اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال:
آپ ﷺ نے فرمایا: ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے اترتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ خرچ کرنے والے کو بہترین بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ روک کر رکھنے والے کو ہی اس سمیت ہلاکت کر۔ بخاری کی حدیث شریف ہے۔ اس حدیث پر عمل کے حوالے سے سوال ہے کہ کوئی شخص اپنی آمدن کا کچھ حصہ مقرر کر کے ہر مہینے کے شروع میں اللہ کے راستے میں دے دیتا ہے اور باقی دنوں میں وہ خرچ نہیں کرتا تو کیا وہ بھی روک کر رکھنے والا شمار ہو گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آج کل بھیک مانگنا با قاعدہ ایک پیشہ بن چکا ہے، ایسی صورت میں جو اصل ضرورت مند ہیں ان کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے؟
جواب:
روک کر رکھنے والے سے مراد یہ ہے کہ جس کا دینے کا حکم ہے اس کو روکنا۔ مثلاً زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ۔ مثلاً کسی نے نذر مانی اور جب وہ کام ہو گیا تو نذر پوری نہیں کر رہا یا کفارہ ادا نہیں کر رہا یا زکوٰۃ نہیں دیتا اور جو ضروری خرچ جیسے نان نفقہ اد نہیں کر رہا، ہمارے معاشرے کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی بیوی کو ضروری خرچ جیسے واجب نان نفقہ نہیں دیتے، وہ بھی اسی میں آ جاتے ہیں کیونکہ وہ بیوی کا حق ہے۔ فرائض و واجبات کو پورا نہ کرنے والے پر یہ وعید ہے۔ خرچ کرنے سے مراد یہی ہے کہ جہاں اللہ پاک کا حکم ہے وہاں خرچ کرنا کیوں کہ ہر چیز کے اندر ایک فرض درجہ ہوتا ہے اور ایک نفل درجہ ہوتا ہے جیسے اکثر میں قرآن پاک کی آیت مبارکہ کی تشریح میں اور احادیث شریفہ کی تشریح عرض کرتا ہوں۔ پورے قرآن اور احادیث شریفہ کے ذخیرے کو مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ آپ ایک حدیث شریف کو لے لیں اور بقیہ کو بھول جائیں یہ درست نہیں، یا قرآن پاک کی ایک آیت لے لیں اور دیگر کو بھول جائیں۔ شریعت اصل میں پورا دین ہے۔ شریعت میں فرض، واجب، سنت، نفل ہر ایک کا تعین ہو چکا ہے جو فقہائے کرام نے کیا ہے۔ فرض کی تعریف یہ ہے کہ اس کا انکار کرنے والا کافر اور ادا نہ کرنے والا گناہ گار ہے۔ واجب کا انکار کرنے والا کافر نہیں لیکن نہ کرنے والا گناہ گار ہے۔ سنت اگر کوئی ادا نہیں کرتا تو قابلِ ملامت ہے اور محرومی کا ذریعہ ہے، اللہ تعالیٰ کی محبوبیت سے نکل سکتا ہے۔ اور مستحب کو نہ کرنے والا گناہ گار نہیں ہے لیکن مستحب کا جو ثواب مل سکتا تھا وہ نہیں مل رہا جس سے محرومی ہے۔ ایک آدمی ایک job کرتا ہے جس سے اس کی جو آمدنی ہوتی ہے اس سے پورا مہینہ گزارا کرتا ہے۔ دوسرا شخص ایک job بھی کرتا ہے اور ساتھ کوئی اور کام بھی Part time کرتا ہے جس سے اس کو extra آمدنی ہوتی ہے۔ اگر وہ یہ نہیں کرتا تو extra آمدنی سے محروم رہے گا، وہ قابلِ ملامت تو نہیں ہے کیونکہ ضروری کام کر رہا ہے لیکن extra چیز سے محرومی ہے۔ البتہ گھر بیٹھے سوالی بن جائے اور لوگوں سے مانگتا رہے، دھوکے کرتا رہے تو پھر جرم ہو گا۔ اس طریقے سے جو حرام کا ارتکاب کر رہا ہے اس سے بچنا فرض ہے اور فرض اور واجب کو کرنا لازم ہے۔ اگر کوئی نہیں کرتا تو حرام ہے۔ اسی طرح مال میں سے کچھ حصہ نکالنا فرض ہے، کچھ واجب ہے، کچھ سنت ہے اور کچھ مستحب ہے۔ اس پر بھی وہی حکم ہو گا کہ فرض کا تارک گناہ گار ہو گا اور انکار کرے گا تو کافر ہو گا جیسے زکوٰۃ کا کوئی انکار کرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ لیکن اگر نہیں دے گا تو گناہ گار ہو گا۔ اسی طرح صدقاتِ واجبہ کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہو گا لیکن اگر نہیں دے گا تو گناہ گار ہو گا۔ اسی طرح کوئی سنت کے مطابق دے گا تو ما شاء اللہ بہت اچھی بات ہے لیکن اگر نہیں دے گا تو قابلِ ملامت ہو سکتا ہے۔ معلوم ہوا ہر چیز کے اندر ان تمام درجات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جو فرض اور واجب درجہ ہے اس کا انکار کرنے پر بد دعا ہے۔ اور باقی management ہے۔ کوئی کس طرح management کرتا ہے اور کوئی کس طرح management کرتا ہے۔ management کے اندر بڑی variations اور details ہیں۔ ان details کے اوپر ہم بات نہیں کریں گے۔
سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے امام گزرے ہیں۔ انہوں نے بھی فرمایا ہے کہ اس وقت درہم و دینار کو محفوظ رکھنا ایمان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے۔ یعنی بعض دفعہ اس قسم کے حالات آ جاتے ہیں جن کو انسان برداشت نہیں کر سکتا اور ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس وجہ سے تمام لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق وہ کام کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ اور یہ بڑی اچھی management ہے کہ کوئی مہینے کی ابتدا میں دے دیتا ہے کیونکہ اگر پیسے پڑے ہوئے ہوں تو بعد میں ان کے لئے خرچ کرنے والی کوئی نہ کوئی مد نکل آتی ہے۔ یہ زکوٰۃ کے علاوہ ہو گا کیونکہ زکوٰہ اپنے وقت پہ دی جاتی ہے۔ یہ بہت اچھی management ہے۔ اور آج کل مہنگائی کی وجہ سے بھیک مانگنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور لوگوں کا دینے کا رجحان کم ہو رہا ہے، اس لیے آج کل management کی اور زیادہ ضرورت ہے۔ اصل غریبوں تک مال نہ پہنچے اور درمیان میں دوسرے لوگ دھوکے سے trap کر لیں تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس وجہ سے اب بہت management کی ضرورت ہے کہ میں کس کو دوں کس کو نہ دوں۔ اور اس کے لئے با قاعدہ پورا ایک نظام develop کرنا چاہیے تاکہ ہم جان لیں کہ کس کو دینا ہے اور کس کو نہیں دینا؟
کچھ لوگ جن کو آپ جانتے ہیں کہ غریب اور سفید پوش ہیں، کسی سے نہیں مانگتے۔ کچھ لوگ راستے میں ملتے ہیں اور ایسی صورت بنائے ہوئے کہ جیسے بہت غریب ہیں لیکن حقیقت میں نہیں ہوتے۔ بار ہا یہ ثابت ہو گیا مثلاً خون بہہ رہا ہے پٹی اتاری تو کچھ بھی نہیں ہے بلکہ کوئی رنگ وغیرہ لگایا ہوا تھا۔ دوائیاں ایسی ہیں کہ آنکھوں سے آنسو آ جائیں، آوازیں design کرتے ہیں کہ آدمی کو بڑا ترس آتا ہے اور حقیقت میں پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں اور کھاتے پیتے ہوتے ہیں۔ اس کا ایک آسان سا test ہے کہ جو واقعی پریشان ہوتا ہے وہ ہر وقت پریشان نظر آئے گا، مانگتے وقت بھی اور جب مانگ نہیں رہا ہو گا بلکہ یوں ہی کھڑا ہو گا تب بھی۔ آپ کسی شخص کو مانگنے کے علاوہ بھی دیکھیں کہ چہرہ کیسا بنا ہوا ہے؟ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ واقعی مستحق ہے یا نہیں ہے۔ لیکن یہ test آپ اس وقت کریں گے جب آپ کو اصل غریبوں کا پتا نہ ہو۔ جب آپ کو confirm لوگوں کا پتا ہے پھر risk نہیں لینا چاہیے۔ اپنے علاقے کے غریبوں کو پہچاننا چاہیے، جو سفید پوش ہیں اور کام کرنا چاہتے ہیں لیکن کام نہیں مل رہا یا بیمار ہیں یا disable ہیں یا کوئی اور مسئلہ ہے۔ ایسے لوگوں کو دیں۔ آج کل درانتی اپنے کندھے کے اوپر رکھ کر 10، 11 بجے لوگوں سے مانگنا شروع کر دیتے ہیں کہ کام نہیں ملا۔ ایک آدمی کو اگر 700 روپے کا کام نہیں ملتا تو 500 پہ کرے۔ اگر 500 پہ کریں گے تو امید ہے سب کو کام ملے گا۔ اب ہٹا کٹا آدمی اس بات کو بنیاد بنا کر مانگنا شروع کر دے تو یہ مانگنے کا ایک special طریقہ ہو گیا۔ ایسے لوگوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے اور ایسا بھی ہوتا کہ اگر درانتی والے کسی سے بھیک مانگے اور وہ کہے: آ جاؤ میں آپ کو کام دیتا ہوں تو فوراً آئیں بائیں شائیں کر کے آگے پیچھے ہو جائیں گے۔ معلوم ہوا کام نہیں کرنا چاہتے۔ اس دور میں بے غیرتی بہت زیادہ ہو اور اس معاملے میں شرم ختم ہو گئی ہے۔ یہ معاملہ بہت سنگین ہو رہا ہے۔ لہٰذا اصلی مستحق لوگوں تک مال کو پہنچانا ضروری ہے کیونکہ مستحق لوگ زیادہ ہو رہے ہیں اور دینے والے کم ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کے پاس صرف 10000 روپے دینے کی گنجائش ہے اور مستحق بہت زیادہ ہیں ان سب کے لئے 10000 کچھ بھی نہیں۔ اگر راستے میں آپ ان کو دیتے رہیں تو معلوم نہیں کہ مستحق تک پہنچا یا غیر مستحق تک۔ جیسے عورتیں نرم دل ہوتی ہیں، ان کا دل پسیج جاتا ہے۔ وہ راستے میں ہر مانگنے والوں کو دیتی رہتی ہیں۔ میں اپنے گھر والوں کو منع کرتا ہوں کہ جب تک آپ کو معلوم نہ ہو تو نہ دو۔ بہر حال ہمیں صحیح اور مستحق لوگوں تک پہنچانا چاہیے، بے شک اس میں کچھ وقت لگ جائے۔ معلوم کر لو، جب معلوم ہو جائے پھر با قاعدہ ایک سلسلہ باندھ دو، جیسے کوئی disable ہو یا بیوائیں، یتیم ہوں تو مستقل اور خفیہ طور پہ ان کے وظائف مقرر کر دو اور با قاعدگی سے پہنچاتے رہو۔ ہمارے بزرگوں کا یہی طریقہ ہوتا تھا جیسے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس وقت فوت ہو گئے تو اس وقت بہت سارے لوگوں کو پتا چلا کہ حضرت ہمیں پیسے پہنچا رہے تھے کیونکہ اپنے طالب علموں کے ذریعے انہوں نے اپنا پورا ایک network بنایا ہوا تھا۔ لوگوں کو اپنے اپنے وقت پہ پیسے مل جاتے تھے، اب جب پیسے بند ہو گئے تو لوگوں نے شاگردوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسا کرتے تھے اور انہوں نے بتانے سے منع کیا ہوا تھا۔ اور اس میں بھی بہتر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ بجائے پیسے دینے کے ان کو کوئی کام شروع کروا دو، کوئی investment کر دو تاکہ بعد میں بھی ان کو فائدہ پہنچتا رہے اور مستقل بنیادوں پر ان کے لئے ایک حل ہو جائے۔ یہ management کی چیزیں ہیں اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين