فتح مکہ کی تیاری اور دشمن کی جاسوسی

سوال نمبر 482

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

جب آپ ﷺ مکہ مکرمہ کو فتح کرنے کی تیاری کر رہے تھے تو اس تیاری کو آپ ﷺ نے بہت مخفی رکھا تاکہ کفار مکہ کو اس کی اطلاع نہ ہو۔ اس واقعے سے ہمیں دشمن سے اپنی جنگی تیاری مخفی رکھنے کی تعلیم مل رہی ہے۔ لیکن آج کل جو مسلمانوں کے دشمن ہیں ان کے پاس ٹیکنالوجی اس قسم کی ہے کہ وہ ہماری تیاریوں کے متعلق بہت ساری معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کے اندر بھی ایسے لوگ ہیں جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مسلمانوں کے دشمنوں کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم اپنے دشمنوں سے ان کے خلاف اپنی تیاریاں کس طریقے سے مخفی رکھ سکتے ہیں؟

جواب:

ہر شخص اتنے کا مکلف ہے جتنا وہ کر سکتا ہے اور جو نہیں کر سکتا اور کرنا چاہیے اس کے لئے دعا کر سکتے ہیں یا اس کے لئے planning کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ساری چیزیں ظاہر نہیں ہیں بلکہ کچھ چیزیں پھر بھی چھپی رہ سکتی ہیں۔

اس وقت دنیا میں دو قسم کے نظام چل رہے ہیں۔ ایک communist نظام ہے اور دوسرا capitalist نظام ہے۔ communist نظام میں جبر ہے۔ وہ تمام کام زبردستی کرواتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے لوہے کی زنجیروں سے کسی کو باندھ دیا جائے۔ اس میں کسی کا کوئی حق شمار نہیں ہوتا۔ Authority is authority چاہے کسی کے ساتھ کچھ بھی کر لیں۔ یہ communist نظام کا اصول ہے۔

capitalist نظام کی بنیاد مکر ہے وہ ایسا مکر کرتے ہیں جس میں انسان بالکل confuse ہو جاتا ہے۔ صحیح بات چھپ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر صحیح بات درمیان میں آ گئی بالکل پتا چل گیا لیکن اس کے بارے میں In parallel اتنی disinformation پھیلا دیں گے کہ صحیح بات اس میں سے غائب ہو جائے گی۔ پتا ہی نہیں چلے گا صحیح بات کون سی ہے اور غلط بات کون سی ہے؟ یہ ان کی با قاعده planning ہے۔ جیسے کرونا کے بارے میں اتنی زیادہ disinformation ہے کہ سب لوگ confused ہیں۔ تو ایک کا طریقہ جبر ہے اور دوسرے کا طریقہ مکر ہے۔ حدیث مبارکہ ہے: "اَلْحَرْبُ خَدْعَۃٌ" (البخاری، حدیث نمبر: 3415) ترجمہ: ’’جنگ ایک دھوکہ ہے۔‘‘ یعنی آپ گھات لگاتے ہیں، داؤ کھیلتے ہیں۔ مثال کے طور پر table tennis یا volleyball جس میں بعض players بڑے مشاق ہوتے ہیں، وہ وار کسی ایک طرف کرتے ہیں اور دیکھتے دوسری طرف ہیں۔ دوسرے players ان کی آنکھوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرف shot مارنا چاہتے ہیں؟ تو اس کی آنکھ دائیں طرف ہوتی ہے تو وہ instantly دائیں طرف کی planning کر لیتے ہیں اور وہ بائیں طرف مار دیتے ہیں۔ volleyball میں بعض دفعہ پورے زور سے کٹ لگانے کے لئے آ جاتے ہیں لیکن آہستہ سے پھینک دیتے ہیں۔ یہ مکر ہے جو نا جائز نہیں ہے۔ مسلمان بھی ایسا کر سکتے ہیں، یہ طریقہ کار با قاعدہ established ہے۔ آپ ظاہر کچھ کر لیں اور اندر کچھ ہو۔ اسی طرح There are many many things۔

مجھ سے ایک مفتی صاحب نے پوچھا کہ کسی چیز کو چھپانا ہو تو کیسے چھپایا جا سکتا ہے؟ میں نے کہا: آج کل اس کا سب سے زیادہ modern طریقہ یہ ہے کہ اس کو اس طرح پورا تقسیم کر لو کہ اس میں سے ہر حصے کا دوسرے حصے کے ساتھ عام لوگوں کو کوئی تعلق نظر نہ آ رہا ہو۔ صرف اس کو پتا ہو جس نے تقسیم کیا ہے۔ لوگ سمجھیں گے کہ ایسا نہیں ہے لیکن designer اس کو جانتا ہو گا۔ یہ چیزیں ہمیں انجینئرنگ میں بھی سکھائی گئی ہیں، یہ مختلف techniques ہیں جو planning میں شمار ہوتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان طریقوں کو استعمال کریں، کس نے نہیں روکا، عقل کی ضرورت ہے۔ پھر دعا بھی کریں: "اَللّٰهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا" یہ اسی مقصد کے لئے ہے۔ اللہ کے لئے کام کرے، اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ مخلص رکھے، اپنے cause کے ساتھ مخلص رکھے۔ ہمارے بعض کام کرنے والے ادارے جن کے ذمے بڑے ہی حساس کام ہوتے ہیں ان کو ایسی techniques سے فائدہ اٹھانا چاہیے کہ ان کے منصوبوں کو کوئی تاڑ نہ سکے اور آپ کا کوئی قریبی دوست ہی کیوں نہ ہو اس کو اپنا راز نہ بتائیں۔ سیانوں کا یہ اصول ہے کہ جس بات کو راز میں رکھنا ہو اس کو اپنے دوست کو بھی نہ بتاؤ کیونکہ اس کا بھی کوئی دوست ہو گا۔ اس سے اس کے ہاتھ سے چلا گیا، اس کے بعد دوسرے کے پاس چلا گیا، اس کے بعد تیسرے کے پاس چلا گیا، اس کے بعد چوتھے کے پاس چلا گیا تو یوں راز فاش ہو جائے گا۔

تحریک ریشمی رومال اسی وجہ سے ناکام ہوئی تھی اور انگریزوں کو پتا چل گیا تھا۔ مثبت مکر اور منفی مکر دونوں ہوتے ہیں، جیسے قرآن پاک میں ہے: ﴿وَمَكَـرُوْا وَمَكَـرَ اللهُ ۖ وَاللهُ خَيْـرُ الْمَاكِرِيْنَ﴾ (آل عمران: 54)

ترجمہ: ’’اور ان کافروں نے (عیسٰی علیہ السلام کے خلاف) خفیہ تدبیر کی، اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘

آج کل بالکل عجیب قسم کا دور ہے، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ اس وقت جھوٹ بالکل ایک strategy ہے۔ جو قانون نافذ کرنے والے ہیں وہ خود قانون پہ نہیں چلتے بلکہ کہتے ہیں Rules are for fools۔ چنانچہ اس دور کے اندر آپ کو بہت ہی محتاط رہنا چاہیے۔ پہلے وقتوں میں وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے، جھوٹ نہیں بولتے تھے جیسے ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو گئے اور وہ مدینہ منورہ پہنچ گئے، رو رہے تھے کہ میں کہاں جاؤں؟ آپ ﷺ نے چونکہ معاہدہ کیا تھا کہ جو وہاں سے آئیں گے ان کو ہم واپس کریں گے لہذا ان کو واپس کرنے پہ مسلمان مجبور تھے۔ آپ ﷺ کے سامنے جب وہ رو رہے تھے تو صحابہ کرام کا دل بڑا پسیج رہا تھا لیکن آپ ﷺ نے فرمایا بھڑکانے والا ہے۔ یعنی اس سے آگ بھڑکے گی۔ لیکن منع نہیں فرمایا کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔ اخیر میں جب ان کو واپس کیا تو راستے میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ میں موجود ہے کہ کس طریقے سے لے جانے والوں کی تلوار پہ قبضہ کیا، ان کو مارا اور مکہ و مدینہ کے درمیان کسی جگہ چھپ گئے اور پھر جو بھی مسلمان مکہ سے نکلنے میں کامیاب ہوتے وہ ان کے پاس پہنچ جاتے۔ اس طریقے سے ان کی اچھی خاصی ٹولی بن گئی اور چونکہ وہ کسی معاہدے کا حصہ نہیں تھے لہٰذا وہ گھات لگا کے حملہ کرتے تھے اور قریش کے قافلوں کو نقصان پہنچاتے تھے۔ اخیر میں قریش مکہ خود مجبور ہو گئے کہ معاہدے کی یہ شق واپس لے لی جائے کہ واپس کرنا لازمی ہو گا۔ چنانچہ یہی بات ہوئی جیسے اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿وَمَكَـرُوْا وَمَكَـرَ اللهُ ۖ وَاللهُ خَيْـرُ الْمَاكِرِيْنَ﴾ (آل عمران: 54) ترجمہ: ’’اور ان کافروں نے (عیسٰی علیہ السلام کے خلاف) خفیہ تدبیر کی، اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘

بہر حال اللہ پاک کی مدد ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح نہج پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن