اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کے دور میں عرب معاشرہ مختلف قبائل میں تقسیم تھا اور ہر قبیلہ دوسرے قبیلے پر فوقیت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہی قبائلی فوقیت ان کے اسلام لانے میں حائل ہوتی تھی۔ ہمارے اس دور میں کسی پارٹی کے ساتھ سیاسی وابستگی کو ہم اس دور کے قبائلی نظام کے ساتھ تشبیہہ دے سکتے ہیں، کیونکہ بعض اوقات ہماری سیاسی وابستگی قبول حق میں مانع ہو جاتی ہے۔ سیاسی وابستگی کے با وجود حق کو پہچاننے اور حق کا ساتھ دینے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:
اس سوال میں ایک بہت بڑے حجاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ایک معاملے میں دو آدمی الجھ جائیں، ایک کہتا ہے یہ چیز میری ہے۔ دوسرا کہتا ہے یہ چیز میری ہے۔ اس میں ایک حق ہوتا ہے اور ایک باطل ہوتا ہے۔ یعنی ایک صحیح کہتا ہے اور دوسرا غلط کہتا ہے لیکن جو غلط کہتا ہے اس کو بھی دلائل نظر آتے ہیں، جو اس کے حق میں ہے، اس کو وہ دلائل نظر نہیں آتے جو اس کے مخالف جاتے ہیں۔ اور حق پہلے سے حق ہے۔ ایسی صورت میں یہ معاملہ، پیسہ، مال، پوسٹ، پوزیشن یہ سب حجاب بن جاتے ہیں۔ پٹھان اور پنجابی کا آپس میں مقابلہ ہو جائے تو پٹھان کہتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے ہیں۔ پنجابی کہتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے ہیں۔ پٹھانوں کی اچھی باتیں اپنی جگہ اور پنجابیوں کی اچھی باتیں اپنی جگہ، لیکن پٹھانوں کی غلط باتیں پٹھانوں کو نظر نہیں آتیں، اور پنجابیوں کی غلط باتیں پنجابیوں کو نظر نہیں آتیں۔ یہی حجاب ہے۔ یہ میں نے جزئیات کی مثال دے دی۔ اسی طریقے سے قبائلی نظام میں ہوتا ہے کہ جو قبائل آپس میں الجھ جاتے ہیں، ان کے حق میں جو بات ہوتی ہے وہ ان کو نظر آتی اور جو حق میں نہیں ہوتی وہ نظر نہیں آتی۔ چنانچہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور اپنے طور پہ دلائل بھی دیتے رہتے ہیں۔ جن میں صحیح دلائل بھی ہوتے ہیں، غلط بھی ہوتے ہیں۔ یہ حجاب ہے۔ اسی طرح آج کل ہر ایک اپنی پارٹی کی حمایت کرتا ہے، غلط باتوں کی بھی اور صحیح باتوں کی بھی۔ اگر صحیح باتوں کی کرتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن غلط باتوں کی کرتا ہے تو اس کو نظر نہیں آتا کہ میں غلطی پر ہوں، یہ حجاب ہے۔ ان حجابات کو دور کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ اس قسم کی معرکۃ الآراء چیزوں میں سب سے اول کام دعا ہے۔ ہم دعا کریں کہ اللہ پاک ان حجابات کو دور فرمائیں۔ حدیث شریف میں اس کے لئے ایک مخصوص دعا موجود ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب کبھی ایسے اہل باطل کے ساتھ بات کرنی ہو تو ان کو دعا کے لئے آمادہ کریں۔ پہلے دلائل نہ دیں۔ ان سے کہہ دو کہ اگر آپ حق پر ہیں تو بس ٹھیک ہے لیکن آپ اللہ تعالی سے دعا کر سکتے ہیں کہ اے اللہ! مجھے حق دکھا دے اور مجھے اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ اور باطل مجھے دکھا دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ فرمایا: "اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقّاً وَّ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ و اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَه" قرآن پاک کی ایک اور دعا ہے: ﴿رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران: 8)
ترجمہ: ”(ایسے لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے، اور خاص اپنے پاس سے رحمے عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بے انتہا بخشش کی خو گر ہے۔“
یعنی اگر ہمیں سمجھ آ جائے اور پھر ہمارے دل میں ٹیڑھ آ جائے تو پھر یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ جیسے انگریزی میں کہتے ہیں Point of view اور اردو میں کہتے ہیں نقطۂ نظر۔ ہر شخص کا اپنا نقطۂ نظر ہوتا ہے کیونکہ اس کے دل کی اپنی حالت ہے جس کے لحاظ سے اس کا نقطۂ نظر ہوتا ہے۔ آرمی والے اور ائیر فورس والے جس وقت selection کرتے ہیں تو چیک کرتے ہیں، انہوں نے کچھ آڑی ترچھی تصویریں دی ہوتی ہیں، وہ ان کے سامنے رکھ کے کہتے ہیں اس پہ story لکھو کہ یہ کیا چیز ہے؟ story لکھنے والا اپنے بارے میں بتا رہا ہوتا ہے کہ میں کیسا ہوں؟ اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کی thinking کیا ہے؟ اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن کچھ نہ کچھ اس سے سمجھ میں آ جاتا ہے۔ چنانچہ اگر دل میں ٹیڑھ ہے تو ذہن غلط بات کی طرف جائے گا۔ بعض لوگوں کو بہت صحیح بات بھی نظر نہیں آ رہی ہوتی تو آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ آپ بچے کو سمجھا دیں گے لیکن اس کو نہیں سمجھا سکتے۔ اس کا Point of view ایسا ہی ہے کہ وہ جس رخ سے دیکھتا ہے اس کو ویسا ہی نظر آ تا ہے۔ چنانچہ پہلے ہمیں اللہ پاک سے دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ ہمیں کجی سے بچائیں اور حق اور باطل میں تمیز کرنا سکھائیں اور اس کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ دعا کے بعد ان کو ایسے دلائل دیں جن میں جارحانہ پن نہ ہو بلکہ مفاہمانہ انداز ہو۔ جارحانہ پن انسان کو غصہ دلاتا ہے اور وہ مزید اس پہ اڑتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے سامنے کوئی صحیح وضو نہیں کر رہا، آپ کہتے ہیں: کیا کر رہے ہو، ابھی تک وضو کا طریقہ بھی نہیں سیکھا؟ یہ بات کرنے کا غلط طریقہ ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ بھائی صاحب وضو نماز کے لئے ہوتا ہے، اگر وضو غلط ہو تو پھر نماز بھی نہیں ہوتی اور نماز کے لئے ہم کتنی محنت اور کوشش کرتے ہیں۔ اگر ساری محنت کر لیں پھر بھی ہماری نماز نہ ہو تو پھر بڑی خسارے کی بات ہے، میں نے اس طرح پڑھا ہے یا سنا ہے آپ ذرا تحقیق کر لیں اگر میں غلطی پر ہوں تو مجھے بھی بتا دیں۔ درمیان میں latitude چھوڑ دے تاکہ اس کے اوپر فوری بات نہ آئے۔ نماز کے لئے وضو شرط ہے، ایسا نہ ہو کہ ہماری نماز ہی خراب ہو جائے۔
میں عربوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا، ان کے ساتھ رہتے ہوئے ان کو سمجھانے کے لئے میں نے بڑا اچھا طریقہ سیکھا۔ جب کبھی ہمارا اختلاف ہوتا تو میں کہتا ما شاء اللہ ھٰذَا رَأْیُك ”یہ آپ کی رائے ہے“ وَ ھٰذَا رَأْیِیْ ”اور یہ میری رائے ہے“ مُمْکِنٌ اَنْتَ صحیحٌ ”ممکن ہے آپ صحیح ہوں“ مُمْکِنٌ اَنَا صحیحٌ ”ممکن ہے میں صحیح ہوں“ نَتَکَلَّمُ عَلٰی ھٰذَا الْاَمْر ”چلو ہم اس پر بات کر لیتے ہیں“ ان کے اندر یہ بڑی خوبی تھی کہ وہ اس طریقہ سے بہت آسانی سے مان جاتے اور جب ان کو پتا چلتا کہ میری بات صحیح ہے تو کہتے: عِنْدَکَ حَقّ یَا شَیْخ اور بات ختم ہو جاتی۔ تو انسان کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ آرام سے بات ہو جائے تو بہتر ہے۔
طالبان نے اس دفعہ لڑے بغیر زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں انہوں نے یہی طریقہ اپنایا کہ پہلے مل لیتے ہیں، ان سے بات کرتے ہیں کہ آپ بھی لڑیں گے، ہم بھی لڑیں گے۔ ہمارے بھی لوگ مریں گے، آپ کے لوگ بھی مریں گے۔ اگر آپ لوگ حق پر ہوں گے تو ہمارا کام خراب ہو گا اور اگر ہم حق پر ہوں گے تو آپ کا کام خراب ہو گا۔ اس حوالے سے کچھ بات کر لیتے ہیں اور صحیح بات پر جمع ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ان خبیثوں کو نکالنا ہے جس سلسلے میں ہمیں تعاون چاہیے۔ اگر ہم آپس میں لڑیں گے تو یہ نہیں نکلیں گے۔ چنانچہ بغیر لڑے سوائے آخری علاقے کے تقریباً پورا کے پورا علاقہ فتح کر لیا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ contribution ہے۔ تو یہ طریقہ بہت مناسب ہے ورنہ کمال کی بات یہ کی ہے کہ جن علاقوں سے یہ بنے تھے جیسے پہلے پشتون علاقوں سے بنے تھے تو فارسی خوان ان کے مخالف تھے۔ اس دفعہ انہوں نے فارسی خوان علاقوں سے ابتدا کی تھی اور ان کو اپنے ساتھ پہلے ملایا اور دوسری strategy کا یہ کام کیا تھا کہ سرحدات پر پہلے کام شروع کیا، مرکز میں بعد میں آئے۔ یعنی سرحدی علاقوں کو پہلے فتح کیا، ان کو اپنے ساتھ ملایا اور کابل میں بعد میں آئے۔ بلکہ یہ بھی کمال کیا کہ صوبوں میں پہلے صدر مقام پہ نہیں گئے بلکہ پہلے اس پورے صوبے کو فتح کیا۔ صدر مقام تک آخر میں گئے۔ تو یہ strategy ہے۔ اللہ پاک دکھاتا ہے تو پھر سمجھ میں آتا ہے، ان کو اللہ تعالیٰ نے اس دفعہ یہ سمجھ عطا فرما دی ما شاء اللہ بہت فائدہ ہوا۔ ہمیں بھی ان علاقائی اور قبائلی اختلافات کو دور کرنے کے لئے کوئی طریقہ اختیار کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم لڑیں، بلکہ مفاہمتی انداز میں نَعَمْ سے بات شروع کرو۔ آپ ﷺ کا طریقہ یہی تھا۔ ایک بار صحابہ کرام سے فرمایا: میں آپ کو ایسا کلمہ نہ بتا دوں جو آپ کو پورے عرب کا سردار بنا دے؟ یہ بات کرنے کا طریقہ ہے۔ فضائل مسائل کے generator ہوتے ہیں۔ مسائل کا حل تب سمجھ آتا ہے جب فضائل معلوم ہوں ورنہ مسائل پر عمل ہی نہیں ہوتا۔ فضائل آپ کو power دیتے ہیں۔ بچے جب کھانا نہیں کھاتے، ان کے نخرے ہوتے ہیں تو اچھی مائیں ان کو بتاتی ہیں کہ اگر آپ نے یہ کھا لیا تو آپ کے اندر power آ جائے گی۔ پھر آپ اس طرح کریں گے اور یہ کریں گے وغیرہ۔ لہٰذا جب ایک بچہ کھاتا ہے تو دوسرے کو کہتے ہیں: دیکھو اس میں power آ جائے گی پھر آپ اس کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ یہ فضائل ہیں۔ اب بچے اتنا ہی سمجھ سکتے ہیں وہ vitamins اور minerals اور Food value کی باتیں نہیں جانتے، وہ صرف power جانتے ہیں۔
ہمارے وزیرستان کے ایک دوست پشاور میں ہمارے Side roommate تھے۔ وزیرستانی لوگ سادہ ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ڈسپنسری میں ہٹا کٹا آدمی آ جاتا اور کہتا ہے: مجھ میں کمزوری ہے، مجھے طاقت کا injection لگاؤ۔ ڈاکٹر ان کے ساتھ بحث نہیں کرتے بلکہ ان کو Distilled water کا injection لگا دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ واقعی انہوں نے کوئی tonic کا injection لگایا ہے۔ لوگوں کو اس طرح دکھاتے ہیں کہ ہم میں طاقت آ گئی ہے حالانکہ اگر وہ صحیح injection بھی لگائیں تو اتنی جلدی نہیں آتی، لیکن سادہ لوگ سادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کو handle کرنے کے لئے بھی طریقے ہوتے ہیں۔ ان میں سمجھداری آہستہ آہستہ ہی آتی ہے، فوری طور پر آپ بچے سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ آپ جتنا سمجھ دار ہو جائے بلکہ میں تو اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ بعض لوگ ذرا تیز ہوتے ہیں، غصے والے ہوتے ہیں، جب خود کوئی کام سیکھ لیتے ہیں یا اچھے ہو جاتے ہیں اور کچھ برائیاں چھوٹ جاتی ہیں تو دوسروں کی برائیوں پہ بہت سختی کے ساتھ تنقید کرتے ہیں۔ میں ان کو کہتا ہوں کہ کیا آپ خود اتنی آسانی کے ساتھ نکلے تھے اس سے؟ جتنا عرصہ آپ نے لگایا ہے اس سے نکلنے میں تو آپ دوسرے کو بھی اتنا وقت دیں۔ مثال کے طور اگر آپ دس سال میں نکلے ہیں اور وہ پانچ سال میں نکلا ہے تو وہ آپ سے اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن