے۔ ہماری یونیورسٹی بہت general قسم کی یونیورسٹی تھی۔ اس میں ایک ہی hostel میں، ایک کمرے میں medical کالج کا بھی student ہوتا تھا اور engineering کا بھی student ہوتا تھا۔ کامرس کالج کا بھی ہوتا تھا۔ سب ملے جلے ہوتے تھے۔ عرب students کا بھی ایک hostel تھا۔ ان میں سے کچھ students تبلیغی جماعت میں لگے ہوئے تھے۔ ہمارے حضرت تبلیغی جماعت کے پشاور کے امیر تھے۔ حضرت کے پاس نظام الدین انڈیا سے مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو تبلیغی جماعت کے امیر تھے ان کا پیغام آیا کہ حضرت آپ کے پاس جو عرب طلباء ہیں ان کی پڑھائی کے اوپر توجہ دیں تاکہ یہ پڑھیں۔ اگر یہ پڑھ نہ سکے اور فیل ہو کے چلے گئے تو ان کے ممالک میں تبلیغ کی افادیت ختم ہو جائے گی۔ لوگ تبلیغ کی بات نہیں مانیں گے۔ یہ پیغام سن کر حضرت نے ڈاکٹر فدا صاحب سے کہا کہ ان کا ذرا احوال وغیرہ معلوم کریں اور ان کے لئے کچھ planning کریں کہ یہ پڑھنا، لکھنا شروع کر لیں تاکہ ان میں کوئی فیل نہ ہو جائے۔ بزرگ کیا سوچتے ہیں اور ہم لوگ کیا سوچتے ہیں یہ بات میں واضح کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر فدا صاحب نے حالات کا جائزہ لیا اور رپوٹ دے دی کہ حضرت ان کے احوال یہ ہیں کہ سارا دن تبلیغ میں پھرتے ہیں اور شام کو چونکہ بے نمازی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے تو کھانا خود پکاتے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں بھی وقت لگ جاتا ہے۔ پھر کھانا کھا کے تھوڑی دیر بعد آپس میں کار گزاری وغیرہ سناتے ہیں۔ پھر ان کو نیند آ جاتی ہے اور سو جاتے ہیں۔ اگلے دن پھر اسی طرح کرتے ہیں۔ اب میں ان کے ساتھ کیا کروں؟ تبلیغی جماعت کا کام تو آخرت کی بات کرنا ہے لیکن وہ تب باقی رہتا ہے جب ان کی دنیا بھی درست ہو کیونکہ یہ صرف اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کا گھر بھی ہے، ان کا باپ بھی ہے، ان کی ماں بھی ہے، ان کی بیوی اور بچے بھی ہیں۔ یہ سارے attach ہیں۔ اگر آپ ان کا خیال چھوڑ دیں تو وہ آپ کو کہیں گے یہ پتا نہیں کون سی جہالت میں پڑ گیا۔ ہمیشہ کے لئے راستہ رکاوٹ بن جائے گا۔ معلوم ہوا ہم لوگوں کو صرف دین کی بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ لوگوں کے ساتھ اس طرح معاملہ کرنا چاہیے کہ ان کا دین بھی اچھا ہو اور دنیا بھی اچھی ہو۔ ہمارے ذہن میں یہ ہو کہ یہ آخرت میں کامیاب ہو جائے لیکن چونکہ اس کے لئے سمجھ چاہیے اور اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ 0 وَ تَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾(القیامۃ: 20-21)
ترجمہ: ”خبر دار (اے کافرو) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو۔“
معلوم ہوا یہ چیز ہمارے اندر رچی بسی ہے۔ ہمیں اس کے مطابق planning کرنی ہو گی۔ ترکی کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اجر دے۔ بڑے ہی با ہمت لوگ ہیں۔ انہوں نے ایسے مشکل حالات دیکھے ہیں کہ اگر ہمارے اوپر آ جائیں تو پتا نہیں ہم کیا کریں۔ لیکن وہ ما شاء اللہ چل رہے ہیں اور بہتر ہو رہے ہیں۔ بچوں کے لئے انہوں نے ایک planning کی کہ اگر کوئی 40 دن تک با قاعدگی کے ساتھ نماز پڑھے گا تو اس کو سائیکل ملے گی۔ اسی طرح تلوار اور تاج کا ایک کھیل انہوں نے بنایا تھا کہ جب تک تلوار ہو گی تو تاج ہو گا۔ تلوار نہیں ہو گی تو تاج خطرے میں پڑ جائے گا۔ اسی طرح اور بہت ساری چیزیں ہیں۔ ان لوگوں نے دنیا کے اندر مگن رہتے ہوئے دین کا سوچا، یہ بڑی پکی بات ہے۔ 90 کی دہائی میں بھی طالبان تھے اب بھی ہیں۔ کچھ فرق محسوس کیا ہے؟ ان 20 سالوں نے انہیں کچھ سکھایا ہے؟ اپنے طور اطوار تبدیل کئے لیکن ارادہ تبدیل نہیں کیا۔ adjustment کر لی ہے جو ضروری ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو بھی اس طرح planning کرنا پڑے گی۔ اگر ہم کسی کی آخرت کا سوچ رہے ہیں تو اس کی دنیا کو چھوڑ کے نہ سوچیں۔ اس کی دنیا کو مدِ نظر رکھ کر سوچیں۔ اگر آپ اس میں مخلص ہیں تو امید ہے ان شاء اللہ ان کو بات پہنچ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ اور ہمارے اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے جو ذرائع ہیں، ان سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالمَِين