اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت عُقبہ بن عامر جُہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ غزوہ تبوک میں جا رہے تھے، ابھی پہنچنے میں ایک رات کا سفر باقی تھا کہ رات حضورﷺ سوتے رہ گئے اور فجر کیلئے آنکھ نہ کھل سکی، سورج نکل آیا اور ایک نیزہ کے برابر ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے بلال! کیا میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ ہم سونے لگے ہیں تم ہماری فجر کا خیال رکھنا، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ نے تو فرمایا تھا، لیکن مجھے بھی اس ذات نے سلایا جس نے آپ کو سلائے رکھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ وہاں سے تھوڑا آگے گئے اور فجر کی قضا نماز پڑھی۔ اس واقعے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ سے بھی نماز قضاء ہوئی ہے، اور آپ ﷺ نے اس کی قضاء بھی پڑھی ہے۔ آج کل بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ قضاء نماز کا ثبوت نہیں ہے، اس بارے میں راہنمائی فرمائیں، نیز یہ کہ قضاء نمازوں کو کس طرح پڑھا جائے؟
جواب:
پاک و ہند کی جب جنگ ہو رہی تھی، اس وقت انڈیا والے ہمارے خلاف ڈرامے بناتے تھے اور ہمارے لوگ ان کے خلاف ڈرامے بناتے تھے۔ پشتو کا ایک ڈرامہ چل رہا تھا، اس میں انڈیا کا جو کردار تھا وہ طوطا رام ہوتا تھا۔ اس میں ایک شعر پڑھتے تھے جس کے اخیر میں کہا جاتا تھا نہ مانے نہ مانے طوطا رام نہ مانے، کہ نہیں مانتا نہیں مانتا طوطا رام نہیں مانتا۔ تو یہ جو لوگ قضا نمازیں نہیں مانتے یہ طوطا رام ہیں، طوطا رام کے ساتھ کیا حساب کیا جا سکتا ہے؟ جو کسی دلیل کو نہیں سمجھتے ان کے ساتھ کیا بات ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی سمجھ عطا فرمائے۔ تو طوطا راموں سے میں کہوں گا کہ خدا کے بندو یہ کیا کر رہے ہو؟ ہمارے پاس تو دین آپ ﷺ کے ذریعے سے آیا ہے۔ تو آپ ﷺ نے جو کام با قاعدہ کیا ہے، یعنی با قاعدہ جماعت کے ساتھ قضاء نماز پڑھی ہے، کیونکہ جماعت کے ساتھ رہی تھی، اور یہ اللہ پاک نے تکویناً قضاء کروائی تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے، تو جب آپ ﷺ نے پڑھی پھر اس کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ قضاء نہیں ہے۔ اصل میں وہ لوگ جو قضاء کا انکار کرتے ہیں وہ اس بات کا سہارا لیتے ہیں کہ یہ قضاء کرنا آپ ﷺ کے لئے Special case ہے۔ حالانکہ اگر Special case تھا تو پھر جماعت کے ساتھ کیوں پڑھتے، اکیلے نماز پڑھ لیتے۔ جیسے تہجد آپ ﷺ پہ فرض تھی اور باقی لوگوں کے لئے نفل ہے، تو اگر قضاء بھی آپ ﷺ کے لئے Special case تھا تو پھر باقیوں کو تو نہ پڑھواتے، حالانکہ سب کو پڑھوائی ہے، تو پھر آپ لوگوں نےکیسے Special case بنا لیا؟ Special case کا پتا تو اس طرح چلتا ہے کہ کوئی کام آپ ﷺ کریں اور صحابہ نہ کریں، اب بڑے بڑے اکابر صحابہ تھے جنہوں نے حضور ﷺق کے ساتھ قضاء نماز پڑھی تو پھر یہ کیسا Special case بن گیا۔ یہ عجیب قسم کے طوطا رام ہیں۔ آپ ﷺ کی نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا، یہ Special case تھا۔ صحابہ کرام اگر سو جاتے تو پھر وضو کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ نیند میں وضو کا نہ ٹوٹنا آپ ﷺ کے لئے Special case تھا، یہ لوگ اس کو نہیں مانتے، سو جاتے ہیں، پھر اٹھ کر اسی طرح نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، کہ آپﷺ نے ایسا کیا ہے۔ کیسے ان کو سمجھایا جائے؟ عقل ختم ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہاء کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ فقہاء سمجھدار، عقل والے، عقل کو استعمال کرنے والے لوگوں کو کہتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کی جس نعمت کو ٹھکرایا جاتا ہے، اس کی نا شکری کی جاتی ہے، اس نعمت کو اللہ تعالیٰ اٹھا لیتے ہیں۔ مثلا آپ ایک ہاتھ کو اوپر کو کھڑا رکھیں، اس سے کام نہ لیں تو کچھ عرصے بعد یہ خشک ہو جائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت عادیہ ہے۔ پس جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور عقلمندوں کے خلاف بکواس کرتے ہیں، تو اللہ ان کی عقل کو ختم کر دیتے ہیں۔ بچے کو آپ سمجھا سکتے ہیں ان کو نہیں سمجھا سکتے۔ عجیب بات ہے کہ جہاں Special case ہے وہاں نہیں مانتے، اور جہاں Special case نہیں ہے وہاں پر کہتے ہیں Special case ہے۔ سارے صحابہ نے ساتھ قضاء پڑھی ہے تو کیسے Special case ہو گیا۔ عربی میں کہتے ہیں "مُخٌّ مَا فِیہِ" یعنی دماغ میں کچھ نہیں ہے۔ بس یہی بات ان سے میں کہہ سکتا ہوں، اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ایک دفعہ ان میں سے ایک آدمی سے میری بات چیت ہو گئی۔ کہتے ہیں سعودی عرب میں ایک شخص سے کسی نے قضاء نمازوں کے بارے میں کسی نے پوچھا، وہ بھی سلفی ہو گا، یعنی وہ قضاء نماز کو نہیں مانتا تھا۔ "مُخٌّ مَا فِیہِ" والا تھا۔ تو اس سے جب قضا نماز کے بارے میں پوچھا تو وہ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا، کہنے لگا یہ سامنے خانہ کعبہ ہے؟ پوچھنے والے نے کہا ہاں خانہ کعبہ ہی ہے۔ تو وہ کہنے لگا اچھی طرح دیکھو خانہ کعبہ ہی ہے؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟ بس یہاں آپ کو میں کہتا ہوں کہ قضا نماز نہیں ہے۔ اب یہ بھی کوئی دلیل ہے؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے پانی گرم ہو جاتا ہے، اور پھر سرد ہو جاتا ہے لہذا زمین گول ہے۔ یہ بھی کوئی دلیل ہے؟ تو یہ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ان کے شر سے محفوظ فرمائے۔ اچھے اچھے لوگوں کو خراب کر لیتے ہیں۔ جو لوگ بے نمازی ہیں ان کے پیچھے نہیں پڑیں گے کہ نماز پڑھو، جب تبلیغ والے یا دوسرے دین دار لوگ محنت کر کے لوگوں کو نمازی بنا کر مسجدوں میں لے آتے ہیں، پھر یہ لوگ ان سے کہتے ہیں تم محمدی نماز نہیں پڑھتے ہو، تم حنفی نماز پڑھتے ہو، ان کو بد دل کر کے پھر دوبارہ نماز سے دور کرتے ہیں۔ کیا حنفی محمدی نہیں ہیں؟ مثلاً میں پاکستانی ہوں، لیکن میں پٹھان بھی ہوں، میں KPK کا رہنے والا بھی ہوں، میں زیارت کاکا صاحب کا بھی ہوں۔ اب یہ ساری باتیں مجھ پہ صادق آتی ہیں۔ تو اس طرح میں محمدی بھی ہوں، میں حنفی بھی ہوں، دیوبندی بھی ہوں۔ یعنی یہ ساری باتیں آپ کو اکٹھی مل سکتی ہیں۔ وہ مقابلے میں لے آتے ہیں۔ یعنی اگر کوئی حنفی ہے تو پھر محمدی نہیں۔ کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ محمدی نہیں تھے؟ تو یہ ان لوگوں کی جہالت ہے۔ ان کا نام میں نے طوطا رام رکھا ہوا ہے، جیسے طوطا رام نہیں مانتا، اسی طرح یہ لوگ بھی کبھی نہیں مانیں گے، آپ بے شک ان کے سامنے دلائل کے انبار لگا دیں۔ لہذا ان کی باتوں سے اثر نہیں لینا۔ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ نے جو کام کیا ہے وہی صحیح کام ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور کام ہے تو وہ ان کا اپنا ہے، وہ ہمارا نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ہدایت پہ جمع فرما دے۔
سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ قضا نماز کیسے پڑھی جاتی ہے؟ اصل تو یہ ہے کہ جتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان کو پورا کرنا ہے۔ اور اصول یہ ہے کہ جیسے قضا ہو اس وقت فوراََ ہی پڑھی جائے، جیسے آپ ﷺ نے کیا ہے۔ یعنی جس عذر کی وجہ سے نماز چھوٹی ہے وہ عذر جوں ہی دور ہو جائے تو فورا پڑھ لی جائے۔ جیسے نیند کی وجہ سے چھوٹی ہے تو جیسے ہی نیند سے اٹھ گئے تو فورا نماز پڑھے، سفر میں کوئی رکاوٹ ہو گئی جس سے نماز قضا ہو گئی تو جب موقع مل جائے فوراً پڑھ لے۔ اصل طریقہ تو یہی ہے۔ لیکن اگر زندگی میں کسی وقت بھی پڑھ لی جائے تو ہو جائے گی۔ البتہ چونکہ انسان کی موت کا پتا نہیں ہے کہ کب آ جائے، اس وجہ سے کوئی ترتیب شروع کرنی چاہیے، تاکہ اللہ پاک کے سامنے آپ کا ارادہ ظاہر ہو کہ آپ اس کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً علماء نے فرمایا ہے کہ ہر نماز کے ساتھ ایک قضا نماز پڑھو، اس طریقے سے روزانہ آپ کی پانچ نمازیں قضا ہو جایا کریں گی۔ اور اگر نمازیں بہت زیادہ ہوں تو پھر کوشش کرنی چاہیے کہ دو دو نمازیں پڑھ لی جائیں تاکہ آپ کی زندگی میں غالب امکان ہو کہ آپ کی نمازیں پوری ہو جائیں گی۔ کچھ لوگوں نے اپنی طرف سے قضا نمازوں کے لئے قضائے عمری کا ایک عجیب فارمولا نکالا ہے جو بدعت ہے۔ یہ کہ وہ رمضان شریف کے مہینے میں آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پوری عمر کی نمازیں ہو جاتی ہیں۔ یہ بھی ان لوگوں نے Special condition بنائی ہوئی ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی دکان سجائی ہوئی ہے۔ دین میں مرضی نہیں چلتی۔ یہاں تو جیسے بتایا گیا اسی طریقے سے کرنا ہے۔ تو قضاء کا یہ طریقہ بھی غلط ہے، یہ بدعت ہے۔ بدعت ہر وہ کام ہے جو دین سمجھ کر کیا جائے اور وہ کام آپ ﷺ، صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے وقت میں ہو سکتا تھا اور اس کو دین کے رخ سے نہیں کیا گیا، یعنی دین سمجھ کے نہیں کیا گیا، اب اگر اس کو دین سمجھ کے کیا جائے گا تو وہ بدعت ہوگا۔ اس وقت تک کسی نے اس طرح قضائے عمری نہیں پڑھی، اب جو اس طرح پڑھے گا تو وہ بدعت کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بدعتوں سے بھی بچائے اور اس طرح جہالت سے بھی بچائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن