سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 530

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال 1:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں UK سے فلاں ہوں۔ الحمد للہ پچھلے مہینے کا ذکر مکمل ہو چکا ہے "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "اِلَّا للہ" 400 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 400 مرتبہ، "حَق" 600 مرتبہ اور "اَللہ" 1000 مرتبہ۔ بعض راتوں میں سوتے، جاگتے میں نے ذکر مکمل کیا۔ کبھی کبھی ساری رات گزر جاتی۔ کئی بار میں تھک کر سو گیا اور اگلے دن ذکر مکمل کیا۔ گناہ بھی ساتھ ہو رہے تھے۔ گناہ نہ کرنے کی میری کوشش تھی اور دفع کرنے کی کوشش تھی۔ ذکر کرتے ہوئے مجھے خیالات آتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ میرے نفس کی اصلاح ہو رہی ہے، میں نے کوشش کرنی ہے اور محسوس کرنا ہے کہ میں کون سا ذکر کر رہا ہوں؟ فقط معنی کا نہیں۔

جواب:

اصل ذکر تو وہی ہے جو انسان کو گناہوں سے روک دے لیکن وہ اخیر میں آتا ہے۔ ابتدا میں تو یہی ہو گا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ذکر کے لئے بنیاد بنائی جا رہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے نقشبندی سلسلہ کے حضرات لطائف کا ذکر کرتے ہیں تو وہ بھی بنیاد ہی بناتے ہیں، جس کو وہ مراقبہ کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ مراقبہ نہیں ہوتا بلکہ مراقبہ تو بعد میں آتا ہے۔ پہلے وہ مراقبے کے لئے تیاری کرتے ہیں۔ اسی طرح چشتی حضرات یا دوسرے حضرات وہ بھی جو ابتدائی لسانی ذکر کرتے ہیں، وہ حقیقی ذکر کی تیاری ہوتی ہے اور حقیقی ذکر جب حاصل ہو جاتا ہے جس کو ہم اللہ تعالیٰ کا دھیان کہتے ہیں اور کیفیتِ حضوری حاصل ہو جائے تو پھر انسان سے گناہ نہیں ہوتے۔ اس تک بھی وہی لوگ جا سکتے ہیں جو ذکر کر رہے ہوں، کیونکہ مثال کے طور پر 1000 لوگوں میں 200 لوگوں کو کیفیتِ حضوری حاصل ہو جائے، تو یہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے ذکر کیا ہو گا۔ چنانچہ ابتدائی ذکر بے شک جیسے تیسے ہو پھر بھی کرنا چاہیے لیکن بعد میں اس میں improvement لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خیالات کی پرواہ نہ کریں وہ جو بھی ہوں، ان کے ساتھ آپ بالکل نہ الجھیں اور ان کی طرف دھیان بھی نہ کریں بس آپ ذکر کی طرف دھیان کریں۔ باقی اگر خود بخود کچھ خیالات آتے ہیں تو ان کی پرواہ نہ کریں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کی اصلاح فرما دے۔

سوال 2:

حضرت جی میں شرعی پردہ کرتی ہوں اور میری بہن کے دیور کے لئے انہوں نے میرا رشتہ پوچھا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پردے کے متعلق کہتے ہیں کہ رشتے داروں کے گھر میں جاتے ہوئے بے شک کوئی برقع پہن لے گی لیکن جو نا محرم رشتے دار گھر آئیں گے ان کے سامنے صرف دوپٹے کے ساتھ چہرے پہ نقاب یا گھونگھٹ ڈال کے جانا پڑے گا۔ حضرت جی یہاں رواج ہے کہ عیدین اور شادی بیاہ یا وفات وغیرہ پر مرد خواتین میں گھسے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ گھر میں ایسے موقع پر بھی صرف دوپٹے سے کام چلانا ہے۔ لیکن میں گھر کے نا محرم دیور جیٹھ وغیرہ کے علاوہ جو بھی نا محرم رشتے دار ہیں ان کے سامنے جاتے ہوئے چادر یا عبا بھی لینا چاہتی ہوں لیکن چونکہ ان کی طرف سے اس کی اجازت نہیں ہے تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیا میں اس رشتے سے انکار کر دوں؟ میری sister نے صادق آباد کے مفتی محمد ابراہیم صاحب سے یہ مسئلہ پوچھا ہے۔ انہوں نے اجازت بھی دی کہ ایسا کر سکتی ہو، یہ بھی شرعی پردہ ہی ہو گا۔ لیکن میرا دل یہ سب کرنے کو نہیں چاہتا۔ ڈر لگتا ہے کہ پہلے ہی گناہ گار ہوں کہیں بھٹک ہی نہ جاؤں۔ میری رہنمائی فرمائیں کہ میں کیا کروں؟ جواب:

صحیح پردہ یہ ہے کہ فتنے کا دروازہ بند ہو جائے۔ خواتین کا چونکہ پورا جسم فتنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس کو شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر کہا گیا ہے لہٰذا ان کو پورا پردہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ البتہ شوہر کے علاوہ محرم رشتے داروں کے سامنے چہرہ اور کلائیاں اور ٹخنوں سے نیچے پاؤں کا حصہ کھول سکتی ہیں۔ اس کو ہم ستر کہتے ہیں۔ یعنی ایک ستر ہوتا ہے اور ایک حجاب ہوتا ہے۔ حجاب سے مراد فتنہ کی جگہ یعنی چہرہ کو بھی چھپانا ہے۔ جیسے حرم شریف میں جو خواتین ڈیوٹی پر مامور ہوتی ہیں وہ دستانے بھی پہنتی ہیں اور جرابیں بھی پہنتی ہیں حالانکہ گرمی ہوتی ہے۔ وہ اسی لئے کرتے ہیں تاکہ فتنہ نہ ہو۔ اور اگر فتنہ رک جائے مثال کے طور پر اگر اتنا پردہ ہو جائے کہ جسم ڈھک جائے تو ٹھیک ہے۔ لیکن دوپٹہ سے تو جسم نہیں ڈھکتا، چادر ہو تو اس سے جسم ڈھک سکتا ہے اور اس سے گھونگھٹ ڈال کر کام کیا جائے تو ٹھیک ہے، یہ شرعی پردہ ہو جاتا ہے۔ لیکن دوپٹے میں باقی جسم بھی نظر آتا ہے لہٰذا وہ پورا پردہ نہ ہوا۔ البتہ عام حالت میں دوپٹہ کافی ہوتا ہے، جیسے محرم رشتے داروں کے سامنے دوپٹہ اوڑھا ہوتا ہے تو کم از کم جسم کا وہ حصہ ظاہر نہیں ہوتا جس سے فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

سوال 3:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی میرا ایک ماہ کا ذکر مکمل ہو گیا ہے۔ 2، 4، 6، 5 آگے کے لئے رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

اب 200 مرتبہ، 400 مرتبہ، 600 مرتبہ اور 1000 مرتبہ یہ ذکر شروع کر لیں۔

سوال 4:

مجھ میں توکل کی کمی ہے اور رزق کی پریشان کُن سوچیں رہتی ہیں۔ دوسرا زہد کی کمی اور دنیا کا آرام اور راحت پسند ہے۔ تیسرا تسلیم و رضا کی کمی ہے کیونکہ دنیا کے لئے دعا دل میں تجویز رکھتے ہوئے کرتا ہوں۔ نیز نہ اللہ پر بھروسہ ہے، نہ تارک الدنیا اور نہ راضی بتقدیر ہوں۔ ان سب کی وجہ سے ذہن سخت خفا ہوتا ہے۔ کیا کروں؟

جواب:

آپ نے ساری نفس کی بیماریاں بتا دی ہیں۔ یہ ہم سب میں ہیں۔ البتہ ان کا مقابلہ کرنا ہو گا اور مقابلہ یہ ہے کہ نفس کی خواہش کو پورا نہیں کرنا بلکہ اس کے مقابل میں اللہ پاک کی بات کو پورا کرنا ہے۔ اگر یہ نصیب ہے تو پھر کافی ہے ورنہ اس کے لئے محنت کرنی ہو گی۔

سوال 5:

حضرت السلام علیکم،

I have been reciting اَللہ اَللہ 4000 times followed by

یَا اَللہ یَا سُبْحانُ یا عَظیمُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ یَا وَھَّابُ یَا وَدُوْدُ یَا کَرِیْمُ یَا شَافی یَا سَلامُ

100 times followed by

یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِین

10 times. Kindly advise the next.

جواب:

You should do that all but اللہ اللہ

4500 ان شاء اللہ

سوال 6:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میرا ذکر ہے "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 300 مرتبہ، "حَق" 300 مرتبہ اور "اَللہ" 100 مرتبہ ہے۔

جواب:

اب آپ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 200 مرتبہ، "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" اور "حَق" 400 400 مرتبہ اور "اَللہ" 100 مرتبہ کریں۔

سوال 7:

السلام علیکم حضرت صاحب امید ہے آپ اللہ کے فضل سے بخیر ہوں گے آپ نے ایک ماہ کے لئے مراقبہ اور تسبیح کرنے کے لئے فرمایا تھا جو الحمد للہ مکمل کر لیا ہے۔

جواب :

مجھے بڑی حیرت ہے کہ آپ نے صرف یہ کہا کہ ایک ماہ کے لئے مراقبہ لیکن کون سا مراقبہ اور کون سی تسبیح؟ یہ نہیں بتایا۔ کیونکہ میں ہر ایک کو مختلف اذکار اور مراقبہ دیتا ہوں۔ آپ بتا دیں کہ آپ کو کیا دیا تھا تاکہ میں آپ کو اس کے بارے میں عرض کر سکوں۔

سوال 8:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،

I pray you are keeping well beloved شیخ! This is فلاں from Scotland. I have had a question on my mind for a long time which I wish to ask. اللہ تعالیٰ has blessed me with so many blessings with regard to the دنیا and آخرۃ. He has granted me توفیق to study His دین teach it, be an امام along with countless other blessings. He has also blessed me favours in دنیا and ease and سہولت. I feel embarrassed when I think of His favours as I feel I have been ungrateful of them and not using and fulfilling them according to their حق. I feel as though I am the most blessed person in the world in terms of the نعمت Allah has given me and also the worst in terms of ناشکری and sin. Is this an okay feeling to have and what can I do which will save me from His displeasure and being محروم and gain His pleasure?

جواب:

ما شاء اللہ ایسی ہی سوچ ہونی چاہیے۔ البتہ انسان کو practical انداز میں ترقی کرنی چاہیے۔ یعنی theory الگ ہوتی ہے اور practice الگ ہوتی ہے۔ آپ کو practical انداز میں سوچنا پڑے گا کہ یہ ساری چیزیں ٹھیک ہیں، لیکن اگر نا شکری ہے تو پھر اس کو شکر میں کیسے بدلا جا سکتا ہے؟ انسان جب تک یہ دس مقامات صحیح پورے طے نہ کرے تو اس وقت تک مقامِ رضا حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور مقامِ رضا جب تک حاصل نہ ہو تو مقامِ شکر حاصل نہیں ہو سکتا۔ مقامِ رضا تک پہنچنے کے لئے آپ کو سلوک طے کرنا پڑے گا اور سلوک طے کرنے کے بعد آپ کو مقامِ رضا حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد آپ کو شکر کی کیفیت نصیب ہو گی۔ اگر مقامِ رضا حاصل نہ ہو تو آدمی شاکی ہوتا ہے۔ یعنی اپنے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے پہ راضی نہیں ہوتا۔ چنانچہ نا شکری کرتا ہے۔ تو اگر آپ نا شکری feel کر رہے ہیں تو اس کو دور کرنے کے لئے صرف یہ سوچنا کافی نہیں ہے کہ میں نا شکرا ہوں بلکہ اس کے لئے practically آپ کو مقامِ توبہ، مقامِ انابت، مقامِ ریاضت، مقامِ قناعت، مقامِ تقویٰ، مقامِ صبر، مقامِ زہد، مقامِ توکل، مقامِ تسلیم، مقامِ رضا یہ سب حاصل کرنے پڑیں گے۔ اس کے بعد ان شاء اللہ وہ شکر کی کیفیت پیدا ہو جائے گی جو آپ اور ہم سب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔ تو مایوس بھی نہ ہوں اور بے فکر بھی نہ ہوں۔

سوال 9:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ،

Respected حضرت I pray that you and your family are well آمین! Dear حضرت, here is an attempt of my listing the negative things about me as per my knowledge. If you want me to detail anything further please let me know as these are personal things.

جواب:

So I will not declare these things but ان شاء اللہ I shall give you the answer separately.

سوال 10:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ میں برطانیہ سے فلاں بات کر رہا ہوں۔ میرا یہ ذکر چل رہا ہے 200 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" 400 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو" 600 مرتبہ "حَق" اور اس کے ساتھ پانچ پانچ منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر تھا۔ پچھلے ہفتے آپ نے صفات ثبوتیہ کی جگہ شیونات ذاتیہ کا اضافہ فرما دیا تھا، جو لطیفہ سر سے 15 منٹ کا تھا۔ الحمد للہ ذکر کی کافی پابندی ہے۔ پوچھنا یہ تھا کہ میرا تبادلہ تین مہینوں کے لئے دوسرے ہسپتال میں ہو رہا ہے۔ جہاں پر ڈیوٹیاں بہت سخت ہیں۔ اندیشہ ہے کہ ذکر کے لئے وقت کم ملے۔ مجھے آپ مشورہ دیں کہ اگر وقت کم ملے تو ذکر کس طرح پورا کروں؟ کیا ذکر جہری چھوڑ دوں یا قلوب کا مراقبہ کم کر دوں یا صرف شیوناتِ ذاتیہ کے مراقبہ کو لازمی کر لوں؟ ویسے میری کوشش ہو گی کہ پورا ذکر کروں۔

جواب :

آپ جب وہاں جائیں اور حالات کو دیکھ لیں تو پھر مجھے بتا دینا اس کے بعد میں ان شاء اللہ عرض کر لوں گا، فی الحال وقت سے پہلے کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ صفات ثبوتیہ کے بعد جو مراقبہ آپ نے بتایا ہے وہ شیونات ذاتیہ کہلاتا ہے۔ شیون شان کی جمع ہے اور اللہ کی شان ہر وقت تبدیل ہوتی ہے۔ جیسے اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ﴾ (الرحمٰن: 29) شان سے صفات پیدا ہوتی ہیں اور صفات سے اسماء پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا صفات ثبوتیہ یعنی اللہ پاک کے لئے جو آٹھ صفات ثابت ہیں، اپنی صفات کے واسطے سے صفات ثبوتیہ کے مراقبے کے ذریعے سے ان صفات کی معرفت حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اپنے آپ کو ان صفات سے ہٹا کر شیونات ذاتیہ کے مراقبے کے ذریعے شان کی طرف آنا ہوتا ہے۔ آپ کو شیونات ذاتیہ کا مراقبہ دیا ہے۔ جب آپ دوسری جگہ چلے جائیں گے تو وہاں کے حالات مجھے بتا دیں گے، اس کے بعد ان شاء اللہ میں عرض کروں گا۔

سوال 11:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ یا حضرت شاہ صاحب،

May Allah preserve you بارک اللہ فیکم! I am contacting you to update my ورد. I have been practicing for so long but I was not regular, so I started to become more regular now. Old ورد

500 times "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"

1000 times "حَق اَللہ"

1000 times "حَق"

1000 times "اَللہ"

200 times "حَق ہُو" and 1500 times ہُو”

Regarding the احوال, I am more regular in my daily practices, and physically I feel very tired also. I feel very close to ھو in my ورد. May اللہ preserve you!

جواب:

So this time as you have started after some break so therefore, you should complete it for one month at least and then after that you can contact me ان شاء اللہ. I should tell you further.

سوال 12:

السلام علیکم مرشد،

From Singapore. Hope you and your family are in the best health!

Myself:

Current اعمال

100, 100, 100 and 1500 special ذکر

"اَللّٰهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ"

313 times

یَا وَدُوْدُ یَا سَلامُ یَا رَحِیْمُ یَا غَفُورُ”

111 times

Condition: I feel my قلب is hard and facing obstacles to my اعمال from my old طریقہ and negative forces. I have also been away from listening to the daily bayans and my character has deteriorated. I want to change. I feel like crying but my قلب is so hard.

جواب:

Are you reciting منزل جدید daily or not? Please tell me, and then I should tell you something.

سوال 13:

My wife :

مراقبہ قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ

10 minutes each.

جواب:

You should recite this daily if there are negative forces acting upon you. At least to break these forces, you should recite it daily. If you don't have this, so you should install our معمولات App which is available on play store so then ان شاء اللہ you will get it and at that منزل جدید is present.

سوال 14:

مراقبہ قلب، روح، سر، خفی، اخفیٰ

10 minutes. مراقبہ تنزیہ for 15 minutes from اللہ to the قلب of our prophet محمد ﷺ to the قلب of my مرشد and to my لطیفہ خفی.

جواب:

Yes, what do you feel with this? With this مراقبہ what you are doing, what do you feel? So please tell me.

Special ذکر :

"اَللّٰهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ"

313 times یَا وَدُوْدُ یَا سَلامُ یَا رَحِیْمُ یَا غَفُورُ”

111 times

Condition: الحمد للہ مرشد I am still reading the قرآن daily and waking up regularly to perform my تہجد prayers and الحمد للہ I am still feeling very much at peace and feel a lot of gratitude towards اللہ.

جواب:

سبحان اللہ، ما شاء اللہ۔

Oldest son:

Current اعمال,

200, 400, 600 and 1500.

Condition: He does not have any feelings this time. Even he has to serve as compulsory national service for about two years from Wednesday. He seeks your permission.

جواب:

Okay.

Second son:

Current اعمال,

200 "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"

400 "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"

600 "حَق" and 3000 "اَللہ" spend 5 times thinking his heart is saying اللہ اللہ. Condition: He said that these few weeks while doing عمل at times he will suddenly be overcome with sadness. Other than that, he does not feel anything differently.

جواب:

So when if he feels sadness, so he should recite seven times یا اللہ and having the کیفیت of استغفار.

Eldest daughter:

Current اعمال,

اللہ in tongue 4000 times مراقبہ اللہ in قلب15 minutes

Condition: This time she feels a lot of peace and calmness in her heart.

جواب:

Ok. But what about مراقبہ اللہ in قلب? She did not tell me about it. So she should tell me about it.

Youngest daughter :

Current اعمال,

اللہ in tongue 4000 مراقبہ اللہ in قلب15 minutes.

Condition: She is also feeling peaceful and calm and also whenever she is feeling down she always thinks of اللہ.

جواب:

سبحان اللہ so ok. She should tell me also about the مراقبہ whether it is done properly or not? It means she feels this in heart, قلب or not?

سوال 15:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ،

I hope حضرت is well and his family. I wanted to ask if there are different مراقبہ in the four سلسلہ.

جواب:

Yes not only in four سلسلہ but it depends upon شیخ also. Every شیخ may be applying different types of مراقبہ on his مریدین because it depends upon the condition of مرید which type of مراقبہ is useful for him.

سوال 16:

السلام علیکم حضرت صاحب امید کرتا ہوں آپ خیریت سے ہوں گے۔ صبح کی نماز ابھی تک درست نہیں ہوئی۔ میں نے امی ابو کو بھی کہا کہ نماز کے لئے مجھے بھی اٹھا لیں۔ جب میں امی سے سوال کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں اٹھایا؟ وہ کہتی ہیں: مجھ سے خود نماز رہ جائے گی، میں تم کو کیسے اٹھاتی؟ پھر میں اپنی امی سے کہتا ہوں کہ آپ رات کو جلد کیوں نہیں سوتیں؟ جس pharmacy میں، میں کام کرتا ہوں وہاں 2 بجے سے لے کر 4 بجے تک وقفہ ہوتا ہے جس میں اپنا علاجی ذکر کرتا ہوں۔ پھر رات کو 11 بجے آتا ہوں، کھانا کھاتا ہوں اور 12 بج جاتے ہیں۔ پہلے میں جلدی آتا تھا۔ جس بندے کی pharmacy ہے وہ 40 دن کے لئے چلا گیا ہے۔ مزید رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

گر ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا۔ سوال 17:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ محترم حضرت جی الحمد للہ آپ کی ہدایت کے مطابق درج ذیل ذکر مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ 200 بار "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ"، 400 مرتبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُو"، 600 مرتبہ "حَق" اور 400 مرتبہ "اَللہ"۔ آ گے کے لئے مزید رہنمائی فرمائیے۔

جواب:

اب "اَللہ" آپ 500 مرتبہ کر لیں، باقی وہی ہو گا ان شاء اللہ۔

سوال 18:

احوال کے چند ناغے ہوئے ہیں لیکن الحمد للہ آپ کی ہدایت کے مطابق ذکر جاری رکھا۔ سب سے بڑی رکاوٹ تسلسل سے کوئی بھی کام جاری رکھنے کی ہے، اس کے لئے کوئی حکمت عملی سمجھائیے۔ دینی یا دنیاوی کوئی بھی کام تسلسل سے نہیں کر پاتا۔ برائے مہربانی میری صحیح سمت میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب:

آج کل بہت آسان ہے کہ آپ اپنے موبائل کے اوپر reminder لگا دیا کریں۔ جس وقت وہ time آئے گا تو آپ کو remind کرائے گا اور آپ اس reminder پہ پھر عمل کر لیا کریں۔ بس دو کام ہیں reminding تو آپ کو مل جائے گی اور عمل کرنے کے لئے ہمت کی ضرورت ہے۔ ہمت آپ کو کرنی پڑے گی۔ کوئی اور آپ کے ساتھ اس میں مدد نہیں کر سکتا۔

سوال 19:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ، اللہ پاک سے آپ کی صحت و تندرستی اور بلند درجات کے لئے دعا گو ہوں۔ کچھ عرصے سے اپنے اندر لوگوں سے مقابلے کی خواہش محسوس کرتا ہوں اور اپنی چیزوں کا دوسروں کی اشیاء کے ساتھ تقابل کرتا ہوں کہ میں بہتر ہوں۔ اس کے علاوہ گھر والوں کے ساتھ معاملات میں بہتری آئی۔ اب بچوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا البتہ زبان کی سختی اور تیزی باقی ہے۔ ذکر اور مراقبہ میں توجہ کی کمی ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب:

تقابل سے میں نہیں روکتا تقابل ضرور کریں لیکن دنیا کے معاملے میں اپنے سے نیچے کے لوگوں کو دیکھیں اور آخرت کے لحاظ سے اپنے سے آ گے کے لوگوں کو دیکھیں۔ بس یہ تقابل کافی ہے۔ جو آپ سے آخرت کے لحاظ سے آگے ہیں ان کے پیچھے اپنے آپ کو بہتر کرنے کی کوشش کریں اور جو دنیا میں آپ سے پیچھے ہیں تو اپنی حالت پہ آپ شکر ادا کیا کریں کہ اللہ پاک نے آپ کو ان سے زیادہ اچھی حالت میں رکھا ہے۔ اس سے ان شاء اللہ شکر کی کیفیت بھی پیدا ہو گی اور عجب بھی نہیں ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بتدریج بہتری آ رہی ہے تو اس کو روکیں نہیں بلکہ آپ جن چیزوں کی کمی محسوس کر رہے ہیں ان کو دور کر لیں اور اس طرح ذکر اور مراقبہ میں جو توجہ کی کمی ہے اس کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں۔

سوال 20:

نسبت کیا چیز ہے اور اس کا حاصل کرنا کیسے ممکن ہے؟

جواب:

نسبت انسان خود اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتا، بلکہ یہ اللہ پاک کی دین ہے۔ البتہ اس کے راستے کے لئے انسان کوشش کر سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے جنت کو کوئی اپنے عمل سے حاصل نہیں کر سکتا لیکن جنتی اعمال کر سکتا ہے۔ قرآن و احادیث سب اسی سے بھرا ہوٸے ہیں۔ لیکن یہ ساتھ یہ فرمایا ہے کہ جنت کو بھی اپنے عمل سے حاصل نہیں کر سکتا، اس کی نسبت بھی اللہ پاک کی طرف ہے کہ اللہ کے فضل سے عطا ہوتی ہے۔ نسبت یہ ہے کہ انسان ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف مائل ہو۔ اللہ کی طرف متوجہ ہو اور وہ اعمال کر رہا ہو جو اللہ پاک کو پسند ہوں۔ اللہ پاک اس کے لئے راستے بھی خود بناتے ہیں۔ یعنی جب کسی کو نسبت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے لئے ذرائع خود بخود بنتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اس کو حاصل کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے۔ وہ ہے سَیر اِلَی اللہ، سَیر اِلَی اللہ سے مراد یہ ہے کہ نفس کو قابو کرنا، دنیا کی محبت سے دل کو صاف کرنا اور عقل کو نفس کے اثر سے چھڑا کے ایمانی صفات سے متاثر کروانا۔ یہی وہ راستہ ہے جس کو سَیر اِلَی اللہ کہتے ہیں۔ لہٰذا کوشش تو ہماری یہی ہو گی باقی اللہ تعالیٰ جب بھی عطا فرما دے۔

سوال 21:

حضرت، غصہ نفسانی بیماری ہے یا انسان کو دماغی طور پہ ہوتی ہے؟

جواب:

میں بہت زیادہ statement تو نہیں دے سکتا کیونکہ غصہ نفسانی بیماری تو ہے ہی۔ البتہ بعض دفعہ ایک انسان کو کبھی ایسی جسمانی بیماری ہوتی ہے جس سے وہ چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ چھوٹی سی بات پہ بھی تنگ ہوتا ہے۔ تنگ ہونے کے لئے اور غصہ دلانے کے لئے چھوٹی بات بھی کافی ہوتی ہے حالانکہ normal آدمی اس پہ غصہ نہیں ہو گا لیکن جس کے اندر چڑچڑا پن بھرا ہو گا وہ چھوٹی سی بات پر بھی غصہ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا physical علاج کرنا چاہیے۔ جیسے دل کے سکون کے لئے بھی دوائیاں ہوتی ہیں، روحانیت والا سکون نہیں بلکہ جسم کی بیماری والا سکون۔ روحانیت کا سکون، روحانیت کے ذریعے سے مل سکتا ہے لیکن جسمانی بیماری الگ چیز ہے۔ جیسے کسی کو Heart problem ہو تو اس کا heart پریشان رہتا ہے، بوجھ سا محسوس کرتا ہے، اس کے لئے پھر دوائی ہو گی جس کو مفرحات کہتے ہیں۔ مفرحات کا استعمال کرنا چاہیے اور تفریح وغیرہ بھی اسی میں آتی ہے۔ جسمانی بیماری کا علاج حکیم اور ڈاکٹر ہی بتا سکتے ہیں وہ ہماری field نہیں ہے۔ اگر نفسانی بیماری ہے تو نفسانی بیماری میں یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان جب اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے تو دوسروں کو چھوٹا سمجھتے ہوئے ان کی ہر بات پہ غصے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی نصیحت کی بات ہوتی ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ تو مجھے کم سمجھ رہا ہے؟ اس پہ غصہ ہو جاتا ہے حالانکہ یہ کم سمجھنا نہیں ہے بلکہ یہ خیر خواہی کی نیت سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت اگر انسان یہ سوچے کہ یہ تو میرے خیر خواہ ہیں تو بات بھی سمجھ آ جائے گی۔ مثلاً اگر کسی کا 5 ہزار روپے کا نوٹ جیب سے گر رہا ہو، پیچھے سے کوئی آ کر اس کو تھپڑ لگائے اور کہے کہ تمہارا پانچ ہزار روپے کا نوٹ گر رہا ہے، بے شک اس نے تھپڑ کھایا ہو گا لیکن پھر بھی اس کا شکریہ ادا کرے گا۔ بعینہ اگر آپ کو آخرت کے لحاظ سے کوئی اچھی بات بتا رہا ہے تو وہ بھی آپ کا خیر خواہ ہے۔ اس کے ساتھ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں سائیکل پر اکثر آیا جایا کرتا تھا۔ مغرب کی نماز کو ذرا دیر ہو گئی اور مسجدیں ذرا فاصلے پہ تھیں۔ میں جب پہنچا تو نماز ہو چکی تھی۔ کچھ لوگ اوّابین پڑھ رہے تھے، ان میں ایک بڑے میاں بھی تھے۔ وہاں بچے آپس میں باتیں کر رہے تھے، ممکن ہے کہ وہاں کے طالب علم ہوں۔ ان میں سے کچھ نماز پڑھ رہے تھے لیکن صحیح طریقے سے نہیں پڑھ رہے تھے۔ میں نے نماز پڑھنے کے بعد ان کو بڑے پیار سے بٹھایا اور کہا: میں آپ کو طریقہ بتاتا ہوں کہ نماز کیسے پڑھتے ہیں؟ اور میں ان کو سمجھانے لگا۔ بڑے میاں نے جب سلام پھیرا تو غصے سے بھرے ہوئے مجھے کہا: تمہیں کس نے کہا کہ ان کو سمجھاؤ؟ ان کو کرنے دو جو کرتے ہیں۔ کہاں سے آپ آ گئے؟ اس طرح خوب باتیں سنائیں۔ میں نے ابھی جواب نہیں دیا تھا کہ وہ بچے بول پڑے کہ بابا جی یہ تو ہمیں نماز سکھا رہے ہیں، اچھا کام کر رہے ہیں۔ اس میں کون سی غلط بات ہے؟ چنانچہ بڑے میاں چپ ہو گئے۔ میں نے ان کے ساتھ بات بھی نہیں کی تھی لیکن پھر بھی وہ غصہ ہو گئے۔ یہی وہ چیز ہوتی ہے جس کو control کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ آپ دنیاوی خیر خواہ کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں جس پر آپ کو غصہ نہیں آتا لیکن دین کے خیر خواہ کو آپ خیر خواہ نہیں سمجھتے، یہی نقصان والی بات ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ "لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَ لَمْ يُوَقِّرْ كَبِيرَنَا" (ترمذی، حدیث نمبر: 1919)

ترجمہ: ”جس نے ہمارے چھوٹوں پہ رحم نہیں کیا اور جس نے ہمارے بڑوں کا احترام نہیں کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“

اس میں چھوٹوں پہ رحم کی بات آ گئی ہے اور بڑوں کے ادب کی بات آ گئی ہے۔ آدمی یا تو چھوٹا ہو گا یا بڑا ہو گا، دونوں میں سے ایک ہی ہو گا۔ بڑا ہے تو اس کے لحاظ سے عمل کرے کہ چھوٹوں پہ رحم کرے اور اگر چھوٹا ہے تو پھر بڑوں کا ادب کرے وغیرہ۔ ہمارے دین میں تو ہر چیز کے لئے طریقۂ کار موجود ہے۔ چنانچہ اپنی عقل سے کام لے کر، دین کو سمجھ کر، اپنے نفس کے اوپر پیر رکھ کر وہ کام کر لے۔

سوال 22:

شیخ السلام علیکم،

I have been doing two رکعت. Sometimes I feel like the shadow of a picture in front of me when I pray. And once I make دعا then I feel I have some good smell around me. Kindly advise next جزاک اللہ. Old Lady Care of the فلاں.

جواب:

Don’t bother about these things. Don't feel about these things. Whatever you have been told, do that. This is enough. These are احوال and you should consider these احوال not requirements.

سوال 23: السلام علیکم شیخ

You asked me to do translation of زبدۃ التصوف. I was travelling with my family to another city for two weeks last month so that’s why I could not do the translation, but I just started it a few days before. I have been doing 10 minutes of mujahida to keep non-talking. After 10 minutes, I start talking with people for one month more. Also doing مراقبہ for 5 minutes and other ذکر which you told me about earlier this month. I think I am not concentrating. I am not concentrating to do ذکر and مراقبہ due to travelling but when I got back to my region and started to do the translation of زبدۃ التصوف, just two pages, I got good feelings that this article is really like good medicine for other people. Please advise me what I should do next? شیخ one more thing I want to get advice from you is that I have been unemployed for almost two years, so do you have any suggestions? جزاک اللہ خیر.

جواب:

May اللہ سبحان تعالیٰ grant you good conditions and also guide you whichever is best for you! And continue what I have told you after one month more.

سوال 24: السلام علیکم شیخ

I have completed doing مراقبہ صفات ثبوتیہ for 15 minutes last month but due to my travelling out of my city I feel not much concentration doing the ذکر and مراقبہ as well. Please advise for the next.

جواب:

Okay, you should do it for one month more ان شاء اللہ then tell me.

سوال 25:

شیخ please دعا for us! The مسجد again closed and many issues here جزاک اللہ خیر.

During my trip we all also visited sheik’s مقبرہ. After the visit it made me little understand what is the meaning of

﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً﴾ (البقرۃ: 201)

الحمد للہ

جزاک اللہ شیخ and دعا for you. May اللہ bless you آمین!

جواب:

And I do the same دعا for you all ما شاء اللہ۔


سوال 26:

حضرت,what is the sign of نور of ذکر to have developed in the heart of مرید.

جواب:

If he is intending to do good اعمال and leaving bad اعمال, this is the نور of ذکر.

سوال 27:

السلام علیکم الحمد للہ

I already completed the month after starting, حضرت it was the end of June that I started back.

جواب:

Then you should doھو

2000 times and the rest will be the same ان شاء اللہ.

سوال 28:

حضرت جی صبر کے متعلق بتائیں؟

جواب: بنیادی طور پر نفس کی، عقل کی اور دل کی وہ تحریک جو شریعت کے مطابق نہ ہو اس کو روکنا صبر ہے۔ یعنی نفس اگر شرارت کرنا چاہتا ہے اور آپ اس کو روک رہے ہیں تو یہ بھی اس کا صبر ہے۔ دل کو دنیا سے محبت ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ غلط ہے، آپ اس کے تقاضے پہ عمل نہیں کر رہے تو یہ صبر ہے۔ عقل آپ کے ذہن میں وسوسے ڈال رہی ہے لیکن اللہ کا حکم کچھ اور ہے، آپ وسوسوں کی پرواہ نہیں کر رہے تو یہ صبر ہے۔ عموماً لوگ مصیبت کے وقت صبر کرنے کو صبر سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اس کا ایک جزو ہے۔ البتہ وہ بھی صبر ہی ہے، وہاں پر بھی یہ تینوں چیزیں ہیں، یعنی عقل بھی گڑ بڑ کر رہی ہے، دل بھی گڑ بڑ کر رہا ہے اور نفس بھی گڑ بڑ کر رہا ہے۔ ان تینوں کے خلاف آپ نے کوشش کرنی ہے تو یہ اس کا صبر ہے۔ البتہ صبر کی اصل definition یہی ہے کہ جو نفس کے ذریعے، یا دل کے ذریعے، یا عقل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم کو نہیں مانتا اس کو اس بات پر مجبور کرنا اور اس کے تقاضے کو نہ ماننا بلکہ اللہ پاک کے حکم کو ماننا، یہی صبر ہے۔ جیسے روزہ رکھنا صبر ہے کیونکہ نفس کھانا پینا چاہتا ہے لیکن آپ اس کو کچھ نہیں دے رہے، تو یہ صبر ہے۔ نماز میں سستی ہے، اس پر قابو پانا صبر ہے۔ آپ کو کوئی ایسا کچھ کہے جو آپ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، اس وقت آپ اپنے نفس پہ پیر رکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اللہ کا حکم یہ ہے کہ میں اس پہ کچھ نہ کروں۔ اس وقت وہی صبر ہو گا۔ معلوم ہوا صبر کافی وسیع چیز ہے بلکہ تقریباً اس میں پورا دین آ جاتا ہے۔ کیونکہ صبر عملی طور پر اپنے آپ کو دین کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لئے تیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے جب ہم کہتے ہیں کہ توبہ سے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور انابت سے اگلے کے لئے تیاری شروع ہو جاتی ہے جس میں سب سے پہلا stage سستی کو دور کرنا ہوتا ہے، پھر حرص کو دور کرنا ہوتا ہے، پھر جو نفسانی خواہشات کو دبانا ہوتا ہے، فجور سے اپنے آپ کو بچانا ہوتا ہے، یہ سب کام صبر کو پہنچا دیتے ہیں۔ جب صبر آپ کو حاصل ہو جائے تو وہ آپ کو زہد میں پہنچاتا ہے اور زہد آپ کو توکل میں پہنچاتا ہے اور توکل آپ کو تسلیم تک پہنچاتا ہے اور تسلیم آپ کو رضا پہ پہنچاتی ہے اور پھر وہی عبدیت پہ پہنچاتی ہے۔

صبر کے بارے میں پشتو کا ایک کلام ہے وہ میں آپ کو سناتا ہوں اور ساتھ ساتھ translation بھی کر لیتا ہوں۔

بې صبرئ سرہ تکلیف کلہ کمیږی

او د صبر درخواست هلته منظوریږی

بے صبری کے ساتھ تکلیف کب کم ہوتی ہے اور صبر کی درخواست وہاں منظور ہوتی ہے۔ آپ خود فیصلہ کر لیں کہ صبر کرنا چاہیے یا بے صبری کرنی چاہیے؟

صابرین په معیت کښې د الله وی

ددې نور په‌ صبر باندې ملاویږی

صابرین کے ساتھ اللہ ہوتے ہیں۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ﴾ (البقرۃ: 153) اور اس کا نور صبر کے ذریعے سے حاصل ہو سکتا ہے۔

مونځ او صبر باندې تل ترې مدد غواړه

د‌‌هغه د مدد دا سبب جوړیږی

اللہ تعالیٰ سے صبر اور نماز کے ذریعے مانگا کرو اور اللہ کی مدد کا یہی ذریعہ بنتا ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلَاةِ﴾ (البقرة: 45)

صبر ګرزی ذریعه د ثواب تل خو

په غوښتو د عافیت ډېر خوشحاليږي

ہاں صبر سے بہت کچھ ملتا ہے لیکن اللہ پاک عافیت مانگنے سے خوش ہوتے ہیں۔ یعنی عافیت مانگنی چاہیے لیکن اگر اللہ پاک کی طرف سے مشکلات کی طرف تشکیل ہو جائے تو پھر اس پہ صبر کرے۔ یعنی خود اپنے لئے مشکلات نہ مانگے کہ جن پہ پھر صبر کرے بلکہ یہ بَلا کو مانگنے جیسا ہو گا۔ انسان اپنی کمزوری اور عاجزی کو ظاہر کرے کیونکہ جو صبر مانگ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھ رہا ہے اور اپنے اوپر اتنا بوجھ ڈالتا ہے۔ چنانچہ عافیت مانگنی چاہیے لیکن اگر اللہ کی طرف سے تشکیل ہو جائے تو پھر صبر کرنا چاہیے۔

صبر ګرزی ذریعه د ثواب تل خو

په غوښتو د عافیت ډېر خوشحاليږي

صابرینو سره رب وی اے شبیرہ

د ھغه له خوا نه ډېر یې مدد کیږی

صابرین کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔ تو صبر ہی کرنا چاہیے۔ یہ مختصر ترجمہ ہے۔ البتہ صبر واقعی بہت بڑی دولت ہے جن کو اللہ نے صبر عطا فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو بہت نوازتے ہیں۔

سوال 29:

حضرت، بعض اوقات خلافِ شریعت کچھ سوال یا بات ہوتی ہے جس پہ صبر نہیں ہو سکتا۔

جواب:

اس وقت بے صبری کی نہیں بلکہ حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات جواب دینا ضروری ہوتا ہے کیونکہ دعوت کے اصول کے لحاظ سے ایمانی غیرت کے بھی خلاف ہوتا ہے۔ یہ سوچنا چاہیے کہ میرے فوراً react کرنے سے فائدہ ہو گا یا با قاعدہ planning سے مقصد حاصل ہو گا؟ اس کو حکمت کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿قُلْ هَذِهٖ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللهِ عَلٰى بَصِيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي﴾ (یوسف: 108) یعنی کام اس طریقے سے کرنا ہے جس سے فائدہ ہو۔ مثال کے طور پر میں جب تک مورچے میں نہیں پہنچا تو اگر فائر کروں گا تو پوری جماعت کے لئے نقصان دہ ہے کیونکہ دشمن کی طرف سے فائرنگ ہو جائے گی اور ہمارے بہت سے ساتھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ لیکن اپنے مورچے میں پہنچ کر، صحیح طریقے سے نشست باندھ کر فائر کرتا ہو تو یہ ایک مفید چیز ہے۔ آرمی والوں کو یہی فائرنگ دی جاتی ہے۔ ہمارے جو علماء کام کر رہے ہیں ان کے لئے یہ بہت ہی ضروری چیز ہے۔ جیسے مولانا زاہد الراشدی صاحب اور مولانا تقی عثمانی صاحب کے اندر یہ چیز بہت زبردست ہے، وہ وہی بات کرتے ہیں جو ہم بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ذرا طریقے سے اس کے لئے پورا میدان بنا لیں گے، اس کے بعد وہ بات کریں گے۔ اگر کوئی نہیں بھی مانتا تو کم از کم اس کی مخالفت بھی نہیں کر سکتا۔ یعنی ان کی زبان بند ہو جاتی ہے۔ آج کل فتنوں کا دور ہے، انسان کو بہت alert رہنا چاہیے۔

ڈاکٹر انصر پرویز ہمارے ایک chairman جو پہلے ہمارے teacher تھے اور بعد میں colleague بن گئے۔ وہ بہت ذہین تھے۔ ہم کہیں جا رہے تھے، راستے میں، میں نے کوئی بات کی، انہوں نے اس پر فوراً چوٹ لگا دی۔ میرے ساتھی ڈاکٹر مشتاق صاحب نے مجھے کہا: آپ نے بہت آسانی سے ان کو پاس دے دیا۔ ان کے ساتھ بات کرتے ہوئے انسان کو سوچنا چاہیے کہ میں کون سی بات کروں اور کون سی بات نہ کروں۔ کیونکہ وہ تو موقع کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ جیسے ہی آپ نے کوئی موقع دیا وہ فوراً short لگائیں گے۔

آج کل Social media وغیرہ پہ ایسے لوگ انتظار میں ہوتے ہیں کہ ہمارے منہ سے کوئی کمزور بات نکلے جس پہ وہ short لگا سکیں۔ اس سے ماحول متاثر ہو جاتا ہے۔

ایک غیر مقلد ہمارے شاگرد تھے، ہم کھانا کھا رہے تھے۔ وہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے کہا: شبیر صاحب! رمضان شریف آ رہا ہے آپ تراویح پڑھیں گے؟ میں نے کہا: جی بالکل۔ کہا: کتنی پڑھیں گے 8 یا 20؟ میں نے light سا لے لیا، اس میں اپنا مسلک بھی سمجھانا ہوتا ہے اور tension میں بھی نہیں لینی ہوتی۔ چنانچہ میں نے کہا: ہم مقلد لوگ ہیں، ہم 20 ہی پڑھتے ہیں۔ ان کا special طریقہ ہے کہ اس پہ آپ کی اپنی ذاتی تحقیق ہے یا نہیں ہے؟ میں نے کہا: میں مقلد آدمی ہوں، مجھے ذاتی تحقیق کی کیا ضرورت ہے؟ جس نے تحقیق کی ہے میں اسی کو مانتا ہوں۔ میرے اس جواب پہ اس نے چوٹ لگائی، کہتا ہے: یہ دین کی بات ہے اس میں بغیر تحقیق کے کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ میں نے دیکھا کہ باقی لوگ اس سے متاثر ہو رہے تھے۔ میں نے سوچا اب اس پہ بھی چوٹ لگانی چاہیے کیونکہ اب مجبوری ہے۔ میں نے کہا کہ جناب! میں نے ایک حدیث شریف سنی ہے کہ "عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآء الرَّاشِدِیْنَ" (ابن ماجہ، حدیث نمبر: 42) کہا: بالکل صحیح ہے۔ میں نے کہا: میں نے ایک اور بات بھی سنی ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ راشد تھے۔ کہتا ہے: ہاں بالکل درست بات ہے، اس میں شک نہیں ہے۔ میں نے کہا: میں نے یہ بھی سنا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب صحابہ کو 20 رکعات پہ جمع کیا۔ آپ ﷺ نے جب خلفائے راشدین کو authority دی ہے تو انہوں نے authority کو exercise کر لیا اور کسی صحابی نے ان کی مخالفت بھی نہیں کی حالانکہ ان میں ایسے حضرات تھے جو کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ مثلاً علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جو دوسرے حضرات تھے وہ حق بات کہنے سے کبھی بھی نہیں رکتے تھے۔ انہوں نے بھی کچھ نہیں کہا، سب نے بات مان لی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اجماعِ صحابہ سے ثابت ہو گیا۔ تو جس چیز پہ اجماعِ صحابہ ہو جائے اس میں پھر ہم کچھ نہیں بول سکتے۔ ہمیں point مل گیا۔ ہم وہاں کھڑے ہو سکتے ہیں لیکن آپ کدھر کھڑے ہیں؟ اس نے بات مانی ہو یا نہ مانی ہو، لیکن دوسرے لوگ متاثر ہو گئے۔ مطلب یہ ہے کہ مجبوراً انسان کو بعض دفعہ بولنا پڑتا ہے لیکن بولنے کے لئے ذرا حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ direct نہیں بولنا چاہیے۔

مردان میں میراث کا course تھا۔ وہاں ایک مولانا صاحب کا اِن حضرات کے ساتھ تعلق تھا اور بعد میں وہ غیر مقلد ہو گئے تھے۔ وہ اس course میں میرے شاگرد تھے۔ وہ بات چیت میں اس قسم کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ ایک دن مجھے اپنے ان لوگوں میں لے گئے جو غیر مقلد ہو گئے تھے۔ بات چیت کے دوران انہوں نے جب اپنی بات چھیڑی تو وہ مولانا صاحب کہتے ہیں: ان کے بارے میں ذرا محتاط رہیں۔ یہ ایسے ویسے آدمی نہیں ہیں۔ بس وہ چپ ہو گئے۔ کہتے ہیں: میرا مقصد یہ نہیں ہے۔ چنانچہ اگر ذرا طریقے سے بات کی جائے تو پھر وہ لوگ بھی محتاط ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ الٹا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔

آدمی ہمیشہ Defence line پہ رہے تو زیادہ مفید ہوتا ہے۔ یعنی جواب پورا دے لیکن ساتھ میں اپنا دفاع بھی ہو۔ یہ بھی ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کی بات کو فوراً نہیں کاٹنا ہوتا بلکہ ان کی بات کے اندر اپنی بات ڈال دیں۔ اس کو نَعَمْ procedure کہتے ہیں۔ یعنی پہلے نعم کہہ دو، اپنا طریقہ بتا دو۔ جیسے کفارِ قریش نے آپ ﷺ کا نام تعصب کی وجہ سے ”مذمم“ رکھا تھا۔ آپ ﷺ کو پتا چلا تو فرمایا: الحمد للہ، اللہ پاک نے مجھے ان کے شر سے محفوظ کر دیا، وہ ”مذمم“ کو گالیاں دے رہے ہیں، میں تو محمد ہوں۔

بالخصوص آج کل کے دور میں کچھ لوگ ہمیں چھیڑنے کی باتیں کرتے ہیں اور پھر جب ہم چڑتے ہیں تو وہ enjoy کرتے ہیں۔ یعنی یہ ان کی strategy ہوتی ہے۔ چنانچہ اس وقت اپنا style ایسا بنانا چاہیے کہ ان کو پتا ہی نہ چلے کہ یہ چڑ گیا ہے۔ ایسی صورت میں آدمی بڑا peaceful رہے اور درمیان میں ایسے ہی خاموشی سے اس قسم کی بات کر جائے جو سب کا جواب بھی ہو اور اس سے پھر وہ چڑ جائیں۔

سوال 30:

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ میرا ذکر 200، 400، 600 تھا اور 5 منٹ کا مراقبہ تھا جو تھوڑا تھوڑا محسوس ہو رہا ہے۔

جواب:

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ اب مراقبہ 10 منٹ کر دیں، باقی یہی رہے گا۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين