ایمان، یقین اور عمل کے حوالے سے راہنمائی

سوال نمبر 504

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

مسلم شریف کی روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم حضور ﷺ کے ارد گرد بیٹھے تھے، حضور ﷺ ہم سے اٹھ کر چلے گئے، جب آپ ﷺ کو آنے میں کافی دیر ہو گئی تو ہم سب آپ ﷺ کی تلاش میں نکل گئے، مجھے آپ ﷺ ایک باغ میں مل گئے، آپ ﷺ نے مجھے اپنے دو جوتے نشانی کے طور پر دے دیئے اور فرمایا کہ جو بھی یہ گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ دل سے اس پر یقین کر رہا ہو تو اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ مجھے سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے، جب میں نے ان کو آپ ﷺ کا فرمان سنایا تو انہوں نے مجھے سینے پر اتنے زور سے مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے ابوہریرہ! واپس جاؤ، میں حضور ﷺ کی خدمت میں گیا اور رو کر فریاد کرنے لگا، اس دوران عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی پہنچ گئے، آپ ﷺ نے عمر رضی اللہ تعالٰ عنہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ ایسا نہ کریں، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر کے عمل چھوڑ دیں گے، آپ ان کو عمل کرنے دیں، آپ ﷺ نے فرمایا اچھا انہیں عمل کرنے دو۔ اس حدیث شریف سے ہمیں ایمان، یقین اور عمل کے حوالے سے کیا راہنمائی مل رہی ہے؟

جواب:

دراصل ایمان utmost نجات کے لئے ضروری ہے۔ اگر کسی کے پاس ایمان نہیں ہے تو بے شک اس کا عمل کتنا ہی اونچا ہو وہ کام نہیں دے گا، بلکہ وہ ضائع ہو جائے گا، اس کو اللہ قبول نہیں فرمائیں گے۔ اس کی مثال میں ایسے دیتا ہوں جیسے A×B×C×D×E یعنی کسی بھی ہندسے کو اگر آپ صفر سے ضرب دیں تو اس کی value جو بھی ہو گی اس کا نتیجہ صفر ہو گا۔ اور اگر اس کو 1 سے ضرب دیں تو پھر اس کے بعد A اور B C D E F G H ان سب کی جو value ہو گی اس کا multiplication اس کے حساب سے ہو گا۔ جیسے مثال کے طور پر سب کی value ایک ہو تو ایک جواب آئے گا، اگر سب کی value دس ہو تو 10^5 جواب آئے گا۔ اس طریقہ سے جس کی جتنی value ہو گی اس کے حساب سے اس کا حاصل ضرب ہو گا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان 1 اور 0 کی طرح ہے۔ یا 1 ہوتا ہے یا 0 ہوتا ہے، درمیان میں کوئی چیز نہیں ہوتی۔ لہذا اگر ایمان ہے تو ان سب اعمال کی قیمت ہے، اگر ایمان نہیں ہے تو ان اعمال کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ تو لا الہ الا اللہ کا مطلب یہی تھا کہ جو اس کو پڑھے گا وہ نجات پائے گا، اس کے تمام اعمال کی قیمت بنے گی، اور اگر ایمان نہیں ہو گا تو اس کی نجات نہیں ہو گی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ بہت دور اندیش تھے اور لوگوں کی نفسیات کو جانتے تھے، اس لئے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ لوگ عمل چھوڑ دیں گے ۔جیسے ابھی بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عام لوگوں کو اگر معمولی سی گنجائش ملتی ہے تو اس سے کتنا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں، کہتے ہیں کہ فلاں جگہ پر یہ حدیث ہے، فلاں جگہ پر یہ ہے، فلاں جگہ پر یہ ہے، وہ اپنے لئے مسئلے بنا لیتے ہیں۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت دور اندیش تھے اس لئے فرمایا کہ لوگ عمل کو چھوڑ دیں گے، اور یاد رکھئے کہ قرآن پاک میں بہت ساری جگہوں میں اللہ جل شانہ نے اپنی بات عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے مطابق اتاری ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: عمر کی زبان پہ حق بولتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر ایسی بات آ جاتی تھی جو ضروری ہوتی تھی۔ یہ بات بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں آ گئی، اور انہوں نے یہاں تک کیا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کے پاس نشانی کے طور پر آپ ﷺ کے جوتے تھے ان کو اتنا زور سے مارا کہ وہ سرین کے بل گر گئے، اور روتے ہوئے آپ ﷺ کے پاس پہنچ گئے، اور آپ ﷺ نے جب عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تو نے اس طرح کیوں کیا، تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ! لوگ عمل چھوڑ دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اچھا ان کو عمل کرنے دو"۔ اگرچہ اصل تو ایمان ہے، لیکن عمل کے بغیر بھی چارہ نہیں ہے۔ ایمان اصل اس لئے ہے کہ عمل کی قیمت تب بنے گی جب ایمان ہو گا، لہٰذا اگر ایمان نہیں ہے تو عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔ مثال کے طور پر آپ کے پاس انگلینڈ یا سعودی عرب کسی ہوٹل کی permission بھی ہے، اور آپ کے پاس پیسے بھی ہیں، اور وہاں پر آپ کے تعلقات بھی ہیں، جہاز کا ٹکٹ بھی ہے اور سارا کچھ ہے، لیکن آپ کے پاس ویزا نہیں ہے، تو کیا آپ وہاں جا سکیں گے؟ ان ساری چیزوں سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں گے؟ ہر گز نہیں۔ وہ ساری چیزیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ البتہ اگر آپ کے پاس ویزا آ جائے تو پھر ان تمام چیزوں کی قیمت ہو گی، پھر دیکھا جائے گا کہ آپ کے پاس وہاں رہنے کے لئے پیسے ہیں یا نہیں، آپ کے پاس ٹکٹ ہے یا نہیں، ساری چیزیں اس کے بعد دیکھی جائیں گی۔ جب تک آپ کے پاس ویزا نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ پس یہ سمجھ لیا جائے کہ ایمان جنت کا ویزا ہے، اگر آپ کے پاس ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے، آپ کے کسی بھی عمل کی value ہی نہیں ہے۔ اور اگر ایمان ہے تو پھر جتنا عمل آپ نے کیا ہو گا اس کے حساب سے معاملہ ہوگا۔ ایک بات اور بھی اچھی طرح یاد رکھیں کہ اللہ پاک انصاف والا ہے، یہ نہیں ہوتا ہے کہ کسی نے 80 فیصد عمل کیا، کسی نے 70 فیصد، کسی نے50 فیصد، کسی نے 40 فیصد کیا تو ان سب کو برابر بدلہ ملے، چنانچہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا ﴿قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴾ (الزمر: 9)۔ ترجمہ: کہو کہ: "کیا وہ جو جانتے ہیں، اور جو نہیں جانتے، سب برابر ہیں؟" اور یہ بھی فرمایا کہ قاعدین یعنی جو بیٹھے ہوئے لوگ ہیں وہ مجاہدین کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ساری باتیں قرآن میں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اعمال کے لحاظ سے درجات میں تفاوت ہوتا ہے۔ اور اعمال کی قیمت بھی قرآن میں ہے، جیسے فرمایا: ﴿وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ الَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (العصر، 1-3)۔ لہذا حدیث شریف کی interpretation (تشریح) قرآن کے مطابق ہی کی جائے گی۔ یہ باتیں ساری اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ اس حدیث شریف کو بنیاد بنا کر بعض لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف باتیں کرتے ہیں، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ عمل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی بھی حدیث شریف کو قرآن پاک کے خلاف نہیں لا سکتے اور قرآن پاک کی وہی تشریح مقبول ہے جو احادیث شریفہ کے مطابق ہو، یہ دونوں آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ کیسے لوگ درمیان میں لائن کھینچ دیتے ہیں کہ یہ میں مانوں گا اور یہ نہیں مانوں گا۔ یہ تو تمہارے نفس کی بات ہو جائے گی اور نفس کی بات نہیں چلتی گی۔ لہذا ہمیں surrender کرنا پڑے گا اور اسلام اسی surrender کا نام ہے۔ اسلام کا مطلب ہے Unconditional surrender before Allah۔ مجھ سے ایک خاتون کہنے لگی مجھے اللہ پاک کے ساتھ بہت محبت محسوس ہو رہی ہے، رونا آتا ہے، یہ ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اللہ پاک کے احکامات پر عمل کریں۔ اللہ پاک کے احکامات پر عمل ہی محبت ہے۔ اس پر وہ کہنے لگی کہ اس کی تو میں کوشش کرتی ہوں۔ میں نے کہا بات یہ ہے کہ اعمال آپ کے ایمان کی اور آپ کی محبت کی گواہی دیتے ہیں۔ اگر آپ کا عمل اس کے خلاف ہے تو پھر آپ صرف باتیں کر رہی ہیں، اور اس میں باتیں نہیں چلتیں۔ کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ کو کسی کے ساتھ محبت ہو اور اس کی مرضی کے خلاف کام کرو؟ نہیں ہو سکتا۔ تو جب انسان کے ساتھ ایسے نہیں کر سکتے ہو تو خدا کے ساتھ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کیسے کر سکتے ہو۔ بہت سارے لوگ حضور ﷺ کی محبت کے دم بھرتے ہیں، لیکن عمل کچھ بھی نہیں کرتے۔ تمام بدعات اور ساری وہ چیزیں کرتے ہیں جن کو مٹانے کے لئے حضور ﷺ تشریف لائے تھے۔ تو کیا صرف محبت کے دعوے سے وہ بچ جائیں گے۔ ہر گز نہیں۔ محبت کا ثبوت دینا پڑتا ہے، جیسے ہر چیز کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ مثلا باہر اندھیرا ہو، رات ہو اور ایک آدمی اندر تقریر کر رہا ہے اور زور سے یہ بات ثابت کرنا چاہتا ہے کہ باہر دن ہے اور سورج چمک رہا ہے تو لوگ باہر دیکھ کر کہہ دیں گے کہ بھائی رات ہے تمہارا دعویٰ درست نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں حق بات کرنی چاہیے اور محبت کے دعوے کو عمل سے ثابت کرنا چاہیے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن