اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی امید ہے آپ خیر خیریت سے ہوں گے۔ الحمد للہ آج ابتدائی معمولات کے 40 دن بلا ناغہ پورے ہو گئے ہیں۔ روزانہ صبح شام سورہ یٰس، شام کو تبارک الذی، اس کے علاوہ ایک پارہ تلاوت، چاشت، اشراق اور اوابین کے علاوہ مختلف اوقات میں 18 رکعت اور 25 دفعہ ”اَللّٰھُمَّ باَرِکْ لِیْ فِی الْمَوْتِ وَفِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ“۔ یہ تمام معمولات بلا ناغہ ہوتے رہے۔ اس کے علاوہ منزل جدید، تیسرا کلمہ، استغفار اور درود شریف 100، 100 بار صبح شام، 200 بار سورۂ اخلاص، 313 مرتبہ آیت کریمہ، مناجات مقبول اور 70 مرتبہ استغفار بمع درود شریف، ہر نماز کے بعد تسبیحات فاطمی، کلمہ طیبہ استغفار اور درود شریف 3، 3 دفعہ۔ ان معمولات میں کبھی کبھی ناغہ ہوتا رہا۔ صلوٰۃ التسبیح ہفتہ میں 2 سے 3 دفعہ پڑھی جاتی رہی۔ حضرت جی ان 40 دنوں کے دوران بندے کی شہوت پچھلی زندگی کی نسبت بہت زیادہ رہی۔ آئندہ کے لئے رہنمائی فرمائیں۔
جواب: بھائی صاحب! کثرت مطلوب نہیں ہے، رسوخ مطلوب ہے۔ انسان کو اتنا ہی معمول بنانا چاہیے جتنا نبھا سکے۔ آپ جو معمولات کرتے ہیں ان میں سے غلط تو کوئی بھی نہیں ہے، سب ہی صحیح ہیں اور با برکت ہیں۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ ایسا نہ ہو کہ نفلی اعمال کی کثرت کی وجہ سے آپ کے کچھ گھر کے لحاظ سے فرائض رہ جائیں، کوئی دفتر کے کام میں حرج ہو جائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہے تو پھر نفلی اعمال کم کریں اور اپنی وہ ذمہ داریاں پوری کریں۔ اب ایک شخص اپنے دفتر میں بیٹھ کر قرآن پاک پڑھنا شروع کر لے، قرآن پاک پڑھنا تو اچھی بات ہے لیکن دفتر میں اس لحاظ سے درست نہیں ہے کہ وہاں دفتر کے اوقات میں تلاوت کی اجازت نہیں ہے۔ آپ کے باقی کاموں کو بھی دیکھا جائے گا ان کے حساب سے گائیڈ کرنا پڑے گا۔ آپ ماشاء اللہ بہت ہی اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ مجھے تفصیل بتا دیں کہ آپ کے دوسرے مشاغل کیا ہیں تاکہ اس کے مطابق میں آپ سے کچھ عرض کر سکوں۔ اللہ جل شانہ آپ کو استقامت نصیب فرمائے اور اعتدال کے ساتھ دین پر جمے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر2: السلام علیکم۔ حضرت جی یہ مراقبہ جاری ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کرتے ہیں اس کا فیض حضور ﷺ کے قلب پاک پر آ رہا ہے اور وہاں سے میرے شیخ کے قلب پر آ رہا ہے اور وہاں سے میرے قلب میں آ رہا ہے۔ یہ مراقبہ ایک مہینے سے کر رہا ہوں۔ مراقبے کے دوران لطیفۂ قلب پہ حرارت محسوس ہوتی ہے، دعاؤں میں دل پہلے سے زیادہ لگنے لگا ہے اور عمل کرتے ہوئے توجہ اللہ کے فضل پر پہلے سے زیادہ ہونے لگی ہے۔ مزید یہ عرض ہے کہ آپ کی برکت سے ذکر پر باقاعدگی حاصل ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی برکت سے مداومت نصیب فرمائے آمین۔
جواب: اب باقی معمولات آپ کے وہی سابقہ رہیں گے۔ مراقبہ میں کچھ تبدیلی ہو گی کہ اب آپ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ (البروج: 16) کا مراقبہ کریں گے، اس تصور کے ساتھ کہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ﴾ کا فیض اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ ﷺ کے قلب مبارک پر اور آپ ﷺ کے قلب مبارک سے شیخ کے قلب پر اور وہاں سے آپ کے قلب پر آ رہا ہے۔ یہ مراقبہ شروع کر لیں اور ایک مہینے بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر3:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضرت جی برونائی سے عرض کر رہا ہوں۔ جہری ذکر 200، 400، 600، 1000 ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“، ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھو“، ”حَق“ اور ”اللہ“ کے ساتھ 15 منٹ دل سے ”اللہ، اللہ“ کا مراقبہ کرتے ایک مہینہ گزر گیا ہے۔ مزید رہنمائی کی درخواست ہے۔
جواب: دل کے ذکر کے بارے میں تفصیل بتا دیں کہ وہ کیسے ہو رہا ہے، پھر کچھ عرض کر سکوں گا۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت جی۔ میرا 30 منٹ کا مراقبہ دل پر اور 1000 مرتبہ اللہ اللہ کا ذکر زبان پر جاری ہے، اس کو ایک ماہ پورا ہو گیا ہے۔ اب دل میں تھوڑی تھوڑی دیر اللہ اللہ محسوس ہو جاتا ہے پھر ذہن میں ادھر ادھر کی سوچ آ جاتی ہے۔ حضرت جی میرے دماغ پہ مراقبے کا بہت زیادہ بوجھ ہوتا ہے۔ آگے آپ کا کیا حکم ہے۔ کوتاہیوں پر معافی کی طلب گار ہوں۔
جواب:
آپ مراقبہ شروع کرتے ہوئے 3 مرتبہ آیت الکرسی پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیا کریں۔ ابھی اسی مراقبہ کو مزید ایک ماہ جاری رکھیں جب تک پورے 20 منٹ کے لئے اللہ اللہ محسوس نہ ہونے لگے۔ ایک ماہ بعد اطلاع کریں۔
سوال نمبر5:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی آپ کا نمبر مجھے آپ کے ایک مرید نے دیا ہے۔ آپ کے متعلق بہت کچھ سنا ہے میں آپ کے دیدار کا شوقین ہو گیا ہوں۔ مہربانی فرما کر مجھے اس group میں شامل فرمائیں جس میں آپ کے بیانات آتے ہوں۔ میں ضلع گجرات کا رہنے والا ہوں اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہوں۔
جواب:
ان شاء اللہ ہم آپ کو group میں شامل کر لیں گے اور اگر آپ کو خانقاہ آنا ہو تو میں آپ کو location بھی بھیج دوں گا اور ترتیب بھی بتا دوں گا۔
سوال نمبر6:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت جی میرے بھتیجے کا ذکر یہ ہے 200 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“، 400 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُو“ 600 مرتبہ ”حَق“ اور 3500 مرتبہ اللہ“۔ اللہ کے فضل سے اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے اس ذکر کو ایک مہینہ مکمل ہو گیا ہے۔
بھابھی:
مراقبہ 15 منٹ دل، 10 منٹ روح، 10 منٹ سر اور 2000 مرتبہ اللہ کا ذکر۔ 2 مہینوں سے زیادہ عرصہ یہ معمولات کرتی رہی ہیں، دل، روح اور سر پر اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے۔ ان کے لئے آگے کیا حکم ہے۔
بھتیجی:
3000 مرتبہ اللہ اللہ کا ذکر، 15 منٹ کا مراقبہ دل پر، 10 منٹ لطیفۂ روح پر۔ لطیفۂ روح پر فی الحال اللہ اللہ محسوس نہیں ہوتا۔ ان کے لئے کیا حکم ہے؟
جواب:
بھتیجے کا ذکر:
باقی ذکر ویسے ہی کرتے رہیں، لیکن اللہ 4000 مرتبہ کیا کریں۔ ایک ماہ بعد اطلاع کریں۔
بھابھی:
اب وہ اس طرح کر لیں کہ 10 منٹ دل پہ، 10 منٹ روح پر، 10 منٹ سر پر اور 15 منٹ لطیفۂ خفی پر ذکر کیا کریں اور 2000 مرتبہ اللہ اللہ بھی کر لیا کریں۔
بھتیجی:
ابھی فی الحال یہی ذکر جاری رکھیں تاکہ لطیفۂ روح پر بھی محسوس ہونے لگے اگر پھر بھی نہیں ہوتا تو لطیفۂ روح کی جگہ پہ انگوٹھا رکھ کر سوچیں کہ یہاں اللہ اللہ ہو رہا ہے۔
سوال نمبر7:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، میں برطانیہ سے بات کر رہا ہوں۔ تین ہفتے پہلے میں نے آپ کو یہ میسج بھیجا تھا:
میرا یہ ذکر چل رہا ہے۔ 200 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا الله“، 400 مرتبہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُو“ اور 600 مرتبہ ”حق“، اس کے ساتھ 5، 5 منٹ کا مراقبہ پانچوں لطائف پر تھا۔ پچھلے ہفتے آپ نے صفات ثبوتیہ کی جگہ شیونات ذاتیہ کے مراقبہ کا اضافہ فرمایا تھا جو لطیفۂ سر پر 15 منٹ کرنا تھا۔
حضرت جی میرا تبادلہ 3 مہینوں کے لئے دوسرے ہسپتال میں ہو رہا ہے جہاں پر ڈیوٹیاں بہت سخت ہیں۔ اندیشہ ہے کہ ذکر کے لئے کم وقت ملے گا۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ کم وقت ملے تو ذکر کس طرح پورا کروں، کیا ذکر جہری چھوڑ دوں یا قلب کا مراقبہ کم کر دوں یا صرف صفات شیونات کا مراقبہ لازمی کروں۔
And in reply you asked me to first go there and then update you therefore I am updating you now unfortunately my all tempo of ذکر is broken duties are more tough than I thought, then I thought most of days I tried to sit and do ذکر for few minutes to avoid absence however for 3 to 4 days I could not be able to do ذکر at all when I do ذکر I shorten ذکر جہری and قلب مراقبہ and gave full time to مراقبہ شیونات ذاتیہ how run my, on my days off I did my best to do normal ذکر I feel very down and disappointed please guide me how to proceed now.
جواب:
آپ اس طرح کریں کہ اگر ہو سکے تو مجھے ٹیلی فون کر لیں، اگر فون نہیں کر سکتے تو میسج کر لیں تاکہ میں آپ کے ساتھ کوئی وقت طے کر لوں پھر اس وقت پہ آپ کے ساتھ تفصیلی بات ہو جائے۔
سوال نمبر8:
السلام علیکم فلاں،
here I one month and 20 days of meditation is completed meditation was first 10 minutes of لطیفہ قلب then take, then take 5 minutes rest then again having 10 minutes meditation of لطیفۂ قلب after that 10 minutes of لطیفۂ روح 5 minutes rest and again 10 minutes meditation of لطیفۂ روح in which ذکر of اللہ اللہ is to be felt I do feel ذکر for 7 to 8 minutes on لطیفۂ قلب and 7 to 8 minutes in لطیفۂ روح should I continue with this.
جواب:
Now you can shift to another.
اس کے ساتھ لطیفۂ سر بھی شامل کر لیں۔ باقی سب لطائف پہ دس دس منٹ اور لطیفۂ سر پہ 15 منٹ ذکر کریں۔ اگر تھکاوٹ ہو تو درمیان میں 5 منٹ کا وقفہ کر سکتی ہیں۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ حضرت اقدس مزاج بخیر ہوں گے۔ ہمارے ساتھ والے محلے میں میرے ایک دور کے رشتہ دار رہتے ہیں، جب میں انہیں دیکھتا ہوں، ان کے ساتھ اہل محلہ کا اٹھنا بیٹھنا دیکھتا ہوں تو مجھے ناگواری ہوتی ہے۔ دل کی عجیب کیفیت ہے۔ جب کوئی ان کی خامی بیان کرتا ہے تو دل اسے سننے کو بہت چاہتا ہے۔ حضرت اس مرض کی تشخیص اور علاج فرمائیں۔
جواب:
انسان کے اندر کچھ رذائل اور کچھ خصائل پہلے سے موجود ہوتے ہیں، ان پر محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ خصائل بہتر ہو جائیں اور رذائل سے بچت ہو جائے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے، اس میں دو باتیں ہیں، ایک اختیاری دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری حد تک آپ یہ کریں کہ قصداً ان کے بارے میں کوئی بری بات نہ سنیں، اگر کوئی آپ کو ضرور سنائے تو اسے کہہ دیں بھئی مجھے آپ کی بات پہ یقین نہیں ہے۔ دوسرا کام یہ کریں کہ لوگوں کے سامنے ان کی تعریف کرتے رہیں اس سے آپ کے نفس کی اصلاح ہوگی۔ جہاں تک غیر اختیاری طور پر دل میں کسی کے بارے میں برا خیال آنے کا تعلق ہے، تو آپ غیر اختیاری کے مکلف نہیں ہیں، اس کی پروا نہ کریں۔
سوال نمبر10:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
I hope حضرت is well and the family I wanted to ask the location of the مقامات which are connected with لطائف as it true that مجاہدہ in the نقشبندی مجاہدہ is sunnah and عزیمت what is توجہ and how is it done.
جواب:
Actually, these things are related to some theoretical things and this time is reserved for answering some احوال answering the احوال of the persons if they ask so ok at this time I tell you, but you should think about this because in this there are, there may be some question which need in detail discussion, so this will not be sufficient time for that so incomplete answer will make some problem and complete answer will waste time of many people, so that's why therefore these such type of questions should be avoided anyhow as for these questions are concerned so I shall answer ان شاء اللہ.
مجاہدہ:
what مجاہدہ is.
Is مجاہدہ is the resistance to the you can say the effect of the نفس it means if نفس says do this, and you do not do this, this is مجاہدہ so there are two types of مجاہدہ one مجاہدہ is مجاہدہ شرعی and the other مجاہدہ is مجاہدہ اختیاری which is not منصوص so شرعی مجاہدہ is like this that when you do something acting upon شرعیہ and your نفس resist so don’t bother about this, and you do that in any can, in any case so this will be مجاہدہ in that case so نقشبندی people they do such type of مجاہدہ and this is called you can say اتباع سنۃ but with عزیمت not with رخصت so this مجاہدہ is even difficult then the مجاہدہ اختیاری because اختیاری مجاہدہ is preparation for this, so I tell you one thing very clearly I think you should understand it the basic principle of نقشبندی طریقہ is this that one needs to prepare for اصلاحِ نفس for which جذب is required in start so it means there is one step in between which is not directly needed, but it is needed for preparation so in this نقشبندی people they take the advantage of جذب and they perform in this way but as for چشتی قادری and سہروردی and other are concerned they don't follow this procedure but they in مجاہدات use اختیاری مجاہدات for preparation just like خلوت and just like doing some work which نفس were, does not for example حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ when came to جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ so he sent him to the place where he was governor and for selling you can say food in that area for one year, so this was مجاہدہ so this مجاہدہ is preparation for the real مجاہدہ which is مجاہدہ شرعی so that they do that things in this so therefore either you do that in this way okay either you do in this way it's okay, so both are the same as for توجہ is concern توجہ is actually دعائے قلبی which means if you are heart is connected with اللہ سبحانہ و تعالیٰ in all the things, and you ask not in words but in sense for a person at some time so when your heart is connected with اللہ سبحانہ و تعالیٰ so اللہ سبحانہ و تعالیٰ does that and that is similar to the effect of توجہ which is the other people are doing the putting, putting the influence of magnetic power of his self to create some to create some change in that it looks like that so the people thinks that it is that توجہ but it not that توجہ in that توجہ the person sees himself in doing that and that cause it, it creates تعلّی but in the other مجاہدہ دعائے قلبی the person does not see himself but he sees the effect of اللہ سبحانہ و تعالیٰ that he does the things so in that things he does not see himself but اللہ سبحانہ و تعالیٰ so in that thing تعلی is not come but عجز and عبدیت is coming, so this is محفوظ طریقہ of توجہ and our elders are following this procedure may اللہ سبحانہ و تعالیٰ grant us توفیق to follow such, such things which are according to our مشائخ safe method.
سوال نمبر11:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
نمبر 1:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ معیت 15 منٹ تک کا جاری ہے۔ اللہ کی معیت محسوس ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی کام احسن طریقے سے کروں فوراً یہ خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ کام اتنے بہترین طریقے سے ہوا ہے۔
جواب:
اب یہ مراقبہ معیت آدھا گھنٹہ کیا کریں اور باقی لطائف پر وہی 5 منٹ کا ذکر رکھیں۔ والسلام
نمبر 2:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ معیت 15 منٹ تک کا جاری ہے۔ اللہ پاک کی معیت محسوس ہوتی ہے۔ اس حدیث قدسی کا تھوڑا تھوڑا ادراک ہونے لگا ہے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ولی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے (الی آخر الحدیث)۔ اس کے علاوہ جب کوئی کام احسن طریقے سے ہوتا ہے تو اس کا سبب اللہ کی معیت محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
آپ باقی لطائف پر 5 منٹ کا ذکر جاری رکھیں اور مراقبہ معیت آدھا گھنٹہ کر لیں۔
نمبر 3:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ معیت 15 منٹ تک کا جاری ہے۔ اللہ کی معیت محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر یقین پختہ ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔
جواب:
آپ بھی اسی طرح باقی لطائف پر 5 منٹ کا ذکر جاری رکھیں اور مراقبہ معیت آدھا گھنٹہ کر لیں۔
نمبر 4:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ شان جامع 15 منٹ تک جاری ہے۔ سب لطائف پر ذکر محسوس ہوتا ہے۔ اپنے احوال کے مطابق اللہ کے شیونات محسوس ہوتے ہیں جیسے اللہ کے رحم کی شان اور گناہ ہو جائے تو اللہ کی شانِ قہاریت کا احساس ہوتا ہے اور توبہ کے وقت شانِ غفوریت کا احساس ہوتا ہے۔
جواب:
آپ مراقبہ معیت 15 منٹ کے لئے کیا کریں اور باقی لطائف پر 5, 5 منٹ ذکر کیا کریں۔
نمبر 5:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر اور مراقبہ حقیقت کعبہ جاری ہے لیکن ذکر محسوس نہیں ہوتا۔
جواب:
آپ اس کو دوبارہ شروع کر لیں اور ایک مہینہ بعد اطلاع کریں۔
نمبر 6:
لطیفۂ قلب پر 10 منٹ کا ذکر چل رہا ہے۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب لطیفۂ قلب پر 10 منٹ اور لطیفۂ روح پر 15 منٹ کے لئے ذکر کیا کریں۔
نمبر 7:
لطیفۂ قلب 10 منٹ، لطیفۂ روح 10 منٹ، لطیفۂ سر 10 منٹ اور لطیفۂ خفی 15 منٹ۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب ان سب لطائف پر 10 منٹ ذکر کیا کریں اور لطیفۂ اخفیٰ پر 15 منٹ کے لئے ذکر شروع کر لیں۔
نمبر 8:
تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر ہو رہا ہے اور مراقبہ شیونات ذاتیہ 15 منٹ کے لئے کرتی ہوں۔ ذکر محسوس ہوتا ہے۔
جواب:
اب تمام لطائف پر 5 منٹ ذکر کریں اور لطیفۂ خفی پر صفات سلبیہ کا مراقبہ کریں۔
سوال نمبر12:
حضرت جی آپ نے بتایا تھا کہ تین چیزیں قابل اصلاح ہوتی ہیں قلب، نفس اور عقل۔ کیا عقل کو لطیفۂ عقل کہہ سکتے ہیں؟ اس کا مقام کون سا ہے؟
جواب: حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے لطائف کی بہت تشریح کی ہے۔ ان کی تشریح کے مطابق نفس پورے جسم میں ہے لیکن اس کا مرکز جگر ہے۔ قلب پورے جسم میں ہے لیکن اس کا مرکز قلب ہے۔ عقل پورے جسم میں ہے لیکن اس کا مرکز دماغ میں ہے۔ اسی طرح اعصابی نظام پورے جسم میں ہے لیکن اس کا مرکز خاص جگہوں پر ہے انہی کو حضرت نے لطائف کا نام دیا ہے۔ اور کمال کی بات ہے کہ حضرت نے لطائف کے باب کے اختتام پر فرمایا کہ یہ مجھے حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے سکھایا ہے۔
سوال نمبر13: کیا عقل کی اصلاح کے لئے مراقبہ ہوتا ہے یا اس کا کوئی اور طریقہ ہے؟
جواب:
اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ (آل عمران: 190 - 191)
ترجمہ: ”بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں“۔
اس میں قلب کی اصلاح کا ذریعہ ذکر اور عقل کی اصلاح کا ذریعہ ذکر و فکر دونوں کو بتایا گیا ہے۔ نفس کی اصلاح مجاہدے کے ساتھ ہوتی ہے کیونکہ نفس امارہ شرارت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جب آپ اس کی مزاحمت کرتے ہیں، اس کا مقابلہ کر کے اس کی خواہشات کو دباتے ہیں تو یہ مجاہدہ بنتا ہے۔ جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہوئی ہوتی عقل نفس کی خواہشات کے مطابق کام کر رہی ہوتی ہے، جدھر نفس لگاتا ہے ادھر لگ جاتی ہے ایک چیز پہ فوکس نہیں کر پاتی۔ عقل کو ایک چیز پر مرکوز کر کے سوچنے کو فکر کہا گیا ہے، اس کے ذریعے عقل کو control کیا جاتا ہے، جب عقل کسی چیز پہ فکر اور توجہ مرکوز کرتی ہے تب ذکر سے عقل کو اللہ یاد دلایا جاتا ہے تاکہ اس سوچ اور توجہ کا رخ اللہ کی طرف ہو جائے۔ صرف غور و تدبر اور سوچ و فکر کا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ اس فکر کا رخ اللہ پاک کی طرف ہو، اس سوچ اور تدبر کے نتائج اللہ پاک کی طرف لے جائیں۔ اگر انسان ذکر کے بغیر صرف فکر کرے جیسے کئی مفکرین کرتے ہیں تو اس کی نظر اپنے اوپر پڑتی ہے، نفس کے اوپر پڑتی ہے اللہ پر نہیں پڑتی، وہ یہ ساری چیزیں اپنے نفس کے لئے کرتے ہیں، یہ ساری سوچ و بچار نفس کے لئے ہو جاتی ہے لیکن اگر وہ اس فکر کے ساتھ ساتھ اللہ کو یاد بھی کر رہے ہوں تو پھر اس فکر کا رخ اللہ کی طرف ہو جاتا ہے اور یہی مطلوب ہے۔
عقل کی اصلاح ذکر اور فکر سے ہوتی ہے۔ دل و دماغ ایک cabin میں ہیں، قلب و جگر دوسرے cabin میں ہیں۔ قلب کا تعلق دونوں طرف ہوتا ہے، اس کا تعلق دل و دماغ والے معاملات سے بھی ہے اور قلب و جگر میں بھی شامل ہے۔ جب فکر والا کام ہو تو یہ دل و دماغ کا کام ہے اور عمل والا کام قلب و جگر سے متعلق ہوتا ہے کیونکہ قلب کے اندر will power اور قوت ارادی ہوتی ہے۔ اگر اس قوت ارادی کا رخ صحیح ہو تو نفس اس کے اوپر کام کرتا ہے۔ آپ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میں لطائف ثلاثہ والا باب ضرور پڑھیں۔ حضرت نے اس موضوع پہ جتنی وسیع گفتگو کی ہے کسی اور نے اتنی وضاحت سے بات نہیں کی، ان کی کتاب پڑھ کر اس معاملے میں ساری تشنگی سیر ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب انتظام ہوا ہے کہ اس خانقاہ میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا درس بھی ہوا ہے، جس سے یہ تشنگی دور ہو گئی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں حضرت کی تعلیمات پر بالکل کام نہیں ہوا، انڈیا میں کافی حد تک ہو رہا ہے، بلکہ وہاں باقاعدہ شاہ ولی اللہ اکیڈمی ہے، انہوں نے شاہ صاحب کی تعلیمات پہ بڑا تحقیقی کام کیا اور کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی حضرت کی تعلیمات پہ کام ہونا چاہیے۔ کیونکہ صحیح کام کرنا اس وقت زیادہ ضروری ہو جاتا ہے جب گڑبڑ اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہوں، ان خرابیوں کو دور کرنے کے لئے صحیح کام بہت ضروری ہو جاتا ہے، زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے، آپ صحیح چیز سامنے لائیں گے تب ہی غلط دور ہو گا۔ حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بھائی مولانا عبد الحمید سواتی صاحب نے شاہ صاحب کی تعلیمات پر کچھ کام کیا ہے، وہ حضرات نقشبندی سلسلہ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے کام کے امین تھے، اس کے علاوہ اندرون سندھ میں بھی کچھ لوگوں نے کام کیا ہے جن میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب کا نام سر فہرست ہے۔
سوال نمبر14:
حضرت جی وقوف قلبی کو ہم سادہ الفاظ میں کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
جواب:
دل کو کسی چیز پر لانا‘ یہ وقوف قلبی ہے، اسے آسان الفاظ میں قلبی توجہ کہہ سکتے ہیں۔ وقوف کا معنی ہوتا ہے فوکس کرنا، توجہ کرنا کسی چیز پہ ٹھہر جانا۔
اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا ہمارے حضرت شاہ عبد العزیز دعا جُو رحمۃ اللہ علیہ کئی بار لطیفوں میں بہت قیمتی باتیں کرتے تھے۔ حاجی عبد الوہاب صاحب اکثر ان کے پاس ملنے کے لئے جاتے تھے کیونکہ وہ جماعت کے بڑے لوگوں میں سے تھے، رائیونڈ کا کام شروع ہی انہوں نے کروایا تھا رائیونڈ کی جگہ انہوں نے ہی خرید کے دی تھی۔ حاجی عبد الوہاب صاحب ان سے ملے تو انہوں نے فرمایا بھئی میں تم سے نہیں ملتا تم لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو۔ انہوں نے کہا: حضرت میں کیسے بے وقوف بناتا ہوں؟ انہوں نے کہا: وقوف کہتے ہیں ٹھہرنے کو اور تم لوگوں کو متحرک کرتے ہو، ان میں وقوف نہیں رہتا، اس طرح تم انہیں بے وقوف بناتے ہو۔
سوال نمبر15: حضرت ایک مجلس میں آپ نے فرمایا تھا کہ باقی سلاسل میں لطائف پہ اتنا زور نہیں دیا جاتا جتنا نقشبندیہ میں دیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ وضاحت فرما دیجیے۔
جواب: کہتے ہیں ”ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں“۔ اصل میں سارے لطائف دل میں ہیں۔ یہ بات صحیح ہے۔ اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں جیسے hand pump میں یہ ہوتا ہے کہ آپ اگر تھوڑا زور لگائیں گے تو پانی تھوڑی دور جائے گا اور زور لگائیں تو اور دور جائے گا اس سے زیادہ زور لگائیں گے تو اس سے بھی آگے جائے گا مزید زور لگائیں تو اس سے بھی آگے جائے گا۔ باقی سلاسل کے حضرات فرماتے ہیں کہ آپ ابتدا میں جو کام کرتے ہیں وہ صرف قلب تک ہی محدود ہوتا ہے اور کام کریں گے تو وہ قلب سے آگے جسم کی اور جگہوں تک بھی پہنچ جاتا ہے، اس سے زیادہ کام کرتے ہیں تو اور زیادہ جگہوں تک پہنچتا ہے۔ میرا اپنا خیال یہ ہے کہ وہ حضرات غلط بھی نہیں کہتے۔ اگرچہ میں نقشبندی ہوں لیکن دوسروں کی بات کو بھی تو سمجھنا چاہیے۔ ان حضرات کی بات غلط اس لئے نہیں ہے کہ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ جب لطائف محسوس ہونا شروع ہوتے ہیں تو جسم میں کئی کئی جگہوں پر محسوس ہوتے ہیں، پورے جسم میں بھی محسوس ہوتے ہیں، آپ پورے جسم کے ہر ہر عضو کے نام پہ لطائف تو نہیں بنا سکتے، کس کس کا نام رکھو گے۔ اس وجہ سے سلطان الاذکار اس ذکر کو کہتے ہیں جو پورے جسم پر محسوس ہوتا ہے۔ یہ سب کام شروع دل سے ہی ہوتا ہے اس لئے وہ حضرات صرف دل پہ سارا کام کرتے ہیں باقی لطائف خود ہی درست ہو جاتے ہیں، جبکہ نقشبندیہ سلسلے میں دل کے علاوہ بھی کچھ لطائف پر الگ سے کام کیا جاتا ہے۔ اور سارے سلاسل کے طریقے درست ہیں۔
سوال نمبر16:
حضرت جی آپ اکثر ذکر کے بارے میں آنے والے سوال کے جواب میں بتاتے ہیں کہ ”اللہ ھُو اللہ“ نہیں ہے بلکہ ”اَللہُ اَللہ“ ہے۔ اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
در اصل اکثر لوگ اس ذکر کو غلط انداز میں بولتے ہیں، صحیح ذکر ہے ”اَللہُ اَللہ“ کئی لوگ اس میں پہلے ”اَللہُ“ کے آخر میں جو پیش والی ”ہ“ ہے، اس کو لمبا کر کے پڑھتے ہیں اور ”ہٗ“ کو ”ھُوْ“ بنا دیتے ہیں۔ جبکہ ”اَللہُ اَللہ“ الگ ذکر ہے اور ”ھُو“ الگ ذکر ہے۔ ان دونوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ذکر کے بہت مشاق تھے۔ حضرت اتنے زیادہ ذکر کر چکے تھے کہ بعض مرتبہ ذکر پر کنٹرول نہیں کر پاتے تھے وہ خود بخود چل پڑتا تھا۔ ایک دفعہ کسی کو ”اَللہُ اَللہ“ کا اسم ذات والا ذکر سکھا رہے تھے، کہ سکھاتے سکھاتے اللہ، اللہ، اللہ، اللہ بولتے چلے گئے۔ پھر فوراً اپنے آپ کو روکا، فرمایا بھئی تم نے ایسے نہیں کرنا۔ حضرت ”اَللہُ اَللہ“ کا ذکر بہت کمال انداز میں کرتے تھے، جب ذکر کرتے تھے تو زبان سے کم ہی محسوس ہوتا تھا یوں لگتا تھا کہ سیدھا دل سے ہو رہا ہے۔ حضرت خود خالص چشتی تھے لیکن سب سلسلوں سے گزرے تھے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ میں کیا ہوں بلکہ وہ مرید کو دیکھتے تھے کہ اس کا مزاج کیا ہے اس کے حساب تربیت فرماتے تھے۔ مجھے فرمایا: پہلے میرا خیال تھا کہ تم نقشبندی ہو لیکن اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تیری نسبت نقشبندی ہے۔ پھر بڑی دعائیں دیں کہ اللہ پاک تجھے نقشبندی نسبت کی ساری برکات عطا فرمائے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ انہوں نے بہت ساری دعائیں دیں اور بڑے دل سے دعائیں دیں۔ میں نے سوچا دیکھو چشتی نقشبندی کے بارے میں دعائیں کر رہا ہے۔ آج کل ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت کو نقشبندی چشتی سے غرض نہیں تھی ان کو تو یہ غرض تھی کہ اس مرید کا اللہ کے ساتھ تعلق بن جائے۔ اور اللہ سے تعلق کسی سلسلہ میں رہ کر بھی قائم ہو سکتا ہے۔
ہم نے یہ جو چاروں سلسلوں کا ذکر شروع کرایا ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں جو سلسلوں کی تفریق بیٹھی ہوئی ہے یہ دور ہو جائے اصل چیز کی طرف توجہ ہو اور اصل چیز اپنی اصلاح ہے۔ اگر میں سارے سلسلوں کی ساری باریکیاں سمجھ لوں، لوگوں کے سارے اسرار و رموز کو جان لوں لیکن مجھے اصل چیز محسوس نہ ہو، اس کا اصل فائدہ حاصل نہ ہو تو میری ساری محنت برباد گئی۔ اس لئے توجہ اپنی اصلاح کی طرف رہنی چاہیے۔
سوال نمبر16:
کیا بچوں میں نوافل کی عادت ڈالنے کے لئے ان پہ تھوڑی سختی کر سکتے ہیں؟ بالخصوص 10 سال کے قریب کی عمر والے بچوں کے بارے میں سوال ہے۔
جواب:
جب بچے دس سال کے ہو جائیں تو پھر ان پہ فرائض کے لئے تو سختی کر سکتے ہیں تاکہ ان کی عادت ہو جائے لیکن نوافل کے بارے میں سختی نہیں کر سکتے ہاں ترغیب ضرور دے سکتے ہیں۔ ان کے سامنے نوافل کے فضائل سنایا کریں اور سب سے بہتر طریقہ بچوں کو نوافل پہ لانے کا یہ ہے کہ انسان خود نوافل کا پابند ہو۔ جب ہم گھروں میں ذکر کرنے لگتے ہیں تو ہمارے بچے ہمارے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، اور ہماری طرح ذکر کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی عادت بنتی ہے۔ میرے بیٹے محمد کا بیٹا ”حَق، حَق“ کا ذکر بہت اچھا کرتا ہے، شروع ہو جاتا ہے، حق حق حق، اور بہت زور سے ذکر کرتا ہے۔ جب انسان خود کوئی کام کرتا ہے تو بچے اس کے ساتھ شروع ہو جاتے ہیں پھر ممکن ہے وہ آپ سے بھی آگے بڑھ جائیں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب آپ صدقات و خیرات دیا کریں تو اپنے بچوں کے ہاتھوں دلوایا کریں۔ مثلاً فقیر آیا آپ اس کو دے رہے ہیں تو بچوں کو کہہ دیں بھئی جاؤ تم دے کے آؤ۔ یا مثلاً آپ دعوت کر رہے ہیں تو بچوں کو اس کام پہ لگائیں کہ مہمانوں کو کھانا پیش کریں۔ اس طرح بچوں میں سخاوت کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ یہ چیزیں اگر ابتدا ہی سے دل میں بیٹھ جائیں تو بہت فائدہ ہوتا ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن