اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
ایک مجلس میں آپ نے فرمایا تھا کہ آپ ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کی اتباع کو حاصل کرنے کیلئے سب سے آسان طریقہ شیخ کی صحبت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی سالک عرصہ دراز تک اپنے شیخ کی صحبت میں رہے، لیکن پھر بھی اس کو آپ ﷺ سے محبت پیدا نہ ہو اور نہ ہی اس کی زندگی سنت کے مطابق ہو تو اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ اور ان وجوہات کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے؟
جواب:
properties سائنس کا ایک بہت اہم شعبہ ہے۔ جیسے Thermal coefficient ہر جنس کی اپنی اپنی ہوتی ہے، مثلاً لوہے کی اپنی ہے، تانبے کی اپنی ہے اس کے علاوہ اور رول گول وغیرہ جو ہوتے ہیں ان کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ اب اگر یہ مختلف چیزیں (لوہا، تانبا وغیرہ) ایک ہی حرارت دینے والی چیز مثلا سورج کے سامنے رکھ دی جائیں چونکہ سورج کی روشنی سب پر برابر پڑ رہی ہے لیکن اس کے با وجود ایک چیز زیادہ گرم ہو جائے گی ایک کم گرم ہو گی، ایک کافی دیر تک ٹھنڈی رہے گی۔ جیسے حرم شریف میں فرش پر جو پتھر لگا ہوا ہے وہ بہت قیمتی پتھر ہے، اس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ٹھنڈا رہتا ہے۔ ہمیں یاد ہے پہلے جب یہ پتھر نہیں تھا، عام پتھر لگا ہوتا تھا تو اس پہ چلنا مشکل ہوتا تھا، ابھی بھی بعض سیڑھیوں پر وہی پتھر ہے تو ان سیڑھیوں پہ گرمی میں پیر جلتے ہیں، لیکن طواف والی جگہ پر آرام سے انسان چل رہا ہوتا ہے، کسی کو پتا بھی نہیں چل رہا ہوتا کہ میں اتنی گرمی میں چل رہا ہوں۔ اوپر گرمی ہوتی ہے، لیکن نیچے پیروں کو پتا نہیں چلتا۔ اوپر مسجد حرام کی چھت پر بھی اب یہ material لگایا گیا ہے، پہلے دوسرا تھا تو وہاں پر یہ مسئلہ ہوتا تھا۔ ابھی بھی کچھ پٹیاں ایسی ہیں جہاں پر پرانا پتھر ہے، وہاں اب بھی ایسے ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ہر چیز کی اپنی اخذ کی قوت ہوتی ہے۔ یعنی کچھ لوگ جلدی اخذ کرتے ہیں اور کچھ لوگ دیر سے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں فرماتے، انہی چیزوں میں دیکھ لیں جو دیر سے گرم ہوتی ہیں ٹھنڈی بھی دیر سے ہوتی ہیں، جیسے پانی دیر سے گرم ہوتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے اور لوہا بہت جلدی گرم ہوتا ہے اور بہت جلدی ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر بعض لوگوں کی خاصیت ایسی ہے کہ وہ جلدی اخذ کر لیتے ہیں اور جلدی ہی سارا کچھ چھوڑ دیتے ہیں تو یہ ان کا امتحان ہے۔ اور جو دوسرے حضرات ہیں کہ بہت آہستہ آہستہ لے رہے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ چھوڑ رہے ہیں تو ان کا بھی امتحان ہے۔ ان دونوں کا اپنا اپنا امتحان ہے۔ جلدی والے کا امتحان یہ ہے کہ اس کو دھوکا لگ سکتا ہے کہ میں ٹھیک ہو گیا ہوں حالانکہ وہ ٹھیک نہیں ہوا۔ وہ جیسے جیسے دور جائے گا تو پھر وہیں کا وہیں رہ جائے گا۔ جو دیر سے لیتا ہے تو وہ جب لیتا ہے تو پھر کافی عرصہ تک اس پہ اثر ہوتا ہے۔ یہی بات ہے کہ بعض لوگ جلدی convince ہو جاتے ہیں اور جلدی confusion میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور بعض دوسرے لوگ ہوتے ہیں وہ آسانی سے convince نہیں ہوتے لیکن ایک دفعہ ہو جائیں، تو پھر عمر بھر کے لئے convenes ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں بھی بڑی variation ہے جیسے چیزوں میں بڑی variation ہے۔ ہمیں اپنے حالات کے مطابق اپنے آپ کو بہتر کرنا چاہیے۔ لہذا اگر ایسا کوئی شخص ہے جو کافی عرصہ کی صحبت کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوتا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو ضرورت زیادہ ہے، اور صحبتِ لَا یَعنِی سے زیادہ پرہیز کرے، جس کو ہم صحبتِ نا جنس کہتے ہیں، جس سے موجودہ چیز بھی ضائع ہوتی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ اپنے lifestyle پر غور کرے، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کچھ چیزوں کی وجہ سے اس کی یہ چیزیں ضائع ہو رہی ہوں۔ بعض دفعہ نا شکری ہوتی ہے، بعض دفعہ کوئی اور internal سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان ایک چیز کو lose کرتا ہے۔ جیسے قرآن پاک میں اللہ پاک نے آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو فرمایا کہ ناز نہ کرو، کیونکہ ناز سے سارا کچھ اڑ سکتا ہے۔ اللہ پاک نے ان کے لحاظ سے بڑے سخت الفاظ فرمائے کہ اگر آپ ناز کرتی ہو تو یہ خیال نہ کرو کہ آپ ﷺ کے لئے کوئی مسئلہ ہو گا۔ آپ ﷺ کو آپ لوگوں سے زیادہ اچھی عورتیں دی جائیں گی۔ اب دیکھیں آپ ﷺ سے اونچی صحبت کسی کی ہو سکتی ہے؟ یہ صرف ناز کو دور کرنے کے لئے فرمایا ایسا نہیں ہے کہ ازواج مطہرات کے حالات ایسے خراب تھے، ایسی بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر صحبت کسی کو حاصل بھی ہے، لیکن اگر نا شکری کر لے، ناز کر لے تو بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اور اس سے چیزیں ضائع بھی ہو سکتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ انسان اپنے حالات پر غور کر لے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ جس راستے سے انسان حاصل کر رہا ہے کوئی اور راستہ ہے جس سے drain کر رہا ہے، جس کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے۔ تو میرے خیال میں اگر اللہ پاک سے مانگیں اور صِدقِ دل سے تلاش کر لیں تو ایسی چیزیں کے بارے میں معلوم ہو سکتا ہے جن کی وجہ سے ایک آئی ہوئی چیز اور ایک حاصل شدہ نعمت انسان سے ضائع ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرما دے۔
وَمَا عَلَيْنَا إِلا الْبَلاَغُ