اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جس کسی کو مل جائیں تو دین و دنیا کی بھلائی اُس کو نصیب ہو جائے۔ شکر گزار دل، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والی زبان، بلاؤں پر صبر کرنے والا جسم اور وہ عورت جو اپنی ذات اور اپنے شوہر کے مال ميں خیانت نہ کرے۔ مشکوٰۃ شریف کی بیہقی سے نقل کردہ حدیث شریف ہے۔ کیا یہ چاروں چیزیں حاصل کرنا اختیاری ہے اور اگر اختیاری ہے تو ان کو حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟
جواب:
شکر با قاعدہ ایک دل کا عمل ہے اور مطلوب عمل ہے۔ مطلوب عمل وہ ہوتا ہے جس کے اوپر گویا کہ اجر کا وعدہ ہو۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَمَنْ یَّشْكُـر فَاِنَّمَا يَشْكُـرُ لِنَفْسِهٖ﴾ (لقمان: 12) اسی طرح فرمایا: ﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لأَزِيدَنَّكُمْ﴾ (ابراہیم: 7) یہ تمام چیزیں اس بات کو سمجھا رہی ہیں کہ یہ اختیاری عمل ہے۔ یعنی اپنے اختیار کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے جو رکاوٹیں ہیں ان کی موجودگی میں وہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے تو پھر آسان ہے۔ مثلاً سب سے بڑی اور آسان بات یہ ہے کہ یہ کسی نعمت پر ہوتا ہے تو جب نعمت ملی ہے تو اس پر شکر ہی کرنا چاہیے اس پر نا شکری کا کیا مطلب؟ لیکن انسان حریص ہے قناعت نہیں کرتا۔ نتیجتاً جتنا ملا ہے اس سے زیادہ چاہتا ہے۔ ہمارے حضرت سید تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ سارے لوگ اس لئے پریشان ہیں کہ قسمت سے زیادہ چاہتے ہیں اور وقت سے پہلے چاہتے ہیں۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ لوگ جلدی مچاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جتنا اللہ نے ان کے لئے مقدر کیا ہے اس سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اس وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔ چنانچہ پریشانی اسی وجہ سے ہے کہ ہم لوگ حرص میں مبتلا ہیں اور حرص سے بچنا با قاعدہ سلوک طے کرنے سے ممکن ہے۔ انسان سلوک طے کر لے تاکہ حرص سے بچ جائے نتیجتاً شکر گزار دل نصیب ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ کو ہر ہر حال میں یاد کرنے والی زبان بھی اختیاری ہے کیونکہ اللہ پاک نے با قاعدہ ذکر کا حکم دیا ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿سَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا﴾ (الاحزاب: 42) ترجمہ: "صبح و شام اس کی تسبیح کرو"۔ یہ بھی اختیاری عمل ہے تبھی تو اس کا حکم دیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ حکم کبھی نہیں آیا کہ اچھے اچھے خواب دیکھا کرو چونکہ غیر اختیاری ہے تو اس کا حکم بھی نہیں ہے۔ تو جب حکم آ جاتا ہے تو معلوم ہوا وہ اختیاری ہے ﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286) جو انسان کوئی کام نہیں کر سکتا اس کو اللہ پاک اس بات کا ذمہ دار نہیں بناتے۔ ذکر بھی چونکہ اختیاری ہے لہٰذا اختیاری طور پر کرنا چاہیے۔ بلاؤں پر صبر کرنے والا جسم تو صبر مصیبت اور تکلیف پر ہے۔ تکلیف غیر اختیاری ہے وہ انسان نہیں مانگتا اور اچانک آ بھی سکتی ہے، کسی بھی وجہ سے آ سکتی ہے۔ لیکن اس پر صبر کرنا اختیاری ہے۔ یعنی اس وقت اللہ پاک کا صبر کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ اگر کسی نے صبر کر لیا تو اس پر اجر ہے، اس وجہ سے اختیاری ہے۔
وہ عورت جو اپنی ذات اور اپنے شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے۔ یہ ایسی چیز ہے کہ انسان کے بس میں نہیں ہے، اتنا بس میں ضرور ہے کہ selection میں خیال رکھے لیکن چونکہ مستقبل کا پتا نہیں ہوتا کہ مستقبل میں کوئی کیسا ہو۔ لہذا ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو۔ تو اس وجہ سے اگر اللہ پاک کسی کو دے تو شکر کا موقع ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو اللہ جل شانہٗ بہت اچھا پڑوس دے دے یا اچھی اولاد دے دے، اسی طرح اچھی عورت ہو تو اس پر شکر کرنا لازم ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جب کسی کو دے تو یقیناً اللہ پاک نے اس کے ساتھ بہت بھلائی کا معاملہ فرمایا ہے۔ چنانچہ اس کو اللہ پاک کو یاد کرنا چاہیے اور یہاں پر یہ معاملہ ہے کہ اگر عورت اچھی مل گئی تو اس پر شکر لازم ہے اچھی نہیں ملی تو اس پر صبر ہے۔ صبر اس معنی میں ہے کہ اس کے رویوں سے تکلیف ہوتی ہے۔ جیسے حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی ان کی بالکل پرواہ نہیں کرتی تھی، کافی سناتی تھی۔ ایک دفعہ حضرت کا کوئی مرید تھا اس کو کسی کام سے حضرت نے گھر بھیجا کہ فلاں چیز لے آؤ۔ اس نے وہاں جاکر حضرت کی بیوی سے کہا: فلاں چیز دے دیں۔ اس نے پوچھا: کس نے کہا ہے؟ کہا: حضرت نے۔ کہتی ہے کہ تمہارے حضرت کی ایسی کی تیسی۔ وہ پٹھان تھا تو اس نے تلوار نکالی پھر سوچا حضرت کی بیوی ہے، پیرانی صاحبہ ہے۔ تلوار اندر کر لی، پھر نکالی پھر اندر کر لی۔ اسی طرح بے چارہ پریشان سا واپس پہنچ گیا۔ حضرت نے پوچھا کہ بھئی کیوں لال پیلے ہو رہے ہو؟ کہا: حضرت جب اُدھر دیکھتا ہوں تو بھی حیران ہوتا ہوں، جب اِدھر دیکھتا ہوں تو بھی حیران ہوتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا جو ادھر ہے اسی کی وجہ سے ادھر ہے یعنی اللہ نے مجھے یہ مرتبہ اس کے ساتھ رہ کر صبر کرنے کی وجہ سے دیا ہے۔ صبر کے اوپر اللہ پاک مقامات تو دیتے ہیں۔ اور ذکر ہر وقت کرنا چاہیے کیونکہ اللہ پاک ہمارے مذکور ہیں، ہمارے مسجود ہیں اور ہمارے معبود ہیں۔ اس وجہ سے اللہ پاک کو ہر وقت یاد کرنا چاہیے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن