معاشرتی برائیوں کا تدریجی حل: شراب کی مثال اور آج کے دور میں نفاذ دین

سوال نمبر 479

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

جس طرح عرب معاشرے میں شراب عام تھی اس طرح سود بھی عرب معاشرے میں بہت عام تھا، لیکن دونوں کی حرمت کا طریقہ کار اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھا۔ شراب کو تدریجًا حرام کیا جبکہ سود کو اللہ تعالیٰ نے دفعتاً حرام کیا اور اسی وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمین نے سود چھوڑ دیا۔ آپ ﷺ کے دور میں اسلام لانا ہی سود سے منع ہونے کا سبب ہوتا تھا لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہم سودی کاروبار میں کسی نہ حد تک شریک ہیں۔ تو ایسے کون سے طریقے ہیں جن سے ہم سودی نظام کو کمزور کر سکیں، اس سلسلے میں عوام اور علماء کیا کردار اداء کر سکتے ہیں؟

جواب:

سود حجۃ الوداع کے موقع پر حرام قرار دیا گیا تھا جو بالکل آخری وقت تھا۔ در اصل تدریج اس لئے ہوتی ہے کہ انسان کے اندر آہستہ آہستہ اس چیز کو برداشت کرنے کی طاقت آ جائے۔ چنانچہ شراب اس وقت کے حالات کے حساب سے پہلے ہی تدریجاً حرام ہو گئی تھی۔ لیکن سود بالکل آخر میں ختم کیا گیا۔ تو اس وقت صحابہ کرام کی ایمانی حالت اس قابل ہو گئی تھی۔ دوسری بات تدریج سے مراد یہ ہے کہ مثال کے طور پر دس چیزیں حرام ہیں۔ تو آپ سب کو یک دم حرام قرار نہیں دیتے بلکہ پہلے یہ چھوڑو، کچھ عرصے بعد کہتے ہیں یہ چھوڑو، کچھ عرصہ کے بعد کہتے ہیں یہ چھوڑو، اسی طرح آپ دس کی دس چھڑا دیتے ہیں۔ یہ بھی تدریج ہے۔ آپ علیحدہ علیحدہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ اس طرح ہے اور یہ اس طرح ہے البتہ اخیر میں جو چھڑایا اس کا چھڑانا آسان نہیں تھا بلکہ اس کے لئے تدریج کے آخری لمحات کا انتظار کیا۔ اس لحاظ سے سود چونکہ مالی معاملات کے ساتھ تعلق رکھتا تھا اور مالی معاملات کی چیزوں کو نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے چنانچہ سب سے اخیر میں اس کو حرام کر دیا۔

شراب باہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور سود مال کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ باہ instant ہوتا ہے یعنی spike ہوتا ہے۔ اوپر جائے گی پھر ختم، اوپر جائے گی پھر ختم، اوپر جائے گی پھر ختم۔ جبکہ مال persistant ہے، انسان کے اندر اس کی محبت دائمی ہے۔ لہذا اس کے لئے ایمان کی مضبوطی کی بہت زیادہ ضرورت تھی اس لئے یہ بالکل اخیر میں ہو گیا۔ لیکن تدریج بہر حال دونوں میں ہے کہ ایک میں تدریجاً چھڑوا دیا گیا اور دوسرے میں تدریج کا خیال رکھا گیا اور اخیر میں چھڑا دیا گیا۔ چنانچہ بنیادی طور پر یہی بات ہے کہ آہستہ آہستہ یہ چیزیں آ گئیں۔ اب چونکہ اس وقت مکمل دین اتار دیا گیا ہے لہذا اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں یہ مانتا ہوں اور یہ نہیں مانتا۔ سب احکامات کو ماننا پڑے گا، درمیان میں ذرا بھر بھی انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اگر کسی نے سود کو حرام نہ ماننے سے انکار کیا تو کافر ہو جائے گا۔ لہذا یہ گنجائش تو نہیں رہی، البتہ جب وہ کسی شیخ کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کو تدریجاً وہ چیزیں چھوڑواتا ہے۔ یعنی وہ چیز جو پہلے چھڑائی جا سکتی ہے وہ پہلے چھڑا دیتے ہیں، پھر اس کے بعد، پھر اس کے بعد۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو پہلے مالی معاملات درست کرائے جائیں، بعض لوگوں کو پہلے عبادات درست کرائی جائیں، پھر مالی معاملات کی طرف آ جائیں۔ بعض لوگوں کے لئے پہلے جاہ والی چیزیں ختم کروائی جاتی ہیں۔ چنانچہ وہ Subject to condition ہے۔ Man to man, person to person, place to place vary کرتا ہے۔

اصلاح میں تدریج اب بھی ہے، لیکن شریعت میں اب تدریج نہیں ہے، اب حکم نافذ ہو گیا ہے۔ لہٰذا سب باتیں ماننی پڑیں گی اس میں کوئی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ البتہ اصلاح والا کام مشائخ کرتے ہیں۔ جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کوئی اصلاح کے لئے جاتا تو فرماتے: سارے عیوب جو تمہیں نظر آتے ہیں وہ سب لکھو۔ جب وہ لکھ دیتا تو فرماتے: پہلے یہ چھوڑو، پھر یہ چھوڑو، اس کے بعد تیسرا چھوڑو، اس کے بعد چوتھا چھوڑو اس طرح چھڑاتے رہتے تھے اور اس طریقے سے ما شاء اللہ کامیابی ہو جاتی تھی۔ طریقہ کار یہی ہے کہ تدریج کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ جل شانہٗ ہم سب کی اصلاح فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن