سود کی حرمت: تدریج اور فوری نفاذ، سودی نظام کو کمزور کرنے کے طریقے

سوال نمبر 480

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے خواہ مخواہ بحث نہ کیا کرو اور نہ اس سے ایسی دل لگی کرو جو اس کو نا گوار ہو۔ آپ ﷺ نے اس حدیث شریفہ میں جن دو کاموں سے منع فرمایا ہے وہ دونوں آج کل ہم اپنے معاشرے میں بہت کثرت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں اور اگر کوئی مسلمان آپ ﷺ کے اس ارشاد پر عمل کرنا چاہے تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں ان پر عمل نہیں ہو رہا تو اس کو مشکلات پیش آئیں گی، ان مشکلات میں ان کے لئے کیا عملی ترتیب ہو سکتی ہے؟

جواب:

ایسی باتیں کسی مسلمان بھائی کے ساتھ نہیں کرنی چاہئیں جن سے خواہ مخواہ کی بحث چھڑ جائے، اور کوئی ایسی دل لگی بھی نہیں کرنی چاہیے جو اس کو ناگوار ہو۔ شریعت کے احکامات بڑے ہی واضح ہوتے ہیں، ان میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔ تو خواہ مخواہ کی بحث سے منع کیا گیا ہے۔ مثلاً علمی بحث سے منع نہیں کیا گیا، تحقیقی بحث سے منع نہیں کیا گیا بلکہ بحث برائے بحث سے منع فرمایا گیا ہے جو ایک بے نتیجہ اور لا حاصل قسم کی چیز ہے جس میں سوائے وقت کے ضیاع کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اصل میں ہمارے اندر خود نمائی کا ایک جذبہ ہوتا ہے کہ میں عالم ہوں، مجھے معلومات حاصل ہیں۔ اگر کوئی شخص اس خواہش کو دبا دے کہ میں اپنے آپ کو عالم کہلواؤں، اپنے آپ کو سمجھ دار کہلواؤں، اپنے آپ کو ہر سوال کا جواب دینے والا کہلواؤں، تو یہ اس مسئلے کا بہت آسان حل ہے۔ میں بحث صرف اس وقت کروں گا کہ جس کے ساتھ بحث ہو رہی ہے وہ واقعی طالب ہو اور وہ بھی جاننا چاہتا ہو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے شکست دینا بہت آسان ہے کہ اگر کوئی حق بات کرتا ہے تو میں اس کو غلط کیوں کہوں گا؟ اور نا حق بات کہوں گا اور وہ مجھے ٹھیک کرے گا تو پھر میں اس پہ کیوں رکوں گا؟ مجھے بحث میں شکست دینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ معلوم ہوا اگر بلا وجہ بحث نہ کی جائے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے لئے بس صرف اپنی اس خواہش کو دبانے کی ضرورت ہے کہ مجھے لوگ عالم سمجھیں۔ بڑے بڑے علماء کرام بھی جب علمی باتیں کرتے ہیں تو اخیر میں ان کو کہنا پڑتا ہے ”وَاللہُ اَعلَمُ بِالصَّوَاب“ یعنی اللہ پاک کو پتا ہے کہ اصل بات کیا ہے۔ اپنی علمیت کے اظہار سے گویا کہ برأت کرتے ہیں کہ میں جو جانتا تھا وہ میں نے بتا دیا باقی حقیقت حال کا اللہ کو پتا ہے عین ممکن ہے کہ یہ بات ایسی نہ ہو جیسی میں کہہ رہا ہوں۔ ایسی صورت میں اگر دل میں نرمی پیدا کی جائے، گنجائش پیدا کی جائے تو یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ پھر دوسروں کے ساتھ بلا وجہ کی بحث نہ چھیڑی جائے اور اگر کوئی اور چھیڑ دے تو جتنا معلوم ہے اتنا بتا دیا جائے اور مزید بات کو آگے نہ بڑھایا جائے۔

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے بیٹے کو نصیحت فرما رہے تھے کہ: بیٹا مناظرہ نہ کیا کرو۔ ہم لوگ جب مناظرہ کیا کرتے تھے تو اس میں ہماری خواہش یہ ہوتی تھی کہ کوئی شخص اگر صحیح بات بتا دے تو ہم اس کو قبول کر لیں۔ لیکن اگر اس میں کوئی غلطی ہو اور کوئی اس غلطی کو نکال لے تو یہ ہماری خوش قسمتی ہو گی۔ ہم اس کو accept کر لیں گے اور بات ختم ہو جائے گی۔ فرمایا: اس وقت لوگوں کا یہ طریقہ ہے (یعنی اپنے دور کی بات کی) کہ مقابل شخص کے منہ سے کوئی غلط بات نکلے تاکہ میں اس کے اوپر چوٹ کروں، اس کو غلط ثابت کروں۔ یعنی اس کی ذلت ہو جائے۔ اس وجہ سے یہ نیت چونکہ فاسد ہے لہٰذا مناظرہ نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ بیان کر کے فرمایا: وہ اچھا دور تھا کہ کم از کم کوئی غلط بات منہ سے نکلے تو ہم اس کی تردید کریں۔ اب تو یہ ہے کہ چاہے غلط نکلے یا صحیح نکلے اس کی تردید کرنا ضروری ہے۔ ایسی حالت میں اور بھی فاسد خیال ہے۔ لہذا اس چیز کو سامنے رکھ کر اب بحث و مناظرہ نہیں کرنا چاہیے۔ گرما گرم بحث میں اگر اپنی اس خواہش پر بھی control نہیں ہے تو اس خواہش پر کیسے control ہو گا کہ جب کوئی غلط بات میرے منہ سے نکلے گی اور میں فوراً رجوع کر لوں اور اگر غلط بات منہ سے نکل گئی اور پھر control نہیں ہے تو رجوع نہیں کر سکوں گا۔ تو مستقل طور پر ایک مسئلہ ہو جائے گا اور میں ذمہ دار ہو جاؤں گا۔ اس وجہ سے ایسی بحث کو شروع ہی نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی اور شروع کرے تو جتنا معلوم ہے بس اتنا بتاؤ، اس کے بعد پھر بحث نہ کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ دل لگی جس کو بعض لوگ دل پشوری کہتے ہیں، تو ایسی دل لگی نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کو نا گواری ہو، یہ استہزاء میں آتا ہے اور اس کی قرآن میں با قاعدہ ممانعت ہے۔ اسی طرح کسی کا برا نام رکھنا یا کوئی جملہ کسنا سب غلط ہے۔

ہمارے مولانا (اشرف سلیمانی) صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں چونکہ لطیفے وغیرہ چلتے تھے تو جب ایک حد سے بات بڑھ جاتی تو حضرت مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ پھر control کر لیتے تھے کہ اتنا بھی نہیں، گویا limits بتا دیتے کہ یہاں تک ہو سکتا ہے اس سے آگے نہیں ہو سکتا۔ ایک صاحب تھے ان کے لئے کچھ اس قسم کی باتیں گپ شپ میں ہو جاتی تھیں تو انہوں نے ایک دفعہ عرض کیا کہ حضرت عزت نفس کی وجہ سے مجھے ان باتوں سے ذرا مسئلہ ہوتا ہے۔ حضرت نے پھر سب کو اور اپنے آپ کو بھی ان کے ساتھ اس قسم کی باتیں کرنے سے روک دیا۔ مقصد یہ ہے کہ یہ limits ہیں۔ چنانچہ گپ شپ منع نہیں ہے، آپ ﷺ نے بھی صحابہ کرام کے ساتھ لطیف بات چیت کی ہے۔ جیسے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے کھجوریں کھا رہے تھے اور ان کی آنکھ گرمی کی وجہ سے سرخ ہو رہی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ کی آنکھیں سرخ ہیں تو کھجوریں کیوں کھا رہے ہو؟ یعنی آنکھ اور بھی خراب ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ میں اس آنکھ کی طرف سے نہیں کھا رہا جو سرخ ہے۔ ایک دفعہ کھجوریں کھا رہے تھے تو آپ ﷺ کھجوریں کھا کر گٹھلیاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ڈال دیتے تھے۔ یعنی اتنی ساری کھجوریں آپ نے کھائی ہیں۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بڑے ہوشیار تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کھجور گٹھلیوں سمیت ہی کھا گئے ہیں۔ تو ایسی دل لگی ٹھیک ہے کیونکہ اس میں ناگواری نہیں ہے۔ جب ناگواری نہ ہو تو بہت حد تک گنجائش ہے۔

ایک دفعہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے مہمان آئے ہوئے تھے تو کوئی اور شخص آیا، حضرت مدنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو گلے سے پکڑ کر نیچے گرا دیا اور اس کے پاس جو پیسے تھے وہ نکال لئے اور لوگوں سے کہا: جاؤ اس کی مٹھائی لے آؤ۔ وہ بازار سے مٹھائی لے آئے تو حضرت نے سب پر تقسیم کر دی۔ مہمان نے جب یہ سب دیکھا تو کہا: یہ شخص بہت بڑا عالم اور با اخلاق ہے لیکن یہاں جو کام کیا اس کی سمجھ نہیں آئی۔ کسی نے اس کو جواب دیا کہ جس کے ساتھ کیا ہے اس سے پوچھو۔ تو جس کے ساتھ ایسا ہوا تھا اس نے بتایا کہ میں تو آتا ہی اس لئے ہوں کہ میرے ساتھ یہ اس طرح کر لیں۔ چنانچہ اگر نا گواری نہ ہو تو اس میں پھر گنجائشیں ہوتی ہیں لیکن جب نا گواری ہو تو نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کو سب لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری عزت نفس کی بھی حفاظت فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن