منکر احادیث اور میڈیا کے اثرات

سوال نمبر 506

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

جس طرح آج کل سنت موکدہ کو چھوڑنے کا رواج بڑھ رہا ہے اسی طرح لوگ بہت تیزی کے ساتھ منکر حدیث بھی ہو رہے ہیں، جس میں سب سے زیادہ نوجوان طبقہ ہے۔ ایسے لوگ نہ خود سمجھنا چاہتے ہیں نہ دوسروں کو سمجھنے دیتے ہیں۔ ان کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اشکال لوگوں میں پیدا کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو میڈیا بہت سپورٹ کرتا ہے، اس لئے ایسے لوگ باقی نوجوانوں کو بہت زیادہ خراب کرتے ہیں اب ایسی صورت حال میں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اور اپنے تعلق والوں کو اس فتنے سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟ اور جو شر media کے ذریعے آ تا ہے اس کو روکنے کا کیا انتظام کیا جا سکتا ہے؟

جواب:

قرآن شریف کی آیت مبارکہ کی تشریح کے ضمن میں جو بات ہوئی تھی اس میں بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ انسان کو حدیث شریف کے ذریعے سے ہی قرآن پاک اور تمام چیزوں کا بنیادی علم حاصل ہو سکتا ہے۔ اور اگر حدیث شریف کو چھوڑ دیا جائے تو پھر نہ قرآن سمجھ میں آئے گا اور نہ دین کی اور باتیں سمجھ میں آئیں گی۔ چونکہ ہمارے دشمن اس بات کو جانتے ہیں کہ اس ذریعے سے لوگوں کو دین سے بے بہرہ کیا جا سکتا ہے، اس وجہ سے وہ اس پر اپنے وسائل و زرائع کو استعمال کر کے خوب زور دیتے ہیں۔ چونکہ وسائل ان کے پاس ہیں۔ internet اور Social media ان لوگوں نے capture کیا ہوا ہے، اس وجہ سے وہ ایسی چیزوں کو پھیلانے دیتے ہیں اور اس کے مقابلے کی چیزوں کو دبا دیتے ہیں، بعض دفعہ اس کو block کر لیتے ہیں یا کوئی اور حرکت کر لیتے ہیں، بہر حال اس کے ساتھ resistance کرتے ہیں، وہ لوگ غیر محسوس انداز میں یہ حرکت کرتے ہیں۔ لہذا ہم لوگوں کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ "کفار کو جب دوزخ میں ڈالا جائے گا تو ان سے دوزخ کے محافظین کہیں گے، کیا تمہارے پاس خبر دار کرنے والا نہیں آیا تھا، تو وہ کہیں گے ہمارے پاس خبر دار کرنے والا آیا تھا، لیکن ہم نے ان کی بات نہیں مانی اور ہم نے تو ان کو جھٹلا دیا، ہم نے کہا کہ اللہ پاک نے کوئی بات نازل نہیں کی ہے، پھر وہ کہیں گے کاش! ہم سمجھ سے کام لیتے تو دوزخ میں نہ آتے۔ پیغمبر جب موجود ہوتا ہے تو وہ خود براہ راست بتاتا ہے، لیکن جب پیغمبر دنیا سے تشریف لے جائے اور کوئی پیغمبر نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے گا؟ پھر پیغمبر کی جو خبریں ہیں وہ ہم تک پہنچیں گی اور ان پر ہم عمل کریں گے، تو پیغمبر کی جو خبریں ہیں یعنی قول، فعل اور تقریر، ان پر ہم عمل کریں گے، ان میں ہم غور کریں گے، اور انہی کو احادیث شریفہ کہتے ہیں۔ اور یہی احادیث شریفہ قرآن کی تشریح بھی ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿وَ اَطِیۡعُوا اللہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ﴾ (النساء: 59) ترجمہ: "اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو"۔ اللہ کے احکام چونکہ قرآن میں ہیں، تو اگر آپ کے پاس احادیث شریفہ نہیں پہنچیں تو اللہ کے رسول کی اطاعت کیسے کرو گے؟ اور یہ بھی فرمایا کہ "جو تمہیں اللہ کا رسول دے اس کو لو اور جس سے منع کرے اس سے منع ہو جاؤ" تو مطلب یہ ہے کہ جتنی باتیں آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو بتائیں ان پر انہوں نے عمل کیا اور جن سے منع کیا ان سے وہ منع ہوئے، اب یہی باتیں ہم تک پہنچیں گی تو تب ہم بھی عمل کریں گے، اور ہم بھی منع ہوں گے، تو یہی احادیث شریفہ ہیں۔ احادیث شریفہ کے بغیر تو ہم پورے دین کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ صحیح حالت میں ہم تک نہیں پہنچیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ پاک نے آخری پیغمبر کی باتوں کو ہم تک پہنچانے کے لئے ایسا انتظام کیا ہے کہ بڑے محفوظ طریقے سے ہم تک آئی ہیں۔ ایسے لوگ تاریخ کی بے بنیاد باتوں کو تو مانتے ہیں، جس کا کوئی سر و پیر نہیں ہے اور معلوم نہیں کہ کیسے کہا، کیا کہا، لیکن احادیث شریفہ جن کی ایک مضبوط بنیاد ہے یعنی اسماء الرجال کا پورا فن ہے، ان کو نہیں مانتے۔ جرمنی کا ایک بادشاہ تھا جس نے تقریباً پانچ لاکھ ان حضرات کا data collect کیا جو احادیث شریفہ کے پھیلانے کا ذریعہ بنے، اور ان کی با قاعدہ ہسٹریاں بنی ہوئی تھیں، کہ کون کیا تھا؟ کیسے تھا؟ کہاں تھا؟ کیا کرتا تھا؟ اس کی حیثیت کیا تھی؟ یہ ساری چیزیں اس لئے جمع کی تھیں تاکہ جو احادیث شریفہ کے راوی ہیں ان کے بارے میں پتا چل سکے کہ وہ کیسے ہیں، ان کی بات کا اندازہ لگایا جا سکے، زور معلوم کیا جا سکے کہ ان کی باتیں کتنی صحیح ہیں اور کتنی صحیح نہیں ہیں؟ آج بھی وہ data موجود ہے۔ بلکہ آج کل تو زیادہ آسان ہے، کیونکہ کمپیوٹر میں سارا پڑا ہوا ہے، تو آدمی کمپیوٹر کے ذریعہ سے وہ سارا کچھ معلوم کر سکتا ہے۔ میں Federal Shariat Board میں میراث کے ایک مسئلے کے لئے حاضر ہوا تھا۔ تو ایک حدیث شریف میں نے بیان کی تو انہوں نے پوچھا کہ یہ حدیث شریف کیسی ہے؟ تو اس وقت میرے پاس ’’صخر‘‘ کی ایک CD آئی ہوئی تھی، جو احادیث شریفہ کے بارے میں تھی، اس میں با قاعدہ اسماء الرجال کا فن بھی تھا، یعنی رجال کے بارے میں معلومات تھیں کہ وہ رجال کیسے تھے۔ تو میں نے کہا کہ اس میں فلاں فلاں راوی ہیں، پھر بتایا کہ فلاں فلاں راوی ثقہ ہیں۔ پانچ چھ راویوں کا میں نے بتایا۔ پھر میں نے کہا کہ اس کا حکم آپ خود لگا دیں، جب پانچوں راوی ثقہ ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ کیسی حدیث شریف ہے؟ اب اتنا عرصہ پہلے کی بات ہے اور میرے پاس الحمد للہ با قاعدہ انتہائی مستند معلومات موجود تھیں، تو میں نے بتا دیں۔ چنانچہ یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے ساتھ باقی لوگ اس لئے مل جاتے ہیں کہ ان کا نفس یہ چاہتا ہے، نفس عمل نہیں کرنا چاہتا، لہذا وہ بہانہ چاہتا ہے، اور اگر اس کو کہہ دیں کہ یہ چیز ثابت نہیں ہے، تو خوش ہو جائے گا کہ بس ٹھیک ہے جی چھٹی ہو گئی۔ مثال کے طور پر ایک آدمی شراب پینا چاہتا ہے، اور وہ سمجھتا ہے کہ شراب حرام ہے، تو کوئی اس کو کہہ دے کہ شراب کیسے حرام ہے؟ قرآن میں تو اس طرح نہیں آیا، حدیث شریف اتنی مضبوط بات نہیں (نعوز باللہ) اصل تو قرآن ہے۔ اب چونکہ شراب وہ خود پینا چاہتا ہے، لہٰذا اس کے لئے یہ بات بڑی دلیل بن گئی، اور وہ اس کو استعمال کرے گا، اسی طرح اگر کوئی سود کھانا چاہتا ہے تو وہ کہے گا قرآن میں زیادہ سود سے منع کیا گیا ہے، تھوڑے سود سے تو منع نہیں کیا گیا، یہ تو احادیث شریفہ میں یوں آیا ہے اور یہ تو بعد میں باتیں آئی ہیں۔ اب چونکہ اس کا نفس چاہتا ہے، لہٰذا اس کے لئے تو یہ دلیل بن گئی۔ ایسے ہی جو لوگ بے حیائی چاہتے ہیں، یعنی موسیقی چاہتے ہیں، شراب چاہتے ہیں، شباب چاہتے ہیں، اس طرح کی چیزیں چاہتے ہیں اور یہ مذہب نے منع کی ہیں اور ان کی تفصیل احادیث شریفہ میں موجود ہے، تو احادیث شریفہ کو درمیان سے نکا لو تو ان کو کھلی چھٹی مل جائے گی، اور اس کے بعد پھر وہ جو مرضی کریں۔ تو یہ نہ ماننا نفس کی وجہ سے ہے، لہذا اس کا علاج یہ ہے کہ نفس کا علاج کیا جائے، کیونکہ انسان کا نفس عقل پہ بھی پردے ڈال لیتا ہے، اور پھر اس کو صحیح سمجھ حاصل نہیں ہوتی۔ جہنمی لوگ کہیں گے کہ کاش ہم سمجھ سے کام لیتے تو آج دوزخ میں نہ آتے، تو اگر انسان نفس کی اصلاح کر دے تو پھر انسان سمجھ سے کام لے سکتا ہے، چونکہ آپ ﷺ کی صحبت کی وجہ سے صحابہ کرام کے نفس کی اصلاح ہو چکی ہوتی تھی، تو جب ان کو حکم ملتا تو فوراً فرماتے "سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا" ان کے اور اطاعت کے درمیان میں صرف سماعت ہوتی تھی، لیکن ہم لوگوں کے لئے سننا بھی ہے اور سمجھنا بھی ہے، دونوں چیزیں ہیں۔ جب ہمارے نفس کی اصلاح ہو چکی ہو تو پھر ہم سمجھیں گے، اور پھر عمل بھی کریں گے۔ لہذا ہمیں اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے اور اپنے نوجوانوں کو اس چیز کے ساتھ متعارف کرانا چاہیے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صحبت کچھ بھی نہیں، لیکن یہی ہمارے لئے بچنے کا ذریعہ ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں آج کل فتویٰ دیتا ہوں کہ صحبت صالحین فرض عین ہے، کیونکہ اس کے بغیر ایمان بھی محفوظ نہیں رہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحبتِ سوء بہت strong ہو چکی ہے اور وہ لوگوں کو ہڑپ کر رہی ہوتی ہے۔ جیسے قرآن پاک میں ہے کہ جہنم اس طرح شور کر رہی ہو گی جیسے غصے میں ہڑپ کرنا چاہتی ہو۔ تو یہاں دنیا میں دوزخی اعمال انسان کو ہڑپ کرتے ہیں۔ اور ایسے شور کرتا ہے، تو یہ media کا جو شور ہے وہ بالکل ایسا ہے کہ نوجوانوں کو ہڑپ کر رہا ہے۔ تو یہاں دنیا میں میڈیا کا شور اور یہ فسق و فجور کا شور اور اس کا زور نوجوانوں کو ہڑپ کر رہا ہے اور پھر وہاں پر یہ متشکل ہو جائے گا دوزخ کی صورت میں، دوزخ بھی ان کو پھر ہڑپ کر رہی ہو گی اور وہ اس کا نتیجہ ہو گا۔ اس وجہ سے اگر وہاں اس انجام سے بچنا چاہتے ہو تو یہاں پر اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچاؤ۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو حقیقی معنوں میں سمجھ عطا فرما دے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن