اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم میں عربوں کے اسلام سے پہلے کے حالات کا نقشہ کھینچا ہے اور اُس میں مختلف بُرائیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے عرب معاشرے میں شراب نوشی کا ذکر جس انداز سے کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب پر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یک دم پابندی لگ جاتی تو بہت کم لوگ اس پر عمل کر سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے جس انداز میں شراب نوشی کی حرمت میں آیات نازل فرمائیں اُس سے ہمیں یہ سبق مل رہا ہے کہ اگر کوئی اصلاح کا کام کر رہا ہو تو اُس کو تدریج اختیار کرنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح عرب معاشرے میں شراب اتنی عام تھی کہ کوئی اس کو بُرائی سمجھ بھی نہیں رہا تھا اور آسانی سے چھوڑ بھی نہيں سکتے تھے تو اس وقت ہمارے معاشرے میں بھی بہت ساری اخلاقی بُرائیاں اتنی عام ہیں کہ اُن کو کوئی گناہ نہیں سمجھتا اور نہ ان کو چھوڑنے کے لئے کوئی تیار ہے۔ ایسی صورت میں تَخَلُّق بِاَخْلَاقِ اللہ کا تقاضا کیا ہے کہ کس طریقے پر معاشرتی بُرائیوں کو دور کیا جائے؟ اس سوال کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ آپ ﷺ کے دور میں قرآن نازل ہو رہا تھا تو اُس وقت تو تدریج ہو سکتی تھی لیکن آج کل کے دور میں تو دین پورے کا پورا نازل ہو چکا ہے تو پھر دین کے نفاذ میں تدریج کیسے کی جا سکتی ہے؟ اگرچہ مشائخ تدریج سے کام لیتے ہیں لیکن کیا علماء کرام تدریج کے ساتھ دین کی طرف راغب کریں یا دین کی جو بات بالکل final ہے اُسی کو اپنے وعظ و خطبات وغیرہ میں سامنے رکھیں۔
جواب:
ما شاء اللہ بڑا اچھا سوال ہے۔ لیکن اس کا جواب سمجھنا اتنا زیادہ آسان نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں کئی چیزیں سمجھنے پر صحیح جواب موقوف ہے۔ نمبر ایک: یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس دین کو تدریج کے ساتھ نافذ فرمایا ہے بلکہ بعض دفعہ تو ایسا ہوا ہے کہ ایک چیز آئی اور بعد میں اس کو کسی اور آیت کے ساتھ منسوخ کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ بِالْمَعْرُوْفِۚ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِيْنَ﴾ (البقرہ: 180)
ترجمہ: ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑ کر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آ جائے، وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔ یہ متقی لوگوں کے ذمے ایک لازمی حق ہے۔‘‘
بعد میں اس آیت کو اللہ پاک نے ﴿یُوْصِیْكُمُ اللهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ﴾ (النساء: 11) کے ذریعے منسوخ کر دیا۔ چونکہ اس وقت لوگوں میں یہ چیز چل رہی تھی تو اسی کے مطابق عمل کروا دیا اور اس چیز میں غفلت نہ کرنے کا بتا دیا گیا۔ لیکن جس وقت اس کے لئے تیار ہو گئے تو اس کے بعد پھر اصل بات کی طرف آ گئے کہ تمہیں سوچنا نہیں چاہیے اللہ پاک نے پہلے سے فیصلہ کر دیا ہے اس کے مطابق تم عمل کرو۔
اب جیسے شراب نوشی کی مثال دی گئی ہے وہ بھی اس میں آتی ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری مثالیں اس میں دی جا سکتی ہیں۔ دین کے نفاذ میں تدریج اس طرح آ رہی ہے لیکن جب دین مکمل ہو گیا اور یہ آیت نازل ہو گئی: ﴿اَلْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْناً﴾ (المائدہ: 3)
ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دِین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو دِین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کر لیا۔‘‘
اس میں تین باتوں کا اعلان ہو گیا۔ لہذا اب اسلام کے علاوہ کوئی دین اللہ کو پسندیدہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو نعمتیں دین سے متعلق تھیں وہ ساری کی ساری پوری ہو گئیں اب مزید کی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔ جیسے لوگ بدعتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی اچھا کام ہے۔ حالانکہ وہ نعمت مکمل ہو گئی ہے، اب مزید اس میں سوچنا ہی نہیں چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جو بھی دین آنا تھا وہ آ گیا اب اس کے اندر مزید کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ یہ آیت اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ ہم یہ چیز مان لیں۔ اب علاج کیسے کریں گے؟ چنانچہ صحت مندی ایک مطلوبہ چیز ہے تو کیا کم صحت پر انسان compromise کر سکتا ہے؟ یعنی کوئی کہے کہ میری آنکھیں ٹھیک نہ رہیں، کان ٹھیک ہو جائیں۔ تو کوئی ایسے نہیں کرے گا بلکہ پورے جسم کی صحت مانگے گا۔ اس کے لئے با قاعدہ تدریج ہو گی۔ ڈاکٹر جب دوائی دیتے ہیں تو ایک ہی دن میں سب ٹھیک ہو جاتا ہے؟ نہیں۔ بلکہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ dose بھی آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں اور بعض دفعہ کم کرتے ہیں تو بھی آہستہ آہستہ اور temporarily کرتے ہیں۔ چنانچہ صحت مند ہونے میں تدریج سے کام لینا پڑتا ہے۔ اسی طرح کھانے پینے میں۔ معلوم ہوا کہ عملی طور پر جب انسان کسی چیز میں آتا ہے تو جس کو ٹھیک کرنا ہو اس میں تدریج ہوتی ہے، لیکن جو چیز اصل ہے اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہوتی، اس میں ایک ہی بات ہوتی ہے۔ چنانچہ دین مکمل ہو گیا ہے لہٰذا جب مفتی صاحب سے پوچھیں گے تو وہ آپ کو مکمل دین کے بارے میں بتائیں گے۔ لیکن جب شیخ اصلاح کرے گا تو وہ آپ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اس طریقے سے کام کرے گا کہ آپ کی اصلاح ہو سکے۔ مثال کے طور پر میں ideal conditions لانا چاہتا ہوں کہ بالکل perfect کام کرے۔ وہ کر ہی نہیں سکے گا، اندر سے ٹوٹ جائے گا تو اس کی بجائے یہ اچھا ہے کہ تھوڑا سا ہو جائے، پھر اس کے بعد تھوڑا سا، پھر اس کے بعد تھوڑا سا۔ اس میں گویا کہ آپ انکار نہیں کرتے لیکن فوری پر اصرار بھی نہیں کرتے۔ یعنی آپ مانتے تو وہی ہیں جو اترا ہے لیکن اس پر عمل کرانے کے لئے آپ کو تدریج کی جو ضرورت ہے وہ تدریج مشائخ کرتے ہیں۔ اور مشائخ کے ساتھ ہی ایسا ہو سکتا ہے، علماء کرام ایسا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ مسئلے کا جواب دیتے ہیں، وہ یہ نہیں بتاتے کہ پہلے یہ کر لو پھر یہ کر لینا، یہ مشائخ کا کام ہے کیونکہ اللہ جل شانہٗ نے ان کو اس کام پر مامور فرمایا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے نا جائز فائدہ اٹھانے والے غلط صوفی بھی ہوتے ہیں۔ ان کا مقصود مریدوں کی اصلاح کرنا نہیں ہوتا بلکہ ان کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ ان کو نذرانے ملتے رہیں، وہ اپنے گرد صرف مریدوں کا بھیڑ اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کو اعمال کی طرف آنے ہی نہیں دیتے بلکہ ان کو کہتے ہیں کہ میں تمہارے لئے یہ سارا کچھ کر رہا ہوں۔ یہ لوگ فراڈ ہوتے ہیں۔ یہ دھوکا اور غلط کام ہے، یہ جو بھی کرتا ہے وہ اپنے آپ کو ذمہ دار بنا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی حالت سے بچائیں۔
یہ چیز در اصل لوگوں نے تدریج سے نکالی ہے کہ لوگ کہتے ہیں: جی فوری طور پر سلوک طے ہو جائے۔ پھر چونکہ کر نہیں سکتے تو اس لئے یہ چیز نکال لی۔ بھئی جتنا کر رہا ہے تو بس ٹھیک ہے، لیکن اس کو ٹال کر اپنی مرضی کرواتے ہیں۔ لیکن صحیح مشائخ با قاعدہ planning کرتے ہیں کہ فلاں کو میں کتنا بتاؤں اور کتنا نہ بتاؤں۔ آہستہ آہستہ وہ اس کو صحیح سمت پر لے آتے ہیں۔ جیسے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بعض پروفیسرز آتے تھے جو drink کرتے تھے۔ ان دنوں شراب پہ پابندی نہیں تھی۔ وہ حضرت کی مجلس میں اعتراض اور سوال کیا کرتے تھے۔ مولانا صاحب بہت تحمل کے ساتھ ان کی بات سنتے تھے اور ان کو کچھ بھی نہیں کہتے تھے، بس ان کے ساتھ ایک قسم کی دوستی لگائے رہتے تھے تاکہ یہ لوگ آتے رہیں۔ ان کی کافی باتیں سننے کے بعد تھوڑی سی بات حضرت بھی بتا دیتے جس کا ان پر اتنا اثر ہو جاتا کہ وہ جب آتے تو سر پہ رومال باندھ کے آ جاتے۔ یعنی مولانا صاحب کی عزت کے لئے کہ یہ مقدس جگہ ہے، یہاں پر کم از کم سر ننگا نہ ہو۔ گویا کہ یہ ان کی اصلاح کا پہلا قدم ہوتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ یہ ہوتا کہ وہ مولانا صاحب کے ہاں آ کر نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ توبہ کی توفیق عطا فرماتے، پھر آہستہ آہستہ ما شاء اللہ regular نمازی ہو جاتے۔ پھر مولانا صاحب کی مجلس میں با قاعدہ آنے والے ہو جاتے تھے، کبھی درمیان میں بیعت بھی ہو جاتے اور پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے اور ما شاء اللہ بہت آ گے بڑھ جاتے۔ ظاہر ہے ان کو زبردستی کوئی نہیں کرا سکتا تھا، یہی طریقہ ہو سکتا تھا۔ کیونکہ مولانا صاحب کے پاس ڈنڈا تو تھا نہیں کہ یہ کرو اور یہ نہ کرو۔ اس وجہ سے حکومت بھی اس طرح نہیں کر سکتی، وہ بھی اپنے قانون نافذ کرنے کے لئے پورا نظام نافذ کرے گی۔ چنانچہ جو مشائخ اصلاح کرتے ہیں اس میں تدریج ہوتی ہے۔ مسائل میں تدریج نہیں ہے لیکن اصلاح میں تدریج ہے۔ علماء کرام بھی مواعظ کے اندر اس بات کا خیال رکھ سکتے ہیں کہ جیسے بعض دفعہ ایسے لوگوں کا مجمع ہوتا ہے جن میں کچھ خاص کمزوری ہوتی ہے تو اس کے اوپر خصوصی زور دیا جاتا ہے اور اس کے مطابق بیان کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی اور مسئلے میں مبتلا ہوتے ہیں، ان کے لئے اس موضوع پہ بات کرتے ہیں، یہ بھی تدریج ہی ہے۔ میں جب کہیں جاتا ہوں تو میرا ایک گھنٹہ بیان ہوتا ہے، تو مجھ سے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آپ نے فلاں فلاں موضوع پر بات نہیں کی۔ میں نے کہا: آپ نے بالکل صحیح کہا لیکن میں نے جتنی بات کی اس میں کوئی ایسی بات ہوئی جو غیر ضروری ہو؟ کہتا ہے: نہیں۔ میں نے کہا: اس ایک گھنٹے کو کم کیا جا سکتا ہے؟ کہا: نہیں۔ میں نے کہا: گھنٹہ تو میرے پاس ایک ہی تھا۔ اس میں جتنی بات کر سکتا تھا وہ میں نے کر لی، اب ان شاء اللہ آئندہ آپ آتے رہیں گے تو اس میں اور باتیں بھی آپ سنتے جائیں گے۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔ چنانچہ مواعظ میں بھی تدریج آ سکتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن