نفس کی پاکیزگی اور دل کی درستگی

سوال نمبر 507

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

اللہ تعالیٰ نے نفس کے بارے میں فرمایا: جس نے اس کو پاک کیا وہ کامیاب ہو گیا۔ اور آپ ﷺ نے دل کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اگر یہ ٹھیک ہو گیا تو سارا جسم ٹھیک ہو گیا۔

نفس کو پاک کرنے اور دل کو درست کرنے میں اوّلیت کس کو حاصل ہے اور پھر اس کو کیسے کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

یہ بہت اہم سوال ہے کیونکہ یہ confusion بہت سارے لوگوں کو ہو سکتی ہے۔ اصل میں ایک سوچ کی کمی ہے جس کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔ جیسے میں قرآن پاک کی ایک آیت کو دیکھوں تو اس پر میں سارے فیصلے نہیں کر سکتا۔ اسی طرح میں کسی ایک حدیث شریف کو پڑھوں تو اس پر بھی میں سارے فیصلے نہیں کر سکتا کیونکہ اس حدیث شریف کے علاوہ بھی احادیث شریفہ ہیں اور قرآن پاک کی اس آیت کے علاوہ بھی قرآن پاک کی دوسری آیات ہیں۔ اگر میں کسی چیز کو صرف ایک طرف سے دیکھوں تو مجھے اس کے بارے میں پوری طرح معلوم نہیں ہو گا، اس کے بارے میں تفصیل کا پتا نہیں ہو گا۔ کیونکہ مجھے صرف وہی چیز نظر آ رہی ہو گی جو نظروں کے سامنے ہے۔

ہم stoodguard میں ایک conference میں شریک تھے۔ جس میں engineer بھی تھے، سائنسدان بھی تھے، ہر قسم کے لوگ تھے۔ اس طرح مختلف النوع لوگ جب جمع ہوتے ہیں تو پھر اختلاف کی صورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ تو جو اس کانفرنس beginner تھا اس نے ایک مثال دی تاکہ لوگ بلا وجہ confusion میں نہ پڑیں کیونکہ ہر شخص کی سوچ الگ ہے۔ اس نے کہا: تین آدمی کھڑکی میں کھڑے تھے۔ ایک بھیڑ کو انہوں نے دیکھا جس کا رنگ کالا تھا۔ جو journalist تھا اس نے کہا: اچھا! stoodguard میں کالی بھیڑیں بھی ہیں۔ جو physicist تھا اس نے کہا: آپ ذرا اپنی زبان کو درست کر لیں، تم کہہ سکتے ہو کہ کم از کم Stuttgart میں ایک کالی بھیڑ موجود ہے کیونکہ تم ایک ہی دیکھ رہے ہو، اس سے زیادہ نہیں دیکھ رہے۔ جو mathematician تھا اس نے کہا کہ تم بھی اپنی زبان ذرا درست کرو، تم یہ کہہ سکتے ہو کہ کم از کم Stuttgart میں ایک بھیڑ ہے جس کی ایک سمت کالی ہے، دوسری سمت کے بارے میں تم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تم نے دیکھی نہیں ہے، ممکن ہے وہ سفید ہو۔ یعنی ہر شخص کی سوچ الگ ہے جس سے الگ نتیجہ نکل رہا ہے۔ اسی طریقے سے قرآن کی مختلف آیتیں ہیں جو پوری صورتحال کو سامنے لاتی ہیں اگر ان کو اکٹھا دیکھا جائے جیسے ﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارٰى﴾ (النساء: 43) ﴿وَ لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ﴾ پہ اگر آپ رک گئے تو یہ کفر کا کلمہ ہو جائے گا ﴿وَأَنتُمْ سُكَارٰى﴾ یہ پھر ایمان کی بات ہے۔ آپ اپنی مرضی سے نہیں رک سکتے۔ تو جیسے اُس فقرے کو مکمل کرنا ضروری ہے اسی طرح قرآن کو پورا پورا مکمل کرنا ضروری ہے۔ پھر صرف قرآن کو نہیں بلکہ اس کے ساتھ سارا دین ہے کیونکہ دین قرآن اور سنت پر ہے۔ پھر سنت کو بھی سمجھنا ضروری ہے، دونوں کو جاننے سے ہی آپ کو صحیح دین کا پتا چلے گا۔ یہ دونوں باتیں لازمی ہیں بلکہ اس کے علاوہ ایک تیسری بات بھی ہے کہ عقل بھی ٹھیک ہونی چاہیے۔ قرآن پاک میں عقل کے بارے میں با قاعدہ باتیں موجود ہیں اور احادیثِ شریفہ میں موجود ہیں۔ حدیث شریف میں تو صاف بات ہے "اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ" (ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4260) کہ عقلمند ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو قابو کیا۔ اور قرآن میں ہے: ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا﴾ (الشمس: 9، 10) لیکن نفس کو قابو کرنا کیسے ہو گا؟ اس کے لئے عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے کیونکہ عقل تو سب کو ملتی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ میرا نفس صحیح چل رہا ہے یا نہیں چل رہا؟ جس کو گناہ، گناہ ہی نظر نہ آ رہا ہو وہ اس کی کیا اصلاح کرے گا؟ اصلاح تو تب کرے گا جب اس کو پتا چل رہا ہو کہ یہ گناہ ہے۔ تو اس کے لئے عقل کی ضرورت ہے۔ تو عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا۔ پس نفس کو قابو کرنے کے لئے عقل کا استعمال ضروری ہے۔ اور دل میں بھی ارادے کی قوت ہے، عزم ہے، قوت عازمہ ہے لہذا اس کا بھی صحیح ہونا ضروری ہے۔ جب یہ ساری باتیں سمجھ میں آ گئیں، تو بیک وقت عقل، نفس اور دل ان تینوں کا درست ہونا ضروری ہوا۔ اب نفس کو قابو کرنا کیسے ہو گا؟ مثال کے طور پر عقل نے آپ کو کہہ دیا کہ نفس کو قابو کرنا چاہیے، لیکن نفس اڑی کرتا ہے وہ اپنی اصلاح کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ تو نفس کی اصلاح مجاہدے میں ہے، یعنی نفس کی مخالفت جب کرو گے تو نفس دبتا جائے گا اور نفس کی بات مانو گے تو یہ مزید اُچلتا جائے گا، پھولتا جائے گا۔ تو نفس کی مخالفت کو مجاہدہ کہتے ہیں، لہذا نفس کا علاج مجاہدہ میں ہے، یعنی اس کے بات نہ ماننے میں ہے۔ مثال کے طور پر شوگر کا بیمار کسی طرح بھی میٹھے سے پرہیز نہیں کر سکتا، اس کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کو اس پر convince کر لیں کہ کم از کم دو ہفتے آپ نفس کی بات نہ مانیں، آپ ہماری بات مانیں اور بغیر چینی کے چائے پیئیں، تو دو ہفتے میں انسان کا Taste develop ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کو میٹھی چائے پسند نہیں ہوتی بلکہ پیکی چائے کا عادی ہو جاتا ہے۔ یہ کیوں ہوا؟ کیونکہ آپ نے نفس کی مخالفت کی، اس کو میٹھا نہیں دیا جس کی وجہ سے کم میٹھے کا وہ عادی ہو گیا۔ چترالی لوگ چائے میں نمک ڈالتے ہیں اور وہ اس کے عادی ہیں۔ معلوم ہوا نفس کا علاج نفس کی مخالفت میں ہے۔ لیکن نفس کی مخالفت کے لئے نفس تیار نہیں ہے۔ اس کے لئے قوت عازمہ کی ضرورت ہے، یعنی کوئی ایسی چیز جو اس کو مجبور کرے۔ ہر شخص کے پاس اپنا نفس ہوتا ہے، لیکن جو کسی پہ عاشق ہو جاتے ہیں وہ اپنے نفس کی تمام خواہشات کو ترک کر لیتے ہیں یا نہیں؟ صرف ایک ہی خواہش رہ جاتی ہے کہ میرا محبوب مجھ سے خوش ہو، اس کے علاوہ نہ کھانے کی پرواہ، نہ پینے کی پرواہ، نہ سونے کی پرواہ، نہ تکلیف کی پرواہ، ہر چیز کے لئے وہ تیار ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ نفس کی مخالفت نہیں ہے؟ یہ سارے کام اپنے نفس کے خلاف کر رہا ہے کیونکہ اپنے دل سے مجبور ہے۔ معلوم ہوا دل کی قوت عازمہ نفس کو control کر سکتی ہے۔ لیکن دنیاوی محبت، یہ فوری محبت ہے ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ﴾ (القیامہ: 20) اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ تم جو فوری چیز ہے اس کی محبت کو لیتے ہو اور جو بعد میں آنے والی چیز ہے اس کو چھوڑتے ہو۔ تو اب اللہ تعالیٰ چونکہ بن دیکھے ہیں، لہذا اس بن دیکھی چیز پر باقی چیزیں غالب آ جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر چاند سورج سے بہت چھوٹا ہے یعنی 17 لاکھ زمینیں سورج میں سما سکتی ہیں اور چھ چاند زمین میں سما سکتے ہیں، تقریباً ایک کروڑ گنا چھوٹا ہے۔ لیکن مد و جزر چاند کی کشش پر ہوتا ہے، سورج کی کشش پر نہیں ہوتا۔ جبکہ سورج حجم اور وزن کے لحاظ سے زیادہ بڑا ہے، لیکن اس کا اثر زمین کے پانی کے اوپر کم ہے۔ اور چاند کا اثر زیادہ ہے کیونکہ چاند قریب ہے چنانچہ اس کی کشش زیادہ ہے۔ جیسے

{"startIndex":5979,"endIndex":6002,"equation":{}}

یعنی درمیان میں distance چونکہ کم ہے لہذا اس کے لحاظ سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے۔ معلوم ہوا دُور کی چیز کا اثر کم ہوتا ہے اور قریب کی چیز کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ تو آخرت کی بات ہے، وہ دور ہے اور جو دنیا کی بات ہے وہ قریب ہے اور انسان کو قریبی چیز سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ یعنی ان کی دوسری ساری محبتیں آپ اس ایک دنیاوی چیز کے محبت کے ساتھ دبا سکتے ہیں جو سب سے زیادہ ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت چونکہ آپ کی عقلی محبت ہے جو عام دنیا کی حسی محبت جیسی نہیں ہے لہذا وقتی طور پر تو بہت زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن پھر نفس غالب آ جاتا ہے۔ وقتی محبت جو غالب ہو جاتی ہے اس کو جذب کہتے ہیں۔ اس جذب کو پہلے بڑھانا پڑتا ہے پھر اس کو نفس کے علاج کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہ نقشبندی سلسلے کا طریقہ ہے۔ البتہ مجاہدات شرعی طریقے سے کرتے ہیں اور عزیمت کے پہلو کو اختیار کرتے ہیں، رخصت کا پہلو اختیار نہیں کرتے شریعت کے اصولوں پر۔ یہی ان کا مجاہدہ ہوتا ہے کہ وہ کسی طریقے سے بھی compromise نہیں کرتے۔ کیونکہ نماز کے اندر مجاہدہ ہے، روزے کے اندر مجاہدہ ہے، حج کے اندر مجاہدہ ہے، معاملات کے اندر مجاہدہ ہے، معاشرت کے اندر مجاہدہ ہے، ان تمام چیزوں کے اندر مجاہدے ہیں۔ اگر آپ ان مجاہدات کو اختیار کر لیں تو کسی اور مجاہدے کی آپ کو ضرورت نہیں رہے گی، اس میں عزیمت کا رخ اختیار کر لیں، یعنی اس میں اپنے لئے راستہ نہ بنائیں۔ تو اگر اس طریقے پہ عمل ہو تو نقشبندی سلسلہ ایک special طریقہ ہے جو اللہ پاک سے مانگا گیا تھا اور اس کا بڑا فائدہ ہے۔ دوسرے طریقے یہی کام دوسرے طریقے سے کرتے ہیں کہ شرعی مجاہدے پہ وہ آنا چاہتے ہیں لیکن شرعی مجاہدے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو معلوم ہے کہ نماز کے اندر مجاہدہ ہے اور اس سے مجھے بہت فائدہ ہوتا ہے لیکن وہ نماز پر نہیں آ رہا، اس کی initially مجاہدہ کی طاقت ہی اتنی نہیں ہے کہ وہ شرعی مجاہدہ کو با قاعدگی کے ساتھ کر سکے۔ تو وہ کیسے اس کا فائدہ حاصل کرے گا؟ تو وہ حضرات کہتے ہیں کہ پہلے غیر منصوص مجاہدات کر کے شرعی مجاہدات کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لیا جائے۔ جیسے خلوت ہے کہ اس میں انسان اپنے آپ کو بچا لیتا ہے جبکہ نقشبندی سلسلے میں خلوت والی بات نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں: شیخ کی جلوت میں ہونا چاہیے، وہ شیخ کی صحبت پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ جبکہ دوسرے حضرات کہتے ہیں: خلوت ہونی چاہیے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ جلیسں سوء سے خلوت اچھی ہے اور اچھی صحبت، خلوت سے اچھی ہے۔ اور ہر وقت چونکہ شیخ کی صحبت حاصل نہیں ہوتی تو یہ زیادہ practical ہے۔ بات بالکل صحیح ہے اور حدیث شریف کے مطابق بھی ہے، لہٰذا وہ حضرات کہتے ہیں کہ خلوت اختیار کرنی چاہیے۔ اسی طرح فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھنے چاہئیں اور تقلیل طعام، تقلیل کلام، تقلیل منام اور تقلیل خلط مع الانام، یہ چار مجاہدات وہ کراتے ہیں جن کے کرنے سےوہ اپنے اندر صلاحیت پیدا کرتے ہیں کہ شرعی مجاہدے پر عمل کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کے اوپر باقی سارے مجاہدات مبنی ہیں۔ گویا کہ وہ مجاہدہ کی ابتدا غیر منصوص مجاہدے سے کرتے ہیں اور شرعی مجاہدوں تک پہنچتے ہیں۔ اس وقت دیگر سلسلے بھی ذکر کی طرف زیادہ مائل ہیں اور مجاہدات یعنی تقلیل طعام اور تقلیل منام وغیرہ کچھ کم کر دیئے ہیں۔ گویا کہ انہوں نے کچھ حصہ جذب کا قبول کر لیا اور کچھ حصہ غیر منصوص مجاہدات سے کم کر لیا۔ اس طریقے سے وہ آج کل حالات کے مطابق چل رہے ہیں، جبکہ ہمارے نقشبندی حضرات دل کے جذب کے ذریعے شرعی مجاہدات تک پہنچتے ہیں۔ تو پہنچنا دونوں کا ایک ہی جگہ ہوا، لہذا سلوک دونوں طے کرتے ہیں اور سلوک ہی علاج ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا﴾ (الشمس: 9) میں مکمل کامیابی ہے لیکن اس کے لئے دل کا اور عقل کا ساتھ ہونا ضروری ہے، ان کی اصلاح بھی ساتھ ہونا ضروری ہے۔ لہذا یہ دو مختلف طریقوں سے جو کیا جاتا ہے تو بہر حال دونوں میں فائدہ ہے۔ لیکن شیخ کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے کیونکہ اگر شیخ نہ ہو تو عین ممکن ہے کہ انسان اتنا مجاہدہ کر لے جس کو پورا نہ کر سکے، نتیجتاً درمیان میں رہ جائے۔ شیخ تدریج کے ساتھ اور طریقے کے ساتھ مجاہدہ کراتے ہیں جس کے ذریعہ بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ بالکل سیدھے اوپر چڑھ رہے ہیں تو یہ کافی مشکل ہے۔ اب اگر کوئی آپ کو بتائے کہ آپ اس طرح چڑھیں تو آپ کا راستہ تو لمبا ہو جائے گا لیکن چڑھنا آسان ہو جائے گا۔ جیسے پہاڑوں پہ جو چڑھتے ہیں ان کو طریقے آتے ہیں لہذا اگر کوئی ماہر آپ کے ساتھ ہو تو آپ وہ کام کر لیں گے، ماہر نہیں ہو گا تو وہی کام آپ نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح بہت ساری چیزیں ہیں جو تجربے پر منحصر ہیں۔ ایک تجربہ کار شیخ جو با برکت بھی ہو، سلسلے والا ہو وہ جب آپ کو بتاتا ہے تو اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ بہر حال سارے طریقے موجود ہیں، ان میں سے جس طریقے سے بھی کسی کی اصلاح ہو جائے بس وہ خوش نصیب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن

نفس کی پاکیزگی اور دل کی درستگی - مطالعۂ سیرت بصورتِ سوال